THE
ANALOGY OF RELIGION
TO THE
Constitution and Course of Nature
TO WHICH ARE ADDED
TWO BRIEF DISSERTATIONS:
I. ON PERSONAL IDENTITY. —II. ON THE NATURE OF VIRTUE.
BY
JOSEPH BUTLER, D.C.L.
مِلَّتِ تشبیہی
حصہ اوّل ودوم
یعنی مسیحی مذہب اور مخلوقات کے طریقوں کی مشابہت
جسکو
بشپ جوزف بٹلر صاحب اِل اِل ڈی نے انگریزی میں تصنیف کیا
اور پادری ہنری منیسل صاحب نے باعانت
منشی جان راجس بالاختصارترجمہ کیا
لکھنؤ
امریکن مشن پریس میں پادری کریو ں صاحب کے اہتمام سے چھپا
۱۸۷۴ء
JOSEPH BUTLER, D.C.L
Bishop of Durham
18 May 1692 – 16 June 1752
مِلَّتِ تشبیہی
حصہ اوّ ل
خلقی مذہب کا بیان
پہلا باب
آئندہ کی زندگی کے بیان میں
بعض آدمی اس بات کے شاکی (شکایت کرنے والا)ہیں کہ آیا ہستی انسان زمانہ حال واستقبال میں اور نیز کسی دو لمحہ میں یکساں رہتی ہے یا نہیں چنانچہ بٹلؔر صاحب نے اس بات کا بیان اپنی کتاب کے تتمے (کتاب کا وہ زائد حصہ جو اخیر میں لگادیتے ہیں)میں کیا ہے۔لیکن اُس کا ترجمہ اب تک نہیں ہوا ۔پس ہم اُن شکوک کے رفع اور رد کرنے سے دست بردار ہوکر خلقی موافقت دریافت کریں گے تاکہ ہم اُن تبدیلات کو جن میں ہم مبدل (تبدیل شدہ)ہوتے رہتے اور آئندہ بلانقصان اُنہیں برداشت کریں گے معلوم کریں کہ آیا بعد از مرگ ہمارا یکساں رہنا ممکن ہے یا نہیں۔
اب انسان کے اس دُنیا میں طفولیت (بچپن ) کی ناکامل حالت میں پیدا ہونے اورپھر اُس سے گزرکر بہ عالم جوانی پہنچنے سے ہم اپنی خاصیت میں یہ کلیہ قاعدہ اور قانون دریافت اور معلوم کرتے ہیں کہ ہر ایک متنفس اور کل اشخاص حالت زندگی اور قوت ادراک (سوچنے سمجھنے کی قوت)کے سب درجوں میں گزرسکتے ہیں یعنی ہرایک آدمی کے کام کرنے اور خوشی پانے اور متحمل (تحمل کرنے والا،برداشت کرنے والا)ہونے کی لیاقتیں اُس کی متفرق سیر کی سرگذشتوں میں تفاوت (فرق)رکھتی ہیں اور نیز دیگر حیوانات کی خاصیتوں میں بھی یہی قاعدہ جاری ہے کہ اُن کے حالات اور لیاقتیں بہ نسبت اُن کی پیدائش کے وقت کے ایام کاملیت میں بہت متفرق ہوتے ہیں۔مثلاً چند قسم کے کیڑے مکوڑوں سے مکھیاں اور تتری بن جاتی ہیں اور تب اُن کی طاقت رفتار بہت بڑھ جاتی ہے اور پرنداپنے گھر یعنی انڈوں کے چھلکوں کو توڑ کر ایک نئے عالم یعنی اس خلقت میں نمود کرتے ہیں اور یہاں اُن کے حالات متغیر (بدلنے والا)ہوجاتے ہیں اوروہ نئے طورکے کام کرنے لگتے ہیں پس وہ بھی اس مذکورہ بالا قاعدہ میں مشترک ہیں۔چنانچہ بایں صورت ہر قسم کے جملہ جانداروں کی تغیری ظہور میں آتی ہے ۔پھر غور کرنا چاہیے کہ ہماری اُن حالتوں میں کہ جب رحم میں ہوکر بحالت شیرخواری پیدا ہوئے تھے اور اب کہ بلوغیت (جوانی )کو پہنچے ہمارے خیالات کی وسعت کے موافق کسی قدر فرق ہے ۔نظر براں اس قاعدہ کلیہ سے صاف ظاہر وباہر ہے کہ بعد موت کے بھی ہم اسی حال موجودہ میں قائم رہیں گے ۔
ہم جانتے ہیں کہ ہم میں کام کرنے کی طاقت اور خوش ہونے اور رنج سہنے کی لیاقتیں ہم سے جُدا نہ ہوں گی تو غالب ہے کہ پس از مرگ (مرنے کے بعد)بھی یہی طاقت اور لیاقتیں ہم میں قائم اور برقرار ہیں پس گمان غالب ہماری ایک دلیل ہے اور بشرط یہ کہ الہٰام کی کوکوئی بات اس کے برخلاف نہ ہو تو ہم اس تعلیم پر اعتقاد واعتماد رکھ سکتے ہیں کہ آیندہ کو بھی زندگی ہوگی اور یقین ہے کہ یہ تمام ہوش وحواس جیسے کہ اب ہیں ویسے ہی آیندہ کو بھی قائم اورموجود رہیں گے اور اگرہم کسی دلیل سے یہ ثابت نہ کرسکیں کہ ان لیاقتوں اور قوتوں میں تغیری پھرہوگی تو مشابہت کی رو سے گمان غالب بھی ہماری ایک دلیل جو مداومت (ہمیشگی ،قیام ثبات ،دوام)کے لفظ سے بیان ہوتی ہے اور اسی کی رو سے ثابت ہوتا ہے کہ اس دُنیا کے طریقے آخر تک ویسے ہی رہیں گے جیسے کہ اور تواریخوں میں ابتدا سے متواتر ہیں اور صرف اسی دلیل سے ہم یہ خیال بھی کرسکتے ہیں کہ سوائے غیر مخلوق خُد ا کے کوئی شے جواب موجود ہے زمانہ آیندہ تک موجودنہ رہے گی ۔پس اگر انسان کو یہ یقین واثق ہے کہ آدمی کی طاقت اور لیاقت موت سے ہلاک نہیں ہوتیں تو وہ ہرگز گمان نہ کریں کہ کوئی اور چیز جو موت سے علاقہ نہیں رکھتی اُن کی قوتوں اور لیاقت کو موت کے وقت نیست کرسکے گی ۔اس لیے اغلب (گمان)ہے کہ ہماری زندہ طاقت اور لیاقت جواب موجود ہیں بصورت اصلی قائم رہیں گی حاصل کلام اس کا یہ ہے کہ اگر ہم یقین کرتے ہیں کہ موت ہماری ان قوتوں کو نیست ونابود نہ کرے گی تو ضرور وہ بعد موت کے بھی زندہ رہیں گی اور اگر اقرار کیا جائے کہ آئندہ کی زندگی غیر ممکن ہے اور دلیل سے پیشتر یہ خیال میں آئے کہ ہمارے حواس خمسہ (پانچ حواس دیکھنے ،سُننے ،سونگھنے ،چھکنے اور چھونے کی پانچ قوتیں)موت کے بڑے صدمہ سے نیست ہوجائیں گے تو ایسے خیال کی کوئی دلیل معقول نہیں ہے اور اگر سمجھی جائے تو چاہیے کہ وہ دلیل موت کی خاصیت یا خلقت کےطریق کی مشابہت سے نکلے لیکن ظاہر ہے کہ ہم موت کی خاصیت کو دیکھ کرکسی طرح ثابت نہیں کرسکتے تووہ ہماری روح کو برباد کردے گی کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ موت کیا شے ہے البتہ ہم اُس کی چند تاثیرات دیکھتے ہیں یعنی اُس کے باعث گوشت وچمڑا اور ہڈیاں گل کر تبدیل ہوجاتی ہیں لیکن یہ غیرممکن ہے کہ اُس کے سبب کوئی قوت یا لیاقت نیست وجائے اورعلاوہ ازیں ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ ہماری لیاقتوں کی حرکتیں کس چیز پر موقوف ہیں کیونکہ بخوبی عیاں اور ثابت ہے کہ نیند میں اور خصوص (خاص کام)خواب کی حالت میں ہماری طاقتیں اور لیاقتیں موجود اور قائم رہتی ہیں گوکہ اُس وقت وہ کام میں نہیں آتیں اور اُن میں حرکت کرنے کی طاقت نہیں ہوتی ۔خلاصہ کلام ہم کو نہیں معلوم کہ ہماری طاقتوں اور لیاقتوں کی ہستی کس چیز پر موقوف ہے اس لیے ہم نہ خیال کرسکتے نہ کہہ سکتے ہیں کہ موت اُن کو نیست کردے گی کیونکہ اُن کی ہستی کسی ایسی شے پر منحصر ہے جو موت سے کسی طرح نہیں بدل سکتی پس ہم جانتے ہیں کہ ہماری قوت متخیلہ (سوچنے کی قوت)ایسی تیز ہے کہ ہم بغیر دلیل بہت سی باتوں کا خیال کرتے ہیں اور اب ہم اُن قیاسوں (گمان )پر جو دل میں آتے ہیں چند لحظہ بغور سوچ کریں گے کہ اُن میں کیا شے ہے ۔پہلے اگر ہم کہیں کہ موت سے زندہ قوتیں نیست ہوجاتی ہیں تو ہمیں ثابت کرنا چاہیے کہ وہ قوتیں شامل کر منقسم ہوتی ہیں۔
بناءعلیہ (اس وجہ سے ،اس لیے)خود آگاہی ایک واحد طاقت ہے اورعیاں ہے کہ جس میں وہ قیام رکھتی ہے وہ بھی واحد ہے خیال کرو کہ اگر کسی ذرہ کی ایسی حرکت ہوکہ وہ تقسیم نہ ہو سکے تو اس کے تقسیم کرنے کا خیال بھی بیوقوفی ہے ۔کیونکہ ہم نہیں کہہ سکتے کہ اُس حرکت کا ایک حصہ ہو اور دوسرا نہ ہو پس وہ ذرہ جس میں وہ حرکت رہتی ہے واحد ہے ۔اس سے ثابت ہوا کہ ہمارے وجود ہونے کی آگاہی واحد اور بے تقسیم طاقت ہے لہٰذا ظاہر ہوتا ہے کہ جس میں یہ آگاہی قیام رکھتی یعنی ہماری واقف کاری کی ہستی لاتقسیم ہے ۔تو اس بیان سے جس کا اوپر ذکر ہوا صاف وواضح یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ وہ زندہ طاقت یا ہستی جو ایک آدمی آپ میں بیان کرتا ہے اور نیز ہمارا بدن جس میں ہم رہتے ہیں باہم پیوستہ اور واحد ہوکر مجسم نہیں اورجسم کے علاوہ ہمارا کوئی حصہ نہیں ہے کیونکہ ہم اوربدن میں موثر بھی ہوسکتے اور اُن سے بھی اثر پاسکتے ہیں اور جس طرح ہم اپنے قالب میں رہتے ہیں اُسی طرح اُن سے باہر بھی رہ سکتے ہیں اور ہم اور طرح کے اجسام میں بھی جن کی ذات اعلیٰ ہو اسی طرح جی سکتے ہیں جس طرح اپنے ان اجسام میں جیتے ہیں اور ہمارے کئی ایک ابدان (بدن کی جمع، بہت سے جسم)کے نیست ہونے سے بھی ہماری ہستی نابود نہیں ہوتی جیسے کہ اور طرح کے جسم جن میں ہم تاثیر پاتے ہیں بروقت نیست ہونے کے ہماری طاقتوں اور لیاقتوں کو نیست نہیں کرتے۔
دوسری :۔ہم تجربہ کاری کی رو سے ثابت نہیں کرسکتے کہ کوئی مخلوق واحد ہے کیونکہ اُس میں ایک جسم اور ایک روح ہے اور اُس کی رو سے ہم سوچ کر یہ نتیجہ پیداکرتے ہیں کہ ہمارے خلقی آلات اجسام جن سے ہم معلوم کرتے اور کام کرتے ہیں وہ ہماری روح کا کوئی حصہ نہیں ہے پس کسی سبب سے ہم ایسا خیال نہیں کرسکتے کہ جسم کے نابود ہونے سے طاقت ولیاقت بھی نیست ہوجاتی ہے کیونکہ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ انسان بعض وقت کسی عضو یا جسم کے بڑے حصے کو کھودیتے اور قطع کردیتے ہیں تو بھی ویسے ہی زندہ اور سلامت رہتے ہیں یعنی اُن کی روح میں کچھ نقصان نہیں آتا ہم اُس وقت کو یاد کرتے ہیں کہ جب ہم کم سن تھے اور ہمارا جسم بہت چھوٹا تھا اگر اس وقت اس کا حصہ یا عضو دوریا منقطع ہوجاتا تو بھی ہم زندہ اوربرقرار رہ سکتے تھے ۔علاوہ ازیں جوان آدمی کا جسم ضرر سہتا ہے لیکن اُس کے دل کو نقصان نہیں پہنچتا اور بھی ہم دیکھتے ہیں کہ جانوروں کے جسم ہمیشہ تبدیل ہوتے رہتے ہیں پس ان باتوں سے ہم یہ تمیز حاصل کرتے ہیں کہ روح اور فانی جسم کے درمیان فرق ہے ۔یعنی روح اورشے ہے اورجسم دیگر چیز ہے کیونکہ جسم گو تبدیلی ہے مگر روح یکساں رہتی ہے۔
اوراب ہم اور خیالوں پر متوجہ ہوتے ہیں ۔پہلے ہم ازروئے تجربہ کاری ثابت نہیں کرسکتے کہ وہ جان جو ہم میں ہے کتنی بڑی ہے مگر چونکہ اُس کا اس جسم کے عناصر سے بڑا ہونا ثابت نہیں ہوتا تو ہم ہرگز نہیں کہہ سکتے کہ وہ موت کے ذریعہ سے نیست ہوجائے گی ۔
دوسرے۔اگر ہم کسی طرح کے جسم یعنی گوشت وہڈی ورگ وغیرہ سے تعلق رکھتے ہوئے خوش رہیں اور بعدہ (اس کے بعد ) اُس جسم سے علیحدہ ہوکر زندہ رہیں تو ہم نہیں کہہ سکتے کہ اُس جسم اور ہڈیوں کی جن سے ہم علیحدہ ہوتے تبدیلی بلا اُن کی ہلاکت ہوگی ۔اور جو حال اُن کا ہوگا وہ ہماری ہلاکت کا سبب ہوگا ۔اور اگرچہ ہم جسم کا ایک بڑا حصہ خواہ سب کھو دیں تاہم ہماری جان یکساں رہتی ہے اور ہم نیست نہیں ہوتے تو بے شک وشبہ ہم موت کے بعد زندہ رہیں گے البتہ ہمارا جسم ایک دم سے تبدیل نہ ہوگا مگر یہ کچھ بات نہیں ہے جس حال میں کہ ہم بڑی تبدیلیوں سے گزر کرزندہ رہیں تو کسی طرح خیال نہیں کرسکتے کہ جب ہمارا جسم مرجائے تو روح بھی عدم وجود ہوجائے گی۔
پس اگر ہم اپنے بدن کی بابت خاص کر اس طرح کے خیال کریں کہ معلوم کرنا اور خواہش کرنا بھی خلقی آلات سے بنے ہیں تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ علمی مناظرہ سے اور ازروئے فلاسفہ معلوم ہوتا ہے کہ ہم آنکھوں سے مثل چشمہ کے دیکھتے ہیں مگر یہ کسی طرح ثابت نہیں کہ آنکھ ہی وہ دیکھنے والی شے ہے بلکہ وہ تو فقط بصیرت کا ایک ذریعہ ہے اور اسی طرح کان بھی سُننے والی شے نہیں ہیں بلکہ سماعت کا ذریعہ ہیں۔علی ہذالقیاس (اسی طرح، اسی قیاس پر ) جملہ اعضا ایک طرح کے آلات ہیں جن کے ذریعے سے ہم باہر کے اشیاء کو اندر لاسکتے ہیں یعنی معلوم کرسکتے ہیں۔ پس وہ معلوم کریں کہ اوزار اور وسیلے ہیں غرض اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگرچہ آدمی اپنے کئی ایک خلقی آلات یعنی باصر ہ وسماع (دیکھنے اور سُننے کی قوت)وغیرہ کھودیتے ہیں تو بھی اُن کی قوتیں زندہ اور برقرار رہ سکتی ہیں اورنیز یہ بات خواب کی حالت میں اور بھی مسلم الثبوت ہوتی ہے ۔اسی طرح حرکت کرنے کی قوت بھی قائم شےہے۔کیونکہ ہم حسب اپنی مرضی کے حرکت کرسکتے ہیں اگر کوئی عضو ضائع ہوجائے تو بھی یہ روح قائم رہتی ہے یعنی وہ شخص جس کے عضو کا نقصان ہوگیا ہووہ حرکت کرنے کی طاقت ولیاقت رکھتاہے پر بسبب نہ ہونے عضو کے اُس طاقت ولیاقت کو کام میں نہیں لاسکتا اور اگر وہی عضو قائم ہوتے تو وہ سابق کے موافق اپنی جملہ حرکتیں کرسکتا ۔پھر اگر کسی کی ٹانگ ضائع ہوگئی ہو تو وہ لکڑی کی ٹانگ بناکر چل سکتا ہے یا ڈنڈے سے کام لے سکتا ہے ۔اور حالانکہ ہمارے اعضا حرکت کرنے کے قابل بنائے گئے ہیں ۔مگر یہ ثابت نہیں ہوسکتا کہ وہ ازخود حرکت کرسکتے ہیں ۔مثلاً ایک شخص ارادہ رکھتا ہے کہ دوربین کے ذریعے سے کسی چیز کو دیکھے اور چوبدستی (ہاتھ کی لکڑی ،چھڑی)کی مدد کسی جگہ کو جائے تو کچھ دوربین اور چوب دستی ارادہ کرنے والی شے نہیں ہیں پس اس طرح آنکھ اور ٹانگ کچھ ارادہ کرنے والی نہیں ہیں اور بھی جس طرح کہ دوربین دیکھنے والی نہیں ہے اور نہ لاٹھی چلنے والی ہے اسی طرح آنکھ اور ٹانگ چلنے والی اوردیکھنے والی نہیں ۔خلاصہ کلام خلقی اوزارواعضا صرف آلات ووسائل ہیں جن کے ذریعہ سے زندہ شخص یعنی ہم معلوم کرتے اور حرکت وکام کرنے کے استعمال میں لاتے ہیں ۔اور سوائے اس کے کچھ اور یقین ان کی بابت نہیں ہوسکتا کہ وہ کیا ہیں اور نہ ہم اُن سے کسی اور طرح کا تعلق رکھتے ہیں بلکہ مثل اور آلات کے ۔پس جس وقت ہمارے خلقی آلات واوزار ہلاک ہوں گے تو یہ یقین ہر گز نہیں ہوسکتا کہ ہم بھی نیست ہوجائیں اور اگر کوئی اعتراض کرے اور کہے کہ دلائل مذکورہ بالا سے ثابت ہوتا ہے کہ اور حیوانات بھی ابدی ہیں اور اس لیے حیات ابدی پانے کے مستحق ہیں تو اُن کا یہ اعتراض ضعیف (کمزور)اور بے جا ہے کیونکہ جس قدر ہم اپنی بابت واقفیت رکھتی ہیں اُس قدر اُن کی بابت نہیں جانتے خواہ وہ حیات ابدی پائیں یا نہیں پر اس مباحثہ سے کچھ تعلق نہیں ہے ۔
اگرچہ یہ ظاہر وثابت ہے کہ قوت ادراک ویادومحبت ہمارے اجسام سے متعلق ہیں مگراُن کا تعلق ایسا نہیں جیسا کہ ہمارے آلات حقیقی کا ہے پس کسی طرح اور کسی سبب سے ہمیں یہ خیال نہیں ہوسکتا کہ جب ہمارا جسم مرجائے تو ہماری قوت متخیلہ وادراکہ بھی نیست ہوجائے گی یا تھوڑی دیر کے واسطے بھی بے کار ہوجائے گی پس جس حال میں کہ دو طرح کے قانون ہیں تو انسان اُس زندگی میں داخل ہوسکتا ہے اور ہرحالت کی خوشی یا رنج معلوم کرسکتا ہے اور جب کہ ہمارے خلقی آلات کو حرکت ہوئی ہے یا جب کہ ہماری کوئی جسمانی خواہش پوری ہوتی ہے تو ہم اُس وقت حالت حواس میں ہوتے ہیں اور اگرایسا نہ ہو اور ہم معلوم کرتے ہوں یا کام اورخیال کرنے میں مشغول ہوں تو اُس وقت ہم خیال کرنے کی حالت میں ہیں اور کسی طرح سے معلوم نہیں کرسکتے کہ کوئی چیز جو بذریعہ موت ہلاک ہوسکتی ہے کسی زندہ شخص کو جو قوت متخیلہ رکھتا ہے درکار ہوبشرط یہ کہ اُس وقت کے پیشتر اُس نے علم حاصل کیا ہوا گرچہ خیال کرنے کے وقت ہم کو اپنے معلوم کرنے والے خلقی آلات کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ ہم کو خیالات کے لیے تصورات پہنچائیں جیسا کہ راج مکان بنانے میں اوزار تھوڑی دیرتک کام میں لاتے ہیں مگرتو بھی جب کہ تصورات اورعلم دل اور یاد میں در آتے ہیں تب ہم اپنے خلقی آلات کی مدد سے بغیر گذشتہ خیال اورغور کرنے کے بہت ہی خوش اور غمگین ہوتے ہیں۔پس ہم بحالت مذکورہ اپنے ان اجسام سے جو فانی ہیں کچھ مدد نہیں پاسکتے جس سے یہ جان سکیں کہ ہم نہ مریں گے جس وقت کہ مرجائیں گے پھر ہم میں کئی شے ایسی ہیں جو بدن کے لیے مُہلک ہیں لیکن جب کہ وہی ہمارے جسم پر حملہ کرتی ہیں تو ہماری روح اور عقل کی قوتیں اور لیاقتیں بدستور قائم رہتی ہیں پس کسی طرح سے یقین نہیں ہوتا کہ جس وقت جسم مرجائے گا تو یہ روح بھی مرجائے گی بلکہ غالب ہے کہ وہ ہرگز نیست نہ ہوگی کیونکہ جسم کی بیماریوں سے روح میں کچھ نقص نہیں آتا ہاں البتہ چند باتوں میں ہماری فانی طاقتیں اور خلقی آلات اپنی حرکت سے رُک جاتے ہیں مثلاًغنودگی کہ وہ ہماری نیند تک بڑھتی جاتی ہے گروہ ہماری تجربہ کاری کے برخلاف بتلاتی تو ہم یقین کرتے کہ یہ طاقتیں نیند سے ہلاک ہوجائیں گی بلکہ مذکورہ بیماریوں سے یہ حال نہیں ہوتا جیسا نیند میں ہوتا ہے کیونکہ طاقتیں اور لیاقتیں تو ذرہ قاصر نہیں ہوتیں بلکہ موت کے وقت تک پوری اور باہم رہتی ہیں تو کسی طرح یقین نہیں ہوتا کہ موت کے سبب سے قوت متخیلہ ہلاک ہوگی کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اگلی قوتیں اور لیاقتیں یعنی حصہ مشترک خیال وہم قوت متفکرہ حافظہ موت ہی تک قائم رہتی ہیں یہاں تک انسان بباعث عقل درج خواہ خوش وخُرم یا مغموم (غمزدہ )ہوسکتا ہے ۔پس ثابت ہے کہ روح کی طاقت ولیاقت کم نہیں ہوتی بلکہ کسی قدر ترقی پاتی ہے اب ہم کس طرح خیال کرسکیں کہ وہ سخت اورمُہلک بیماریاں جو بدن کو ہلاک کرڈالتی ہیں روح کو بھی ضرر پہنچائیں گی ہرگز نہیں کیونکہ ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ جب بیماریوں کےسبب جسم کمزور ہوگیا ہے تو طاقتیں اور لیاقتیں جو روح اور عقل کے تعلق ہیں تاہنگام (موقع،زمانہ )موت قائم وبرقرار رہتی بلکہ کسی قدر بڑھ جاتی ہیں اور جس حال میں کہ ہم اس طرح کی موت سے نیست نہیں ہوجاتے تو نہیں کہہ سکتے کہ کسی اور طرح کی موت سے مرجائیں گے اور ہم اس بات کو اوربھی طول دے سکتے ہیں کہ ہمارے خلقی آلات ہمارے غور کرنے کی قوت سے اس قدر کمتر تعلق رکھتے ہیں کہ ہم خیال بھی نہیں کرسکتے ہیں کہ موت جس سے ہمارے خلقی آلات ہلاک ہوتے ہیں وہ ہمارے غور کرنے کی طاقت کو بھی نیست کرے گی یا اُس کو ذرہ بھی روک سکے گی کیونکہ ہماری قوت یا دوقوت محبت اور غور کرنے کی طاقت موت تک زیادہ بڑھتی جاتی ہے اور روز بروز ہم اپنی تمام پہلی لیاقتیں اس طور سے کام میں لاتے ہیں کہ ہمارے جسم کے خلقی آلات کچھ بھی اُن میں مدد نہیں کرتے پس اغلب وبدیہی (وہ بات جس میں دلیل کی حاجت نہ ہو،ظاہر)ہے کہ ہماری روح کی لیاقتیں موت تک ہلاک نہ ہوں گی اور نہ روکی جائیں گی بلکہ بڑھ جائیں گی اور پس ازمرگ ہم انہیں ازسرنو شروع کریں گے اور آگے بڑھ جائیں گے اور یقین ہےکہ موت ایک طرح سے تولد ہونے کی مانند ہے ۔اور چونکہ ظاہر ہے کہ تولد ہونے کے وقت وہ طاقتیں جو کہ ہم رحم میں ہوکر رکھتے ہیں نہ تو ہلاک ہوتی اور نہ بدل جاتی ہیں بلکہ قائم اور برقرار رہتی اور ترقی پاکر بہت زیادہ ہوجاتی ہیں تو موت سے بھی وہ طاقتیں نیست نہ ہوں گی بلکہ موت مثل ایک دروازے کے ہے جس سے ہم گزر کرفوراًایک عمدہ خوشی اورآزادگی کے مکان میں پہنچیں گے جہاں ہماری قوتیں اور لیاقتیں فرصت پاکر کاملیت سے اپنی تمام حرکتیں کریں گی کیونکہ ہم جسم میں رہتے ہوئے تو بعض باتوں کو اپنے خلقی آلات سے معلوم کرسکتے ہیں جو کہ شایدہماری قوت غور کو روکتی ہیں مگر جب کہ ہم مرجائیں گے تو آزاد ہوکر کامل طور سے عقل وفہم کی رسائی کے بموجب غور کرکے شادمان ہوسکیں گے لیکن بعض آدمیوں کا قول ہے کہ انسان کی موت نباتات کے گل جانے سے مشابہت رکھتی ہے سواس بات سے کوئی فریب نہ کھائے کیونکہ نباتات کے وجود پانے اور نیست ہونے میں بمقابلہ بنی آدم اس قدر فرق کثیر ہے کہ اس بات کی رو میں کچھ لکھنے کی حاجت نہیں پس بہتر ہے کہ ہم تجربہ کاری کی رو سے خیال کرنے میں نہ روکے جائیں بلکہ جو کچھ ہم کو علم ہے اُس سے مباحثہ کرکے سچا نتیجہ نکالیں تب معلوم ہوگا کہ نہایت ہی قرین قیاس ہے کہ جب ہم اس دُنیا سے فراغت پائیں گے تب عمدہ اورآزاد حال میں داخل ہوں گے ۔
اور یہ بات تعجب کی نہیں کیونکہ جیسا اوپر مذکور ہوچکا کہ ہم بروقت پیدائش کے تاریکی اور لاچارگی سے روشنی اور آزادگی میں آئے ۔اور آئندہ زندگی کی یہ معتبری جس کا بیان باب ہذا میں کیا گیا مذہب کی ثبوتی دلیل کے برابر ہے ۔لیکن آئندہ زندگی کی دلیل قوی ثبوت مذہب کی دلیل نہیں ہوسکتی ہے کیونکہ آئندہ زندگی دہریوں (ملحد ،لادین)کے بیان کے برعکس نہیں ہے بلکہ وہ مذہب کا ایک نتیجہ ہے اس لیے جو بات یا خیال اُس کے برخلاف ہو۔وہ مذہب کے بھی برخلاف ہے اب اوپر کے بیان سے صاف وبخوبی واضح ہوتا ہے کہ کوئی دلیل اُس تعلیم کے خلاف نہیں ہے اور مخلوقات کے طریقوں پر غور کرنے سے کوئی بات بھی ایسی نہیں نکلتی جس کی رو سے کوئی کہہ سکے کہ موت سے ہماری روح ہلاک ہوجاتی ہے ۔پس اس واسطے یہ مذہب کی بنیاد کی ایک تعلیم کا ثبوت قوی ہے ۔اور اس بات کی مدد سے انسان کا دل مذہب کی تما م تعلیم پر غور کرکے اُسے قبول کرسکتا ہے ۔
دوسرا باب
خُدا کی حکومت کرنے اور سزاوجزا دینے
بلکہ خاص کرسزا دینے کے بیان میں
آئندہ زندگی کا خیال اس سبب سے ہم کو بھاری معلوم ہوتا ہے کہ اُس میں ہم یاتو خوشحال ہوسکتے ہیں یا مبتلائے ملال اور وہ بات جس کے باعث ہمیں ایسا خیال بقیہ آتا ہے یہ ہے کہ ہماری آیندہ زندگی کی خوشی یا تکالیف اور بخش ہمارے موجودہ کوموں اور فعلوں پر منحصر ہے ۔اور اگرتسلیم کیا جائے کہ ایسا نہیں ہے تو شاید ہم راز جوئی (تلاش کرنے والا)کے طور پر اس بات کی بابت خیال کریں گے اور تب اپنی یا اور وں کی موت کی بابت فکر کریں گے لیکن ارباب دانش (صاحب علم لوگ)اس سے زیادہ خیال نہ کریں گے کہ ہمارے کاموں کا جو ہم اس دُنیا میں کرتے ہیں آیندہ زندگی میں کبھی حساب لیا جائے گا یا اگر کسی طرح کی مشابہت یا مباحثہ سے یقین نہ ہوکہ آیندہ فعلوں کے مطابق سزا یا جزا پائیں گے تو ہم کو بہمہ وجوہ (وجہ کی جمع)غور کرنا لازم آئے گا کہ ایسے کام کریں جن کے سبب سزا سے بچ کر جزا اور کامل خوشی حاصل کریں جس کے پانے کے ہم اپنے تئیں مستحق سمجھتے ہیں اگرسوائے اُس دلیل کے جو پہلے باب کی مشابہت سے نکلتی ہے اور نہ ہو تو بھی اہل دانش اُس آیندہ زندگی کی بابت ضرور فکر کریں گے ۔
اوراب حال میں ہماری شادمانی اورتکلیف کا بڑا حصہ ہمارے اختیار میں کردیا گیا ہے اور خالق نے ہم کو ہمارے کاموں کا نتیجہ دریافت کرنے کی لیاقت اوّل ہی بخش دی ہے چنانچہ ہم اپنی تجربہ کاری سے معلوم کرتے ہیں کہ خُدا ہم کو بغیر ہمارے خبرداری ودوراندیشی کرنے کے زندہ نہیں رکھتا ہے اگرچہ حداسی نے باندھ دی ہے اور وہ چیزیں بھی موجود کردی ہیں کہ جن کے بغیر ہم زندہ نہیں رہ سکتےہیں پھر ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ وہ دُنیاوی چیزیں جنہیں ہم چاہتے ہیں بغیر کوشش کرنے کے دستیاب نہیں ہوتی ہیں پھر جب جہد (کوشش)کرتے تب ضرور مطلوبہ چیزیں پاتے اور اُن سے خوش ہوتے ہیں یعنی یہ کہ خُدائے تعالیٰ ہماری کوشش اور کام کے ذریعہ سے ہماری خوشی کے واسطے وہ چیزیں عطافرماتا ہے ۔اور میں نہیں جانتا کہ ہماری خوشی کا کوئی درجہ یا قسم سوائے ہمارے کاموں کے کسی اور وسیلے سے ملتا ہو پھر اکثر ہوشیاری وخبرداری کو کام میں لانے سے ہم آرام وسلامتی سے بسرکرسکتے ہیں ۔ الاَّ(لیکن، سوا) برخلاف اس کے جلدبازی وشہوت پرستی وضد وغفلت سے ہم اپنے تئیں پریشانی وشکستہ حالی میں رکھ سکتے ہیں ۔اور بہت آدمی اپنی مصیبت کی شکایت کرتے ہیں پرسبب یہ ہے کہ وہ ایسے کام کرتے ہیں جن کا نتیجہ اُنہیں پیشتر سے معلوم ہے کہ شکستہ حالی اور پریشانی ہے اور اُن طریقوں پر چلتے ہیں کہ جن کا ثمرہ (پھل ،نتیجہ )وہ اور دن کی نصیحت ونمونہ اور تجربہ کاری سے یہ جانتے ہیں کہ بدنامی وافلاس وبیماری اور ناگہانی موت ہوگی ۔ہر شخص معلوم کرتا ہے کہ اس دُنیا کا یہ طریقہ ہے ۔لیکن البتہ ہم اقرار کرتے ہیں کہ ازروئے تجربہ کاری ہم ہرگز ثابت نہیں کرسکتے کہ ہماری جملہ تکلیفات ہمارے بُرے ہی کاموں کا نتیجہ ہیں ۔اور کہ آیا خالق اپنے مخلوق کو خواہ مخواہ برکت دیتا ہے یا نہیں یعنی بغیر اُن کے کاموں اور کوششوں کے وہ اُن کی آفتوں کو روک کرخوشی بخشتا ہے یا نہیں۔دوسرے لازم آتا ہے کہ شاید بسبب دُنیا وی چیزوں کی خاصیت کے جسے ہم نہیں سمجھتے غیر ممکن ہے کہ خُدا ہم کو بغیر کام کے خوشی عطا کرے ۔یا اگر وہ ہم کو بغیر کام وکوشش کے سب کچھ بخشے تو ہمیں ایسی خوشی جیسی اب ملتی ہے نہ ملے گی یا شاید خُدا کی محبت ایسی ہے کہ وہ محنت کرنے والوں و نیکوں اور ایمانداروں اور دیانت دار وں کو خوش کرنی چاہتی ہے اورشاید وہ کامل خُدا انہیں باتوں سے خوش ہوتا ہے کہ اُس کی مخلوق اس خاصیت کے مطابق جو انسانوں میں ہیں اور نیز اُس واسطہ کے موافق جو انسان اورخُدا کے بیچ میں چلے اوربسر لے جائے ۔پھر کہتا ہوں کہ شاید کامل خُدا دیانت داری اپنی مخلوق میں پسند کرتا ہے اس لیے کہ دیانت داری خود پسند کے لائق ہے اور وہ تمام مخلوقات کی خوشی کے لیے ضرور ہے ۔علاوہ ازیں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہم لوگ بالکل نہیں جانتے کہ خُدا نے دُنیا کو کس واسطے بنایا اور اس کی حکومت کا کیا مطلب ہے۔پس ہم کو اس بات کی واقفیت ایسی مشکل ہے جیسے نابینا کو رنگ کی تمیز کرنا بالکل غیرممکن ہے لیکن جو کچھ ہو ایک بات برحق ہے اور تجربہ کاری سے ثابت ہے کہ خُدائے تعالیٰ کی حکومت اکثر اس وطیرہ (طور،طریقہ)پر ہے کہ پہلے سے ہم کو آگاہی دیتا ہے یا دریافت کرنے کی طاقت ولیاقت بخشتا ہے تاہم بخوبی معلوم کریں کہ یا فلاں حکم توڑنے سےفلاں نقصان یاآزار پہنچے گا تاکہ ہم جانیں کہ وہ خوشی وراحت یا خستہ خاطر دربخش ہمارے ہی نیک یا بدکاموں کا نتیجہ ہے ۔
اگر کوئی کہے کہ یہ سب خلقت کے طریقے ہیں تو بے شک یہی بات ہے جو میں بتلاتا ہوں پر سوچنا چاہیے کہ خلقت کے طریقے کے کیا معنی ہیں ۔اُس کے معنی ہیں خالق کی مرضی اورفرمان ۔اور اُن کو جو خالق کے مُقر(اقرار کرنے والا)ہیں اس بات کا انکار کرنا کہ وہ مخلوقات پر حکومت رکھتا ہے نہیں چاہیے ۔اور نہ اس بات سے مُنکر ہوناچاہیے کہ خُدا ہی سب کچھ کرتاہےاس لیے کہ وہ انسان کے ہرکام کا نتیجہ نکالتا ہے۔کیا وہ ہردم کام کرتا ہے کہ نہیں ۔کوئی اور دلیل نہیں ہے جس سے ثابت ہوکہ وہ ہر دم کام نہیں کرتا۔
علیٰ ہذالقیاس ہر آدمی اپنے ہرایک کام میں دوراندیشی کرتا ہے تاکہ وہ نقصان اور بُرائی سے بچ کر فائدہ حاصل کر ے۔اور اگر ایسا ہے کہ خلقت کے طریقے خُدا سے مُقرر ہوئے اور ہماری دوراندیشی اورتجربہ کاری کی طاقت ولیاقت بھی اُسی سے بخشی گئیں توہمارے کاموں کے بُرےیا اچھے نتائج بھی اُسی سے معین ہوئے اور ان نتائج کی پیش بینی بھی اُسی سے دی گئی تاکہ ہم آگاہ ہوں کہ کون سے کام کریں اور کون سے کام نہ کریں ۔مثلاً ہر شخص جو جانتا ہے کہ یہ طریقہ خُداسے مقرر ہوئے اُسے معلوم ہے کہ رنج ایک نتیجہ ہے بُرے کام اور سُستی وکاہلی کا اورخوشی نتیجہ ہے اُس کے برعکس کا۔ اور نتیجے اکثر پورے ہوئے ہیں پس ہم حقیقتاً معلوم کرسکتے ہیں کہ ہم فی الواقع خُد ا کی حکومت میں ہیں یہاں تک کہ وہ ہم کو ہمارے کاموں کے مطابق برابر جزا یاسزا دیاکرتا ہے ۔
اور اگر ہم خالق کے مُقر ہوں تو تجربہ کاری کی رو سے نہ کہ مباحثہ سے ضرور معلوم کرتے ہیں کہ ہم اُس کے زیرحکومت ہیں جیسے کہ ظاہر میں مجسٹریٹوں کے زیر فرمان ہیں کیونکہ حکومت کرنے کی راست تدبیر یہ ہے کہ آزاد دن کو احکام اور اُن کی تعمیل اور عدم اطاعت کے نتائج بتادے جائیں اور تب فرمان بردار وں کو جزااورنافرمان برداروں کو سزا دی جائے ۔
اور خواہ تو خالق ہم کو دم بدم سزایا جزا دیا کرے اور یا ایسی تدبیر مقرر کردے کہ جس سے ہم کو دم بدم ہمارے کاموں کا بدلہ ملتا رہے تو ایک ہی بات ہے اور اگرمجسٹریٹ ایک تدبیر نکال سکے کہ جس سے بغیر تکلیف اُٹھائے اور مقدمہ کرنے اور فتویٰ دینے کے مجرم کو اُس کے جرم کے موافق سزا ملے یا کہ ہرایک گنہگار فوراً اپنے اوپر اپنے گناہ کی سزا اُٹھالے تو اس حال میں بھی ہم اُس کے زیر حکم ہوتے ہیں اور ہر ایک شخص کہے گا اور اقرار کرے گا کہ ایسا حال اور ایسی تدبیر زیادہ کامل ہے۔
اور اگر ایسا ہوکہ خُدا بعض کاموں کا بُرا بدلہ دیتا اور بعض کا اچھا اجر بخشتا اس مقصد سےکہ ہم کو نیک کام کرنا سکھلائے تو وہ نہ صرف خوشی ورنج پہنچاتا بلکہ جزااور سزا دیتا ہے ۔اورجب ہم ایسا کام کرتےجس سے جسم ہلا ک ہوتا ہے ۔مثلاًآگ میں گرنا تو ہم کو درد معلوم ہتا ہے جو کہ خالق کی طرف سے ایک آگاہی ہے اور ہم کو ہلاک ہونے سے روکنےکے لیے مقرر ہوئی ہے ۔پس ثابت ہے کہ ہم خُدا کے زیر حکومت ہیں اور یہ ثبوت ایسا ہے کہ اگر آسمان سے آواز سزا بتاتی ہوئی آتی تو بھی اس سے زیادہ نہیں ہوسکتا۔
پس ہم دیکھتے ہیں کہ جس طرح بال بچے اورنوکر چاکر اور رعیت اپنے مالکوں سے اپنے کاموں کے موافق سزا اورجزا پاتے ہیں ویسے ہی ہم اپنے مالک خُدا سے اپنے کاموں کا بدلہ پاتے ہیں۔حاصل کلام مخلوق کی مشابہت سے ظاہر وعیاں ہے کہ مذہب کی یہ تعلیم کہ خُدا آخر کو آدم زاد کو اُن کے افعال کے بموجب بدلہ دے گا بالکل قابل اعتبار ہے۔
لیکن الہٰی سزا وہی ہے جس کے برخلاف آدمی اعتراض کرتے ہیں لہٰذا ہم ثابت کریں گے کہ وہ سزائیں جو آدمیوں کو اس جہان میں ملتی ہیں اُن آنے والی سزاؤں کی جن کا بیان بائبل میں ہے تشبیہیں ہیں۔ اوپر کے بیان سے ثابت کیا گیا کہ بھول وضد اور گناہ کا نتیجہ دُکھ اور تکلیف ہے اور چونکہ اُن تکالیف کو پیشتر سے دریافت کر سکتے ہیں تو بے شک وہ ہمارے افعا ل بد کے نتائج ہیں۔علیٰ ہذالقیاس ہم دیکھتے ہیں کہ دُنیا میں رہنے سے اس قدر تکلیف نہیں ہوتی بلکہ انسان اپنے بُرے کام کرنے سے نہایت دُکھ اور تکلیف اپنے اوپر لاتے ہیں جن کو وہ پیشتر سے دیکھ سکتے اور اُن سے بچ سکتے ہیں۔
اور اس جہان کی سزاؤں کا اور بھی کچھ بیان کرتے ہیں جو قابل غور ہیں۔
پہلے :۔اکثر یہ سزائیں اُن کاموں کے بدلے ہیں جن کو کرتے وقت بہت خوشی حاصل ہوئی مثلاً بیماری اور بے وقت کی موت بدپرہیزی کا بدلہ ہےاگرچہ کرتےوقت بہت خوشی اورعیش معلوم ہوا ۔
دوسرے :۔یہ سزائیں جو پیچھے آتی ہیں اکثر اُن فائدوں اور خوشیوں سے بہت زیادہ ہوتی ہیں۔
تیسرے :۔اگرچہ ہم خیال کرسکتےہیں کہ گناہ کا فوراً بدلا ملنے کی تدبیر ہوسکتی ہے تو بھی ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر ایسانہیں ہوتا بلکہ گناہ کرنے کے بعد دیر میں اُس کی سزا دی جاتی ہے ۔حتیٰ کہ اکثر ہم اُس گناہ کو جس کے بدلے میں وہ سزا آتی ہے بھول جاتے ہیں۔
چوتھے :۔سزائیں توقف(وقفہ) ہونے سے ثابت نہیں ہوتا کہ وہ نہ دی جائیں گی ۔
پانچویں :۔اکثرایسا ہوتا ہے کہ گناہ کرنے کے بہت دیر بعد سزا ملتی ہے نہ کہ درجہ بدرجہ بلکہ ایک دم سے اور بڑے زور کے ساتھ جیسے کہ اکثر دُکھ کا یہی حال ہے۔
چھٹے:۔ کسی کو یقین کامل نہیں ہے کہ ہمارے کاموں کا بدلہ فوراً وقت پر ملے گا اس لیے کوئی سزا کامنتظر نہیں رہتا بلکہ اکثر یہ حال ہے کہ لوگ جانتے کہ بدپرہیزی سے بیماری ہوگی اور مُلکی قانون کی انحرافی (انکار)سے حاکم کی طرف سے سزا ملے گی تو بھی وہ سمجھتے ہیں کہ شاید ہم بچ جائیں گے مگر طریقے کے مطابق دُکھ اکثر اپنے وقت پر آتا اور وہ اپنے فعل کا بدلا پاتے ہیں۔
اسی طرح اگرچہ جو ان آدمی اپنی بے فکری اور بیوقوفی کے تمام کاموں کے نتیجے نہیں جانتے تو بھی وہ نتیجے اُن کو مل جاتے اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ وہ اپنے عالم جوانی کے افعال کے سبب عمر بھر دُکھ اور دردونقصان اُٹھاتے ہیں ۔اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ فائدہ حاصل کرنے کے لیے فرصت ملتی ہے ۔ اور اگر وہ فرصت جاتی رہے اور ضائع کی گئی تو پھر وہ فائدہ کبھی حاصل نہیں ہوتا۔
اگر کسان موسم پر تخم (بیج )نہ بوئے تو سال بھرتک نقصان سہتا ہے اسی طرح جو آدمی عالم جوانی تو اوباشی وبد پرہیزی میں صرف کرے وہ ضرور بیماری یا بدنامی یا پریشانی وغیرہ کچھ نہ کچھ بُرابدلہ پائے گا۔
بد پرہیزی اور بُرے کام کی ایک حد ہے کہ جس کے باہر کوئی آدمی بے سزا پائے نہیں جاسکتا۔پھر بھی خیال کرنے کے لائق ہے کہ غفلت وبھول کے سبب سے ہم پر بہت آفتیں اور نقصان آتے ہیں ۔اور پچھلی بات یہ ہے کہ مُلکی حکومت مطابق آئیں ہے اور سزائیں بھی جو اُس میں دی جاتی ہیں باقاعدہ ہیں۔اور اُس مین بعض گناہوں کی سزا دارپر کھینچنا مقرر کرکی گئی اسی طرح خُدا ئے تعالیٰ کی حکومت میں بعض گناہوں کی مثلاً بدپرہیزی کی سزا موت ہے حاصل کلام مُلک کے قانون اورطبیعت کے خلاف چلنےسے اکثر موت کی سزا ملتی ہے اور اس سے دو مطلب مقصود ہیں۔
پہلے :۔کہ گنہگاراور وں کا نقصان کرنے سے روکے جائیں۔
دوسرے :۔ کہ وہ اور وں کے واسطے نشان اورتشبیہ ہوں ۔
اور یہ مذکورہ باتیں اتفاقی نہیں بلکہ روز مرہ کے تجربہ میں آتی ہیں اور اُن قوانین کے نتائج ہیں کہ جن کے مطابق خُدائے تعالیٰ مخلوقات کی حکومت بترتیب کرتا ہے ۔
اوروہ اُن سزاؤں کی جو کتاب مقدس میں بیان کی گئیں ٹھیک ٹھیک تشبیہیں اور مثالیں ہیں یہاں تک کہ دونوں کا بیان ایک ہی طورسے ہوسکتا ہے چنانچہ کتاب امثال میں یوں مسطور ہے کہ ’’حکمت اُونچے مکانوں کی چوٹیوں پر اور اُن مکانوں میں جو رہ گزروں کے بیچ سرِراہ ہیں کھڑی ہوتی ہے ‘‘۔اور جب ظاہر کرتی ہے کہ میں انسان کو اُس کی زندگانی تک رہنمائی کرنے والی ہوں تب وہ اُن کو جو زندگی کی منزل میں چلنے والے ہیں یوں کہتی ہے کہ (اے سادہ لوگو تم کب تک سادگی کو دوست رکھو گے اور کب تک ٹھٹھے باز اپنی ٹھٹھے بازی پر مائل رہیں گے اورجاہل علم سے کینہ رکھیں گےتم میری تنبیہ پر متوجہ ہودیکھو میں اپنی روح تم پر جاری کروں گا اور میں اپنی باتیں تمہیں سمجھاؤں گا) اور جب کہ وہ اس فرمودہ کو نہیں مانتےوہ یوں کہتے ہیں (ازبسکہ میں نے بُلایا پر تم نے نہ مانا میں نےاپنا ہاتھ لمبا کیا پرکوئی متوجہ نہ ہو ا بلکہ تم نے میری ساری مصلحتوں کو ناچیز جانا اور میری سرزنش کی قدر نہ کی تو مَیں بھی تمہاری پریشانی پر ہنسوں گا اورجب تم پر دہشت غالب ہوگی تو مَیں ٹھٹھے ماروں گا جس وقت تمہاری دہشت خرابی کی مانند تمہارے پاس آئے گی اور تمہاری آفت گرد باد کی طرح تم تک پہنچے گی اور جس وقت مصیبت اور جان کندنی تم پر پڑے گی تب وہ مجھے پکاریں گے پر میں جواب نہ دوں گا وہ سویرے مجھ ڈھونڈیں گے پر مجھے نہ پائیں گے )۔یہ آیا تمثیلی اور بطور نظیر (امثال) کے ہیں لیکن اُن کے معنی سہل (آسان )سے سمجھ میں آجائیں گے اور اُن کا مطلب زیادہ صفائی سے ان آیتوں سے حاصل ہوگا۔کیونکہ اُنہوں نے دانائی کا کینہ رکھا اور خُداوند کے خوف کو اختیار نہ کیا سووہ اپنی ہی راہ کے میوے کھائیں گے اور اپنی ہی مصلحتوں سے سیر ہوں گے کہ جاہلوں کی برگشتگی اُنہیں قتل کرے گی اور احمقوں کی کامیابی اُنہیں جان سے مارے گی ۔ پس ان آیات میں سزا دینے کے طریقے بیان کیے گئے ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ بے شک یہ سچ ہے اورکتب مقدسہ میں یہ بیان ہے کہ اس ہی طریقے پر جہان آیندہ میں سزا دی جائے گی فی الحقیقت اگر کوئی آیندہ کی سزا وجزا کے دلائل طلب کرے تو اس کے ثبوت میں صرف یہ بات مکتفی(کافی ،پورا) ہے کہ اکثر گنہگار لوگ گناہ اور بیوقوفی وبد پرہیزی کی راہ میں چلتے ہوئے تنبیہ اورآگاہیاں نیک لوگوں کی طرف سے پاتے اور ملامت بھی کئے جاتے ہیں پر کچھ پروا نہیں کرتے اور اگر وہ اپنے گناہ کے باعث دقت بھی اُٹھاتے تو بھی اُس کو ترک نہیں کرتے ہیں تب یکایک بڑی مصیبتوں میں گرفتار ہوتے اور اس لیے کہ تو بہ کرنے کی فرصت گزرگئی اس لیے افلاس (بھوک پیاس،غربت)وبیماری وندامت اور بدنامی وآخرت کار موت بھی اُن پر آپڑتی ہے اوروہ کسی طرح سے نہیں بچ سکتے ہیں اور یہ ہم خلقت کے طریقوں میں دیکھتے ہیں ۔
ہم نہیں کہہ سکتے کہ ہرنفس اپنے گناہ کا ٹھیک بدلہ پاتا ہے لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے جسے ہم کہہ سکتے ہیں کہ آیندہ کی سزا ضرور دی جائے گی ۔
اگر انسان ایسی باتوں پر غور کریں گے اورخُدا ترسی کو دل میں جگہ دیں گے تو ضرور وہ گناہ کے بدلے اور سزا سے بچ جائیں گے لیکن جو نہیں مانتا تو حال کی اور آئندہ کی سزا کے خطرے میں ضرور رہتا ہے ۔
تیسرا باب
خُدا کی عدالت کے بیان میں جو خلقت سے ظاہرہے
ہم جمیع مخلوقات اور موجودات میں ایسی حکمت وتربیتی دیکھتے ہیں کہ جس سے فوراً معلوم ہوتا ہے کہ ان سب کو خُدائے عالم الغیب نے بنایا اور ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ خوشی ورنج کسی پر بے سبب نہیں آتے بلکہ وہ ہرنفس کے افعال کے بدلے ہیں اس سے بخوبی مُدّلل ہے کہ کل آدم زاد اُسی خُدا کے حکم کے نیچے ہیں اور اس حکم کی راست مثالیں یہ ہیں کہ جس طرح مالک اپنے نوکروں پر اور مجسٹریٹ اپنی رعایا پر حکومت کرتے ہیں اورجیسا کہ باب گذشتہ میں ذکر ہوا کہ گنہگار وں کو ایذا اور نیکوں کو خوشی ملتی ہے اسی طرح یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ دُنیا کا کوئی عالم الغیب حاکم ہے ۔جیسا کہ ہم موجودات کی حکمت وبندوبست پر خیال کرنے سے معلوم کرسکتے ہیں کہ ان تمام چیزوں کا کوئ عالم الغیب بانی ہے ۔لیکن اس مذکورہ بات سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ آیا حاکم بالکل راستباز ہے یا نہیں۔حاکم مُنصف میں یہ صفت چاہیے کہ وہ اپنے ہر ایک بندے کو اُس ہی کے تمام کاموں کا ٹھیک ٹھیک بدلہ دے ۔بعض آدمی خیال کرتے ہیں کہ خُداکی صرف ایک ہی صفت ہے یعنی رحمت اور اُس کے یہ معنی ہیں کہ وہ انسان کے کاموں پر لحاظ نہ کرکے ہر ایک کو صرف خوشی دیتاہے ۔
بالفرض اگریہ سچ ہے تو انصاف کے فقط یہ معنی ہوسکتے ہیں کہ خُدا عقلمندی ودانائی سے رحم کرتا ہے لیکن اگر اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے تو ایسا کہنا امرناواجبی ہے کیوں کہ ایسے مضمونوں کی بابت ہم کو سنجیدگی سے کلام کرنا چاہیے ۔
لیکن ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا ہم دُنیا کی حکومت میں راستبازی اور صداقت دیکھ سکتے ہیں یا نہیں اور اگر طریق حکومت میں یہ صفات ظاہر ہوں توحاکم ضرور راستباز اورصادق ٹھہرتا ہے ۔شاید مخلوقات میں ایسے شخص بھی ہوں جن پر خُدا صرف اپنی رحمت ظاہر کرتا ہے مگر وہ انسان پر ٹھیک منصفی مثال اپنے نوکروں کے کرتا ہے ۔اور یہ بات غور کرنے سے صاف عیاں ہوتی ہے ۔پس انسان کو بے فکر نہ ہونا بلکہ یادرکھنا چاہیے کہ الہٰی حکومت جس کے ماتحت ہم حال میں رہتے ہیں وہ ایک کامل نہیں ہے تاہم اُس میں ہم کسی قدر کامل اخلاقی انصاف دیکھ سکتے ہیں کہ جس سے ضرور یقین ہوتا ہے کہ آیندہ میں درست اور واجبی انصاف جیسا کہ مذہب سکھلاتا ہے ہر نفس کاکامل اورپورے طور سے کیا جائے گا ۔
اور اس بات کا مقصدیہ ہے کہ ہم تفتیش کریں کہ کس قدر اس دُنیا کے انقلاب میں ہم ایسی حکومت جو آیندہ کو کاملیت کے درجہ پر پہنچے گی دیکھ سکتے ہیں۔
اور اس مقام پر ہم پھرکہتے ہیں کہ اکثر بدکار آدمی کی نسبت نیکوکار نہایت خوشحال اور سال رہتا ہے اور یہ تو حکومت کی ایک مثال ہے لیکن ہم نہیں کہہ سکتے کہ نیک کہاں تک تک خوش ہوں اور بد آدمی کس قدر نج اُٹھیں کیونکہ اس دُنیا میں بعض اوقات یہاں تک تبدل اور انقلاب ہوتا ہے کہ نیک آدمی اور خاص کروہ جو پہلے ناپاک تھا لیکن بدی کو ترک کرکے تبدیل ہوگیا بڑی مصیبت میں پڑتا ہے اس سبب سے کہ اُس کے بڑے عادات اس کو دق کرتے ہیں اور وہ افسوس میں ہوتا ہے برعکس اس کے جو ایک بُرا آدمی ہے اور بدی سے شرماتا نہیں بلکہ اپنے گناہوں پر خیال نہ کر کے خوش ہوتا ہے۔ لیکن ایسی مثالیں تھوڑی ہیں اور ہم باآسانی معلوم کرسکتے ہیں کہ جو اوپر بیان ہوا سوسچ ہے کہ اس دُنیا میں بے شک حکومت کا شروع ہے ۔
اب ہم اس بات کو اور زیادہ تشریح کے بیان کرتے ہیں۔
پہلے:۔اگر ہم کو معلوم نہ ہوتا کہ خُدا ہمارا حاکم ہے یا نہیں تب تو البتہ کچھ مضائقہ نہ تھا مگر چونکہ صاف ثابت ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح سے ہمارے اوپر حکومت کرتاہے اس واسطے ضرور خیال کرنے کی جا(جگہ ،مقام)ہے کہ شاید وہ راستباز حاکم ہے ۔
اورجب کہ ثابت ہے کہ خُدا انسانوں کوکسی ترتیب سے سزا یا جزا دیتا ہے تو ہم بلاشبہ خیال کرسکتے ہیں کہ وہ آخر میں اُن کو ان کے کاموں کا ٹھیک بدلہ دے گا کیونکہ ہمارے نزدیک نیکوکاروں کو جزا دے کر خوش کرنا اور بدوں کو سزاسے رنج دینا بہ نسبت اور طرح کے طریق حکومت کے جو ہمارے خیال میں آئے نہایت ہی بہتر ولائق اورمناسب ہے۔
پس خواہ مسیحی مذہب حق ہویا باطل تو بھی یہ بات جو اس میں مبین (ظاہر)ہے کہ خُدا راستی سے ہر ایک آدمی کا انصاف کرے گا۔بیوقوفی اور خیالی ہرگز معلوم نہیں ہوتی ۔کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس طرح کے انصاف کا اسی دُنیا میں شروع ہے اور ہماری عقل ودانش کہتی ہے کہ اس سے بہتر اور عمدہ کوئی اور طریقہ نہیں ہوسکتا۔
دوسرے :۔ہمیں یادرکھنا چاہیے کہ سلامتی وفائدہ اور خوشی ضرور ہماری نیکی وہوشیاری اور دوراندیشی کا انجام ہے اور ناخوشی ورنج ومصیبت بے شک جلد بازی واوباشی اور ضد کی بیوقوفی کے نتائج ہیں اور مثال مذکورہ مخلوقات کی عمدہ تربیت کے ثبوت ہیں ۔مثلاً جب کوئی آدمی اپنے لڑکوں کو سزا دیتا اور سکھلاتا اور اُن کے واسطے اچھا نمونہ بن جاتا ہے تو اس کی بابت کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے لڑکوں کی ٹھیک تربیت کرتا ہے ۔
اسی طرح سے خُدا عام ومستحکم قوانین کے ذریعہ سے دُنیا کی حکومت کرتا ہے کیونکہ یہ تربیت اُسی نے معین کردی ہے کہ ہم نیکی کرنے سے خوشی پائیں اور بدی کرنے سے پریشانی میں پڑیں۔
تیسرے :۔اور ایسے ہی کہ وہ جو بڑے کام مثلاً چوری ودروغ گوئی وظلم وبے رحمی کرتے ہیں وہ سزا پاتے ہیں اور جو ایسے کام پوشیدہ کرچکے وہ اس قدر درد وخوف میں رہتے ہیں کہ جو سزا کے برابر ہے ۔اور یہ ایک حکومت ہے کہ سب کے اوپر ہے جو ملک میں رہتے ہیں۔
اور یہ مذکورہ حکومت خُداسے مقرر ہوئی ہے کیونکہ اُسی نے ہمیں پیدا کیا کہ ایک دوسرے کے تحت میں ایک دوسرے کے محتاج ہیں ۔ پس جب ہم کسی سے ملک کے قوانین کے مطابق سزا پاتے ہیں تو یہ سزا ہم کو خُدا کی طرف سے ملتی ہے ۔
لیکن اعتراض کیا جاتاہے کہ بعض وقت نیکوکارآدمی سزا پاتے یعنی ستائے جاتے ہیں اور بدکار لوگ بے سزا چھوٹ جاتے بلکہ اجر بھی پاتے ہیں سو اس کا جواب یہ ہے کہ دستور اور تربیت تو ایسی معین نہیں کی گئی پس ثابت رہا کہ خالق نے اپنے مخلوق کا بندوبست ایسا مقرر کیا ہے کہ نیکوکار وں کو جزا و خوشی اور بدکاروں کو سزا مل جائے ۔
چوتھے :۔اور خلقت کی تربیت کے مطابق نیک لوگ اپنی نیکی کے سبب جزا پاتے ہیں اور گنہگاروں کو اُن کی بُرائی کا بدلہ ملتا ہے جس سے مسلم الثبوت ہے کہ حکومت مقرر کی گئی اورشروع ہوئی ہے اور وہ بے شک انسانوں کے کاموں سے تعلق رکھتی ہے مگر کامل اور پوری نہیں ہے۔
لیکن ہمیں چاہیے کہ کاموں اور اُن کی صفتوں میں تمیز کریں کیونکہ ایسا ہوتا ہے کہ بعض خواہش کے پورا کرنے سے ایک طرح کی خوشی یا فائدہ ضرور حاصل ہوتا ہے مثلاً حصول مال کی خواہش خواہ ہم اُس کو چوری کرنے سے یا بذریعہ محنت کے پورا کریں تاہم مال دونوں طرح سے وصول ہوتا ہے ۔اور اب اگر چہ چور اورمحنت کش دونوں برابر مال دار ہوجاتے ہیں ،مگر کون کہہ سکتا ہے کہ دونوں کی خوشی برابرہے ۔اب فرق یہ ہے کہ دونوں کام کی صفتیں مُتفرق ہیں کیونکہ ایک کام پاک ہے اور دوسرا گناہ ہے ۔ہم اکثر یہ بات سُنتے ہیں کہ کوئی آدمی افسوس کے ساتھ یہ شکایت کرتا ہے کہ فلانی آفت مجھ پر اتفاقیہ آپڑی ہے لیکن مجھ کو یہ تسلّی ہے کہ میرا کچھ قصور اس میں نہیں ہے اور کوئی یہ کہتا ہے کہ مجھ پر یہ یا وہ آفت آپڑی ہے پر مجھے زیادہ افسوس اس بات سے ہے کہ مَیں نے آپ اپنے گناہ سے یہ آفت اپنے اوپر کھینچی ہے ۔پس معلوم ہوا کہ گھبراہٹ اور خوف انسان کو اس سبب سے ہوتا ہے کہ وہ اپنے تئیں سزا کے لائق جانتا ہے ۔اوربرخلاف اس کے جو نیکی اور مہربانی اور محبت وخیرات کرتا ہے وہ سلیم اور خوش رہتا ہے ۔اور یہاں یہ بات قابل نقل کرنے کے ہے کہ اُن لوگوں میں سے جو مذہب عیسوی کو برحق جانتے ہیں وہ جو گنہگار ہیں ہمیشہ کی ہلاکت سے بہت ڈرتے ہیں جس کے باعث وہ بہت رنج وگھبراہٹ میں رہتے ہیں لیکن وہ جو نیکوکار ہیں ہمیشہ کی زندگی اور نجات کے اُمیدوار ہوکر بہت خوش وخرم رہتے ہیں۔وہ جو اس بات پر زیادہ سوچتے ہیں جانتے ہیں کہ یہ خوشی یا رنج قائم رہتا ہے ۔اورکہ کوئی اس رنج اور سلامتی کی حدود نہیں جانتا ہے ۔
ایک اور بات یہ ہے کہ ایماندو اور نیک بخت آدمی آپس میں ایک دوسرے سے الفت رکھ کر اُن کی مدد کرتے ہیں اوراُن کے واسطے بہت فائدہ مند ہے ۔
اور وہ بدکاروں سے ناراض ہوکر اُن کو ڈانٹتے ہیں جس کے باعث بدکار لوگ بہت ناخوش رہتے ہیں اور گاہے(کبھی) تکلیف میں بھی ہوتے ہیں۔
اور اگرچہ انسان اکثر اپنے یا اوروں کے کاموں میں اخلاق کی کچھ پرواہ نہیں کرتے تاہم وہ جس کو ایماندار اور نیک بخت جانتےہیں ضرور اس کو عزت دیتے اورحتیٰ الامکان اُس کی مدد کرتے ہیں صرف اس لحاظ سے کہ وہ وفادار ہے۔اور وہ جو دیانت دار ومنصف وایماندار اور محبتی اور اپنے ملک کے خیر خواہ ہیں فی الحقیقت اپنے ملک کے لوگوں سے عام عزت اور فائدہ پاتے ہیں۔اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وہ جو بے وفا اور خطا کار ہیں اپنے ہم مُلک لوگوں سے شرم دلائے جاتے اور جلاوطن کیے جاتے اور مارے جاتے ہیں ۔مثلاً ظلم کے سبب سے اکثر لڑائیاں اور مُلک کی تبدیلیاں وقوع میں آتی ہیں کیونکہ آدمی ظلم یا نقصان اُٹھا کر ضرور بدلہ لینے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔اورنیکی وفا ئدہ پاکر شکر گزار ہوتے ہیں۔اور اُن سے جو نیکی کرنے والے ہیں نیکی کرنی چاہتے ہیں ۔اور علاوہ ازیں ایک ہم اور بات جس کو بعض کم قدر سمجھے ہیں دیکھتے ہیں کہ خاندانی حکومت میں لڑکوں کو جھوٹ اور بے ایمانی اور بدکاموں کے بدلے سزا اور نیک کاموں کے عوض اجر ملتا ہے اور اسی طرح مُلک میں بھی اُن کاموں کا جو عام لوگوں کے نقصان کے باعث ہیں ٹھیک بدلہ دیا جاتا ہے جس سے صاف ثابت ہے کہ انسان اپنے دلوں میں نیکی کو پسند کرتے اور بدی سے نفرت رکھتے ہیں اورچونکہ انسان کو یہ لیاقتیں خُدا نے عطا کی ہیں پس وہی اس ترتیب سے اُن پر حکومت کرتا ہے ۔سو ہم دیکھتے ہیں کہ خُدا انسانوں کا ٹھیک انصاف کرے گا ۔کیونکہ اُس نے اب ہی اُس کا شروع کیا ہے ۔
ہم انکار نہیں کرتے ہیں کرتے ہیں کہ بعض اوقات تکلیف اورخوشی نہ صرف نیکی یا بدی کے بدلے میں بلکہ اورترتیب سے بھی دی جاتی ہے کیونکہ کبھی کبھی خُدا ہماری ترتیب کے لیے ہم کو تکلیف یعنی بیماری وغیرہ دیتا ہے ۔
اور شاید یہ سب سے اچھاہے کہ جہاں ایسے عام قوانین کے ذریعہ سے حکم کیا جائے اور کہ ہماری خوشی اور تکلیف ایک دوسرے کے اختیار میں ہیں اور جیسا ہم نے اوپر بیان کیا کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ان قوانین اور اختیارات سے نیک لوگوں کو تکلیف ملتی ہے اور بُرے آدمیوں کو کامیابی حاصل ہوتی ہے لیکن اس سے خُداکی آواز رُکی نہیں رہتی ہے کیونکہ یہ بات اکثر نہیں ہوتی ہے کہ بُرے آدمی کا میاب ہوں اور نیک آدمی پریشان ۔پس ہم بیان مذکورہ بالا سے اپنے خالق کی مرضی پہچان سکتے اور معلوم کرتے ہیں کہ وہ گناہ کے برخلاف اور نیکی کی طرف ہے ۔
اور جس قدر کہ انسان نیک وایماندار ودیانت دار اور محبتی ہے اُسی قدروہ درست اور خُداوند تعالیٰ کا خدمت گزار ہے جس کے باعث اُس کو قوت اور تسلّی ہے اور وہ اُمید بھی رکھتا ہے کہ کچھ اور اجر بھی پائے گا۔
پانچویں :۔یہ اُمید زیادہ مضبوط ہوتی جاتی ہے اس سبب سے کہ کبھی نیکی کا بدلا کسی کی نادانی یا کسی اور کی خطا سے روکا جاتا ہے اور بعض وقت گنہگاروں کی سزا اُن کے بُرے منصوبوں سے رُک جاتی ہے پس نیک لوگ اُمید رکھتے ہیں کہ کسی وقت یہ سب درست اور کامل ہوجائے گا اور جس ملک میں نیکی جاری ہے وہ ملک نہایت زور آور ہے اورسب طاقت اپنے قبضے میں کرلیتا ہے اس لیے کہ اُس میں دانش طاقت پر غالب ہے ۔اورنیکی کی طاقت اس طرح کی تاثیر کرتی ہے کہ اُس ملک کا ہر ایک باشندہ نیکی کو اپنا فائدہ سمجھ کر بڑے غور اور کوشش سے اپنی خبرداری اور حکمرانی کرتا اور تدبیر نکالتا ہے کہ جس کے ذریعہ سے وہ قائم ہو وہ اور سرفرازی پائے ۔اور ملک کے آدمی دیانت داری وایمانداری کے ذریعہ سے متفق ہوکے معتبر اور زور آورہوں ۔اور اگر خیر خواہی اور ملک کاپیاران میں تاثیر کرے تو ٹھیک اوراگر تاثیرنہ کرے تو رہنما کچھ نہیں ہے۔
اور اگر خُدا کی یہ ظاہری دُنیا اور اُس کی حکومت آیندہ حکومت کی ٹھیک تشبیہ ہے یا اگر یہ دونوں ایک ہی بندوبست کے حصے ہیں جن میں کا ایک حصہ ہم دیکھتے ہیں اور دوسرا آیندہ حکومت کا حصہ اُس کے موافق ہے تو ہم آسانی سے خیال کرسکتے ہیں کہ نیکی ضرور سب کے اوپر جو اُس کے بس میں اب تک نہیں ہیں غالب ہوگی جیسے کہ عقل تمام حیوانی طاقت پر غالب ہوتی ہے ۔لیکن نیکی کے واسطے فرصت ضرور ہے اور اگروہ فرصت پائے تو بے شک غالب ہوگی کیوں کہ ہم دیکھتے ہیں کہ سال بسال وہ فتح پاتی ہے اور اگر زندگی زیادہ ہوتی اورعلم وعقل کی ترقی ہوتی تو اور زیادہ ترجلدی نیکی تمام دُنیا پر غلبہ پاتی۔ پس ہم خیال کرتے ہیں کہ بعد اس کے یعنی ابدیت میں وہ ان مذکورہ فوائدکو پہنچے گی اورتب فرصت پاکر سب پر غالب ہوگی اور اپنا ٹھیک بدلہ پائے گی ۔
اور اگر روح غیرفانی ہے اور یہ زندگی ایک سیڑھی ہے کہ جس کے وسیلے سے ہم ایک عمدہ زندگی تک چڑھ جائیں جیسے کہ بچے بڑھ کر آدمیوں میں شامل ہوتے ہیں تو شاید ہم اورعمدہ مخلوق کے ساتھ شریک ہوکر ایک بڑے اورفتح مند گروہ بن جائیں گے کیونکہ نیکی ایک بند ہے یعنی ہر نیک مخلوق دوسری نیک مخلوق کو پیا ر کرتی ہے اور اُس کو اپنا بھائی جانتی ہے اور وہ متفق ہوکر زیادہ مضبوط ہوتی ہیں۔
اگر ہم علم الہٰی میں ترقی پاتے جیسا کہ اورعلموں میں پاتے ہیں تو شاید ہم دیکھ سکتے کہ نیکی اپنے نمونہ سے اور طرح سے آیندہ میں غالب ہوگی جیسا کہ اوپر بیان ہوا ۔یہ ایک بڑی بات ہے لیکن ہم اس دُنیا کا بھید نہیں سکتے ہیں تو اسی طرح ہم خُدا کا آیندہ بندوبست دریافت نہیں کرسکتے ہیں ۔لیکن ان باتوں کو چھوڑ کرہم اس مقام پر ایک خیالی بات کو جس کا ہونا ممکن ہے اور جس سے ہم نیکی کی تاثیر معلوم کرسکتے ہیں مرقوم کریں گے ۔مثلاً زمین پر ایک بادشاہت باشرکت ایسی ہوجو زمانوں تک نیکی میں کامل ہواور اگر چاہو تو وہ بادشاہت ایسی جگہ پر ہوجہاں سے تمام دُنیا پر اختیار رکھے تو ایسی حالت میں کسی طرح تکرارممکن نہیں ہے کیونکہ لوگ بخوشی انتظام ملک ہمیشہ لائق آدمیوں کے ہاتھ میں سونپ دیں گے اور وہ اس اختیار کو آپس میں بغیر حسد کے تقسیم کریں گے ہرایک اُن میں سے وہ کام کرے گا جس کی وہ اوردن سے زیادہ لیاقتیں رکھتا ہے ۔اور وہ جو لیاقتیں نہیں رکھتے اپنے تئیں لائقوں کے اختیار میں سلامت سمجھ کر خوش ہوں گے ۔اور سب کے ارادے یکساں ہوں گے جن کو وہ پورا کریں گے ہر ایک اپنی لیاقت کے موافق عام کا میابی کی ترقی کرے گا ہرایک اپنی نیکی کا ثمرہ (پھل ،نتیجہ )پائے گا۔اور بے انصافی اُن کے بیچ میں بالکل نہ ہوگی نہ تو زبردستی سے اور نہ فریب سے ۔اسی طرح وہ اُس نقص سے جو اوروں میں رائج ہے پرہیز کریں گے ۔اور ہر طرح کالالچ وضد وبغاوت اورجھگڑا لڑکوں کے سے کھیل سمجھے جائیں گےاور اُن کی عوض میں دانشمندی ویگانگت وحب الوطنی وایمانداری اور ملاپ جاری رہیں گے ۔اب خیال کرو کہ ایسی بادشاہت کی تاثیر اور ملکوں پر کیسی بڑی ہوگی اور اور بادشاہتیں اُس کی کیسی تعظیم وتکریم کریں گی ۔وہ بے شک سب بادشاہتوں سے اچھی ہوگی جس سبب سے وہ سب اُس کے نیچے مغلوب ہوں گی ۔اور وہ بادشاہت تمام دُنیا کے اوپر ہوگی نہ کہ جبراً بلکہ سب ملک اپنی حفاظت کے واسطے اپنے تئیں اُس کے اقتدار میں سونپ دیں گے اور اُس کا بادشاہ تمام دُنیا کا بادشاہ ہوگا اور پاک نوشتہ کی بات پوری ہوگی کہ سارے ملک اُس کی خدمت کریں گے ۔اوراب مذہب عیسوی کے انتظا م پر خیال کرو کہ دُنیا کی حکومت یکساں ہے اور نیکی اورحق زور پکڑیں گے اور وہ فریب وزبردستی اور گناہ پر خُدا ہی کی معرفت جو اکیلا مالک ہے غالب ہوں گے ۔اور ہماری عقل اس بندوبست کے ہر ایک حصے میں ترتیب وتعلق دیکھتی اور کہتی ہے کہ نیکی اس طرح سے جیسا اوپر بیان ہوا غالب ہوگی ۔اور اگر کوئی اس بات کو خیالی جانتا ہوتو میں عرض کرتا ہوں کہ وہ خیال کرے کہ اگر گناہ کی صفت ایسی ہوتی جیسی ہم نے نیکی کی بتائی تو دُنیا کا کیا حال ہوتا ۔اوراب ان مذکورہ بالا باتوں سے کئی نتیجے نکلتے ہیں۔
اوّل:۔ کہ خُدا نیکی وبدی کی بابت بے پرواہ نہیں ہے بلکہ وہ نیکی کی طرفاور بدی کے برخلاف ہے ۔سو اگر کوئی انسان مذہب کا انکار کرے اور خلقت کے طریقوں کو دریافت کرے تو وہ معلوم کرے گا کہ آیندہ میں نیکوں کی حالت بہ نسبت بدوں کے اچھی ہوگی ۔پس ثابت ہے کہ مخلوقات کے طریقوں سے عیسوی مذہب کے فرائض ہمارے اوپر واجب ہیں۔
دوم :۔جب کہ انجیلی مذہب کے موافق عیاں ہے کہ خُدا صادقوں کو اجر اورجزا اور نالائقوں کو سزادے گا اور ہرنفس اپنے فعلوں کا واجبی بدلہ پائے گا تو ایسا انصاف بذاتہٰ اُس کے موافق ہوگا جس کو ہم دنیا میں شروع کیا ہوا دیکھتے ہیں ۔اور وہ اس انصاف کاکامل خاتمہ ہوگا۔
سوم :۔ہم خُدا کی حکومت میں دیکھتے ہیں کہ خوشی وتکلیف کامل طور سے نہیں دی جاتیں اس جہت سے ہم سوچتے اور یقین کرتے ہیں کہ آیندہ میں کامل خوشی اور پوری سزا ہرمتنفس کو بموجب اُس کے افعال نیک یا بد کی ضرور دی جائے گی ۔
چوتھا باب
حال کی آزمائش کے بابت کہ اُس میں امتحان وخطرے اور مشکلات ہیں
مذہب کی یہ عام تعلیم ہے کہ حال کی زندگی ایک حالتِ آزمائش ہے تاکہ اُس سے معلوم ہو کہ آیا ہم آیندہ زندگی کے واسطے تیار ہیں یا نہیں اور اس تعلیم مذکورہ کے متعلق کئی ایک باتیں ہیں لیکن اس تعلیم کے صاف اور اوّل معنی یہ ہیں کہ ہمارا آیندہ کا فائدہ ہمارے اب کے کاموں پر موقوف ہے کہ ہم کو نیکی کرنے کے واسطے لیاقت وفرصر ملتی ہے جس کے سبب ہم آگے کو اجر پائیں گے ۔پس یاتو ہم بدی کرسکتے ہیں جس کے واسطے آیندہ میں سزا پائیں گے یا نیکی کرسکتے ہیں ۔جس کے عوض جزا کو پہنچیں گے ۔اور یہ بات اُس کے مطابق ہے جو تیسرے باب میں مذکور ہوئی کہ ہم خالق کی حکومت کے تخت میں ہیں اور اپنے جمیع افعال کا حساب اُس کو دیں گے اور آیندہ کے حساب اور واجبی انصاف کے موافق سزاوجزا دئے جانے سے ثابت ہوتا ہے کہ ہم بدی کرنے کی طاقت رکھتے اور ورغلائے جاتے ہیں ورنہ بدی کرنا غیرممکن ہوتا اور سزا وجزا کا ملتا بھی ایک بیوقوفی بلکہ اَن ہونی بات ٹھہرتی۔پس ہم اس حال کی آزمائش پر جس میں خصوصاًامتحان ومشکلات وخطرے پائے جاتے ہیں غورکریں گے ۔
چونکہ خُدا کی حکومت سے جس کا بیان مذہب عیسوی میں پایا جاتا ہے یہ مراد ہے کہ ہم آیندہ دُنیا کے مقدمات کے واسطے امتحان میں ہیں ویسا ہی اُس کی یہ مراد ہے کہ ہماری آزمائشیں اس دُنیا کے واسطے ہورہی ہے۔حکومت جو کہ سزا اور جزا کے ذریعہ سے کی جاتی ہے آزمائش کو ضرور ظاہر کرتی ہے ۔اور خُدا کی حکومت کے یہ معنی ہیں کہ خُدا ٹھہراتا ہے کہ بعض کام کانتیجہ خوشی اور بعض کا درد اور تکلیف ہے اوروہ ہم کو آگے سے آگاہ کرتا ہے کہ ہمارے کاموں کے نتیجے کیسے ہوں گے اور ہم کو طاقت بھی بخشتا ہے کہ بُرے کاموں سے جن کا نتیجہ بُراہے بازرہیں اور اُن کاموں کوجن کا نتیجہ اچھا ہے کیا کریں تو ثابت ہوا کہ اُس نے ہمارا فائدہ اور نیک بختی ہمارے کاموں پر موقوف رکھی ہے۔اور جب کہ انسان کسی کام کے کرنے کا شوق رکھتا ہو اور اُس کام کانتیجہ بُرا ہے تب وہ اپنا نقصان کرنے کے خطرے میں ہیں یعنی وہ اُس کام کی بابت امتحان میں ہیں۔آدمی کبھی آپ پر اور کبھی اور وں پر اپنی بھول چوک اور نقصان کا عیب لگاتے ہیں ۔اور ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ انسان اپنا نقصان آپ کرتے اور اس خوشی سے جو وہ پاسکتے ہیں قاصر رہے ہیں۔اور بہت سے آدمی خاص کر اپنے قصوروں کے سبب سے اپنے تئیں دُکھ اور تکلیف اور مصیبت میں ڈالتے ہیں ۔سووہ باتیں ضرور امتحان اور خطرے ظاہر کرتی ہیں۔ اور ہر ایک شخص خواہ وہ مذہب پر یقین کرتاہے یا نہیں تو بھی ہمیشہ خیال کرتا ہے کہ جوان آدمی جب کوئی کام شروع کرتے ہیں تو ضرور خطرے اور اندیشے میں پڑتے ہیں کہ شاید اُس میں کامیاب ہوں یا نہ ہوں اور یہ خطرے نہ صرف لڑکوں کی نادانی سے ہوتی ہیں بلکہ اس کے اور بھی سبب ہیں۔ اورجب ہم اُن بُرے کاموں کا جن سے ہمارا نقصان ہوتا ہے شوق رکھتے ہیں تو یہ شوق ایک طرح کی آزمائش ہے جو کہ اگر پوری ہوتو ہم اپنا حال اور آیندہ کی خوشی کھودیتے ہیں۔پس ثابت ہے کہ جیسے ہم قیامت کی بابت امتحان ومشکلات اورخطرے میں ہیں اسی طرح دُنیا کی بابت بھی ہیں ۔اور یہ بات زیادہ ثابت ہوگی اگر ہم خیال کریں کہ (روحانی اورجسمانی )آزمائشوں میں کیا فرق ہے اور انسان اِن دونوں طرح کی آزمائشوں میں کیسے چلتے ہیں۔ اور وہ بات جس سے ہماری آزمائش ان دونوں حالتوں میں زور پکڑتی ہے یا تو ہماری خاصیت میں یا ہماری کیفیت میں پائی جاتی ہے ۔کیونکہ اکثر ایسا واقع ہوتا ہے کہ وہ آدمی جن کے چال وچلن درست ہیں اور جو کہ اوسط درجے کی آزمائشوں میں بے قصور ٹھہرتے ہیں اتفاقاً بڑی آزمائش میں پڑ کر یا سخت ورغلائے جاکر گناہ کرتے ہیں اور تب اور آدمی ایسوں کی خطا ؤں کی بابت یہ کہتے ہیں کہ اُنہوں نے آزمائش کے سبب سے یا اپنے حال کے ذریعہ سے کیا ہے ۔اور برخلاف اس کے بہت سے آدمی جنہوں نے بُری عادتیں سیکھی ہیں جن کے سبب سے اُن کی بُری خواہشیں زور آور ہوگئی ہیں وہ جب گناہ کریں تب کوئی اُن کے بُرے کاموں کے واسطے اعتراض میں یہ نہ کہے گا کہ وہ اپنی کیفیت کے سبب سے قصور میں مبتلا ہوئے بلکہ ہر ایک کہے گا کہ وہ اپنی بُری خواہشوں کی عادت کے سبب سے گناہ کرتے ہیں۔ اور اس سابق الذکر بات کا بیان یہ ہے کہ جیسا انسان بُری عادتوں اور خواہشوں کے سبب اپنا دُنیاوی نقصان کرتا ہے ویسا ہی اپنی بُری خواہشوں کے پورا کرنے سے وہ نیکی اور دینداری کے برخلاف ہوکر اپنا روحانی نقصان کرتا ہے ۔پھر جب ہم کہیں کہ ہم باہری کیفیت کے ذریعہ سے امتحان میں پڑتے ہیں تو ثابت ہے کہ ہم میں کوئی قلبی خواہش ہے جو اُن باہری کیفیت میں بدتمیز کرکے اُن کے ساتھ ہمارے گناہ میں مبتلا ہونے کا سبب ہوتی ہے ۔اور جب ہم کہیں کہ ہم بُرے کام کرنے سے گنہگار ہوتے ہیں توثابت ہے کہ ہمارے دل کے باہر کوئی چیز ہے کہ جس سے ہماری بُری خواہش پوری ہوتی ہے پس صاف ثابت ہے کہ بیرونی اور اندرونی آزمائشیں یکساں ہیں اور ایک دوسرے کو ثابت کرتی ہیں۔
اب اس دُنیا میں وہ سب چیزیں موجود ہیں کہ جن کو ہماری رغبت وشہوت اورمحبت پسند کرتی ہیں اور کبھی ہم ایسی چیزیں نیک طرح سے اور بغیر گناہ کرنے کی حاصل کرسکتے ہیں اور کبھی اُن کے حاصل کرنے میں گناہ ہوتا ہے ۔اور جب ہم اس میں گناہ کریں تو ہم اپنا جسمانی اور روحانی نقصان کرتے ہیں ۔پس ثابت ہے کہ ہم اپنی شہوتوں کے ذریعہ سے دُنیا کی اور انصاف کے دن کی بابت آزمائش پرہیں ۔اور آزمائش یہ ہے کہ کیا ہم اپنی اب کی ذرا سی خوشی حاصل کرنے کے واسطے اپنا دُنیا وی فائدہ کھوئیں گے یا نہیں اگر ہم دوراندیشی کریں تو ہم ضرور اپنی ذرا سی خوشی اورآرام کو ناچیز سمجھیں گے تاکہ اپنا فائدہ حاصل کریں۔اور یہ ہمارے روحانی حال کی ٹھیک مثال ہے کیونکہ جو کچھ مذہب کے مطابق نیکی ہے اگر ہم اُس کو کیا کریں تو اپنا ہمیشہ کا فائدہ حاصل کرتے ہیں ۔اور ہم دیکھتے ہیں کہ جس طرح انسان دُنیا وی آزمائش میں پڑکے اپنا دُنیاوی نقصان کرتے ہیں ویسے ہی روحانی آزمائش میں ہوکر اپنا ہمیشہ کا نقصان کرتے ہیں۔پس صاف ثابت ہے کہ ہماری جسمانی مشکلات وخطرے اور آزمائشیں ہماری روحانی مشکلات وخطرے اور آزمائشوں کی ٹھیک اور صحیح تشبیہیں ہیں۔
اس کے سوا یہ بات بھی ہے کہ ہم مذہب کے طریقوں میں سے اکثر اوروں کے بدکاموں کے ذریعہ یا بُری تعلیم سے یا بدنمونوں سے اور بُرے دستور وں سے اور کبھی اہل ِمذہب کے وسواس سے بہکا ئے جاتے ہیں ۔اسی طرح بموجب اس مثال کے ہم اپنی دنیاداری کی دور اندیشی کی راہ میں سے بُری تعلیم سے اور جب جوان ہوتےتو اوروں کی بد پرہیزی اور غفلت کے سبب سےبھٹک جاتے اور اس دُنیا کی خوبیوں سے محروم رہتے ہیں ۔اور ہم اپنی غفلت وبیوقوفی سے اپنے تئیں خطرے اورنقصان کے دریا میں یہاں تک ڈبو دیتے ہیں کہ آگے کو نہین معلوم کرسکتے ہیں کہ فرض کی راہ کونسی ہے ۔ پس ہم دیکھتے ہیں کہ ہم دُنیا کی آزمائش پر ہیں اور اسی طرح ہم روحانی آزمائش پر بھی رہتے ہیں۔
اور ایک بات یہ ہے کہ ہم مخلوقات میں چھوٹے درجے پر ہیں اورعقل واخلاق میں فرشتوں اور کروبیوں سے کمزور ہیں اور اپنا دُنیاوی اور عاقبت کا فائدہ اور آرام ٹھیک نہیں سمجھتے ہیں۔لیکن اس سبب سے ہم عذر نہیں کرسکتے ہیں کیونکہ ہمارے فرائض ہماری عقل وطاقت سے باہر نہیں ہیں ۔ پس ہم اپنے خالق سے ناراض نہیں ہوسکتے ہیں اور ہم نے اس باب میں ثابت کیا سو یہ ہے کہ وہ حال کی آزمائش جو مذہب عیسوی میں مبین ہے ٹھیک ٹھیک ہمارے دُنیاوی امتحانوں کے موافق ہے کیونکہ ہم بہت محنت اورپرہیزگاری اورتکلیف وخطرے سے دُنیاوی فائدہ اور خوبیوں کو حاصل کرتے ہیں۔ پس اغلب ہے کہ ہماری روحانی آزمائشیں اور تکلیفیں اور محنتیں ہماری آیندہ کی خوبیوں کے حاصل کرنے کے واسطے مقرر ہیں۔
پانچواں باب
یہ حال کی آزمائش ہماری تربیت اورترقی کا باعث ہے
جب ہم اپنے تئیں اس حال کی آزمائش میں دیکھتے ہیں جس میں اس قدر بہت سے خطرے ومشکلات اور آزمائشیں بھی ہیں تب یہ سوال ضرور دل میں آتا ہے کہ کس سبب سے ہم اس حال میں رکھے گئے ہیں۔لیکن ایسے سوال کا جواب دینا نہایت مشکل بلکہ غیر ممکن ہے ۔اگرچہ ہم خیال کریں کہ گناہ ایک خوشی کی بات ہےیعنی ہم مجبور ہونے سے گناہ نہیں کرتے ہیں۔اور بہت سی مشکلات ہیں کہ جن سے اچھا نتیجہ نکلتاہے مگر توبھی ہم سبب نہیں بتلاسکتےہیں کہ کیوں اس حال امتحان میں ہیں ۔اور ہم نہیں جان سکتے ہیں کہ اُس سوال مذکورہ کے جواب سے ہم کو کچھ فائدہ مِل سکتا ہے یانہیں۔ اور جیسا ہمارے حال اور خُدا کی حکومت میں موافقت ہے ویسا ہی عیسوی مذہب میں سکھلایا گیا ہے کہ ہم اس حال امتحان میں اس واسطے رکھے گئے ہیں کہ ہم اپنے تئیں نیکی کرنے سے ایک آنے والے حال کے لیے تیار کریں ۔اور اگرچہ یہ بات بھی اُس سوال کا پورا جواب نہیں ہے تو بھی وہ ایک اور سوال کا جواب ہے یعنی ہمارا یہاں کا یعنی اس دُنیاکا کیا کام ہے ۔پس ہم اس تکلیف وخطرے کی حالت میں اس واسطے رکھے گئے ہیں تاکہ ہم نیکی و دینداری میں ترقی پاکر ایک سلامتی اور خوشی کی جگہ کے واسطے تیار ہوجائیں۔
اور جس طرح ہم اپنے بچپن اور نوجوانی میں ایام بلوغیت کے کاموں اور دستوروں کے واسطے تیار کیے جاتے ہیں ویسے ہی اغلب ہے کہ ہم اس دُنیا میں ایک اور حال کے واسطے بن جائیں اور ذیل کی تشبیہوں سے معلوم ہوگا کہ اب کی زندگی کے حال امتحان ایک اور زندگی کے لیے ہیں ۔
پہلے:۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہرایک جاندار کسی خاص طرح کی زندگی کے واسطے بنایا گیا اور ہر ایک جاندار کی ذات ولیاقت اور مزاج وغیرہ ویسے ہی درکار ہیں جیسے اُن کے باہر کا حال اُن کے واسطے درکار ہے ۔پس اندرونی ذات اور باہری حال ضرور اُن کی زندگی کے حصے ہیں۔
اور ہم خیال کرسکتے ہیں کہ انسان کی خاصیت یا لیاقتیں یہاں تک بدل سکتی ہیں کہ وہ اس جہان کے طریقوں سے بالکل نامطابق ہوں ۔گویا کہ اُس کے واسطے یہاں کچھ کام ہی نہیں یا اُس کے اشتہا(بھوک ،خواہش )اور خواہش اور محبت کے پورا ہونے کے واسطے اس دُنیا میں کچھ چیز ہی نہیں ہے ۔ لیکن حال یہ ہے کہ ہماری خاصیت اور باہری حال میں موافقت ہے ۔اور اگر ایسی موافقت نہ ہوتی تو انسان کا خوش ہونا اَن ہونی بات ہوتی کیونکہ ہماری خوشی ہماری خاصیت اور حال کی موافقت سے نکلتی ہے ۔پس ہم نہیں کہتے ہیں کہ آیندہ زندگی میں کونسا کام یا خوشی ہوگی ۔لیکن ہم کہہ سکتے ہیں کہ جیسا اس دُنیا کی خوبیوں سےخوشی پانے کے واسطے کچھ تیاری ضرور ہے ویسی ہی آنے والی خوشی پانے کے واسطے کچھ تیاری یعنی موافق خاصیت رکھنے کی ضرورت معلوم پڑتی ہے۔
دوسرے:۔ انسان کی خاصیت اوردیگر حیوانات کی ذات بھی ایسی ہے کہ وہ تربیت پاکر زندگی کی اُن حالتوں کے واسطے تیار اور لائق ہوسکتے ہیں کہ جن کے واسطے وہ پیشتر بالکل ناقابل اور ناموافق تھے ۔ہم علم اور سچائی کو نہ صرف پہچان سکتے اور حاصل کرسکتے ہیں بلکہ اُن کو یا د میں رکھنے کی طاقت و لیاقت رکھتے ہیں۔
ہم کام کرنے کے ذریعہ سے نہ صرف خوشی کی نئی تاثیرپاسکتے ہیں بلکہ ہم کام کرنے کے لیے لیاقتیں اور نیا مزاج اور عادتیں حاصل کرسکتے اور اُن میں ترقی پاسکتے ہیں ۔اور تفتیش ومباحثہ اور یادکرنے کی طاقت اور لیاقت کہ جن سے ہم علم کو حاصل کرتے ہیں کام میں لانے سے بہت مضبوط ہوتے جاتے ہیں ۔ہاں مُکرم(معزز)ہم کہتے ہیں کہ انسان میں دریافت ومباحثہ اور یاد کرنے کی طاقت ولیاقت مشق کرنے سے زور پکڑتی ہے ۔
دریافت کرنے اور کام کرنے کی عادتیں ہیں ۔دریافت کرنے کی عادت ان تشبیہوں سے معلوم ہوں گی ۔مثلاً ہم کسی چیز کے ڈیل باکس مسافت کے پہچاننے میں بیشتر بھول اورسہوکرتے ہیں اور دفعتہً ناپنے اوردیکھنے سے ہم چیزوں کے ڈیل اور دوری کی پہچان میں ہوشیار ہوسکتے ہیں ۔اور کوشش کرنے سے ہم ایسی عادتیں پاتے ہیں کہ ہم لفظوں کے دیکھنے اور سُننے سے زبانوں کے سیکھنے میں بہت ہوشیار ہوجاتے ہیں ۔اور بہت لکھنے اور پڑھنے اور بولنے سے ہم نوشتہ خوانداور گفتگو میں نہایت مشاق (ماہر)ہوجاتے ہیں ۔
اور بدن اورقلب کی بھی عادتیں ہیں مثلاًکوشش کرنے سے آدمی بہت تعظیم پاجاتا ہے اور جو کوئی سچ بولنے کی مشق کرتا تو وہ سچ بولنے کا عادی ہوجاتا ہے ۔اچھی عادتیں یہی ہیں اور بُری عادتیں بھی ہیں اور وہ بڑھ جاتی اور کامل بھی ہوجاتی ہیں اور ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ کہاں تک کامل ہوسکتی ہیں۔ پس ہم دیکھتے ہیں کہ جب ہم کسی طریقے پر دیر تک چلتے تو ہم اس پرآسانی سے اور کبھی بہت خوشی سے بھی چل سکتے ہیں ۔ہماری طبیعت اس طریقے کو قبول کرتی اور جو مشکلات اُس میں معلوم پڑتی تھیں وہ جاتی رہتی ہیں بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ صرف خیال میں رہتی تھیں ۔اور ہمارے ارادے وغیرہ روز بروز زور پکڑتے ہیں اور رفتہ رفتہ گویا کہ ہم بالکل نئی طبیعت اور خاصیت رکھتےہیں ۔اور جو بات کہ پیشتر خاصیت میں نہ تھی وہ عادتوں میں شامل ہوکے گویا کہ خاصیت میں بھی شامل ہوجاتی ہے ۔
تیسرے :۔ہم جانتےہیں کہ اگر عادت ڈالنے کی طاقت کہ جن کے ذریعہ سے ہم علم وہنر وغیرہ میں ترقی پاتے رہتے ہیں ہم کو درکار وضرور نہ ہوتیں تو وہ ہم کو عنایت نہ ہوتیں ۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اگر عادت ڈالنے کی طاقت اور لیاقت ہم کو نہ دی جاتی تو ہم کسی طرح اپنے دُنیاوی کام کے واسطے لائق اور تیار نہ ہوسکتے ۔
ہم اپنی خاصیت سے اپنے کام کے واسطے نہ تو بالکل اور نہ ایک دم سے تیار ہیں ۔ہماری بدی کی طاقت اور فہم کی لیاقت استعمال کی رو سے رفتہ رفتہ بڑھ کر آخر کامل ہوجاتی ہے ۔اگرکوئی شخص اس دُنیا میں جوان اور بدن کی طاقت اور فہم کی لیاقت میں کامل ہوکے پیدا بھی ہوسکتا تو بھی وہ ایک پاگل آدمی کی مثل کام کرنے میں حیران اور نہ تیار ہوتا۔اور ہم نہ جان سکتے کہ کس قدر عرصے بعد وہ اپنے کام اور حال سے واقف ہوتا اور اپنے معمولی کام کرنے لگتا ۔اور ہم شک بھی کرتے کہ کیا اُس کی آنکھ اور فہم تجربہ کاری پانے اور عادت ڈالنے کے پیشتر کام میں آتیں یا نہیں ۔اوراگر وہ تجربہ کاری جو ہم سیکھ سکتے ہیں اُس میں نہ ہوتی تو وہ آدمی قابل ملاقات نہ ہوتا جیسا کہ گونگا آدمی ہوتاہے۔
پس ثابت ہے کہ انسان خاصیت سے ناکامل اور ناقص مخلوق ہے اور جب تک کہ وہ علم اورتجربہ کاری اور عادت حاصل نہ کرے تب تک اپنی زندگی کا کام نہیں کرسکتا اور اس مقصد کو جس کے واسطے وہ پیدا ہواتھا پورا نہیں کرسکتا ہے اور جیسا ہم خاصیت سے علم وتجربہ اور عادتیں حاصل کرنے کی لیاقتیں رکھتے ہیں ویسی ہی ہم اُس حال میں رکھے گئے ہیں کہ جس میں درجات مذکورہ ضرور ہیں اور جنہیں ہم حاصل کرسکتے ہیں۔مثلاً اطفال اپنی پیدائش سے روز بروز اُن چیزوں اورحالات سے جن میں وہ جوان ہوکے مشغول ہوں گے زیادہ واقف ہوتے جاتے ہیں اور اپنے آیندہ کاموں کے واسطے تیار ہوجاتے ہیں ۔اور اگر ہم لڑکپن میں علم وعادات اورتجربہ کاری حاصل نہ کریں تو آگے کو ہمارا نقصان ہے ۔پس ہماری زندگی کی پہلی اوقات ایک حالت ہے کہ ہم کامل آدمی ہونے کے واسطے تیارہوں ۔ویسے ہی غالب ہے کہ خُدا نے اس دُنیا کو ہمارے لیے حال امتحان مقررکیا ہے تاکہ ہم سیکھ کے آنے والی زندگی کے واسطے یعنی آسمان کے لیے تیارہوجائیں۔
چوتھے :۔ جب ہم ایسے خیال کریں اور پھر یادمیں لائیں کہ آیندہ خوشی کرنے کے واسطے نیکی اور دینداری ہماری طبیعت میں ضرور ہیں تب ہمیں صاف معلوم ہے کہ امتحان حال کس طرح سے ہم کو اُس آنے والی خوشی کے لیے تیار کرانا ہے کیونکہ ہم نیکی اوردینداری میں ترقی چاہتے ہیں اورہم اچھی اچھی ونئی عادتوں کے ڈالنے سے نیکی اوردینداری میں ضرور ترقی پاسکتے ہیں۔اور حال کی زندگی لائق ہے کہ آنے والی زندگی کے لیے حال امتحان اورتیاری ہو جیسے کہ بچپن اورلڑکپن عالم جوانی کے واسطے حال امتحان اور حال تیاری ہے ۔اور اب کے حال میں ہم کوئی بات ایسی نہیں دیکھتے ہیں کہ جس سے یہ خیال غالب ہوسکے کہ لوگ الگ الگ بیکار رہیں گے بلکہ بہت سی تشبیہیں ہیں کہ جنسے ہم سوچیں کہ جیسا کتاب مقدس میں لکھا ہے کہ وہاں جمعیت ہوگی ۔اور کوئی تشبیہ ایسی نہیں ہے کہ جس سے یہ ظاہر ہو کہ اغلب ہے کہ آیندہ حالت کی جماعت جیسی نوشتوں میں بیان ہے خُدا کی خاص حکومت کے نیچے نہ ہوگی ۔اور اگرچہ ہم نہیں جانتے کہ ہم اپنی نیکی اور ایمانداری اور محبت کے استعمال کرنے کے واسطے کونسی فرصتیں پائیں گے تو بھی ہماری اس بات کی ناواقفیت ثابت نہیں کرتی کہ فرصت ہم کو نہ ملے گی ۔اور ہماری ناواقفیت ثابت نہیں کرتی کہ وہ عادتیں اور خاصیتیں جو اس دُنیا کے کام میں بن جاتی ہیں آسمان میں کام نہ آئیں گی ۔اور یہ بھی اقرار کرنا چاہیے کہ خُدا کی حکومت ہے اور اس سبب سے اُس کے شریکوں کے واسطے ایک نیک اور دینداری کی خاصیت ضرور ہے۔
مذکورہ بالا کے بیان سے ثابت ہے کہ ہم تربیت میں ترقی پاسکتے ہیں۔اور اُس کی ضرورت سے کوئی بھی جو اس دُنیا کی بدی سے واقف ہے انکار نہ کرے گا چنانچہ وہ جو سب سے اچھے ہیں اُس کی ضرورت کو کچھ معلوم کرتے ہیں۔انسان اپنی خاصیت سے گنہگار ہونے کے خطرے میں ہیں اور اغلب ہے کہ وہ اگر اچھی عادتیں حاصل نہ کریں تو ضرور گناہ کریں گے ۔اگر ہماری خواہش اورپیار بُرائی پرلگیں اور احکام اور اچھی عادتوں پر رجوع نہ کریں تو ہم ضرور گناہ کریں گے ۔لیکن جب ہماری خواہش اور پیار وغیرہ احکام میں تربیت پائیں اور ہم اچھی عادتیں ڈالیں تو ہم بہت خطرے میں نہیں ہیں۔بلکہ آزمائش کے مقابلہ کرنے میں قائم اور روز برو ززیادہ مضبوط ہوں گے جیسے کہ وہ جو بُرے کام کرنے کی عادتیں ڈالتے ہیں ۔روز بروز زیادہ کمزور ہوجاتی ہیں کیونکہ اگر ہم تین چار دفعہ نیکی کریں تو نیکی کرنے کی عادتیں مضبوط ہوتی جاتی ہیں اگر ہم تین چاردفعہ گناہ کریں تو گناہ کرنے کی عادت زور پکڑتی ہے۔ سواگر ہم ضرور حکومت کے ماتحت ہیں تو ہم نیکی کی عادتوں سے نیکی اور دینداری میں ترقی پاکر خوشی میں بھی ترقی پاتے رہیں گے ۔اور جب ہم خیال کریں کہ انسان نے اپنی بدفعلی سے اپنی خاصیت کو بالکل بگاڑا ہے اور اپنی پہلی اصلی نیکی سے بالکل سرکشی کی ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ اُن کے واسطے ایک حال امتحان یا کوئی اور طرح کی تجویز ضرور ہے ۔کہ جس کے ذریعہ سے وہ آسمان کے اخلاق اور نیکی کے واسطے تیار ہوجائیں۔
جب کہ صادق لوگوں کو صداقت میں ترقی کرنی چاہیے تو کتنا زیادہ بُری لوگوں کو بُرائی اور بُری طبیعت سے نجات پانا اورنئی پیدائش حاصل کرنا چاہیے ۔صادق لوگوں کو حال امتحان میں ہر طرح کی نیک تعلیم اور تربیت ضرور ہے تو فی الحقیقت بُرے لوگوں کو زیادہ ترتربیت اورتعلیم لازم و ضرور ہے تاکہ وہ اچھی عادتیں ڈالیں اوراپنی پہلی اور اصلی طاقت حاصل کرکے اپنے تئیں بُرے کاموں سے بچا کر نیکی اور دینداری کی قائم حالت کو پہنچیں ۔ اور اب جوکوئی بغور خیال کرے گا اُس کے دل میں کامل یقین ہوگا کہ یہ دُنیا ایک ایسا حال امتحان ہے کہ جس میں ایسے انسان نیکی میں بہت اچھی طرح تعلیم وتربیت پاسکتے اور اس میں ترقی بھی کرسکتے ہیں ۔چنانچہ ہمارے چاروں طرف آزمائشیں ہیں۔تمام گنہگار وں میں فریب وبے رحمی وخون ریزی وغیرہ ہوتی ہیں اور اُن گناہوں کے سبب سے بہت سی بے ترتیبیاں اور تکلیفیں اور رنج اور دُکھ وغیرہ سبھوں کے اوپر آتی ہیں۔یہ سب باتیں ہماری تربیت کے لیے ہیں۔ کیونکہ جب ہم دیکھتے ہیں کہ خُدا گنہگاروں کو اس قدر دُکھ اور نیکوکاروں کو اس قدر خوشی اور شادمانی دے سکتا ہے تو ہم ضرور نیکی کو پسند کریں گے اور بدی سے متنفر ہوں گے ۔اور اگر ہم اچھی عادتیں ڈالیں تو ہم اپنے تئیں خطرے سے بچاکر خوشی حاصل کرنے کے قابل کرسکتے ہیں ۔ اس لیے کہ اچھی عادتیں ڈال کے ہم آزمائشوں پر غالب ہوں گے صرف نیکی اور دینداری کے کا م کریں گے ۔اور جب ہم اس طرح سے اس دُنیا میں خوش ہوسکتے ہیں تو ضرور اگر آسمان ایک پاک جگہ ہے اور اس میں حکومت جاری ہے یعنی اگر نیک اور پاک لوگ خوش ہوسکتے ہیں تو ہم اس دُنیا میں پاکیزگی اور نیکی رکھ کے آسمان کے لیے تیار ہوتے ہیں۔
چھٹا باب
تقدیر کی تعلیم سے ہمارے کاموں پر کونسی تاثیر ہوتی ہے
پہلے بابوں میں مذکور ہوا کہ خُدا کی حکومت جو مخلوقات میں ظاہر ہے اُس کی دینی اور آیندہ حکومت کی ٹھیک تشبیہ ہے۔اگر کوئی کہے جیسا کہ تقدیر کے ماننے والے ضرور کہتے ہیں کہ مخلوقات کے طریقوں سے تقدیرمعلوم ہوتی ہے تو اُس کو ضرور اقرار کرنا پڑے گاکہ خُدا کی دینی اور آیندہ حکومت میں اور اُن کے ثبوت میں بھی تقدیر ہے ۔پس ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ اگر مخلوقات کے طریقوں میں تقدیر ظاہر ہے تو وہ ضرور مذہب میں بھی شامل ہوگی ۔اورکوئی شخص تقدیر کے ذریعہ سے ثابت نہیں کرسکتا کہ مذہب نہیں ہے ۔کیونکہ اُس کے مزخرفات (مزخرف کی جمع ، جھوٹی باتیں ) آسانی سے ظاہر ہوگی اورآسانی سے باطل ہوجائے گی ۔ہم نے شروع سے قبول کیا گویا کہ ثابت کیا کہ دُنیا کا ایک ہی عاقل خالق ومالک ہے ۔لیکن اس تعلیم کے برخلاف تقدیر کی تعلیم ایک اعتراض ہوسکتی ہے ۔اس لیے کہ اگر تقدیر ہوتو وہ سب چیزوں کے وجود مضبوط ہونے کا موجب ہوسکتی ہے تو ضرور ہے کہ اعتراض کو رد کریں۔اور پہلے ہم بتائیں گے کہ کوئی ایسی تقدیر کہ جس سے ایک عاقل خالق ومالک کے وجود کا ہونا رد ہو ہمار ی تجربہ کاری میں معلوم نہیں ہوتی ہے ۔اورتب ہم ثابت کریں گے کہ کوئی ایسی تقدیر نہیں ہوسکتی ہے جس سے مُدّلل ہوکہ حاکم نہیں ہے یا کہ ہم مذہب کے حال یعنی حال امتحان میں نہیں ہیں۔
جب کوئی تقدیر کا مقر(اقرارکرنے والا)کہے کہ مخلوقات کے سب طریقے اور آدمیوں کے تمام کام اور اور سب کچھ اور کُل اشیاء کی تمام حالت بالضرور شروع سے ٹھہرائی گئی اور کسی اور طرح سے نہیں ہوسکتی تھی۔تب معلوم ہو کہ اس طرح کی تقدیر کے ذریعہ سے نہ خیال کرنے نہ تمیز کرنے نہ پسند کرنے کی طاقت موقوف ہوتی ہے ۔اور نہ انسان اُس کے سبب سے روکے جاتے ہیں بلکہ وہ اپنا کام اپنے ارادے اور مقصد کے مطابق کرسکتے ہیں کیونکہ ہم ہر وقت یہ حال دیکھتے اور معلوم کرتے ہیں کہ اُن باتوں میں تقدیر نہیں ہوتی ہے۔پس ثابت ہے کہ تقدیر آپ مخلوقات کے وجود اور قائم ہونے کا سبب نہیں ہوسکتی ۔اور اُس کی بابت صرف یہی بات کہی جاسکتی ہے کہ اُس ذریعہ سے مخلوقات کے طریقے اور کسی طرح سے نہیں ہوسکتے تھے۔
اگر دریافت کیا جائے کہ کیا مخلوقات کا کوئی عالم خالق ہے یا نہیں اور اُس کے جواب میں کوئی کہے کہ سب چیزیں تقدیر کے مطابق ہیں تو یہ اُس سوال کا جواب نہیں ہوا بلکہ اس سوال کا جواب ہوگا کہ کیا سب چیزیں تقدیر کے مطابق ہیں یا آزادگی کے طریقوں پر ہیں ۔اگر ایک تقدیر کا ماننے والا اور ایک خود مختاری کامقر دونوں اتفاقاً ایک گھر میں آئیں تو دونوں اقرار کریں گے کہ وہ گھر کسی سے بنایا گیا ہے ۔اوروہ فرق جو اُن کی رائے میں ہوگا تو اس سوال کی بابت ہوگا کہ کیا اُس کے بانی نے اُس کو بسبب تقدیر سے مجبور ہونے کے بنایا یا خود مختار ہورک تعمیر کیا ۔اسی طرح اگر وہ خلقت کے بنانے کی بابت بات کریں تو وہ سوال جو ان کے درمیان ہوگا سویہ ہے کہ کیا مخلوقات تقدیر کے طریق یا خود مختاری کے طریقوں پر پیدا ہوتی ہے ۔تب دونوں ضرور کہیں گے کہ بنانے والا ہے کیونکہ خیالی باتوں سے کچھ چیز پیدا نہیں ہوتی ہے ۔
حاصل کلام یہ ہے کہ تقدیر کی تعلیم سے بھی ثابت ہے کہ ایک آزاد وعلیم پیدا کنندہ ہے جو سب چیزوں کا مالک بھی ہے ۔اورجب کہ یہ ہے تو تقدیر کچھ نہیں ہے۔
اور ان باتوں سے یہ نتائج نکلتے ہیں ۔پہلے ۔جب کوئی قائل تقدیر شخص کہے کہ سب چیزیں تقدیر کے وسیلے سے موجود ہوتی ہیں تو ضرور اُس کے یہ معنی ہیں کہ وہ ایک خالق سے جو تقدیر سے مجبور ہوا ہے پیداکی گئیں ہیں ۔ اور پھر وہ تقدیرجس سے بنانے والے نے مجبور ہوکر کام کیا عقل اور منصوبہ سے خالی نہیں ہے ۔
پس اگر تعلیم تقدیر تسلیم کی جائے تو وہ خالق کے وجود ہونے کا سبب نہیں ہوسکتی ہے جس طرح کہ وہ کسی گھر کا بانی نہیں ہوسکتی ہے ۔ اگر ہم اقرار بھی کریں کہ تقدیر ہوسکتی ہے تو بھی ہم مخلوقات کے بنانے اور اُس کے طریقوں میں ایسی تدبیر دیکھتے ہیں کہ ہم ضرور اقرار کریں گے کہ اس کا کوئی عالم خالق ومالک ہے ۔
اور اب ہم نے دیکھا ہے کہ تقدیر کی تعلیم اُن دلیلوں کو رد نہیں کرتی ہے کہ جن سے ایک خالق ومالک کا وجود ہونا ثابت ہے ۔
اب ایک اور سوال یہ ہے کہ کیا تعلیم مذکور اس یقین کو باطل ٹھہراتی ہے کہ ہم مذہب کے فرائض کے تحت میں ہیں اور کیا تعلیم تقدیر مذہب اور اُس کی دلیلوں سے کچھ نسبت یا موافقت رکھتی ہے یا نہیں ۔
اب خیال کرو کہ کوئی شخص اپنے بیٹے کو اُس کے بچپن سے جبراً تقدیر کی تعلیم سکھائے اور وہ لڑکا اُس تعلیم مذکور پر غور کرے اور یہ صحیح نتیجہ نکالے کہ اب میں بسبب تقدیر کے مجبور ہوں اور اگر کوشش بھی کروں تو بھی اپنا چال چلن نہیں بدل سکتا کیونکہ میری تقدیر میں ایسا ہی لکھا ہے اس سبب سے کوئی مجھے ملزم نہیں ٹھہرا سکتا اورنہ میری تعریف کرسکتا ہے اور مَیں نہ اجر ،نہ سزا ،نہ جزاپانے کے قابل ہوں ۔جو کچھ تقدیر نے مجھ سے کروایا سوہوا۔اور یہ بھی خیال کرو کہ وہ لڑکا اُس تعلیم کے سبب اپنے دل اور خیال سے بھی الزام یا تعریف اورسزاوجزا کی فکر بالکل باہر اور دور کردے تو جب وہ لڑکا جوان ہوگا اور لوگوں کے ساتھ ملے گا تو وہ اُن سے کس طرح کا سلوک پانے کا منتظر ہوگا اور وہ اپنے خالق ومالک سے کونسا سلوک پانے کا انتظار کرے گا۔
مَیں کہتا ہوں کہ کوئی عاقل انسان ہرگز نہ کہے گا کہ کوئی لڑکا ایسے دریا ئے فکر میں محفوظ رہ سکتا ہے ۔تو ایسی تعلیم ہرگزنہ دینا کیوں کہ اگرہم ایسی تعلیم پر یقین لائیں تو اسی طرح کےخیال کریں گے ۔لیکن جب وہ لڑکا اپنے تئیں خوف اور شرمندگی سے جن سے اور آدمی کچھ کچھ باز رہتے ہیں آزاد دیکھے گا تو ضرور خوش ومغرور بھی ہوگا اور مغروری سے اور بھی بُرے نتیجہ بہ سبب اس تعلیم کے اُس کو ملیں گے ۔اگر وہ اپنی مغروری سے اور بدفعلی کی سزا پائے تو وہ اور وں کو دِق کرے گا اور اپنی بھی ہلاکت کرے گا۔لیکن وہ ضرور تنبیہ اور کبھی کبھی سزائے شدید پائے گا اور اسی طرح سے معلوم کرے گا کہ اپنی تقدیر پر کچھ الزام اور سزا عائدنہیں کرسکتا ہے بلکہ جس بات کو وہ باطل جانتا تھا اُس کو سچا سمجھے گا یعنی کہ وہ اپنے کام کا بدلہ پاتا ہے۔تو ضرور وہ سزا جو کہ وہ تربیت اور تعلیم میں پاتا ہے اُس کو قائل کرے گی کہ اگر تعلیم تقدیر باطل نہیں ہے تو بھی وہ اس زندگی کے کام میں نہیں آتی ہے اور ہر ایک قائل تقدیر کو (اگر خیال کرے گا)معلوم ہوگا کہ ہمارا رازق جب کہ اپنے طریقوں کے مطابق گنہگاروں کو سزااور نیکوکاروں کو خوشی وترقی دیتا ہے تو وہ تقدیر کے مطابق یا تقدیر کے طریقوں پر نہیں چلتا ہے ۔حاصل کلام یہ ہے کہ تعلیم مذکور مذہب کے فرائض اور حقوق میں کام نہیں آتی ۔
اور اگر وہ لڑکا اُس تعلیم کو مانتا رہے تو اغلب ہے کہ کبھی اُس سے ایسا بُرا کام ہوگا کہ جس کے باعث لوگ اُس پر نالش (فریاد،گریہ وزاری) کرکے اُسے قید خانہ میں ڈلوائیں گے ۔اور تب اُسے معلوم ہوگا کہ اس دُنیا کے لوگ تقدیر کو نہیں مانتے بلکہ بدکاروں کو سزا دیتے ہیں جیسا کہ مالک اپنی حکومت میں کرتا ہے ۔
اور اگر ہم اس تعلیم تقدیر کو زندگی اور عالم کے طریقوں میں شامل کریں تو صریح معلوم ہوتا ہے کہ وہ بالکل نامعقول ہے۔مثلاً اگر کسی کی تقدیر میں لکھا ہے کہ وہ فلانے سن تک جئے گا تو اگرچہ وہ اپنی خبرداری اور تندرستی کی فکر کرے یا نہ کرے وہ اُس سن تک ضرور زندہ رہے گا۔اوراگر تقدیر میں لکھا ہو کہ وہ اُس سن سے پیشتر مرجائے گا تو اُس کی ساری خبرداری بے فائدہ ہے ۔پس اگرچہ بعض اپنے طریقوں اور دستوروں میں تقدیر کو مانتے تاہم سب اپنی خبرداری کرتے ہیں۔
اور اگر ہم اُس دوسری تعلیم کی طرف خیال کریں یعنی سوچیں کہ سب آدمی فعل مختار ہیں تو یہ بہبودگی معلوم نہیں ہوتی ہے کیونکہ ہرایک آدمی اپنی بہتری کے لیے سوچتا اور ارادہ کرتا اورکام کرتا ہے گویا کہ وہ آزاد یا فعل مختار ہے ۔
اور جو بات کہ ہم اس مقام پر تاکیداً کہتے ہیں سو یہ ہے کہ خالق ہمارے ساتھ ایسا کرتا ہے کہ جیسے ہم فعل مختارہیں ۔پس صاف ثابت ہےکہ دُنیا کے طریقے اور خالق اپنی حکومت میں تعلیم تقدیر کو باطل کرتے ہیں۔
اور اگر تقدیر کی تعلیم ان باتوں میں کام نہیں آتی ہے تو ہم کیونکر ثابت کرسکتے ہیں کہ وہ مذہب میں کام آئے گی کیونکہ مذہب ایک معمولی شئے ہے۔ہاں سب لوگ کہتے ہیں کہ جیسا کروگے ویسا پاؤگے تو تقدیر کہاں رہی ۔اگر ہوتو بے فائدہ ہے کیونکہ ہرایک فرض کو رد کرتی اور ہرایک معمولی بات کو باطل کرتی ہے ۔پس اغلب ہے کہ وہ ہی نہیں ۔اب جو کوئی ان باتوں پر غور کرے وہ بخوبی معلوم کرلے گا کہ اگرمذہب کی دلیلیں آزادگی کے مطابق سچی ٹھہریں ویسے ہی تقدیر کے طور سے بھی راست ٹھہرتی ہیں ۔کیوں کہ تقدیر ہمارے فرائض میں کام نہیں آتی ہے اور مذہب عیسوی عقل کے خلاف نہیں ہے بلکہ جہالت کے خلاف ہے ۔کیونکہ جب ہم اُن تعلیمات کے جو مخلوقات کے طریقون سے خالق نے ہماری رہنمائی کے واسطے مقرر کی ہے برخلاف چلیں اور دعویٰ یہ کریں کہ عقل کے مطابق چلتے ہیں تو یہ محض بُطلان بلکہ بیوقوفی ہے ۔
ایک اور بات یہ ہے کہ ہم ایک مرضی اور ایک خصلت رکھتے ہیں اور اگر یہ تقدیر اُن کے لائق ہوتو وہ خالق کے بھی لائق ہو اور علاوہ ازیں جب ہم اقرار کریں کہ حکومت اور کام اور حرکت کے کچھ نتائج ہوتے ہیں توہمیں اقرار کرنا پڑتا ہے کہ خالق ومالک میں بھی ایک مرضی اور ایک خصلت ہے جن کے مطابق اور بذریعہ جن کے وہ حکومت کرتا ہے ۔
تویہ سچ ہے کہ خالق کسی نہ کسی طرح کی خاصیت اور مرضی رکھتا ہے اور اگر تقدیر انہیں صفتوں سے جو خُدا کی ہیں اور جو کہ مذہب عیسوی کی بنیاد ہیں یعنی رحم ودیانت داری اورانصاف موافقت نہیں رکھتی ہے تو وہ کسی طرح کی صفتوں سے موافقت نہیں رکھ سکتی ہے کیوں کہ جیسا تقدیر انسان کو رحم دل وسچا ودیانت دار ہونے سے نہیں روکتی ویسے ہی وہ اُن کو بے رحم وبے ایمان اور ناراست ہونے سے نہیں روکتی ہے ۔سوتقدیرکام میں نہیں آتی ۔ اور کہاگیا ہے کہ جو آزادگی کی راہ میں گناہ کا ٹھیک بدلا ہے سو ازروئے تقدیر بالکل بے انصافی ہے کیونکہ وہ سزا اُس کام کے سبب سے اُس کوملی جو اُس نے تقدیر سے مجبور ہوکر کیا ۔مثلاً تقدیر کی جہت(کوشش)سے قتل کا گناہ موقوف کیاگیا تو گویا قاتل کے گناہ کی سزا کو بھی وہ موقوف کرتی ہے ۔پس دیکھو انصاف اور بے انصافی کی پہچان کس قدر دل میں رہتی ہے اگرچہ ہم خیال کریں کہ تقدیر کے ذریعہ سے وہ سب موقوف ہوگئی ۔
اور اگرچہ واضح ہوا کہ اگرتقدیر کسی بات سے موافقت یا علاقہ رکھتی ہو تو وہ خالق کی اُس خاصیت سے جو مذہب عیسوی کی بنیاد ہے موافقت اور علاقہ رکھتی تو بھی کیا تعلیم تقدیر خالق کی اُس خاصیت کو اور عیسوی مذہب اور اُس دلیلوں کو رد نہیں کرتی ۔ہرگز نہیں کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اگر خوشی اورتکلیف ہماری تقدیر یا قسمت میں لکھی ہوئی ہوں تو بھی وہ ایسی نہیں لکھی ہیں کہ ہمارے کاموں کے نتیجے اُس تقدیر سے روکے جائیں بلکہ ایسی ہے کہ ہماری خوشی یاتکلیف ہمارے کاموں کے نتیجے ہیں ۔کیونکہ جیسے باپ اپنے لڑکوں پر اور حاکم اپنی رعایا پر حکومت کرتا ہے اسی طرح خُدا ہم سبھوں پرحکومت کرتا ہے ۔
الحاصل خواہ کہیں کہ انسان آزاد ہیں خواہ تسلیم کریں کہ وہ تقدیر کے پابند ہیں تو بھی تجربہ کاری سے عیاں ہے کہ مالک راست بازاور عادل ہے اور انسان کو اُس کے کاموں کے موافق بدلہ دیتا ہے اور شاید یہ ضرور ہے کہ ہم عیسوی مذہب کے فرائض کی خاص دلیلوں کو بیان کریں جو کہ تقدیر سے رد نہیں ہوتی ہیں اگرچہ تقدیر تمام بے ایمانی کی جڑ ہے۔
اور اگر تقدیر کی تعلیم ثابت ہوسکتی تو بھی خالق عالم کے وجود ہونے کی دلیلیں جو کہ اُس کے کاموں کے نتیجوں سے نکلتی ہیں رد نہیں ہوتی ہیں۔ اور یہ بخوبی معلوم ہے کہ وہ دُنیا کی حکومت بذریعہ سزا وجزا دینے کے کرتا ہے اور اُس نے ہم کو ایک طاقت یا صفت دی ہے کہ جس کی مدد سے ہم کاموں کے بیچ میں تمیز کرتے ہیں اور بعضوں کو بُرے اور بعضوں کو نیک جانتے ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ بدکاموں سے بُرا اور نیک کاموں سے اچھا نتیجہ نکلتا ہے ۔اب یہ نیک وبد کی تمیز جو خاصیت سے ہمارے واسطے ایک قانون ہے حقیقتاً خُداکی شریعت یعنی مرضی ہے۔کیونکہ جب ہم اُس کے مطابق چلتے ہیں تو بے خوف رہتے ہیں اور جب اُس کے برعکس کرتے ہیں تو خوف کھاتے ہیں ۔پس یقین غالب ہے کہ مالک حقیقی جس نے یہ تمیز کرنے کی طاقت بخشی اور جو یہ خوف وخوشی دیتا ہے وہ اپنی شریعت کے موافق جو اُس نے ہمارے دلوں میں اور اپنے کلام میں بھی لکھی ہے ہمارا انصاف کرے گا جیسا کہ وہ اکثر اب کرتا ہے کہ نیکوکاروں کو خوشی اور بدکاروں کو عذاب دیتا ہے ۔اور اب مَیں کہتا ہوں کہ عیسائی مذہب کے ان عام دلیلوں کے برخلاف کوئی بذریعہ تعلیم تقدیر اعتراض نہیں کرسکتا ہے۔اور اس بات سے کہ ہم نیک وبد کی تمیز کرنے کی طاقت رکھتے ہیں کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے کیونکہ ہماری تجربہ کاری سے ثابت ہے اور نہ اُس کے اس نتیجے سے کہ خُداقیامت کے بعد نیکوکاروں کو جزا اور شریروں کو سزا دے گا انکار ہوسکتا ہے ۔کیونکہ ہم نے نہیں کہا کہ خُدا اس لیے انصاف کرے گا کہ ہماری سمجھ میں یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بلکہ ثبوت اس بات کا کہ وہ انصاف کرے گا یہ ہے کہ اُس نے ہم کو یقین دلایا ہے کہ وہ ایسا ہی کرے گا۔
پس اگرچہ ہم خیال کریں کہ تقدیر کی تعلیم سچ ہے تو بھی مذہب عیسوی کی بنیاد کی باتیں برحق ٹھہرتی ہیں ۔اور علاوہ ازیں تعلیم مذہب جو کہ خُدا کے کاموں پر غور کرنے سے ہم کو حاصل ہوتی ہے ایسی مضبوط دلیلیں رکھتا ہے کہ اگر تعلیم تقدیر سچی ہوتی تو بھی اُس کو رد نہیں کرسکتی اور نہ اُس سے کسی طرح کی تبدیلی پاتی ہے ۔
اور جب ہم یہ بات سچی پاتے ہیں کہ یہی مذہب ہر زمانے اورملک میں جن سے ہم کو واقفیت ملی مقبول ہوا اور تواریخ سے پیشتر سابق وقدیم زمانے کے لوگ اقرار کرتے اور سچ مانتے تھے کہ ایک ہی خُدا ہے جو ہر چیز کا خالق اور ہر انسان کا مالک ہے۔اور جب ہم خیال اور یاد بھی کرتے ہیں کہ مذہب کی تعلیم انسان کی عقل یا مباحثہ کرنے سے نہیں بنائی گئی بلکہ خُدا نے اُسے الہٰام سے دی ہے تب ہمیں اقرار کرنا پڑتا ہے کہ مذہب عیسوی کی تعلیم برحق ہے اور وہ تعلیم تقدیر سے خواہ جھوٹی ہوخواہ سچی کچھ خلل نہیں پاتی ہے ۔اور اب بخوبی معلوم ہوا کہ تعلیم تقدیر اور انسا ن کی آزمائش کا حال بالکل برخلاف ہے اور ہم نے یہ بات سچ پائی کہ انسان حالِ آزمائش میں ہیں اور نیک وبد کی تمیز کرسکتے اور فعل مختار ہیں۔پس صاف ثابت ہے کہ تعلیم تقدیر جو اُس کے برعکس ہے ہرگز سچ نہیں ہوسکتی ہے اور کسی طرح مذہب کو رد کرسکتی ہے ۔
پچھلی بات یہ ہے کہ تعلیم تقدیر سے کسی قدر نقصان ہوتا ۔کیونکہ خراب آدمی اُس کو سچی سمجھ کر اپنے بُرے کاموں میں تسلّی وترقی پاتے اور اوروں کے سامنے اپنے گناہوں اور بے دینی کاعذر بھی کرتے ہیں اورعلاوہ اس کے یہ تعلیم خلقت کے طریقوں اورخالق ومالک خُدا کی حکومت کے بھی برخلاف ہے ۔
ساتواں باب
خُدا کی حکومت ایک تدبیرہے جس کو
ہم لوگ صاف وصحیح نہیں سمجھتے ہیں
اگر کوئی بے دین آدمی خُداکی حکومت کے برخلاف اعتراض کرکے کہے کہ اُس کی حکومت وانصاف اورنیکی کتب الہٰی میں صاف معلوم نہیں ہوتی ہے تو شاید سبھوں کا جواب مخلوقات کی حکومت کی مشابہت میں نہیں ملے گا مگر توبھی اس سےہمیں بہت مدد ملے گی مثلاًاُس سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کی تدبیر ہماری عقل وفہم سے باہر اور بعید ہے ۔
جس طرح کہ خلقت بے حد اور اپنے مختلف حصوں میں بے شمار ہے کہ اُس کا کُل بیان اور طریق جس سے خالق اُس سے واسطہ رکھتا اور اُس پر حکومت کرتا ہے ہماری عقل وفہم میں نہیں آسکتے ہیں ویسے ہی اغلب ہے کہ خُداکی حکومت جس میں کروبین وصرافین اور فرشتگان اور کُل انسان ہر مُلک وزمانے اور دُنیا کے یعنی تمام مخلوقات ایک ہی خُدا کی حکومت وبندوبست سے حکم کیے جاتے ہیں ہماری سمجھ سے باہر اور بعید ہے ۔اور کوئی انسان جب تک کہ مذہب کے برخلاف نہیں بولتا تب تک اس بات کا انکار نہیں کرتا ہے ۔اور جب کہ کوئی آدمی خالق کی مہربانی وانصاف اور نیکی کے برخلاف کہے کہ حکومت جس کابیان مذہب عیسوی میں پایا جاتا ہے کامل نہیں ہے تو اس کا معقول جواب یہ ہے کہ ہم لوگ ان باتوں کا جس کو ہم نہیں جانتے ہیں انفصال (جُدا ہونا)نہیں کرسکتے ہیں۔اورہم دیکھتے ہیں کہ بغیر وسیلے یا واسطہ کے کوئی مقصد ومراد پوری نہیں ہوتی ہے اورخلقت میں ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ویسے جنہیں ہم لائق نہیں جانتے نیک انجام پہنچتے ہیں ۔ویسے ہی حکومت میں شاید وہ باتیں جو ہمیں بُری اور بالکل نالائق معلوم ہوتی ہیں بعض اوقات دُنیا میں نیک انجام کو پہنچتی ہیں ۔مثلاً کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بخار یا بائی(سرسام ،تشنج) کی بیماری سے یا کہ ٹوٹے ہوئے عضو کے ذریعہ سے کسی کی جان بچ جاتی اور اُس کی عمردراز ہوتی ہے اور بعض وقت ایسا بھی ہوتا ہے کہ بیماری کی حالت تندرستی کی حالت سے اچھی ہوتی ہے یعنی بیمار آدمی کبھی گناہ کرنے سے بچا رہتا ہے ۔
جہان کی حکومت عام قوانین کے مطابق کی جاتی ہے اور اگرچہ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی قدربے ترتیبی اور بے انتظامی ہوتی ہے تو بھی شاید ایسا ہے کہ سبھوں کے واسطے بہترین انجام ہوتا ہے ۔اورشاید کسی اور طرح کی حکومت اس سے بہتر نہیں ہوسکتی ہے۔
خالق کی حکومت بھی اسی طرح کی ہے اور ایسا ہوتا ہے کہ جوکچھ کبھی کبھی ہم پاتے ہیں سوان عام قوانین کے مطابق کسی نہ کسی طرح سے اپنے کاموں کے سبب پاتے ہیں۔اوراغلب ہے کہ اگر ہم لوگ کسی طریقے کے برعکس کریں تو بہت خوبی کوروک دیں اور بہت بُرائی اپنے اور اوروں کے اوپر کھینچ لائیں۔
لیکن شاید اعتراض کرنے والا کہے گا کہ ہماری ناواقفیت مذہب کی دلیلوں کے برخلاف بھی ہے اور اگر ہم اپنی بیوقوفی کے سبب سے مذہب کے برخلاف نہیں کہہ سکتے تو ہم اُس کے ثبوت میں کیوں کر باتیں کریں ۔تو اُس کے تین جواب ہوسکتے ہیں ۔
پہلا:۔اگر ہم کسی آدمی کی خاصیت سے واقف ہوں کہ وہ بہت رحم دل ہے اور کسی کا نقصان نہیں چاہتا ہے تو ہم بالکل ناواقف نہیں ہوگے کہ اُس نے کسی کا نقصان نہیں کیا۔اور ہم کسی وقت اُس سے ایک کام کرتے دیکھیں جس کا انجام ہم نہیں جانتے ہیں تو اگرچہ وہ کام ہمیں بُرا معلوم ہو تو بھی نہ کہنا چاہیے کہ وہ بُرا ہے جب تک کہ اُس کا انجام بُرا نہ نکلے۔ پس اسی طرح مذہب عیسوی کی دلیلیں خُدا کی حکومت کو ثابت کرتی ہیں یعنی ہرایک آدمی اپنے کاموں کے مطابق بدلہ پائے گا ۔پس اگر ہم اس میں کچھ بات دیکھیں جو ہمیں بے ترتیب معلوم ہوتو وہ بے ترتیبی مذہب کی دلیلوں کے برخلاف نہیں ہے ۔جب تک کہ بالکل ثابت نہ ہولے کہ وہ حقیقتاً بے ترتیبی ہے بلکہ وہ صرف یہ بات ثابت کرتی ہے کہ ہم اُن باتوں کا انجام نہیں جانتے ہیں۔
دوسرا:۔اگر ہم اقرار کریں کہ وہ باتیں اور وہ تعلقات جن کو ہم نہیں جانتے اور نہ جان سکتے ہیں مذہب عیسوی کی دلیلوں کے برخلاف اور اُس کے اعتراضوں کے بھی برخلاف ہوتی ہیں ۔جس سے ہم اُس کو نہ ثابت کرسکتے اور نہ رد کرسکتے ہیں تو بھی اُس کے فرائض ہمارے اوپر ٹھہرتے ہیں ۔ کیونکہ اگرہم اُن کو نہ مانیں تو ہمارا دل ہمیں ملزم کرتا ہے ۔
اور اگر چہ ہم کہیں کہ مذہب عیسوی کے فرائض نہ ماننے سے ہماراکچھ نقصان نہ گا یا کچھ سزا یا جزا نہ ہوگی ۔تو بھی یہ فرائض ہمارے دلوں پر لکھے ہوئے ہیں اور جب ہم اُن کو پورا کرتے تو ہم خوش رہتے ہیں ۔
تیسرا:۔ہماری ناواقفیت اس مذہب کی دلیلوں کو ر د نہیں کرسکتی بلکہ ثابت کرتی ہے جب کہ ہم یادرکھتے ہیں کہ اکثر وہ باتیں جنہیں ہم بے ترتیبی سمجھے تھے جب اُن کی زیادہ واقفیت کرتے ہیں تب وہ ہمیں بہت درست معلوم دیتی ہیں ۔پس اغلب ہے کہ اگر ہم سب کچھ جان سکتے تو ہمیں سب کچھ بہتر معلوم ہوتا ۔آخری بات ہم بے شک مخلوقات کے طریقوں اور حکومت سے بہت ناواقف ہیں اور اس سبب نہیں کہہ سکتے کہ آیا وہ درست ہے یا نہیں تو کتنا زیادہ ہماری ناواقفیت ہم کو خُدا کی حکومت پر جو نہایت بلند اور بے دریافت اور ابدی ہے ٹھیک انفصال کرنے سے روکتی ہے۔
تتمہ حصہ اوّل
اب پچھلے باب کے مضمون سے معلوم ہوا کہ یہ دُنیا اور اُس کی حکومت کا بندوبست کسی نہ کسی طرح سے اور کوئی تدبیر کے ساتھ جو اس سے نہایت کسی نہ کسی طرح سے اور کوئی تدبیر کے ساتھ جو اس سے نہایت بلند اور بڑی ہے کچھ تعلق رکھتا ہے اور یہ نمائش جس میں ہم رہتے ہیں ترقی پذیر ہے۔جس کو ہم نہیں سمجھ سکتےہیں نہ اُس کا آغاز اور نہ اب کا اور استقبال کا حال جان سکتے ہیں اور یہ حکومت ایک ایسی نمائش ہے کہ وہ مذہب کی تعلیم سے بھی عجیب ہے ۔اگر کوئی کہے کہ یہ مخلوقات بغیر خالق کے وجو د میں آئی تو وہ اپنے تئیں جلد دریائے مشکلات میں ڈبوتا ہے بہ نسبت اُس کے جو مقر (اقرارکرنے والا) ہے کہ خالق نے پیدا کیے اور وہی اُس کا مالک ہے۔اور اس کتاب کے پہلے ابواب سے صاف ثابت ہے کہ ایک ہی زندہ خالق و مالک ہے جس سے مُدلل ہے کہ وہ اپنی ہی مرضی اورخاصیت کے مطابق اپنی جمیع مخلوقات پر حکومت کرتا ہے اور انسان ضرور اُس کے اختیار میں ہے اور ازروئے مشابہت نہایت اغلب معلوم ہوا کہ ہم اپنی موت کے بعد روحانی زندگی پائیں گے ۔یا یہ کہ ہماری روح نہ مرے گی ۔اور کتاب مقدس کی تعلیم کے مطابق اُس زندگی میں ہم اپنے افعال کی پوری جزا وسزا پائیں گے اور ہمارے کام جو ہم اس قلیل زندگی اور فانی دُنیا میں کرتے ہیں ہماری ہمیشہ کی بہتری یا نقصان کے باعث ہوں گے ۔خلاصہ الکلام ۔ہم کو غور اور سوچ کرنا چاہیے کہ ہمارا کیا حال ہے اورہم کیا کریں تاکہ ہماری ہمیشہ کی خوشی ہو۔اور کسی کو یہ خیال کرنا چاہیے کہ جب تک ہم گنا ہ کرتے رہتے ہیں تو ہم بے خوف وخطر رہ سکتے ہیں ۔ہرگز نہیں ۔بلکہ جب تک ہم گناہ کیا کرتے ہیں تو ہم بڑے خطرے میں ہیں۔اگر ہم بے فکر وسوچ رہیں یا کہیں کہ جب تک یہ بات دل تک نہ پہنچے کچھ ڈر نہیں تو یہ بھی بڑا گناہ ہے اور ہم اُس کے باعث بہت ڈر میں ہیں۔
اور کسی طرح کا عذر نہ لانا چاہیے کیونکہ اگر کوئی کہے کہ میر ی تقدیر میں ایسا لکھا ہے اور میں اُس کے خلاف کچھ نہیں کرسکتا تو یہ بات باطل ہے کیونکہ خُدا نے کسی کی تقدیر میں نہ تو کچھ نیکی اور نہ کچھ بدی لکھی ہے بلکہ اُس نے انسان کو فعل مختاربنایا تاکہ وہ نیکی کرکے اچھا اجر پائے یا بدی کرکے سزا اُٹھائے ۔اگر کوئی کہے کہ میں بہت آزمائشوں میں پڑتا ہوں تو یقین جانے کہ خُدا سے مدد پاکر وہ اپنی ساری آزمائش پر غالب ہوسکتا ہے۔اگر کہو کہ ہماری بدخواہشیں غالب ہوں تو سچ جانو کہ تم کو تمہاری بُری خواہشوں پر فتح پانا چاہیے۔کیوں کہ بہتیری باتوں میں تم ایسا کرتے ہو۔پس ہمیشہ نیکی سیکھو اور کرو اس لیے کہ دل کہتا ہے کہ یہ سب سے بہتر ہیں۔اور انجیل کی روشنی میں چلو تو تم ہمیشہ کی زندگی پاؤگے اور اگر ایسا نہ کرو گے تو یا درکھو کہ خُدا کا غضب آدمی کی تمام بے دینی اورناراستی پر آسمان سے ظاہر ہے فقط
حصہ اوّل تما م شد
ملَّتِ تشبیہی
دوسرا حصہ
الہٰامی مذہب کا بیان
پہلا باب
مذہب عیسوی کی ضرورت کا بیان
بعض آدمی نیچر یعنی طریقہ خلقت کی روشنی اپنی ہدایت کے لیے کافی ووافی جان کر اور خُدا کے الہٰامی کلام کو صرف قصہ اورکہاوت سمجھ کر الہٰامی مذہب کو نامنظور کرتے ہیں ۔
اور اگر عالم کی روشنی ہماری رہنمائی کے لیے کافی ہوتی تو بلاشک وشبہ خُدا ہمارے واسطے کسی اورطرح کا کلام ہرگز نازل کرتا لیکن کوئی دانشمند آدمی جو غیر قوموں او ر وحشی آدمیوں کی حالت پرلحاظ کرے گا کبھی نہ کہے گا کہ الہٰامی مذہب فضول ہے کیونکہ سب سے عالم لوگ بھی بغیر کتاب مقدس کے نہ صرف مذہب کی بابت بلکہ طریقہ مخلوقات کی بابت بھی بہت شک اور غلطی کرتے رہے اور کسی طرح ممکن نہیں کہ وہ مذہب کو ٹھیک دریافت کرتے اگر الہٰامی مذہب نہ ہوتا پس جو کوئی کتاب مقدس کو فضول جانتا ہے وہ بالکل ناراستی پر ہے۔
بعض اور لوگ کہتے ہیں کہ الہٰامی مذہب کا فقط اتنا ہی مطلب ہے کہ خلقی مذہب کا بیان کرے اور وہ تو نہ کُتب مقدسہ کی پرواہ کرتےاورنہ اُس پر اعتراض کرنے والوں کی بات مانتے ہیں۔
اب خیال کرو کہ اگر خُدا نے انسان کے لیے اپنا کلام نازل کیا ہے تو یہ سہل بات نہیں ہوسکتی ہے کہ کیا ہم اُسے مانیں یا نہ مانیں۔
1۔خُدا کی مرضی اور صفات جو مخلوقات کے طریقوں سے ظاہر ہوتی ہے ۔خلقی مذہب سے مراد ہے۔
اور عیسوی مذہب کی ضرورت ذیل کی باتوں پر خیال کرنے سے زیادہ صاف معلوم ہوگی ۔
اوّل:۔مذہب عیسوی تو خلقی مذہب کا اظہار ثانی ہے وہ انسان کو دُنیا کی حکومت اور بندوبست سے آگاہی وواقفیت وہوشیاری بخشتا ہے۔یعنی کہ دُنیا کا انتظام ایک نہایت عالم وکامل خالق کاکام ہے اور اُس کی حکومت میں ہے اور اُس کا خاص قانون نیکی ہے اور وہ آخری دن راستی سے آدمیوں کا عدل کرے گا اور ہرایک کو اُس کے کاموں کے مطابق آیندہ زندگی میں بدلا دے گا۔اور علاوہ ازیں وہ خلقی مذہب کو کامل طور سے بیان کرتا ہے ۔ الہٰامی کلام خلقی مذہب کو اختیار کے ساتھ ظاہر کرتا ہے۔اور اسی طرح اُس کو بھی ثابت کرتا ہے۔معجزے اورپیش گوئیاں جو کتاب اقدس میں مبین ہیں اس مطلب پر مرقوم ہوئیں کہ ثابت کریں کہ خُداکی مرضی ہے کہ مسیح سبھوں کا کفارہ ہے اور ماسوائے اس کے وہ ثابت کرتے ہیں کہ خُدا ہمارا حافظ ومالک اور منصف بھی ہے ۔یہی باتیں کُتب مقدسہ میں اظہر من الشمس (عیاں )ہیں ۔وہ سب جنہوں نے معجزے دکھلائے اور پیش گوئیاں کیں یہی سکھاتے تھے کہ خالق ارض وسماآدمیوں کا رازق وحافظ اور منصف ہے اور اگر بائبل کا مقصد یہ ہوتا تو زیادہ صاف ان باتوں کو نہیں بتا سکتے ۔اگر کوئی اعتراض کرکے کہے کہ معجزے خلقی مذہب کے دلیل نہیں ہوسکتے تو اُس کے جواب میں یہ بات آتی ہے کہ اگر کوئی آدمی ایک ایسی قوم کے پاس جو کہ خلقی مذہب کو نہ جانتی ہو یا اُس سے واقفہوکر نہ مانتی ہو جائے اور اُس سے کہے کہ خُدا نے مجھے تمہارے پاس تمہیں خلقی مذہب سکھلانے کو بھیجا ہے اور اپنی رسالت کے ثبوت میں پیش گوئی کی ایسی بات کہی جس سے کوئی آدمی آپ سے واقف نہیں ہوسکتا ہے اور اُس کی پیش گوئی پوری ہوجائے پھر وہ معجزے دکھلائے مثلاً سمندر کو ایک بات سے تقسیم کردے جماعتوں کو آسمانی روٹی سے کھلائے ہرطرح کی بیماری کو چنگا کرے مُردوں کوجلا ئے اور آپ ہی مارا جاکے پھر زندہ ہوجائے تو کیا یہ کام اُس کی باتوں اور تعلیم اور فصیحت(شیریں کلام،خوش بیان ) کے ثبوت نہ ٹھہریں گے ہاں البتہ یہ اُس کی رسالت اورتعلیم کی مضبوط دلیلیں ہیں ۔اسی طرح موسیٰ کی توریت اور مسیح کی انجیل خلقی مذہب کے اختیاری اظہار ثانی ہیں وہ خُدا ئے مالک کے رازق ہونے کی دلیلیں ہیں اور ثابت بھی کرتی ہیں کہ خُد ا جیسا اُن میں مبین(بیان کیا ہوا) ہے انسان کی نجات کےواسطے بندوبست کرچکا ہے ۔وہ اس بات کی ایک ہی دلیل اور ثبوت ہیں اور اُس کی معقول گواہی ہیں۔
ایک اورمثال سُنو ایک آدمی تھا جس نے کبھی کلام الہٰی کی خبر نہیں سُنی اور وہ اقرار کرتا تھا کہ یہ دُنیا باوجود یہ کہ اُس میں کچھ اختلاف معلوم ہوتا ہے تاہم ایک نہایت کامل مالک کی حکومت میں ہے ۔اور وہ آدمی بعض ناپاک لوگوں کے بُرے چال چلن کے سبب جو خُداکو بالکل نہیں مانتے اُس حاکم کامل کی بابت شک میں پڑا اور اُن کے گناہ میں گرنے کو تھا۔اتفاقاًاُس کو معلوم ہوا کہ اُس مالک نے جس پر وہ ایمان رکھتا تھا اپنی حکومت کا انتظام الہٰام سے ظاہر کیا ہے اور وہ جو اُس کا الہٰامی کلام سُناتے ہیں وہ اپنی رسالت کو مخلوقات کے طریقوں کے بدل کرنے یا روکنے سے ثابت کرتے ہیں تو کیا وہ اُس الہٰام کے سبب سے مخلوقات کے طریقوں اور دُنیا کی حکومت کے انتظام پر زیادہ مضبوطی سے ایمان نہ رکھے گا ۔اور اس نہایت ضروری بات کو قلم انداز نہ کرنا چاہیے کہ مسیح نے موت کو نیست کیا اور زندگی وبقا اور نجات ابدی تو انجیل سے روشن کردیا ۔اوریہ بڑی وبھاری تعلیمات کہ روح کو بقا ہوگی اور بُرا کام کرنے سے بُرا انجام ہوگا اور توبہ کرنا نہایت تاثیر پذیر ہے سب انجیل میں نہ صرف ثابت کی گئیں بلکہ ایسی روشنی کے ساتھ سکھلائی گئی ہیں کہ گویا اُس روشنی میں مخلوقات کی روشنی تاریک ہوگئی ہے۔اورجیسا کہ مذہب عیسوی میں یہ باتیں سکھلائی گئیں اور معجزے اور پیش گوئیوں سے اُن کی سند ہوئی ویسے ہی ٹھہرا یا گیا کہ یہ کام ظاہرکلیسیا کے ذریعہ سے عمل میں لائے جائیں یعنی مسیح کی کلیسیا اور سب دیگر مجلس وپنچائتوں سےمختلف ہوکر اپنی تعلیمات وتربیت اور رسمیات سے قیامت تک اُن بھاری تعلیمات مذکورہ کو سکھاتی اور بتانی رہے۔
معجزے دکھلانے کی طاقت اور اختیار دین عیسوی کے پہلے منادی کرنے والوں کو اس واسطے دیا گیا کہ وہ اُس مذہب کو دُنیا میں جاری کریں۔ اور ظاہری کلیسیا اس مقصد سے مقرر کی گئی کہ مذہب عیسوی اُس کے وسیلے سے قائم رہے اورسلسلہ وار ہر زمانے میں دُنیا کے آخر تک ترقی پاتا رہے ۔
اگر موسیٰ اورانبیا اور مسیح اور اُس کے حوارئین (حواری کی جمع ،شاگرد،پیرو)آپ ہی اپنے زمانے میں لوگوں کو مذہب کی تعلیم دیتے اور اُس کو معجزوں سے ثابت بھی کرتے تو اُن کی تعلیم وتربیت کے فوائد تھوڑے لوگوں کے سوا اور دن تک نہ پہنچتے اور تھوڑے زمانے میں مذہب عیسوی فراموش ہوکر جاتا رہتا ۔پس ظاہر ی کلیسیا اُس کو انجام کے لیے قائم وبرقرار رکھتی ہے کیونکہ وہ ایک شہر کی مانند ہے جو پہاڑ پر بنا ہو ا ہے ۔اور ایک قوی نشان یہ ہے کہ دُنیا کے سب لوگ خالق کے فرائض کے تحت میں ہیں اورکلیسیا اپنی تعلیم اورنمونہ سےآدمیوں کو مذہب کے طریقوں میں بُلاتی اور اُن کو اُس کی حقیقی باتیں سکھلاتی ہے ۔وہ خُدا کے نوشتوں کا خزانہ ہے کہ وہ الہٰام کی روشنی کو عالم کی کے لیے ظہور میں لائے۔اور جس قدر مسیحی مذہب دُنیا میں مانا جاتا اور سکھلایاجاتا ہے اُسی قدر خلقی یا ضروری مذہب صفائی اور فائدہ مندی سے آدمی کے خیال میں قائم ہوتا ہے ۔ظاہری کلیسیا خاص کر اپنے شریکوں کو تعلیم وتربیت دیتی ہے اور اُسی طرح سے خلقی مذہب کو ترقی پذیر کرتی ہے کیونکہ اُس کے قائم کرنے سے ایک مطلب یہ ہے کہ مذہب کے طریقوں اور رسموں کے ذریعہ سے سلسلہ کے طور پر تربیت وتہذیب دی جائے تاکہ مسیح کا بدن یعنی کلیسیا بنتا اور بڑھتا رہے اورترقی پاکر اچھی اور عمدہ حالت کے واسطے آسمان میں تیار ہو۔پس ثابت ہے کہ الہٰامی مذہب سے کلیسیا کے وسیلے خلقی مذہب کو بہت ہی فائدہ ہوا ۔ اگر کوئی اعتراض کرکے کہے کہ عیسوی مذہب سے بُرے نتیجے نکلتے ہیں تو یہ سچ بات نہیں ہے کیوں کہ وہ نتیجے مذہب عیسوی کے نہیں ہیں بلکہ بعض اوقات بُرے لوگ فریب سے اپنے تئیں مسیحی کہہ کر بُرے کام کرتے ہیں اور یہ مذہب اور کلیسیا کا کچھ قصور نہیں ہے۔
کیونکہ نہ خلقی مذہب نہ الہٰامی مذہب انسان پر زبردستی کرکے اُس کو نیک کرتا ہے ۔اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مسیحی مذہب بہت قوی اورضروری ہے کیونکہ جیسا اُوپر مذکور ہوا وہ خلقت مذہب کو شہرت دیتا اور اُس کو نئی روشنی سے انسان کے بڑے فائدے کے لیے سند اور ثبوت اور تاثیر کے ساتھ ظاہر کرتا ہے ۔
ایک اور بات قابل بیان ہے کہ سب مسیحیوں کو حکم ہوا کہ اُس مذہب کو قبول کرکے اور دُنیا میں اقرار کرکے اُس کو قائم کریں اور شہرت دیں۔کیونکہ انجیل کی تدبیر اور بندوبست ایسا ہے کہ ہر ایک مسیحی آدمی اپنی طاقت ولیاقت کے مطابق کلیسیا اور مذہب کی ترقی کرے ۔اورسب اپنے کاروبار میں اور عیسوی مذہب کے سارے احکام اورطریقے اور رسموں کے ماننے میں نمونہ بنیں اور لوگوں کو تعلیم دیں ۔اورکلیسیا میں بعضوں کو نگہبانی کا اختیار بھی دیا گیا ہے ۔اس سے ظاہر ہے کہ وہ مذہب قبولیت کے لائق ہے اور جو اُسےنہ مانے وہ بڑے خطرے میں ہے۔
دوئم:۔عیسوی مذہب کی ایک اور صفت ہے کہ اُس میں ایک تدبیر کا بیان ہے جو عقل سے معلوم نہیں ہوتی اور جس میں کئی خاص حکم ہم کو دئیے گئے تدبیر مذکور خُدا کا بندوبست ہے جس سے وہ اپنے بیٹے اور روح القدس کے وسیلے سے انسان کو جو بموجب پاک نوشتوں کے ابتری میں ہیں بلاتا اور بچاتا ہے ۔اور اُن نوشتوں میں ہم کو حکم ملا کہ بپتسمہ پائیں نہ صرف باپ ہی کے بلکہ مسیح اور روح القدس کے نام سے بھی ۔اور مسیح وروح القدس کے اور دیگر فرائض جن کو ہم پیشتر نہ جانتے تھے نوشتون کی روسے ہم پر ثابت ہوئے ۔اور ان فرائض کا تقاضا اس سے معلوم ہوا کہ وہ نہ صرف فرمائے گئے بلکہ اس باعث اور بھاری ہیں کہ ان الہٰی اقانیم نے ہمارے واسطے انجیل کے مطابق کیا کیا کیا اور ہم اُن سے کیا کیا تعلق رکھتے ہیں ۔عقل سے وہ علاقہ جو ہم خُدا با پ سے رکھتے ہیں معلوم ہوتا ہے جس سے اُس کے فرائض ہمارے اوپر ہیں۔پاک نوشتوں میں وہ علاقہ جو ہم بیٹے اور روح القدس سے رکھتے ہیں مذکور ہے جس سے اُن کے فرائض ہمارے اُوپر ہیں ۔یعنی عقل کی گواہی سے خُدا با پ دُنیا کا مالک ہے۔بائبل کی گواہی سے مسیح خُدا اور آدمیوں کے بیچ درمیانی ہے اور روح القدس ہمار ا ہادی اور ہمارا مقدس کرنے والا ہے اگر کوئی شخص مذکور ہ بات کا اقرار کرے تو جس طرح ہم پر باپ کے نام سے بپتسمہ پانا فرض ہے ویسے ہی بیٹے اور روح القدس کے نام سے بھی بپتسمہ پانا فرض ہے ۔زیادہ صاف کہوں گا یا د کرنا لازم ہے کہ مذہب کی دو صفتیں ہیں یعنی ظاہری اور باطنی اورجیسے پہلی صفت سچے مذہب کے لیے ضرور ہے ویسے ہی دوسری بھی ہے مذہب کی پہلی صفت کا یہ مطلب ہے کہ ہم ذہن اور دل کے خیال اورخواہش سے اُس کو مانیں۔دوسری صفت کے یہ معنی ہیں کہ ہم خُداقادر مطلق باپ کی پرستش کریں یہ پچھلی صفت کے یہ معنی ہیں کہ ہم خُداقادر مطلق باپ کی پرستش کریں یہ پچھلی صفت خلقی مذہب کہلاتا ہے ۔ اور پہلی صفت الہٰامی مذہب کہلاتا ہے جس کے مطابق ہم بیٹے اور روح القدس کو پیار کرکے اُن کی پرستش کرتے ہیں ۔ہم ان تینوں الہٰی اقانیم کے ایک ایک سے علاقہ رکھتے ہیں جس علاقہ کے ذریعہ سے ہم پر فرض ہے کہ ایک ایک سے علاقہ رکھتے ہیں جس علاقہ کے ذریعہ سے ہم پر فرض ہے کہ ایک ایک کو پیار کریں اور ایک ایک کی پرستش کریں۔ اور وہ طریقہ جس سے فرض معلوم ہوا اُس فرض کو رد نہیں کرتا کیوں کہ ہمارا فرض ہمارے علاقہ پر موقوف ہے نہ علاقہ اور فرض کے ظاہر کرنے کے طریقہ پر ۔
بیٹا اور روح القدس ایک ایک اپنا خاص کام اُس بڑی الہٰی تدبیر میں جس سے دُنیا کی نجات ہوتی ہے کرتا ہے ۔بیٹا ہمارے گناہوں کا بدلہ اور وسیلہ اور نجات دہندہ ہے اور روح القدس ہمارا رہنما اور پاک کنندہ ہے۔اب کیا ہم پر فرض نہیں ہےکہ ان دونوں کی پرستش کریں کیوں کہ ہم ایسا علاقہ دونوں سے رکھتے ہیں جیسے کہ ہم اپنے ہم جنسوں کو اُس علاقہ کے سبب سے جو ہم اُن سے رکھتے ہیں الفت کرتے ہیں ۔لیکن ضرور پوچھا جائے گا کہ بیٹے وروح القدس کی وہ باطنی پرستش اورپیار جو بائبل کے حکم کے مطابق اور اُن علاقوں سےہم پر فرض ہوئی کیا کیا ہے ۔جواب یہ ہے ۔اُن کی تکریم کرنا تعظیم وعزت دینا ،پیار کرنا ،اُن پر بھروسا رکھنا ،شکر گزاری کرنا اُن کا خوف رکھنا ۔اُن پر اُمید رکھنا اور اس باطنی پرستش کے ظاہری طریقے الہٰامی احکام سے ظاہر ہیں۔ویسے ہی خُدا باپ کی ظاہری پرستش کے طریقے حکموں کی روسے معلوم ہوئے۔لیکن بیٹے اور روح القدس کی وہ باطنی پرستش جو ہم پر فرض ہے صرف اُن علاقون سے نکلتی ہے جو ہم اُن سے رکھتے ہیں یعنی جب ہم کو کسی طرح سے معلوم ہوا کہ بیٹا ہمارا بدلہ اورکفارہ اور درمیانی ہے اور روح القدس ہمارا ہادی اور پاک کنندہ ہے تب عقل کہتی ہے کہ ہم پر اُن کی دلی پرستش کرنا فرض ہے اور یہ نہ صرف الہٰام کی بلکہ عقل کی بات ہے ۔
اور اگر یہ علاقہ جو ہم بیٹے اور روح القدس کے ساتھ رکھتے ہیں کسی طرح ہم پر ظاہر ہوتو وہ فرائض جو اُس علاقہ رکھنے کے نتیجے ہیں ہم پر ضرور واجب الادا (جس کا ادا کرنا ضروری ہو۔ایسی رقم جو کسی کے ذمّے نکلتی ہو)ہوں گے ۔اوروہ علاقہ الہٰام سے معلوم ہوتا ہے سواگر ہم اُس کو دانستہ نہ مانیں تو کون اُس سزا کی حد کو جو ہم پر پڑے گی بتلا سکتا ہے۔ پس اگر مسیح فی الحقیقت خُدا اور آدمیوں کے بیچ میں درمیانی ہے یعنی اگر مسیحی مذہب برحق ہے اگر مسیح ہمارا خُدا وند اورنجات دہندہ اور خُدا ہے اور ہم اُس کو اُن علاقوں میں بھول جائیں یا نہ مانیں تو کون کہہ سکتا کہ ہم پر کیا کیا آفتیں پڑیں گی ۔اگر گناہ کا نتیجہ اس زندگی میں نہایت بُرا ہے تو اگر ہم اُن علاقوں کو نہ مانیں اور اپنے فرائض بہ نسبت بیٹے اور روح القدس کے پوری نہ کریں تو کیسا ہوگا۔
پھر اگر انسان کی روحانی طبیعت بگڑ گئی اور تباہ ہوگئی اور اس باعث سے وہ اُس جگہ میں جانے کے جو مسیح اپنے شاگردوں کے واسطے تیار کرنے کو گیا ہے لائق نہیں ہیں اور اگر روح القدس کی طاقت اور مدد اُن جگہ کے لائق کرنے کے لیے درکار ہے ۔اور جیسا لکھا ہے کہ اگر کوئی آدمی روح سے پیدا نہ ہو وہ خُدا کی بادشاہت میں داخل نہ ہوگا ۔تو اُن کا کیا حال ہوگاجو اُن الہٰی وسیلوں کو نہیں مانتے اورنہ کچھ پروا کرتے ہیں۔
مخلوقات کے طریقوں کی مشابہت سے ہم سکھتے ہیں کہ اگر ہم اُن وسیلوں کو جن سے برکتیں نازل ہوتی ہیں استعمال نہ کریں تو ہم اُن برکتوں کو نہ پائیں گے ۔
اب ہم عقل سے معلوم نہیں کرسکتے کہ ہمیں روحانی برکتیں کس طریقے سے ملیں گی ۔یہ طریقہ اگر الہٰام سے معلوم نہ ہو تو کسی طرح سے معلوم نہ ہوگا۔پس اگر یہ طریقہ مذہب عیسوی میں مبین ہے تو وہ آدمی جو مسیحی مذہب کو ہلکا اور حقیر جانتا ہے تاوقت یہ کہ اُس کو جھوٹا ثابت نہ کرے اپنا بڑا نقصان کرتا ہے۔پس ہم پر نہایت فرض ہے کہ آزمائیں اور اگر وہ برحق ثابت ہو تو اُسے قبول کریں۔اب دو نتائج نکالتے ہیں تاکہ پہلی باتیں زیادہ صاف معلوم ہوں ۔اور ہم مذہب میں دو طرح کے فرائض دیکھتے ہیں ایک تو نقلی اوردوسرا عقلی ۔نقلی فرض وہ ہے جو حکم کے ذریعہ سے ہمارے اُوپر ہے خواہ ہم اُس کا سبب اور فائدہ دیکھیں یا نہیں اور عقلی فرض وہ ہے جس کا سبب اورفائدہ ہم دیکھتے ہیں اورخواہ اُس کے پورا کرنے کا حکم ہم کو ملایا نہیں تو بھی وہ فرض ہے ۔نقلی فرض حالت سے نہیں نکلتا ہے بلکہ حکم کے ذریعہ سے ہمارے اوپر ہے اور اگر مالک حکم نہ دیتا تو وہ ہم پر فرض بھی نہ ہوتا ۔عقل سے معلوم ہوا کہ خُدا باپ ہم سے تعلق رکھتا ہے اور الہٰام سے معلوم ہوا کہ خُدا بیٹا ہم سےتعلق رکھتا ہے مگر باپ کے نام سے بپتسمہ لینا اور بیٹے کے نام سے بپتسمہ لینا دونوں نقلی فرائض ہیں کیونکہ دونوں کی بابت حکم ہوا ۔پس اگر ہم اقرار کریں کہ انجیل برحق ہے تو فوراً ہم پر فرض ہوتا ہے کہ مسیح کو پیار کریں کیونکہ وہ اُس نجات کی تدبیر کا وسیلہ اور کفارہ ہے جیسا کہ خُدائے خالق کو پیار کرنا فرض ہے کیونکہ وہ سب نیکی اور خوبی کا چشمہ ہے ۔
اور نقلی احکام بھی دوقسم کے ہیں پہلے و ہ جو خلقی مذہب کی بابت ہیں اور دوسرے وہ جو الہٰامی مذہب کی بابت ہیں اور ہمیں اُن کا مقابلہ کرنے میں بہت ہی ہوشیاری اور خبرداری کرنی چاہیے۔اگر وہ حکم ایک ہی اختیار سے فرمائے جائیں اور ایسا موقع ہو کہ ہم دونوں کو نہ مان سکیں اور اُن میں ایک حکم عقلی ہو یعنی ہم اُس کا سبب جان سکتے ہوں اور دوسرا حکم نقلی ہویعنی فرمان سے ہو اور ہم اُس کا سبب نہ جانتے ہوں تو ہم پر فرض ہے کہ عقلی حکم کو مانیں ۔اور اگر ہم خوب کوشش وغور کریں تو معلوم کریں گے کہ کوئی نقلی حکم ایسا نہیں ہے کہ وہ کسی عقلی قانون کے برخلاف ہو ۔لیکن بات یہ ہےکہ عقلی قانون وہ ہے جو کہ خُدانے دل پر لکھا ہے اور نقلی قانون وہ ہے جو خُدا نے اپنے کلام میں فرمایا ہے ۔اور سب کچھ دل میں نہیں لکھا گیا ہے لیکن سب کچھ کلام الہٰی میں ہے ۔اس سبب سے سبھوں پر نہایت فرض اور واجب ہے کہ کتاب مقدس کو پڑھیں اور خُدا کی مرضی پہچاننے کے جویاں (تلاش کرنے والا)ہوں کیوں کہ جب ہم نے معلوم کرلیا کہ اُسی نے احکام دئیے تو وہ احکام نقلی بھی ہیں اور عقلی بھی ہیں اور دونوں ہم پر فرض اور واجب الادا(جس کا اداکرنا ضروری ہو) ہیں۔
دوسرا باب
معجزوں کے برخلاف قیاس کرنے کا بیان
بعض آدمی قیاس کرتے ہیں کہ خلقت کے طریقے مذہب عیسوی کے طریقوں سے مشابہت نہیں رکھتے ہیں بلکہ برخلاف ہوکر اُس کو رد کرتے ہیں ۔خاص کرو ہ کہتے ہیں کہ مخلوقات کے طریقے معجزوں کے برخلاف ہیں اور جیسے اور باتیں گواہوں سے ثابت ہوتی ہیں ویسی ہی معجزے سے ثابت نہیں ہوسکتے ہیں بلکہ اُن کا ثبوت پہنچانے کے لیے زیادہ مضبوط گواہی درکار ہے۔اس بات کا جواب آسان ہے۔
اوّل:۔میرے نزدیک مشابہت کسی طرح سے عیسوی تدبیر کے یعنی اس بات کے برخلاف نہیں ہے کہ خُدانے یسوع مسیح کی معرفت دنیا کو پیدا کیا اور اُسی کی معرفت دُنیا کی حکومت کرتا ہے اور قیامت کے دن اُسی کی معرفت دُنیا کا انصاف کرے گا یعنی ہر ایک کو اُس کے کاموں کے موافق سزا یا جزا دے گا اور نیک آدمی اُس کی روح کی تاثیر سے ہدایت کئے جاتے ہیں ۔اگر مشابہت ان باتوں کےبرخلاف ہے تو اُس کا سبب یہ ہے کہ یہ باتیں عقل اور تجربہ کاری سے دریافت نہیں ہوتی ہیں یا اس سبب سے کہ وہ مخلوقات کے طریقوں سے جو ہم عقل اور تجربہ سے دریافت کرسکتے ہیں برخلاف ہیں۔
پہلے ۔عیسوی مذہب کے برخلاف یہ بات نہیں ہے یعنی وہ عقل اور تجربہ سے دریافت نہیں ہوتا ہے مثلاً ایک آدمی سے جس نے ہمارے مذہب کی خبر نہیں سُنی اوروہ بہت عقل مند اور عالم ہے اور فیلسوف (دانش مند،عالم )بھی ہے یعنی مخلوقات کے سارے طریقوں سے واقف ہے اور خلقی مذہب کو جانتا ہے ایسا آدمی ضرور اقرار کرے گا کہ خُدا ئے رزاق(روزی رساں ،خُداتعالیٰ کا صفاتی نام) کی حکومت میں ماضی وحال اور استقبال کا بہت سا بھید ہے کہ جو انسان کی عقل وفہم سے دریافت نہیں ہوسکتا ہے اور اگر الہٰام نہ ہو تو وہ بھید ہمیشہ پوشیدہ رہے گا کیونکہ اگر عالم بے حد نہ ہو تو بھی وہ ہماری ناقص عقل سے پہچانا نہیں جاتا ہے اور حقیقت میں وہ جو ہم دیکھتے اورپہچانتے ہیں سو عالم کا ایک چھوٹا جُز ہے اور اگر خلقت کے طریقوں اور حکومت میں بہت سی باتیں ہماری عقل وفہم سے باہر اوربعید ہیں تو کیا تعجب کہ مذہب میں بھی ایسی باتیں ہوں جن کے سبب کو ہم نہیں پہچان سکتے ہیں یہ بات اُن باتوں کو موقوف اور رد نہیں کرتی ہے ۔
دوسرے ۔اگر مذہب میں ایسی باتیں ہیں جو مخلوقات کےطریقوں سے موافقت نہیں رکھتی ہیں تو بھی اس وجہ سے ثابت نہیں ہوتا کہ نوشتے باطل ہیں ۔کیونکہ یہ ضرور نہیں کہ ہر ایک بات جو ہم نہیں جانتے اُن باتوں سے جو ہم جانتے ہیں حقیقی موافقت رکھے۔ہم خلقت کے طریقوں میں کبھی کبھی باتیں دیکھتے ہیں جوکہ متفرق ہیں لیکن مذہب اور مخلوقات کے طریقے سب باتوں میں متفرق نہیں ہیں بلکہ ہم ثابت کریں گے کہ اُن میں بہت سی مشابہت ہے۔
معجزوں کا بیان اور کتابوں میں بہت صاف ہے اس سبب سے ہم بہت بیان اس کتاب میں نہیں کرتے ہیں ۔لیکن ایک بات یاد کرنے کے لائق ہے یعنی معجزے دو قسم کے ہیں ظاہری اور باطنی معجزوں کو ثابت کرنے کے لیے ظاہری معجزے ضرور اور درکار ہیں۔مثلاً مسیح کا مجسم ہونا یعنی اُس کی الوہیت اور انسانیت کا ملنا اور ایک ہونا ایک باطنی معجزہ ہے اور اگر کوئی معجزہ اُس کے ثبوت کے لیے نظر میں ادا نہ کیا جاتا تو کوئی اُس کا یقین نہیں کرتا اور الہٰام سے کلام کرنا یا لکھنا ایک ایسا معجزہ ہے کہ اگر اُس کے ثابت کرنے میں اور معجزے نہ ہوں تو وہ جھوٹ اور باطل ٹھہرتا ہے ۔ پس اگر کوئی دعویٰ نبوت کا کرے اور اس طرح کہے (کہ وہ ایک نشان مانگتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب تک ہم معجزے نہ دیکھیں ہم یقین نہ کریں گے) اُن سے کہہ کہ خُدانے اپنے پچھلے نبی کو بغیر معجزہ کے بھیجا ہے تو وہ نبی باطل بات کہتا ہے اور کوئی عقل مند آدمی اُسے نبی نہ مانے گا۔
دوم :۔کئی باتیں ہیں جن کو ہم اب معجزہ کہتے ہیں اور جن کے برخلاف خلقت سے کوئی تشبیہ نہیں نکلتی اور خاص کر اس بات کے برخلاف کہ دُنیا کے شروع میں خُدا سے کلام نازل ہوا مشابہت کے طور پر کوئی دلیل اُس کے برخلاف نہیں ہوسکتی کیوں کہ معجزے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مخلوقات کے طریقے ہیں اور یہ معجزہ اُس طریقے کے برخلاف ہے۔لیکن شروع میں کوئی طریقہ معلوم نہیں ہوا پس کوئی بات کیوں نہ ہو غیر طریقے کی نہیں ہوسکتی تھی۔پس یہ سوال کہ کیا شروع میں الہٰامی کلام تھا معجزوں سے تعلق نہیں رکھتا ۔بلکہ اس بات کے متعلق ہے کہ آیا اس بات پر کافی ووافی گواہی ہے یا نہیں ۔اگر کافی گواہی ثابت ہے کہ شروع میں الہٰامی کلام ہوا تو ہم کو اس کاقبول کرنا واجب ہوتا ہے ۔جیسے تواریخوں کی باتیں گواہی سے ثابت ہوتی ہیں ویسے ہی الہٰام سے کلام ہونا اگر دنیا کے شروع کا ذکر ہے گواہی سے ثابت ہوسکتا ہے۔جب پہلا انسان بنایا گیا تب وہ اُس طریقے سے نہیں پیدا ہوا کہ جس سے اب انسان پیدا ہوتا ہے ۔تووہ طاقت جس سے انسان مٹی سے پیدا ہوا آگے کو اُس انسان کے ساتھ الہٰام سے کلام کرسکتی تھی اگر وہ ایسا کرتے تو یہ معجزہ نہیں سمجھا جاتا کیوں کہ مخلوقات کا کوئی طریقہ معلوم نہیں تھا اور طریقے کے نہ ہونے کے سبب سے کوئی بات خلاف طریقے کے نہیں ہوسکتی تھی ۔اگر اقرار کریں کہ دُنیا کی پیدائش ایک معجزہ ہے تو اس سے الہٰامی بات اور دلائل میں کچھ خلل نہیں ہوتا مثلاً اقرار کیا گیا کہ مسیح برسوں تک معجزے دکھاتا رہا تو کون کہے گا کہ اُس کا کوئی معجزہ کسی اورمعجزے سے بڑ ا اور عجیب نہیں ہوسکتاہے ۔اب یاد رکھنا چاہیے کہ نہ تواریخ میں اور نہ کسی روایت میں ذکر ہے کہ مذہب عیسوی عقل کے وسیلے سے موجود ہوا لیکن برعکس اس کے اُن دونوں میں مذکور ہے کہ مذہب الہٰام سے ہوا اور یہ مذکورہ بات کتب الہٰی میں بھی مبین ہے۔ اور یہ بات خلقی مذہب کے برخلاف نہیں ہے ۔پس غالب ہے کہ جیسا شروع میں کلام نازل ہوا ویسا ہی اُس کے بعد بھی نازل ہوسکتا ہے۔
سوم :۔اگر کوئی اعتراض کرکے کہے کہ پیدائش بعد جب طریقہ مقرر ہوا تب الہٰام سے کلام نازل کرنا طریقہ کے برخلاف ہےاور طریقوں سے اُس کا غیر ممکن ہونا ثابت ہوتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ پہلے تو ہم نہیں جانتے کہ ہماری دُنیا اور عالموں سے کونسی مشابہت رکھتی ہے پس ثابت نہیں ہوتا کہ اُن کی تشبیہ الہٰام سے کلام دینی کے برخلاف ہے یا نہیں ۔
دوسرے۔ہم اس دُنیا کے طریقوں اور تشبیہوں سےایسے ناواقف ہیں کہ حقیقت میں کسی بات کو اُن سے ثابت نہیں کرسکتے ہیں پھر جب ہم مذہب کی باتوں کی تشبیہ ڈھونڈیں تو مخلوقات کے عام ماجروں میں نہ ڈھونڈھنا چاہیے بلکہ اُس کے عجائبات میں تلاش کرنا واجب ہے ۔مثلاًطوفان وکال و زلزلہ وغیرہ میں ۔اگرکوئی گرم ملک میں بیان کرے کہ اُتر کے ملک میں دریا بالکل سخت ہوجاتے ہیں ایسا کہ اُن پر گاڑی وغیرہ اس طرح سے چلتی ہیں جس طرح یہاں خشکی پر تو گرم ملکوں کے لوگ جنہوں نے ایساحال کبھی نہیں دیکھا اور نہ سُنا ضرور کہیں گے کہ یہ بات سچ نہیں ہے بلکہ مخلوقات کے طریقوں کے برخلاف ہے کیوں کہ یہاں پانی سخت نہیں ہوجاتا ہے اور اس کا جواب جیسا اُوپر بیان ہوا یہ ہے کہ ہم مخلوقات کے طریقون سے کماحقہ (جیسا اُس کا حق ہے)واقف نہیں ہیں۔
پس صاف ثابت ہے کہ مخلوقات کے طریقون میں کوئی مشابہت یا دلیل معجزوں کے برخلاف نہیں پائی جاتی ہے۔
تیسرا باب
اس بات کے بیان میں کہ ہم اس قابل نہیں ہیں کہ الہامی کلام
پر ٹھیک انصاف کرکے بتلاسکیں کہ اُن میں کون کون سی باتیں
ہونی چاہیے لیکن مشابہت پر لحاظ کرنے سے غالب معلوم ہوتاہے
خدا کے کلام میں بہت سی باتیں ہونی چاہیے جن کو ہم نہیں سمجھتے
بعض آدمی نہ صرف مسیحی مذہب کی دلیلوں پر بلکہ اُس کی اصلیت پر بھی اعتراض کرتے ہیں۔اُس کے نازل ہونے اورزمین پرجاری ہونے کے طریقوں پر اعتراض کرتے اور کہتے ہیں کہ کتاب مقدس کئی باتوں میں ناقص ہے اور اُس کی اکثر باتیں بیوقوفی معلوم ہوتی ہیں اوربہت سی باتیں جن کے باعث انسان ٹھوکر کھاتے ہیں اور باطل باتوں کو سرگرمی سے مانتے اور زبردستی بھی کرتے ہیں ۔اوروہ عام کتاب مذہب نہیں ہے اور اُس کی دلیلیں ایسی مضبوط اور تاثیر پذیر نہیں ہیں جیسی چاہیے ۔فرصت نہیں کہ سبھوں کے اعتراض جو اپنے اپنے خیال کے مطابق کرتے ہیں بیان کریں ۔بعض آدمی کتاب اقدس پر اس لیے اعتراض کرتے ہیں کہ وہ علمی فصاحت اور بلا غت کے قواعد کے موافق نہیں لکھی گئی ۔اور بعض لوگ صحائف انبیا سے بالکل نفرت کرتے ہیں اس لیے کہ اُن میں تمثیلیں ہیں جو سمجھ میں جلدی نہیں آتیں۔اگلے بابوں میں یہ باتیں مذکورہ کھل جائیں گی ۔لیکن اس طرح کے اعتراضات کی بابت اب یہ کہتے ہیں کہ ہم اُس کتاب اور مذہب پر اعتراض کرنے کے قابل نہیں ہیں۔
پس اگرچہ مذہب عیسوی کی دلیلوں کو دریافت کرنا اچھا ہے تاہم وہ اعتراض جو اُوپر مذکور ہوئے باطل ہیں۔ہم اپنی عقل کو ناچیز نہیں جانتے ہیں اس لیے اگر کسی مذہبی کتاب میں اختلاف پائے جائیں اور بُرے کاموں کی ممانت مذکور نہ ہو تو عقل کہتی ہے کہ وہ کتاب خُدا کی طرف سے نازل نہیں ہوئی ۔اب ہم مسیحی مذہب کی دلیلوں پر نہیں بلکہ اعتراضات مذکورہ بالا پر لحاظ کرکے اُن کو مشابہت کی مدد سے رد کریں گے ۔
جیسا خُدا جہان کی حکومت کرتا اور اپنی مخلوق کو اُن آئین اور قوانین کے مطابق جو اُن عقل اور تجربہ کاری سے معلوم ہوسکتے ہیں تعلیم دیتا ہے ویسا ہی نوشتےہم کو ایک اور الہٰی تدبیر کی خبر دیتے ہیں اور اُنہیں نوشتوں میں مذکور ہے کہ خُدا نے بعض آدمیوں کو الہٰام سے اپنی حکومت کی بابت ایسی خبردی جیسے کہ وہ اور طرح سے حاصل نہیں کرسکتے تھے اور اُن کو ایسی باتیں یاد دلائیں جیسے کہ وہ اور رہ سے نہیں سیکھ سکتے تھے اور اپنے تمام کلام کو معجزوں سے بالکل ثبوت کو پہنچا دیا ہے ۔اگر عقلی اور الہٰامی تدبیر اور حکومت دونوں خُدا سے ہیں اور وہ آپس میں موافقت رکھتے ہیں اور ہم ایک کو مثلاً عقلی تدبیر کو صاف نہیں سمجھ سکتے ہیں تو غالب بلکہ اغلب ہے کہ ہم الہٰامی تدبیر کو بھی صاف نہ سمجھ سکیں۔
مخلوقات کے قاعدے اور طریقے اکثر مخفی اور مختلف اور ہماری عقل کے برخلاف بھی معلوم دیتے ہیں اوراکثر لوگ سوچتے ہیں کہ وہ اعتراض کے قابل ہیں تو کیا تعجب ہے کہ انسان کبھی کبھی الہٰامی مذہب کے برخلاف اور خاص کر اُن معجزوں اور طریقوں کے برخلاف جن سے وہ مقرر اور ثابت کیا گیا دیکھیں۔مثلاًاگر کوئی بادشاہ اپنے ملک کی حکومت مثل دیگر مشہور قوموں کے اچھی اور بہترین طرح سے کرتا ہے اور اُس ملک کا کوئی باشندہ جو حکومت کے قوانین سے واقفیت نہ رکھتا ہوتو اُس آدمی کو مطلق معلوم نہیں ہوسکتا کہ کس حالت میں اورکہاں تک وہ قوانین منسوخ یا مبدل (تبدیل شدہ، بدلا ہوا)ہونے چاہئیں ۔
اگر وہ مروجہ حال کی حکومت سے واقف نہیں ہے توکون کہہ سکتا ہے کہ وہ عجیب وغریب حال کی حکومت پر ٹھیک انصاف کرسکتا ہے ۔اگر وہ پہلی حالت کی حکومت پر اعتراض کرے تو پچھلی حالت کی حکومت پر بھی ضرور اعتراض کرے گا ۔ویسے ہی اگر وہ دُنیا کے طریقوں کی بابت غلطی کرتا ہے تو کیوں کر الہٰامی کلام پر الزام نہ لگائے گا ۔
اور یہ مذکور ہ باتیں جو مسیحی مذہب سے علاقہ رکھتی ہیں الہٰام کے حق میں نہایت مفید ہیں ۔جیسا ہم پہلے سے نہیں جانتے کہ خُدا کس طریقے سے یاکس درجہ پریا کس وسیلے سے ہماری تربیت کرے ویسا ہی اگر معلوم ہو کہ وہ بذریعہ الہٰام ہم کو وہ باتیں جوہم علم وعقل کی رو سے نہیں سیکھ سکتے ہیں سکھلائے تو ہم کسی طرح سے یہ نہیں بتلا سکتےکہ وہ یہ روشنی اور تعلیم ہم کو کس قدر دے ۔لیکن شاید کوئی کہے کہ الہٰام جو لکھا نہ جاتا تو خُدا کے مقصد کے لائق نہ ہوتا میں پوچھتا ہوں کہ کون مقصد کے لائق ۔ہر ایک مراد جو وہ پوری کرنی چاہتا ہے تو اُس سے پوری ہوتی ہے پس اور بھی اُس سے پوری ہوتی اگر الہٰام لکھا نہ جاتا ۔اور ہم آگے سے نہیں بتلاسکتےکہ اُس کا کیا مقصد ہے اور وہ کیا چاہتا ہے ۔اور اگر ہم آگے سے نہیں جان سکتے تھے کہ کونسا کلام ضرور ہے یا وہ کس طرح سے نازل کیا جائے تو اُس کے اوپر جو نازل ہوا ہے اعتراض کرنا بالکل باطل ہے اور ہم نہیں کہہ سکتےکہ یہ کلا م اور یہ مذہب کونسے انتظام کے برخلاف ہے کیونکہ ہم کسی طرح سے خیال نہیں کرسکتے کہ کونسا مذہب ضرور ہے۔
ان باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ مذہب عیسوی کے برخلاف صرف یہی ایک اعتراض ہے کہ آیا وہ فی الحقیقت الہٰام سے دیا گیا یا نہیں اور کیا وہ ایسا ہی ہے جیسا وہ دعویٰ کرتا ہے یا نہیں ۔پس اگر کوئی شخص ثابت نہ کرے کہ اُس کے اخلاقی قوانین ناقص ہیں اورمذہب عیسوی کے ثبوت میں معجزے دکھلائے نہیں گئے اور اُس کا پھیل جانا اور اجرپانا خود معجزہ نہیں ہے اور جوپیش گوئیاں اُس میں مذکورہیں وہ پیش گوئیاں نہیں ہیں تو اقرار کرنا پڑے گا کہ یہ مذہب خُدا کی طرف سے ہے اورسبھون پر فرض ہے کہ اُس کو قبول کریں ۔اور جیسا کہ ہم اور کتابوں پر انصاف کرتے ہیں ویسا کتب الہٰی پر انصاف نہیں کرسکتے۔مثلاً جب بائبل میں کوئی بات بھید کی معلوم ہوتی ہے تو ہم نہیں کہہ سکتے کہ اُس کے معنی فلاں نہیں ہیں اگر ہوتےتو زیادہ صاف لکھا جاتا بلکہ صرف یہ سوال ہوتا ہے کہ فلاں معنی کے کیا کیا ثبوت ہیں۔
سوال :۔کیا یہ خود معلوم نہیں ہوتا ہے کہ ہر ایک بات جو کسی کتاب میں غیر محتمل(غیر مشکوک،جس پر شک نہ ہو) ہو اُس کتاب کی اگلی دلیلوں کو کمزور کرتی ہےہاں البتہ لیکن ہمیں یہ کہنا نہ چاہیے کہ یہ بات یا وہ بات غیر محتمل ہے کیوں کہ خُدا سے سب کچھ ممکن ہے تو بھی ہم نے پیشتر ثابت کیا کہ جو بات سچے گواہوں سے ثابت ہو درست ہے ۔
مذکورہ باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم الہٰی تعلیم پانے سے پیشتر نہیں کہہ سکتے کہ کس طرح کی الہٰی تعلیم ضرورہے جیسا کہ ہم مخلوقات کے طریقوں کی پہچان میں غلطی کیا کرتے ہیں ویسے ہی الہٰی باتوں میں غلطی کرتے ہیں ۔مثلاً کیسی تعجب کی بات ہے بلکہ بعید القیاس (قیاس کے خلاف)ہے کہ انسان علم نجوم میں زیادہ ہوشیار اور واقف کا ر ہوں بہ نسبت علم طبابت کے جس پر بہت سے بیماروں کی زندگی موقوف ہے اور یہ بھی بعید القیاس بات ہے کہ کئی ایک بات میں حیوان انسان سے ہوشیار ہوں ۔لیکن جب یہ مذکورہ باتیں ثابت ہوں تو ہم شک نہیں کرتے ہیں۔ پس اگر مذہب میں بعید القیاس باتیں ہوں تو بھی جب گواہی اور معجزوں اور تجربہ کاری سے ثابت ہوں تو قبول کرنا لازم آتا ہے ۔اب ہم ان باتوں کو ایک خاص مطلب پر لگا کے ایک اعتراض کو رد کریں گے ۔نوشتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حواریوں کے زمانے میں اکثر مسیحی ہوکر طرح طرح کی عجیب طاقت اور لیا قت پاتے تھے اور کبھی کبھی بعض اپنی عجیب طاقت کو بُرے کام میں لاتے تھے ۔اب معترض کہتے ہیں کہ اس سےثابت ہوتا ہے کہ وہ عجیب طاقت ولیاقت معجزوں کی صورت نہیں رکھتے ہیں کیوں کہ اُن سے بُرے نتیجے نکلتے تھے۔
اب یہاں خیال کرو کہ اگر کوئی شخص لیاقتیں رکھتا ہو مثلاً غیر زبانیں بولنا تووہ شخص اس لیاقت کے اوپر جو اُسے بخشش سے ملی ایسا اختیار رکھتا ہے جیسے وہ شخص جس نے ایسی لیاقت پڑھنے اور سیکھنے سے یا اور کسی طرح سے حاصل کی ۔پس وہ اُ س کو اپنی عقل کے موافق جیسے اور لیاقت کو اپنے کام میں لاتا ہے لاتارہے گا اور شاید کبھی اچھا ہوگا اور کبھی اچھا نہ ہوگا تو اعتراض کہاں رہا ۔کوئی نہ کہے کہ خُدا کو چاہیے تھا کہ اور بڑا معجزہ کرکے انسان کو پہلے عقل دینے کی اور طرح سے کاملیت عطا کرکے معجزہ دکھلانے کی طاقت دے۔کیونکہ ہم کبھی نہیں دیکھتے ہیں کہ سب سے لائق آدمیوں کو سب سے عمدہ لیاقتیں دی گئی ہوں ۔مثلاً اکثر بہت بُرے آدمیوں کو اچھی لیاقتیں جیسے تیز فہمی وحافظہ اور فصاحت وغیرہ دی گئی ہیں۔
کئی اور باتیں ہیں جن سے ہم کو معلوم ہوتاہے کہ الہٰام اور مخلوقات کی روشنی میں مشابہت ہے ۔مستعمل مسیحی مذہب یا وہ ایمان اور اعمال جس کے ذریعہ سے آدمی عیسائی سمجھا جاتا ہے بہت اور ظاہر ہے اور اُن قوانین کے موافق ہے کہ جن سے ہمارے دُنیاوی کام اور عادتیں درست کی جاتی ہیں ۔لیکن اُس روحانی علم کی ظاہری باتوں کو صاف اور صحیح جاننا جس کو پولُس رسول کاملیت تک بڑھ جانا کہتا ہے اور پیش گوئیوں کے بھید کا سمجھنا مثل علم ناطقہ (طاقت گویائی،بولنے کی قوت)اور علم انتظام مادہ کے نہایت مشکل ہے اوربغیر کمال کوشش کے ہم کو حاصل نہ ہوگا۔اورجسمانی اور آسمانی علم کی روک بھی ایک ہی طرح کی ہیں۔
اس بات کا اقرار کیا گیا کہ مذہب کے سب طریقے اور تدبیریں اب تک کماحقہ (جیسا اُس کا حق ہے)سمجھ میں نہیں آتی ہیں اور اگر وہ قیامت سے پہلے بغیر معجزے کی مدد کے صاف معلوم ہوں تو جیسا اور علم ہم کو بذریعہ کوشش کے حاصل ہوتے ہیں ویسے ہی یہ روحانی اور مذہبی علم ہم کو کوشش سے حاصل ہوگاکہ علم اور آزادگی کی ترقی ہوتی رہیں گی اور بعض آدمی کوشش سے اُن باتوں کو جو پوشیدہ اورانسان سے چھپی ہوئی ہیں تشبیہیں لاکے دریافت کریں گے اسی طرح سے آدمی اور علموں کو پڑھاتے ہیں ۔اورغالب ہے کہ بائبل اگرچہ بہت برسوں سےانسان کی سمجھ اور فہم میں نہیں آئیں ہیں۔انہیں پچھلے زمانوں میں اور علموں میں نئے نئے ماجرے اور باتیں دریافت ہوئیں اور یہ باتیں نئی بھی نہیں ہیں۔(کیونکہ شروع سے موجود ہیں) لیکن ان زمانوں میں دریافت کی گئیں ویسے ہی شاید واقع ہوتےہوئے ماجرے کتب الہٰی کے کسی حصے کا بھید کھول دیں گے ۔
شاید معترض کہے کہ نوشتے بتلاتے ہیں کہ دُنیا ہلاکت کی حالت میں ہے اور کہ مسیحی مذہب ایک تدبیر ہے کہ جس سے دُنیا سمجھ جائے اور کہ وہ جس قدر مخلوقات کی روشنی کم ہے اُس قدر روشنی کو بڑھا کے پورا کرے ۔تو کیا یہ قابل یقین کے ہے کہ ایسی اچھی تدبیر اتنے بہت زمانوں تک انسان سے پوشیدہ رہے اوروہ صرف تھوڑے لوگوں پر ظاہر ہو اور کیا اغلب ہے کہ اُس میں اتنی بہت باتیں باقی رہیں اور اتنی اورباتیں شک وشبہ کے بادلوں سے ڈھکی ہوئی ہوں۔ اور لوگ اُن میں بھول چوک کریں اور اُن پرہرطرح کا اعتراض کرسکیں جیسا کہ وہ مخلوقات کی روشنی پر اعتراض کرتے ہیں ۔
مَیں نہیں کہتا ہوں کہ مذکورہ باتیں کس قدر سچی ہیں لیکن جواب دیتا ہوں کہ وہ ممکن ہیں اور خاص کراگر مخلوقات اور الہٰام دونوں کی روشنی کا بانی ایک ہی ہے تو اغلب ہے کہ وہ دونوں ایک ہی نمونے پر ہوں گے۔
طرح طرح کی بیماریاں ہوتی ہیں اور خُدا نے خلقت کی بہت اشیا اُنہیں بیماریوں کے علاج پیدا کئے ہیں تو بھی زمانوں تک اُن علاجوں کی خبر پوشیدہ رہی اور اب تک صرف تھوڑے آدمی اُن کو جانتے ہیں اور شاید اور بہت سےعلاج ہیں جو اب تک کسی کو معلوم نہیں ہیں اور اُن دواؤں کی تاثیر پہچاننا اور اُن کا استعمال کرنا نہایت مشکل ہے یہاں تک اُن کا دینا اکثر بہت دشوار ہے کیونکہ جو سب سے مفید ہیں اگر بے موقع اور بے وقت دی جائیں تو اور بیماریاں اُن سے پیدا ہوتی ہیں اور موت بھی پیش آتی ہے اس لیے آدمی اُن کو نہیں کھاتے کیونکہ سوچتے ہیں کہ دوا کا کھانا بیماری سے بھی خراب ہوگا اورلوگ اُن کو نہیں جان سکتے ہیں ۔مختصراً علاج کی وہ اشیا جو خلقت میں پیدا ہوتی ہیں ہمیشہ چنگا نہیں کرتی ہیں اور وہ کامل نہیں اور سبھوں کو چنگا نہیں کرتی ہیں ۔ کیا کوئی کہے گا کہ کسی بیماری کا علاج نہیں ہے ۔ہرگز نہیں ۔ویسے ہی ہرگز نہ کہنا چاہیے کہ الہٰامی کلام نہیں ہے۔
اور اب ان تمام باتوں کا کیا نتیجہ ہے کیا یہ عقل الہٰام الہٰی پر کسی طرح سے انصاف نہیں کرسکتی ہے ۔نہیں ۔انسان کی عقل قابل ہے بلکہ اُس کاکام یہی ہے کہ نوشتوں کے معنی اور اور عقلی دلیلوں پر انصاف اور امتیاز کرے ۔اورتمیز کرے کہ آیا نوشتوں میں دانش اور انصاف اور نیکی کے برخلاف کچھ مذکور ہے یانہیں ۔پرکلام الہٰی میں ایسی بات کوئی نہیں ہے۔اور کسی نے کبھی نہیں کہا کہ اُس میں ایسی بات ہے جو دانش یا انصاف اور نیکی کے خلاف ہے ہاں البتہ بائبل میں کئی حکم مذکور ہیں جن میں بے رحمی یا بے انصافی معلوم ہوتی ہے لیکن جب اُن حکموں کا سبب معلوم ہوا تو کوئی اُن پر اعتراض نہیں کرسکتا ہے ۔پس ثابت ہے کہ کوئی اعتراض مذہب عیسوی کی تدبیر کے برخلاف نہیں رہ سکتا ہے اور اگر کوئی اعتراض کرے تو وہ اُس کی دلیلوں پر اعتراض کرکے اُن کو رد کرے ورنہ اُس کو قبول کرکے مانے ۔
چوتھا باب
اس بیان میں کہ مسیحی مذہب ایک تدبیر ہے کہ
جس کو ہم لوگ صاف وصحیح نہیں سمجھ سکتے ہیں
ہم لوگ مسیحی تدبیر کو صاف وصحیح نہیں سمجھ سکتے ہیں لیکن یہ کچھ بات نہیں ہے کیونکہ مخلوقات کی تدبیریں اور طریقے ہماری ناقص عقل اور فہم سے صاف معلوم نہیں ہوسکتے ہیں ۔پس اُن کی مشابہت سے بخوبی صاف ثابت ہوتاہے کہ اگر الہٰامی کلام ہواُس میں بہت سی باتیں ضرور ہماری سمجھ میں نہیں آسکیں گی ۔
اوّل:۔ مسیحی مذہب یعنی کلام الہٰی ایک تدبیر ہے جو ہماری سمجھ میں صاف نہیں آتی ہے ۔خُدا کی حکومت اسی طرح سے جاری رہتی ہے کہ خُدا ئے رزاق کے حکم سے مخلوقات کی مدد سے ہر ایک آدمی اکثر آخر کا ر اپنے کل کام کا بدلا پاتا ہے ۔اور نہ فریب نہ زبردستی بلکہ سچائی اور دیانت داری غلبہ پاتی ہے۔
مسیحی مذہب اس حکومت میں ایک تدبیر ہے کہ جس کی مدد سے رازق کی حکومت انسان کی بابت پوری اور کامل ہوتی ہے اور اس خاص تدبیر یعنی مذہب عیسوی میں طرح طرح کی جزا اور تدبیریں ہیں جو کہ انسان کی پست حالی کے شروع سے اب تک اُس کے بچانے کے واسطے کام آتی ہیں الہٰی وجود یعنی مسیح کے وسیلے سے خُداکے فرزندوں کو جو پراگندہ ہوئے باہم جمع کرے گا اورایک ابدی بادشاہت کو جس میں راست بازی بستی ہے قائم کرے گا۔
اور رازق کی تدبیر کے پورا کرنے کے لیے بہت زمانوں کے عرصے میں طرح طرح کے معجزے اور کرامات وعجائبات ظہور میں آے کیوں کہ مسیح کی روح جو اُن میں (یعنی نبیوں میں )تھی جب مسیح کے دُکھوں کی اور اُس کے بعد اُسکے جلا ل کی گواہی آگے دیتی تھی سواُن پر یہ ظاہر ہوا کہ وہ نہ اپنے بلکہ ہماری خدمت کے لیے وہ باتیں کہتے تھے جن کی خبر تم کو اُن کی معرفت ملی جنہوں نے روح القدس کی قدرت سے جو آسمان سے نازل ہوئی تمہیں انجیل کی خوشخبری دی اور ان باتوں کو دریافت کرنے کے فرشتے مشتاق ہیں (۱۔پطرس ۱: ۱۱۔۱۲)۔
اور کئی الہٰاموں کے بعد جنہوں نے اس نجات کی پیش خبری دے کر اُس کی تیاری بھی کی جب وقت پورا ہوا تب عالم الغیب نے مناسب جانا اُس نے خُدا کی صورت میں ہوکے خُدا کے برابر ہونا غنیمت نہ جانا لیکن اُس نے آپ کو نیچ کیا اور خادم کی صورت اختیار کی اور آدمی بنا اور آدمی کی صورت میں ظاہر ہوکر آپ کو پست کیا اور مرنے تک بلکہ صلیبی موت تک فرمانبردار رہا اس واسطے خُدا نے اُسے بہت سرفراز کیا اوراُس کو ایسا نام جو سب ناموں سے بزرگ ہے بخشا تاکہ یسوع کے نام پر ہر ایک کیا آسمانی کیا زمینی کیا وہ جو زمین کے تلے ہیں گٹھنا ٹیکے اور ہر ایک زبان اقرار کرے کہ یسوع مسیح خُداوند ہے تاکہ خُدا باپ کا جلال ہو(فلپیو ں ۲: ۶۔۱۱)۔اور اس تدبیر کے حصے اور جز میں ذیل کی باتیں بھی شامل ہیں کہ روح القدس کے کراماتی کام اور وہ مدد جو وہ نیک آدمیوں کو روز بروز دیتا ہے اور وہ غیبی حکومت کو جس سے آج تک مسیح اپنی کلیسیا کو بترتیب رکھتا ہے اورجو اُس نے کہا کہ میرے باپ کے گھر میں بہت مکان ہیں اور اُس کے دوسری دفعہ آنے کا جب وہ راست بازی سے دُنیا کا انصاف کرے گا اور خُدا کی بادشاہت کو قائم کرے گا کیونکہ باپ کسی شخص کی عدالت نہیں کرتا بلکہ اُس نے ساری عدالت بیٹے کو سونپ دی ہے تاکہ سب بیٹے کی عزت کریں جس طرح سے کہ باپ کی عزت کرتے ہیں (یوحنا ۵: ۲۲۔۲۳)۔’’یسوع نے کہا کہ آسمان اورزمین کا سارا اختیار مجھے دیا گیا ‘‘(متی ۲۸: ۱۸)۔کیونکہ جب تک کہ وہ سارے دشمنوں کو اپنے پاؤں تلے نہ لائے ضرور ہے کہ سلطنت کرے بعد اس کے آخرت ہے تب وہ بادشاہت خُداکی جو باپ ہے سپرد کرے گا اور ساری حکومت اور سارے اختیار اور قدرت کو نیست کردے گا اور جب سب کچھ اُس کے تابع میں آئے گا تب بیٹا آپ ہی اُس کا تابعدار ہوجائے گا جس نے سب چیزیں اُس کے تابع کردیں تاکہ خُدا سب میں سےسب کچھ ہو(۱۔کرنتھیوں ۱۵: ۲۴)یہ سب اُس تدبیر کی جزوں میں شامل ہے اور بلاشک کچھ کہنا ضرور نہیں کہ جس سے ثابت ہوکہ ایسا تدبیر ہماری ناقص عقل سے بعید اورباہر ہے اور ہم اُسے صاف نہیں سمجھتے ہیں اور بائبل میں بھی یہ بات مذکور ہے اور بالاتفاق دینداری کا بڑا بھید ہے ۔اور ہر ایک باب اور آیت میں کوئی بات ہوگی جس کو ہم نہیں سمجھتے ہیں جیسا کہ مخلوقات کی ہر ایک بات میں بھید ہے جو سمجھ میں نہیں آتا ہے ۔اور جوکوئی غور کرکے مسیحی مذہب کو جو ظاہر کیا گیا کلام الہٰی میں معلوم کرے گا کہ بہ نسبت اُن باتوں کے جو ظاہر کی گئی ہیں بہت سی باتیں ہیں جن کا بیان اور ذکر بھی نہیں کیا گیا تاکہ جیسا ہم اپنی نادانی کے سبب مخلوقات کے طریقوں پر اعتراض نہیں کرسکتے ایسا ہی ہم اپنی کم عقلی کے باعث الہٰامی مذہب پر بھی اعتراض نہیں کر سکتے ہیں ۔
دوم :۔اور ظاہر ہے کہ جیسا مخلوقات کے طریقوں میں ویسا ہی مسیحی مذہب میں وسیلے استعمال ہوتے ہیں تاکہ نتائج نکلیں اورمطالب پورے ہوں اور اسی طرح سے ہم اُس کو جو مسیحی مذہب کی کاملیت پر اعتراض کرے جواب دے سکتے ہیں اس بات سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید وہی بات جس سے معترض ٹھوکر کھاتا ہے ایک سب سے اچھا وسیلہ ہے جس سے اچھا نتیجہ نکلتا ہے اور اگر چہ کوئی بات بیوقوفی معلوم ہو توبھی اغلب ہے کہ وہ بڑی حکمت ہے کیوں کہ یہ تمام تدبیرجو ہماری سمجھ سے باہر ہے حکمت سے بنی ہے ۔
سوم :۔ اغلب ہے کہ مسیحی تدبیر شروع سے عام قوانین اور طریقوں کے مطابق جاری ہے ۔لیکن اس بات کو ہم کچھ مختصراً بیان کریں گے ۔ خیال کرو جب ہم کہیں کہ مخلوقات فلاں نےعام طریقوں کے مطابق چلتی ہے تو ہمارا کیا مطلب ہے ۔یعنی ایک چیز دوسری شئے پر اثر کرکے کچھ نتیجہ اور تبدیل پیدا کرتی ہے ہم مادہ کے چند عام قوانین کو جانتے ہیں اور جانداروں کی اکثر حرکتیں بھی عام قوانین کے مطابق ہوتی ہیں۔لیکن ہم بالکل نہیں جانتے کہ طوفان وآندھی وبھونچال وکال ووبا اور مری کس طریقے کے مطابق لوگوں کو ہلاک کرتے ہیں اورہم نہیں جانتے کہ کس قانون کے مطابق ایسا ہوتا ہے کہ لڑکے جو فلاں جگہ اور فلاں وقت پر پیدا ہوتے ہیں فلاں طاقت اور لیاقت رکھتے ہیں ۔اور ہم اس سے بالکل ناواقف ہیں کہ کس طرح سے خیالات ہمارے دلوں میں آتے ہیں ۔ایسی ایسی باتیں اگرچہ بہت ہی تاثیر پذیر ہوں تاہم اُن کے قانون اور طریقوں ہم کو نامعلوم ہیں یہاں تک کہ ایسی باتیں اتفاقیہ یا قسمتی کہلاتی ہیں لیکن عاقل وفاضل آدمی جانتے ہیں کہ قسمت نہیں ہے تو اغلب ہے کہ ایسی باتیں کسی نامعلوم قانون کے مطابق ہوتی ہیں ۔اب ہم مخلوقات کے صرف تھوڑے طریقوں اورعام قوانین کو دریافت کرسکتے ہیں اور صرف مشابہت کی مدد سے معلوم کرسکتے ہیں کہ کچھ قانون اور طریقے ظاہر ہیں تو اغلب ہے کہ سب ماجرے عام قوانین کے مطابق چلتے ہوں ۔ویسے ہی جب ہم دیکھتے ہیں کہ مذہب عیسوی میں کئی باتیں ہیں جو ہم قانون کے مطابق چلتے ہیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ اغلب ہے کہ سب معجزے وکرامات اور سب باتیں جن کا مطلب اور پورا انجام ہم اب تک نہیں پہچانتے عام قوانین اور دستوروں کی مطابق جو پیشتر مقرر ہوئے چلتے ہوں گے اور اگر چہ یہ قوانین اور دستور ہم کو معلوم نہیں تو ویسے ہی ہم کو وہ سب نامعلوم ہے کہ جس سے بعض آدمی پیدا ہونے کے وقت مرجاتے ہیں اور بعض آدمی عمردرازی تک زندہ رہتے ہیں اور بعض آدمی عقل مند اور حکمت انگیز ہیں اور بعض عنقریب خبطی اور احمق ہوتے ہیں علی ہذالقیاس مخلوقات میں نقص اور خلاف دستور اور بے ترتیبی اس سبب سے معلوم ہوتی ہے کہ ہم اُس کے سب طریقوں اور دستوروں اورترتیبوں سے واقف نہیں ہیں پس اغلب ہے کہ جو نقص اور بے ترتیبی یا خلاف دستوری مسیحی مذہب میں معلوم ہو اُس کا باعث یہ ہے کہ ہم لوگ اُس کی کل ترتیب سے واقف نہیں ہیں لیکن اس تمام مباحثہ میں یادرکھنا چاہیے کہ جو مطلب اور ضرورت مذہب کی ہم رکھتے ہیں سب مسیحی مذہب میں پائی جاتی ہے کہ ہم لوگ جیتے جی اُس کے ذریعہ سے اپنی ساری بدی اور گناہ اور لاچاری سے اور شیطان کے فریب اور جال سے بچ کر مرتے ہی جنت میں داخل ہوسکتے ہیں اور بس پھر ہم نے ابواب سابق میں سب اعتراضوں کو جو مسیحی مذہب کی تدبیر کے برخلاف کئے جاتے ہیں بالکل رد کیا ہے اور جو کچھ اُس کی حکمت اور بھلائی کے برخلاف کہاگیا وہ بھی رد ہوا لیکن ایک اور بات جو اُس کے کُل بندوبست کے مخالفت میں کہی جاتی ہے ہم اسی باب میں رد کریں گے اور کوئی اور باب اُس کے رد کے لیے مقرر نہ کریں گے وہ بات یہ ہے کہ کہتے ہیں کہ مسیحی مذہب سےمعلوم ہوا کہ جس طرح انسان اپنی کم عقلی کے باعث اپنے تمام مطالب کو تدبیروں اور وسیلوں کی مدد سے پہچانتا ہے ویسے ہی خُدا اپنے مطلب کو بے تدبیر اور بے وسیلہ ظاہر نہیں کرسکتا ہے مگر ایسا اعتراض محض بے وقوفی ہے جیسا ذیل کی باتوں سے معلوم ہوگا ہم اپنی بابت جانتے ہیں کہ ہم کون سے وسیلے فلاں مطلب کے حاصل کرنے کے واسطے استعمال کرتے ہیں لیکن خُدا کی بابت ہم نہیں جانتے ہیں البتہ ہم سوچتے ہیں کہ وہ فلاں وسیلوں سے فلاں نتیجے نکالتا ہے لیکن یہ ہم کو نہیں معلوم کہ اس کے کاموں میں کون کون باتیں وسیلے ہیں اور کون سی باتیں نتیجے ہیں پس اس بات کو چھوڑ کر یادرکھنا چاہیے کہ وہی حکمت جو کہ مخلوقات کی طریقوں میں پائی جاتی ہے مذہب عیسوی میں بھی ظاہر ہے کہ اگرچہ انسان بے صبر ہوتے ہیں اور جو ہوسکتا تو جلد بے سوچے اور بغیر تدبیر برآنے اور نتیجہ نکالنے کے اپنے انجام تک پہنچتے تو بھی خُدا ایسا نہیں ہے بلکہ ایسی تدبیریں کام میں لاتا ہے کہ سب کچھ تفصیل وار ہوتا جاتا ہے مثلاً موسموں کا بدلنا اور اناج کا پکنا ایک بھول کا تذکرہ اور انسان کی زندگی اس بات کو ثابت کرتی ہیں نباتات اور حیوانات کے اجسام شاید ایک دم سے پیدا ہوتے ہیں لیکن درجہ بدرجہ کاملیت تک پہنچتے ہیں اور حیوان ناطق بھی ہر ایک اپنے دستور اور چال چلن کےطریقے علم کے سیکھتے اور برسوں استعمال میں لانے سے جانتے ہیں ۔ہماری زندگی کا ایک وقت دوسرے وقت کی تیاری کی فرصت ہے کہ بچپن سے عالم جوانی تک اور عالم جوانی سے بُڑھاپے تک انسان سلسلہ وار بڑھتا جاتا ہے اور اسی طرح مسیحی مذہب میں ذریعہ اور وسیلے اور نتیجے ہیں اور بس ۔
پانچواں باب
مسیحی مذہب کی خاص تدبیرکابیان
یعنی شفیع (شفاعت کرنے والا)کا مقرر ہونا اور اُس کے وسیلے سے دُنیا کا بچایا جانا مسیح کی شفاعت کے بارے میں ۔مسیحی مذہب کی کوئی اور بات نہیں ہے کہ جس پر اتنے اعتراض کئے گئے ہیں تو بھی ہمارے نزدیک کوئی اور بات اُس کی نسبت کم اعتراض کے لائق نہیں ہے ۔
اوّل:۔مخلوقات کی کُل مشابہت کے دیکھنے سے ہمیں ہر صورت سے اغلب معلوم ہوتا ہے کہ خُدا اور آدمیوں کے بیچ میں ایک درمیانی ہے کیوں کہ ہم دیکھتے ہیں کہ سب جانداروں کے بچے پیدا ہوتے اور بچپن میں رزق پاتے ہیں اور اُن کی زندگی کی ہرایک ضرورت ایسے وسیلے سے اُن کو ملتی ہے ایسا کہ وہ ظاہری حکومت جو خُدا دُنیا کے اوپر کرتا ہے سب کسی وسیلوں سے کی جاتی ہے اورجس قدر اُس کی اندیکھی حکومت وسیلوں سے ہے ہم لوگ عقل سے دریافت نہیں کرسکتے ہیں اور اگر ہم کہیں کہ اُس کا ایک حصہ وسیلوں سے ہے تو یہ ضرور قابل یقین ہے بہ نسبت اُس کے برعکس کہتے کہ پس مخلوقات کی روشنی سے کسی طرح کا انجیل کی اس بات پر کہ خُدا اور آدمیوں کے بیچ میں وسیلہ ہے نہیں نکلتا ہے کیونکہ ہم اپنے تجربہ میں معلوم کرتے ہیں کہ خُدا ہم کو بھلائی وبُرائی سزاوجزا اور انصاف ورحمت وسیلوں کی معرفت پہنچاتا ہے ۔
دوم:۔ اس الہٰامی تعلیم کا مباحثہ یعنی مسیح کی معرفت دُنیا کی نجات سے پہلے ہمیں یقین کرنا پڑتا ہے کہ یہ دُنیا خُدا کی حکومت میں یعنی مذہب کی حالت میں ہے اب خُدا کی حکومت جو مسیحی مذہب میں مبین(بیان کیا ہوا) ہے سکھاتی ہے کہ خُدا کے نیک انصاف سے گناہ کا نتیجہ کسی آئندہ حال میں دُکھ وتکلیف ہوگا اور اگرچہ ہم کسی طرح سے معلوم نہیں کرسکتے ہیں کہ کس سبب سے یا کس مطلب پر ضرور ہے کہ آئندہ کی سزا دی جائے یا کس طرح وہ دُکھ گناہ کا نتیجہ ہے اور کہ وہ سزا کس کے وسیلے سے یا کس طرح سے کسی پر آئے گی تو بھی اس بات کا کہنا بیوقوفی نہیں ہے کہ جیسا حال میں بعض بعض بُرے کاموں کا نتیجہ بیماری ،دُکھ ،رنج ،تنگی ،بدنامی اور بیماری سے یا سرکار کے حکم سے موت ہے اسی طرح بڑے کاموں کا نتیجہ آگے کو بُرا ہوگااگرہم کہیں کہ خُدا کی اصلی حکومتاور بندوبست کے بموجب گناہ کا بُرا نتیجہ اصالتاً گنہگار پرپڑے گا جیسا کہ کوئی آدمی ضد سے کنگُرے کے اوپر بے فکر کھڑا ہو تو اُس کی بے فکری اور ضد کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ گر پڑے گا اور اُس کی ٹانگیں ٹوٹ جائیں گی اور وہ بے مدد ہوکے مرجائے گا۔شاید بعض اچھے اورنیک آدمی کہیں کہ اگر گناہ کی سزا نتیجوں اور وسیلوں سےہوتی ہے تو گویاخُدا کے ہاتھ سے انصاف کرنے کا اختیار جاتا رہا ہے ۔لیکن ایسوں کو یادرکھنا چاہیے کہ نتیجہ کے ذریعہ سے انصاف کرنے کا اختیار جاتا نہیں رہتا کیونکہ خُدائے منصف نتیجوں کا اور مخلوقات کا بھی مالک ہے اور جو کچھ مخلوقات کے طریقوں میں اور کاموں کے نتیجوں میں ہے سب خُدا کے حکم سے ہے کہ جن سے اُس کا انصاف معلوم ہو اور گنہگاروں کو سزا اور نیکوکاروں کو جزا ملے کیونکہ آیندہ کی سزا زبردستی سے نہیں ہے بلکہ انصاف سے ہے اس لیے اغلب ہے کہ اس دُنیا میں جو سزا ازروئے انصاف کے دی جاتی ہے اُس سزا کی جو آگے کو دی جائے گی ٹھیک مثال ہے ۔
سوم :۔ہم مخلوقات کے طریقوں یعنی رازق کے انتظام میں یہ بات دیکھتے ہیں کہ بُرے آدمیوں کے بدکاموں کے تمام بُرے نتیجے وتاثیریں متواتر نہیں ہوتی ہیں بلکہ بعض اوقات انسان کی خبرداری اور حکمت سے کم ہوتی ہے اور کبھی کبھی بالکل روکی جاتی ہے مثلاً جب ایک آدمی بے سوچے کسی اونچی جگہ پر لہو لعب کرے تو اس کا نتیجہ جیسا اوپر مذکور ہوا یہ ہے کہ وہ شاید گرجائے گا اُس کے اعضا ٹوٹیں گے اور شاید وہ بالکل جان سے ہلاک ہوگا لیکن اگر کوئی آدمی اُسے دیکھ کر فوراً پکڑ لے اور بچائے تو وہ بُرا نتیجہ روکا جائے گا اور بعض وقت آدمی بدفعلی کرکے بیمار ہوجاتےہیں ایسی بیماری کہ جو موت کو پہنچاتی ہے لیکن وہ ہوشیار حکیم کے پاس جاکے دوا لیتے اور کھاکے چنگے ہوجاتے ہیں اور آدمی طرح طرح کے بُرے نتیجے اپنی ہوشیاری سے روک سکتے ہیں ۔مخلوقات کے طریقے یہی ہیں اور ہم نہیں جانتے کہ یہ سب سے اچھے ہیں یا نہیں خالق نے اپنی مہربانی کے مطابق ایسا انتظام شروع سے لگایا ہے حالانکہ وہ ایسا انتظام کرسکتا تھا کہ جس سے ہر وقت اور ہر حال میں اور سب گنہگار وں پر اُن کے گناہ کے بُرے نتیجے بلااتفاق اس دُنیا میں جلد اُن پر متواتر پڑتے لیکن حال کے انتظام میں اُس کا رحم ظاہر ہے جس سے اُمید پیدا ہوتی ہے کہ مسیحی مذہب میں معافی کا بندوبست ممکن ہے ۔
چہارم :۔اور اغلب نہیں ہےکہ ہم کسی کام سے یا کسی طرح سے اپنے گناہوں کی سزا کو محروم رکھیں ہم کسی طرح نہیں کہہ سکتے ہیں کہ ہم اُس کو روک سکتے ہیں اور نہ سارے سببوں (وجوہات)کو جانتے ہیں کہ جن سے آئندہ کی سزا دینا درست اور واجبی ٹھہرایا گیا پس ہم کسی طرح سے نہیں جان سکتے کہ ہمارے کسی کام کے سبب سے درست اور واجبی کیا گیا تاکہ سزاموقوف ہوجائے ہم گناہ کے تمام نتیجے اور انجام نہیں جانتے ہیں تو ہم کیوں کر کہیں کہ وہ اگر روکے نہ جائیں تو کیسے نکلیں گے پس کسی طرح سے نہیں کہہ سکتے کہ ہم اُن کو روک سکتے ہیں ایسی باتوں سے ہم ناواقف ہیں اس لیے مشابہت کی رو سے دلیل لاسکتے ہیں کہ الہٰام الہٰی کی بات عقل سے موقوف نہیں ہوسکتی ہے مثلاً خیال کرو کہ لوگ بے پروائی سے اپنے مال کو اُڑا کے اپنی میراث کونیست کرتے ہیں اور بدپرہیزی سے اپنے جسموں پر بیماریاں لے آتی ہیں اور ملک کے قوانین کو توڑ کے سزا پاتے ہیں کیا وہ توبہ کرنے اور آگے کو نیکی کرنے سے اپنے ان بُرے کاموں کے بدلے روک سکتے ہیں ہرگز نہیں برخلاف اس کے وہ لاچار ہوکے اور دن کو اپنے معافی کروانے اور بچانے کے وسیلے ٹھہراتے ہیں پس اگر ہم توبہ کرنے اور نئے چال چلن دکھلانے سے اس زندگی کے گناہوں کی سزا کو نہیں روک سکتے ہیں تو اغلب ہے کہ جب ہم خُدائے قادر وخالق ومالک کے سامنے گنہگار ہوگئے ہیں تو اُس گناہ کی سزا کو توبہ اور نیک چلنی سے نہیں روک سکیں گے توبہ کرنا اور نیک ہونا بہت اچھا ہے لیکن وہ گناہ کی سزا کو روکنے کے قابل نہیں ہیں انسان کی عقل بھی کہتی ہے کہ وہ ناقابل ہیں کیونکہ ہر ملک میں جہاں لوگ انجیل معظم کونہیں مانتے قربانیاں گذرانتے ہیں تاکہ اُن سے کچھ مدد ہوایسی باتوں سے ایک شفیع کی ضرورت معلوم ہوتی ہے اور نہایت اغلب ہے کہ ہمارا ایک شفیع ٹھہرایا گیا ہے۔
پنجم:۔ اب خُدا کاکلام یہی بات سکھلاتا ہےاور انسان کی ہرایک ولی شک اور ڈر کو رفع کرتا ہے کیونکہ وہ بتلاتا ہے کہ آگے کو گناہ کی سزا اور نتیجے موقوف ہوسکتے ہیں اور یہ بھی بتلاتا ہے کہ یہ دُنیا ہلاکت کی حالت میں ہے اور کہ الہٰی حکومت ایسی ہے کہ توبہ کرنے کے سبب اور وسیلے سے معافی نہیں ہوتی ہے لیکن مسیح کے وسیلہ سے جب آدمی توبہ کرے گا تو معافی پائے گا اور اسی طرح سے گناہ کے بُرے نتائج موقوف کئے جاتے ہیں اور کلام یہ بھی سکھلاتا ہے کہ خُدا کی عام اور خاص دونوں حکومت رحمت کی راہ سے ہوتی ہیں تاکہ وہ انسان کی ہلاکت کو روکے کہ خُدا نے دُنیا کو ایسا پیار کیا کہ اُس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخشا تاکہ جو کوئی اُس پر ایمان لائے وہ ہلاک نہ ہو بلکہ حیات ابدی پائے (یوحنا ۳: ۱۶)۔اُس نے مہر اور محبت کی راہ سے اپنا بیٹا بخشا ۔اور خُدا کے بیٹے نے ہم کو پیارکیا اور اپنے تئیں ہمارے عوض میں دیا اوراُس نے ہماری شفاعت اور ہمارا درمیانی ہونے کاکام ایسا کیا تاکہ وہ سزا جو خُدا کے قانون میں مقرر ہوئی ہم پر نہ پڑے ۔
ششم:۔وہ خاص طریقہ جس سے مسیح خُدا اور انسان کے بیچ درمیانی ہوکے ہمارا شافی ہوگیا مقدس نوشتوں میں یوں مبین ہے کہ وہ دُنیا کا نور ہے (یوحنا ۱: ۸، ۱۲) یعنی وہ کامل طورپر خُداکی مرضی کا ظاہر کرنے والا ہے ۔وہ مہربانی ساز کفارہ ہے جیسا رومیوں ۳: ۲۵، ۵: ۱۴۔اور (۱۔کرنتھیوں ۵: ۱۷؛ افسیوں ۵: ۲؛ ۱۔یوحنا۲: ۲؛ متی ۲۶: ۲۸)میں مذکور ہے اور وہ (یوحنا ۱: ۲۹) اور کتاب مکاشفات میں خُدا کا برَّہ کھلاتا ہے ۔اور اُس نے اپنے تئیں خوشی سے ہم سبھوں کے واسطے کفارے میں دیا اس لیے وہ نامہ عبرانیوں میں سردار کاہن کہلاتا ہے اور جو کہ ایک خاص اور بھاری دلیل ہے وہ پیش گوئی کی رو سے( یسعیاہ ۵۳با ب اور دانی ایل ۹: ۲۴؛ زبور ۱۱۰: ۴)میں کاہن اور قربانی دونوں کہلاتا ہے اور اگر کوئی کہے کہ یہ موسوی رسموں سے نسبت رکھتا اُس کا جواب پولُس رسول نامہ (عبرانیوں ۱۰: ۱)آیت میں یوں دیتا ہے کہ شریعت جو آنے والی نعمتوں کی پرچھائیں ہے اور اُن چیزوں کی حقیقی صورت نہیں ان قربانیوں سےجو وہ ہر سال ہمیشہ گذرانتے اُن کو جووہاں آتی ہے کبھی کامل نہیں کرسکتے اور ۸ باب ۴، ۵۔آیت کاہن تو ہیں جو شریعت کے موافق قربانیاں گزرانتے ہیں جو آسمانی چیزوں کے نمونے اور سزا پر خدمت کرتے ہیں چنانچہ موسیٰ نے جب وہ خیمہ بنانے پر تھا الہٰام سے حکم پایا کہ دیکھ وہ فرماتا ہے کہ اُس نقشے کے مطابق جو تجھے اُس پہاڑ پردکھلایا گیا سب چیزیں بنا ۔مطلب اس کا یہ ہے کہ جیسا وہ خیمہ جو موسیٰ نے بنایا ٹھیک اس نمونے کے مانند تھا جو خُدا نے اُس کو پہاڑ پردکھلایا ویسی ہی مسیح کی عمارت لاویوں کی عمارت کے مانند تھی لاویوں کی عمارت مسیح کی عمارت کا سایہ ہے ۔اسی خط عبرانیوں کی تعلیم یہ ہے کہ وہ قانونی قربانیاں اس کفارے سے نسبت رکھتی ہیں جو مسیح نے اپنے خون سے چڑھایا اور اس بات سے اور صاف بات نہیں ہے ۔ (عبرانیوں ۱۰: ۴، ۵، ۷، ۹، ۱۰)کیونکہ ہونہیں سکتا کہ بیلوں اور بکروں کا لہو گناہوں کو مٹا دے ۔اس لیے وہ دُنیا میں آتے ہوئے کہتا ہے کہ قربانی اور نذر یعنی بیلوں اور بکریوں کو تونے نہ چاہا پر میرے لیے ایک بدن تیار کیا ۔دیکھ مَیں آتا ہوں تاکہ اے خُدا تیری مرضی بجالاؤں اسی مرضی سے ہم یسوع مسیح کے بدن کے ایک بار گزراننے کے سبب پاک ہوئے ہیں ایک اور آیت نامہ (عبرانیوں ۹: ۲۸) ہے مسیح نے ایک بار سبھوں کے گناہوں کا بوجھ اُٹھانے کے لیے آپ کو گزران کے دوسری بار بغیر گناہ کے یعنی بغیر گناہ کی قربانی چڑھانے کے ظاہر ہوگا تاکہ اُن کو جو اُس کی راہ دیکھتے ہیں نجات دے۔اور راوی (مصنف)ہر طرح بیان کرتے ہیں کہ وہ فوائد جو مسیح کی قربانی سے ہیں سبھوں کے واسطے ہیں اور بیان سےبالکل باہر ہیں۔(یوحنا ۱۱: ۵۱، ۵۲)یسوع اس قوم یعنی یہود کے واسطے مرے گا اورنہ فقط اس قوم کے لیے بلکہ اُس واسطے بھی کہ وہ خُدا کے فرزندوں کو جوپراگندہ ہوے باہم جمع کرے (۱۔پطرس ۳: ۱۸)مسیح نےایک بار گناہوں کے واسطے دُکھ اُٹھایا یعنی راست باز نے ناراستوں کے لیے ۔اور (متی ۲۰: ۲۸؛مرقس ۱۰: ۴۵؛ ۱۔تیمتھیس ۲: ۱۶)اُس نے اپنے تئیں کفارے یعنی فدیہ میں دیا اور(۲۔پطرس ۲: ۱؛ مکاشفہ ۱۴: ۴؛ ۱۔کرنتھیوں ۶: ۲۰) کے مطابق ہم داموں سے خریدے گئے ہیں اور(۱۔پطرس ۱: ۱۹؛ مکاشفہ ۵: ۱۹؛ گلتیوں ۳: ۱۳)بموجب اُس نے ہم کو اپنے خون کی بدولت مول لیا اور (عبرانیوں ۷: ۲۵؛ ۱۔یوحنا ۲: ۱، ۲)بموجب وہ ہمارا شافی ومنجی اور کفارہ ہے اور (عبرانیوں ۲: ۱۰، ۵: ۹)بموجب وہ کامل ہونے کے سبب سے نجات کا بانی بن گیا۔(۲۔کرنتھیوں ۵: ۱۹؛ رومیوں ۵: ۱۰؛ افسیوں ۲: ۱۶)خُدانے مسیح میں ہوکے دُنیا کو اپنے ساتھ یوں ملالیا کہ اُس نے مسیح کی موت کے وسیلے اُن کی تقصیروں کو معاف کرکے اُن پر حساب نہ کیا ۔(عبرانیوں ۲: ۱۴)اور عجیب آیت (ایوب ۳۳: ۲۴)تاکہ موت کے وسیلے سے اُس کو جس کے پاس موت کا زور تھا یعنی شیطان کو برباد کرے۔
(فلپیوں ۲: ۸، ۹؛ یوحنا ۳: ۳۵، ۵: ۲۳، ۲۴)مسیح نے انسان کی صورت میں ہوکے آپ کو پست کیا اور مرنے تک بلکہ صلیبی موت تک فرمانبردار رہا اس واسطے خُدا نے اُسے بہت سرفراز کیا اور اس کو ایسا نام جوسب ناموں سے بزرگ ہے بخشا اور اُس کے ہاتھوں میں سب کچھ کردیا اور ساری عدالت بیٹے کو سونپ دی ہے تاکہ سب بیٹے کی عزت کریں جس طرح باپ کی عزت کرتے ہیں ۔اور (مکاشفہ ۵: ۱۲، ۱۳)برَّہ جو ذبح ہوا اس لائق ہے کہ قدرت ودولت اور عقل وطاقت اور غرت وجلال اور برکت پائے اور مَیں نے ہرایک مخلوق کو جو آسمان پراور زمین پر اور زمین کے نیچے ہے اور اُن کو جو سمندر میں ہیں یہ کہتے سُنا کہ اُس کے لیے جو تخت پر بیٹھا ہے اور برَّہ کے لیے برکت وعزت وجلال اور قوت ابدتک ہے ان آیات مذکورہ میں مسیح کی امامت مبین ہے کہ جس قدر ظاہر ہوتی اسی قدر اُن میں اُس کا بیان ہے اورپادری لوگ اکثر اُس کو تین بابوں میں بیان کرتے ہیں کہ مسیح کے اس کام میں تین درجے ہیں ۔
اوّل:۔یسوع مسیح عزت کے طور پروہ نبی کہلاتا ہے ۔اور(یوحنا ۶: ۱۴) میں مسیح کے حق میں لکھا ہے کہ فی الحقیقت وہ نبی جو جہان میں آنے والا تھا یہی ہے کہ وہ الہٰی مرضی کو ظاہر کرے اُس نے اس طبعی آئین کو جس کو انسان نے بگاڑ دیا تھا اور جس کی پہچان بھی اُن میں سے جاتی رہی تھی پھر نیا کیا ۔اُس نے آدمیوں کو اقتدار سے سکھلایا کہ آیندہ عدالت کی انتظاری کرکے ہوشیاری وراستی ودینداری سے زندگانی گذرانیں اُس نے وہ طریقہ جس سے خُدا کی عبادت کی جائے اورتوبہ کرنے کا فائدہ اور آئندہ حال کی سزاوجزا کو صاف صاف بتلایا اور بیان کیا۔اس سبب سے وہ ایسا نبی تھا کہ جیسا کوئی اور شخص کبھی نہیں ہوا اورعلاوہ اس کے اُس نے ہمیں نمونہ دکھلایا تاکہ ہم اُس کے نقش قدم پر چلیں ۔
دوم :۔وہ بادشاہ ہے وہ ایک بادشاہت رکھتا ہے جو اس دُنیا کی نہیں ہے ۔اُس نے ایک کلیسیا مقرر کی جو دین کا دائمی نشان اور بُلانے والا ہے جس کے ساتھ اُس نے آخر تک رہنے کا وعدہ کیا ہے ۔وہ اُس پر اپنی روح کے وسیلے سے ایک اَن دیکھی حکومت رکھتا ہے ۔کلیسیا کے اُس حصے کے اوپر جو زمین پر ہے وہ ایک ترتیبی حکومت کرتا ہے ۔تاکہ مقدس لوگ خدمت کے کام میں آراستہ ہوتے جائیں اور مسیح کا بدن بنتا جائے جب تک کہ ہم سب کے سب ایمان اور خُدا کے بیٹے کی پہچان کی یگانگی تک اورکامل انسانیت یعنی مسیح کے قد کے پورے اندازے تک پہنچیں (افسیوں ۴: ۱۲، ۱۳)۔تمام دُنیا میں سب آدمی جو اُس کے حکموں کے مطابق چلتے ہیں اُس کلیسیا کے شریک ہیں اُن کے واسطے وہ ایک جگہ تیار کرنے کو گیا ہے اور پھر آئے گا اور اُن کو آپ میں قبول کرے گا تاکہ جہان وہ ہے وہاں وہ بھی ہوں اور وہ اُس کے ساتھ ابدتک سلطنت کریں گے ۔لیکن وہ اُن سے جو خُدا کو نہیں پہچانتے اور اُس کی انجیل کونہیں مانتے انتقام لے گا۔
سوم :۔وہ کفارہ ہے ۔مسیح نے اپنے تئیں مہربانی ساز قربانی میں دیا اور اسی طرح سے تمام دُنیا کے گناہوں کا کفارہ ہوگیا ۔یہودیوں کو حکم دیا گیا تھا کہ قربانیاں گذرانیں ۔اور اور قوموں میں بھی یہ دستور پھیل گیا اغلب ہے کہ اُنہوں نے یہ دستور یہودیوں سے پایا ۔اور وہ قربانیاں بہت دفعہ گذرانی جاتی اور انسان کے باہری مذہب کا ایک بڑا حصہ ہوتی تھیں ۔لیکن (عبرانیوں ۹: ۲۶)میں مرقوم ہے کہ مسیح اب آخری زمانہ میں ایکبار ظاہر ہوا تاکہ اپنے تئیں قربانی کرنے سے گناہ کو نیست کرے اور اُس کی قربانی عمدہ درجہ پر ہر طرح سے اور ہر آدمی کے گناہ معاف کرنے کے قابل ہے جیسا کہ غیر قوم سوچتے تھے کہ اُن کی قربانیاں قابل نہیں اور کہ وہ قربانیاں جو یہودی لوگ گذرانتے تھے ایمان داروں کے حق میں کسی نہ کسی طرح سے قابل نہیں ۔ہم کو کسی طرح سے معلوم نہیں کہ مسیح کی قربانیاں کس طریقے سے اور کس سبب سے ایسی تاثیر پذیر ہیں لیکن نوشتے صاف بتلاتے ہیں کہ اُس میں درحقیقت یہ طاقت ہے بعض لوگوں نے اس کا بیان نہ پاکر یہ کہا کہ اُس کی کوئی قربانی نہیں تھی بلکہ اُس کی تعلیم سے اور اُس کی نمونے پر چلنے سے ہماری نجات ہوگی ۔پرانجیل کی تعلیم یہ ہے کہ جو مسیح نے سکھلائی کہ توبہ کرنا بہت فائدہ مند ہے اور اُس کا فائدہ وتاثیر مسیح کے کام اور مصیبتوں پر موقوف ہے یعنی اُس کے کام اور اذیت کے سبب سے ہماری توبہ ہمیشہ کی زندگی تک مقبول ہوگی اوراب ہمیں مناسب ہے کہ شکرگزاری کے ساتھ اُس کو یقین کرکے قبول کریں اور اعتراض نہ کریں کہ وہ کفارہ کس طرح سے ایسا تاثیر پذیر ہوسکتا ہے ۔
ہفتم :۔ہم نہیں جانتے کہ اگلی سزا کس طرح سے حال کے گناہ کا بدلہ ہوتی ہے اور کس طرح سے وہ سزا دی جاتی اگر روح کی نجات اور ہم اُس خوشی کا حال جو مسیح ہمارے لیے تیار کرچکا ہے نہیں جانتے ہیں کہ ہمارے کام کس قدر گناہ کو روکتے اور آسمانی خوشی کو حاصل کرتے ہیں ۔پس ہم کلام الہٰی بغیر بالکل نہیں بتلاسکتے کہ کیا کوئی علاج اُن مطالب کے پورا کرنے کے لیے ضرورتھا یا نہیں ۔اور اسی طرح اگر کلام الہٰی نہ ہوتا تو ہم کسی طرح سے معلوم نہ کرسکتے کہ شفیع کاکام اورعہدہ کیا کیا ہوگا اور کس طرح سے وہ خالق ومالک کی مرضی کو پورا کرے گا ۔اور اگر ہم بغیر الہٰامی کلام کے اُس عہدے پر کسی طرح کا انصاف نہیں کرسکتے ہیں تو کیوں کر اُس کلام پر اعتراض کریں۔پھر لوگوں نے مسیح کے کفارہ ہونے پر ایک اور اعتراض کیا ہے یعنی اگر مسیح جو بے گناہ تھا گنہگاروں کے بدلے مارا گیا تو کیا خُدا بے انصافی سے خوشی ہوتا ہے ۔اب ہم کو بالکل معلوم نہیں کہ آیا یہ بے انصافی ہے یا نہیں خُدا کی اخلاقی حکومت میں جیسا ہم نے شروع میں کہا بہت سی باتیں ہیں جو ہم نہیں سمجھتے ہم روز بروز خُداکی حکومت اور ملکوں کی حکومت دونوں میں یہ حال دیکھتے ہیں کہ گنہگاروں کے بدلے بے گناہ سزا پاتے ہیں ۔کبھی ماں باپ کے گناہ کے سبب سے لڑکے عمربھر بیمار رہتے ہیں اور مربھی جاتے ہیں اور کبھی ماں باپ یا بھائی کی غفلت سے بیٹے یا بھائی لاوارث ہوکے عمربھر غریب اور تنگ حال رہتے ہیں اور اگر کسی کو پھانسی یا جلاوطنی یا قید ہوتی ہے تو اُس کے سارے رشتہ دار عمر بھر شرم کھاتےہیں وغیرہ پس ایسے اعتراض نہ صرف مسیحی مذہب کے بلکہ مالک کی تمام حکومت اور مخلوقات کے سارے طریقوں کے برخلاف ہیں اور معترض اس بات کو یادنہیں کرتا کہ مسیح نے اپنے تئیں اپنی خوشی سے دیا اور اُس کے کفارہ میں ہم یہ فائدہ دیکھتے ہیں کہ اُس میں یہ تاثیر ہے کہ خُدا کا اختیار اُس کے ذریعہ سے قائم رہتا اور گناہ روکا جاتا ہے اور اُس کا جواب کبھی نہیں ہوا پس ان باتوں سے ظاہر ہے کہ وہ اعتراض معقول نہیں۔اگر کوئی بات کفارہ ہونے میں عقل کے خلاف ہے تو نوشتوں کو چھوڑ دینا بہتر ہے پرایسا نہیں ہے۔
آخری بات ۔عقل اور مخلوقات کے تمام طریقے سکھلاتے ہیں کہ خُدا ہم پر اپنی ذات اور کام کا بیان تھوڑا ظاہر کرے پر ہمارے کام اور فرائض کا پورا اور کامل بیان کرے گا اور ظاہر ہے کہ ایسا ہی ہے ۔خُدا کے کلام میں صاف صاف لکھا ہے کہ ہم اُس کفارہ کے سبب کیا کریں اور کیا پائیں اور کن باتوں کے واسطے اُمید رکھیں پس ہم اپنے کام اور فرائض کی بابت کسی طرح کی شک میں نہیں چھوڑے گئے جس طرح خُدا نے ہمیں مخلوقات میں زندگی بسر کرنے کی تمام چیزیں دی ہیں اُسی طرح انجیل میں سب باتیں جو نیکی ودینداری وہمیشہ کی زندگی کے واسطے ضرور اور درکار ہیں موجود اور صاف صاف ظاہر کی گئی ہیں اور ہم کہہ سکتے ہیں مسیحی نوشتوں میں کوئی نصیحت یا حکم مشکل یا شک کا نہیں ہے سب اخلاقی حکموں کامطلب اور ضرورت بھی ظاہر ہے ۔ریت ورسم ضرور ہیں تاکہ یہ دین قائم ہوئے اور پھیل جائے ۔اور اس لیے ہم پر فرض ہے کہ مسیح کی پرستش دل سے اور ریت ورسم کے ذریعہ سے بھی کریں اس لیے کہ اُس نے ہمارے واسطے اذیت برداشت کی اور اپنے تئیں کفارہ میں دیا اور کہ وہ ہمارا شافی ودرمیانی ہے۔
چھٹا باب
اس بات کے بیان میں کہ عوام الناس کو الہٰام
نہیں اور اُس کے منجانب اللہ ہونے کے دلائل
بعضوں نے خیال کیا ہے کہ اگر کلام الہٰی کی دلیلوں میں کسی طرح کا شک ہے تو یہ شک ایک کافی دلیل ہے کہ وہ کلام منجانب اللہ نہیں ہے۔ اور بعض یہ بھی سوچتے ہیں کہ بائبل کلام خُدا نہیں ہے اس سبب سے کہ ایک دم سے سب آدمیوں کو تمام دُنیا میں نہیں دیا گیا۔
اب ایسے خیالوں کی کمزوری یوں معلوم ہوتی ہے کہ جو ایسے خیال کرتے گویا کہ کہتے ہیں کہ خُدا ہمارے خیالوں کے برخلاف ہم کو برکت نہیں دے سکتا ہے ۔اور اگر وہ سبھوں کو وہی برکت نہ دے تو وہ کسی کو برکت نہیں دے سکتا ہے ۔اور یہی باتیں تمام مخلوقات کے طریقوں کے برخلاف ہیں جو ایسے خیال کریں یاد نہیں رکھتے ہیں کہ اپنے دُنیاوی کاموں میں وہ کس طرح کی دلیلوں پر اعتبار رکھتے ہیں ۔تمام دُنیاوی خوشی کے حصول میں ہرطرح کے شک ہوتے ہیں تاہم سب لوگ اسے تلاش کرتے ہیں ۔کوئی کہتاہے کہ میں دولت مند ہوکے خوش ہوں گے پس وہ ایسے کام کوشروع کر تاکہ جس سے سوچتا کہ دولت پیداہوگی ۔لیکن ثابت نہیں ہے کہ دولت پیدا ہوگی یا نہیں ۔اُس کی تدبیریں سب کچی ہیں تو بھی وہ کرتا ہے پر اپنے مطلب کو نہیں پہنچتا بعد ازاں وہ اور کام کرتا ہے اور پھر کامیاب نہیں ہوتا ۔کئی ایک کام کی آزمائش کرنے کے بعد آخر کار وہ کچھ کام پاتا ہے جس سے اُس کے پاس بہت دولت جمع ہو۔لیکن وہ خوشی جس کی اُمید رکھتا ہے اُسے نہیں ملتی اگر معترض خیال کرے گا کہ کیسے کیسے دلائل پر اعتبار رکھ کر آدمی اپنے سب دُنیاوی کاموں کو چلاتے ہیں تو وہ کبھی نہ کہے گا کہ انجیل کے موافق روحانی کام کی دلیلوں میں شک ہے ۔
وہ جو کہتے ہیں کہ توریت اور انجیل سب آدمیوں کو نہیں دی گئی خیال نہیں کرتےکہ خُدا اپنی بخشش متفرق آدمیوں کو دیتا ہے اورکسی کو دیتا اور کسی سے دریغ کرتا ہے ۔لیکن کوئی نہیں کہہ سکتا ہے کہ خُدا نے نہیں دیا۔سب لوگ کہتے ہیں کہ خُدا سب چیزوں کا دینے والا ہے لیکن کسی کو برکت ملتی ہے اور کسی کو نہیں ملتی ۔
یہودیوں کے پاک نوشتے یعنی توریت وزبور وصحائف انبیا اور مسیحی نوشتے یعنی انجیل ایک دم سےسب آدمیوں کو نہیں دی گئی لیکن حصہ حصہ وقت بوقت ملی اوران نوشتوں کے ثبوت متفرق تھے یعنی کسی زمانے میں قوی ثبوت اور کسی میں کمزور تھے ۔مثلاً وہ یہودی جونبیوں کے زمانے میں موسیٰ سے لے کر بابل کی اسیری کے وقت تک تھے بہت زیادہ روشنی رکھتے تھے بہ نسبت اُن کے جو اُس وقت سے لے کے مسیح کے آنے تک زمین پر تھے اور قدیم مسیحی لوگ ہماری نسبت معجزوں کا بہت زیادہ ثبوت رکھتےتھے لیکن ہمارے واسطے یہ مضبوط دلیل رہی ہے کہ انجیل کی پیش گوئیاں پوری ہوتی ہوئیں دیکھتے ہیں اور مالک اپنے سب کام میں اور برکتیں دینے میں اُسی طریقے پر چلتا ہے کہ کبھی کم کبھی زیادہ دیتا ہے پر کون کہہ سکتا کہ دینے والا خُدا نہیں ۔
اور اگرچہ ایسا ہے کہ بعض قوموں نے انجیل کی تعلیم نہیں پائی اور بعض نے مثل اہل فارس اور محمدی جھوٹ کے ساتھ اور فریب آمیز تعلیم کو پایا اور اوروں نے زیادہ پایا تو بھی اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کیوں کہ خُدا اپنی مہربانی سے ہر ایک آدمی کا انصاف انہیں سچائیوں کے مطابق جو اُس کو پہنچیں کرے گا ۔جیسا (۲۔کرنتھیوں ۸: ۱۲ ) میں ہے کہ آدمی اُس کے موافق جو اُس پاس ہے مقبول ہوگا نہ اُس کے موافق جو اُس پاس نہیں ہے ۔ لیکن کیا یہ خیال کرنا چاہیے کہ جو تاریکی میں ہیں وہ بغیر سوچے اُسی میں پڑے رہیں ۔نہیں ،بلکہ ہرایک روشنی کو ڈھونڈے ۔ہمارا مالک وخالق عالم الغیب ہے اور اُس کی مہربانی بے حد بھی ہے پس جب ہم دیکھتے ہیں کہ تمام مخلوقات میں متفرق باتیں ہیں اور کہ انسان کے حالات ایسے متفرق ہیں تو خیال کرنا چاہیے کہ خُدا نے ہر ایک کے واسطے و ہ حالت اور کیفیت جو اُس کی ہے تیار کی تاکہ سب کے سب اپنی اپنی طاقت ولیاقت کے موافق بے کُڑ کُڑائے اُس کی تعریف کریں۔اب ذیل کی باتوں پر خیال کرو ۔
پہلی:۔وہ شک جو خُدا ئے مالک کی حکومت کی کئی ایک باتوں پر ہے شاید اس حال کی آزمائشوں میں ایک ہی ہے ۔تاکہ معلوم ہو کہ کیا ہم مذہبی دلیلوں کی تلاش کریں یا اُن میں سُستی کریں اور جیسا اُس پر جو مذہب عیسوی کی دلیلوں پریقین لاتا ہے فرض ہے کہ اُس کو دل وجان سے قبول کرکے مانے ۔ویسے ہی اُس شخص پرجو اُس مذہب سے ناواقف ہے فرض ہے کہ اُس کی دلیلوں کو تلاش کرکے سوچے اور خوب معلوم کرے کہ آیا یہ مذہب سچا ہے یا نہیں ۔
دوسری :۔یہ شک کا حال جو کہ مذہب میں ہے ضرور ایک اخلاقی حال آزمائش ہے اگر مسیحی مذہب کی بابت شک ہے تو معلوم ہوا کہ اُس کی دلیلیں بھی ہیں ۔اگر ہم جانتے ہیں کہ فلانی بات بالکل باطل ہے تو اُس بات کی بابت شک نہیں رہا پس یہ شک ایک اچھی آزمائش ہے ۔اور اگر ہم ان دلیلوں کو نہ آزمائیں تو یہ شک زیادہ ہوتا رہے گا ۔پس یہ ہمارے فائدہ کا باعث ہے تاکہ مذہب عیسوی کی دلیلوں سے واقف ہوجائیں اور اُن کو جانچ کے قبول کریں ۔
تیسری :۔ اور یہ شک کی حالت جس میں بعض آدمی رکھے گئے ہیں کچھ کُڑ کُڑانے کا سبب نہیں ہے۔کیوں کہ جیسے اور لوگ اور طرح کی آزمائشوں میں ہوکے روحانی طاقت حاصل کرتے ہیں اور اُن سے بہت طرح کے فائدہ پاتے ہیں ویسے ہی جو اس شک کے حال میں ہوتے ہیں اُس کے رد کرنے میں طرح طرح کی کوششیں اور دلیلوں کو آزماتے ہیں اور قسم قسم کے علم اور تواریخ کی سیر کرکے عقلمند وذی علم اور دانش مند بھی بن جاتے ہیں۔پس اس شک کے حال سے اُن کو بہت سافائدہ حاصل ہوتا ہے ۔
اور اگر اقرار کیا جائے کہ مذہب کے خیالی مشکلات بعض آدمیوں کی خاص اور عام آزمائشیں ہیں تو بھی اس میں کچھ تعجب نہیں کیوں کہ بعض آدمی ایسے ہیں کہ اگر اُن پر ایسی آزمائشیں نہ ہوئیں تو وہ بے امتحان رہتے ۔اس واسطے کہ اُن کے مزاج ایسے ہیں کہ اگر وہ کسی بات پر یقین رکھتے تو ضرور اُسے قبول کرکے مانتے ہیں ۔
لیکن شاید ایسا بھی ہے کہ وہ جو مسیحی مذہب پر شک کرتا ہے اپنے آپ میں اُس شک کا سبب رکھتا ہے ۔وہ جو دریافت نہیں کرتے ۔یا صرف مشکلات پر خیال کرتے یا مذہب کی تمام باتوں پر ٹھٹھا کرتے ہیں ۔پس وہ اُن دلائل کو جن پر وہ قائم اور ثابت ہے کبھی نہ دیکھ سکیں گے ۔
اورنوشتے بھی یہ بات ثابت کرتے ہیں کہ دیکھو کتاب (دانی ۱۲: ۱۱؛ یسعیاہ ۲۹: ۱۳، ۱۴؛ متی ۶: ۲۳، ۱۱: ۲۵، ۱۳: ۱۱، ۱۲؛ یوحنا ۳: ۱۹، ۵: ۴۴؛ ۱۔کرنتھیوں ۲: ۱۴؛ ۲۔کرنتھیوں ۴: ۴؛ ۲۔تیمتھیس ۳: ۱۳)اور محبت کی وہ بات کہ جس کے کان سُنتے کے ہوں سو سُن لے ۔پھر ہم صاف کہہ سکتے ہیں کہ مسیحی مذہب کی عام دلیلوں کو عام لوگ سمجھ سکتے ہیں ہاں وہ بھی جن کا وقت بچپن سے موت تک ضرورت کے کاموں میں صرف ہوتا ہے جو کوئی کچھ بھی خیال کرتا وہ سمجھ سکتا ہے کہ ایک خُدا ہے جو ہمارا اور سبھوں کا مالک ہے اور کہ وہ ہم پر حکومت کرتا ہے ۔اور مسیحی مذہب جو انسان کی عقل کے موافق ہے سمجھ میں آسکتا ہے ۔سب لوگ بخوبی جان سکتے ہیں کہ مسیحی مذہب کے ثبوت میں معجزے دکھلائے گئے ہیں کہ اُس کی کئی پیش گوئیاں پوری ہوگئی ہیں۔
سب لوگ اتنی سمجھ رکھتے ہیں اگرچہ وہ اُن اعتراضوں کا جو اُس کے برخلاف کئے جاتے ہیں جواب نہ دے سکیں۔اور وہ لوگ جو علم دار ہیں صاف صاف جواب دے سکیں گے اور ثابت کرسکیں گے کہ اس مذہب کی دلیلیں قائم ہیں ۔
شاید کوئی اعتراض کرکے کہے گا کہ جیسا ایک شاہزادہ یا مالک اپنے نوکر کو صاف صاف حکم دیتا ہے ویسے ہی خُدا اگر حکم دے تو صاف صاف فرماکے دے گا تاکہ اُس میں کسی طرح کا شک یا بھول چوک نہ ہو سکے مگر اب کون ایسی بات کہہ سکتا ہے۔خُدائے مالک نے ہم کو بہت سی دُنیاوی باتوں کی بابت جو بہت بھاری ہیں شک وشبہ میں چھوڑ دیا ہے اب اس کا ٹھیک جواب یہ ہے کہ جب کوئی شاہزادہ یا مخدوم حکم دیتا ہے تو اُس کا مطلب صرف اتنا ہی ہے کہ فلاں کام کیا جائے اور وہ کسی طرح سے فکر نہیں کرتا ہے کہ کرنے والا کس مطلب سے اُس کو کرے ۔لیکن جب خُدا حکم دیتا ہے تو وہ دریافت کرتا ہے کہ آدمی جو اُس کا حکم مانے تو کس مطلب سے مانے گا کیوں کہ جس نے بُرےمطلب سے خُداکاکوئی حکم پورا کیا تو وہ اُس حکم کو بجا نہیں لایا بلکہ ٹال دیا ہے جو کوئی پیار سے حکم مانتا ہے وہ مقبول ہوتا ہے اور جو خُدا کو پیار کرتا ہے سو کوشش سے دریافت کرے گا کہ اے خُداوند تو کیا چاہتا ہے کہ مَیں کروں اور ایسا آدمی خُدا کے احکام میں بھول نہ کرے گا اُس کے واسطے احکام الہٰی ایسے صاف ہیں کہ اگر وہ دوڑے تو بھی پڑھ سکے۔
پچھلی بات:۔ہمارے حالت دین میں ہونے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم آزمائش کے حال میں بھی ہیں ۔اور اگر ہم آزمائش کے حال میں ہیں تو اغلب ہے کہ وہ شک جو مذہب کی بعض دلیلوں میں ہے ایک آزمائش ہے کیوں کہ مخلوقات کے طریقوں پر غور کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اور بہت سی باتیں بھی ہیں جن کی بابت شک ہوتا ہے تو بھی انسان ایسی باتوں کو نہیں چھوڑتے بلکہ دریافت کرکے انتخاب کرلیتے اور سچائی پر عمل کرتے ہیں ۔پس مذہبی بھی ایسا ہی کیوں نہ کریں۔
ساتواں باب
مذہب عیسوی کے خاص دلائل
ہم کو اگلی باتوں سے صاف معلوم ہوا کہ مسیحی مذہب کی خاص وعام تدبیروں کے برخلاف کوئی دلیل جو مخلوقات کے طریقوں سے تشبیہ دینے سے دی جائے ٹھہر نہیں سکتی ہے۔اور کہ کوئی آدمی بغیر پختہ وقوی دلیل کے اُس مذہب کو باطل نہیں جان سکتا ہے ۔اب یہ ایک بات باقی ہے کہ ہم مذہب کی حقیقی وصاف دلیلوں کو جانچیں تاکہ ظاہر و عیاں ہو کہ آیا وہ مخلوقات کے طریقوں سے موافقت رکھتے ہیں یا نہیں اور کہ جب انسان اپنے دنیوی کاموں میں اُسی طرح کے ثبوت پاتے ہیں جس طرح کے مذہب کے صاف ثبوت ہیں ۔اورجب ایسے اعتراض اُن دنیوی انتظاموں کے برخلاف کئے جائیں جس طرح کے مذہب کے برخلاف کئے جاتے ہیں تو وہ کیا کرتے ہیں آیا اُس کو ثبوت مانتے یا اعتراض جانتے ہیں ۔
مسیحی مذہب کی صاف حقیقی اور بنیادی دلیلیں دو قسم کی ہیں اول معجزہ اور دوسری پیش گوئیوں کا پورا ہونا اور ماسوائے اُن کے بہت سی اور بھی بھاری باتیں ہیں جن سے سلسلہ وار دلیلیں پیدائش سے لے کر اب تک موجود ہوئیں لیکن اُن کو بغیر بنیادی دلیلوں کے استعمال نہ کرنا چاہیے ۔اس لیے ہم معجزوں اور پیش گوئیوں پر غور کریں گے اور دریافت میں لائیں گے کہ مشابہت کس طرح سے ان دلیلوں کو قائم کرتی ہے اور من بعد ہم اُن سلسلہ وار دلیلوں کی بابت بھی دریافت کریں گے ۔
اوّل:۔معجزے اور پیش گوئیاں پہلے اُن اُن معجزوں کی بابت جو مذہب کے ثبوت میں کئے گئے تواریخی گواہی بہت ہے جس میں یہ بھاری باتیں پائی جاتی ہیں۔
توریت میں جس قدر تواریخی گواہی موسیٰ اور اسرائیلی بادشاہوں کے ملکی انتقام کو ثبوت کرتی ہے اُسی قدر وہ موسیٰ اور انبیا کے معجزوں کو بھی ثابت کرتی ہے۔اور جس قدر اناجیل واعمال الرسل کی تواریخ عام باتوں کو ثابت کرتی ہے اُسی قدر وہ مسیح اور اُس کے رسولوں کے معجزات کا ثبوت پہنچاتی ہے ۔اور یہ کتاب بطور کہانیوں کے نہیں لکھی گئی پس کوئی نہیں کہہ سکتا ہے کہ جو معجزے اُس میں مبین ہیں وہ اس کو دلچسپ کرنے واسطے نقل کئے گئے بلکہ تمام کتاب صاف تواریخ کے طورپرلکھی ہے ۔اور اگر ہم اُن حصوں کو جن کو مورخوں نے سچ مان کے اپنی تواریخوں میں اقتباس اور نقل کیا ہے مان لیں تو ہم نے مسیح اوراُس کے رسولوں کے معجزوں کو سچا مان لیا ہے ۔اب ان تفصیل ذیل پر خیال کرو ۔
دوسری :۔پولُس رسول کے خطوط جو کتابِ مقدس میں شامل ہیں ایک خاص طرح کی تحریرات ہیں اور اس سبب سے ضرور ہے کہ ہم اُن پر علیحدہ غور کریں ۔وہ خطوط ہیں اور اُن میں سے بعض خاص شخصوں کو لکھے گئے اور بعض خاص کلیسیاؤں کے واسطے اور بعض عام لوگوں کے لیے لکھے گئے ہیں اور وہ سب کے سب عام لوگوں کے لیے فائدہ مند ہیں اور اُن کی اصالت (اصل پن،پیدائشی)پر کسی طرح کا شک وشبہ نہیں ہوسکتا ہے۔اس کے ثبوت میں یہ بات بھی ہے کہ ایک اور اسقوف (اسقف کی جمع،پادریوں کا سردار)کلیمس نامی نے بھی کرنتھیوں کو ایک خط لکھا ہے جس میں اُس نے اُس کا ذکر کیا جو پولُس نے اُن لوگوں کو لکھا تھا ۔پس ثابت ہے کہ پولُس کی گواہی مسیحی مذہب پر اور گواہیوں سے الگ ہے اور بہت بھاری اور پختہ بھی ہے۔
پولُس رسول موصوف (گلتیوں ۱ باب؛ ۱۔کرنتھیوں ۱۱: ۲۳، ۱۵: ۱۸)میں فرماتا ہے کہ مَیں نے انجیل اور اپنی رسالت اور خاص کر عشائے ربانی ساکرمنٹ کو رسولوں اور اُن کے رفیقوں سے نہیں بلکہ مسیح سے پایا جس کو میں نے اُس کے عروج کے بعد دیکھا جیسا رسولوں کے اعمال میں بھی لکھا ہے ۔اوروہ اپنی بابت لکھتا ہے کہ مَیں معجزوں کی طاقت ولیاقت رکھتا ہوں اور اُن کلیسیاؤں کے بعض آدمیوں کا ذکر کرتا ہے جو یہی طاقت رکھتے تھے ۔ اور اُس نے اُن کی مانند نہیں لکھا جو ان باتوں کی پچھلی خبر دیتے ہیں بلکہ مثل اُس کے جو کسی ظاہر ہوئی بات کی بابت لکھتا ہے کہ اُس نے اُن کو جو اس بڑی طاقت ولیاقت کو نالائق طورسے استعمال کرتے تھے دھمکایا اور شرمایا اور اُس طاقت کو پاکیزگی اور محبت سے نیچے درجے پر رکھا دیکھو (رومیوں ۱۵: ۱۹؛ ۱۔کرنتھیوں ۱۲: ۸، ۹، ۱۰: ۲۸، ۱۳: ۲، ۸، ۱۴باب؛ ۲۔کرنتھیوں ۱۲: ۱۳؛ گلتیوں ۳: ۲، ۵) اور یہ مذکورہ باتیں مذہب عیسوی کی نہایت بھاری دلیل ہیں اور کوئی اُن کے برخلاف ثبوت نہیں لاسکتا ہے۔
تیسری:۔یہ تواریخی بات اور سبھوں سے قرار کی گئی ہے کہ جب مسیحی مذہب مشتہر ومنادی اور جاری کیاگیا تب اُس کے منادیوں نے ظاہر وآشکاراکیا کہ اس مذہب کے خاص وقوی ثبوت اوردلائل معجزے ہیں اور جن لوگوں نے اُسے قبول کیا اُنہوں نے معجزوں پر یقین لاکے قبول کیا۔اور وہ لوگ اُ س زمانے میں بہت تھے۔اور دین عیسوی جس میں عہدعتیق بھی شامل ہے اسی بات کے سبب سے دیگر مذاہب سے مختلف ہے۔کوئی اور مذہب معجزوں سے مثبت ہوکے جاری نہیں کیا گیا دین محمدی نے معجزوں کی دلیلوں سے اجرانہیں پایا کیونکہ اُس کے بانی نے اقرار کیا کہ معجزوں کی طاقت ولیاقت مجھ میں نہیں ہے۔
(دیکھو ۱۳، ۱۷ سورت)اور مشہور بات ہے کہ وہ مذہب اور ہی وسیلوں سے جاری کیا گیا تھا اگر کوئی اور مذہب جاری ہو جائے اور اُس میں بہت سے لوگ اور بڑے بڑے آدمی شامل ہوجائیں اور تب وہ یہ باتیں دکھلاکے کہنے لگیں کہ یہ الہٰی مذہب ہے اور یہ عجیب باتیں معجزے ہیں اور بہت لوگوں کو اپنے میں شامل کرلیں تو اس میں کچھ تعجب نہیں ۔لیکن مسیحی مذہب کا یہ حال نہ تھا بلکہ شروع میں اُس کے جاری کرنے واسطے چند غریب اور ناخواند ہ رسولوں نے معجزے دکھلائے اور چند عرصے میں بہت سے لوگ ہر ملک اور ذات اور درجے کے اُن معجزات پر یقین لاکے اُن حقیر مسیحیوں میں شامل ہوگئے۔
اور جب ہم یادکرتے ہیں کہ یہ لوگ کچھ دُنیوی فائدہ یا آرام کے لیے نہیں بلکہ اس دُنیا کے بڑے بڑے لوگوں کی صحبت کو اور سب طرح عیش وعشرت وتماشے وکھیل وغیرہ کو چھوڑ کے اور اپنے تمام دستوروں کو بدل کے سبھوں سے حقیر سمجھے گئے تاکہ وہ اس مذہب کے موافق روحانی فائدہ حاصل کریں تو ہم کو کامل یقین ہوتا ہے کہ اُنہوں نے معجزوں پر یقین کیا ۔اور اُن کی تبدیلی ہمارے مذہب کے طریقوں کے سبب سے پختہ تواریخی دلیل ہے ۔علی ہذالقیاس تواریخ میں خاص وعام دونوں قسم کی بہت سی گواہیاں ہیں کہ مسیحی مذہب کے ثبوت میں معجزے دکھلائے گئے اور یہ بس ہے ۔ اور جب تک کہ منکران باتوں کو رد نہ کریں تب تک مسیحیوں پر فرض نہیں ہے کہ کچھ اور ثبوت یا دلائل پیش لائیں ۔لیکن ہم اُن اعتراضوں کو جو کہ بے ایمان لوگ اُس گواہی پر کرتے ہیں جانچ کے جواب دیں گے ۔اگرچہ فرض نہیں ہے۔
معترض کہتے ہیں کہ پُرجوش لوگ مختلف زمانوں اور ملکوں میں اپنے تئیں ایسی مشکلات اور خطروں میں ڈالتے ہیں جیسا کہ پہلے مسیحیوں نے کیا اور سب سے باطل قیاسوں کے واسطے اپنی جانیں دینے کے لیے مستعد ہیں اب تمیز کی جگہ ہے کہ کیا لوگ خیال وقیاس کی بات پر یقین کریں یا فعل وکار کی بات پر ۔پہلی باتوں میں لوگ غلطی کرسکتے ہیں لیکن اُن باتوں اور ماجروں میں جو اپنی آنکھوں سے دیکھتے اور اپنے کانوں سے سُنتے ہیں وہ کم غلطی کرتے ہیں پس ثابت ہے کہ وہ معجزے جو پہلے مسیحیوں نے دیکھے حقیقی معجزے تھے کیوں کہ اُنہوں نے اپنی جانوں کو اپنی گواہی کے ثبوت میں دیا ۔
اور اُن مسیحیوں کی گواہی جنہوں نے دوسری وتیسری صدی مسیحی میں اپنی جانوں کو دیا یعنی شہید ہوئے اتنی بھاری نہیں ہے وہ سچ مچ گمراہ نہ تھے پر اُن کے شہید ہونے سے ثابت ہے کہ وہ ضرور پہلی صدی والوں کی گواہی کے سبب سے اُن معجزوں پر یقین لاتے تھے۔
پھر معترض کہتے ہیں کہ مذہبی ماجرے یعنی کار میں پرجوش گواہی کو بہت کمزور کرتی ہے اور بعض یہ بھی کہتے ہیں کہ اُس کے سبب سے مذہبی کار میں گمراہی اُس کو بالکل بے فائدہ کرتی ہے ۔اور بے شک پُر جوش اور بیماری کی طاقت بھی چند باتوں میں بہت عجیب ہے ۔لیکن جب کہ بہت لوگ بیمار اور کمزور نہیں اور پر جوش بھی نہیں ہیں کہیں کہ فلاں باتیں ہم نے اپنے کانوں سے سُنیں اور اپنی آنکھوں سے دیکھیں اور وہ تقید سے اُن باتوں پر گواہی دیں تو ایسی گواہی سے اور کوئی گواہی زیادہ مضبوط اور قابل یقین نہیں ہوسکتی ہے۔اور ایسی گواہیاں معجزات مذہب عیسوی پر بُہتیری ہیں۔
پر اگر یہ باتیں جن پر ایسی گواہیاں بین عدم اعتقاد ہوں تو شاید وہ گواہی ناقص نکلے گی ۔لیکن معلوم ہے کہ وہ معجزے جو کتاب مقدس میں مبین ہیں سب قابل یقین ہیں۔اور اگر ہم اقرار کریں کہ مذہب کی باتوں میں پر جوشی کی بڑی تاثیر ہے تاہم عام باتوں میں بھی پُرجوشی اور زیادہ رغبت بیشمار لوگوں کی گمراہی میں خلل پہنچاسکتی ہے ۔لیکن تاہم آدمیوں کی گواہی دُنیاوی کاروں میں لی جاتی کافی ومستحکم سمجھی جاتی ہے ۔
(۴) پھرکہتے ہیں (معترض)اگر پُرجوشی کے سبب سے نہیں تو شاید اُس کے اور فریب کے سبب سے مسیحی مذہب کے پہلے گواہوں نے فریب کھا کے اور فریب دے کے جھوٹی گواہی دی ہے۔اس کا جواب یہ ہے کہ اکثر گواہی لے جاتی اور حق سمجھی جاتی ہے پس ہمیں چاہیے کہ مسیحی مذہب کے پہلے گواہوں کی گواہی کو سچ مانیں ورنہ ثابت کریں کہ وہ یاتو پر جوش تھے یا فریبی تھے۔
(۵) قولہ۔لوگ بعض اوقات جھوٹے معجزوں سے فریب کھاکے اُن کو سچا مانتے تھے۔جو اب اور طرح کی فریب سے انسان پھنس گئے ہیں تو بھی لوگ اکثر گواہی کوسچ جانتے ہیں ۔
(۶) بہت معجزے جن کے اوپر بہت کچھ تواریخی گواہی تھے من بعد جھوٹے نکلے ۔ہاں ایسا ہوا لیکن کسی نے اب تک کبھی ثابت نہیں کیا کہ کوئی ایک بھی مسیحی معجزہ جھوٹا ہے۔
(۷) پس جب سے کہ گواہی اکثر سچی مانی جاتی ہے پس ضرور ہے کہ ہم حواریوں کی گواہی بھی سچی جانیں۔
(۸) مسیحی مذہب بہت ضروری ہے اور اُس کے فرائض نہایت بھاری ہیں اور اُس میں جھوٹ بولنا بالکل منع ہے اس سے ثابت ہے کہ اگلے گواہوں نے بہت خبرداری اور ہوشیاری کی تاایسا نہ ہو کہ اُن کی گواہی میں جھوٹ یا فریب ہو۔
(۹) ان سب باتوں سے ہر ایک متحمل آدمی صرف یہ نتیجہ نکال سکتا ہے کہ مسیحی مذہب کے معجزوں پر گواہیاں بہت ہیں اگرچہ وہ شبیہ کوبالکل رد نہ کرے اور اُس کے پاس کوئی گواہی یاثبوت اُن کے برخلاف نہیں ہے ۔پس مذہب عیسوی آپ ہی قابل یقین کے ہے اس سبب سے ضرور ہے کہ وہ گواہی جو اُس کے معجزوں پر ہے کافی ووافی سمجھی جائے۔
دوم :۔اب ہم اُن دلائل کو جو پیش گوئیوں سے نکلے ہیں دریافت کریں گے کہ وہ کس طرح مخلوقات کے طریقوں سے مشابہت رکھتے ہیں ۔
پہلے :۔کتاب مقدس کی پیش گوئیوں میں بہت ایسی ہیں جو صاف معلوم ہیں اور سچ مچ پوری ہوگئی ہیں ۔اور بعض ہیں جو سمجھ میں نہیں آتیں اور معلوم نہیں کہ کیا وہ پوری ہوئی یا نہیں ۔لیکن وہ شبیہ جو اُن کے کئی ایک حصوں میں ہے اُن صاف حصوں کونہیں جُھٹلاتا ہے کیونکہ وہ باتیں بھی ایسی ہی ہیں جیسی وہ سمجھ میں نہیں آتی تھیں لکھی گئیں ۔مثلاًایک خط ہے کہ جو نصف بطور معما (وہ بات جو بطور رمز بیان کی جائے ،پہیلی،پوشیدہ،پیچیدہ بات) لکھا گیا ہے اور نصف صاف باتوں میں مرقوم ہے اور اُس میں کئی باتوں کا بیان صاف ہے تو کسی کے سوچ میں نہ آئے گا کہ کہے کہ ان معموں کے سبب سے جو اس خط میں ہیں وہ صاف باتیں بھی باطل ہیں اور لکھنے والوں کو معلوم نہیں ہوئیں۔ اور اگر پھر کوئی آدمی کم علمی یاکم فرصتی کے باعث یا اس سبب کہ اُس نے ایسی باتوں پر خیال نہیں کیا اور دریافت میں لاسکا کہ آیا فلانی پیش گوئی بالکل پوری ہوئی ہے یانہیں لیکن وہ معلوم کرسکتا ہے کہ اُس میں بہت سی باتیں بالکل پوری ہوگئیں ۔پس وہ اس سے صاف جان سکتا ہے کہ اس پیش گوئی کا کرنے والا فی الحقیقت ان باتوں کو جانتا ہے ۔ اب یہی حال ہمارا ہے کہ مورخوں کی غلطیوں اورکم لکھنے کے سبب سے ہم نہیں جان سکتے کہ آیا سب کچھ بالکل پورا ہوا یا نہیں بلکہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ جنہوں نے اُن پیش گوئیوں کو لکھا ہے وہ اُن باتوں کو پیشتر سے جانتے تھے یعنی وہ ضرور الہٰام سے معمور ہوکے بولتے تھے اور بس ۔
دوسرے :۔اگر ایک سلسلہ پیش گوئیوں کا ہوجو کہ فلاں فلاں ماجروں میں پورا ہوتا ہے تو صاف صاف ظاہر ہے کہ وہ پیش گوئیاں اُنہیں ماجروں کی پیش خبری کرنے کو دی گئیں ۔
اب دو طرح کی تصنیفات ہیں جو پیش گوئی سے کچھ موافقت رکھتی ہیں یعنی کہانی اور ہجو( بُرائی ) اگر کوئی آدمی کہانی یا ہجو کے طور پر کچھ لکھے تو لوگ سمجھیں گے کہ اُس کی کیا رائے ہے جب کہ اُس کی کہانی گوئی یاہجو گوئی کسی بات یا ماجرے میں مل جائے گی ۔اور اگر آدھی باتیں بھی مل جائیں تو بھی لوگ کہیں گے کہ لکھنے والے کا ضرور یہی مطلب ہوگا ۔اب خیال کرو کہ مسیح کی بابت سب کچھ پیشتر سے لکھا گیا یہاں تک کہ یہودی لوگ اُس کے آنے سے پہلے اُس کی بابت اس طرح سے ذکرکرتے تھے جس طرح سے مسیحی لوگ اُس کے آنے کے بعد سے اب تک کرتے ہیں ۔
اب ہم بہت سی خاص باتوں سے مذہب کی دلیلوں کو نکالتے ہیں اس لیے کہ اور اور باتوں سے دلائل نکالے جاتے ہیں ۔
(۱)۔خُدا نے ہم کو خلقی مذہب دیا ہے اور ہم کو عقل وسمجھ اور تمیز بھی عطا کی ہے کہ جس سے ہم اپنے دستوروں کو اپنے فوائد کے لائق اور موافق مقرر کریں اور اُسے ایک الہٰامی کلام بھی عنایت کیا کہ جس میں اُس کا اور اُس کی حکومت کا بیان پایا جاتا ہے جس میں آئندہ کی سزا اور جزا دینے کے طریقے ظاہر ہیں ۔تاکہ ہم اپنا چال وچلن اُس حکومت کے قانون کے ذریعہ سے درست کریں اگر وہ یہ نہ دیتا توہم کبھی اپنے چلن کونہ سُدھارسکتے ۔ اور اُس نے اُس کلام میں ایک خاص تدبیر بتلائی ہے کہ جس سے کم بخت انسان اپنی پست حالی سے بچ کر کاملیت تک پہنچے اور اپنی طبیعت کی ابدی خوشی پائے۔
(۲)۔یہ کلام جس کو ہم الہٰامی کہتے ہیں حقیقت میں اس دُنیا کی اُس کے شروع سے آخر تک کی تواریخ ہے۔پیش گوئی ماجروں کے پیشتر کی تواریخ ہے اور تعلیمات صرف حقیقتیں ہیں اور نصیحتیں بھی اُسی درجے میں ہیں اورکلام کا مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس دُنیا کا حال بدیں (اس سے )لحاظ بیان کرے کہ وہ خُداکی ہے۔اور اس لیے یہ کلام سب کتابوں سے مختلف ہے۔اُس کے شروع میں مخلوقات کی پیدائش کے بیان میں لکھا ہے کہ خُدا نے سب کچھ بنایا تاکہ ہم کو معلوم ہوکہ کس کی پرستش کریں اور کلام الہٰی میں ہرجگہ احکام ودھمکیاں اوروعدے ہیں تاکہ ہم یادرکھیں کہ خُدا ئے رازق سنبھالنے والا ہے اوروہ خالق ومالک کہلاتا ہے تاکہ اُس کے اور دیگر قوموں کے بتوں کے درمیان فرق معلوم ہو۔
یوحنا نے اپنی انجیل کے شروع میں اس بات کو یاد دلایا ہے جب کہ اُس نے مسیح کی ازلیت کو ثابت کیا اور پولُس نے بھی نامہ (افسیوں ۳: ۹) میں جتلادیاہے۔
ہم نے مذکور کیا کہ کلام الہٰی دُنیاکی تواریخ ہے ۔لیکن وہ مفصل تواریخ تواریخ نہیں بلکہ بعض ملکوں اور حکومتوں کا کچھ کچھ بیان کرتی ہے پرجیسا اوپر مبین ہوا اُس میں لکھا ہے کہ دُنیا خُدا کی حکومت میں ہے پس جو کچھ بیان ہے اس مقصد پر ہے تامعلوم ہو کہ الہٰی مذہب والے کس طرح چلتے ہیں۔سوہمیں اعتراض کرنا نہ چاہیے کہ اُس میں روم اور یونان کا مفصل حال کیوں نہیں ہے ۔اُس میں ضرور لکھا ہے کہ سب آدمی اور تمام ملک پست حالی میں ہیں ۔اور دیگر ملکوں کا حال صرف اسی قدر لکھا ہے جس سے معلوم ہو کہ خُدا کے لوگوں کا کیا حال ہوا اور ہے اور ہوگا۔جیسے عہدعتیق وجدید کے اکثر مقاموں میں اُس وقت کی بابت کہ جب سب باتیں بحال ہوں گی لکھا ہے ۔(اعمال ۴: ۲۱) اور آسمان کا بادشاہ ایک بادشاہت قائم کرے گا جو کبھی نیست نہ ہوگی اور اور لوگوں کو دی نہ جائے گی ۔(دانی ایل ۲: ۴۴)لیکن انصاف کرنامقدسوں کے ہاتھوں میں سونپا جائے گا ۔(دانی ایل ۷: ۲۲)اور سلطنت وحکومت اورتمام آسمان کے نیچے بادشاہت کی بڑائی خُداکےعالم بالا کے مقدس لوگوں کو دی جائے گی ۔(دانی ایل ۷: ۲۷)ایسے طول طویل بیان میں معترضوں نے بہت تکرار کی ہے لیکن اس سے وہ کلام زیادہ ترقائم ہوتا ہے۔
اور علاوہ دُنیا کی تدبیر کےجو عہد عتیق میں دُنیا کے شروع سے سلسلہ وار بیان ہے اور بعد اس کے انسان کے نسب ناموں کا بہت زمانوں تک سب طرح کی عام تواریخ کے پیشتر اور بعد بھی ایسا کہ قریب چار ہرزار کے سلسلہ وار تواریخ اُسی کتاب میں ہے ۔اُس میں یہ بیان بھی ہے کہ خُدانے ایک خاص قوم کے ساتھ عہد باندھا تاکہ وہ خاص طور پر اُس کے لوگ اور وہ اُن کا خُداہو۔اور اُس نے معجزانہ طور پر بارہا اُن کی مدد کی اور اُن سے وعدہ کیا اور اُس کو پورا کرکے ایک خاص ملک اُنہیں بخشا اور یہ بھی وعدہ کیا کہ اگر وہ سب بتوں کو چھوڑ کر اُس کے حکموں پر چلیں گے تو اُن کا ملک ہر طرح سے مبارک اور سرسبز ہوگا پر اگر سرکشی کرکے بُت پرست ہوں گے جیسے اور قوم اُس وقت تھیں تووہ اُن کو نہایت سخت سزا دے گا ۔پس وہ تمام قوموں میں تعجب کا باعث ہوں گے ۔اور یہ بھی لکھا ہے کہ وہ سب ملکوں میں تِتربتر ہوں گے پرجب خُدا کی طرف پھریں گے وہ اُن پر رحم کرکے سب قوموں میں سے اکٹھا کرے گا ۔اور وسیلہ یہ ٹھہرایاگیا کہ اُن کے واسطے ایک شاہزادہ اور نجات دہندہ اُٹھے گا۔
اور اُس نجات دہندہ یعنی مسیح کا ایسا صاف بیان لکھا ہے کہ اُس کے آنے کے وقت وہ اُس کے انتظار میں تھے۔اور یہ انتظار ایک پختہ ثبوت ہے کہ وہ پیش گوئیاں سچ مچ پوری ہوئیں ۔پھر پیش خبری دی گئی کہ وہ قوم باوجود اُسے بہت چاہنے اور انتظار کرنے قبول نہ کرے گی۔اور صاف بتلایا گیا کہ وہ غیر قوموں کا نجات دہندہ ہوگا دیکھو (یسعیاہ ۸: ۱۴، ۱۵، ۴۹: ۵، ۵۳باب؛ ملاکی ۱: ۱۰، ۱۱آیت اور ملاکی باب۳)۔
پھرلکھا ہے کہ مسیحی تدبیر بہت برومند ہوگی ایسا کہ اُس کے مقابلہ میں یہودی لوگوں کی فراہمی ایک چھوٹی بات ہوگی۔مسیح کے حق میں (یسعیاہ ۴۹: ۶) میں فرمایا گیا ہے یہ تو کم ہے کہ تو یعقوب کے فرقوں کو برپاکرنے اور اسرائیل کے پھرا لانے کے لیے میرا بندہ ہوبلکہ میں تجھ کو غیر قوموں کے لیے نور بخشوں گا کہ تجھے میری نجات زمین کے سب کناروں تک پہنچے۔
اور نوشتوں میں مبین ہے کہ جس وقت یہودی لوگ مسیح کا انتظار کررہے تھے ایک شخص اُس قوم کا پیدا ہوا جس نے دعویٰ کیا کہ مَیں وہی شخص ہوں جس کی بابت وہ سب پیش گوئیاں کی گئیں ۔اوروہ کئی برس تک معجزے کرتا رہا اور اپنے شاگردوں کو بھی معجزون کی طاقت ولیاقت دی تاکہ وہ اُس کا مذہب پھیلائیں اور اُس کے ثبوت میں معجزے دکھلائیں ۔اور وہ اس طاقت واختیار کو رکھ کر دور دور ملکوں میں گئے جہان کہ بہت لوگ عیسائی ہوگئے اور اس طرح سے مسیحی مذہب دُنیا میں جاری ہوا۔
اور نوشتوں میں اُس مذہب کا حال دُنیا کے آخر تک کا پیشتر بیان کیا گیا۔
اب خیال کرو اگر کوئی آدمی ہو جو مذہب کے فرائض بالکل نہیں جانتا ۔اور اُسے یہ نوشتہ دیا جائے اور بتلایا جائے کہ اُس کے ذریعہ سے اخلاقی مذہب ثابت ہوا اور اب کئی قومیں اس مذہب کو مانتی ہیں اوروہ ہماری حالی اورآئندہ کی خوشی کے لیے نہایت ضرور ہے تو وہ آدمی ضرور کہیے گا کہ ایسا نوشتہ حقیقتاً قابل سوچ اور غور ہے (۲) اور پھر اُسے بتلایا جائے کہ اُس کتاب کا پہلا حصہ نہایت پُرانا ہے جس میں پہلے زمانوں کی تواریخ ہے جو اور تواریخوں سے خلاف نہیں بلکہ اُن کے ساتھ سب بھاری باتوں میں ملتی ہے ۔اور اُس کے تواریخی تذکروں میں ایک بات بھی غیر ممکن یابعید از عقل نہیں ہے بلکہ سب باتیں اُن ملکوں کے دستوروں کے موافق معلوم ہوتی ہیں ۔اور وہ تواریخ اور تذکرے قیاسی اور کہانیوں کے مانند نہیں ہیں بلکہ اُس کتاب کی سب ملکی اور خاندانی تواریخ بالکل محتمل (مشکوک) ہے۔اور اگرچہ کچھ کچھ تعجب کی اور شاید بعض بعض غلط باتیں ہیں تو بھی اور کتابوں میں شاید زیادہ غلطیاں ہیں۔اوریہ تواریخ اور تذکرے جو پیدائش سے چار ہزار برس کا حال بیان کرتے ہیں بالکل قابلِ یقین ہیں۔اور اس کتاب کا دوسرا حصہ یعنی عہد جدید کسی قدر تواریخی ہے جس کو اُس زمانے کی تصنیف کی ہوئیں تواریخیں بالکل ثابت کرتی ہیں تو وہ آدمی ضرور کہے گا کہ بہت عمدہ اور عجیب کتاب ہے اُس کو پڑھنا چاہیے ۔(۳) اور اُس آدمی سےکہا جائے کہ اُس کتاب میں یہودی قوم کا حال مبین ہوا کہ اُن کی حکومت اُس کتاب میں یہودی قوم کا حال مبین ہوا کہ اُن کی حکومت اُس کتاب کی توریت کے مطابق ہوئی۔خُدا اُن کا بادشاہ تھا اور وہ ہی صرف جب کہ اور سب قومیں بُت پرست تھیں خُدائے خالق ومالک کو مانتے تھے اور اس باعث خُدا کے خاص لوگ تھے اور اخلاقی مذہب کا اُن کے بیچ میں قائم ہونا اور موسیٰ اور نبیوں کے معجزوں کو ثبوت پہنچتا ہے۔
(۴) پھر وہ آدمی جو کہ تواریخ سے ناواقف ہے سُنے کہ ایک شخص جو مسیح ہونے کا دعویٰ کرتا ہے یہودیوں میں اُسی وقت پر جب کہ وہ اپنی کتاب کی پیش گوئیوں کے مطابق اُس کے آنے کے منتظر تھے پیدا ہوا لیکن اُن سے پیش گوئیوں کے مطابق انکار کیا ۔اور اُسی کتاب کی پیش گوئیوں کے بموجب اور غیر قوموں نے معجزوں کے ثبوت کے سبب سے اُس کو اقرار کرکے قبول کیا اور رفتہ رفتہ اُس کا مذہب بغیر مدد کے بلکہ بادشاہوں سے تکلیف پاتے ہوئے پھیل گیا یہاں تک کہ وہ تما م دُنیا کا مذہب بن گیا اور اتنے میں یہودی ملک اور سلطنت عجیب طرح سے بالکل نیست ونابود ہوگئی اور وہ لوگ قید ہوکر دور دور ملکوں میں پراگندہ کئے گئے اور ڈیڑھ ہزار برس سے اب تک اس حال میں رہے ہیں ۔اور وہ اور سب لوگوں سے بالکل علیحدہ ہیں اور اگرچہ شمار میں بہت ہیں تو بھی جیسے موسیٰ کے وقت میں شریعت کو مان کے الگ رہتے تھے ویسے ہی اب تک اُس کومان کے الگ رہتے ہیں ۔اورسب اُن کو حقیر جان کر ٹھٹھوں میں اُڑاتے ہیں۔اُن کے اس حال کا بیان ہم اُنہیں باتوں میں جو اُن کے حق میں پیش گوئی کےطور پر اُن کے غارت ہونے سے بہت مدت پہلے فرمائی گئیں اچھی طرح سے بیان کرسکتے ہیں وہ باتیں کتاب (استثنا ۲۸: ۳۷) میں مذکور ہیں۔اورتو اُن سب قوموں میں جہاں جہاں خُداوند تجھے پہنچائے گا حیرانی کا باعث اور ضرب المثل اور لعن طعن کا نشانہ ہوگا ۔
(۵) یہ قائم معجزہ یعنی یہودیوں کا پراگندہ ہونا اوراسی حالت میں رہنا جو پیش گوئیوں سے کماحقہ(جیسا اُس کا حق ہے) ملتا ہے کسی جواب سے ردنہیں ہوسکتا ہے۔
(۶) اور اُس آدمی سے کہوکہ اُس کتاب کی پیش گوئیوں میں سے بہت سی پوری ہوئیں یعنی اُن کے مطابق یہودی لوگ تِتربتر ہوئے اور اور بہت سی باتیں مسیح کی بابت پوری ہوئیں تووہ آدمی ضرورکہے گا کہ سب کچھ جو باقی ہے پورا ہوگا اور مسیح کی بادشاہت اُن کے اورتمام دُنیا کے اوپر پھیلے گی ۔
(۷) وہ آدمی کہے گا کہ وہ دلیل جو کہ پوری ہوئی پیش گوئیوں سے نکلی ہے اور بالکل درست اورسچی اور قائم ہے ایسا کہ کوئی اُس کو رد نہیں کرسکتا ۔
(۸) کیونکہ جوکوئی اُن پیش گوئیوں کو جن کی طرف سے ہم نے اشارہ کیا اُن ماجروں کے ساتھ جو تواریخوں میں پائی جاتی ہیں ملائے گا وہ ضرور کہے گا کہ یہ ماجرے وہی ہیں جو کہ اُن پیش گوئیوں میں مبین ہیں۔
(۹) اگر کوئی ان کو بخوبی سمجھے تو ضرور ہے کہ وہ اُنہیں یک بیک بڑی ہوشیاری اور خبرداری سے دریافت کرے گا اور جو ایسا کرے گا اُسے معلوم ہوگا کہ وہ بہت بھاری دلیلیں ہیں۔
(۱۰) اب مذہب عیسوی پر انصاف کرنا ہے کہ جیسا اور باتوں پر انصاف کرنا ہے یعنی تمام دلیلوں کو خواہ اُس کے ثبوت میں یا اُس کے برخلاف ہوں غور سے جانچنا اور تب انصاف کرنا۔اور ہر ایک ہوش مند آدمی پر فرض ہے اور واجب ہے کہ دل وجان سے دریافت کرے کہ مسیحی مذہب کے ثبوت کی دلیلیں زیادہ ہیں یا اُس کے برخلاف ہیں ۔اور یاد بھی رکھنا چاہیے کہ اگر کوئی اس میں غلطی کرے گا توہمیشہ کے واسطے نقصان ہے۔
(۱۱) بہت لوگ ایسے ہیں کہ وہ اس مذہب کے برخلاف بولنے میں بہت فصیح ہیں لیکن ایسے سُست رہتے ہیں کہ اُس کے دلائل پر ذرا بھی خیال نہیں کرتے اور نہ تواریخوں کو اُن کی تلاش کے لیے مطالعہ کرتے ہیں۔
(۱۲) آخری بات ۔ثابت ہوا کہ مسیحی مذہب کے برخلاف کوئی معقول اعتراض نہیں ہوسکتا ہے اور اُس کی عام تدبیر اور خاص حصے مخلوقات کے طریقوں سے مشابہت رکھتے ہیں اور سب کے سب اغلب ہیں اور وہ ایسا ہے کہ اگرچہ اُس کی خاص دلیلیں کچھ کچھ گھٹ جائیں تو بھی وہ نیست نہیں ہوسکیں گی اور باوجود اس کے کہ کافر اور معترض اپنی ساری طاقت سے اُس کے رد کرنے کی کوشش کرچکے تو بھی مسیحی مذہب کی بیشمار کافی و وافی دلیلیں قائم رہتی ہیں اور بس۔
آٹھواں باب
اُن اعتراضوں کے بیان میں جو کہ اس
طرح کے مباحثہ کرنے کے برخلاف ہیں۔
وہ لوگ جو مسیحی مذہب پر اعتراض کرتے ہیں اگر اُس بات کو جس کے برخلاف وہ لکھتے اور بولتے ہیں کوشش کرکے دریافت کرتے تو اس بات کے لکھنے کی حاجت نہ ہوتی۔لیکن چونکہ وہ ایسا نہیں کرتے ہیں اس لیے ہم اُن کے اعتراضوں پر کچھ خیال کریں گے ۔
وہ معترض کہتے ہیں کہ ا س میں کچھ تسلی نہیں ہے جو مذہب کی مشکلات کو رد کرے اور چونکہ مخلوقات کے طریقوں میں بھی ویسی ہی مشکلات ہیں تو ضرور ہے کہ وہ دونوں کی مشکلات کو دور کرے۔
اور مذہب کے فرائض ہم پر اس بات سے ثابت ہیں کہ ہم اپنے سب دُنیاوی کام کو شک وشبہوں میں چلاتے ہیں پر مذہب میں شک کی بات بالکل آنے نہیں دیتے ہیں۔
اب یہ سوچنا نہ چاہیے کہ انسان مسیحی مذہب کو شبہوں کے ساتھ قبول کریں گے کہ وہ مذہب انسان کے سارے کام اور منصوبوں اور خواہشوں کو تبدیل کرتاہے ۔پس یاد رکھنے کی بات ہے کہ اگر انسان اپنے دُنیاوی کام اور خوشی کو مذہب کے واسطے چھوڑیں تو ظاہر ہے کہ وہ اُس مذہب میں کسی طرح کا شک وشبہ نہیں کرتے ۔
جو ایسا کرتے ہیں وہ بے علم اور قاصر ہونے کے سبب سے کہتے ہیں اور اُن کے جواب اب دئیے جاتے ہیں۔
پہلے:۔ جوبات باقی ہے اور لوگ چاہتے ہیں سویہ ہے کہ ہرطرح کی مشکلات رد ہو تاکہ ہم سب کچھ سمجھیں لیکن یہ اَنہونی بات ہے۔جب ہم خُدا کی ذات کو بالکل سمجھ لیں اور ازل سے ابدتک سب کچھ پہچانیں یعنی جب ہم عالم الغیب ہوجائیں تب ہم دُنیاوی اور مذہبی مشکلات کو بھی رد کرسکیں گے۔
ہم نادانوں کو ہمیشہ اجازت ہے کہ اُن باتون میں سے جو ہم دیکھتے اور جانتے ہیں مشکل اور مخفی باتوں کو کھول کر بیان کریں۔سو جب ہم دیکھتے ہیں کہ خُدا اپنی حکومت میں فلاں طریقے کو استعمال کرتا ہے تو ہم ضرور کہیں گے کہ وہ اپنی مذہبی حکومت میں بھی اُسی طریقے کو استعمال کرے گا۔او ر جب کہ کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے کہ مذہب میں صرف وہی مشکلیں نظر آتی ہیں جو کہ مخلوقات کےطریقوں میں پائی جاتی ہیں تو مناسب نہیں ہے کہ اخلاقی مذہب پریقین نہ لائیں اور الہٰامی مذہب سے کنارہ کریں۔
دوسرے :۔مذہب ایک فائدہ مند شےہے جس کا مطلب اور معنی خالق کے حکم کے بموجب چلنا ہے تاکہ ہماری خوشی اُس کی حکومت میں بحال ہو اور بڑھتی بھی جائے۔پس اگر ثابت ہے کہ جس طرح دُنیاوی کاموں میں وفاداری اورہوشیاری کرنے سے فائدہ حاصل ہوتا ہے اسی طرح مذہب کے ماننے سے روحانی فائدہ ہوگا۔اور مذہب کے حق میں بہ نسبت دُنیاوی انتظاموں کے زیادہ ثبوت ہیں اور اعتراض اُس کی نسبت کم ہیں ۔تو عقلمند آدمی ضرور مذہب کو سوچ کر قبول بھی کریں گے ۔اور جب کہ ثابت ہے کہ مذہب کے ماننے سے بہ نسبت دُنیاوی باتوں کی تلاش کے نہایت زیادہ فائدہ ہوتا ہے تو کون کہہ سکتا ہے کہ مذہب کے واسطے بہ نسبت دُنیاوی انتظاموں کے زیادہ مضبوط دلیلیں ضرور ہیں۔
تیسرے :۔اس کتاب کا مقصد یہ نہیں ہے کہ خُدا کی حکومت کو راست ثابت کرے بلکہ یہ کہ انسان کے فرائض کو ظاہر کرے ۔یہ دو باتیں ہیں اگرچہ وہ کچھ کچھ ملتی بھی ہیں ۔تاہم اگر معترض کہے کہ مذہب کی فلاں فلاں بات غیر انصافی کی ہے اور ہم بتادیں جیسا پہلے بابوں میں مذکور ہے کہ وہی باتیں ٹھیک ٹھیک اور باتوں کے مانند ہیں جو کہ اُس کی حکومت میں سب لوگ مانتے ہیں۔اور یہ بھی بتادیں کہ ہم لوگ خُدا کے انتظام سمجھ نہیں سکتے ہیں اور اس سبب سے بے انصافی معلوم ہوتی ہے تو اُس اعتراض کا ٹھیک ٹھیک جواب دیا گیا ہے ۔مثلاً معترض کہے کہ آئندہ کی سزا یا جزا دینا غیر انصاف اور نیکی کے ہے۔اور ہم نے ثابت کیا کہ خُدا اس دُنیا میں سزا اور جزا دیتا ہے تو کیوں کر غیر ممکن ہے کہ وہ آگے کو بھی دے گا ۔تو معترض لاجواب ہے۔
ہم نہیں کہتے ہیں کہ اس طرح کی تشبیہ دینے سے ہم نے اپنے مذہب کو ثابت کیا یا اپنے خالق ومالک کو راست ظاہر کیا بلکہ ہم نے اعتراضوں کو رد کیا اور ظاہر کیا کہ جو مسیحی مذہب پراعتراض کرتے ہیں وہ اپنی باتوں کو کسی طرح سے ثابت نہیں کرسکتے ہیں۔
چوتھے:۔ ہم نہیں کہتے ہیں کہ یہ کتاب کامل ہے یاکہ وہ اُن باتوں پر پورے دلائل پیش کرتی ہے لیکن وہ مصنف کے مقصد کو پورا کرتی ہے۔ کیونکہ اس میں صاف ثابت ہے کہ مسیحی مذہب اپنے مطلب کو پورا کرتا ہے ۔اس میں ایسے دلائل نہیں ہیں کہ جن کے ذریعہ سے انسان خواہ مخواہ بے مرضی قائل کیا اور یقین دلایاجائے ۔وہ مذہب ایمان اور یقین کو ترقی دیتا ہے ۔جو کوئی ایمان سے اُس پر یقین لائے گا وہ اُس کی سچائی اورفوائد بھی خود دل میں معلوم کرے گا ۔اور شک وشبہ سے الگ رہے گا اور بس۔
اگر معترض کہے کہ لوگ مذہب کے ثبوت کبھی نہیں پائیں گے اور اپنی چال چلن اُس کے مطابق نہ سُدھاریں گے ۔ہم جواب دیتے ہیں کہ اس سے ثابت نہیں ہے کہ وہ ثبوت جھوٹے اوروہ مذہب باطل ہے۔کیونکہ ہم روز بروز دیکھتے ہیں کہ آدمی دُنیاوی کاموں میں بھی اپنی عقل اورتمیز کے برخلاف چلتے ہیں ۔
اوریادرکھنا چاہیے کہ اس کتاب میں سب آدمیوں کے ہرطرح کے اعتراضوں کے جواب دیئے گئے ہیں اور تب مذہب کی دلیلیں پیش کی گئیں ہیں۔
اورہم نے ثابت کیا کہ بالفرض تعلیم تقدیر سچی ہوتو بھی اُس سے ثابت نہیں ہوسکتا کہ مسیحی مذہب جھوٹا ہے ۔اگر ہم اس تعلیم کو رد کرکے کامل آزادی اور فعل مختاری کی نیوپر مذہب کے دلائل پیش کرتے تو وہ زیادہ مضبوط اور قائل کرنے والے ہوتے۔
اس کتاب کے یہ فوائد نکلیں گے کہ جو مسیحی مذہب کو مانتے ہیں دیکھیں گے کہ کوئی پکا اور سچا اعتراض اس مذہب کے برخلاف نہیں ہوسکتا ہے ۔کیونکہ اُن سب کا جواب مسیحی لوگ دے سکتے ہیں۔اوروہ جو ا س مذہب کو نہیں مانتے اگر اس کتاب کو خوب پڑھیں گے تو قائل ہوں گے کہ وہ سچا ہے اور اُس پر اعتراض کرنا بالکل بے فائدہ ہے ۔
آخرکار اگرچہ بعض اشخاص تمام مشابہت کو ٹھٹھوں میں اُڑادیں تاہم سب متحمل آدمی اور خاص کر وہ جو خود رائی کے مباحثہ سے خوش نہیں ہیں اقرار کریں گے کہ مذہب اور طریقہ مخلوقات میں کچھ مشابہت ہے اور جو دلیلیں مشابہت سے نکالی گئیں ضرور طاقت ور اور آرام کی ہیں
حصہ دوم تمام شد