#


For in Christ all the fullness of the Deity lives in bodily form

Colossians 2:9

PERFECT MAN

OR

GOD INCARNATE
The Irrefutable Evidence for Jesus Christ as God Incarnate from the Vantage Points of Certified Islamic Books
By

The Late Rev.Maulavi Sultan Muhammad Khan Paul

---------------------

مستند اسلامی کتب کی رو سے سیدنا عیسیٰ مسیح کے مظہرِ الله ہونے کا لاجواب ثبوت

اِنسانِ کامل یا مظہر خدا

مصنفہ

رئیس المناظرین پادری حاجی مولوی سلطان محمد خان پال

افغان فاضل عربی

1925

www.muhammadanism.org

(Urdu)

Oct.8.2004



#

The Late Rev. Maulavi Sultan Muhammad Khan Paul

Arabic Professor, Forman Christian College Lahore

1881–1965



اِنسانِ کامل یا مظہر

خدا

کیونکہ الوہیت کی ساری معموری اسمیں مجسم ہوکر سکونت کرتی ہے

(کلسیوں ۲: ۹)

M

موجودات کے عمیق درعمیق اورپیچیدہ مسائل پر جس نے بنظر معاون اور تحقیق غور کیا ہے وہ جانتاہے کہ فقط وجود ہی ایک ایسی الم واثمل شے ہے جو کہ موجودات کے ہر بکھرے ہوئے ذرے کو ایک ہی مسلک میں منسلک کرتی ہے خواہ وہ مادی ہو یا مجرد خالق ہو یا مخلوق ۔ سب پر اس کا اطلاق ہوتاہے اورسب کو اپنے زاویہ عاطفت میں جگہ دیتا ہے ۔ کوئی چیز چیز نہیں ہوسکتی۔ جب تک کہ اس کے مائدہ فیض کے فیضاب نہ ہو۔

واجب الممکن

وجود کا اطلاق سب پر ہوتاہے ۔ لیکن سب پر یکساں اور مساو ی طور پر نہیں ہوتا۔ واجب الوجود (خدا )پر بھی یہ شامل ہے۔ اور ممکن الوجود (مخلوق )پر بھی۔ مگر واجب الوجود پر اس کا اطلاق برسبیل اولیت واؤلویت ذاتی اورحقیقی ہوتاہے۔ اورممکن الموجود پر برسبیل عرض ومجاذ ومستعار ہوتاہے۔ پس جو واجب الوجود ہے وہ اپنی ذات صفات اور افعال میں کسی غیر کا محتاج اور دست نگر نہیں۔وہ مبدء فیاض ہے جوسب کو اپنے وجود یا جود سے فیض پہنچاتاہے۔ اور کتم عدم سے حیزوجودمیں لاتاہے جس کو ہم خدا اورباپ کہکر پکارتے ہیں ۔

واسطہ

اورجو ممکن الوجود ہے وہ اپنی ذات وصفات میں وجود اور عدم میں واجب الوجود یعنی خدا کا محتاج اور متفتر ہے جس کو ہم حادث مخلوق ، فانی وغيرہ ناموں سے نامزد کرتے ہیں ۔ پس موجودات کی دو جانب ہیں یعنی اعلیٰ یاواجب اوراصفل یا حادث جونہ تو جمع ہوسکتے ہیں اور نہ مرتفع ہوسکتے ہیں۔ جیساکہ شان متضاوین سے ظاہر ہے۔ اس عمیق اورناپیداکنار غار کے بھرنے کے لئے جو واجب اورممکن کے درمیان واقع ہے ۔ ایک ایسے واسطہ اور درمیانی یعنی برزخ کی ضرورت ہے۔ جسمیں دونوں باتیں ہوں تاکہ واجب اورممکن میں ربط پیدا کرے۔ ورنہ کہنے والاکہہ سکتا ہے کہ موجودات کی لڑی میں کوئی ترتیب اور قاعدہ ونظام نہیں ہے۔

واسطہ مابین الواجب وممکن کی نسبت عقائد

اس مسئلہ کی نسبت کہ آیا واجب اورممکن واسطہ کی ضرورت ہے یا نہیں؟ تین فریق ہیں۔ اورہر ایک کے جداخیالات ہیں:

۱ -اول ہمہ واستی یا وحدة الوجود کے معتقدین کے نزدیک واسطہ فیما بین الواجب وممکن کی مطلق ضرورت نہیں۔ کیونکہ ان کے نزدیک دوئی ہے ہی نہیں۔ جب دوئی نہیں تو واسطہ نہیں کیونکہ واسطہ تو دو چیزوں کے درمیان ہوتاہے ۔ ان کا تو ترانہ ہے کہ

خود کوزہ وخود کوزہ گروخود گل کوزہ۔ خودرند صبوح کش

خود بسرآن کوزہ خریدار برآمد۔ بشکست ورواں شد

۲۔ دوم وہ لوگ جو واسطہ تو مانتے ہیں ۔ لیکن ان کا ماننا نہ ماننے کے برابر ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ عالم مظاہر ذات وصفات ِالہیٰ ہے۔ عالم ہمہ مرات ِجمال ازلیست۔جو تعلق اور واسطہ ظاہر کو مظہر کےساتھ ہے وہی واسطہ واجب اور ممکن میں بھی ہے ۔ اوراس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ ذات ِ مخلوقات جو کسی صفت مثلاً وجود ، علم ، قدرت وغیرہ کے ساتھ موصوف ہوتی ہے۔ تو اس اتصاف میں ذات وصفات باری (خدا) واسطہ ہے۔ اورمخلوقات اپنی صفات کے ساتھ ذ ی واسطہ ہیں اوراس واسطہ کی تین صورتیں ہیں۔

الف۔واسطہ العروض۔کسی صفت کے ساتھ حقیقتہً وبالذات واسطہ ہی متصف ہو۔ اور ذی واسطہ میں وہ صفت مطلقاً نہ ہو۔ مگر چونکہ واسطہ اور دی واسطہ میں ایک طرح کا تعلق اور تلبس ہے ۔ اس بناپر ذی واسطہ کی طرف بھی اس حقیقت کی نسبت کرسکتے ہیں مثلاً ریل گاڑی کے بیٹھنے والے حقیقت میں متحرک نہیں ہیں۔بلکہ گاڑی متحرک ہے ۔ لیکن ایک خاص قسم کی مناسبت کے لحاظ سے ہم ریل گاڑی کے بیٹھنے والوں کو بھی متحرک کہہ سکتے ہیں۔

ب۔ واسطہ فی الاثبات ۔ کوئی صفت ذی واسطہ میں موجود ہو اور واسطہ میں صلا موجود نہ ہو۔ بلکہ ذی واسطہ کے موصوف کردیتے ہیں۔ سقیر محض ہو۔ مثلاً رنگریز واسطہ ہے۔ لیکن صفت رنگینی ذی واسطہ یعنی کپڑے میں پائی جاتی ہے ۔ اور خودرنگریز میں مطلق یہ صفت موجود نہیں ہوتی ہے۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ وہ خود اپنے آپ کو کُلا یاً جزاً رنگین کردے۔ مطلب یہ ہے۔ کہ جو صفت مستقل طور سے ذی واسطہ یعنی کپڑے میں موجود ہے۔ وہ بعینہ واسطہ یعنی نگریز میں موجود نہیں ہے۔ اور اگر مستقل طور سے ایسی ہی صفت اس میں بھی پائی جائے تو اس کا ثبوت مستقل دلیل سے ہوگا۔ کپڑے کی اس کی مستلزم اور دلیل نہیں ہوسکتی ہے۔

ج۔ واسطہ فی الثبوت ۔ وہ صفت واسطہ اور ذی واسطہ دونوں میں حقیقتہً موجود ہو لیکن واسطہ میں بطور علت اور ذی واسطہ میں بطور معلول ہو۔ مثلاً لکھتے وقت قلم کی حرکت ہاتھ کی حرکت سے پیدا ہوتی ہے۔ پس ہاتھ حرکت میں واسطہ اور قلم ذی واسطہ ہے حرکت دونوں کےساتھ قائم ہے۔ لیکن ہاتھ کی حرکت علت ِ ہے۔ اور قلم کی حرکت معلول۔

وسائط ثلاثہ کی تشریح اور تفصیل سے آپ خود معلوم کرسکتے ہیں ۔ کہ خدا کا واسطہ ہونا عالم کی ذات وصفات میں بمعنی فی العروض وفی الثبو ممکن نہیں۔ اس لئے کہ واسطہ العروض سے لازم آتاہے۔ کہ مخلوقات میں جتنی صفات ہیں۔ حقیقتہً خدا ہی کی صفات ہیں۔ اور مخلوقات کی طرف ان کی نسبت محض مجازی ہے۔ اس کے ماننے میں یہ قباحت ہے۔ کہ مخلوقات میں اکثر صفات ذمیمہ و اوصاف دنیہ ایسی ہیں۔ جن کی نسبت خدا کی ذات کی طرف کرنا سراسر کفر اور گستاخی ہے۔واسطہ فی الثبوت ہونا اس لئے غلط ہے کہ اوّل تو اس میں وہی قباحت پائی جاتی ہے جس کی تردید ابھی ہم کرچکے ہیں اور دوسری خرابی یہ لازم آتی ہے کہ معلول کا تحلف علت سے جومحال ہے ماننا پڑے گا ۔ اس کی توضیح یوں ہے کہ صفات باری قدیم ہیں۔ پس اگر یہ صفات مخلوقات کی صفات کی علت بین تو لازم ہے کہ مخلوقات کی صفات بھی قدیم ہوں۔ اوریہ عقلاً اورنقلاً باطل ہے پس واسطہ فی الاثبات میں کسی قدر گنجائش ہے۔ یعنی باری تعالیٰ اپنی قدرت اور ارادہ سے اپنی مخلوق کو جو صفت چاہتاہے ۔ عطا فرماتاہے ۔ اورخود ان صفات سے مبرہ ومنزہ ہے۔ خدا کی صفات کو مخلوق کی صفات سے بجز مشارکت ِ لفظی اورکوئی مناسبت مشابہت نہیں ہے۔ اس صورت میں واسطہ کے یہ معنی ہوئے کہ جس طرح مصنوع اپنے صانع کے وجود پر اور مکتوب اپنے کاتب کے وجود پر دلالت کرتاہے ۔ بعینہ عالم اپنے خالق کے وجود پر دلالت کرتاہے۔ اس قسم کے واسطہ کو اصلاح میں مظہر ناقص کہتے ہیں ۔ اوریہ مفید مطلب نہیں۔ کیونکہ مطلب تو یہ ہے کہ واجب اورامکان کے درمیان کوئی ایسا واسطہ ہو جو دونوں کو ملائے ۔ نہ یہ کہ خالق کے وجود کو ثابت کرے ۔ کیونکہ ہم تو اس کو مان چکے ہیں۔

۳۔ دم وہ فریق ہے جو واجب اورممکن کےدرمیان کے ایسے واسطہ کے قائل ہیں۔ جس میں وجوب اور امکان دونوں صفتیں موجود ہوں تاکہ واجب اور ممکن میں ربط پیدا کرسکے ۔ اس واسطہ کو وہ اپنی اصطلاح میں انسان کا مل، برزخ کبریٰ، اور مظہر جامع اور اتم کہتے ہیں چنانچہ مولانا جای علیہ الرحمتہ خصوص الحکم کی شرح میں یوں لکھتے ہیں کہ :

ان شیخ الکبیر رضی الله تعالی عنہ اور رحی کتاب الفکوک ان الانسان الکامل الحقیقی ھوبرزخ بین الرجوب ولا مکان والمراة الجا معتہ بین صفات القدمہ واحکامہ وبین صفات الحدثان وھو واسطة بین الحق والحق وبہ ومن مراتہ ایصل فنیض الحق والمددالذی ھو سبب لقاء ماسری الحق الی العالمہ کلہ علو اور سفلاً والالہ من حیت برفیتہً التی یتقا ائراطرین لمہ یقبل شئی من العالم المدرا العی الرحدنی العدم المناسبة الارتباط ولمہ یصلی الیہ انتہی کلامہ۔

ترجمہ " پس جانو کہ شیخ الکبیر " اکتاب الفلوک" میں لکھتے ہیں کہ حقیقی انسان کامل وہ ہے جو وجوب اورامکان میں برزخ ہو۔ اور صفات قدیمہ اور حادثہ کا آئینہ ہو۔ یہی حق اور خلق کے درمیان واسطہ ہے۔ اسی لئے اوراسی کے آئینہ سے خدا کا فیض تمام مخلوقات کو علوی یا سفلی ہو پہنچتا ہے۔ اوریہی بجز ذات حق کے تمام مخلوقات کی بقا کا سبب ہے۔ اگر یہ برزخ جو وجوب اورامکان کا مغائر نہیں ہے نہ ہوتا۔ تو دنیا کو خدا کی مدد حاصل نہ ہوتی۔یہ سبب نہ ہونے مناسبت اور ارتباط کے (یہاں تک شیخ الکبیر کا کلام ختم ہوا )۔

مزید توضیح کے لئے ہم ایک اور مستند فلاسفر اور صوفی عبدالکریم جیلانی کی مشہور آفاق کتاب الانسان الکامل کے حصہ ودیم سے جس کا اردوترجمہ مولوی ظہیر احمد سہوانی نے کیا ہے ایک اقتباس نقل کرتے ہیں۔ وہ یہ ہے ۔

پھر جاننا چاہیے کہ انسان کامل وہ ہے جوکہ اسماء ذاتیہ اور صفات الہیہٰ کا اصلی اورملک کے طور پر متقضاء ذاتی کے حکم سے مستحق ہو۔ کیونکہ وہ ان عبارات کے ساتھ اپنی حقیقت سے تعبیر کیا گیا ہے۔اور ان اشارات کے ساتھ اپنے لطیفہ کی اشارہ کیا گیاہے اس کے وجود میں سوائے انسان کامل کے کوئی مستند نہیں ۔ پس اس کی مثال حق کے لئے ایسی ہے جیسے ایک آئینہ کہ اس میں کوئی شخص اپنی صورت بغیر اس آئینہ کے نہیں دیکھ سکتا ہے ۔ ورنہ بغیر الله کے اسم کے اپنے نفس کی صورت دیکھنا اس کو غیر ممکن ہے ۔ پس وہ اس کا آئینہ ہے اور انسان کامل بھی حق کا آئینہ (مظہر) ہے۔ کیونکہ حق سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے نفس پر یہ امر واجب کرلیا ہے۔ کہ اپنے اسماء وصفات کو بغیر انسان کامل کے نہیں دکھاتا ہے"(حصہ دوم صفحہ ۱۰۵۔ ۱۰۶)۔

یہ سچ اوربالکل سچ ہے کہ موالید ثلثہ میں بجز نوع انسان کے اورکسی میں مظہر جامع ہونے کی قابلیت اور استعداد نہیں پائی جاتی اورخود انسان کے افراد میں ہر ایک فرد جیساکہ بعض اورجاہل سمجھتے ہیں اس کامستحق ہوسکتا ہے۔ بلکہ صرف وہی اسکے قابل ہوسکتا ہے جو کہ بنی نوع انسان میں کامل اور اکمل ہو۔ مثلاً آفتاب کی روشنی جتنی چیزیں اس کے مقابل اور روبرو ہوتی ہیں ۔ ان سب پر چمکتی ہے۔ اورہر ایک بقدر استعداد اور لطافت اس روشنی کو منعکس یعنی ظاہر کرتی ہے لیکن جس چمک دمک اور کمالیت کےساتھ جرم شفاف مثلاً آئینہ اس کو منعکس اورظاہر کرتا ہے۔ کوئی دوسری چیز اس طرح ظاہر نہیں کرسکتی ہے۔ پس آفتاب کی روشنی کا مظہر یا آئینہ جرم شفاف ہے۔ بعینہ اسی قانون کے موافق اگرچہ ہرفردانسان میں اعلیٰ قدر مراتب استعداد کسی نہ کسی صفت الہیہٰ کی دھندلی جھلک پائی جاتی ہے لیکن سب اس کے مظہر نہیں ہوسکتے ہیں۔ بلکہ فقط وہی جو کہ کامل اور اکمل ہونیکے باوجود صرف انسان ہی نہ ہو۔ بلکہ واجب اورممکن کا برزخ کبریٰ بھی ہو۔ جیساکہ اوپر کے اقوال سے جو مسلمان اور مستند عالم وصوفی کے ہیں۔ ہم ثابت کرآئے ہیں۔

مسئلہ برزخیت ایک ایسا صحیح اور یقینی مسئلہ ہے جس سے کوئی عقلمند شخص انکار نہیں کرسکتا ہے۔ زمانہ حاضر کے نیچرل سائنسدان عالموں نے صحیح تجربات اور مشاہدات کی بناپر نہ صرف اس مسئلہ کو درست تسلیم کیا ہے۔ بلکہ موجودات کے ہر طبقے کو دوسرے طبقہ کے ساتھ ربط دینے کے لئے لابدی مان کر ثابت بھی کیا ہے ۔ مثلاً :

طبقہ جمادات ونباتات کا برزخ مونگا یعنی مرحبان ہے۔ اس لئے کہ مرجان میں دونوں طبقوں کی صفات پائی جاتی ہیں۔ یعنی و ہ جمادی بھی ہے اور نباتی بھی۔

طبقہ نباتات وحیوانات کا برزخ ایک قسم کا پودا ہے۔ جس کا نام انگریزی زبان میں سنڈیو(Sundew ) ہے۔ اس میں نباتاتی اور حیواناتی صفات ہو بہو موجود ہیں ۔ بظاہر یہ ایک خوشنما چمکیلا پودا ہے۔ لیکن یہ کيڑے مکوڑوں کو اس خوبصورتی کے ساتھ شکار کرکے ہضم کرتا ہے۔ جس کو یہ دیکھ کر عقل حیران رہ جاتی ہے۔

حیوان مطلق اور حیوان ناالحق (انسا)کا برزخ جد بندرہے جس میں دونوں صفات موجود ہیں۔ پس جبکہ موجودات کے ہر طبقہ کے سلسلے کا ملانے والا موجود ہے۔ تو کیا طبقہ ناسوت اور لاہوت کا برزخ نہ ہوگا ضرور ہے ۔ جیسا کہ ابھی ہم بخوبی ثابت کرچکے ہیں۔

ایڈیٹر اشاعت اسلام اور

برزخ اور کبریٰ

اب اس کا فیصلہ کرنا باقی ہے ۔ کہ یہ انسان کامل برزخ کبریٰ اور مظہر جامع کون ہے ایڈیٹر اشاعت اسلام لاہور ۔ اشاعت اسلام بابت ماہ اگست ۱۹۱۹ء کے پرچہ کے نسخہ ۳۴۴ کی آخری سطر میں لکھتے ہیں کہ حضرت محمد جو برزخ کامل ہستی جامع اور عالم کون کی آخری معراج ہے"۔

ناظرین کویہ یقین کرلینا چاہیے کہ ایڈیٹر صاحب نہ تو برزخ کامل ، ہستی جامع " کی تعریف سے واقف ہیں۔ اورنہ اس فلسفیانہ بحث کے آشنا ہیں۔ کسی مولودخوان واعظ کے منہ سے سن کر یہاں لکھ دیا۔ ہاں یہ بہت ہی ممکن اور قرینِ قیاس ہے کہ ہمارے اس مضمون کو پڑھ کر ان کی آنکھیں کھل جائیں۔

بہر حال ہم ایڈیٹر صاحب کو یہ بتلاتے ہیں کہ ہم بحوالہ شرح خصوصی الحکم جامی اورالانسان الکامل کے یہ ثابت کرچکے ہیں۔کہ برزخ کبریٰ اورانسان کامل اور مظہر جامع ۔ صرف وہی شخص ہوسکتاہے جو کہ کامل خدا اور کامل انسان ہو۔ صفات قدیمہ الہیہٰ اور صفات ممکنہ انسانیہ کے ساتھ متصف ہوچنانچہ شيخ الکبیر نے صاف لکھاہے کہ " ھو البرزخ بین الوجوب والامکان" جس کا حوالہ ہم دے چکے ہیں۔اور عبدالکریم جیلانی نے تو صاف صاف لکھاہے کہ " اسماء ذاتیہ اور صفات الہیہٰ کا اصلی اورملک کے طور پرمقتضاء ذاتی کے حکم سے مستحق ہو"۔

اب ہم ایڈیٹر صاحب اوران حضرات سے جو آنحضرت کو انسان کامل کی صورت میں پیش کرتے ہیں اور پوچھتے ہیں ہیں کہ کیا آنحضرت میں آپ الوہیت ثابت کرسکتے ہیں ؟ آنحضرت نے تو کھلے الفاظ میں فرمایا ہے کہ أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ یعنی میں تمہاری طرح انسان ہوں"(سورہ الکہف آیت ۱۱۰)۔ پس جو شخص ہماری طرح انسان ہے۔ وہ کسی صورت میں بھی برزخ نہیں ہوسکتاہے۔

ہم حددائی اور ايڈیٹر صاحب کے اس زعم باطل کی پردہ دزی کے لئے ایک فیصلہ کن معیار پیش کرتے ہیں ۔ جس پر رکھ کر ہم کامل او رناقص کھرے اور کھوٹے میں فی الفور اور امتیاز اور دودھ کا دودھ اورپانی کا پانی کرسکتے ہیں۔ اور لطف تو یہ ہے کہ وہ معیار بھی ہمارا نہیں بلکہ مسلمانوں ہی کا ہے۔ اور ساتھ ہی ہم قدوائی صاحب اور ايڈیٹر صاحب کو چیلنج دیتے ہیں ۔ کہ وہ اس معیار کے مطابق آنحضرت کو ازروئے قرآن شریف میں انسان کامل برزخ کبریٰ اور مظہر جامع ثابت کریں۔ " وہ معیار یہ ہے جیسا کہ علامئہ جامی شرح فضوص الحکم میں لکھتے ہیں ۔

" فان لہ ثلث نشاة نشاة الروھیہ نشاة عنصریة ونشاة مرائیتہ یعنی انسان کامل میں تین نشاتین ہیں۔ اوّل نشاة روحانی ۔ دوم نشاة عنصری ، سوم نشاة مراتی۔

کیا ایڈیٹر صاحب یا قددانی صاحب یا کوئی اور صاحب یہ ثابت کرسکتے ہیں۔ کہ آنحضرت نے ان میں سے بجز نشاة عنصری کے کسی اور نشاة کا بھی دعویٰ کیا ہے؟ نہیں اور مطلق نہیں۔

پس ہم نہیں سمجھ سکتے ہیں۔ کہ کس طرح یہ دعویٰ کیا جاتاہے کہ حضرت محمد " برزخ جامع اور ہستی کامل یا انسان کامل " ہیں۔

برعکس اس کے ہم ڈنکے کی چوٹ پر اور للکار کر یہ کہتے اور یہ ثابت کرتے ہیں کہ صرف ربنا المسیح۔ انسان کامل ۔ برزخ کبریٰ اور مظہر جامع ہیں۔ اوربس ۔

انسان کامل میں وجوب امکان کا ہونا ضروری ہے

ہم حتمی اور قطعی دلائل سے یہ ثابت کرچکے ہیں کہ واحب اورممکن کے درمیان جو واسطہ ہے۔ اسی واسطہ کو انسان کامل کہتےہیں۔ اور انسان کامل میں وجوب اور امکان کا ہونا لازمی امر ہے۔ یعنی انسان بھی ہو اور خدا بھی۔ اور جو خدا بھی ہے اور انسان بھی۔ وہی برزخ کبریٰ اور مظہر ِجامع ہے۔ یہ سب باتیں ربنا المسیح میں انسب اور اکمل طورپر موجود ہیں یہ صرف ہمارا دعویٰ ہی دعویٰ نہیں ہے۔ بلکہ انجیل مقدس کی حقیقی بنیاد اور مقصد اعلیٰ ہے پس سنئيے۔

۱۔میں اورباپ ایک ہیں "(یوحنا ۱۰: ۳۰)۔

۲۔ " میرا یقین کرو کہ میں باپ میں ہوں اور باپ مجھ میں ہے"(یوحنا ۱۴: ۱۱)۔

۳۔ " ابتدا میں کلام تھا اورکلام خدا کے ساتھ تھا ۔ اورکلام خدا تھا (یوحنا ۱: ۱)۔

۴۔وہ خدا کی اندیکھی صورت اور تمام مخلوقات سے پہلے مولود ہے"(کلسیوں ۱: ۱۵)۔

۵۔ کیونکہ الوہیت کی ساری معموری اس میں مجسم ہوکر سکونت کرتی ہے(کلسیوں ۲: ۹)۔

کیا ايڈیٹر صاحب بھی قرآن شریف سے کم ازکم ایک آیت اس قسم کی آنحضرت کی بابت پیش کرسکتے ہیں ۔ جس سے ان کی برزخیت اور مظہریت یا کاملیت ثابت ہو؟؟؟

اب آئیے کہ ہم اس کا بھی فیصلہ کریں۔ کہ سیدنا مسیح نے ان نشانات ثلثے کا جن کا ذکر ابھی ہم نے بطور معیار کے کیا ہے۔ دعویٰ کیا ہے یا نہیں ؟ کیا ہے۔ اورکھلے الفاظ میں کیا ہے۔ چنانچہ ہم نمبردار ہر ایک نشاة کےمقابل میں ربنا المسیح کا دعویٰ لکھتے ہیں سنئے :

۱۔ نشاة روحیہ "راہ، حق اور زندگی میں ہوں "(یوحنا ۱۴: ۶)۔

قرآن شریف نے بھی ربنا المسیح کی نشاة روحیہ کا اقرار کیا ہے " وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَىٰ مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِّنْهُ "۔

۲۔ نشاة عنصر یہ " لوگ ابن آدم کوکیا کہتے ہیں"(یوحنا ۱۴: ۶)۔

۳۔ نشاة مرایتہً جس نے مجھے دیکھا ۔اس نے باپ کو دیکھا "(یوحنا ۱۴: ۹)۔

یعنی ربنا المسیح خدا کا آئینہ اور مظہر ہیں جس طرح کہ آئینہ میں کسی کی صورت ظاہر ہوتی ہے اسی طرح مسیح میں خدا ظاہر ہوتاہے۔ جس طرح کے مثال ذی مثال کی مظہر وموجوب وضوح ہوتی ہے۔ بعینہ مظہرذی مظہر کے کمالات وصفات کا آئینہ اورموجب وضوح ہوتاہے۔ جس کے دیکھنے سے خدا معہ اپنی صفات جمالی وجلالی وتمام محاسن کے دکھائی دیتاہے جس کی تجلی اور دیدار سے تمام شکو ک وشہبات کے خش وخاشاک بھسم ہوکر انسان حق اور یقین کے درجہ تک پہنچ جاتاہے۔

یہ ہے مظہر جامع کی تعریف جس سے ایڈیٹر صاحب محض ناواقف معلوم ہوتے ہیں ۔

پس ربنا المسیح کی مظہریت، برزخیت اورکاملیت سے انکار کرنا خدا کے وجود سے انکار کرنے کے برابر ہے۔ کیونکہ خدا کا وجود بغير مظہر جامع کے کماحقہ ثابت نہیں ہوسکتا ہے۔ اورمظہر جامع اور برزخ کبر ملی۔ بجز ربنا المسیح کے او رکوئی نہیں ہوسکتا ۔ لہذا مسیح کا انکار کرنا خدا کا انکار کرنا ہے۔

ممکن ہے کہ کوئی بے خبر شخص جواس فن شریف سے محض ناواقف ہو یا کوئی لاابالی قادیانی یا کوئی اوران کا بھائی ہمارے اس دعویٰ پر کہ خدا کا وجود بغير مظہر جامع کے کماحقہ ثابت نہیں ہوسکتاہے۔ اعتراض کرے۔ اس لئے ہم بطور دخل مقدراسکے دلائل بھی ہدیہ ناظرین کرتے ہیں۔

مجھ کو یقین ہے کہ دنیا میں کوئی بھی ایسا شخص نہ ہوگا۔ جس نے آنکھ رکھتے ہوئے روشنی نہ دیکھی ہو یا کان رکھتے ہوئے آواز نہ سنی ہو یاناک رکھتے ہوئے بوُ نہ سونگھی ہو۔

روشنی کیا ہے؟ ایتھر یعنی ایثر کے تموج اور جنبش کا نام ہے ۔ اگر ایتھر کے لطیف ذرات ہمارے درمیان حائل نہ ہوں۔ تو روشنی کوئی چیز نہ ہوگی ۔ پس روشنی کےوجود کا انحصار ایتھر پر ہے چونکہ ایتھر ہی اس کا مظہر ہے اس لئے اس کی ہستی سے و ہ ہست اور اس کی نیستی سے وہ ہیست ہوئی ۔

اسی طرح اگر ہوا ہمارے درمیان موجود نہ ہو تو آواز اوربوُ بھی موجود نہ ہوگی۔ کیونکہ ان کا مظہر ہو ا ہے۔ پس اس کی ہستی سے وہ ہست اور اس کے فقدان سے وہ مفقود ہوگی ۔

مظہر خدا پر قرآن کی شہادت

پس اگر ہم فطرت کے اس قانون سے یہ نتیجہ نکالیں کہ خدا کا وجود بھی بغیر مظہر کے ثابت نہیں ہوسکتا ہے۔ تو ہم حق بجانب ہونگے۔ اورہمارا یہ نتیجہ بالکل صحیح اور درست ہوگا اوربالفرض محال اگر ثابت بھی ہوجائے ۔ تو اس صورت میں خدا کا وجود اس بتی کی طرح ہوگا۔ جس پر کوئی شیشے کا خول نہ ہو اور چراغ سحری کی طرح ٹمٹمائی ہو۔ قرآن شریف نے خدا کے لئے مظہر کی ضرورت کو ایک ایسی بے مثل مثال سے ثابت کیا ہے ۔ جس کو ہم یہاں نقل کئے بغیر رہ نہیں سکتے ہیں وہ یہ ہے۔

اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِن شَجَرَةٍ مُّبَارَكَةٍ زَيْتُونِةٍ لَّا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ نُّورٌ عَلَى نُورٍ يَهْدِي اللَّهُ لِنُورِهِ مَن يَشَاء وَيَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ۔

ترجمہ:" الله زمین وآسمان کا نور ہے۔ مثل نور اس کے جیسی ایک طاق جس میں چراغ ہو او ر چراغ شیشہ میں دھرا ہو۔ اور شیشہ چمکتا ہوا تارے کی طرح ہو مبارک زیتون کا تیل اس میں جلتا ہو۔ جو نہ شرقی اور نہ غربی۔ قریب سے اسکا تیل بغیر آگ کے سلگ اٹھے۔ نورپر نور۔ الله جس کو چاہتا ہے اپنے نور کی طرف ہدایت کرتاہے ۔ خدا لوگوں کے سامنے مثال پیش کرتاہے۔ اور سب کچھ جانتا ہے۔(سورة نور آیت ۳۵)۔

آپ اپنے گھر میں بیٹھے بیٹھے اس کا تجربہ کرسکتے ہیں۔جس وقت آپ اپنے لیمپ کو روشن کریں۔ اس پر چمنی نہ رکھے تب تک آپ دیکھینگے کہ روشنی کیسی دھیمی اور برُی طرح سے جلتی ہے۔ لیکن جس وقت آپ اس پر چمنی رکھینگے "۔ تو فی فی الفور روشنی دس گنی سے بھی زیادہ تیز اور باقاعدہ ہوجائیگی۔ یہی تعلق ہے خدا کو خدا کے مظہر کے ساتھ۔ مظہر جس قدر کامل جامع اورپاک صاف ہوگا۔ خدااسی قدر آب وتاب کے ساتھ ظاہر ہوگا۔

قرآن شریف کی آیت مذکور میں نور خدا کی ذات سے مراد ہے۔ اورز جاجہ یعنی شیشہ کے خول سے اس کا مظہر مراد ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے ۔ کہ خدا کو آنحضرت نے کس صورت پر ظاہر کیا اور ربنا المسیح نے کس صورت میں؟

قطع نظر اس تاريخی حقیقت سے کہ آنحضرت نے الہیات کی نسبت جو کچھ بھی سیکھا ۔ وہ یہودیوں اور عیسايئوں کے مدرسہ میں بیٹھ کرسیکھا۔ توبھی آنحضرت نے خدا کو جس صورت میں ہمارے سامنے پیش کیاہے۔ اگرہم اس کا حلیہ بیان کرنا چاہیں تو ان الفاظ میں بیان کرسکتے ہیں :

اہل اسلام کا خدا

خدا واحد مطلق ہے جس کا وجود ازروئے عقل محال ہے ۔ وہ عرش معلیٰ کے تخت پر جلوس فرماہے۔ جہاں سے فرمان نافذ کرتاہے ۔ اور اپنے اومرا اور نواہی کو بزور شمشیر منواتاہے۔ وہ قہار ہے ۔ جس کے قہر وغضب سے اس کی رحمت اور شفقت کو سوں دوربھاگتی ہیں۔ وہ انتقام لینے میں اس قدر سخت اور سنگین ہے۔ کہ اس نے کل انسانوں کو بغیر کسی استشنا کے ایک بار جہنم میں داخل کرنے کو اپنی ذات پر فرض ٹھہرایا ہے۔ خود اسی نے دنیا کے ادیان میں ارادةً اختلاف ڈال دیا ہے۔ تاکہ سب کو جہنم کا ایندھن بنائے ۔ وہ اپنے بندوں کی روحانی ہلاکت مصائب وتکالیف سے اگرچہ خوش نہیں ہوتا تاہم اس کی پرواہ بھی نہیں کرتاہے۔ خود اس کو انسان سےکسی قسم کی ہمدردی نہیں۔ اس کو اپنے قانون اور سخن کا پاس اور لحاظ نہیں۔ جب چاہتا ہے ۔ منسوخ کرتاہے۔ یا بھلا دیتا ہے ۔ پھر اس کے برابر یااس سے بڑھ کر اور قانون اجرا کرتاہے۔ اس طرح گاہے ترمیم کرتاہے۔ اورگاہے تبدیل ۔

مسیحیوں کا خدا

اس کے بالمقابل ربنا المسیح نے خدا کو جس صورت میں ہم پر ظاہر کیاہے۔ اس کا خاکہ یہ ہے:

خدا واحد ومطلق نہیں جس کا وجود ازروئے عقل ثابت نہ ہوسکے بلکہ اس میں تین اقانیم ہیں۔ جوباپ بیٹے اور روح القدس کے ناموں سے پکارے جاتے ہیں۔ لیکن تین خدا نہیں۔ بلکہ ایک ہی خدا ہے۔ وہ صاحب اقتدار اوربڑی طاقت والا ہے۔ وہ بالکل مقدس مبارک ، عادل، اوررحم الراحمین ہے۔ وہ بدترین انسان کا رہبر مددگار ہے۔ محافظ اور مربی ہے۔ اس بزرگ اور برتر قادر مطلق خدا کو انسان کےساتھ پوری اور یقینی ہمدردی ہے۔ وہ ہر گز یہ نہیں چاہتاہے کہ کسی انسان کی روح ہلاک ہو۔ بلکہ یہ چاہتاہے کہ سب کے سب ایمان لاکر حیات ابدی وسرورسرمدی میں داخل ہوں خدا کا مل محبت ہے وہ گنہگار سے گنہگارانسان کو جس کا نامہ اعمال بالکل سیاہ ہوچکا ہے پیار کرتاہے۔ وہ انسان کے ساتھ باپ اوربیٹے کا رشتہ قائم کرتاہے۔ وہ انسان کو اس کے روحانی رنج والم ، مصیبت وتکلیف میں نہ صرف تسلی واطمینان دیتاہے۔ بلکہ خود حصہ لے کر انسان کے اندر ایک نئی زندگی کی روح پھونکتاہے۔ وہ انسانی لباس میں آکر ہمارے ساتھ رشتہ اتحاد قائم کرتاہے۔ وہ عالم بالا سے انسان کے پاس بطور یارومددگار کے آتاہے۔ اورانسان کو شرف اور عزت عطا کرکے عالم بالا تک پہنچاتاہے۔ وہ گنہگار پر ناراض تو ہوتاہے لیکن اس کا غصہ اس کی شفقت اور رحمت کو ٹھنڈا نہیں کرسکتا ہے۔ وہ ہر جگہ حاضر وناضر ہے۔ زمین آسمان اورکل کائنات اس کا تخت ہے۔ وہ ہماری ساری حاجتوں کو پورا کرتاہے۔ وہ ان کو جو غم ورنج اوردکھ اور درد کے بھاری بوجھ سے دبے ہوئے ہیں۔ اپنے پاس بلاتاہے ۔ وہ کھوئے ہوؤں کو ڈھونڈتا ہے ۔ وہ مسیح کی صورت میں ہمارے پاس آکر بیماروں، لنگڑوں، لولوں، کوڑھیوں اوراندھوں کو شفا دیتاہے ۔ مردوں کو زندہ کرتاہے بھوکوں کو کھانا کھلاتاہے ۔

اس کے قانون اٹل ہیں۔ اس کے قانون کا ایک لفظ اورایک شوشہ بھی نہیں بدل سکتا ۔ وہ انسان کو روحانی آزادی دے کر اس کے قویٰ کو ظاہر اورمنکشف کرتاہے۔ وہ اپنے فرزندوں کوآسمان کی بادشاہت میں داخل کرتاہے۔ جہاں روحانی سرور اور شادمانی حاصل ہوتی ہے ۔

اس کی وجہ ہم ایک مثال کے ذریعہ سےبتلاتے ہیں وہ یہ ہے کہ :

ایک شاہزادہ تھا جو اپنا باز ہاتھ پر بٹھا کر شکار کو روانہ ہوا۔ باز شہزادے کے ہاتھ سے اڑ کر ایک بڑھیا عورت کی دیوار پر جا بیٹھا۔ بڑھیا گھر میں گوشت صاف کررہی تھی باز گوشت کو دیکھ کر بڑھیا کے پاس جاکر بیٹھ گیا۔بڑھیا نے باز کو پکڑ کر اس کے پاؤں میں جو خوبصورت ارتشیمی قیطان میں سونے کے چھوٹے چھوٹے گھنگرولٹکے ہوئے تھے قینچی سے کاٹ کر کہنے لگی ۔ کہ افسوس ! تو کس بے رحم شخص کے ہاتھ میں پڑا تھا۔ جس نے تجھ کو بیڑیاں پہنا کر قید میں رکھا تھا۔اس کے لمبے لمبے ناخون کو دیکھ کر آہ بھرکے کہنے لگی۔ کہ تو کس ظالم کے پالے پڑا تھا کہ جس نے تیرے ناخن تک نہیں کاٹے۔یہ کہکر اس کے ناخنوں کو بھی اس نے کاٹ دیا۔ اس کی چونچ کو دیکھ کر کہنے لگی کہ تیری چونچ اس قدر لمبی اورٹیڑھی ہورہی ہے تجھ کو کھانے میں سخت تکلیف ہوتی ہوگی۔یہ کہکر اس کی چونچ کا بھی صفایا کردیا۔ غرضيکہ اسی طرح یکے بعد دیگرے اس کے لمبے لمبے پروں اوراس کی دم کو نوچ گھسوٹ کے اس بیچارے باز کو گوشت کا لوتھڑا بنا کر چھوڑدیا۔ اور کہنے لگی کہ اب تو بہت ہی خوبصورت ہے ۔ معلوم ہونے لگا ہے۔

اس عورت نے جوکچھ اس باز کے ساتھ کیا بدانست خود اچھا کیا ۔ لیکن حقیقت میں اچھانہیں کیا۔ کیونکہ جتنی چیزیں باز کے لئے ضروری وباعث ِ زینت تھیں ۔ ان سب کو اس نے برباد کیا۔ اور باز کو ردی حالت میں مسخ کرکے چھوڑدیا۔ بعینہ آنحضرت نے یہودی ، اورعیسائی تعلیم کے ساتھ سلوک کیا۔ کہیں سے چونچ اورکہیں سے دُم کاٹ کاٹ کر سب کو برابر کردیا۔ جتنی باتیں خدا کے لئے باعث ِ کمال وتحسین تھیں۔ سب کو علیحدہ کرکے خدا کواس صورت میں ظاہر کیا۔ جس کا حلیہ ابھی ہم لکھتے آئے ہیں۔ فقط ۔

سلطان