Life of St. Paul

Dr. James Stalker

حیاتِ پولوس رسول

مصنفہ ڈاکٹر جیمس سٹاکر صاحب

Christian Literature Society for India,
Punjab Branch, Lahore
1884

پنجاب رلیجس بُک سوسائٹی
انار کلی۔ لاہور

James Stalker

(1848-1927)


پہلا باب

مُقدس پولوس کی زندگی کا حال

تاریخ میں ا س کی جگہ

۱۔ بعض شخص ایسے گزرے ہیں کہ جن کی زندگی کا مطالعہ کرنے سے یہ اثر دل پر ہوتا ہے۔ کہ وہ اپنے زمانے میں ایک خاص بڑی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے دُنیا میں بھیجے گئے تھے۔ مثلاً اگر کوئی دیندار زمانہ اصلاح کی تاریخ کو پڑھے گا تو فوراً وہ محسوس کرے گا کہ خدا کی قدرتِ کاملہ نے لوتھر۔ زدانگلی ۔ کالون اور فاکس جیسے اشخاص کو ایک ہی زمانہ یورپ کے مختلف حصوں میں برپا کیا تاکہ پوپیت کے جوئے کو توڑیں اور فضل کی انجیل کی ازسرنواشاعت کریں۔ ایسا ہی جب انگلستان کو برکت دینے کے بعد (Evangelical Revival)یعنی انجیلی سرگرمی سکاٹ لینڈ میں شروع ہو کر برائے نام اعتدال پسند (Modernism)فرقہ کی تعلیم کو تباہ کرنے پر تھی تو ٹامس چامر (Thomas Chalerers)جیسا وسیع خیال مرد برپا ہو ا جس نے اپنی ہمدرد ی اور تاثیر سے اس انجیلی تحریک کو اپنے ملک کی حدوں تک فروغ ہوا۔

۲۔ پولوس رسول کی زندگی کا حال پڑھنے سے یہ اثر سب سے بڑھ کر دل پر پڑتا ہے جس وقت مسیحی دین ابھی شروع ہوا ہی تھا۔ اُس وقت پولوس رسول برپا ہوا۔ ہم یہ تو نہیں کہتے۔ کہ مسیحی دین کمزور تھا ہرگز نہیں اور نہ یہ کہتے ہیں کہ کوئی فانی انسان ا س کے لئے لازمی تھا۔ کیونکہ اس میں الہٰی اور غیر فانی ہستی کا زور و طاقت موجود تھی اور وہ اپنے وقت پر ضرور ظاہر ہو جاتی۔ لیکن اگر ہم اس امر کو تسلیم کریں کہ خدا وسیلوں کو استعمال کرتا ہے۔ جو ہماری نظر میں بھی اغراض مطلوبہ کے لئے مناسب معلوم ہوتے ہیں۔ تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں۔ کہ مسیحی دین کی تحریک کے لئے جس وقت کہ پولوس ظاہر ہوا ایک ایسے لائق شخص کی ضرور ت تھی۔ تا کہ یہ تحریک اس کی لیاقت کو استعمال کر کے جہان کی تاریخ میں اس کو پیوند(جوڑ) کر دے چنانچہ اس تحریک کو پولوس میں ایسا مطلوبہ شخص مل گیا۔

۳۔ مسیحی دین نے پولوس میں مسیحی سیرت کا ایک لاثانی نمونہ پایا۔ البتہ بانی دین کے وجود میں انسانی سیرت کا کامل نمونہ موجود تھا۔ لیکن وہ تو دیگر آدمیوں کی طرح نہ تھا۔ کیونکہ شروع سے اس میں کوئی گناہ آلودہ نقص نہ تھا۔ جس کے ساتھ اُسے مقابلہ کرنا پڑتا اور مسیحی دین کو اب تک یہ ظاہر کرنے کی ضرورت تھی۔ کہ یہ ناقص انسانی ذات کو کیا کچھ بنا سکتی ہے پولوس کی زندگی سے یہ ضرورت پوری ہو گئی۔ فطرۃً اس کی طبیعت اور لیاقت نہایت اعلیٰ تھی۔ اگر وہ مسیحی نہ بھی ہوتا تو بھی ایک مشہور شخص ہوتا۔ دیگر رسولوں کا یہ حال نہ تھا۔ اگر مسیحی دین ا ن کو یہ سرفرازی نہ بخشتا تو گلیل میں اُن کو کوئی نہ جانتا اور وہ گمنام رہتے۔ لیکن ترسس کے ساوٌل کا نام خواہ مسیحی دین موجود بھی نہ ہوتا کسی نہ کسی صورت میں قابلِ یاد رہتا ۔مسیحی دین کو اس کے ذریعے یہ موقع ملا کہ جہان پر اس کے زور طبیعت کو ظاہر کرے۔ خود پولوس بھی اس سے آگاہ تھا۔ اگرچہ بڑی فروتنی سے اس نے اس کا ذکر کیا ہے۔ ’’مجھ پر رحم اس لئے ہو ا کہ یسوع مسیح مجھ بڑے گنہگار کی وجہ سے اپنا کمال صبر ظاہر کرے تا کہ جو لوگ ہمیشہ کی زندگی کے لئے اس پر ایمان لائیں گے۔ اُن کے لئے میں نمونہ بنوں ‘‘۔

۴۔ پولوس کے رجوع لانے سے مسیحی دین کی یہ قدرت ثابت ہوئی کہ وہ پر لے درجہ کے سخت تعصب پر غالب آسکتا اور زبردست شخص میں ایک یکایک اور مستقل انقلاب پیدا کر کے اپنا نقشہ اُس پر جما سکتا ہے۔ اس کی شخصیت ایسی زبردست اور انوکھی تھی۔ کہ کوئی اُس سے یہ توقع نہیں کر سکتا تھا۔ کہ وہ دوسرے کی شخصیت میں غرق ہو جائیں گی۔ لیکن جب سے مسیح کے ساتھ اس کا واسطہ پڑا وہ اس کے اثر سے ایسا مغلوب ہو گیا۔ کہ اس کے بعد اگر اس کی کوئی آرزو تھی۔ تو یہی تھی کہ وہ دُنیا میں اس کا عکس اور اس کی صدائے باز گشت(واپس ہونا،پلٹنا) ہو۔ مسیحی دین کی طاقت نہ صرف اس سے ظاہر ہوئی کہ اُس نے پولوس جیسے شخص کو فتح کر لیا بلکہ اس سے بھی کہ جب پولوس نے اپنے تئیں اُسے دے دیا تو اُس نے اُسے کیسا بنا دیا۔ مسیحی دین نے اس عجیب بھُوکی روح کو سیر کر دیا۔ اور اُس کی زندگی کے آخر تک اُس کا اشارہ تک پایا نہیں جاتا کہ اس سیری اور آسودگی کو کبھی زوال ہوا۔ فطرتاً اس کا وجود لیس اجزاء سے مرکب تھا۔ لیکن مسیح کی روح نے اُن کو ایسا کمال دیا کہ وہ بالکل لاثانی بن گیا نہ پولوس کو اس کا شک ہوا اور نہ کسی دوسرے کو کہ جو کچھ وہ بن گیا وہ مسیح کی تاثیر سے تھا۔ اس کی زندگی کا ٹھیک مقولہ یہ تھا جو اُس نے خود بیان کیا ہے۔ ’’ میں زندہ ہوں ۔ تو بھی میں نہیں بلکہ مسیح مجھ میں زندہ ہے ‘‘۔ لا کلام مسیح نے ایسے کامل طور سے اُس میں صورت پکڑی تھی۔ کہ اب ہم مسیح کی سیرت کا مطالعہ اُس کی سیرت کے ذریعے کر سکتے ہیں بلکہ مبتدی(شروع کرنے والا)۔ پولوس کی زندگی سے مسیح کی بابت جس قدر سیکھ سکتے ہیں۔ اُس قدر شائد خود مسیح کی زندگی سے نہیں سیکھ سکتے ۔ خود مسیح میں ساری خوبیاں ایسے طور سے آمیز ش رکھتی تھیں۔ کہ مبتدی ان کی عظمت کو دریافت نہیں کر سکتا۔ جیسے رفائیل کی مصوری کا کمال ناتجربہ کار آنکھ کے لئے مایوسی کا باعث ہے حالانکہ پولوس میں مسیح کی سیرت کی خو بیوں سے چند ایسی درخشاں (روشن )اور ہو ید ا (ظاہر،عیاں )ہیں کہ کوئی ان کی بابت غلطی نہیں کر سکتا ہے۔ روبن کی مصوری میں بڑے بڑے خال وخط(شکل و صورت )۔

۵۔ دُوم۔ پولوس دین کو ایک بڑا سوچنے والا ملا۔ اس وقت اس کی بڑی ضرورت تھی۔ مسیح اس جہان سے رخصت ہو گیا تھا۔ اور جس کو وہ پیچھے اپنا قائم مقام ہونے کے لئے چھوڑ گیا تھا۔ وہ نا خواندہ مچھرے تھے۔اور عموماً سب صاحب عقل نہ تھے۔ ایک طرح سے تو اس امر سے مسیحی دین کی خاص بزرگی ظاہر ہوتی ہے۔ کہ اس کی اعلیٰ تاثیر اس کے حامیوں کی لیاقت پر منحصر نہ تھی۔ ’’نہ زور سے نہ طاقت سے لیکن خدا کی روح سے مسیحی دین دُنیا میں قائم ہوا۔ اور اب جو ہم پیچھے نظر ڈالتے ہیں تو ہم صاف دیکھ سکتے ہیں کہ ایک مختلف قسم اور تربیت کے رسول کا برپا ہونا کیسا ضرور تھا۔

۶۔ مسیح نے کامل طور پر باپ کا جلال ظاہر کیا اور اپنے کفارہ کے کام کو پورا کیا۔ لیکن یہ کافی نہ تھا۔ بلکہ یہ بھی ضرور تھا۔ کہ اُس کے ظاہر ہونے کا مقصد بھی جہان پر آشکار ا کیا جائے یہ کون تھا جو یہاں آیا تھا؟ اور ٹھیک طور سے اُس نے کون سا کام انجام دیا ؟ پہلے بارہ رسول ان سوالوں کے عام مختصر جواب دے سکتے تھے۔ لیکن ان میں سے کوئی ایسا نہ تھا۔ جو اپنی تعلیم و تربیت کے ذریعے جہان کے عقل مندوں کی تشفی (تسلی )کر سکتا۔ شکر کی بات ہے کہ نجات کے لئے یہ ضرور نہیں کہ ایسے سوالوں کے جواب علمی منطقی دلائل سے دے سکیں۔ ہزاروں لاکھوں ایسے ہیں جو جانتے اور ایمان لاتے ہیں کہ یسوع خدا کا بیٹا تھا۔ اور ان کے گناہ دُور کرنے کے لئے موا اور اس کو وہ اپنا نجات دہندہ سمجھتے ہیں اور ایمان سے پاک بنتے ہیں لیکن اگر وہ ان باتوں کا مفصل (تفصیل دار بیان ) بیان کرنا چاہیں تو ہر جملہ میں غلطی کریں گے۔ لیکن مسیحی دین کو نہ صرف اخلاقی جہان کو بلکہ ذی عقل جہان کو بھی فتح کرنا تھا تو کلیسیا ء کے لئے ضرور تھا کہ صاف صاف خداوند کے پورے جلال اور اس کے نجات بخش کام کے معنی اُسے بتائے جائیں۔ خود یسوع کے دل میں اس امر کا پورا تصور تھا کہ میں کیا ہوں اور میں کیا کر رہا ہوں۔ اور یہ سب روز روشن کی طرح روشن تھا۔ لیکن جو کام اُس نے زمین پر کیا اُس میں یہ کچھ درد انگیز(درد سے بھرا ہوا) سا خیال ہے کہ جو کچھ اُس کے دل میں تھا وہ سب کچھ اپنے پیرؤں پر کھول نہ سکتا تھا۔ وہ اُن سار ی باتوں کی برداشت کے قابل نہ تھے۔ وہ کچھ اکھڑ جیسے اور تنگ خیال تھے۔ ان سب کو گرفت نہ کر سکتے تھے۔ اس لئے یسوع اپنے دل کے گہر ےخیالات بے بتائے اپنے ساتھ ہی لے گیا۔ اور اُسے پورا یقین تھا کہ روح القدس آن کر کلیسیاء کی ایسی رہنمائی کرے گا۔ کہ یہ ساری باتیں بتدریج(آہستہ آہستہ ) اُس پر کھل جائیں گی۔ اور جو کچھ یسوع نے شاگردوں سے بیان کیا تھا۔ اس کو بھی وہ پورے طور سے نہیں سمجھے تھے۔ یہ تو سچ ہے کہ پہلے شاگردوں کی طبیعت اس قابل تو تھی۔ کہ اعلیٰ درجہ تک ترقی کر سکے۔ مسیح کے الفاظ یوحنا کے دل میں ایسے نقش کا لججر ہو گئے۔ کہ تقریباًنصف صدی تک وہاں پڑے رہنے کے بعد وہ پھل لائے جس کا جلوہ اس کی انجیل اور خطوں میں آج تک جھلک مارتا تھا۔ لیکن یوحنا کی طبعیت بھی کلیسیا ء کی ضرورت کو رفع نہ کر سکتی تھی۔ وہ تو کچھ ایسی لطیف روحانی اور غیر معمولی تھی کہ آج تک اس کے خیالات چند چیدہ شخصوں ہی کی سمجھ میں آسکتے ہیں۔ کلیسیاء کے لئے تو ایک زیادہ وسیع خیال اور محور(فکر) کی ضرورت تھی۔ کہ وہ مسیحی تعلیم کا خاکہ کھینچ کر کلیسیا کو دکھائے۔ پولوس ایسا شخص مل گیا۔

۷۔ پولوس توما درزاد صاحب فکر شخص تھا۔ اس کی حدت(طبیعت کی تیزی ) اور وسعت طبع(مزاج ) قابل تعریف تھی۔ وہ بڑی چنچل اور مصروف رہنے والی تھی۔ جس شے سے اُس کو واسطہ پڑتا اُس کے ماقبل اسباب اور مابعد نتائج کا سراغ لگائے بغیر نہ چھوڑتی اتنا جاننا اس کے لئے کافی نہ تھا۔ کہ مسیح خدا کا بیٹا ہے اُس نے مسئلہ کے اجزائے مرکبہ کو معلوم کر کے دریافت کرنا تھا۔ کہ اس کا ٹھیک مطلب کیا ہے۔ اتنا ماننا اس کے لئے کافی نہ تھا۔ کہ مسیح گناہ کے لئے موا۔ بلکہ اُس نے اس کی تہ تک پہنچنے کی کوشش کی کہ کیوں اُسے مرنا ضرور تھا۔ اور کیونکر اُس کی موت گناہ کو دُور کر سکتی ہے۔ نہ صرف فطرت نے اس طبع رسا(کامل طبیعت )سے اُسے مزین کیا تھا۔ بلکہ تعلیم و تربیت نے بھی اُسے جلا بخشی تھی۔ دیگر رسول ناخواندہ تھے۔ لیکن پولوس اپنے زمانے کا عالم تھا۔ ربیوں کے سکول میں اُس نے یہ سیکھا تھا۔ کہ اپنے خیالات کو کس طرح تربیت دے کر بیان کرے اور ان کی حمایت کر ے۔ اس کے خطوں میں اس تعلیم کا اثر ظاہر ہے۔ کیونکہ ان خطوں میں مسیحی دین کی اعلیٰ تشریح جو ہو سکتی ہے۔ پائی جاتی ہے۔ اس کو ٹھیک سمجھنے کے لئے یہ مناسب ہو گا کہ ہم اس تعلیم کو مسیح کی تعلیم کا سلسلہ وار بیان سمجھیں۔ پولوس کی تعلیم میں وہ خیالات ظاہر ہوئے ہیں جو مسیح بے بتائے اپنے ساتھ لے گیا۔ البتہ اگر مسیح ان کا بیان کرتا تو شاید کچھ مختلف طور اور بہتر طریق سے کرتا۔پولوس کے خیالات میں ہر جگہ اس کی اپنی طبعی خاصیتیں ظاہر ہیں۔ لیکن ان کالب لباب(خلاصہ ) قطعی ہے جو مسیح کا ہوتا اگر وہ خود ان کا بیان کرتا۔

۸۔ ایک خاص بڑا مضمون تھا جسے مسیح نے بلا تشریح چھوڑا یعنی اُس کی اپنی موت جب تک وہ موت واقع نہ ہو لیتی وہ اُس کی تشریح نہ کر سکتا تھا۔ پولوس کی تعلیم کا خاص مضمون اسی امر کو ظاہر کرتا ہے۔ کہ اس کی کیا ضرورت تھی اور اس کے مبارک نتیجے کیسے تھے۔ بلکہ مسیح کے ظہور کا کوئی پہلو ایسا نہ تھا۔ جس میں اس کی چنچل طبع (مزاج )نے دخل نہ پایا ہو۔ اگر اُس کے تیرہ خطوط کو تاریخ وار ترتیب دیں تو ان سے یہ ظاہر ہو جاتا ہے۔ کہ وہ اس مضمون کی تہ تک پہنچتا جاتا ہے۔ اس کے فکر کی ترقی کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ اُس نے مسیح کے علم میں روز بروز زیادہ تجربہ حاصل کیا۔ کیونکہ وہ ہمیشہ اپنے ہی تجربہ سے لکھتا ہے۔ اور ایک وجہ یہ تھی۔ کہ اس کو اپنے زمانہ کی مختلف غلطیوں سے مقابلہ کرنا پڑا۔ اس کے ذریعے اُسے بڑی تحریک ہوئی کہ اس تعلیم کی تہ تک پہنچے۔ اور مسیحی کلیسیاء کا یہی تجربہ ہے کہ اکثر غلطیوں کا مقابلہ کرنے کے وقت مسیحی تعلیم کا زیادہ صاف بیان کیا گیا۔ لیکن اُس کی زندگی میں اور اس کے غورو فکر میں جو بڑی تحریک تھی وہ خود مسیح تھا۔ اور عمر بھر وہ اُسی پر غور کرتے کرتے مسیحی دین کا صاحب فکر شخص بن گیا۔

۹۔ سوئم۔ پولوس سے مسیحی دین کو یہ فائدہ بھی حاصل ہوا کہ وہ اس کے لئے غیر قوموں کا مشنری بن گیا ایسا تو شاذو نادر(کبھی کبھار )ہی اتفاق ہوتا ہے کہ ایک ہی شخص میں یہ دواعلیٰ صفات پائی جائیں یعنی اعلیٰ درجہ کی قوت متخیلہ(خیال کیا گیا ) اور اعلیٰ درجہ کی کارکن فیلسوف(عالم ) تھا بلکہ بہت بڑھا چڑھا کارندہ بھی تھا۔ جب پولوس مسیحی جماعت میں شریک ہوا تو اُس وقت ایک ایسے صاحب فکر کی ضرورت تھی اور نیز ایک بڑا اہم کام ااس کے لئے دھرا تھا۔ یعنی غیر اقوام میں مسیحی دین کی بشارت دینا۔

۱۰۔مسیح کے آنے کا ایک بڑا مقصد یہ تھا کہ جو جدائی کی دیوار یہودی اور غیر اقوام میں حائل تھی اُس کو گرادے اور نجات کی برکات بلا امتیاز قوم و زبان سب کی ملکیت بنا دے۔ لیکن خود مسیح اپنی خدمت کے دورہ میں اس کو سرانجام نہیں دے سکتاتھا۔ اُس کی زمینی خدمت پر یہ ایک عجب طرح کی قید لگی ہوئی تھی کہ وہ صرف اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کی طرف بھیجا گیا تھا۔ یہ تو قرین قیاس (وہ بات جسے عقل قبول کرے )ہے۔ کہ اُسے یہ کیسا دل پسند ہو گا کہ انجیل کو فلسطین کی حدود کے باہر بھی پھیلاتا اور ہر قوم پر اس کو ظاہر کرتا۔ اور اگر یہ کہنا گستاخی نہ ہو تو یہ کہہ سکتے ہیں۔ کہ اگر وہ کچھ اور دیر تک زندہ رہتا تو وہ البتہ یہی کام کرتا۔ لیکن وہ تو اپنی عمر کے وسط میں کاٹا گیا۔ اور اُسے یہ کام اپنے پیروؤں پر چھوڑنا پڑا۔

۱۱۔ البتہ پولوس کے رجوع لانے سےپیشتر یہ کام شروع ہو گیا تھا۔ یہودی تعصب کسی قدر توڑا گیا تھا۔ مسیحی دین کی عالمگیری کسی قدر اپنا رنگ دکھانے لگی تھی۔ اور پطرس نے بپتسمہ کے ذریعے پہلے چند غیر اقوام کو پہلی دفعہ کلیسیا میں شامل کیا تھا۔ لیکن بارہ رسولوں میں سے کوئی بھی اس بڑے معرکہ کے لئے تیار نہ تھا۔ اُن میں سے کوئی ایسا وسیع خیال نہ تھا۔ کہ یہودی اور غیرقوم کی کامل مساوات کا ادراک کرے اور نہ ان میں سے کسی میں وہ ضروری قابلیت تھی کہ ایک بڑے درجہ تک غیر اقوام کو مسیح کی طرف پھیرنے کی جرات کرے۔ وہ تو گلیلی مچھرے تھے۔ اور اپنے وطن فلسطین اسی کی حدود کے اندر اندر سکھانے اور بشارت دینے کے قابل تھے۔ اس کا م کے لئے تو ایسے شخص کی ضرورت تھی۔ جو ہر حالت اور ہر درجے کے لئے اپنے تئیں موزوں بنا سکے۔ جو صاحب علم اور پر لے درجے کا ہمدرد ہو اور انجیل کے پیغام کو ہر جگہ لے جا سکے۔ ایک ایسا شخص جو نہ صرف یہودیوں میں یہود ہو سکے۔ بلکہ یونانیوں میں یونانی۔ رومیوں میں رُومی۔ بربریوں میں بربری۔ ایک ایسا شخص ۔ جو نہ صرف عبادت خانوں میں ربیوں کا منہ بند کر سکے۔ بلکہ عدالتوں میں حکام کا اور دارا لعلوم میں فیلسوفوں کا مقابلہ کر سکے۔ ایک ایسا شخص جو خشکی و تری کے سفر کے لائق ہو۔ اور جو ہر حالت میں ہوش و حواس سے کام لے اور کسی طرح سے خطرات سے ہر اساں (پریشان )نہ ہو۔ بارہ رسولوں میں کوئی بھی اس پایہ کا نہ تھا۔ حالانکہ مسیحی دین کو ایک ایسے ہی شخص کی ضرورت تھی۔ اور ایسا شخص پولوس میں مل گیا۔

۱۲۔ اگرچہ طبعاً(طبیعت یا مزاج ) دیگر رسولوں کی نسبت پولوس یہودی تعصب میں اور دوسروں سے علیحدگی رکھنے میں زیادہ تھا لیکن اُسے ان تعصبات کے جنگل میں اپنی راہ نکالنی پڑی اور اس نے مان لیا کہ مسیح میں سب آدمی مساوی ہیں اور اس اصول کو اُس نے اپنی زندگی کے آخر تک وفاداری سے برتا۔ اس نے غیر قوموں میں مسیحی دین کی اشاعت کا بیٹر ا اُٹھایا ۔ اور اُس کی زندگی کی تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ کیسی راستی سے اس بلاہٹ پر عمل پر کیا۔ بمہ دل و ہمہ جان وہ اس کام میں مصروف ہوا کہ مشکل سے ایسی نظیر ملے گی۔ جس قدر مشکلات کا سامنا کرکے اس لئے فتح پائی۔ اور جن مصیبتوں کو وہ خوشی سے جھیلتا رہا شاید ہی کسی کو نصیب ہوا ہو۔ اس میں یسوع مسیح خود جہان کو بشارت دینے نکلا۔ اور اُس نے پولوس کے ہاتھ پاؤں۔ زبان۔ دماغ اور دل کو استعمال کیا اور وہ کام سر انجام دیا جسے وہ اپنے زمینی دورہ میں پورا نہ کر سکا تھا۔

دُوسرا باب

اُس کا نادانستہ اپنے کام کے لئے تیار ہونا

۱۳۔ جو شخص بالغ ہو کر خدا کی طرف رجوع لاتے ہیں۔ تو اکثر جب وہ اپنی گذشتہ زندگی پر جو اُن کے رجوع لانے سے پیشتر گزری نظر کرتے ہیں۔ تو افسوس و رنج دا منگیر(مدد چاہنے والا ) ہوتا ہے اور یہ آرزو ہوتی ہے۔ کہ کاش ان کی یاد صفحہ ہستی سے مٹ جاتی تو کیا اچھا ہوتا۔ پولوس نے اس امر کو بھی بشدت محسوس کیا۔ عمر کے آخر تک اس کو ضائع شدہ ایام کا افسوس رہا اور وہ کہا کرتا تھا۔ کہ میں رسولوں میں سے سب سے چھوٹا ہو ں بلکہ رسول کہلانے کا مستحق نہیں کیونکہ میں نے خدا کی کلیسیاء کو ستایا۔ البتہ ہم یہ تو کہنے کو تیار نہیں کہ اس کے وہ سارے برس ضائع ہو گئے۔ خدا کے مقاصد بڑے گہرے ہیں اور جو خدا کو جانتے بھی نہیں ۔ شاید وہ اُن میں بھی ایسے بیج بو رہا ہے۔ جو اُگ کر ایسے وقت پھلدار ہو ں گے۔ جب کہ ان کی بے دینی کے زمانہ کو گزرے عرصہ ہو گیا ہو۔ اگر پولوس اپنے رجوع لانے سے پیشتر ایسی تیاری حاصل نہ کرتا جو اس کے مابعد زمانہ کے مناسب تھی تو وہ ہر گز وہ شخص نہ ہو سکتا جو پیچھے ہوا اور نہ وہ کام کر سکتا جو اُس نے پیچھے کیا وہ جانتا نہ تھا کہ میں کس کام کے لئے تیار ہو رہا ہوں۔ جو کچھ وہ آئندہ بننے کا ارادہ رکھتا تھا۔ وہ خدا کے ارادہ سے متفرق تھا۔لیکن خدا ہمارے مقاصد کو اپنے ڈھنگ پر لے آتا ہے اور اس طرح وہ پولوس کو اپنے تیر کے لئے ایک مصیقل(روشن کیا گیا ) پیکاں بنا رہا تھا۔ اگر چہ پولوس کو اس کی خبر تک نہ تھی۔

۱۴۔ پولوس کی پیدائش کی تاریخ تو ٹھیک طور پر معلوم نہیں لیکن تخمیناً کچھ اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اور ہمارے مقصد کے لئے اتنا کافی ہے۔ جب ۳۳ءمیں ستفنس کے پتھراؤ کرنے والوں نے اپنے کپڑے پولوس کے پاؤں کے پاس رکھے اس وقت پولوس جوان تھا۔ البتہ یہ لفظ جو ان یونانی اور اُردو دونوں زبانوں میں بہت کشادہ ہے۔ ۲۰ سال کی عمر سے لے کر تیس سال سے کچھ اُوپر آدمی جوان کہلاتا ہے اور اُس وقت غالباً پولوس تیس سال کے قریب عمر کا ہو گا۔ کیونکہ اس وقت کے قریب یا اس سے تھوڑی دیر بعد وہ یہودی صدر مجلس کا ممبر ہو گیا اور یہ حق تیس سال سے کم عمر کے شخص کو نہ مل سکتا تھا اور جو اختیار اسے صدرِمجلس کی طرف سے مسیحیوں کے ستانے کا ملا وہ ایک بہت نو عمر شخص کو ملنا مشکل تھا ستفنس کے قتل کے افسوس ناک واقعہ کے تقریباً تیس سال ۶۲ ء میں وہ روم کے قید خانہ میں پڑا تھا۔ اور اس کام کے لئے موت کے فتویٰ کا منتظر تھا۔ جس کے لئے ستفنس نے جان دی تھی۔ اپنے آخری خطوں میں سے ایک میں یعنی فلیمون کی طرف کے خط میں وہ اپنے تئیں ’’ بوڑھا پولوس ‘‘ کہتا ہے۔ یہ لفظ بوڑھا بھی بہت وسیع ہے اور جو شخص اس قدر دُکھوں اور مصیبتوں میں پڑا ہو وہ تو قبل از وقت بوڑھا ہو جائے گا۔ تو بھی وہ اپنے لئے یہ لقب ’’ بوڑھا پولوس ‘‘ساٹھ سال کی عمر سے پیشتر شاید ہی اختیار کرتا۔ اس اندازہ سے اتنا نتیجہ ہم نکال سکتے ہیں۔ کہ وہ تقریباً اُسی وقت پیدا ہوا جب کہ یسوع پیدا ہوا تھا جب یسوع لڑکا ناصرت کی گلیوں میں کھیل رہا تھا۔ اُس وقت پولوس لڑکا لبنان کے سلسلہ کی پرلی طرف دور اپنے وطن میں کھیلتا تھا۔ شروع میں تو ان دونوں کے کام بالکل مختلف اطراف میں معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن خدا کی قدرت نے ایسا انتظام کیا کہ یہ دو جانیں دو دریاؤں کی طرح جو مختلف اطراف سے نکلتے ہیں ایک دن مل کر ایک دریا بن جائیں۔

۱۵۔پولوس تر سس میں پیدا ہوا۔ یہ صوبہ کلکیہ کا صدر مقام ایشیائے کو چک کے جنوب مشرق میں واقع تھا۔ اور ساحل سمندر سے صرف چند ہی میل کے فاصلے پر تھا۔ اس کے چاروں طرف زرخیز میدان تھا۔ اور دریائے کندس کے دونوں کناروں پر آباد تھا۔ یہ دریا کوہ طارس سے نکلتا تھا۔ ایام گرمی میں شام کے وقت یہاں کئی باشندے اپنے گھر کی چھتوں پر چڑھ جاتے اور اس پہاڑ کی برفانی چوٹیوں پر غروب آفتاب کا خوبصورت نظارا اُڑاتے۔ اس شہر کے اُوپر کی طرف یہ دریا چٹانوں پر آبشار کی صورت میں گرتا لیکن کچھ راستہ طے کرنے کے بعد اس کی رفتار دھیمی ہو جاتی اور کشتی وغیرہ چلانے کے قابل ہو جاتا تھا۔ اور شہر میں دریا کے کناروں پر تختہ بندی ہوتی تھی۔اور بہت ملکوں کا تجارتی مال و اسباب ڈھیروں کے ڈھیر وہاں دھرا رہتا تھا اور مختلف ملکوں کے تاجر اور ملاح انواع و اقسام کے لباس پہنے اس شہر کی گلیوں میں چلتے پھرتے نظر آتے۔ اس شہر میں لکڑی کی بڑی تجارت ہوتی تھی۔ کیونکہ اس علاقہ میں لکڑی بکثرت تھی اور قرب و جوار کی پہاڑیوں میں ہزاروں بکریاں لوگ پالتے اور ان کی اُون سے موٹا کپڑا بناتے اور دیگر بہت ساری چیزوں کی ساخت وہاں ہوتی اور خیمہ دوزی کا کام بھی بکثرت وہاں ہوتا تھا۔ اور بحیرہ ظلمات کے ساحل پر اس کی بڑی تجارت تھی اور پولوس نے غالباً اسی لئے یہ پیشہ سیکھا تھا۔ ترسس سے خشکی کی راہ سے بھی تجارت ہوا کرتی تھی۔ کیونکہ اس شہر کے عقب (پیچھے )ترسس سے خشکی کی راہ سے بھی تجارت ہوا کرتی تھی۔ کیونکہ اس شہر کے عقب میں ایک مشہوردرہ تھا جسے باب الکلکیہ کہتے ہیں۔ اس راہ سے ایشیائے کوچک کے وسطی ممالک کی آمد درفت ہوتی اور ترسس بڑی منڈی تھی جہاں ان ملکوں کی پیداوار لا کر جمع کرتے اور وہاں سے مشرق و مغرب کی طرف روانہ کرتے۔ شہر کی آبادی بھی بہت گھنی تھی۔ اور باشندے دولت مند تھے۔ عموماً تو الیان کلکیہ تھے۔ لیکن سب سے دولت مند سوداگر یونانی تھے۔ یہ صوبہ رومی حکومت کے ماتحت تھا اور رومیوں کی طرف سے اس صوبہ کو سیلف گورنمنٹ کا حق حاصل تھا تو بھی صوبہ کا صدر مقام ہونے کی وجہ سے رومی سرکار کے نشان رکھتا تھا۔ یہ شہر ترسس نہ صرف تجارت کا ایک بڑا مرکز تھا۔ بلکہ علوم و فنون کا بھی۔ اس وجہ سے مختلف قسم کے لوگ بکثرت یہاں آتے تھے۔ اُس زمانہ میں جو تین بڑے دارا العلوم تھے۔ اُن میں سےایک ترسس تھا۔ باقی دوا یقینی اور اسکندرا تھے۔ لیکن ترسس ان پر سبقت لے گیا تھا۔ اور مختلف اقوام و ممالک کے طلبا بکثرت اس کی گلیوں میں پائے جاتے تھے۔ اور اس نوجوانوں کے دلوں میں علم کی قدر اور مقصد کا خیال ضرور پیدا ہو ا ہو گا۔

۱۶۔غیر قوموں کے رسول کے لئے ایسی جگہ میں پیدا ہونا کیسا مناسب تھا جوں جوں پولوس بڑھتا گیا وہ نادانستہ تیار ہوتا گیا کہ ہر درجہ اور ہر قوم کے اشخاص کا مقابلہ کر سکے اور ہر طرح کے لوگوں کے ساتھ ہمدردی رکھنے کے قابل ہو اور مختلف قسم کے عادات و دستورات پر بلا تعصب نظر ڈالے۔ اس کے بعد وہ ہمیشہ شہروں کو پیار کرنے والا معلوم ہوتا ہے۔ حالانکہ اُس کا خداوند یروشلیم سے دور رہتا۔ پہاڑوں پر یا جھیل کے کناروں پر تعلیم دینا پسند کرتا تھا۔ لیکن پولوس یکے بعد دیگرے شہر بہ شہر جاتا تھا۔ انطاکیہ ۔ افسس۔ اتھینی۔ کرنتھس۔ روم جو قدیم دُنیا کے صدر مقام تھے وہاں پولوس نے بہت کام کیا۔ یسوع مسیح کےالفاظ سے دیہات کے پھولوں کی خوشبوآتی ہے۔ اور دیہات کی خوبصورتی اور وہاں کی خانگی زندگی کی تصویروں سے پُر ہیں۔ مثلاً کھیت کی سوسن۔ چوپان کے پیچھے بھیڑوں کا چلنا۔ کسان کا بیج بونا۔ مچھرؤں کا اپنے جال کھینچنا وغیرہ۔ لیکن پولوس کی تقریریں شہر کی کیفیت ظاہر کرتی ہیں اور گلیوں کا شوروغل اور ہل چل ان میں نظر آتی ہے۔ انسانی کاروبار اور مہذب زندگی کی یاد گاروں سے اس نے اپنی مثالیں لی ہیں۔ مثلاً سر سے پاؤں تک مسلح سپاہی۔ پہلوان۔ دنگل میں۔ گھروں اور مندروں کا بنانا فتح مند جرنیل کا دھوم دھام کے ساتھ نکلنا۔ جو کچھ لڑکپن میں اس نے دیکھا تھا۔ جوانی میں اُس کی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہوا۔

۱۷۔ پولوس کو اپنی جائے پیدائش پر فخر تھا۔ چنانچہ ایک دفعہ اُس نے فخر یہ یہ کہا تھا۔ کہ میں کسی حقیر شہر کا باشندہ نہیں۔ وہ طبعاً (مزاج )حب الوطنی کے جوش سے بھرا تھا۔ لیکن کلکیہ اور ترسس کے لئے یہ آگ اُس کے اندر شعلہ زن نہ تھی وہ تو اپنے وطن ہی میں اجنبی تھا۔ اس کا باپ اُن یہودیوں میں سے تھا جو بکثرت غیر قوموں کے ملک میں منتشر(بکھرجاناس) ہو کر تجارت میں مصروف تھے وہ مقدس زمین سے تو علیحدہ تھے لیکن اُسے بھولے نہیں۔ جن لوگوں میں وہ بستے تھے۔ اُن میں خلط ملط(گڑبڑ) نہیں ہو ئے بلکہ پوشاک خوراک مذہب اور دیگر باتوں میں وہ ایک خاص قوم رہے۔ البتہ اتنا تو فرق تھا کہ فلسطین کے یہودیوں کی نسبت دینی باتوں میں کچھ متعصب (تعصب کرنے والا) تھے۔ اور اجنبی دستوروں کے زیادہ متحمل (تحمل کرنے والا )تھے۔ لیکن پولوس کا باپ اپنے مذہب میں بڑا پکا تھا وہ اپنے مذہب کے سب سے زیادہ پابند شرع فرقہ سے متعلق تھا۔ اور شاید پولوس کی پیدائش سے بہت مدت پیشتر وہ یروشلیم سے نہ نکلا تھا۔ کیونکہ پولوس اپنے تئیں عبرانیوں کا عبرانی کہتا ہے۔ اور یہ نام صرف فلسطین کے یہودیوں ہی سے متعلق تھا۔ پولوس کی والدہ کا مطلق (بالکل )کچھ ذکر نہیں ملتا۔ لیکن ہم اتنا جانتے ہیں کہ ضرور ایسا گھر جہاں سے عموماً سارے بڑے بڑے دینی معلم نکلے ہیں۔ یعنی دین داری اور نیک خصالی (عادت )کا گھر جہاں اصول کی سخت پابند ی ہوتی تھی۔ اور جہاں دیندار لوگوں کے خواص کی بڑی فکر کی جاتی تھی۔ یہی طبیعت پولوس میں پائی جاتی ہے۔ اگر چہ جس شہر میں وہ پیدا ہوا تھا اس کے دل پر نقش تھی۔ لیکن اس کے دل میں فلسطین اور یروشلیم کی تصویر کھنچی تھی۔ یونانی بہادروں اور مشہور شخصوں کا وہ شیدا نہ (عاشق)تھا بلکہ ابراہیم۔یوسف موسیٰ۔ داؤد اور عزرا کا۔ اور جب وہ گزشتہ زمانہ پر نظر ڈالتا تھا تو کلکیہ کی تاریخ اس کو مد نظر نہ تھی۔ بلکہ وہ یہودی تاریخ پر نظر ڈالتا جو کسدیوں کے اُور سے شروع ہوتی ہے۔ اور جب وہ آئندہ کا خیال کرتا تو مسیح کی سلطنت کا سماں اس کی آنکھوں کے سامنے گذر جاتا جہاں مسیح یروشلیم میں تخت نشین ہے اور موسیٰ کے عصا سے اُن پر حکومت کرتا ہے۔

۱۸۔جب وہ سوچتا تھا کہ میں کس روحانی گروہ سے متعلق ہوں اور جن لوگوں میں وہ رہتا تھا اُن سے وہ گروہ کیسا اعلیٰ تھا تو گردونواح کے لوگوں کی مذہبی حالت دیکھ کر اس پر بڑا اثر ہوا ہو گا۔ ترسس میں ایک قسم کی بعل کی پرستش ہوتی تھی وہ دلکش تو تھی لیکن پست کرنے والی۔ اور سال کے بعض موسموں پر میلہ ہوتا تھا۔ اور اُس میلہ میں چاروں طرف کے لوگ آتے اور طرح طرح کی خرابیاں وقوع میں آتیں جن کا بیان ہمارے احاطہ خیال سے باہر ہے۔ اس میں تو کچھ شک نہیں کہ لڑکپن میں پولوس ایسی بدی کی حقیقت کو تو معلوم نہ کر سکتا تھا لیکن جو کچھ اُس نے دیکھا ہو گا اس کے ذریعے وہ بت پرستی سے تو نفرت کرنے لگ گیا ہو گا۔ جیسا کہ عموماً اس کے۔۔۔۔۔کرتے تھے۔ اور وہ چھوٹا سا عبادت خانہ جہاں وہ اسرائیل کے قدوس کی عبادت کرنے جایا کرتا تھا۔ اس کی نظر میں عالیشان مندروں کی زرق برق(آرائش و زیبائش) سے زیادہ عزیز ہو گا۔ اور جو تعلیم اُس نے مسیحی ہو کر دی وہ ان نظاروں سے اس کے اندر بہت گہری جڑ پکڑ گئی ہو گی۔

۱۹۔ آخر کار وہ وقت آگیا جب یہ فیصلہ کرنا چاہیے تھا کہ اس لڑکے کو کونسا پیشہ سکھا نا چاہیے اور یہ فیصلہ ذرا مشکل تھا۔ اور شاید سب سے زیادہ مناسب پیشہ اس کے لئے تجارت کا ہوتا۔ کیونکہ اس کا باپ بھی تاجر تھا اور اس بارونق شہر میں تجارت کا بڑا موقع تھا اور لڑکا چالاک اور ہو شیار تھا جس سے ایسے کام میں ہر طرح کی کامیابی کی اُمید تھی۔ اور اس کا باپ ایک اور صفت رکھتا تھا۔ جس سے تجارت کو بڑی مدد مل سکتی تھی۔ یعنی اگر چہ وہ یہودی تھا لیکن رومی حقوق اُسے حاصل تھے۔ اور اُس حق سے اس کے بیٹے کو خواہ وہ سلطنت کے کسی حصہ میں سفر کرتا بڑی حفاظت اور پناہ مل سکتی تھی۔ ہم یہ تو بتا نہیں سکتے کہ اس کے باپ کو یہ حق کیسے ملا۔ ایسا حق روپیہ دے کر مل سکتا تھا۔ یا سرکار کی بڑی خدمت کرنے سے یا کسی دیگر طریقہ سے بہر حال اس کا بیٹا پیدائش سے آزاد تھا۔ یہ بڑا قیمتی حق تھا۔ اور پیچھے پولوس کو یہ بہت مفید ثابت ہوا۔ اگر چہ شاید اُسی طرح سے پولوس نے اس سے فائد نہیں اُٹھا یا جس طرح سے کہ اس کا باپ چاہتا تھا لیکن فیصلہ یہ ہوا۔ کہ وہ تاجر تو نہ بنے۔ اس فیصلہ کی شاید یہ وجہ ہو کہ اس کا باپ یا ماں اُس کو مذہبی تربیت دینا چاہتے تھے۔ یا شاید پولوس کا طبعی میلان(رجحان،توجہ ) اس قسم کا تھا۔ اس لئے یہ فیصلہ ہوا کہ وہ کالج میں جائے اور ربی بن جائے یعنی خادم۔ اُستاد اور معلم شرع پولوس کی طبیعت اور قابلیت کے لحاظ سے یہ دانائی کا فیصلہ تھا اور نوع انسان کے آئندہ زمانہ کے لئے یہ نہایت ہی اہم ثابت ہوا۔

۲۰۔اگر چہ اس دُنیاوی پیشہ میں مصروف ہونے سے وہ اتفاقاًبچ گیا۔ تو بھی اس دینی خدمت کی تیاری سے پیشتر اُسے کاروباری زندگی کا کچھ تجربہ حاصل کرنا ضرور تھا۔ کیونکہ یہودیوں میں یہ قاعدہ تھا کہ ہر لڑکا خواہ وہ پیچھے کوئی پیشہ اختیار کرے اُسے کسی نہ کسی حرفت کو سیکھنا ضرور ی تھا تا کہ ضرور ت کے وقت اس کے کام آئے۔ یہ قانون دانائی پر مبنی تھا۔ کیونکہ اس سے نوجوان کوکچھ مشغلہ مل جاتا تھا۔ اور آوارگی طبیعت کا خطرہ نہ رہتا۔ اور اس سے ایک یہ فائدہ بھی ہوتا کہ صاحبان دولت و علم کو ایسے لوگوں کی حالت کا تجربہ ہو جاتا تھا۔ جنہیں اپنی روٹی محنت اور پیشانی کے پسینہ سے کمانی پڑتی ہے۔ الغرض جو پیشہ پولوس نے سیکھا وہ ترسس میں بہت عام تھا۔ یعنی بکریوں کے بالوں کےے کپڑے سے خیمہ بنانا۔ کیونکہ یہ کپڑا اُس علاقہ میں بہت بنتا تھا۔ جب یہ ناگوار کھردرا کپڑا پولوس کے ہاتھوں میں گزرنے لگا۔ تو اُسے یا اُس کے باپ کو کیا خبر تھی۔ کہ مابعد زندگی میں یہ پیشہ اُس کے لئے کیسا مفید ثابت ہو گا۔ جب پولوس مشنری ہو کر دور دراز کے سفروں پر گیا تو اسی پیشہ سے اُس نے اپنا اور اپنے ساتھیوں کا گزارہ کیا اور جس وقت مبشران انجیل کے لئے یہ ظاہر کرنا ضرور تھا۔ کہ وہ یہ بشارت کسی ذاتی نفع کے لئے نہیں دیتے اس وقت پولوس اپنی بے غرضی پورے طور سے ثابت کر سکتا تھا۔

۲۱۔یہاں یہ سوال پیش آتا ہے کہ ربی کی تربیت پائے اور وطن چھوڑنے سے پیشتر کیا پولوس نے ترسس کے داراالعلوم میں بھی تعلیم پائی یا نہیں کیا اُس نے حکمت کے اُس چشمہ سے جو کوہ ہلیکن (HELICON)سے جاری ہے۔ پانی پیا تھا پیشتر اس سے کہ اُس نے کوہ زیتون سے بہتے چشمہ سے اپنی پیاس بجھائی ؟ یونانی شاعروں سے دو تین اقتباسات اُس نے کئے ہیں۔ اور ان سے اکثروں نے یہ نتیجہ نکالا ہے۔ کہ وہ یونان کے کل علم ادب سے واقف تھا۔ لیکن بعضوں کا خیال ہے کہ یہ اقتباسات معمولی ہیں اور جسے عام یونانی بولنے والے اشخاص استعمال کر سکتے تھے۔ اور جو الفاظ و طرزِ کلام اُس کی تحریروں اور تقروں میں پائے جاتے ہیں۔ وہ یونانی علم ادب کے نمونہ پر جو عبرانی بائبل کا یونانی زبان میں ہوا ہے۔ اور جو یہودی دیگر ممالک میں منتشر(بکھرے ) تھے۔ وہ عموماً اس ترجمہ کو استعمال کرتے تھے۔ شاید اُس کے باپ نے اٍپنے بیٹے کو ایک غیر قوم دارا العلوم میں بھیجنا مناسب نہ سمجھا ہو۔ تو بھی یہ قرین قیاس(وہ بات جس کو عقل قبول نہ کرے) نہیں کہ وہ ایسے علم و ہنر کے شہر میں رہے اور اُس پر اس کی کچھ تاثیر نہ ہو۔ جو تقریر اُس نے آتھینی شہر میں کی اُس سے ظاہر ہے کہ وہ اپنی عام تحریر سے زیادہ اعلیٰ فصاحت(خوش کلامی ) سے کلام کر سکتا تھا اور وہ یونانی زبان کی شستگی (درستی) اور خوبی سے بالکل ناواقف نہ تھا۔

۲۲۔ ترسس جیسے مرکز علم وہنر نے اُس پر اور بھی کئی طرح کی تاثیر یں کی ہوں گی۔ یہ داراالعلوم علم بحث و مناظرہ میں بھی شہرت رکھتا تھا اور شاید ان کی آوازیں پولوس کے کانوں تک پہنچیں اور کھوکھلے فیلسوفوں اور محض لفاظی کے مباحثوں سے اس کے دل میں نفرت ہو گئی جیسا کہ اس کی تصنیفات سے ظاہر ہے۔ اور اُس نے لڑکپن ہی سے یہ تو محسوس کر لیا ہو گا۔ کہ اگر چہ زبان سے لوگ بڑی فصاحت و بلا غت(خوش بیانی ) ظاہر کریں تو بھی ان کی زندگی اور چال کی فضیلت کا یہ ثبوت نہیں بلکہ اس کے برعکس۔

۲۳۔ یہودی ربیوں کی تعلیم کا کالج یروشلم میں تھا اور پولوس تیرہ سال کی عمر میں وہاں بھیجا گیا اور شاید اسی وقت کے قریب جب بارہ سال کی عمر میں ناصرت سے یروشلم کو گیا۔ اور شاید اسی قسم کا اثر اس پر ہوا جو اس وقت یسوع پر ہو ا تھا۔ جب اس نے پہلی دفعہ یروشلم اور ہیکل کو دیکھا۔ ہر یہودی لڑکے لڑکی کے لئے جو دینداری کی طرف مائل تھے۔ یروشلم سب چیزوں کا مرکز تھا اور اس کی گلیوں میں نبیوں اور بادشاہوں کے نقش قدم کی صدائیں اب تک گونج رہی تھیں۔ مقدس اور اعلیٰ یادگاریں گو یا اس کی دیواروں اور عمارتوں پر نقش تھیں۔ اور بڑی اُمیدیں اُس جگہ سے پیدا ہو رہی تھیں۔

۲۴۔ ایسا اتفاق ہوا کہ اس وقت یروشلم کے کالج کا پرنسپل ایک نہایت مشہور معلم تھا کہ ایسا یہودیوں میں کوئی نہیں گزرا یہ گمٹیل نامی شخص تھا جس کے پاؤں پاس پولوس نے تعلیم پائی تھی۔ اور اُسے اُس کے ہم عصر شریعت کا حسن کہتے تھے اور آج تک یہودیوں میں وہ ربی اکبر کہلاتا ہے اس کی سیرت بہت اعلیٰ تھی اور روشن ضمیر شخص تھا۔ ایک فریسی بزرگوں کی روایات کا بڑا ماننے والا۔ لیکن یونانی تعلیم و تادیب کا مخالف یا اس کی طرف سے متعصب(تعصب کرنے والا ) نہ تھا۔ ایسے شخص کی تاثیر پولوس جیسے نوجوان کے دل پر کیسی پڑی ہو گی۔ اگر چہ کچھ عرصہ تک یہ شاگرد بڑا متعصب(تعصب کرنے والا ) زیلوتی بن گیا ۔ لیکن مابعد زندگی میں اُس نے اپنے تعصب پر غلبہ پانے میں اپنے اس بڑے اُستاد کے نمونے سے بہت مد د حاصل کی ہو گی۔

۲۵۔ ربی کی تعلیم کا عرصہ دارز ہوتا تھا۔ اسے نہ صرف شریعت کا مطالعہ کرنا پڑتا تھا۔ بلکہ بزرگوں اور معلموں کی شرحیں بھی جو شریعت پر لکھی گئی تھیں۔ زبانی سیکھنی پڑتی تھیں۔ اور بعض زیر بحث امور پر برابر تکرار ہوتی رہتی اور طالب علموں کو بھی سوالات پوچھنے کی اجازت ہوتی اور اُستاد بھی سوال پوچھا کرتے تھے۔ اس لئے طلبا کے ذہن تیز اور ان کے خیالات وسیع ہو جاتے تھے۔ پولوس کی دماغی قوت جو اُس کی مابعد زندگی سے آشکارا ہے یعنی اُس کا قابل تعریف حافظہ۔ اُس کی دقیقہ (راز کی بات ) رس منطق۔ اس کے خیالات کی وسعت۔ اور ہر ایک مضمون کو اپنے نرالے ڈھنگ سے بیان کرنا۔ یہ ساری باتیں پہلے پہل اسی سکول میں ظاہر ہوئی ہو ں گی۔ اور اُس کے استاد کو یہ باتیں ملاحظہ کر کے اپنے شاگرد سےکیسا اُنس پیدا ہو گیا ہوگا۔

۲۶۔ جو کچھ پولوس کی مابعد زندگی کے لئے ضرور تھا اُس میں سے بہت کچھ اُس نے یہاں سیکھا۔ اگرچہ پیچھے اس کا خاص کام یہ ہو گیا۔ کہ غیر قوموں کا مشنری ہو لیکن وہ اپنی قوم کے لئے بھی بڑا مشنری ہوا ہے۔ جس شہر میں جاتا پہلے یہودیوں کی تلاش کرتا اور اگر یہودی وہاں ہوتے تو وہ سب سے پہلے ان کے عبادت خانہ میں جاتا تھا۔ ربی ہونے کے لئے جو تربیت اُس نے حاصل کی تھی۔ اُس کے ذریعے اُسے بولنے کا موقع ملتا۔ اور یہودی خیال و علم کے مطابق اُن سے کلام کر کے اُن کی توجہ اپنی طرف پھیر سکتا تھا۔ اور مقدس نوشتوں سے ایسے ثبوت پیش کر سکتا تھا۔ جو یہودیوں کے نزدیک تسلیم و قبولیت کے لائق تھے۔ علاوہ ازیں اُسے تو مسیحی دین کا عالم الہیات اور نئے عہد نامہ کا بڑا مصنف ہونا تھا۔ اور ہم سب جانتے ہیں۔ کہ نیا عہد نامہ پُرانے سے نکلا ہے۔ پُرانا تو بطور نبوت کے لئے اور نیا اس کی تکمیل ہے۔ ایسے کام کے لئے نہ صرف مسیحی دین سے واقفیت درکار تھی۔ بلکہ پُرانے عہد نامہ سے بھی۔ اور عمر کے جس حصہ میں یا دداشت بہت تازہ اور تیز ہوتی ہے۔ پولوس نے عہد عتیق کا علم حاصل کر لیا تھا۔ اس کے الفاظ و محاورات اس کی زبان پر تھے۔ لفظ بلفظ وہ اقتباسات کر سکتا تھا۔ اور عہد عتیق کے ہر حصہ سے وہ بلا دقت حوالہ دے سکتا تھا۔ یعنی شریعت انبیاء اور زبور سے۔ الغرض یوں یہ جنگی بہادر روح کے اوزاروں اور اسلحوں سے مسلح ہو گیا۔پیشتر اس سے کہ اُس کو یہ علم بھی ہو کہ میں اُن کو کس کام کے لئے استعمال کروں گا۔

۲۷۔ اب ذرا ہم یہ دیکھیں کہ اُس وقت اُس کی اخلاقی اور دینی حالت کیسی تھی؟ وہ دینی معلم ہونے کے لئے تعلیم پا رہا تھا۔ کیا وہ خود بھی دیندار تھا؟ کیونکہ جن کو والدین کالجوں میں دینی تعلیم اور دینی عہد ہ کی تیاری کے لئے بھیجتے ہیں وہ سارے کے سارے دیندار ہی تو نہیں ہوتے۔ اور دُنیا میں ہر جگہ نوجوانوں کے راستے میں بے شمار آزمائشیں ہوتی ہیں۔ جو اُن کی ساری زندگی کو آناً فاناً (فوراً) تباہ کر سکتی ہیں۔ کلیسیاء کے بڑے بڑے معلم آگستین جیسے جب اپنی اوائل زندگی پر نظر ڈالتے تو ہر طرح کی بدی اور خرابی سے اُسے داغدار پاتے ہیں۔ لیکن پولوس کی اوائل زندگی پر اس قسم کا کوئی دھبا نہ تھا۔ اس کے دل میں جذباتِ انسانی نے خواہ کیسا ہی جوش مارا ہو پر اس کا چلن ہمیشہ راست و پاک رہا۔ اس زمانہ میں یروشلم بھی نیکی کے لئے کچھ مشہور نہ تھا۔ اسی یروشلم کے خلاف جو ظاہر میں تو مقدس لیکن باطن میں بگڑا ہوا تھا۔ چند سال بعد ہمارے خداوند نے سخت ملامت کی یہ ریاکاری کی جگہ تھی۔ جہاں ایک لائق نوجوان سیکھ سکتا تھا۔ کہ کس طرح سے دین کا صلہ آسانی سے بلا تکلیف حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن پولوس ان خطروں سے بچا رہا اور وہ بعد ہا یہ دعویٰ کر سکتا تھا۔ کہ وہ یروشلم میں اول سے آخر تک اپنے کا نشنس (ضمیر)کے مطابق پورے طور سے چلتا رہا۔

۲۸۔اُس نے اپنے گھر میں یہ سبق بخوبی سیکھ لیا تھا۔ کہ جو انعام زندگی کے لائق ہےو ہ خدا کی محبت اور مہربانی ہے۔ جو ں جوں عمر میں بڑھتا گیا یہ یقین بھی ترقی کرتا گیا۔ اور اس نے اپنے اُستاد سے دریافت کیا کہ یہ انعام کیسے حاصل ہو سکتا ہے۔ انہوں نے یک زبان ہو کر یہ جواب دیا کہ شریعت پر چلنے سے۔ یہ خوفناک جواب تھا کیونکہ شریعت سے محض اخلاقی شریعت ہی مراد نہ تھی۔ بلکہ موسوی شریعت مع بے شمار رسمیات (رسومات )کے۔ اور ایک ہزار ایک دیگر قوانین جو یہودی معلموں نے شریعت کے علاوہ مقر ر کئے ہوئے تھے۔ جن کا ماننا ایک نرم دل آدمی کے لئے سخت عذاب تھا۔ لیکن پولوس ایسا شخص نہ تھا جوان مشکلات سے جھجکے۔ اُس نے تو دل میں ٹھان لی تھی۔ کہ خدا کی مہربانی حاصل کر کے۔ جس کے بغیر اس کے نزدیک زندگی کھوکھلی اور ازلیت ایک تاریک ظلمات تھی۔ اگر اُس انجام کوحاصل کرنے کا یہی طریقہ تھا۔ تو وہ اس پر چلنے کے لئے خوش تھا۔ مگر نہ صرف اُس کی اپنی اُمید اس پر موقوف تھی بلکہ اس کی قوم کی اُمید کا انحصار بھی اسی پر تھا۔ کیونکہ اس وقت ساری یہودی اُمت یہ مانتی تھی۔ کہ مسیح صرف اسی قوم کے پاس آئے گا۔ جو شریعت پر چلتی ہو گی۔ اور اس میں یہاں تک مبالغہ(بڑھا چڑھا کر بیان کرنا ) کرتے تھے۔ کہ اگر کوئی شخص ایک دن بھی کامل طور سے شریعت پر چلے گا۔ تو جس مسیح کے وہ منتظر تھے۔ وہ زمین پر آ جائے گا۔ پولوس نے جو دینی تعلیم ربی ہونے کے لئے پائی تھی۔ اس سے اس میں یہ خواہش پیدا ہو گئی تھی۔ کہ راست بازی کا یہ انعام حاصل کر ے۔ اور جب سے وہ اس دینی مکتب کی چاردیواری سے نکلا۔ اسی کو اپنی زندگی کا مقصد اُس نے سمجھا۔ اس طالب علم کا یہ مقصد جہان کے لئے اہم ثابت ہوا۔ کیونکہ اس شخص نے پہلی دفعہ دل کی زاری کے ساتھ اس کو ثابت کر دکھایا کہ نجات کا یہ طریقہ غلط ہے اور جو نجات کا طریقہ اس نے دریافت کیا تھا۔ وہ دُنیا پر ظاہر کیا۔

۲۹۔ ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ یروشلم کے کالج میں پولوس کی تعلیم سب ختم ہوئی یا تعلیم پانے کے بعد وہ فوراً کہاں گیا۔ نوجوان ربی اپنی تعلیم سب ختم کر نے کے بعد ادھر اُدھر چلے جاتے تھے۔ جیسا کہ آج کا ڈونٹی کے طالب علم چلے جاتے ہیں۔ جہاں کہیں ملک میں یہودی آباد تھے۔ ایسے طالب علم وہاں جا کر کام کرتے۔ غالباً پولوس اپنے وطن کلکیہ اور فلسطین سے دُور رہا۔ کیونکہ اُن ہی سالوں میں یوحنا اصطباغی کا چرچا پھیلا اور یسوع کام کرنے لگا۔ اگر پولوس نزدیک ہوتا تو ان دونوں تحریکوں میں بطور دوست یا دشمن کے ضرور کچھ نہ کچھ حصہ لیتا۔

۳۰۔ کچھ عرصہ کے بعد پولوس یروشلم کو واپس آیا۔ اور یہ قدرتی بات ہے۔ کہ بڑے بڑے عالم اور تاجر بڑے بڑے شہروں کا رُخ لیتے ہیں۔ ایسا ہی بڑے بڑے ربی یروشلم میں چلے آتے تھے۔ یسوع کی وفات سے تھوڑی ہی دیر بعد پولوس یہودیوں کے دارالخلافہ میں پہنچا۔ اور اُس نے اپنے فریسی دوستوں سے اُس بڑے ماجرے کا حال سُنا ہو گا۔ اس وقت اُس کے دل میں اپنے مذہب کے بارے میں تو کوئی شک و شبہ پیدا نہیں ہو ا ہو گا۔ البتہ اُس کی تصنیفات سے اتنا پتہ تو لگتا ہے۔ کہ اُسے دلی کشمکش اُٹھانی پڑی تھی۔ لیکن ایک امر کا تو اُسے یقین تھا کہ زندگی کی خوشحالی صرف خدائی مہربانی سے حاصل ہو سکتی ہے۔ مگر اس رتبہ کو حاصل کرنے کے لئے شریعت پر چلنے کی جو کوششیں اُس نے کیں اُن سے اُس کی تسلی نہ ہوئی۔ بلکہ برعکس اس کے جس قدر وہ شریعت پر عمل کرنے کی جدوجہد کرتا اتنا ہی زیادہ گناہ اُس کے دل میں جوش مارتا اور اُس کی ضمیر گناہ کی قصور واری کے بارہ میں اُس کے دل میں زیادہ چکیاں لیتی ۔اور روح کو جو اطمینان خدا میں حاصل ہوتا ہے وہ اس کی رسائی سے پرے تھا۔پھر بھی عبادت خانہ کی تعلیم پر اس نے کچھ شک نہیں کیا کیونکہ یہ تعلیم عہد عتیق کی تاریخ کا ایک جُز تھی۔ جس کے ذریعے مقدسوں اور نبیوں کی صورتیں اُس کی آنکھوں کے سامنے پھر جائیں اور اُس کے دل کو یقین دلائیں کہ جو تعلیم اس میں ملتی ہے۔ وہ ضرور منجانب اللہ ہوگی۔ اور اس پردے کے پیچھے وہ اسرائیل کے خدا کو محسوس کرتا جس نے شریعت کے دینے میں اپنے تئیں منکشف(ظاہر) کیا تھا۔ اُس نے گمان کیا کہ اگر یہ اطمینان خدا کی شراکت سے حاصل نہیں ہوا۔ تو اُس کی یہ وجہ ہو گی۔ کہ میں نے اپنی ذات کی بدی کے ساتھ پوری پوری جنگ نہیں کی اور نہ شریعت کے احکام کی پوری تعظیم کی ہے۔ کوئی ایسی خدمت نہیں ہو سکتی کہ جس کے ذریعے ان سارے نقصوں کی تلافی ہو سکے اور وہ فضل آخر کار مل جائے جس کی آرزو اس کے دل میں تھی۔ جب وہ یروشلم کو واپس آیا تو اس کے خیال کچھ اسی قسم کے تھے۔ اور جب اُس نے اُس فرقہ کے برپا ہونے کا حال سناجو مصلوب یسوع کویہودی اُمت کا مسیح مانتے تھے۔ تو اس کے دل میں سخت حیرت اور غصہ پیدا ہوا۔

۳۱۔ مسیحی دین اس وقت تک صرف دو یاتین سال کا بچہ اور چپ چاپ یروشلیم میں اپنے پرو بازو نکال رہا تھا۔ البتہ جن لوگوں نے اس کی منادی پنتیکوست کے دن سُنی تھی۔ وہ اس کی خبر دور دور تک مختلف ملکوں میں لے گئے تھے۔ لیکن شاگرد اور رسول اب تک یروشلم ہی میں قیام رکھتے تھے۔ شروع میں حکام (حاکم کی جمع )نے اس دین کو ایذا پہنچانے کا ارادہ کیا اور بر ملا منادی کرنے سے مسیحی معلموں کو منع کیا۔ لیکن پیچھے ان کا ارادہ بدل گیا اور گملی ایل کی نصیحت پر عمل کر کے یہ ٹھانا کہ اس کو نظر انداز کریں اور یوں یہ خود بخود ملیا میٹ ہو جائے گا۔ اور مسیحیوں نے حتی الا مکان کسی کو ناراضگی کا موقع نہ دیا۔ دینی رسموں میں وہ پکے یہودی بنے رہے اور شریعت کے لئے غیرت مند تھے۔ ہیکل کی عبادت میں شریک ہوتے۔ یہودی رسوم کو مانتے اور کلیسیائی احکام کی عزت کرتے تھے۔ یہ ایک طرح کی عارضی صلح تھی۔ اور اس سے مسیحی دین کو موقع ملا کہ وہ پوشیدہ پوشیدہ ترقی کر جائے۔ بالا خانوں میں یہ بھائی جمع ہو کر روٹی توڑتے اور صعود کردہ خداوند سے دعائیں ما نگا کرتے تھے۔ یہ قایل دید نظارہ تھا اور یہ نیا عقیدہ فرشتہ کی طرح ان کے درمیان جلوہ دکھا رہا تھا اور ان کے دلوں میں پاکیزگی کی شعاعیں ڈال رہا تھا۔ اور ان کے چھوٹے چھوٹے مجمعوں میں اپنے پروں کا فرحت اقرا سایہ اطمینان کی روح ان میں پھونک رہا تھا۔ ان کی باہمی محبت کا حد و حساب نہ تھا۔ ان کے دلوں میں ایسی خوشی بھری تھی۔ جیسے کسی بڑی نئی دریافت کے وقت انسان کوہو تی ہے اور جب کبھی وہ جمع ہوتے ان کا غیر مرئی(محسوساتی ) خداوند ان کے درمیان موجود ہوتا۔ یہ تو ایسا تھا۔ جیسے آسمان زمین پر اُتر آئے جب چاروں طرف یروشلم میں دُنیا داری کا طوفان جوش مار رہا تھا۔ اور دینی حکام بڑی بڑی ڈینگ مارتے تھے۔ یہ چند غریب لوگ اُس راز میں خوشی سے مگن تھے جس پر ان کے نزدیک نوع انسان کی خوشحالی اورجہان کی آئندہ بہبودی موقوف تھی۔

۳۲۔ لیکن یہ عارضی صلح تو دیر تک قائم نہ رہ سکتی تھی۔ اور امن چین کے زمانہ پر خوف و خونریزی کا حملہ ہونے والا تھا۔ مسیحی دین اس طرح چپ چاپ نہ رہ سکتا تھا کیونکہ اس میں تو عالمگیر قوت و طاقت ہے۔ اور یہ اپنی اشاعت چاہتا ہے اور اسے کچھ مضائقہ (ڈر)نہیں کہ کس قسم کا خطرہ پیش آئے گا۔ اور ضرور تھا کہ انجیلی آزادی کی نئی مے جوش مارے اوریہودی شریعت کی مشکوں کو پھاڑ کر نکل آئے آخر کار ایک ایسا شخص برپا ہوا جس میں اشاعتِ دین کا جوش کوٹ کوٹ کر بھر ا ہوا تھا۔ اس کا نام ستفنس تھا اور سات ڈیکنوں میں سے تھا جنہیں مسیحی سوسائٹی نے روپیہ پیسہ کے انتظام کے لئے مقرر کیا تھا۔ یہ روح القدس کے نشہ میں سرشار تھا اور ایسی قابلیت رکھتا تھا۔ کہ اُس کی خدمت کے قلیل عرصہ میں اس کی صرف جھلک نظر آ سکتی تھی۔ لیکن پورا جلوہ دکھانے کا موقع نہ تھا۔ وہ جا بجا عبادت خانوں میں یہ منادی کرتا تھا۔ کہ یسوع ہی مسیح ہے اور اس امر کا اعلان دیتا تھا۔ کہ شریعت کے جوئے سے آزادی پانے کا وقت آ گیا ہے۔ یہودی مذہب کے علماء نے اُس کا مقابلہ کیا لیکن اُس کی فصاحت(خوش بیانی ) اور مقدس غیرت کے سامنے کھڑے نہ رہ سکے۔ تنگ آیذبجنگ آید کا معاملہ ہوا۔ دلائل سے مغلوب ہو کر ایک دوسرے قسم کے اوزار سے کام لیا حکام اور عوام الناس کو ایسا اُبھارا کہ وہ ستفنس کے قتل پر آمادہ ہو گئے۔

۳۳۔ جن عبادت خانوں میں یہ مباحثے ہوئے اُن میں سے ایک اہل کلکیہ کا عبادت خانہ تھا یعنی پولوس کے ہم وطنوں کا شاید پولوس اس عبادت خانہ کا ربی ہو جس نے ستفنس کے ساتھ مباحثہ کرنے میں حصہ لیا ہو۔ بہر حال کچھ بھی ہو جب منطقی دلائل کی جگہ جو ر و (جوش یا ولولہ )ظلم نے لی تو پولوس آگے کی صف میں تھا۔ جب گواہ ستفنس پر پہلے پتھر مارنے کے لئے اپنے کپڑے اُتار رہے تھے۔ تو انہوں نے وہ کپڑے پولوس کے پاؤں پاس رکھے۔ اُس متصل(قریب ) پر نظر مارتے ہوئے پولوس کی شکل نظر آتی ہے۔ جو عوام الناس سے کچھ علیحدہ کھڑا ہے۔ اور کپڑوں کا ڈھیر اس کے پاؤں کے پاس دھرا ہے اور اس کی آنکھیں اس مقدس شہید پر لگی ہیں جو عین موت کے منہ میں گھٹنے ٹیک کر یہ دُعا مانگ رہا ہے۔ اے خداوند یہ گناہ اُن کے حساب میں شمار نہ کر۔

۳۴۔ پولوس کی سرگرمی جو اس موقع پر ظاہر ہوئی اس سے وہ حُکام(حاکم کی جمع) کی نظر میں چڑھ گیا۔ شاید اسی خدمت کے لئے اُس کو صدر مجلس میں جگہ مل گئی کیونکہ تھوڑی دیر بعد وہ صدر مجلس میں بیٹھا مسیحیوں کی پوری بنیح کنی کی خدمت جس کا حکام نے پورا ارادہ کر لیا تھا۔ اسی لئے اُس کے سپرد ہوئی۔ پولوس نے اس تجویز کو منظور کر لیا۔ کیونکہ وہ اُسے خدا کا کام سمجھتا تھا۔ اوروں کی نسبت اس نے زیادہ صفائی سے اس امر کو معلوم کر لیا کہ اس مسیحی دین کا مقصد کیا ہے۔ اور اس نے یہ جان لیا تھا۔ کہ اگر اس مذہب کو اسی وقت نہ روکیں گے۔ تو یہ ہمارے سارے دین کو پامال کر دے گا۔ اس کے نزدیک شریعت کا متروک کرنا نجات کے اکیلے وسیلے کو پس پشت ڈال دیتا ہے۔ اور مسیح مصلوب پر ایمان لا نا اسرائیل کی مقدس اُمید پر گویا کفر باندھنا ہے۔ علاوہ ازیں اس کی ذاتی غرض بھی اس میں تھی۔ اب تک تو وہ خدا کو خوش کرنے کے لئے کوشش کرتا رہا تھا۔ لیکن ہمیشہ اُس نے محسوس کیا کہ میری یہ ساری خدمتیں ناقص ہیں۔ اب اُس کے خیال میں ایسا موقع تھا کہ اعلیٰ خدمت کے ذریعے تلافی مافات کر سکے گا۔ اُس کے دل میں جو یہ سخت آرزو تھی اس سے اس کی سر گرمی اور بھی ترقی کر گئی۔ اور وہ ایسا شخص بھی نہ تھا۔ کہ کوئی کام اُدھورا کرے اُس نے جان وتن سے اس کام کا بیڑا اُٹھا لیا۔

۳۵۔ جو حالات اس کے بعد گزرے اُن کا خیال کرنے سے بدن پر رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں۔ وہ ایک عبادت خانہ سے دوسرے کی طرف اُڑا چلا جاتا۔ گھر گھر میں گھُستا۔ مردوں اور عورتوں کو باہر نکال لاتا۔ ان کو قید میں ڈالتا اور طرح طرح کی سزا دیتا۔ معلوم ہوتا ہے۔ کہ بعضوں کو اُس نے مروا ڈالا اور سب سے بد تر یہ تھا۔ کہ کتنوں کو اُس نے مجبور کیا کہ نجات دہندہ کے نام پر کفر بکیں۔ یروشلم کی کلیسیاء درہم برہم ہو گئی اور جو مسیحی اس موذی کے غضب سے بچ نکلے۔ وہ گر دونواح کے علاقوں میں فرار ہو گئے۔

۳۶۔ شاید یہ کہنا مناسب نہ ہو کہ رسولی خدمت کے لئے نادانستہ تیاری کی یہ آخر ی منزل تھی۔ لیکن بات تو یہی ہے ایذا دہندہ کی خدمت اختیار کرنا عین اُس عقیدہ کے مطابق تھا جس میں اُس نے تعلیم پائی تھی اور اب وہ بہبودگی کے درجہ تک پہنچ گئی ۔ علاوہ اس کے جس خدا کا اعلیٰ جلال اس سے ظاہر ہوتا ہے۔ کہ بدی میں سے بھی وہ کچھ نیکی نکال لیتا ہے۔ اُسی خدا نے اپنے بڑے فضل سے پولوس کے دل میں ایسے افسوس ناک واقعات کے ذریعے پر لے درجے کی فروتنی پیدا کر دی۔ کہ وہ آئندہ کو کمزور سے کمزور بھائی کی خدمت کے لے بھی تیار تھا۔ جن پر اُس نے پہلے اس قدر ظلم کیا تھا۔ اور ایسی سر گرمی اُس میں آگئی تھی کہ جو وقت ضائع ہو گیا تھا۔ اُس کی کمی پوری کرنے کے لئے باقی ماندہ وقت کو بڑی کفایت شعاری بلکہ کنجوسی سے استعمال کرتا تھا۔ اس لئے یہ خیال اس کے سمندر ناز پر گویا تازیانہ (کوڑا )کا کام دیتا تھا۔

تیسرا باب

پولوس کا رجوع لانا

۳۷۔ اس ایذا دہندہ کا سار ا منشا یہ تھا کہ مسیحی دین کو بالکل ملیا میٹ کر ڈالے۔ لیکن اُسے اس دین کا خاصہ معلوم نہ تھا کہ یہ عین ایذا کے وسیلے پنپتا (نشوونما پانا ،بڑھنا)ہے فارغ البالی (خوش حالی )اکثر اس کے لئے زہر قاتل ثابت ہوئی ہے۔ لیکن ایذا رسانی کبھی نہیں۔ جو پراگندہ ہو گئے تھے۔ وہ ہر جگہ جا کر کلام کی خوشخبری دیتے تھے۔ اب تک تو کلیسیاء یروشلیم کی چار دیوار ی ہی میں محدود رہی تھی۔ لیکن اب سارے یہودیہ سامریہ اور دو دراز ملکوں فنیکہ اور سوریہ میں انجیل کی شعاعیں تاریکی کے درمیان بہت قصبات اور دیہات میں چمکنے لگیں۔ دو دو تین تین بلا خانوں میں جمع ہو کر جو خوشی انہیں روح القدس میں حاصل تھی وہ ایک دوسرے کو دینے لگے۔

۳۸۔ جب پولوس کو یہ خبر لگی ہوگی کہ یہ مسیحی جو ش کیسے جا بجا بڑھتا جاتا ہے حالانکہ اس کے فرو(نیچے یا کم رتبہ ) کرنے کی کوشش بلیغ (پورا ۔کامل )ہوتی ہے۔ تو اُس کا دل کیسا بھڑک اُٹھا ہو گا۔ لیکن وہ ہمت ہارنے اور مایوس ہونے والی جنس نہ تھا۔ اُس نے عزم بالجزم(پکا ارادہ ) کیا کہ جہاں کہیں مسیحی چھپے ہوں وہاں سے ان کو ڈھونڈ کر نکال لائے وہ اپنے اختیار و اقتدار کے نشہ سے سرشار تھا۔ اور قتل و خون اور ظلم پر تلاُ ہو ا تھا۔ اور اسی دُھن میں شہر بہ شہر جاتا۔ اب اُسے خبر لگی کہ سوریہ کے دارالخلافہ دمشق میں یہ مسیحی بھاگ کر پناہ گزیں ہوئے ہیں۔ اور اس شہر کے کثیرالتعداد یہودیوں میں اپنے دین کی اشاعت کر رہے ہیں۔ یہ سُن کر وہ سیدھا سردار کاہن کے پاس گیا جسے نہ صرف فلسطین کے یہودیوں پر بلکہ بیرونجات کے یہودیوں پر بھی اختیار حاصل تھا۔ اور اس امر کے خطوط حاصل کئے کہ نئے طریقے کے لوگوں کو جہاں کہیں پائے پکڑ کر دست و بابستہ (ہاتھ باندھے ہوئے )یروشلم کو لائے۔

۳۹۔ جب پولوس اس سفر پر روانہ ہوا تو یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ اس وقت اس کے دل کی حالت کیا ہو گی۔ وہ شریف ذات اور نیک دل شخص تھا۔ لیکن جس قسم کے کام میں وہ مصروف تھا وہ کسی ظالم قصاب کی حسب طبع(مزاج کے مطابق) تھا۔ کیا اس سارے کام میں اُس کے دل میں کچھ ترس یا افسوس پیدا نہ ہو ا ہو گا۔ سرسری نظر سے تو یہی معلوم ہوتا ہے۔ کہ نہیں۔ کیونکہ یہ ذکر آیا ہے کہ جب وہ اپنے شکار کی تلاش میں شہر بہ شہر جاتا تھا۔ تو وہ دیوانہ دار جوش سے بھرا تھا۔ اور جب وہ دمشق کی طرف روانہ ہوا اس وقت بھی وہ دھمکانے اور قتل کرنے کی دُھن میں تھا۔ اور یہ بدعت اس کے نزدیک ایسی اشیاء کے لئے خطرناک تھی جس کو وہ عزت کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ اس لئے اُسے اپنے اس وتیرہ (روش )کے بارہ میں کچھ شک پیدا نہ ہوا۔ اور اگر اس خونی کا م میں اُس کی طبیعت میں کچھ کراہت بھی پیدا ہوئی ہو گی۔ تو ثواب کی اُمید سے وہ اسے نظر انداز کر دیتا ہو گا۔

۴۰۔ لیکن اس سفر میں آخر کار شک نے اُس کے دل پر حملہ کیا۔ یہ دراز سفر ایک سو ساٹھ میل سے زیادہ کا تھا۔ اور چونکہ آمددرفت کا سامان زمانہ حال کی طرح مہیا نہ تھا اس لئے یہ کم سے کم چھ دن کی منزل تھی۔ اور ایک لق دوق(سنسان جگہ ) بیابان میں سے اُس کا گذر تھا۔ جہاں آدمی اپنے دل کے خیالوں میں غلطان و پیچان (اُلجھا ہوا ،پریشان )بے روک ٹوک میلوں نکل جاتا ہے۔ اس ناگزیر فرصت کے وقت شک کے بخارات اُٹھنے شروع ہوئے۔ جن الفاظ سے خداوند اس سے مخاطب ہوا اُن سے اور کیا مترشح(ٹپکنے والا) ہو سکتا ہے۔ پینے کی کیل پر لات مارنا تیرے لئے مشکل ہے۔ یہ تشبیہ مشرقی ممالک کے دستور سے لی گئی ہے۔ بیل ہانکنے والے کے ہاتھ میں ایک لمبی لکڑی ہوتی ہے۔ جس کے سر پر لوہے کی ایک تیز کیل لگی ہوتی ہے اور بیل کو چلانے یا ٹھہرانے یا ادھر اُدھر پھیرنے کے لئے اُسے استعمال کرتا ہے لیکن اگر بیل ذرا کڑوا ہوتا ہے تو وہ اس پینے پر لات چلانے لگتا ہے اورکیل کے ذریعے اُس کا پاؤں خون خون ہو جاتا ہے۔ اور اس سے اور بھی غصہ میں بھر جاتا ہے۔ کیا یہ ایسے شخص کی تصویر نہیں جس کے اندر کا نشنس(انسانی ضمیر) نے کانٹے کی طرح چھد کر دل کو زخمی کر دیا ہے؟ جس بے رحمی کے کام میں وہ مصروف تھا اُس سے اُس کی طبیعت برگشتہ اور برداشتہ ہو رہی تھی۔ اور گویا یہ کہہ رہی تھی۔ کہ تو خدا سے جنگ کر رہا ہے۔

۴۱۔ اس کا پتا لگا نا کچھ مشکل نہیں کہ یہ شکوک کہاں سے پیدا ہوئے۔ یہ گملی ایل کا شاگرد ہے جو انسانیت اور آزادی مذہب کا حامی و مددگار تھا جس نے صدر مجلس کو یہ صلاح دی تھی۔ کہ مسیحیوں کو ان کے حال پر چھوڑ دو اور پولوس خود اس وقت تک نو عمر ہے۔ ایسے نفرت انگیز کام کے لئے ابھی تک اس کا دل سخت نہیں ہوا ہے خواہ دینی سرگرمی کا جوش کتنا ہی زیادہ کیوں نہ ہو طبیعت انسانی اپنا رنگ دکھائے بغیر نہیں رہتی اور مسیحیوں کی سیرت اور روش کا جو مشاہدہ پولوس کو ہوا اُس سے غالباً یہ ترس پیداہوا۔ مقدس ستفنس نے جو عذر پیش کیا تھا۔ اسے پولوس نے سُنا تھا۔ اور اس کے چہرے کو فرشتے کی طرح چمکتے دیکھا تھا۔ اور یہ بھی ملا حظہ کیا تھا کہ کس طرح عین قتل کے وقت گھٹنے ٹپک کر وہ اپنے قاتلوں کے لئے دُعا مانگ رہا تھا۔ وہ اس کی آنکھوں کے سامنے تھا اور ایذارسانی میں جو حصہ اُس نے لیا اس میں اس قسم کے کئی نظارے اُس نے مشاہدہ کئے ہو ں گے۔ کیا ایسے لوگ خدا کے دشمن ہوں گے؟ جب ان کےگھروں میں گھس کر ان کو گھسیٹ لاتا تھا تو ان سے مسیحیوں کی خانگی زندگی کا بھی کچھ تجربہ ہوا۔ کیا ایسے پاکیزہ اور محبت کرنے والے لوگ تاریکی کے سردار کے غلام ہو ں گے؟ اور جب اُس نے معلوم کیا کہ وہ کیسے اطمینان خاطر سے اپنی جان دیتے تھے۔ تو اُس کےدل میں رشک ہو گا کہ کاش ایسا اطمینان مجھے حاصل ہوتا۔ کیونکہ وہ اسی اطمینان کا متلاشی تھا۔ لیکن اُسے اب تک نصیب نہ ہوا تھا۔ اور ان مظلوموں نے اپنے دین و ایمان کی تائید میں جو دلائل پیش کی ہو ں گی۔ ان کا بھی کچھ نہ کچھ اثر اس کے دل پر ضر ور ہوا ہو گا۔ اس نے سُنا تھا۔ کہ کس طرح ستفنس مقدس نوشتوں سے ثابت کرتا تھا کہ مسیح کو دُکھ اُٹھانا ضرور تھا۔ اورجیسا کہ قدیم زمانہ کے مسیحی معذرت ناموں سے ظاہر ہے۔ ضرور اکثر مسیحی جن پر ان کے دین کے باعث الزام لگائے جاتے تھے۔ وہ یسعیاہ ۵۳ باب کی طرف اپنے مدعیوں کی توجہ پھیرتے ہوں گے۔ جہاں مسیح کا ایسا نقشہ کھنچا ہوا ہے جو یسوع ناصری کی زندگی سے عجیب طرح مشابہ ہے۔ ان مسیحیوں سے اس نے مسیح کی زندگی کے واقعات کا حال بھی سُنا ہو گا۔ اور وہ احوال اس سے بالکل مختلف ہو گا جو اس کے دوست فریسی اس سے بیان کرتے ہوں گے۔ اور مسیح کے جو مقولے یہ مسیحی بیان کرتے ہوں گے۔ وہ ایک متعصب(تعصب کرنے والا ) یا دیوانہ کے الفاظ نہ تھے۔ حالانکہ فریسی مسیح کی نسبت کچھ اسی قسم کا خیال رکھتے تھے۔

۴۲۔ جب یہ مسافر حالت اُداسی میں ڈوبا ہوا آگے بڑھا چلا جاتا تھا۔ تو اُس کے دل میں کچھ اسی قسم کے اُتار چڑھا ؤ ہو رہے ہوں گے۔ لیکن شاید اُس نے یہ سمجھا ہو گا۔ کہ یہ شیطانی وسوسے (شبہات )معلوم ہوتے ہیں یاراہ کی تکان (جھٹکا ) کا نتیجہ ہیں یا کوئی بدروح آسمانی راہ سے بھٹکانے کی کوشش کر رہی ہے۔ لیکن جب دمشق اُسے نظر پڑا جو اُس لق و دق(سخت اور ہموار زمین ) بیابان میں موتی کی طرح چمک رہا تھا۔ تو اُس کو ہوش آیا۔ اور اس نے سمجھا کہ اب ہم خیال ربیوں کی صحبت سے اور اس کا ر خیر کی سعی )کوشش )میں یہ پریشان اور پراگندہ خیالات جو غول بیابانی کی طرح اُس کے پیچھے پڑ گئے تھے۔ اُس سے علیحدہ ہو جائیں گے اسی دُھن میں وہ آگے بڑھا۔ اور دوپہر کا وہ سورج ۔ وہ جھلستی ہوئی دھوپ جس سے ڈرکر ہر مسافر کسی گلستان میں جا کر پناہ لیتا ہے اُس کو آگے شہر کے پھاٹک کی طرف دھکیلے لئے جار ہی تھی۔

۴۳۔ لیکن اُس کے پہنچنے سے پیشتر اُس کی آمد کی خبر دمشق میں پھیل گئی تھی۔ اور مسیح کا چھوٹا جھنڈ دُعا مانگ رہا تھا کہ اگر ممکن ہو تو خدا اس بھیڑ یے کو جو گلہ کو تباہ کرنے آرہا ہے گرفتار کر لے۔ وہ شہر کے نز دیک پہنچتا گیا۔ اور سفر کی آخر ی منزل کو بھی مکمل کرلیا اور جب وہ اُس جگہ کے نزدیک پہنچا جہاں اُس کا شکار تھا پھر تو لہو کی چاٹ زیادہ تیز ہو گئی۔ لیکن نیک گڈریے نے اپنے ڈرتے اور تھر تھراتے گلہ کی آہ زاری کو سن لیا تھا اور اُس کی طرف سے اب وہ اُس بھیڑیے کے مقابلے کو نکلا۔ یکا یک دوپہر کے وقت جب پولوس اور اُس کے رفیق سوار آگے بڑھے جا رہے تھے۔ تو سُریانی آفتاب کی شدت کی دھوپ جس سے کوّے کی آنکھ نکلتی ہے۔ بڑی تیزی سے ان کے گرد چمکنے لگی ایک سناٹا سا سارے عالم میں چھاگیا ۔ اور یہ سب چٹ زمین پر جا گرے۔ اور جو کچھ اس کے بعد گذرا وہ صرف پولوس پر ظاہر ہو ا۔ ایک آواز اس کے کانوں میں گونجتے لگی۔ اے شاؤل اے شاؤل تو مجھے کیوں ستا تا ہے؟ اور نظر اُٹھاکر اس نورانی صورت سے استفسار(دریافت ) کیا۔ اے خداوند تو کون ہے؟ تو جواب آیا۔ میں یسوع ہوں جسے تو ستا رہا ہے۔

۴۴۔ جن الفاظ میں پولوس نے اس ماجر ے کو اپنی مابعد زندگی میں بیان کیا ہے اُس سے صاف ظاہر ہے کہ پولوس نے اسے یسوع کی محض رویت نہیں سمجھا۔ بلکہ جیسے مسیح مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے بعد اپنے شاگردوں پر ظاہر ہوا ویسے ہی پولوس نے اس ظہور کو آخری ظہور سمجھا۔ اور یہ ظہور اس کے خیال میں وہی رتبہ اور درجہ رکھتا ہے۔ جیسا پطر س۔ یعقوب اور گیارہ شاگرد اور بانسوپر مسیح کاظہور ہوا۔ فی الحقیقت یہ مسیح یسوع تھا۔ جو اپنی ذوالجلال انسانیت کا جامہ پہنے نظر آیا۔ جو اپنی جگہ چھوڑ کر خواہ وہ عالم میں کسی جگہ ہو جہاں وہ شفیع ہو کے تخت پر بیٹھا ہے اُس جگہ پر پہنچا تا کہ اپنے اس برگزیدہ شاگرد پر ظاہر ہو۔ اور آفتاب سے زیادہ منور جو نور اُس پر ظاہر ہوا وہ اُس کی انسانیت کا نور تھا۔ ایک اتفاقی شہادت اس امر کی ان الفاظ سے ظاہر ہے۔ جن میں وہ پولو س سے متکلم ہوا۔ یہ عبرانی یا ارامی زبان کے الفاظ ہیں۔ یہ وہی زبان ہے۔ جس میں یسوع عموماً جھیل کے کنارے عوام الناس سے کلام کرتا یا بیابان اور ویران مکانوں میں شاگردوں سے متکلم ہوا کرتا تھا۔ اور جیسے پہلے وہ تمثیلوں میں کلام کیا کرتا تھا۔ ویسے ہی اس وقت ایک استعارہ(مثال ) کے ذریعے اُس نے پولوس کو تنبیہ دی۔ پینے کی آر پر لات مارنا تیرے لئے مشکل ہے۔

۴۵۔ جو کچھ پولوس کے دل میں اس وقت گذر رہا تھا۔ اُس میں مبالغہ کی گنجائش نہیں۔ وقت کا اندازہ ایک تو گھڑی کے گھنٹوں اور منٹوں وغیرہ سے لگایا کرتے ہیں اور ایک عملی اندازہ سے۔ عملی اندازہ میں یہ دیکھنا پڑتا ہے۔ کہ روح نے اس عرصہ میں کس قدر تجربہ حاصل کیا ہے۔ اور اس لحاظ سے ایک گھنٹہ دوسرے سے متفرق ہے۔ بلکہ کبھی کبھی ایک گھنٹہ روحانی تجربہ میں مہینوں سے زیادہ لمبا ہوتا ہے۔ یوں ہمارےے خیال میں پولوس کی زندگی کا یہ عرصہ اس کی ساری ماقبل زندگی سے زیادہ دراز تھا۔ اس مکاشفہ کی زرق برق(شان وشوکت ) ایسی شدت کی تھی۔ کہ عقل کی آنکھ جھلس ڈالتی یا عین زندگی کے پودے کو بھسم کر ڈالتی۔ جس کی بیرونی چمک دمک سے اُس کے بدن کی آنکھ میں چکا چوندی(تیز روشنی ) سی آگئی۔ کہ وہ دیکھ نہ سکتا تھا۔ جب اس کے رفیقوں(دوستوں ) کی جان میں جان آئی اور وہ اپنے سردار کی طرف متوجہ ہوئے تو انہیں پتہ لگا کہ اس کی آنکھوں کی بصارت جاتی رہی ہے۔ اور وہ اُس کا ہاتھ پکڑ کر اُس شہر میں لے گئے عجب تبدیلی واقع ہو ئی۔ یا تو وہ مغرور فریسی بڑے کرو فر (شان وشوکت )سے گلی کوچہ میں مسیحیوں کو گرفتار کرنے کے لئے پھرتا تھا۔ اور اب اُس کا یہ حال ہے کہ وہ سکتہ ہو کر کانپتا اور ٹٹولتا ہوا دوسرے کا ہاتھ پکڑے جہاں جا کے اُترنا تھا۔ وہا ں جاتا ہے۔ اور وہ سب اس کو دیکھ کر حیران و پریشان ہیں اور پھر کمرہ میں جا کر اپنے رفیقوں سے یہ کہا کہ مجھے تھوڑی دیر یہاں چپ چاپ رہنے دو۔

۴۶۔اگرچہ باہر اندھیرا تھا لیکن باہر نور چمک رہا تھا ۔ اور اس بے بصری کا یہی مقصد تھا کہ ادھر اُدھر کے شوروغل سے علیحدہ ہو کر اُن باتوں پر جی لگا سکے جو اس کی باطنی آنکھ کے سامنے حاضر تھیں ۔ اسی وجہ سے اُس نے تین دن تک نہ کچھ کھایا نہ پیا۔اوراپنے خیالات میں جو پرا باندھ کر اسے گھیرے تھے ۔غلطان وپیچاں(پریشان ) تھا۔

۴۷۔اور غالباً ان تین دنوں میں تقریباً وہ ساری تعلیم جس کا اُس نے پیچھے اعلان دینا تھا۔ اُ س پر منکشف(ظاہر) ہو گئی۔ کیونکہ جو تعلیم اس کی تصنیفات میں پائی جاتی ہے۔ وہ اس کے رجوع لانے کی گویا تفسیر ہے۔ اوّل تو اس کی ساری پہلی زندگی چُور چار(چور چور) ہو کے اس کے پاؤں پر گر پڑی۔ یہ بالکل مطابق اور مکمل تھی۔ اور جو اعلیٰ سے اعلیٰ مکاشفہ اُسے حاصل تھا اس کا یہ مناسب نتیجہ تھی اور باوجود نقصوں کے یہ زندگی خدا کی مرضی کے مطابق تھی۔ لیکن باوجود اس کے یہ زندگی خدا کے مکاشفہ اور مرضی کے عین برخلاف تھی۔ اور اس مقابلہ میں وہ ٹکرا کر پاش پاش(ٹکڑے ٹکڑے ) ہو گئی جسے وہ پہلے کمال خدمت اور فرمانبرداری سمجھتا تھا۔ اس نےاس کے دل کو کفر اور معصوموں کی خونریزی کی طرف مائل کیا۔ اور شریعت کے کاموں سے راستبازی تلاش کرنے کا یہ نتیجہ نکلا۔ اور عین جس وقت یہ راست بازی گویا سمت الراس(ترقی کی انتہا) پر پہنچتی معلوم ہوتی تھی۔ اس مکاشفہ کی چمک دمک نے اُس کی ظلمت کو ظاہر کر دیا۔ شروع سے آخر تک یہ ایک غلطی تھی۔ شریعت سے راست بازی حاصل نہیں ہو سکتی۔ بلکہ صرف قصورواری اور لعنت لا کلام یہ نتیجہ اُس کو حاصل ہوا۔ اور اُس کی تعلیم کا ایک بڑا جز یہی ہے۔

۴۸۔ لیکن جب اس کی ماقبل زندگی کا یہ انجام ہوا عین اُسی وقت اُسے ایک اور تجربہ عطا ہوا۔ یسوع ناصری غصہ و غضب سے بھرا ہوا اُس پر ظاہر نہیں ہوا جیسی کہ اُمید ہو سکتی تھی۔ کہ وہ اپنے جانی دشمن پر ظاہر ہوتا۔ اور اُس کا پہلا سوال انتقام کے بارہ میں ہوتا اور انتقام لینا پولوس کو نیست کر دیتا۔ لیکن اس کی بجائے اس کا چہرہ الہٰی رحم سے منور تھا۔ اور اُس کے الفاظ اس ایذا دہندہ کے لئے بڑے تحمل اور اعتدال کے الفاظ تھے۔ جس وقت الہٰی طاقت نے اُسے چٹ زمین پر گرا دیا۔ عین اُسی وقت اُس نے محسوس کیا کہ الہٰی محبت نے مجھے اپنی گود میں اُٹھا لیا ہے۔ اسی انعام کے حاصل کرنے کے لئے وہ یہ ساری جدوجہد کر رہا تھا۔ لیکن کچھ حاصل نہ ہو ا تھا۔ اور جس وقت اُس نے دریافت کر لیا ۔ اس کے گرتے ہی خدا کی محبت نے اُسے اُٹھا لیا۔ اب اُس کا ملاپ ہو گیا۔ اور ہمیشہ کے لے مقبول ٹھہرا۔ جوں جوں وقت گذرتا گیا۔ اُس کو اس کا زیادہ یقین ہوتا گیا۔ جس اطمینان اور روحانی قوت حاصل کر نے کے لئے اس کی ساری پہلی محنت رائگاں(بے کار) گذری تھی۔ وہ اُسے اب بلا محنت مسیح میں مل گئی۔ اور یہ اُس کی تعلیم کا دوسرا جز ہے۔ یعنی یہ کہ محض خدا کے فضل پر ایمان لائے اور اُس کے انعام کے قبول کر لینے کے ذریعے بلا انسانی کوشش مسیح میں وہ راست بازی اور قوت مل جاتی ہے۔ ان دو میں اور سینکڑوں باتیں داخل تھیں جن کو ظاہر کرنے اور سمجھنے کے لئے وقت درکار تھا۔ لیکن پولوس کی تعلیم کی بنیاد یہ دونوں باتیں ہیں۔

۴۹۔ ابھی یہ تین تار یک روز ختم نہ ہونے پائے تھے۔ کہ اُس نے ایک اور بات سیکھ لی کہ مجھے اپنی ساری عمراُن معلوم شدہ امور کے مشہتر (منادی کرنے والا )کرنے کے لئے مخصوص کر دینا ہے۔ بہر حال یہ تو ضرور ہونا تھا۔ پولوس تو فطرت ہی سے اشاعت کنندہ تھا اور ایسی انقلاب پیدا کرنے والی تعلیم کو حاصل کر کے وہ اسے پھیلائے بغیر کیسے رہ سکتا تھا۔ علاوہ ازیں وہ سرد مہر(سُست ) نہ تھا۔ اُس کا دل احسان کی کافی قدر جانتا تھا۔ اس لئے وہ شکر گزاری محسوس کئے بغیر نہ رہ سکتا تھا اور جب اُس نے دیکھا کہ جس یسوع پر اس نے کفر بولا تھا۔ اور جس کا نام صفحہ ہستی سے وہ مٹانے کی کوشش کرتا تھا۔ اُس نے ایسی مروت (بہادری )اور نرمی سے سلوک کیا اور جس زندگی کے چھن جانے کا وہ مستحق تھا اُسے پھر عطا کی اور اُسے وہ رتبہ عطا کیا جو زندگی کا کمال و جلال تھا تو اگر دل و جان سے اپنے تئیں اس کی خدمت کے لئے نثار نہ کر دیتا تو کیا کرتا ؟ پولوس بڑا محب الوطن تھا اور مسیح کے آنے کی اُمید میں وہ سرشار تھا اور جب اُس نے معلوم کیا کہ یسوع ناصری اُس قوم کا مسیح اور جہان کا نجات دہندہ ہے تو یہ قدرتی بات تھی کہ وہ اس کے مشہتر(منادی کرنے والا ) کرنے میں اپنی زندگی صرف کر دے۔

۵۰۔ اور اُس کی زندگی کی اس خدمت کی خبر بھی اسے ایک دوسرے شخص نے دی۔ حنانیاہ کو جو غالباً دمشق کی مسیحی جماعت میں سر کردہ تھا۔ رویت میں یہ خبر لی کہ پولوس میں ایک بڑا تغیر(اانقلاب ) واقع ہوا ہے۔ اور اسے حکم ملا کہ پولوس کی بصارت اوّل کرے اور اسے بپتسمہ کےذریعے مسیح کلیسیاء میں شامل کرے۔ حنانیاہ یہ خبر پاکر اس شخص کی تلاش کو نکلا جو اس کی جان لینے آیا تھا۔ اور پولوس کا حال مشاہدہ کر کے اُس نے قصوروں کو معاف کیا ہے اور اپنے دشمن کے سارے جرائم کو فراموش کیا۔ اور آگے ہو کر اس کو اپنی بغل میں لے لیا۔ پولوس کو ان تین دنوں میں اپنی معافی کا یقین ہو گیا تھا۔ لیکن جب اس کی تصدیق اس طور سے ہوئی تو اُس کا دل اور بھی باغ (خوش)ہو گیا ہو گا۔ اور بینائی حاصل کرنے کے بعد جو پہلی شکل اُسے نظر پڑی وہ ایک انسان کی تھی جو معافی بھر ی اور کامل محبت کی نظروں سے اُسے دیکھ رہا تھا۔ اور اسی حنانیاہ سے اس کو خبر لگی کہ نجات دہندہ نے اس کے لئے کون سی خدمت مقر ر کی ہے۔ مسیح نے اُسے اس لئے پکڑا کہ وہ غیر قوموں اور بادشاہوں اور بنی اسرائیل کے پاس اُس کا نام لے جانے کا برتن بنے۔ اُس نے سارے دل سے اس خدمت کو قبول کر لیا۔ اور اُس وقت سے لے کر آخر ی دم تک اس کی جو ایک بڑی خواہش تھی۔ کہ جس یسوع مسیح نے مجھے پکڑا ہے میں اُسے جا پکڑوں۔

چوتھا باب

اُس کی انجیل

۵۱۔ جب کوئی شخص یک لخت رجوع لاتا ہے جیسا کہ پولوس لایا تھا تو اُسے عموماً بڑا جوش ہوتا ہے۔ کہ جو کچھ اُس پر گذرا ہے اُس کو دوسروں پر ظاہر کرے ایسی شہادت بڑی موثر ہے ۔ کیونکہ یہ ایسی روح کی شہادت ہے جسے غیر مرئی جہاں کی حقیقتوں کی جھلک پہلی دفعہ ملی ہے اور جو شہادت ایسی حقیقتوں کی اس طرح ملتی ہے وہ بھی بہت موثر ہوتی ہے۔ آیا پولوس کی زندگی میں یہی واقع ہوا یا نہیں ہم پختہ طور سے نہیں کہہ سکتے۔ اعمال کی کتاب کی اس عبارت سے کہ فوراً عبادتخانہ میں یسوع ناصری کی منادی کرنے لگا۔ کچھ ایسا ہی خیال پیدا ہوتا ہے۔ لیکن اس کی اپنی تصنیفات سے یہ پتا لگتا ہے۔ کہ ایک اور زبردست تحریک کو پہلے قبول کیا کچھ تعجب نہیں کہ اُس نے اسے ایک اشد ضرورت سمجھا۔ وہ اپنے پہلے عقیدے پر بڑا پختہ تھا۔ اور ہر شے اُس پر فد ا کرنے کو تیار تھا۔ اور جب یہ عقیدہ ناگہاں(اچانک ) پاش پاش(ٹکڑے ٹکڑے ) ہو گیا۔ تو اُس کی ساری ہستی کو بیخ وبن(جڑ) سے ہلا دیا ہو گا۔ اور نئی تعلیم جو اُس پر اب منکشف(ظاہر) ہوئی ایسی گہری اور انقلاب انگیز تھی۔ کہ اُس کےہر پہلو کو یک لخت(فوراً) گرفت کر لینا مشکل تھا۔ پولوس پیدائش ہی سے صاحب فکر تھا۔ کسی امر کا محض تجربہ کرنا اُس کے لئے کافی نہ تھا وہ اس کی کنہ(حقیقت ) کو دریافت کرنا چاہتا تھا۔ اور اپنے باقی تیقنات(اعتبار یا یقین ) کے ساتھ اُس کا مقابلہ کرنا چاہتا تھا۔ اس لئے وہ خود ذکر کرتا ہے کہ اپنے رجوع لانے کے بعد وہ عرب کو نکل گیا۔ البتہ اُس نے یہ تو نہیں بتایا کہ وہاں جانے سے اس کی کیا غرض تھی۔ اور چونکہ اس علاقہ میں اُس کے انجیل سنانے اور منادی کرنے کا ذکر نہیں اور یہ واقعہ وہ ایسے موقع پر بیان کرتا ہے۔ جہاں وہ اپنی انجیل کی اصلیت کو زور سے ثابت کر رہا ہے۔ تو یہ گمان غالب معلوم ہوتا ہے۔ کہ جو مکاشفہ اُسے ملا تھا۔ اُس کی بابت غورو فکر کرنے کے لئے عالم تنہائی میں چلا گیا۔ اور خلوت میں اُس نے ان باتوں پر غور کیا اورجب وہ وہاں سے نکل کر اپنے ہم جنسوں میں آیا تو وہ مسیحی دین کے اُس پہلو سے پورے طور پر ماہر ہو چکا تھا۔ جو صرف پولوس سے مخصوص ہے اورجو اُس کی مابعد زندگی میں اس کی منادی کا خاص پیغام تھا۔

۵۲۔پولوس کے چھپنے کی خاص جگہ تو ہمیں معلوم نہیں کیونکہ عرب ایک عام نام ہے اور اس کا اطلاق کئی طرح سے ہوا ہے عموماً اس سے وہ حصہ مراد ہے جہاں بنی اسرائیل چالیس سال تک پھرتے رہے یعنی کوہ سینا کا علا قہ اور اُس کا قرب و جوار۔ یہ ایک مشہور جگہ تھی۔ اور کئی مشہور مرد خدا جن کو مکاشفہ ملا تھا اس جگہ سے تعلق رکھتے تھے۔ یہاں موسیٰ نے جلتی جھاڑی کا نظار ہ دیکھا تھا۔ اور یہاں ہی پہاڑ کی چوٹی پردہ خدا سے ہم کلام ہوا تھا۔ اور ایلیاہ نےمایوس ہو کر یہاں کچھ وقت گذرا تھا اور یہاں ہی الہام کے چشمہ سے اس کی پیاس رفع(دور) ہوئی۔ پولوس جو انمردان خدا کا جانشین تھا اُس کے لئے اس سے بڑھ کر اور کونسی جگہ زیادہ مناسب دھیان کے لئے ہو سکتی تھی۔ جن وادیوں میں بنی اسرائیل پر من نازل ہوا تھا۔ اورجن درختوں میں خدا کے قدم سے شعلے نکلے تھے۔ اُن ہی کے سایہ تلے وہ اپنی زندگی کےمسئلے پر غور کر رہا تھا۔ یہ ایک بڑی مثال ہے ۔صداقت کی منادی بہت کچھ اس امر پر موقوف ہے کہ کہاں تک عالم تنہائی میں وہ ہم پر منکشف(ظاہر) ہوئی ہے پولوس کو روح القدس کا خاص الہام حاصل تھا۔ لیکن اس کا یہ منشا نہ تھا کہ پولوس کے قوائے خیال اور دیگر قوائے عقلی کو معطل(بے کار) کر دے۔ بلکہ اس سے تو یہ قوائے(قوت ) اور بھی تیز ہوتے ہیں۔ جس صفائی اور یقین سے پولوس نے اپنی انجیل کی منادی کی وہ بہت کچھ انہی چند تنہائی کے مہینوں کی طفیل(بدولت ) تھی۔ اس تنہائی کا زمانہ شاید ایک سال یا اُس سےکچھ زیادہ ہوگا۔کیونکہ اس کے رجوع لانے کے وقت سے اور دمشق سے نکلنے تک جہاں و ہ عرب میں رہنے کے بعد گیا تین سال کا عرصہ گذرا تھا۔ اور شاید کم سے کم ایک سال اُس نے عرب میں کاٹا ہو گا۔

۵۳۔ اس سے کچھ عرصہ بعد تک ہم کو مفصل (واضح )پتہ نہیں لگتا کہ جو انجیل وہ سناتا تھا اس میں خاص بڑی بڑی باتیں کیا تھیں۔ لیکن جب پہلے پہل اُس کا ذکر آتا ہے تو وہ اس کے رجوع لانے ہی کا ذکر ہے اور جو باتیں اس رجوع لانے سے متعلق ہیں اور چونکہ وہ اس وقت اسی بڑے ماجرے کی حقیقت دریافت کیا چاہتا تھا۔ اس لئے یقین ہے کہ رومیوں اور گلیتوں کی طرف کے خطوں میں جس انجیل کا نقشہ دیا گیا ہے بحیثیت مجموعی وہی انجیل تھی جس کو وہ شروع سے سناتا رہا اور انہی خطوں سے اُس کے عرب میں جانے کا حال معلوم ہوتا ہے۔

۵۴۔ بچپن سے پولوس کے دل میں یہ نقش ہو چکا تھا۔ کہ انسان کی زندگی کا حقیقی مقصد اور اس کی خوشی یہی ہے کہ خدا کے فضل کا خط اُٹھائے اور یہ مقصد راست بازی کے ذریعے حاصل ہو سکتا ہے۔ اور صرف راست بازہی کو خدا اپنے سے ملا سکتا اور اُس سے محبت کر سکتا ہے۔پس راست بازی کو حاصل کرنا انسان کی زندگی کا بڑا مقصد ہونا چاہیے۔

۵۵۔ لیکن انسان اس راست بازی کے حاصل کرنے میں قاصر رہا اور خدا کی مہربانی حاصل نہ کر سکا بلکہ اس کے مستوجب (قابل )ہو گیا۔ پولوس نے مسیحی زمانہ سے پیشتر غیر قوموں اور یہودیوں کی تواریخ سے ان کی حالتوں کو دکھا کر اس امر کو ثابت کیا۔

۵۶۔ غیر قوم قاصر رہے چونکہ ان کو کوئی خاص مکاشفہ عطا نہیں ہو ا تھا اس لئے وہ تو راست بازی کی تلاش کرنے لئے تیار ہی نہ تھے۔ لیکن پولوس یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ غیر قوم بھی خدا کے بارے میں اتنا تو جانتے تھے۔ کہ خدا کی تلاش کرنا ہمارا فرض ہے کیونکہ خدا کے کاموں میں اور انسان کے کانشنس(ضمیر) میں جو خدا کا طبعی مکاشفہ ہے اس سے اس فرض کے بارے میں کافی روشنی مل سکتی ہے۔ لیکن ان قوموں نے اس روشنی سے فائدہ اُٹھانے کی بجائے اُسے بجھا دیا۔ وہ خدا کو اپنے علم میں رکھنا نہ چاہتے تھے۔ اور نہ اس بات کے لئے راضی تھے کہ خدا کا خالص علم جو قیود(پابندیاں ) اُن پر لگا تا ہے۔ اُن کے وہ پابند ہوتے۔ انہوں نے خدا کے تصور کو بگاڑ دیا تا کہ اپنی ناپاک زندگی میں اُن کو کسی طرح کی تکلیف نہ ہو لیکن فطرت نے اپنا انتقام لے ہی لیا ان کے دل تاریک ہو گئے اور ان کی عقلیں پریشان ۔ اور ایسے احمق بن گئے کہ ذوالجلال اور غیر فانی ذات خدا کو انسانوں حیوانوں پرندوں اور کیڑے مکوڑوں کی شکلوں سے بدل ڈالا نہ صرف ان کی عقلیں ہی بگڑ گئیں۔ بلکہ ان کے دل بھی خراب ہو گئے۔ جب انہوں نے خدا کو چھوڑا تو خدا نے بھی انہیں چھوڑدیا اور جب اُس کا قابو رکھنے والا فضل اُن سے چھن گیا تو وہ سریت (داشتہ ) بدی اور ناپاکی کے گڑھے میں جا پڑے۔ رومیوں کی طرف کے خط کے پہلے باب کے آخر میں ان کی حالت کا ایسا نقشہ کھنچا ہے جو شیاطین کی حالت پر صادق آسکتا ہے۔ لیکن دراصل وہ نقشہ اُس وقت کے رومیوں کا تھا۔ غیر قوم مورخ اس کی تصدیق کرتے ہیں اور اُس وقت کی مہذب اقوام اس بات کی شاہد ہیں۔پس نوع انسان کے نصف حصہ کا یہ حال تھا کہ وہ راست بازی کی حالت سےبالکل گر گئے تھے۔ اور مور دِ(ٹھہرنے کی جگہ )غضب الہٰی بن گئے تھے۔ جو آسمان سے سارے ناراستوں کے برخلاف منکشف (ظاہر)ہوا ہے۔

۵۷۔ یہودی جہان کا باقی نصف حصہ تھا۔ کیا جہاں غیر اقوام قاصر رہے یہودیوں کو کامیابی ہوئی البتہ وہ کئی باتوں میں غیر اقوام پر فوقیت رکھتے تھے۔ کیونکہ خدا کا کلام اُن کے پاس تھا جس میں الہٰی ذات کا ایسے طریقے سے بیان ہوا تھا۔ جس کو انسان بگاڑ نہیں سکتا اور الہٰی شرع بھی اُسی صورت میں بڑی صفائی سے لکھی گئی تھی۔ لیکن کیا انہوں نے ان سارے حقوق سے فائدہ اُٹھایا ؟کیونکہ شریعت کو جاننا الگ بات ہے اور اُس پر عمل کرنا الگ۔ اور راست بازی شریعت کا جاننا ہی نہیں بلکہ اُس پر عمل کرنا ہے۔ کیا جس مرضی الہٰی سے وہ واقف تھے اُس پر عمل کیا ؟ جس یروشلم میں یسوع نے فقیہوں اور فریسیوں کی خرابی اور ریاکاری کو طشت ازبام (مشہور)کیا تھا۔ پولوس وہیں رہنا تھا اس نے اپنی قوم کے چیدہ چیدہ اشخاص کے رنگ ڈھنگ کو خوب غور سے مشاہد ہ کیا تھا۔ اس لئے جن گناہوں کا الزام وہ غیراقوام پر لگاتا ہے وہی گناہ اُس نے یہودیوں سے بلا تامل (بلا شبہ )منسوب کئے بلکہ یہاں تک کہا کہ تمہارے سبب سے غیر اقوام میں خدا کے نام کی بدنامی ہوتی ہے۔

ان کو اپنے علم پر فخر تھا اور حق کے مشعل بردار تھے۔ جس کی روشنی سے غیر اقوام کے گناہ آشکارا ہو جاتے۔ یہ لوگ دوسروں کے چال چلن پر بڑی نکتہ چینی کرتے تھے۔ لیکن اپنے چلن کا خدا کی روشنی سے مقابلہ نہیں کرتے تھے۔ اور یہ مثل اُن پر صادق آتی ہے کہ چراغ تلے اندھیرا۔ ان کی زبان پر تو یہ احکام تھے تو چوری نہ کر تو زنانہ کرو غیرہ۔ لیکن مرتکب انہی گناہوں کے تھے۔ پس اس صورت میں ان کے اس علم سے اُن کو کیا فائدہ ہوا؟ اس سے تو وہ اور بھی مجرم ٹھہرے کیونکہ اُن کا گناہ نور کے خلاف تھا حالانکہ غیر اقوام جو کچھ کرتے تھے۔ نادانی سے کرتے تھے۔ اس لئے ان کے گناہ بمقابلہ یہودیوں کے بہت ہلکے تھے لیکن یہودیوں کے گناہ دانستہ اور عمداً ہوتے تھے۔ پس ان کی یہ فوقیت جس پر وہ نازاں تھے۔ پستی ثابت ہوئی اس لئے جن غیر اقوام کو وہ حقیر جانتے تھے۔ اُن سے زیادہ مجرم ٹھہرے اور زیادہ لعنت کے مستوجب (لائق)۔

۵۸۔ اصل بات یہ ہے۔ کہ غیر قوم اور یہودی دونوں ایک ہی وجہ سے قاصر رہے۔ انسانی زندگی کی ان دو ندیوں کا سُراغ لگاتے لگاتے اگر ان کے چشمہ تک پہنچیں تو معلوم ہو جائے گا۔ کہ وہ اصل میں دو ندیاں نہیں بلکہ ایک ندی ہے اور ان کے دو شاخوں میں تقسیم ہونے سے پیشتر کچھ ایسا امر واقع ہوا جس سے یہ دونوں ندیاں منزل مقصود تک نہ پہنچ سکیں۔ آدم میں نوع انسان گر پڑی اور اس کے ذریعے یہودی اور غیر یہودی سبھوں کو ایسی کمزور ذات میراث میں مل گئی۔ جو راست بازی کی تحصیل میں کامیاب نہیں ہو سکتی تھی۔ اس لئے اب انسانی ذات روحانی نہیں بلکہ جسمانی ہے اور اس لئے اس اعلیٰ روحانی تحصیل کے ناقابل ہے شریعت بھی اس ذات کو بدل نہ سکی۔ کیونکہ اُس میں کوئی ایسی قوت خدا تو نہ تھی۔ جس سے جسمانی ذات روحانی بن جائے بلکہ برعکس اس کے ذریعے بدی کی شدت بڑھ گئی۔ فی الحقیقت اس سے گناہوں کی کثرت ہو گئی۔ اور جس بنائی صفائی سے شریعت نے گناہ کا بیان کیا وہ ایک صحیح سالم ذات انسانی کے لئے ایک لاثانی رہنما ہوتا لیکن ایسی بگڑی ذات کے لئے وہ پھندا بن گیا۔ کیونکہ گناہ کا علم ہی اُس کے ارتکاب کی تحریص(لالچ) دلا تا ہے۔ اور بگڑے دل کے لئے کسی چیز کی ممانعت اس کے کرنے پر مائل کر دیتی ہے۔ شریعت کا یہی نتیجہ ہوا اس کے ذریعے خطاؤں کی کثرت اور شدت ظاہر ہوئی اور یہ خدا کا منشا بھی تھا۔ اس سے یہ مراد نہیں کہ خدا گناہ کا بانی ہے۔ لیکن ایک حکیم حاذق کی طرح جو کسی دُنبل کو چنگا کرنے سے پہلے اُس کو پکا دیتا ہے اُس نے غیر قوموں کو اپنی اپنی راہ پر چلنے دیا اور یہودیوں کو شریعت دے دی تاکہ انسانی ذات کا گناہ اپنی اصلیت کو بخوبی نمودار کرے اور پھر خدا دخل دے کر اُس کا علاج کرے۔ اور برابر اس کا منشا یہی تھا کہ شفا دے اُس نے سب کو گناہ کے تحت شمار کیا تا کہ سب پر رحم کرے۔

۵۹۔جب انسان ہار جاتا ہے تو خدا اپنا کام شروع کرتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ جب نجات کے ایک طریقہ میں ناکامیابی ہوئی تو خدا نے ایک دوسرے علاج کی تجویز کی۔ اس کے ارادہ میں ہرگز نہ تھا کہ شریعت نجات کا ایک طریقہ ہے۔ بلکہ یہ تو نجات کی ضرورت کو ظاہر کرنے کا ایک وسیلہ تھا۔ اور جس گھڑی یہ غرض حاصل ہوئی اس نے فوراً نجات کے طریقے کا آشکار ا کر دیا۔ جسے اس نے انسان کی آزمائش کے زمانے میں پوشیدہ رکھا تھا۔ کیونکہ خدا کی یہ مرضی ہرگز نہ تھی کہ آدمی اپنے حقیقی مقصد سے محروم رہے۔ صرف اس امر کے دکھانے کے لئے وقت درکار تھا۔ کہ گرا ہوا انسان اپنی ہی کوششوں سے کبھی راست بازی حاصل نہیں کر سکتا۔ اور جب یہ ثابت ہو گیا کہ انسانی راست بازی ناکام ہوئی تو خدا نےاپنی پوشیدہ الہٰی راست بازی کو ظاہر کیا یہی مسیحیت ہے اور مسیح کی رسالت کا یہی لب لباب(خلاصہ ) اور نتیجہ ہے کہ انسان کو مفت وہ انعام عطا کرے جو اس کی خوشحالی کے لئے لازمی ہے لیکن جسے وہ خود حاصل کرنے میں قاصر رہا تھا۔ یہ کارِالہٰی ہے یہ فضل ہے اور آدمی کو اس وقت حاصل ہوتا ہے جب وہ تسلیم کر لیتا ہے کہ میں اب بے کس ولا چار ہوں اور خدا کی طرف سے اس کو قبول کرلیتا ہے۔ یہ صرف ایمان کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔ خدا کی وہ راست بازی جو یسوع پر ایمان لانے سے سب ایمان لانے والوں کو حاصل ہوتی ہے۔

۶۰۔ جو لوگ اس طرح سے اُسے قبول کرتے ہیں۔ ان کو فورا ً وہ الہٰی اطمینان اور رضا مندی حاصل ہو جاتی ہے جو انسان خوشی کی غایت (غرض )ہے اور جیسا پولوس شریعت کے ذریعے راست بازی حاصل کرنے کی تلاش کررہا تھا۔ تو اس کی غرض یہی تھی۔ جس کے وسیلے سے ایمان کے سبب اُس فضل تک ہماری رسائی بھی ہوئی جس پر قائم ہیں اور خدا کے جلال کی اُمید پر فخر کریں۔ (رومیوں ۲:۵ ) جو لوگ اس انجیل کا علم حاصل کر لیتے ہیں۔ وہ خوشی اطمینان اور اُمید کی فرحت بخش زندگی سے خط اُٹھاتے ہیں اس میں آزمائشیں ہوں تو ہوں لیکن جب انسان کو زندگی کا حقیقی مقصد حاصل ہو گیا تو یہ تکلیفات اُسے ہیچ(کم ) معلوم ہوتی ہیں۔ اور ساری چیزیں مل ملا کر اس کی بھلائی کا باعث ٹھہرتی ہیں۔

۶۱۔ خدا کی یہ راست بازی سارے بنی آدم کے لئے ہے۔ نہ محض یہودیوں یا غیر قوموں کےلئے ۔ اس راست بازی کی تحصیل میں انسان کا یعنی یہودیوں اور غیر قوموں دونوں کا ناکارہ ثابت ہونا بھی الہٰی منشا کے مطابق تھا تا کہ خدا کا فضل دونوں پر یکساں ہوں۔ یسوع محض اولاد ابراہیم کے لئے نہ آیا تھا۔ بلکہ اولاد آدم کےلئے جیسے آدم میں سب مر گئے ویسے ہی مسیح میں سب جلائے جائیں گے۔ اب یہ ضرور نہ رہا کہ غیر اقوام نجات حاصل کرنے کے لئے ختنہ اور شریعت نجات کی لازمی شرط نہیں۔ اس سے تو انسان کی کمزوری ہی ظاہر ہوتی ہے اور جب اُس نے انسان پر اس امر کو ظاہر کر دیا تو اس کا کام پور ا ہو گیا۔ خدا کی راست بازی حاصل کر نے کے لئے انسان کےواسطے صرف ایک ہی لازمی شرط ہے اور وہ ایمان ہے اور اُس کے لئے یہودیوں اور غیرقوموں دونوں کو یکساں آسانی ہے پولوس نے اپنے تجربہ سے یہی نتیجہ نکالا تھا اُس کے رجوع لانےکے وقت اس سے بحیثیت یہودی سلوک نہیں ہوا بلکہ بحیثیت انسان اگر اعمال پر نجات موقوف ہوتی تو پولوس اور غیر اقوام دونوں کے لئے ہوتی۔ پولوس کا کوئی زیادہ حق نہ تھا۔ پس جب شریعت سے ایک قدم بھی وہ نجات کے نزدیک نہ پہنچا بلکہ غیر قوموں کی نسبت اہل شریعت کو شریعت نے خدا سے زیادہ دُور کر دیا۔ تو غیر قوموں کو یہودی شریعت پر عمل کرنے سے کیا فائدہ ہو سکتا تھا؟ اور جو راست بازی اب اُسے حاصل ہوئی اور جس میں اب وہ خوشی منارہا تھا۔ اُس کے لئے اُس نے ایک اُنگلی بھی نہ ہلائی تھی۔

۶۲۔ انجیل میں خدا کی جو عالمگیر محبت اُس پر منکشف(ظاہر) ہوئی اس کے باعث وہ مسیحی دین کا از حد مداح ہو گیا۔ پہلے اس کی ہمدردی اور خدا کے بارے میں اُس کا تصور بہت محدود تھا۔ اس نئے ایمان نے اس کے طائرول کو قفس (جال یا پھندا) تعصب سے آزاد کر دیا۔ خدا اُس کے لئے ایک نیا خدا ہو گیا۔ وہ ایسا راز کہتا ہے۔ جو زمانوں اور پشتوں سے پوشیدہ چلا آتا تھا لیکن اب وہ اُس پر اور اُس کے رفیقوں پر کھل گیا۔ یہ صدیوں کا راز تھا اور ایک نیا زمانہ اس سے شروع ہونے والا تھا۔ جو کبھی جہاں پر مشاہدہ نہ ہو ا تھا۔ جو بادشاہوں اور نبیوں پر چھپا رہا وہ اب اس پر افشا (ظاہر )ہو گیا۔ یہ تو گو یا ایک نئی خلقت کا زمانہ اُس پر طلوع ہو گیا۔ اب خدا ہر انسان کو اعلیٰ درجہ کی خوشی کی دعوت دے رہا ہے یعنی ایسی راست بازی کی دعوت جو صدہا سالوں کی کوشش کے باوجود بھی لوگوں کو حاصل نہ ہوئی تھی۔

۶۳۔ ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ اس نئے زمانہ کی کوئی اطلاع گذشتہ زمانہ میں دی نہ گئی تھی۔ شریعت اور انبیاء نے اس کی گواہی دی تھی۔ شریعت کی گواہی تو منفی تھی کہ انسان کی ناکامیابی کو ظاہر کر کے اس کی ضرور ت کو پیش کر دے۔ لیکن انبیاء میں اثباتی طور پر اس کی شہادت دی گئی ہے۔ مثلاً داؤد نے ایسے شخص کی مبارک حالی کا یوں ذکر کیا ہے۔ مبارک وہ ہیں جن کی بد کاریاں معاف ہوتیں اورجن کے گناہ ڈھانکے گئے مبارک وہ شخص ہےجس کے گناہ خداوند محسوب نہ کرے گا۔

(رومیوں ۴:۷،۸ )لیکن اس سے بھی و اضح طورپر ابراہیم نے اس کی گواہی دی تھی۔ وہ راست باز ٹھہرایا گیا اور ایمان کے وسیلے راست باز ٹھہرایا گیا نہ کاموں کے وسیلے سے۔ وہ خدا پر ایمان لا یا اور یہ اُس کے لئے راست بازی گنا گیا۔ اس کے راست باز ٹھہرانے میں شریعت کو کوئی دخل نہ تھا۔ کیونکہ شریعت تو چار سو برس بعد دی گئی تھی۔ اور نہ ختنہ کو اس سے سرو کار تھا۔ کیونکہ رسم بھی راستباز ٹھہرنے کے پیچھے عمل میں آئی۔ پس انسان کی حیثیت سے نہ یہودی کی حیثیت سے ابراہیم کے ساتھ خدا نے سلوک کیا۔ اور یونہی خدا اوروں کے ساتھ سلوک کر سکتا ہے۔ پہلے پہل تو شریعت کی راست بازی پولوس کے لئے مقدس لیکن خار دار(کانٹے دار) شاہ راہ تھی۔ اور وہ سمجھتا تھا۔ کہ ابراہیم اور انبیاء اسی سڑک پر چل کر راست بازی وارث ہوئے۔ لیکن اب اُسے معلوم ہو ا کہ وہاں تو معاملہ بالکل برعکس تھا اور اب وہی تجربہ خود اُسے حاصل ہو گیا تھا۔ البتہ شریعت اور انبیاء نے تو اُس طلوع آفتاب کی کرنوں کا بیان کیا تھا۔ اور اب تو پولوس پر روز روشن چڑھ آیا تھا۔

۶۴۔ نجات کا یہ طریقہ پولوس کا ایک ذاتی عملی تجربہ سے معلوم ہوا۔ اُس نے یہ محسوس کیا کہ مسیح نے آناً فاناً ُ(جھٹ پٹ ) اُسے الہٰی اطمینان اور رضا مندی کی حالت میں پہنچا دیا جس کے لئے وہ بے سود جانفشانی کر رہا تھا۔ بتدریج وہ معلوم کرتا گیا ۔ کہ زندگی کی کیسی مبارک حالی اُسے حاصل تھی۔ اب اس کے پیغام اور رسالت کا مُدعا (مقصد)یہ تھا کہ اپنی اس نئی دریافت کو جسے وہ خدا کی راست بازی کہتا ہے سارے لوگوں پر ظاہر کرے۔ لیکن پولوس جیسے شخص کی طبیعت یہ دریافت کئے بغیر نہ رہ سکتی تھی۔ کہ کس طرح مسیح کے دل میں آنے سے یہ سب کچھ اُسے حاصل ہو گیا عرب کے بیابان میں وہ اس سوال پر غور کرتا رہا اور جس انجیلی کی اُس نے پیچھے اشاعت کی اُس میں اس کا صاف جوا ب پایا جا تا ہے۔

۶۵۔بابا آدم سے اُس کی اولاد نے افسوس ناک دوہری میراث حاصل کی۔ ایک تو قرض قصور داری جس کو وہ کسی طرح گھٹا نہیں سکتی بلکہ جو روز بروز بڑھتا جاتا ہے دوم جسمانی نفسانی ذات جو راست بازی کے قابل نہیں گنہگار انسان کی دینی حالت کے یہ دو پہلو ہیں اور ان ہی سے اس کے سارے رنج و غم صادر ہوتے ہیں۔ اب مسیح آدم تو ہے اور انسانیت کا نیا سر ہے اور جو ایمان کے ذریعے اس کے ساتھ تعلق پیدا کرتے ہیں۔ وہ دوہری میراث کے وارث ہو جاتے ہیں۔ لیکن یہ میراث پہلی سے بالکل متفرق (الگ )ہے۔ ایک طرف تو ٹھیک جس طرح آدم اوّل کے سلسلہ میں پیدا ہونے کےذریعے ہم خواہ مخواہ اس کی قصورواری میں شریک ہو جاتے ہیں۔ جیسے اگر کوئی بچہ ایسے خاندان میں پیدا ہو جو قرض میں ڈوبا ہے۔ ایسا ہی آدم ثانی کے سلسلہ میں پیدائش پانے سے اُس کے ثواب کی غیر محدود میراث میں شریک ہو جاتے ہیں۔ اور مسیح جو اپنے خاندان کا سر ہے ایسے ہر ایک اہل خاندان کی جائیداد مشترک بنا دیتا ہے اس سے ہماری قصورواری کا قرض دُور ہو جاتا ہے اور ہم مسیح راست بازی میں دولت مند بن جاتے ہیں۔ جیسے ایک آدمی کی نافرمانی سے بہت گنہگار ہو گئے ویسے ہی ایک کی فرمانبرداری سے بہت سے راست باز بن جائیں گے۔ دوسری طرف ٹھیک جیسے آدم سے ہم جسمانی نفسانی ذات ورثہ میں پاتے ہیں۔ جو خد اسے جُد ا اور راست بازی کے ناقابل ہے ویسے ہی یہ نیا آدم اپنی نسل کو جس کا یہ سر ہے ایک روحانی ذات عطا کرتا ہے جو خدا سے رشتہ رکھتی اور راست بازی میں خوش ہوتی ہے۔ پولوس کےمطابق انسان کی ذات تین اجزا پر مشتمل ہے۔ یعنی بدن۔ نفس۔اور روح۔ ان کی آپس میں ایسی ترکیب دی گئی ہے کہ ایک اعلیٰ ہےاور ایک ادنی مثلاً روح ان تینوں میں اعلیٰ ہے اور بد ن ادنی اور نفس ان دونوں میں درمیانی درجہ رکھتا ہے گنہگار انسان میں آدم کے گرنے کے وقت سے اس ترکیب میں کچھ ابتری پیدا ہو گئی۔ اور گناہ اب یہ ہے کہ بدن یا نفس نے روح کی جگہ غصب کر لی ہے۔ یہ بدن اور نفس مل کر پولوس کے محاورے میں جسم کہلاتا ہے یعنی انسانی ذات کا وہ پہلو جس کا رُخ جہان اور زمانے کی طرف ہے۔ اور اب یہ تخت کے مالک ہیں اور زندگی پر پورے حکمران ہیں۔ حالانکہ روح یعنی انسان کا وہ حصہ جس کا رُخ خدا اور ابدیت کی طرف ہے تخت سے اُتاری گئی ہے۔ اور کمزوری اور موت کی حالت میں دھکیل دی گئی ہے۔ اب مسیح آن کر انسان کی روح پر اپنی ہی روح سے قبضہ کر کے اُسے پہلی حالت میں بحال کر دیتا ہے اُس کی روح انسانی روح میں بستی ہے اُسے تروتازہ کرتی ہے اور اُسے ایسی روز افزوں(تیزی سے ترقی ) قوت بخشتی جاتی ہے۔ جس سے انسانی ذات میں اس کا اختیار اور غلبہ روز بروز بڑھتا جاتا ہے انسان جسمانی نہیں رہتا اور روحانی بن جاتا ہے خدا کی روح اُس کی ہدایت کرتی ہے اور سارے مقدس اور الہٰی امور میں اُس کی ترقی ہوتی جاتی ہے۔ البتہ یہ تو درست ہے کہ جسم آسانی سے اپنی حکومت چھیننے نہیں دیتا۔ بلکہ روح کے راستے میں طرح طرح کی رُکاوٹیں ڈال دیتا ہے اور اُس تخت کو حاصل کرنے کے لئے جان توڑ کر لڑتا ہے پولوس نے اس جنگ کا حال بڑی صفائی سے بیان کیا ہے۔ اور ہر زمانہ کے مسیحیوں نے اپنے تجربہ سے اُس کی تصدیق کی ہے۔ اس جنگ کا انجام مشتبہ (مشکوک )نہیں ۔ گناہ پھر اُن پر حکومت نہ کر سکے گا۔ جن میں مسیح کی روح بستی ہے ۔ اور نہ اُن کو خدا کو نظر وں سے گرا سکے گا۔ مجھ کو یقین ہے کہ خدا کی جو محبت ہمارے خداوند مسیح یسوع میں ہے اُس سے ہم کو نہ موت جُدا کر سکے گی۔ نہ زندگی۔ نہ فرشتے نہ حکومتیں۔ نہ حال کی نہ استقبال کی چیزیں۔ نہ قدرتیں ۔ نہ بلندی۔ نہ پستی ۔ نہ کوئی اور مخلوق۔

۶۶۔ جو انجیل پولوس عرب کے بیابان سے اپنے ساتھ واپس لا یا اور جس کی اُس نے پیچھے بڑی سر گرمی سے منادی کی اُس کا سادہ خاکہ ہم نے اوپر کھینچ کر دکھا دیا ہے۔ چونکہ وہ خود یہودی تھا اس لئے اُس قوم کے خواص اُس کے تصورات اور تصنیفات میں اس انجیل کے بیان کرنے میں ملے ہوئے ہیں اور اسی وجہ سے اُس کے بیان کی بعض تفصیلوں کا سمجھنا مشکل ہے۔ جس عقیدہ میں اُس نے تربیت پائی تھی کہ کسی شخص کو بلا یہودی نبی نجات نہیں مل سکتی ۔ اور خیالات متعلقہ شریعت جن سے اُسے قطع تعلق (واسطہ توڑ دینا)کرنا پڑا اُن سے آج کل ہمیں ہمدردی کرنا کچھ بعید(دور) نظر آتا ہے۔ لیکن پولوس کی تعلیم ان غلط راؤں کو مد نظر رکھ کر اُس کے دل میں صورت پکڑتی گئی۔ اُس کی مابعد زندگی میں یہ امر اور بھی صاف طور سے نظر آتا ہے۔ کیونکہ اُسے اپنی ان پُرانی غلطیوں سے خود مسیحی کلیسیاء میں مقابلہ کرنا پڑتا۔ کیونکہ ایک مسیحی فریق برپا ہو گیا تھا۔ جو مسیحی دین کے ساتھ یہودی شریعت کی تفصیل کو نجات کے لئے ضروری سمجھتا تھا۔ اور اس فریق سے مدت تک پولوس کا سخت مقابلہ رہا۔ اگر چہ اس مقابلہ سے اُس کو اپنی تعلیم زیادہ صفائی سے بیان کرنی پڑی لیکن ساتھ ہی اُسے ایسے اشارے اور استعارے استعمال کرنے پڑے جو آج کل نوع انسان کے لئے کچھ دلچسپی نہیں رکھتے۔ لیکن باوجود ان کمزوریوں کے پولوس کی انجیل انسان کے لئے ایک بیش بہا خزانہ ہے مثلاً نوع انسان کی ناکامیابی اور ضرورتوں کی تحقیقات اور قبل از مسیح دُنیا کی تعلیم میں خدا کا عجیب انکشاف اور الہٰی محبت کا عمق(گہرائی ) اور اس کی عالمگیری کا ظہور مکاشفے کے بڑے بھاری جز ہیں۔

۶۷۔ لیکن مسیح کا جو تصور پولوس کی انجیل میں پایا جاتا ہے۔ وہ اُس کی تعلیم کا ایک غیر فانی سر تاج ہے۔ انجیل نویسوں نے بڑی سادگی اور عجیب خوبصورتی سے سینکڑوں طرح سے مسیح یسوع کی انسانی زندگی کا نقشہ کھینچا ہے۔ اور انسانی روش کا اعلیٰ نمونہ اس طریقے سے بیان ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ پولوس ہی کا حصہ تھا۔ کہ ابن خدا نے جو کام انسان کا نجات دہندہ ہونے کی حیثیت سے کیا اُس کی اُونچائی گہرائی کو منکشف (ظاہر)کرے۔ اُس نے مسیح کی زمینی زندگی کے واقعات کا بہت ہی کم ذکر کیا ہے۔ لیکن چند اتفاقی اشاروں سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ اس نے اُن کا ذکر کرنا بہت زیادہ ضروری نہیں سمجھا حالانکہ وہ اُن واقعات سے بخوبی واقف تھا۔ اُ س کے لئے مسیح ہمیشہ وہ جلالی مسیح تھا جو آسمانی شان و شوکت کے ساتھ چمکتا ہوا دمشق کی راہ میں اُس پر ظاہر ہو ا تھا۔ اور ایسا نجات دہندہ جس نے اُسے زمین سے اُٹھا کر آسمانی اطمینان اور نئی زندگی کی خوشی میں جا بٹھایا تھا۔ جب مسیح کی کلیسیاء اپنے سر کا خیال کرتی ہے۔ کہ وہ گناہ اور موت سے روح کا مخلصی دینے والا ہے۔ اور جس کی روحانی حضوری ہمیشہ کلیسیاء کے ساتھ ہے اور ہر ایماندار کے دل میں اثر کر رہی ہے۔ اور جو ساری چیزوں کا خدا وند ہےاور بلا گناہ کے نجات دینے کے لئے پھر آئے گا۔ ان ساری باتوں کو روح اللہ نے اس رسول کے وسیلے یہ لباس پہنایا۔

پانچواں باب

اس کارندہ کے لئے کام

۶۸۔ اب پولوس اپنی انجیل سے پورا واقف ہے اور جانتا ہے کہ اب میری زندگی کا یہی کام ہے۔ کہ میں اُسے غیر قوموں کو سناؤں لیکن خاص خدمت کے شروع کرنے سے پیشتر اُسے کچھ دیر انتظار کرنا ضرور تھا۔ آئندہ سات یا آٹھ سال تک مشکل سے اُس کا کچھ بھی ذکر آتا ہے صرف قیاس کر سکتے ہیں کہ کیوں خدا نے اپنے خادم کو توقف(دیر یا وقفہ ) میں ڈالا۔

۶۹۔ شاید پولوس کی روحانی تاریخ میں کچھ ایسی وجوہات ہوں جن کے باعث اس کا انتظار کرنا مناسب نہ تھا۔ کیونکہ جن کو کسی خاص کام پر مقرر کرتے ہیں ان کے لئے انتظا ر کرنا ان کی تیاری کا ضرور ی جز ہے۔ عام وجہ شاید یہ ہو گی۔ کہ یہودی حُکام ایسے نو مسیحی شخص کی برداشت نہ کر سکتے تھے۔ اور جہاں مسیحی دین کی اشاعت ضرور تھی۔ وہاں اُسے کام کرنا مشکل تھا اُس نے دمشق میں جہاں وہ مسیحی ہو ا تھا۔ انجیل سنانے کی کوشش کی تھی لیکن یہودیوں کےجوش و خروش کے باعث اُسے فوراً بھاگنا پڑا۔ پھر یروشلم میں جا کر مسیحی دین کی شہادت دینا شروع کیا۔ لیکن دو تین ہفتے کے اندر ہی اُس کاوہاں رہنا دو بھر(مشکل ) ہو گیا اور یہ جائے تعجب نہیں کہ یہودی ایسے شخص کو جوا بھی اُن کے مذہب کا بڑا حامی تھا ایسے دین کی اشاعت کرنے دیتے تھے۔ جسے وہ نیست کرنا چاہتے تھے۔ جب وہ یروشلم سے بھاگ گیا تو وہ اپنے وطن ترسس کو گیا اور چند سال تک گمنام رہا۔ البتہ وہ اپنے خاندان کو تو مسیح کی خبر سناتا رہتا ہو گا۔ اور کچھ اس امر کا بھی پتہ ملتا ہے کہ کلکیہ کے علاقہ میں بھی اُس نے انجیل سنائی اور اگر اُس نے ایسا کیا تو ایسے طور پر کیا جیسے کوئی آدمی پوشیدگی میں کچھ کرتا ہے۔ برملا وہ کچھ نہیں کر سکا جیسا کہ اس نئے مذہب کا تقاضاہے۔

۷۰۔ ان چندسالوں کے بارہ میں یہ صرف قیاسی وجوہات ہیں۔ لیکن ایک بڑی اہم وجہ بھی تھی۔ اس عرصہ میں ایک بڑا انقلاب واقع ہوا تھا۔ جو نوع انسان کی تاریخ میں بڑا مشہور گزرا ہے جس کے ذریعے سے غیر قوموں کو بھی مسیح کی کلیسیاء میں داخل ہونے کے لئے یہودیوں کے برابر حقوق ملے۔ یہ تبدیلی یروشلم میں رسولوں کے گروہ سے شروع ہوئی۔ اور پطرس کے وسیلے جو رسولوں میں بڑا تھا یہ تغیر(انقلاب یا تبدیلی ) وقوع میں آیا۔ یافہ میں اُسے ایک رویت نظر آئی جس میں اُس نے پاک اور ناپاک جانوروں کو ایک چادر میں آسمان سے اُترتے دیکھا۔ جس کے ذریعے وہ اس نئے کام کے لئے تیار ہو گیا۔ اور اُس نے قیصر یہ کے غیر قوم قر نیلیوس اور اس کے خاندان کو بپتسمہ کے ذریعے بلا ختنہ کلیسیاء میں داخل کیا۔یہ ایک نئی بات تھی جس کا اثر دُور تک پہنچنے والا تھا۔ اور پولوس کے کام کے لئے یہ گویا تمہید تھی اور مابعد کے واقعات سے ثابت ہو گیا۔ کہ یہ انتظام کیسی حکمت پر مبنی تھا۔ کہ غیر قوم پہلے پہل پولوس کے ہاتھ سے نہیں بلکہ پطرس کے ہاتھ سے داخل ہوں۔

۷۱۔ جوں ہی یہ امر واقع ہوا پولوس کے کام کے لئے میدان صاف ہو گیا۔ اور کام کا دروازہ کھل گیا۔ جن دنوں میں قیصر یہ کے خاندان نے بپتسمہ پایا تقریباً انہیں دنوں میں سوریہ کے درالخلافہ انطاکیہ شہر کے غیر قوم مسیحیوں میں ایک بڑی روحانی ترقی ظاہر ہوئی جو مسیحی ایذارسانی کے باعث بھاگ کر یروشلم سے انطاکیہ کو گئے تھے۔ ان کی تاثیر سے یہ عمل میں آیا اور رسولوں نے بھی اس کو منظور کیا اور اپنے معتبر شخص برنباس کو یروشلم سے اس کام کی نگرانی کے لئے روانہ کیا۔ بربناس پولوس سے واقف تھا۔ جب پولوس پہلی دفعہ یروشلم کو گیا تھا۔ اور مسیحیوں سے مل جانا چاہتا تھا۔ تو مسیحی اُس سے ڈرتے تھے۔ اور انہیں اندیشہ تھا کہ کہ کہیں یہ بھیڑوں کے بھیس میں بھیڑیا نہ ہو۔ لیکن برنباس نے ایسے شک و شبہات کی پروا نہ کی۔ بلکہ اس نومرید کا حال سنااُس کا یقین کیا اور دوسروں کو یقین دلا یا۔ یہ ملاقات صرف دو یا تین ہفتہ تک ہی رہی۔ کیونکہ پولوس کو جلد یروشلم چھوڑنا پڑا اور جب برنباس انطاکیہ کو گیا تو وہاں کی روحانی تحریک کی وسعت سے ذرا گھبرایا اور مدد گار کی ضرورت محسوس کی۔ اور اسے خیال گذرا کہ پولوس اس کام میں اس کا ہاتھ بٹا سکے گا۔ اور ترسس دُور نہ تھا اس لئے اُس کی تلاش میں وہاں گیا۔ پولوس نے اس امر کو منظور کیا اور اس کے ساتھ انطاکیہ کو گیا۔

۷۲۔ جس وقت کاپولوس منتظر تھا وہ آپہنچا اور بہت بڑی مذہی اور سر گرمی سے غیر قوموں کو انجیل سنانے لگا۔ اور نتیجہ یہ ہوا کہ بہت غیر قوم مسیحی ہو گئے اور ان کو نیا نام کر سٹیان یعنی مسیحی دیا گیا جو آج تک چلا آتا ہے۔ اور شہر انطاکیہ جہاں تقریباً پانچ لاکھ باشندے تھے۔ یروشلم کی بجائے ۔ مسیحی دین کا مرکز وار صدر مقام ہو گیا بہت جلد ایک بڑی کلیسیاء پیدا ہوگئی۔ اور ان کی سرگرمی کا یہ نتیجہ ہوا کہ غیر اقوام میں انجیل سنانے کے لئے مشنری روانہ کرنے پڑے اور پولوس اس کا م کے لئے چنا گیا۔

۷۳۔ اب چونکہ پولوس کے سامنے وہ کام آیا جس کے لئے وہ تیار ہو رہا تھا۔ اس لئے مناسب ہے کہ اُس وقت کی ملکی حالت کا کچھ ذکر کیا جائے جس ملک کو فتح کرنے کے واسطے وہ روانہ ہونے پر تھا۔ پولوس کے دنوں میں معلومہ دُنیا ایسی وسیع نہ تھی جسے ایک آدمی فتح نہ کر سکتا ہو۔ اور جو نئی طاقت اس دُنیا پر حملہ آور ہونے والی تھی۔ اس کے لئے یہ تیار تھا۔

۷۴۔ اس میں وہ سارا ملک داخل تھا جو بحیرہ ظلمات کو محیط ہے اس سمندر کا نام وسطی سمندر تھا کیونکہ اس وقت یہ گویا جہان کا مرکز تھا۔ یورپ کے جنوبی ممالک میں تجارت کی گرم بازاری تھی۔ ایشیا کا مغربی حصہ اور افریقہ کا شمالی علاقہ اس میں داخل تھا اور اس چھوٹی دُنیا میں تین بڑے شہر تھے۔ یعنی روم ۔ آئینی اور یروشلم یعنی تین قوموں رومیوں ۔ یونانیوں اور یہودیوں کے صدر مقام۔ اور یہ تینوں قومیں اُس دنیا پر حکمران تھیں۔ یعنی ان تینوں قوموں کی تاثیر ہر جگہ نمودار تھی۔

۷۵۔ پہلے پہل یونانی مالک ہوئے یہ لوگ بڑے ذہین اور ہوشیار۔ فن تجارت اور دیگر علوم و فنون میں پورے ماہر تھے۔ قدیم زمانہ سے ان کو دیگر ممالک میں اپنی بستیاں قائم کرنے کا شوق تھا۔ چنانچہ یہ لوگ اس مقصد کے لئے مشرق و مغرب کو اپنے وطن سے دُور دُور نکل گئے۔ آخر کار اس قوم میں ایک ایسا شخص برپا ہوا جو اپنے زور بازو سے ہندوستان تک فتح کرتا چلا آیا۔ لیکن سکندر کی وفات کے بعد اس کی سلطنت کئی حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ لیکن یونان کی تاثیر بہت دیر تک دُنیا پر رہی۔ یونانی شہر مثلاً انطاکیہ واقع سوریہ اور سکندریہ واقع مصر مشرق میں بڑے سر سبز اور بارونق تھے یونانی تاجر ہر تجارت گاہ میں کثر ت سے پائے جاتے تھے۔ اور یونانی معلم اپنے ملک کا علم ادب بہت ملکوں میں سکھاتے تھے۔ اور ان سب سے بڑھ کر یونانی زبان عام ہو گئی تھی۔ جس کے ذریعے قوم قوم کے ساتھ اپنے خیالات کا تبادلہ کر سکتی تھی۔ یہاں تک کہ نئے عہد نامہ کے دنوں میں یہودی بھی یونانی ترجمہ میں اپنے نوشتوں کو پڑھتے تھے کیونکہ ان کی اصلی زبان عبرانی مُردہ ہو گئی تھی۔ اور شاید دُنیا بھر کی زبانوں میں یونانی سب سے کامل زبان ہے اور شاید یہ بھی خدا کی حکمت تھی۔ کہ مسیحی دین سے پیشتر یونانی زبان سب جگہ پھیل جائے تا کہ انجیل کی اشاعت میں ایک بڑا وسیلہ ہو۔ نیا عہد نامہ یونانی میں لکھا گیا تھا۔ اورجہاں کہیں مسیحی دین کے رسول گئے وہ یونانی زبان کے ذریعے اپنے خیالات ہر جگہ ظاہر کر سکتے تھے۔

۷۶۔ یونانیوں کے بعد رومیوں کی باری آئی کہ حاکم ہوں۔ یہ ایک چھوٹا سا فرقہ قبیلہ روم کے نزدیک رہتا تھا۔ اور انہیں کے سبب سے اس شہر کا نام روم ہو گیا۔ لیکن بعد ازاں رفتہ رفتہ وہ ایسی طاقت پکڑتے گئے اور فنِ جنگ اور حکومت میں ایسی مہارت حاصل کی کہ جہاں کہیں گئے فتح پائی اور دُنیا کے کناروں تک مالک بن گئے جہاں سکندر نے اپنا سکہ بٹھا یا تھا وہاں اب رومیوں کا جھنڈا لہرانے لگا۔ خاک سائے جبل الطارق سے لے کر مشرق کی انتہا تک لوگ ان کا لوہا ہاننے لگے۔ لیکن ذہانت میں وہ یونانیوں کے برابر نہ تھے۔ ان کی خاص صفت تھی طاقت اور عدل۔ اور ان کے فنون شاعری اور مصوری نہ تھے۔ بلکہ فنِ جنگ و فنِ انصاف ۔ مختلف فرقوں کے درمیان جو جدائی کی دیواریں تھیں۔ اُن کو توڑ ڈالا اور ان کو مجبور کیا کہ ایک دوسرے کے ساتھ دوستانہ برتاؤ کریں۔ کیونکہ وہ سب ان کے ماتحت تھے۔ انہوں نےجا بجا سٹرکوں کو بنایا اور آمددرفت کے راستے کھول دیئے اور ان کو روم کی شاہی سڑک سے جا ملایا۔ اور فن انجیزی کا کمال ان میں نظر آتا ہے۔ اور ان سڑکوں میں سے بعض آج تک موجود ہیں۔ ان سڑکوں کے ذریعے اشاعت انجیل میں بڑی مد دملی۔ اورایک طرح سے رومی حکومت مسیحی دین کے لئے راہ تیار کرنے والی تھی۔ نہ صرف مسیحی مشنریوں کو آمددرفت میں آسانی ہو گئی تھی بلکہ بعض مختلف مقاموں میں بعض حُکام(حاکم کی جمع) کے ظلم سے حفاظت بھی ہوئی۔

۷۷۔اسی اثنا میں تیسری قدیم قوم نے بھی اپنا اثر جہان پر ڈالا تھا۔ یہودی سارے جہان میں پھیل گئے لیکن رومیوں اور یونانیوں کی طرح تیر و تفنگ(ہوائی بندوق) سے نہیں۔ یہ قوم صدیوں سے ایک جنگی بہادر کی آمد کے خواب دیکھ رہی تھی۔ جس کی بہادری کے سامنے ان کے خیال میں بڑے بڑے مشہور فاتح ماند پڑ جائیں گے۔ لیکن وہ اب تک باوجود انتظار کے ظاہر نہ ہو ا تھا۔ لیکن یکتائی اور امن کے طریقہ سے وہ تہذیب کے بڑے بڑے شہروں کے مالک ہو گئے تھے۔ ملاکی نبی اور متی کے زمانہ کے درمیان جو چار صدہا گذری ہیں جن کا ذکر مقدس نوشتوں میں پایا نہیں جاتا یہودی نسل میں ایک ایسا عجیب تغیر(تبدیلی یا انقلاب ) و اقع ہوا ہے۔ کہ کسی دوسری قوم کی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ عہد عتیق کے زمانہ میں تو وہ فلسطین کی چار دیواری کے اندر ہی بند نظر آتے ہیں اور عموماً زراعت کے کام میں مشغول ہیں اور دیگر اقوام کے ساتھ ملنے سے بڑا پرہیز کرتے ہیں۔ عہد جدید میں بھی یہی نظر آتا ہے۔ کہ وہ یروشلم پر گرویدہ ہیں اور یہ خیال ان کے دل میں نقش ہے کہ باقی لوگوں سے علیحدہ رہیں ( لفظ فریسی سے یہی مراد تھی ) لیکن اب ان کی عادت اور رہائش میں بڑا فرق پیدا ہو گیا تھا۔ زراعت کو انہوں نے بالائے طاق رکھ دیا اور دل و جان سے تجارت کے کام میں مصروف ہو گئے اور اس میں بڑی کامیابی حاصل کی۔ اور اسی غرض سے وہ سارے جہان میں پھیل گئے۔ افریقہ۔ ایشیا اور یورپ میں کوئی ایسی بڑی جگہ نہ تھی۔ جہاں یہودی نہ پہنچے ہوں۔ یہ تو اس وقت بتانا مشکل اور باعث طوالت (طول یا درازی )ہے۔ کہ کس طرح سے یہ عجیب تبدیلی اُن میں واقع ہوئی لیکن یہ واقع ضرور ہوئی اور مسیحی دین کی ابتدائی تاریخ میں یہ واقعہ بڑا مد د گار ثابت ہوا۔ جہاں کہیں یہودی آباد تھے۔ وہاں ان کا عبادت خانہ بھی تھا۔ وہاں ان کے مقدس نوشتوں کی تلاوت ہوتی تھی۔ اور خدائے واحد پر وہ پختہ ایمان رکھتے تھے۔ صرف اتنا ہی نہ تھا۔ بلکہ ان عبادت خانوں کے ذریعے غیراقوام میں سے بعض لوگ یہودی دین میں داخل بھی ہوتے تھے۔ غیر مذاہب اُن دنوں میں زوال کی حالت میں تھے۔ چھوٹی قوموں نے اپنے دیوتاؤں کو ماننا چھوڑ دیا تھا۔ کیونکہ دیوتاؤں نے یونانیوں اور رومیوں کے مقابلہ میں ان کی مدد نہ کی تھی۔ لیکن فاتح قومیں بھی بعض دیگر وجوہات سے اپنے دیوتاؤں پر ایمان نہ رکھتی تھیں۔ یہ زمانہ عموماً بے ایمانی کا زمانہ تھا۔ لیکن پھر بھی کوئی زمانہ خالی نہیں جس میں کچھ نہ کچھ لوگ حقیقی خدا کے متلاشی نہ ہوں۔ جس پروہ بھروسہ کر سکیں۔ ایسے طالبان حق میں سے بعض نے اپنے مذہبی قصہ کہانیوں سے یہودی دین کی پاک توحید میں پناہ لی تھی۔ اس یہودی دین کی اصولی باتیں مسیح عقیدہ کی بھی بنیاد ہیں ۔ جہاں کہیں مسیحی دین کے ایلچی گئے وہاں ان کو ایسے لوگ ملے جن کےعقیدہ کے ساتھ ان کا عقیدہ بہت کچھ ملتا تھا ۔ یہ مشنری پہلے پہل یہودیوں ہی کے عبادت خانوں میں وعظ کرتے تھے۔ ان کے پہلے مرید بھی یہودیوں اور یہودی مریدوں سے تھے۔ عبادت خانہ نے پل کا کام دیا جس پر عبور کر کے مسیحی دین غیر اقوام کے پاس پہنچا۔

۷۸۔ پس جس جہان کو فتح کرنے کے لئے پولوس نکلنے کو تھا۔ اُس کی یہ حالت تھی۔ اس جہان پر یہ تہری تاثیر تھی ۔ لیکن ان کے سوائے اور دو قسم کے لوگ بھی آباد تھے۔ جن میں سے بہت مسیحی دین پر ایمان لائے ۔ ان کو بھی یاد رکھنا ضرور ہے یعنی مختلف ممالک کے اصلی باشندے اور غلام جو یا تو لڑائی میں پکڑے گئے تھے۔ یا ایسے اسیروں کی اولاد تھے۔ اور جن کو جا بجا جانا پڑتا تھا۔ کیونکہ ان کے مالک حسب ضرورت ان کو بیچ دیا کرتے تھے۔ جس مذہب کا خاص فخر یہ ہو کہ وہ غریبوں کے لئے خوشخبری ہے۔ وہ اس ذلیل شدہ فرقہ کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ اور اگرچہ مسیحی دین کا مقابلہ اُس زمانہ کی حکمران قوموں سے ہوا تو بھی یہ فراموش نہ کریں کہ اس کی خاص خوبی یہ ہے کہ غریبوں اور فروتنوں کو شادو خوش کرے۔

چھٹا باب

مشنری سفر

پہلا مشنری سفر

۷۹۔ شروع سے مسیحی واعظوں کا یہ دستور رہا ہے۔ کہ وہ اس خدمت کے لئے اکیلے نہیں بلکہ دو دو کر کے جا یا کرتے تھے۔ پولوس نے اس پر یہ زیادہ کیا کہ ایک کی بجائے دور فیقوں کو اپنے ہمراہ لیا ان میں سے ایک تو نو عمر شخص تھا۔ غالباً اُس کے سپرد سفر کا انتظام کیا گیا تھا۔ پہلے سفر کے وقت برنباس اور یوحنا مرقس برنباس کا خالہ زاد بھائی اُس کے ساتھ گیا۔

۸۰۔ اس امر کا ذکر پیشتر ہو چکا ہے کہ برنباس نے پولوس کو ڈھونڈ کر کلیسیائی خدمت کی طرف اُس کی توجہ دلائی اور غالباً شروع شروع میں وہ پولوس کا مربی (تربیت یا پرورش کرنے والا) سمجھا جاتا تھا۔ اور مسیحی جماعت میں اُس کی بڑی عزت تھی۔ وہ شاید پنتکوست کے دن ایمان لایا۔ اور مابعد واقعات میں بڑا حصہ لیا اور اچھا خاندانی شخص اور صاحب جائید اد کپرس کا باشندہ تھا۔ اور اس نئے مذہب کے لئے اُس نے اپنا سب کچھ قربان کیا ۔ مذہبی جو ش میں جب مسیحی اپنی جائید اد بیچ کر رسولوں کے قدموں پر لا کر رکھ دیتے تھے۔ اُس وقت برنباس نے بھی اپنی زمین فروخت کر کے رسولوں کے سپرد کی۔ اس کے بعد وہ برابر وعظ و نصیحت کے کام میں لگا رہا۔ اسے خدا نے فصاحت کی نعمت بھی دی تھی۔ جس کے باعث اُس کا لقب برنباس یعنی نصیحت کا بیٹا پڑ گیا۔ لُسترا نے ان کو دیوتا خیال کیا تو انہوں نے برنباس کو جُوپی ٹر (زہرہ) اور پولوس کو مرکری (عطادر ) کہا۔ قدیم قصوں میں جوپی ٹرکا حلیہ یہ آیا ہے۔ کہ وہ دراز قد اور شکیل تھا اور مرکری پست قد اور انسان اور دیوتاؤں کے باپ کا تیز رفتار ایلچی تھا۔ اس لئے غالباً برنباس کی بزرگانہ قطع وضع (طور طریقہ )سے یہ ٹپکتا تھا کہ یہ سردار ہے اور پولوس پست قد سرگرم ملازم ہے۔ اور جس رُخ وہ روانہ ہوئے اُس سے بھی یہ ظاہر ہے کہ برنباس کی مرضی سے یہ سمت اختیار کی گئی۔ پہلے وہ کپرس کو گئے جہاں بربناس کی جائید اد تھی۔ اور جہاں اب تک اُس کے بہت دوست ہوں گے۔ یہ جگہ سلوکیہ سےجو انطاکیہ کا بندر تھا۔ اسی میل جنوب مغرب کو واقع تھی۔ اور شاید ایک ہی دن میں وہاں پہنچ گئے۔

۸۱۔ اگر چہ برنباس سردار معلوم ہوتا تھا۔ تو بھی یہ نیک شخص غالباً ابھی سے محسوس کرنے لگ گیا تھا کہ یوحنا اصطباغی کے فروتنی کے الفاظ اُس کے رفیق کے حق میں صادق آئیں گے۔ کہ ضرور ہے کہ وہ بڑھے اور میں گھٹوں۔ اور سچ مچھ جو ں ہی ان کا م شروع ہوا اس کی صداقت بھی ظاہر ہونے لگ گئی ۔ اس جزیرے میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک کام کرکے یہاں کے صدر مقام پافس میں پہنچے اور جن مشکلات کا وہ سامنا کرنے کو نکلےان کی کافی شدت یہاں ان کے سامنے آئی۔ پافس میں وینس یعنی محبت کی دیوی کی پرستش ہوتی تھی۔ اور روایت ہے کہ یہ دیوی اُسی مقام پر سمندر کی جھاگ سے پیدا ہوئی تھی۔ اور اس کی پرستش کے ساتھ حدود درجے کی عیاشی ملحق تھی۔ یایہ کہو کہ یہ اخلاقی بدی میں ڈوبے ہوئے یونان کی ایک تصویر تھی۔ پافس رومی حکومت کا بھی صدر مقام تھا اور وہاں کا حاکم سرجیوس پولوس نامی شخص تھا۔ یہ بڑا شریف شخص تھا۔ لیکن ایمان کی کمی تھی اور یہی حال روم کا تھا کہ اپنے بچوں کی اعلیٰ روحانی ضروریات کو وہ پورا نہ کر سکتا تھا۔ اس کے دربار میں الماس نامی ایک یہودی جادو گر کا بڑا رسوخ تھا۔ جس سے یہودی سیرت کی پست حالی کی شہادت ملتی ہے۔ سارے جہان کا یہی حال تھا۔ اور اسی قسم کی برائیوں کے علاج کے لئے مشنری روانہ ہوئے تھے۔ اس موقع پر پولوس کی خداادا قوتیں پہلی دفعہ ظاہر ہوئی۔ روح نے اُسے ایسی قوت عطا کی کہ وہ ان ساری مشکلات پر غالب آئے اس نے یہودی جادو گر کو سب کے سامنے شرمندہ کیا اور رومی حاکم کو خدا کی طرف پھیر اور یونانی مندر کے مقابلہ میں مسیحی کلیسیا کی بنیاد ڈالی۔ اس وقت سے برنباس نے نیچا دیکھا اور پولوس سردار ہو گیا۔ اب سے لے کر ان کے ناموں کی ترتیب یہ نہیں رہی کہ برنباس اور ساؤل۔ بلکہ یہ یہ ہو گئی۔ پولوس اور برنباس ۔ جو ادنیٰ تھا وہ اعلیٰ ہو گیا۔ گویا اب سے پولوس ایک نیا شخص بن گیا اور نیا درجہ اُس کو مل گیا اب سے لے کر وہ اپنے یہودی نام ساؤل سے نہیں کہلایا بلکہ پولوس کہلانے لگا اور اسی نام سے وہ اب تک مسیحیوں میں مشہور ہے۔

۸۲۔ پر گامیں جہاں سے وہ آگے کی طرف سفر کرنے والے تھے۔ ایک مصیبت اُن پر پڑی۔ یوحنا مرقس اپنے رفیقوں کو چھوڑ جہاز پر سوار ہو کر وطن کو روانہ ہوا۔ شاید پولوس کا یہ نیا درجہ اُسے ناگوار معلوم ہوا۔ اگرچہ اس کے فراخ دل ماموں کو۔۔۔۔نہ لگا اور اُس کو ایک معمولی قدرتی بات منجانب اللہ سمجھا۔ یا شاید راہ کے خطرات سے ڈر گیا جو آگے چل کراُن کو پیش آنے والے تھے۔ کیونکہ وہ راہ ایسی خطرناک تھی کہ مضبوط دل والوں کےچھکے چھوٹ جاتے تھے۔ پرگا کے قریب سے کوہ طارس کی برف پوش سفید چوٹیا ں شروع ہو جاتی تھیں۔ اور جن کو تنگ دروں کی راہ سے عبور کرنا پڑتا تھا۔ اورجہاں جھولنے والے پُل ندی نالوں پر بنے ہوئے تھے۔ اور ڈاکوؤں کے قلعے قوی ہیکل دیو کی طرح کھڑے تھے۔ اور بے چارے مسافروں پر یہ ڈاکو چیل کی طرح آجھپٹتے تھے۔ اور رومی سلطنت بھی ان ڈاکوؤں کی سر گوبی میں قاصر رہی تھی۔ اُن دروں سے گذر کر جو علاقہ تھا وہ بھی دلکش نہ تھا۔ کوہ طارس کی شمال کی طرف ایک وسیع سطح مرتفع جو اس علاقہ کی پہاڑیوں سے بھی بلند تھا۔ کہیں جھیل تھی کہیں پہاڑی اور کہیں کہیں آبادی بھی پائی جاتی تھی۔ اور بولیاں بھی مختلف بولی جاتی تھیں ان سب باتوں نے مرقس کو ڈرا دیا۔ اور وہ واپس چلا گیا۔ لیکن یہ رفیق اپنی جانوں کو ہتھیلی پر رکھ کر آگے کی طرف روانہ ہوئے۔ ان کے لئے اتنا جاننا کافی تھا کہ یہاں سینکڑوں روحیں تباہ ہو رہی ہیں اور انہیں نجات کی خبر کی ضرورت ہے۔ اور پولوس کو یہ بھی علم تھا کہ تھوڑے بہت یہودی اس علاقہ میں غیر اقوام کے درمیان پائے جاتے ہیں۔

۸۴۔ ان علاقوں میں جا کر انہوں نے کس طرح سے اپنا کام کیا ہوگا۔ اس کا نقشہ کھینچنا ذرا مشکل ہے۔ یہ دونوں چپ چاپ شہر یا گاؤں میں جاتے جیسے عام مسافر جاتے ہیں۔ اور شاید کسی کو ان کے آنے کی پرواہ بھی نہ ہوتی تھی۔ جیسا کہ آج کل حال ہے۔ بہتیرے مسافر آتے ہیں۔ بہتیرے چلے جاتے ہیں۔ پہلے پہل وہ کسی جگہ جا کر اپنے ٹکنے کی جگہ تلاش کرتے۔ بعد ازاں کام کی۔ کیونکہ وہ جہاں کہیں جاتے اپنے ہاتھوں کی محنت سے اپنا گزارہ کرتے تھے۔ اور یہ عام بات تھی۔ کس کو خیال تھا۔ کہ یہ گرد آلود مسافر کبھی اس خیمہ دوز کے پاس جاتا ہے کبھی اُس خیمہ دوز کے پاس اور کام کی درخواست ان سے کرتا ہے وہ جہان کی کایا پلٹ دینے والا شخص ہے۔ سبت کے روزہ عام یہودیوں کی طرح اپنا کام بند کرتے اور عبادت خانہ کو جاتے دوسرے عبادت کرنے والوں کے ساتھ زبور اور دعاؤں کے پڑھنےمیں حصہ لیتے اور خدا کا کلام سنتے اور اس کے بعد سردار حاضرین سے درخواست کرتا کہ اگر کوئی نصیحت کا کلمہ سنانا چاہتا ہے۔ تو سُنائے۔ اب پولوس کو موقع ملتا ہے۔ وہ کھڑا ہوتا اور ہاتھ پھیلا کر بولنے لگتا۔ پھر تو حاضرین پولوس کے لب و لہجہ سے جان لیتے کہ یہ کوئی عالم ربی ہے اور بڑی توجہ سے سنتے ۔ جو مقام پڑھا گیا تھا اُس سے شروع کر کے وہ یہودی تواریخ کو پیش کرتا۔ اور بناتا کہ جس مسیح کا انتظار باپ دادا کرتے تھے۔ اور جس کا وعدہ ان کے نبیوں نے کیا تھا۔ وہ آگیا ہے اور کہ میں اُس کی طرف سے رسول ہو کر آیا ہوں ۔ پھر یسوع کا حال سناتا کہ یہ سچ ہے کہ یروشلم کے سرداروں نے اُس کو رد کر کے اُسے صلیب دی۔ لیکن یہ سب کچھ نبیوں کے کلام کے مطابق اُس پر واقع ہوا اور اُس کا مُردوں میں سے جی اُٹھنا قطعی ثابت ہے کہ وہ خدا کی طرف سے بھیجا گیا تھا۔ اب وہ سر فراز شدہ سر دار اور نجات دہندہ ہے کہ اسرائیل کو توبہ اور گناہوں کی معافی بخشے۔ پھر تو جس قسم کی بحث اور گفتگو چھڑ جاتی ہو گی۔ اُس کو خیال کر سکتے ہو۔ ہفتے کے ایام میں تو شہر میں اُس کا چرچا ہوتا ہو گا۔ اور پولوس اپنے کام کرتے وقت یا شام کو فراغت پاکے اس مضمون پر زیادہ آگاہی دیتا ہو گا۔ اگلے سبت کو عبادت خانہ بھر جاتا نہ صرف یہودیوں سے بلکہ غیر اقوام کے لوگوں سے بھی جو ان اجنبیوں کو دیکھنا چاہتے تھے۔ اور پولوس اب اس بھید کو ظاہر کرتا کہ جو نجات یسوع مسیح کے وسیلے پیش کی جاتی ہے۔ وہ نہ صرف یہودیوں کے لئے مفت ہے بلکہ غیر قوموں کے لئے بھی اور جہاں پولوس کی زبان سے یہ نکلا اور یہودیوں نے اس کی مخالفت کرنی اور کفر کہنا شروع کیا۔ اور پولوس ان کی طرف سے منہ پھیر کر غیر قوموں سے مخاطب ہوتا۔ پھر تو کیا تھا یہودی بھڑک اُٹھتے اور ہنگامہ برپا کرتے یا حُکام(حاکم کی جمع) کے ہاتھ میں گرفتار کر ا دیتے۔ اور ان کو شہر سے نکلو ا دیتے تھے۔ انطاکیہ واقع پسدیہ میں یہی واقعہ ہوا۔ یہ ایشائے کوچک میں ان کا پہلا مقام تھا اور پولوس کی مابعد زندگی میں یہ سینکڑوں دفعہ واقع ہوا۔

۸۵۔ بعض اوقات ان کو جلد ی بھاگنا بھی نہ ملا مثلاً لُسترا میں وہ گنواربت پر ستوں کے درمیان گھر گئے۔ پہلے تو وہ ان واعظوں کے کلام اور شکل سے متاثر ہو کے ان کو دیوتا سمجھنے لگے اور ان کے آگے قربانی چڑھانے کو تیار تھے۔ ان مشنریوں نے جلدی سے ان کو اس فعل سے روکا۔ اور ان لوگوں کے دلوں میں ایک انقلاب پیدا ہو گیا اور پولوس پر پتھراؤ کیا اور اُسے مُردہ سمجھ کر شہر کے باہر پھینک آئے۔

۸۶۔ اس قسم کے جوش و خروش اور خطروں کے درمیان سے اس دُور دراز علاقہ میں ان کو گزرنا پڑا۔ لیکن ان کی سرگرمی میں ذرا فرق نہ آیا۔ نہ انہوں نے واپس آنے کا نام لیا بلکہ جب ان کو ایک شہر سے نکال دیا تو وہ آگے دوسرے شہر کو چل دیئے۔ اگر چہ ظاہر ا کچھ ناکامیابی کبھی معلوم ہوئی لیکن جب وہ کسی جگہ سے روانہ ہوئے تو کچھ نہ کچھ تو مرید وہاں چھوڑے ۔ شاید کچھ یہودی مسیحی یا یہودی مریدوں میں سے کچھ مسیحی اور بعض غیر قوموں میں سے مسیحی مُرید جن کے لئے انجیل کا پیغام بھیجا گیا تھا۔ انہوں نے اُسے قبول کیا۔ یعنی وہ تائب جو اپنے گناہوں کے بوجھ کو محسوس کر کے پچھتا رہے تھے۔ جو روحیں جہان سے اور اپنے آبائی مذاہب سے غیر مطمئن تھیں۔ جو دل الہٰی محبت اور ہمدردی کے آرزو مند تھے۔ یعنی جتنے ابدی زندگی کے لئے مقرر کئے گئے تھے۔ ایمان لائے۔ اور شہر میں اس قسم کے لوگ مسیحی کلیسیاء کا مر کز بن گئے۔ عین لُسترا میں جہاں رسولوں کو ظاہر شکست فاش ملی تھی۔ اور ایمانداروں کا ایک چھوٹا سا جھنڈ شہر کے پھاٹک کے باہر زخم خوردہ رسول کے گرد جمع تھا یونیقی اور لوئس دو ایماندار عورتیں ان کی خدمت کرتی تھیں اور اسی جگہ نوجوان تمطاؤس نے رسول کے خون آلودہ چہرے کو دیکھ کر اس کو پیار کرنا شروع کیا کیونکہ وہ اپنے ایمان کے لئے جان دینے کو تیار تھا۔

۸۷۔ ان دُکھ اور بے انصافی کے ایام میں ایسے اشخاص کی ہمدردی پولوس کے زخم پر گویا مرہم کا کام کر رہی تھی۔ بعضوں کا خیال ہے کہ انہیں لوگوں میں سے بعض گلاتی کلیسیائیں بن گئیں۔ اگر یہ درست ہو تو گلایتوں کی طرف کے خط سے ہم دریافت کر سکتے ہیں کہ کس قسم کی محبت اُن لوگوں نے پولوس سے دکھائی رسول خود کہتا ہے کہ خدا کے فرشتے کی طرح انہوں نے مجھے قبول کیا۔ بلکہ خود یسوع مسیح کی طرح وہ تو اپنی آنکھیں نکال کر پولوس کو دینے کےلئے تیار تھے یہ لوگ بڑے مہربان اور بڑے پُر جوش تھے۔ اور یہ اُن کے مذہب کا خاصہ تھا اور جب وہ مسیحی ہو گئے تو اسی قسم کا مزاج ان میں چلا آیا۔ وہ خوشی اور روح قدوس سے بھر گئے اور بڑی تیزی سے یہ مذہبی تاثیر چاروں طرف پھیل گئی۔ یہاں تک کہ ان چھوٹی مسیحی جماعتوں سے مسیحی دین کی صدا کوہ طارس کے نشیبوں اور سسترس (CESTRUS)اور ہالیس (HALYS)کےمرغزاروں تک گونج اُٹھی محبت کے ایسے جذبے کو دیکھ کر پولوس کا دل خوشی منائے بغیر نہ رہ سکتا تھا۔ اور خود بڑی محبت ان سے کرنے لگ گیا۔ ان شہروں کا ذکر آتا ہے انطاکیہ (واقع پسدیہ )اقونیوم۔ لُستر اور دربے۔ لیکن جب وہ دربے میں کام ختم کر چکا اور اُس کےلئےراہ کھل گئی کہ کلکیہ سے ترسس کو اُتر جائے اور وہاں سے انطاکیہ کو واپس ہو تو جس راہ سے وہ گیا تھا۔ اُسی راہ سے واپس آنا اُس نے پسند کیا۔ باوجود سخت خطروں کے اُس نے ان ساری جگہوں کو پھر دیکھا تا کہ نو مریدوں کو تسلی دے اور خوشی سے دُکھ اُٹھانے کی ترغیب دے اور اُس نے ہر شہر میں بزرگوں کو مقر ر کیا تا کہ اس کی غیر حاضر میں کلیسیاؤں کی نگرانی کریں۔

۸۸۔ آخر مشنری جنوبی ساحل کی طرف واپس آئے اور جہاز لے کر انطاکیہ کو چلے جہاں سے وہ اس کام کے لئے نکلے تھے۔ بدن تو دُکھ اور محنت سے تھکا تھا۔ لیکن دل کا میابی سے خوش تھا۔ اسی حالت میں وہ ان لوگوں میں پہنچے جنہوں نے اُن کو روانہ کیا۔ اور جو غالباً ان کے لئے برابر دُعا مانگ رہے تھے۔ اور جو عجیب عجیب کام اور فضل کے معجزے غیر قوموں میں خداوند نے اُن کو دکھائے اور ان کے ذریعے کئے اُن سب کا حال ان کو سنایا۔

دُوسرا مشنری سفر

۸۹۔ پہلے سفر میں تو پولوس گویا اپنے پر و بازو کا تجربہ کر رہا تھا۔ کیونکہ اگرچہ اس دورہ میں بڑے بڑے امور سے سامنا پڑا تو بھی یہ ایک محدود حلقہ کا یعنی اپنےہی صوبہ کے حدود میں دورہ تھا۔ لیکن دوسرے سفر میں وہ بہت دور تک پر واز کر گیا۔ اور بہت بڑے خطر ے اُسے پیش آئے۔ یہ سفر نہ صرف اس کے سفروں میں سب سے بڑا تھا۔ بلکہ نوع انسان کی تاریخ میں یہ نہایت اہم گذرا ہے بلحاظ نتائج کے یہ سکندراعظم کی مہموں پر فوق رکھتا ہے جن میں وہ یونانی تہذیب کو ایشیاء کے عین صدر میں لے گیا۔ اور قیصر کی مہموں سے اعلیٰ جب کہ اُس نے برطانیہ کے ساحل پر جھنڈا کھڑا کیا۔ اور کولمبس کے بحری سفر سے افضل جب کہ اُس نے ایک نئے جہان کو دریافت کیا۔ لیکن جب پولوس اس سفر کے لئے روانہ ہوا تو اُس کو اس سفر کی حقیقت اور وسعت سے پوری آگاہی نہ تھی۔ اور نہ وہ یہ جانتا تھا کہ مجھے کس سمت میں جانا ہے پہلے سفر کے بعد تھوڑا آرام کر کے اُس نے اپنے رفیق کو کہا کہ جن جن شہروں میں ہم نے خدا کا کلام سنا یا تھا۔ آؤ پھر اُن میں چل کر بھائیوں کو دیکھیں کہ کیسے ہیں۔ یہ پدرانہ محبت کی کشش تھی کہ اپنے روحانی بچوں کو دیکھیں لیکن خدا نے ایک وسیع تجویز سوچی تھی اور جو اُس پر اثنائے راہ میں منکشف ہوتی گئی۔

۹۰۔لیکن اس سفر کے شروع میں ناگوار جھگڑا ان دونوں دوستوں میں برپا ہوا جو اس سفر پر نکلے تھے۔ وجہ یہ ہوئی کہ یوحنا مرقس ان کے ہمراہ جانا چاہتا تھا۔ جب اس نوجوان نے معلوم کیا کہ پولوس اور برنباس اس سفر سے صحیح سلامت واپس آگئے تو اُس نے اپنی غلطی کو دریافت کیا۔ اور تلافی مافات کے لئے اب اُن کے ہمراہ جانے کو تیار ہے برنباس تو طبعی رشتہ کے لحاظ سے اپنے خالہ زاد کو ساتھ لے جانا چاہتا تھا۔ لیکن پولوس نے بالکل انکار کیا۔ بربناس تو یہ پیش کرتا تھا کہ معاف کرنا مناسب ہے اور انکار کرنے سے اس نو مرید شخص پر بُرا اثر ہو گا۔ لیکن پولوس جو خدا کے لئے سر گرمی سے بھر اتھا۔ یہ پیش کرتا تھا کہ ایسے مقدس کام میں ایسے شخص پر کسی طرح بھروسہ نہیں کر سکتے۔ جو قابل اعتماد نہیں۔ کیونکہ مصیبت کے وقت بے وفا شخص پر بھروسہ کرنا اُسی قسم کا ہے جیسے ٹوٹے دانت یا مُڑے ہوئے پاؤں پر اتنے عرصہ کے بعد اب یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان میں راستی پر کون تھا یا یہ کہ دونوں کا کچھ نہ کچھ قصور تھا اس میں کچھ شک نہیں کہ اس سے دونوں کو نقصان ہوا۔ پولوس غصہ میں ایسے شخص سے جداہوا جس نے انسانوں میں غالبا ً سب سے زیادہ اس پر احسان کیا تھا۔ اور برنباس کو اُس زمانہ کے سب سے بڑے شخص سے جُدا ہونا پڑا۔

۹۱۔ یہ دونوں دوست پھر کبھی نہیں ملے۔ اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ ان کے دل میں کینہ رہا۔ جس کے باعث وہ پھر مل نہ سکتے تھے۔ یہ غصہ تو جلد فرو(ختم ) ہو گیا اور پہلی محبت پھر عود(لوٹنا) کر آئی۔ پولوس اپنی تحریروں میں برنباس کا عزت سے ذکر کرتا ہے۔ اور اپنے آخر ی خط میں وہ مرقس کو اپنے پاس روم میں بلاُ بھیجتا ہے اور صاف کہتا ہے کہ وہ اس خدمت میں میرے کام کا ہے یہ وہی بات ہے جس کا پیشتر اُسے یقین نہ تھا۔ مگر اس وقت اس جھگڑے نےا ن کو جُد ا کر دیا۔ اور اس امر پر متفق ہوئے کہ جن علاقوں میں انہوں نے پیشتر انجیل سُنائی تھی۔ اُس کو آپس میں بانٹ لیں۔ برنباس اور مرقس تو قبرس کو چلے گئے ۔ اور پولوس دوسری طرف کلیسیاؤں کو دیکھنے گیا اور برنباس کی جگہ اُس نے سیلاس یا سلوانس کو اپنے ساتھ لیا۔ اور اپنے اس نئے سفر میں دُور نہیں گیا تھا۔ کہ مرقس کا قائم مقام بھی اُس کو دستیاب ہو گیا۔ یہ تمطاؤس تھا جو پولوس کے ذریعے پہلے سفر کے وقت لُسترا میں مسیحی ہو گیا تھا۔ وہ نوجوان اور حلیم تھا اور زندگی کے آخر تک پولوس کا وفادار رفیق اور باعث تسلی رہا۔

۹۶۔ جس مقصد کے لئے وہ نکلا تھا۔ جن کلیسیاؤں کے قائم کرنے میں اس نے حصہ لیاتھا۔ پہلے انہیں کو جا کر دیکھا۔ انطاکیہ سے شروع کر کے اور شمال مغرب کی طرف جا کر اس نے سوریا۔ کلکیہ اور دوسرے علاقوں میں کام کیا۔ اور آخر کار ایشیاء کےمرکز میں پہنچا اور وہاں اُس کے سفر کا خاص مقصد پورا ہوا قاعدہ کی بات ہے کہ جب انسان راہ راست پر چلتا ہے توہر قسم کے موقعے اُسے مل جاتے ہیں اور جب وہ ان علاقوں میں دورہ کر چکا تو اُس کے دل میں جوش پیدا ہوا کہ وہ دوسرے علاقہ میں بھی جائے اور خدا نے اس کام کےلئئے بھی راہ کھول دی۔ وہ اُسی سمت میں فرد گیا اور گلاتیہ میں گذر گیا۔ بتونیہ کا علاقہ جو بحیرہ اسود کے کنارے واقع تھا۔ اور جو ایشائی علاقہ مغرب میں واقع تھا وہ اُس کو اپنی طرف کھینچ رہا تھا۔ اور پولوس وہاں جانا چاہتا تھا لیکن جو روح اُس کی رہنمائی کر رہا تھا اُس نے اُسے وہاں جانے سے روکا ۔ نہ معلوم کس طریقہ سے یہ ظاہر کیا گیا کہ یہ علاقہ تمہارے لئے بند ہے۔ اور آگے بڑھ کر روح کی ہدایت سے وہ طراؤس پہنچا جو ایشیا کو چک کے شمال مغرب میں ایک شہر ہے۔

۹۳۔ الغرض پولوس نے انطاکیہ سے جو ایشیا کوچک کے جنوب مشرق میں تھا طروآس تک سفر کیا جو شمال مغرب میں تھا۔اور راہ میں برابر انجیل کی بشارت دیتا گیا کئی ماہ اور شاید کئی سال اس سفر میں لگے۔ لیکن اس دو ر دراز سفر کی کچھ تفصیل ہم تک نہیں پہنچی سوائے گلاتیوں کے ساتھ تعلق کی جس کا ذکر گلاتیوں کی طرف کے خط میں پایا جاتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ گواعمال کی کتاب میں پولوس کے کام کا بڑا دلچسپ بیان ہوا ہے۔ لیکن دراصل وہ پورا بیان نہیں ہے۔ پولوس کی زندگی کے بہت ماجرے ۔ بہت واقعات اور مسیح کے لئے اُس کی محنت اور دُکھ اُس میں مذکور نہیں ہوئے۔ اعمال کی کتاب کا مقصد تو یہ ہے۔ کہ ہر سفر میں جو عجیب اور خاص واقعات وقوع میں آئے اُن کو قلمبند کرے اور ہمیشہ دیگر واقعات کو نظر انداز کر دے مثلاً اس کا بار بار ایک ہی جگہ کو جانا وغیرہ۔ اس سے ظاہر ہے کہ پولوس کی تاریخ میں سے بہت جگہ خالی چھوٹ گئی ہے۔ حالانکہ ہمیں پورا یقین ہے کہ اُس کی خدمت اور زندگی کا کوئی حصہ دلچسپ امور سے خالی نہیں رہا ۔ چنانچہ اُس کا بڑا ثبوت اُس کے ایک خط میں پایا جاتا ہے جو اُس نے اسی عرصہ میں لکھا تھا۔ جس عرصہ کا بیان اعمال کی کتاب میں ہے ایک دفعہ دلیل کے لئے اُسے اپنی زندگی کے واقعات کو بتانا پڑا۔ وہ پوچھتا ہے کیا وہ مسیح کے خادم ہیں۔ میں زیادہ ہوں۔ محنتوں میں بہت زیادہ۔ قید میں زیادہ۔ کوڑے کھانے میں سے زیادہ۔ بار ہا موت کے خطروں میں رہا ہوں۔ میں نے یہودیوں سے پانچ بار ایک کم چالیس کوڑے کھائے تین بار بیدیں کھائیں۔ ایک بار سنگسار کیا گیا تین مرتبہ جہاز ٹوٹنے کی بلا میں پڑا۔ ایک رات دن سمندر میں کاٹا۔ میں بارہا سفروں میں دریا ؤں کے خطروں میں۔ ڈاکوؤں کے خطرے میں۔ میں اپنی قوم سے خطروں میں۔ غیر قوموں نے خطرے میں۔ شہر کے خطروں میں۔ بیابان کے خطروں میں سمندر کے خطروں میں۔ جھوٹے بھائیوں کے خطروں میں۔ محنت اور مشقت میں۔ بار ہا بیدی کی حالت میں۔ بھوک اور پیاس کی مصیبت میں۔ بارہا فاقہ کشی میں۔ سردی اور ننگے پن کی حالت میں رہا ہوں۔ اس عجیب فہرست میں سے بہت تھوڑے واقعات کا ذکر اعمال کی کتاب میں ہے۔ یہودیوں میں سے پانچ دفعہ کوڑے کھانے کے بارے میں اعمال کی کتاب میں کچھ ذکر نہیں۔ تین دفعہ رومیوں سے بید کھانے میں سے صرف ایک دفعہ کا ذکر ہے۔ ایک دفعہ پتھراؤ کا ذکر ہے۔ لیکن تین دفعہ جہاز کے تباہ ہونے میں سے ایک کا ذکر بھی نہیں۔ اور جس کے تباہ ہونے کا ذکر اعمال کی کتاب میں ہے وہ اس سے بہت بعد واقع ہوا۔ لوقا کا یہ منشا نہ تھا کہ پولوس کی زندگی میں کچھ مبالغہ کرے بلکہ اس میں تو سارا بیان بھی نہیں ہے۔ وہ مہینوں اور سالوں کی تاریخ کو بہت ہی اختصار (خلاصہ )سے بیان کرتا ہے۔ اور صرف قیاس سے ہم اُس کی باقی زندگی کا کچھ اندازہ لگا سکتےہیں۔

۹۴۔یہ معلوم ہوتا ہے کہ پولوس روح کی ہدایت سے طروآس میں پہنچا اور اُسے کچھ خبر نہ تھی۔ کہ آگے کہاں جانا ہے۔ لیکن جب آبنائے ہیلس پانٹ کے پار زمین نظر آئی تو اُس کو کیا شک ہو سکتا تھا کہ خدا کا منشا کیا ہے۔ اب وہ اُس عجیب علاقہ کی حدود میں تھا جہاں صدیوں سے تہذیب اور شائستگی نے اپنا گھر بنا رکھا تھا۔ غالباً اس جنگ اور مہم کی کہانی اُسے یاد آئی ہو گی جس کو نوع انسان ایسی دلچسپی سے پڑھتے ہیں۔ یہاں سے چار میل کےفاصلہ پر ٹرائے کا میدان تھا جہاں یورپ اور ایشیا میں وہ مشہور لڑائی ہوئی جس کا ذکر ہو مرد کی کتاب میں ہے یہاں سے رخسویرس کا تخت سنگ مر مر دور نہ تھا۔ جس پر بیٹھ کر وہ اپنی تیس لاکھ ایشیائی فوج کی موجودات لے رہا تھا۔ جس کے ذریعے وہ یورپ کو پامال کرنا چاہتا تھا۔ اُس تنگ آ بناکی کی پرلی طرف یونان اور روم واقع تھے۔ جہاں سے علم تجارت اور فوجیں نکل کر جہاں پر حکومت کرتی تھیں۔ پولوس کا دل جو مسیح کا جلال ظاہر کرنے کے لئے ایسا آرزو مند تھا۔ کیا اُس میں یہ شوق نہ بھڑک اٹھاہو گا۔ کہ ان بڑے شہروں پر حملہ کرے۔ کیا اُس کے دل میں کچھ شک رہا ہو گا کہ روح اُس کو اسی قسم کی مہم کے لئے بلا رہی ہے وہ بخوبی جانتا تھا۔ کہ یونان باوجود حکمت کے اُس عرفان کا محتاج تھا۔ جو انسان کو نجات کے لئے دانا بنا سکتا ہے۔ اور رومی جو اس جہان کے فتح کرنے والے تھے۔ اُس میراث کے حاصل کرنے کی راہ نہ جانتے تھے۔ جو آئندہ جہان میں ملتی ہے۔ اس کے سینے میں یہ راز چھپا تھا۔ جس کی ان دونوں کو ضرورت تھی۔

۹۵۔ اسی قسم کے خیالات جو اُس کے دل میں جوش مار رہے تھے۔ اُس رویا کی صورت میں ظاہر ہوئے جو اُس نے طروآس میں دیکھی یا یہ و ہ رویا تھی۔ جس نے پہلی دفعہ اس کے دل میں یورپ کو نکل جانے کا خیال ڈالا ؟ جب وہ سو رہا تھا۔ سمندر کا خروش اس کے کانوں میں گونج رہا تھا اُس نے ایک شخص کو دوسرے مقابل ساحل پر کھڑے دیکھا جس کا خیال سونے سے پیشتر اُس کے دل میں تھا وہ اُس کو اشارہ سے بلا رہا اور یہ کہہ رہا تھا۔ مقدرنیہ میں آکر ہماری مد د کر۔ وہ صورت یورپ کی تھی۔ اور مدد کے لئے فریاد یہ تھی۔ کہ یورپ مسیح کا محتاج ہے۔ پولوس نے اس میں الہٰی ہدایت محسوس کی۔ اور دوسرے ہی دن شام کو یہ جہاز میں بیٹھ کر مقدونیہ کے ساحل کی طرف روانہ ہوا۔

۹۶۔ پولوس نے ایشیا سےیورپ کی طرف جو سفر اس وقت کیا وہ الہٰی انتظام کے مطابق تھا جس کا نتیجہ اہل یورپ کے لئے بڑا اہم تھا اور جس کے لئے وہ لوگ اب تک نہایت شکر گذار ہیں۔ مسیحی دین کا آغاز ایشیا میں ہوا اور مشرقی لوگوں کے درمیان ۔ اور یہ قرین قیاس (وہ بات جسے عقل قبول کرے )تھا کہ یہ دین پہلے اُن لوگوں میں پھیل جاتا جو یہودیوں سے قریبی رشتہ رکھتے تھے۔ مغرب کی طرف آنے کی بجائے یہ مشرق کی طرف پھیلتا جاتا۔ غالباً یہ عرب میں داخل ہوتا اور اُس علاقوں کو فتح کر لیتا جہاں اب محمد عربی کا علم لہرا رہا ہے۔ شاید یہ وسط ایشیا ء کے خانہ بدوش قبیلوں میں جا گھستا اور پھر جنوب کی طرف مڑکر کوہ ہمالیہ کے دروں میں سے دریائے گنگا۔ اٹک اور گوداوری کے کناروں پر اپنے مندر بناتا۔ شاید اور مشرق کی طرف بڑھ کر چین کی گھنی آبادی میں داخل ہو کر اُن لوگوں کو کنفیوشس کی سرد مہر دینوی تعلیم سے نجات دیتا۔ اگر ایسا ہوتا تو ہندوستان اور جاپان سے اس وقت مشنری انگلستان میں آن کر صلیب کی داستان سناتے۔ لیکن خدا نے یورپ کو یہ مبارک فوقیت بخشی۔ اورجب پولوس پورپ کو گیا تو اُس بّراعظم کی قسمت نے پلٹا کھایا۔

۹۷۔ چونکہ روم کی نسبت یونان ساحل ایشیا سے زیادہ قریب تھا۔ اس لئے اس دوسرے مشنری سفر کے وقت یہ بڑی فتح مسیح کے لئے حاصل ہوئی۔ باقی جہان کی طرح اس وقت یہ بھی روم کی عمل داری میں تھا اور رومیوں نے اس کو دو ضلعوں پر تقسیم کر دیا تھا یعنی شمال میں مقدونیہ تھا۔ مشرق سے مغر ب کی طرف ایک بڑی رومی سڑک کے ذریعے یہاں آمددرفت ہوتی تھی۔ اسی سٹرک کی راہ سے یہ مشنری گئے۔ اور اس علاقہ کےجن جن مقامات میں انہوں نے خدمت کی وہ یہ ہیں۔ فلپی اور تھلونیکی اور بریا۔

۹۸۔ اس شمالی علاقہ میں یونانی سیرت جنوبی علاقہ کی سیرت کی نسبت زیادہ خالص اور پاکیزہ تھی۔ اہل مقدونیہ میں اب تک کچھ اُس ہمت اور دلیر ی کا بقیہ باقی تھا جس نے چار صدی پہلے ان کو جہان کا فاتح بنا دیا تھا۔ جو کلیسیائین پولوس کے ذریعے یہاں قائم ہوئیں اُن سے پولوس کو دیگر جگہ کی کلیسیاؤں سے زیادہ اطمینان حاصل ہوا جیسی خوشی اور دلی محبت تھسلنیکیوں اور فلپیوں کی طرف کے خطوں میں پائی جاتی ہے۔ اس کے دوسرے خط میں اس قدر نہیں ملتی۔ اور چونکہ فلپیوں کا خط پولوس نے اپنی زندگی کے آخر کے قریب لکھا اس سے ظاہر ہے کہ یہ لوگ اپنے ایمان پر ویسے ہی مضبوط رہے جیسے کہ انجیل قبول کرنے کے وقت تھے۔ بریا میں یہودیوں کا ایک کشادہ دل عبادت خانہ بھی اُسے ملا جہاں لوگوں نے اُس سے اچھی طرح سے انجیل سُنی اور ایسا موقع پولوس کی زندگی میں شاذ ہی گذرا ہے۔

۹۹۔ مقددنیہ کے کام میں خاص بات یہ تھی۔ کہ عورتوں نے ایک بڑا حصہ لیا۔ چونکہ اس زمانہ میں تقریباً سارے جہان میں مذاہب کا اثر بڑا گھٹ گیا تھا بعض عورتیں عبادت خانہ کے خالص عقیدہ میں مذہبی اطمینان حاصل کرتی تھیں۔ مقددنیہ میں شاید وہاں کے عمدہ اخلاق کی وجہ سے یہودی مرید عورتیں دوسری جگہوں کی نسبت زیادہ تھیں۔ اور ان میں سے بہت مسیحی کلیسیاء میں داخل ہو گئیں۔ یہ نیک شگون تھا۔ یہ گویا اُس اعلیٰ تبدیلی کا پیش خیمہ تھا۔ جو مسیحی دین مغرب کی عورتوں کے درمیان پیدا کرنے والا تھا۔ اگر مرد مسیح کے احسان مند ہیں۔ تو عورتیں ان سے بھی زیادہ احسان مند ہیں کیونکہ مسیح نے عورتوں کو مردوں کی غلامی سے اور ان کی محض کھیل ہونے کی حالت سے چھڑایا اور اس کو درجہ پر ممتاز کیا کہ خدا کے سامنے وہ مرد کی دوست اور ہم پلہ ہو علاوہ اس کے مسیح کے دین میں وہ لطافت اور عظمت بھی پیدا ہوئی۔ جو عورتوں کی سیرت کا خاصہ ہے جب مسیحی دین یورپ میں داخل ہو ا تو ان باتوں کی پوری تصدیق ہوئی۔ اور یورپ میں سے پہلے ایک عورت ایمان لائی۔ اور یورپ کی سر زمین میں جو پہلی مسیحی عبادت ہوئی اس میں خدا نے ایک عورت کے دل کو سچائی قبول کرنے کے لئے کھولا۔ اور جو تبدیلی اُس عورت میں واقع ہوئی وہ اس امر کا نشان تھی۔ کہ مسیحی دین کے قبول کر لینے سے یورپین عورتیں کہاں تک ترقی کر سکتی ہے۔ اور فلپی شہرہی مسیحی دین کے پہنچنے سے پیشتر یورپ کی عورتوں کی حالت کا قدیم نقشہ بھی مشاہدہ میں گذرا۔ جب ایک لڑکی ملی جس میں غیب گوئی کی روح تھی۔ اور مردوں نے اس کو اپنا نفع کمانے کے لئے غلام بنا رکھا تھا۔ پولوس نے اُس میں سے اُس روح کو نکال دیا۔ اس لڑکی کی پستی اور ذلت اُس وقت کی عورتوں کی پستی و ذلت کا نشان تھی اور لدیا کی ہمدرد اور پر محبت سیرت اُس تبدیلی کا نشان تھی۔ جو مسیحی دین کی تاثیر سے عورتوں میں ہو سکتی ہے۔

۱۰۰۔ مقدونی کلیسیاؤں کی ایک اور بری صفت ان کی فیاضی تھی۔ وہ اس پر زور دیتے تھے۔ کہ مشنریوں کی جسمانی حاجتوں کو پورا کریں اور جب پولوس وہاں سے روانہ بھی ہو گیا۔ تب بھی دیگر شہروں میں اس کی حاجتوں کو رفع کرنے کے لئے انہوں نے کچھ مدد بھیجی۔ مدت بعد جب پولوس روم میں قید تھا۔ تو انہوں نے اپنے ایک معلم اپا فرورلیطس کو کچھ روپیہ پیسہ دے کر بھیجا کہ پولوس کی خدمت کرے۔ ان وفا دار مسیحیوں کی فیاضی کو پولوس نے قبول کر لیا۔ اگرچہ دوسری جگہوں میں اُس نے اپنے ہاتھوں سے محنت کر کے گذارہ کیا اور اس قسم کی مدد لینا منظور نہ کیا۔ یہ فیاضی ان لوگوں کی دولت مندی کی وجہ سے نہ تھی۔ بلکہ برعکس اس کے اپنی غریبی کی پونجی میں سے دیا۔ وہ شروع سے غریب لوگ تھے۔ اور ایذارسانیوں نے ان کو اور بھی غریب بنا دیا تھا۔ پولوس کے روانہ ہونے کے بعد ان کو زیادہ تکلیف اُٹھانی پڑی۔ اور مدت تک یہی حال رہا۔ یہ تکلیفیں پہلے پہل پولوس پر بھی ٹوٹ پڑی تھیں۔ اگر چہ وہ مقدونیہ میں ایسا کا میاب ہوا لیکن اس کو ہر شہر سے ایسے طور پر نکالا جیسے کوڑے کرکٹ کو نکال کر پھینک دیتے ہیں اور عموماً یہ مصیبتیں یہودیوں کے ذریعے آئیں۔ یہ لوگ یا تو انبوہ عام کو پولوس کے خلاف بھڑکا دیتے تھے۔ یا رومی حکام کے پاس جا کر اُس پر الزام لگاتے تھے۔ کہ یہ نیا دین شروع کرنا چاہتا ہے یا ملک میں کھلبلی ڈالنا چاہتا ہے۔ یا یہ ایک دوسرے بادشاہ کا اشتہار دیتا ہے۔ جو قیصر کا حریف ہوگا۔ وہ نہ تو خود آسمان کی بادشاہت میں جانا چاہتے تھے۔ نہ دوسروں کو جانے دینا چاہتےتھے۔

۱۰۱۔لیکن خدا نے اپنے خادم کی حفاظت کی۔ فلپی میں خدا نے ایک عجیب معجزہ کے ذریعے اس کو قید خانہ سے رہائی بخشی ۔ اور فضل کے معجزہ کے ذریعے داروغہ جیل کے دل پر تاثیر کی۔ اور دوسرے شہروں میں اُسے معمولی وسیلوں سے خدا نے بچا لیا۔ باوجود ایسی سخت مخالفت کے شہر بہ شہر کلیسیائیں قائم ہوتی چلی گئیں۔ اور ان کے ذریعے مقددنیہ کے سارے علاقہ میں انجیل کی صدا گونج اُٹھی۔

۱۰۲۔ مقددنیہ سے روانہ ہو کر جب پولوس جنوب کی طرف اخایا میں گیا تو وہ حقیقی یونان میں داخل ہو ا جو عقل و شہرت کا گویا فردوس تھا۔ اثنائے راہ میں اس ملک کی عظمت کے نشان اور یاد گاریں چاروں طرف اُس کی نظر پڑتی تھیں۔ بریا چھوڑ کر کوہ اولمپس کی برفانی چوٹیاں پیچھے نظر آتی تھیں۔ جہاں کہتے ہیں۔ کہ یونانی دیوتاؤں کا مسکن تھا تھرماپولی کے پاس سے اُس کا جہاز گذرا جہاں غیر فانی تین سونے لاکھوں و حشیوں کا مقابلہ کیا تھا۔ اور جب اُس کا بحری سفر ختم ہونے پر تھا۔ تو اُس کے سامنے جزیرہ سلمیس نظر پڑتا تھا۔ جہاں اہل یونان نے جان توڑ کر لڑائی کی اور اپنے ملک کو تباہ ہونے سے بچایا۔

۱۰۳۔ اُس کی منزل مقصود اتینی تھی جو اُس علاقہ کا دارالخلافہ تھا۔ جونہی وہ شہر میں داخل ہوا تو جو واقعات اُس کی گلیوں اور یاد گاروں سے ملحق تھے۔ ان سے وہ ناواقف نہ رہ سکتا تھا۔ یہاں انسانی طبیعت کی درخشانی اور شان ایسے درجہ تک نظر آتی تھی۔ کہ کہیں اس کی نظیر نہیں ملتی ۔ اس کی تاریخ کے سنہری زمانہ میں آئینی میں اعلیٰ ذی عقل و فہیم لوگوں کا اس قدر شمار تھا کہ کسی دوسرے شہر میں پایا نہ جاتا تھا۔ آج تک آئینی کی شہرت ان کے باعث باقی ہے۔ لیکن پولوس کے دنوں سے پیشتر ہی یہ سب کچھ گذر چکا تھا۔ اس کے سنہری زمانہ کو چار صدیاں ہو چکی تھیں اور اس اثنامیں ایک افسوس ناک زوال اس پر چھاتا چلا گیا فلسفہ بگڑ کر سوفطائی تعلیم سے بدل گیا فصاحت (خوش بیانی) محض علم نحو سے بدل گئی۔ نظم کی جگہ صرف شعر بنا نارہ گیا۔ یہ شہر اپنی گذشتہ تاریخ پر گویا زندہ شہادت تھی۔ تو بھی اب تک یہ مشہور جگہ تھی۔ اور ایک قسم کا علم و تربیت یہاں پایا جاتا تھا۔ مختلف قسم کے فلسفوں کے لوگ یہاں بکثرت تھے۔ اور ہر طرح کے علم کے معلوم اور پروفیسریہاں دکھائی دیتے تھے۔ اور ہزاروں دولت مند پردیسی جہان کے ہر حصہ سے یہاں آن کر رہتے اور تعلیم و تربیت پاتے تھے۔ اب تک یہ ذی عقل سیاحوں کی نظر میں ایک اہم جگہ تھی۔

۱۰۴۔ پولوس میں ایک عجیب صفت تھی جس کے باعث وہ سب آدمیوں کے لئے سب کچھ بن سکتا تھا۔ اس لئے اُس نے اپنے تئیں ان لوگوں کے حسب حال بھی بنایا۔ چوک میں جہاں علما جمع ہوا کرتے تھے۔ وہ طلبا اور فیلسوفوں سے گفتگو کرتا جیسا کہ سقراط پانسو برس پیشتر اُسی جگہ کیا کرتا تھا۔ لیکن بہت تھوڑے لوگ اُسے ملے جو حق کے طالب تھے۔ حق کی خواہش کی بجائے وہاں کے باشندے محض انوکھی یا نئی باتوں کے سننے آرزو مند تھے۔ اس لئے جو کوئی نئی تعلیم لے کر آتا اُس کے لئے وہ خوشی سے موقع دیتے کہ اپنی تعلیم سنائے اور جب تک پولوس عقلی طور پر اپنے پیغام کو پیش کرتا رہا وہ غور سے سنتے رہے۔ اور شوق کے مارے اُسے اریوپگس کی چوٹی پر لے گئے جو ان کے شہر کی شان و شوکت کا گویا مرکز تھا۔ اور وہاں اُس سے درخواست کی کہ اپنے عقیدے کا مفصل بیان کرے۔ پولوس نے ان کی درخواست منظور کی اور بڑی فصیح (شیریں کلام ) تقریرمیں اُس نے خدا کی توحید اور انسان کی باہمی یگانگت یا برادری کو ان کے سامنے پیش کیا اور وہ لوگ بہت محفوظ ہوئے اور یہ دو مسئلے مسیحی دین کی بنیاد ہیں۔ لیکن جس وقت پولوس نےان کی نجات کے مسئلے کو چھیڑا تو وہ یک لخت(فوراً) اسے بولتا ہی چھوڑ کر چلے گئے۔

۱۰۵۔ پولوس آئینی سے چلا گیا اور وہ پھر کبھی وہاں واپس نہ گیا جیسی سخت ناکامیابی یہاں ہوئی اسے اور کسی جگہ نہیں ہوئی ۔ وہ سخت سے سخت ایذار سانی کی برداشت کر سکتا تھا۔ اور پھر فوراً ہمت باندھ کر کام کرنے لگ جاتاتھا۔ لیکن یہاں پولوس کو ایذارسانی کی نسبت ایک زیادہ مشکل کاسامنا پڑا۔ اس کے پیغام کی نہ تو ان لوگوں نے مخالفت کی اور نہ کچھ پر وا ہی کی۔ اہل آئینی کے دل میں خیال بھی نہیں گذرا ہو گا۔ کہ پولوس کو ایذا پہنچائیں۔ انہوں نے تو محض اُسے بکواس سمجھ کر چھوڑ دیا اور اس کی تعلیم کی طرف کچھ تو جہ نہ کی۔ اس سرد مہری (بے رحمی،سنگدلی )نے پولوس کے دل کو پتھروں اور اوزاروں کی نسبت زیادہ زخمی کیا اور شاید ایسا مایوس بھی وہ کبھی نہ ہواتھا۔ آئینی سے روانہ ہو کر وہ قرنطس کو گیا جو اخایا کا دوسرا بڑا شہر تھا۔ اور اُس نے خود بتایا ہے کہ میں کمزوری اور خوف اور کپکپی کی حالت میں وہاں پہنچا۔ قرنطس اور آئینی کا حال کچھ اسی قسم کا تھا۔ جو امر تسر اور لاہور کا ہے۔ امر تسر تو بڑی بھاری تجارتی منڈی ہے اور لاہور تعلیم کا بڑا مرکز ہے۔ اہل کارنتھ بھی بڑے جھگڑا لو اور تکراری تھے۔ اور پولوس کو اندیشہ تھا کہ آئینی کی طرح یہاں بھی اُسی قسم کا افسوس ناک نتیجہ نہ نکلے شاید ان لوگوں کے لئے بھی انجیل میں کوئی پیغام نہ ہو؟ اس قسم کے سوال پر غور کرنے سے پولوس کانپ اُٹھتا تھا۔ کوئی ایسی بنیاد ان میں نظر نہ آتی تھی جس پر کہ انجیل کچھ گرفت حاصل کر سکے۔ اور کوئی ان کی ایسی حاجت معلوم نہ ہوتی تھی۔ جس کو انجیل پورا کرے۔

۱۰۷۔ قرنطس میں کی دیگر امور بھی حوصلہ گرانے والےتھے۔ یہ قدیم زمانے کا پیرس تھا۔ بدی کا عام رواج تھا اور کوئی اُس سے شرماتا نہ تھا۔ اور اس قسم کی بدی تھی۔ جس کے سننے سے پولوس کو سخت مایوسی ہوئی۔ کیا انسان ایسی ہولناک بدی کے پنجہ سے رہا ئی پا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں یہودیوں نے معمولی سے زیادہ یہاں مخالفت کی اور اُسے عبادت خانہ بالکل چھوڑنا پڑا۔ اس سے پولوس کے دل میں بڑا رنج تھا۔ کیا مسیح کا سپاہی اس میدان سے بھٹکا دیا جائے گا۔ کیا یہ مجبوراً ماننا پڑے گا۔ کہ انجیل تعلیم یا فتہ یونان کے مذاق کے موافق نہ تھی۔

۱۰۸۔لیکن پانسے نے پلٹا کھایا۔ عین ضرورت کے وقت پولوس کو ایک رویا نظر آئی اور اکثر جب پولوس ایسی تنگی اور مایوسی میں تھا خدا نے اُس کو اس قسم کی رویا دکھائی۔ رات کو خداوند نے اُس پر ظاہر ہو کر کہا۔ مت ڈر۔ بولتا جا۔چپ نہ رہ ۔کیونکہ میں تیرے ساتھ ہوں کیونکہ میرے بہت لوگ اس شہر میں ہیں۔ اس سے پولوس کی پھرہمت بندھ گئی اور مایوسی کے اسباب کا غور ہونے لگے ۔ جب یہودیوں نے ہنگامہ کر کے اس کو رومی حاکم گالیو کے سامنے پیش کیا ور اس حاکم نے انہیں بُری طرح سے رخصت کر دیا تو یہودیوں کی مخالفت کی پشت ٹوٹ گئی عین عبادت خانہ کا سردار مسیحی ہو گیا۔ اور اہل قرنطس میں سے بہت لوگ ایمان لانے لگے پولوس دو دوستوں کے گھر میں مہمان تھا جو اُس کے ہم قوم اور ہم پیشہ تھے۔ یعنی اقولا اور ہر سقلا۔ وہ ڈیڑھ سال وہاں رہا اور کلیسیاء کی بنیاد ڈالی اور صلیب کا جھنڈا خایا میں گاڑا گیا۔ا ور یہ ثابت کیا کہ انجیل جہان کو حکمت کے صدر مقاموں میں بھی نجات کے لئے خدا کی قدرت ہے۔

تیسرا مشنری سفر

۱۰۹۔پولوس نے دوسرے سفر سے واپس آ کر یروشلم اور انطاکیہ میں یہ دلچسپ حال سنا یا لیکن بہت دن تک آرام کرنا اُس نے پسند نہ کیا بلکہ تھوڑی دیر بعد ہی وہ تیسرے سفر پر روانہ ہوا۔

۱۱۰۔ یہ گمان ہو سکتا تھا۔ کہ جب دوسرے سفر میں یونان میں انجیل سنائی گئی تو اب روم کی باری تھی۔ لیکن نقشہ پر ایک نظر ڈالیں تو معلوم ہو گا۔ کہ ایشیائے کوچک کے جس علاقہ میں اُس نے پہلے سفر میں انجیل سنائی اور یونان کے جن علاقوں میں اُس نے دوسرے سفر کے وقت انجیل سنائی اُن کے درمیان ایشیائے کوچک کے مغرب میں ایشیا کا بڑا علاقہ آباد تھا ۔پولوس نے تیسرے سفر میں اس علاقہ کا بشارت انجیل کے لئے چنا۔ یہاں کا صدر مقام افسس تھا۔ وہاں پولوس نے تین سال تک مقام کیا۔ اور جن کلیسیاؤں کو اُس نے قائم کیا تھا۔ ان کو پھر دیکھا اور سفر کے آخر کے قریب یونان کی کلیسیاؤں کا معائنہ کیا۔ اور چونکہ اعمال کی کتاب کا یہ خاصہ ہے کہ جو ہر سفر میں نیا کام تھا اس کا ذکر کرے اس لئے افسس کے کام کا مقصل ذکر ہے۔

۱۱۱۔ یہ شہر اُس علاقہ کا بڑا بندرگا ہ تھا۔ اور دُور دُور کی تجارت اس بندرگاہ کے ذریعے ہوتی تھی۔ اور بہت شہر اس کے ارد گر د تھے۔ جن کا ذکر سات کلیسیاؤں کی طرف کے خطوں میں مکاشفہ کی کتاب میں آیا ہے۔ مثلاً سمرنا ۔ پرگمس۔ سقوترہ۔ سرویس۔ فلاڈلفیہ۔ اور لادوقیہ۔ یہ بڑا دولت مند شہر تھا۔ اور ہر طرح کی عیش و عشت یہاں ہوتی تھی۔ یہاں کے تماشہ گاہ اور دوڑوں کی شہرت سارے جہان میں پھیلی ہوئی تھی۔

۱۱۲۔لیکن افسس وہاں کے لوگوں کا مقدس شہر ہونے کی وجہ سے خاص کر مشہور تھا۔ ارتمس کی دیوی کی پرستش گاہ تھا۔ اس دیوی کا مندر قدیم زمانہ کے نہایت مشہور مندروں میں گنا گیا تھا۔ یہ مندر دولت سے مالا مال اور پوجا ریوں سے پُر تھا۔ ارد گر د کے علاقوں سے ہر سال بہت لوگ جاتر ا (زیارت )کے لئے یہاں آتے تھے۔ اور افسس کے لوگ بھی طرح طرح سے اس پر ستش کے طفیل فائدہ اُٹھاتے تھے۔ یہاں روایت تھی کہ مورت آسمان سے گری تھی اور جو عجیب حروف اس مورت پر کندہ تھے اُس کی نقلیں بطور جادو اور تعویذ کے استعمال ہوتی تھیں۔ اس شہر میں جادو گرو ں۔ فال گیروں اور خواب کے تعبیر کرنے والوں وغیرہ کی بہت کثرت تھی اور جو لوگ جاترا یا تجارت کے لئے یا اُس بندر گاہ میں کسی اور مقصد سے آتے تھے۔ اُن سے خوب روپیہ جھاڑتے تھے۔

۱۱۳۔ اس لئے پولوس کا خاص کام یہ تھا کہ اس باطل پر ستی کی مخالفت کرے پولوس نےیہاں یسوع کے نام سے بہت معجزے کئے جن کو دیکھ کر لوگ بہت حیران تھے۔ اور بعض یہودی جھاڑ پھونک کرے والوں نے یہ کہہ کر بدروحوں کو نکالنے کی کوشش کی۔ کہ ہم تم کو یسوع کے نام سے حکم دیتے ہیں۔ جس کی منادی پولوس کرتا ہے۔ اور اس سے ان کو شرمندگی بھی حاصل ہوئی ۔ بعض جادو پیشہ لوگ مسیحی ہو گئے اور انہوں نے اپنی کتابیں جلادیں ان سُناروں کو فکر لگی کہ اب ہماری تجارت جاتی رہے گی۔ چنانچہ اس دیوی کے ایک تہوار کے روز ان لوگوں نے ہنگامہ برپا کر دیا اور لوگوں کو پولوس کے خلاف بھڑکا دیا یہاں تک کہ پولوس کو شہر سے نکلنا پڑا۔

۱۱۴۔ لیکن مسیح دین کے پختہ طور پر قائم ہونے سے پیشتر وہ اس شہر سے نہیں نکلا اور انجیل کی شعاعیں ایشیاء کے ساحل پر چمکنے لگیں۔ جن کلیسیاؤں کا ذکر یوحنا نے مکاشفہ کی کتاب میں کیا ہے۔ وہ پولوس کی کامیابی کی یاد گار ہے۔ لیکن اس سے بھی بڑھ کر یاد گار افسیوں کی طرف کا خط ہے۔ جو پولوس نے اُس کلیسیاء کو لکھا۔ یہ نہایت ہی گہر ا رسالہ ہے تو بھی مصنف کو اُمید ہے کہ افسی مسیحی اس کو سمجھ لیں گے۔

اگر ڈیما ستھنیز کی فصیح تقریریں جو ایسی مدلل اور ایسی پیوستہ ہیں کہ ایک بال کی گنجائش اُ ن میں نہیں۔ یونان کے اس عالم شخص کی یاد گاریں جن کو اہل یونان شوق سے سنتے تھے۔ اگر شیکسپیر کے ناٹک جن میں زندگی اور زبان کے پیچیدہ امور پر گہر ی نظر ڈالی گئی ہے۔ ملکہ الزبتھ کے زمانہ کی یاد گار ہو۔ تو افسیوں کی طرف کا حظ جس میں مسیحی تعلیم کی عمیق باتوں کا اور مسیحی تجربہ کی اعلیٰ اور بلند چوٹیوں کا نظارا نظر آتا ہے اُس کمال کا گواہ ہےجو پولوس کی منادی سے افسس میں مسیحیوں نے حاصل کیا تھا۔

ساتواں باب

اُس کی تصنیفات اور اُس کی سیرت

۱۱۵۔ اس کاذکر ہو چکا ہے کہ تیسرے مشنری سفر کے آخر میں پولوس نےیونان کی کلیسیاؤں کو سرسر ی طور سے دیکھا۔ اس کام پر اُس کے سات مہینے لگ گئے۔ لیکن اعمال کی کتاب میں صرف دو یاتین آیتوں میں اس کی طرف اشارہ ہے باقی سارا بیان چھوڑ دیا گیا ہے۔ غالباً اس کی وجہ یہ ہو گی کہ کوئی مشہور واقعہ اس عرصے میں نہیں گذرا۔ اس لئے مصنف نے اس وقت کے واقعات کی طرف چندان توجہ نہیں کی۔ تو بھی دوسرے وسائل سے ہم کو معلوم ہو گیا ہے۔ کہ پولوس کی زندگی میں یہ حصہ تقریباً سب سے زیادہ اہم تھا۔ کیونکہ اس نصف سال کے عرصے میں اس نے سب سے بڑا خط لکھا۔ یعنی رومیوں کی طرف کا خط اس کے علاوہ دو دیگر خطوط بھی لکھے۔ یعنی گلاتیوں اور کرنتھیوں کو دوسرا خط۔

۱۱۶۔ اب ہم پولوس کی زندگی کے اس حصے تک پہنچ گئے ہیں۔ جو زیادہ اس کی تصنیفات سے متعلق ہے۔ یہ عجیب شخص ہے۔ ایک طرف تو یہ نظر آتا ہے۔ کہ وہ ایک صوبے سے دوسرے صوبے کی طرف۔ ایک براعظم سے دوسرے براعظم کی طرف۔ کبھی خشکی کبھی تری کا سفر کرتا ہے۔ تا کہ اپنے مقصد کو حاصل کرے۔ لیکن دوسری طرف اس کی تصنیفات سے یہ معلوم ہوتا ہے۔ کہ وہ اپنے زمانے میں سب سے بڑا صاحب فکر و غور تھا۔ اپنی محنتوں اور مشقتوں کے باوجود ایسی تصنیفات پیدا کر رہا ہے۔ جو جہان میں عقل و خرد کے لحاظ سے بڑی پُرزور ہیں۔ اور جن کی تاثیر روز بروز بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اس لحاظ سے وہ دوسرے مبشروں اور مشنریوں پر فوق رکھتا ہے۔ بعض اشخاص شاید بعض امور میں اس کے لگ بھگ ہوں تو ہوں۔ مثلاً ڈیبریا لونگ سٹون۔ عالمگیر ادراک میں۔مقدس بر نارڈ یاوٹ فیلڈ سرگرمی اور محنت میں۔ لیکن ان میں سےکسی نے عقیدے کے خزانے میں ایک بھی نیا خیال مزید نہیں کیا۔ حالانکہ پولوس نے اگرچہ وہ خاص خاص امور میں کم سے کم ان کے برابر تھا۔ اس نے انسان کو خیالات کا ایک جہان بخش دیا۔ اگر اس کے خطوط صفحہ ہستی سے محوہو جاتے تو دُنیا میں علم کا سب سے بڑا نقصان ہوتا۔ اگر ہم اس میں کسی کو متثنے کر سکتے ہیں۔ تو وہ اناجیل ہیں جن میں مسیح کا زندگی۔ اس کے اقوال اور اس کی موت کا بیان ہے۔ جیسا پولوس کی تحریروں نے کلیسیا کی طبیعت پر زندگی بخش اثر کیا شاید کسی اور تحریر نے نہیں کیا اور دُنیا کے کھیت میں جو بیچ ان کے ذریعے سے بولے گئے۔ ان کے پھل سے نوع انسان اب تک خط اُٹھا رہی ہے۔ کلیسیاء میں جب کبھی اصلاح ہوئی تو اس کی تحریک انہیں تحریروں سے ہوئی۔ اور جب لوتھر نے یورپ کو صدیوں کی نیند کے بعد جگا دیا تو اُس نے صرف ایک ہی گھنٹی بجائی جس کی گونج چاروں طرف گونج اُٹھی۔ یہ پولوس کا ایک خاص لفظ تھا۔ اور ایک صدی گزری ہے۔ کہ ہماری کلیسیاء جو روحانی طور پر تقریباً مُردو تھی جاگ اُٹھی اور یہ ان لوگوں کی کوششوں کا نتیجہ تھا جنہوں نے پولوس کی تحریروں میں سچائی کا نور حاصل کیا تھا۔

۱۱۷۔اور جب پولوس یہ خطوط قلمبند کر رہا تھا۔ تو اُس کو شاید شان و گمان بھی نہ تھا کہ آئندہ زمانہ میں ان کا ایسا عالمگیر اثر ہو گا۔ یہ خط اُسے اُس وقت کی ضرورتوں کے لحاظ سے لکھنے پڑے کسی تصنیف کی غرض سے نہ تھے۔ اور نہ کسی شہرت یا آئندہ کے استعمال کی غرض سے صحیح قسم کے خطوط دل کی حالت کا اظہار ہوتےہیں۔ پولوس کی دلی آرزو تھی۔ کہ اس کے روحانی بچے پھلیں اور پھولیں اورجن خطروں سے وہ گھرے تھے۔ ان سے ان کو آگاہ کرے اس دلی آرزو کا اظہار ان خطوط میں پایا جاتا ہے۔ یہ اُس کے روزانہ کام کا جز تھے۔ جیسا کہ وہ اپنے شاگردوں کو دیکھنے کے لئے تری اور خشکی کا سفر کرتا تھا۔ یا تمطاؤس اور ططس جیسے اشخاص کو صلاح مشورت اور ان کی خبر لانے کے لئے بھیجنا تھا ویسے ہی جب یہ مسئلے بہم نہ پہنچتے وہ خط بھیج کر اس غرض کو پورا کرتا تھا۔

۱۱۸۔ شاید اس سے کوئی خیال کرے گا کہ ان خطوط کی قدر گھٹ جاتی ہے۔ اور ہم شاید چاہتے ہوں کہ اگر ایسی مجبوری اور ایسی جلدی میں لکھنے کی بجائے اُس کو موقع ملتا کہ اپنے خیالات کو فراہم کر کے خطر جمعی سے ان اعلیٰ مضامین کو قلمبند کرتا تو بہت اچھا ہوتا۔ ہم یہ تو نہیں کہتے کہ طرز عبارت کے لحاظ سے پولوس کی تحریرات بے نظیر اور اعلیٰ نمونہ ہیں۔ اُس کو ایسا لکھنے کی فرصت ہی کہاں تھی۔ اور ایسی فصاحت(خوش بیانی ) کا اُسے خیا ل بھی نہ آیا ہو گا۔ لیکن تو بھی اکثر یہ پتہ لگتا ہے۔ کہ خیالات اپنی خوبی اور عمدگی ہی کے زور سے بڑی فصاحت سے ظاہر ہوتے ہیں۔ لیکن اکثر اُس کی عبارت چنداں فصیح(خوش بیانی ) اور شستہ (صاف )نہیں جو کچھ وہ کہنا چاہتا تھا۔ اُس کو وہ کہہ گذرتا تھا اور کچھ مضائقہ(تنگی ،دشواری ) نہیں کہ کس قسم کی عبارت اور الفاظ میں وہ کہتا ہے بعض اوقات اُس نے کچھ کہنا شروع کیا اور بلا اختتام تک پہنچائے اُسے چھوڑ دیا کبھی کبھی وہ اپنے اصلی مضمون کو چھوڑ کر جملہ معترضہ (جو بات کاٹ کر کہی جائے ) کی طرح ادھر اُدھر چلا جاتا ہے۔ اور سلسلہ خیال قائم نہیں رہتا۔ وہ اپنے خیالات کو بلا باہمی تعلق دیئے پیش کر دیتا ہے۔ اگر اس امر میں کوئی نظیر جو پولوس کی تحریرات سے مشابہ ہو دے سکتے ہیں۔ تو وہ آلیورکرام ویل (Crornwell Oliver)کے خطوط اور تحریریں ہیں۔ اس شخص کے دماغ میں انگلستان کے اور اس کے پیچیدہ معاملات کے بارہ میں اعلیٰ خیالات بھرنے تھے۔ لیکن جب وہ بذریعہ تحریر یا تقریر ان کو ظاہر کرنے لگتا ہے۔ تو اس کے دل سے عجیب سوالا ت اور دلائل نکلتے ہیں لیکن وہ فوراً الفاظ کے ریگستان میں پھنس کر راہ گم کرتے ہیں۔ معترضہ جملوں کا طومار اور جوش دلی کی بھر ماران کی حقیقت کو بُھلا دیتی ہے۔ اور شاید آغاز میں یہ غیر شستگی(زبان کی عمدگی یا صفائی ) اور بے صورتی نیچر کا تقاضا بھی ہے۔ خیالات کی شستگی اور کمال ان کا ترتیب وار اظہار پیچھے شروع ہوتا ہے۔ لیکن جب بڑے بڑے اعلیٰ خیالات پہلی دفعہ عدم سے وجود میں آتے ہیں۔ تو ایک قسم کی اصلی ابتدائی بے ڈولی ان کی رفیق ہوتی ہے۔ جس زمین سے وہ نکلے تھے۔ اس کی خاک دُھول اب تک ان میں چمٹ رہی تھی۔ چوکھا کھرا سونا پیچھے نکلتا ہے۔ اُس سے پیشتر کان میں سے ایک ملا جلا مادہ نکلتا ہے۔ اسی طرح پولوس سچائی کی کان میں سے یہ ملا سونا باہر نکال رہا ہے۔ اور ایسے سینکڑوں خیالات اُس نے ہم پر ظاہر کئے جو پہلے کسی نے ظاہر نہ کئے تھے۔ اور جب یہ خیالات ایک دفعہ ظاہر ہو گئے تو ایک معمولی منشی ان کو عمدہ اور بہتر عبارت میں بیان کر سکتا ہے۔ لیکن وہ ان خیالات کو کبھی پیدا نہ کر سکتا ۔ الغرض پولوس کی تحریرات میں ایسا سامان مہیا کر دیا گیا ہے۔ جس سے علماء علم الہیات کا مسلسل وبا ترتیب بیان کر سکتے ہیں۔ اور کلیسیا ء کا فرض بھی ہے کہ ایسا کرے لیکن اس کے خطوں میں ہمیں مکاشفہ کی عین پیدا ئش کے وقت کا نظارہ نظر آتا ہے۔ جس قدر غور سے ہم انہیں پڑھتے ہیں۔ اسی قدر سچائی سے جہان کی پیدا ئش کا جلوہ دکھائی دیتا ہے۔ جیسے فرشتوں کو تاریکی سے روشنی میں آتے دیکھا اور حیران ہوئے۔

۱۱۹۔ خدا نے اپنی روح کےے ذریعے یہ مکاشفہ پولوس کو بخشا۔ اس مکاشفہ کی عظمت ور فضلیت ہی اس امر کا ثبوت ہے کہ اُس کا دُوسرا کوئی چشمہ نہ ہو گا۔ لیکن جب پولوس پر یہ ظاہر ہو ا تو اس سے اُس کی قابلیت و لیاقت معطل(علیحدہ یا ناکارہ ) نہ ہو گئی۔ اُس کے تجربہ کے ذریعے اُس کو یہ حاصل ہوا اور اس کی عقل اور خیالات سراسر اس مکاشفہ سے تر بتر(بالکل گیلا ) ہو گئے اور جن الفاظ میں اس کی تحریرات میں یہ ظاہر ہو گا۔ وہ پولوس کی خاص ذہانت اور حالت کے مطابق تھے۔

۱۲۰۔ جس طرز میں پولوس کی تصنیفات پائی جاتی ہیں۔ اُس طرز ہی سے فصاحت و بلاغت کی کمی کی تلافی ہو جاتی ہے۔ کیونکہ یہ تو سب پر روشن ہے کہ خطوں ہی میں مصنف کی اپنی شخصیت بخوبی ظاہر ہو سکتی ہے۔ دیگر تصانیف میں خواہ وہ کتاب یا رسالہ وغیرہ کی صورت میں ہوں مصنف اپنی شخصیت چھپا سکتا ہے۔ لیکن خطوں کی وقعت بلا خطہ نویس کی شخصیت کےکچھ بھی نہیں۔ یہی حال پولوس کے خطوں کا ہے وہ اپنے خطوں میں برابر نمودار ہے۔ ہر مقام پر جو اُس نے قلمبند کیا ہے۔ اس کے دل کی حرکات کو آپ محسوس کر سکتے ہیں۔ اُس نے خود اپنی تصویر اپنے خطوں میں کھینچ دی ہے نہ ظاہر ی جسمانی صورت کی تصویر بلکہ اپنی باطنی اور اندرونی حالت کی تصویر۔ کہ کوئی دوسرا شخص اس کی ایسی تصویر نہ کھینچ سکتا۔ اگر چہ لوقا نے اعمال کی کتاب میں اس کا بہت ذکر کیا ہے۔ لیکن یہ باطنی حقیقی پولوسی تصویر لوقا کے ہاتھ کی نہیں بلکہ خود پولوس کے ہاتھ کی کھینچی ہوئی ہے اور اس کے خطوں میں جو اعلیٰ نظارہ نظر آتا ہے۔ وہ خود پولوس ہی کا ہے یا خدا کے فضل کا جو اس میں کام کر رہا تھا۔

۱۲۱۔ اس کی سیرت میں طبعی اور وحانی عناصر کی عجیب ترکیب نظر آتی ہے فطرت نے تو اُسے عجیب شخصیت و دیعت حاصل کی تھی۔ لیکن مسیحی دین نے جو تبدیلی اُس میں کر دی وہ بھی اظہر من الشمس ہے کسی مخلصی یا فتہ شخص کی زندگی میں ان دو امور کو الگ کرنا ممکن ہےکہ کونسی بات اُسے فطرت سے ملی ہے اور کونسی فضل الہٰی سے کیونکہ نجات یافتہ شخص میں یہ دو نوشیرو شکر کی طرح مل جاتے ہیں۔پولوس میں ان دونوں کا یہ اتحاد عجیب طور پر کمال کو پہنچ گیا۔اس کی ذات میں ہمیشہ صاف طور یہ عیاں تھا کہ اس میں دو مختلف عناصر نے ترکیب پائی ہے اور اسی امر کا لحاظ کرنے سے اس کی سیرت کا کافی اندازہ لگا سکتے ہیں ۔

۱۲۲۔ اس کے دور دورہ میں اس کی جسمانی صورت کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتے۔ جیسے کا ن نہ ہونے سے موسیقی کی خدمت ناممکن ہے یا نظر کے فتور کے باعث مصور ترقی نہیں کر سکتا۔ ویسے ہی مشنری زندگی بھی ایک خاص جسمانی صورت و حالت کے بغیر ناممکن ہے۔ جو لوگ پولوس کی مصیبتوں اور دُکھوں کی تفصیل پر نظر کرتے اور دیکھتے ہیں۔ کہ بعض سخت سے سخت آفتوں کے بعد وہ کیسی جلدی اپنی خدمت او محنت میں پھر مصروف ہو گیا۔ وہ یہ خیال کئے بغیر نہ رہ سکتے ہوں گے۔ کہ وہ کوئی ضرور رستم (بہادر)زمان تھا۔ حالانکہ وہ پست قد اور حقیر صورت تھا۔ اور طُرہ(انوکھی بات ) اس پر یہ تھا کہ بعض اوقات ایک سخت مکروہ بیماری بھی اُسے آستاتی تھی۔ اور اس کو وہ محسوس بھی کرتا تھا۔ کہ جب میں اجنبی لوگوں میں جا کر خدمت کروں گا۔ تو وہ لوگ میری کیا پروا اور قدر کریں گے۔ کیونکہ جو واعظ اپنے کام کو پیار کرتا ہے۔ وہ یہی چاہتا ہے کہ میں انجیل کو ایسے طور پر سناؤں اور سامعین کے سامنے ایسے طور پر ظاہر ہوں جس سے ان کے دل پر اثر ہو اور واعظ کی طرف سے اچھا خیال پیدا ہو جائے ۔ لیکن خدا نے پولوس کی بدنی کمزوری کو بھی اُس کی اُمیدوں سے بڑھ کر استعمال کیا کیونکہ جو لوگ اُس کے ذریعے ایمان لائے وہ اُسے بہت پیار کرنے لگ گئے اور یہ سچ تھا کہ جب وہ کمزور تھا۔ تب ہی وہ مضبوط تھا۔ اور اپنی کمزوریوں ہی میں وہ خدا کا جلال ظاہر کر سکا۔ یہ رائے بہت پھیل گئی ہے۔ کہ جس بیماری میں وہ مبتلا تھا وہ آنکھ کی بیماری تھی جس سے آنکھ بہت سر خ ہو جاتی ہے۔ لیکن اس رائے کی بہت بنیاد نہیں کیونکہ برعکس اس کے یہ پایا جاتا ہے۔ کہ اُس کی نظر میں بڑی تاثیر تھی۔ اور بعض اوقات اُس کی نظر ہی نے دشمن کا شکنجہ ڈھیلا کر دیا۔ مثلاً الیماس جادو گر کا یہ واقعہ لوتھر کو یاد لا تا ہے کہ جس کے بارہ میں یہ روایت ہے کہ اُس کی آنکھیں بعض اوقات ایسی شدت سے چمکتی تھیں کہ ناظرین اُس کی طرف تاک نہیں سکتے تھے۔ آج کل بعضوں نے یہ بھی سمجھا کہ شاید اُس کو دیگر بدنی بیماری تھی۔ لیکن جو محنت اُس نے اُٹھائی۔ جس پتھراؤ کی برداشت کی جس قدر کوڑے اس نے کھائے وہ کسی کمزور اور ناتواں حبثہ کاکام نہ تھا۔ اس میں تو کچھ کلام نہیں کہ وہ کبھی کبھی بیماری میں مبتلا ہو جاتا تھا۔ اور سخت مرض کے پھندے میں پھنس جاتا تھا۔ لیکن بدنی طور پر وہ کمزور اور ناتواں نہ ہوگا۔ جب وہ محبت بھر ے چہرے سےمنت کرتا تھا۔ کہ خدا سے میل کر لو یا اپنے پیغام کے پہنچانے کے جوش میں اس کا چہرہ روشن ہو جاتا تو ضرور وہ خوبصورت ہو گا اور یہ خوبصورتی محض خط و خال کی خوبصورتی سے اعلیٰ ہے۔

۱۲۳۔ اُس کی سیرت میں ایک اور بات بھی پائی جاتی ہے۔ جس نے اس کی خدمت میں بہت حصہ لیا یعنی اُلوالغرمی(بلند ارادہ یا حوصلہ )۔ بہت لوگوں کا تو یہ حال ہے کہ جہاں وہ پیدا ہوئے وہاں ہی زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں۔ اپنی چار دیواری سے باہر قدم نکالنا اور نئے لوگوں سے آشنائی پیدا کرنا وہ جانتے ہی نہیں ۔ لیکن بعض ایسے ہیں کہ آوارگی گویا ان کی سرشت میں گوندھی گئی ہے۔ ان کو فطرت نے سیاحت اور پھلداری کےکام کے لئے پیدا کیا ہے۔ اور جب ایسے لوگ دینی خدمت کو اختیار کرتے ہیں۔ تو وہ اعلیٰ درجے کے مشنری بن جاتے ہیں۔ آج کل کسی مشنری میں ایسی اولوالغرمی(بلند ارادہ یا حوصلہ ) پائی نہیں جاتی جیسے کہ لونگ سٹون (Livingstone)وغیرہ میں ظاہر ہوئی۔ جب وہ پہلی دفعہ افریقہ کو گیا تو اُس نے کیا دیکھا کہ مشنری اُس براعظم کے جنوب میں چند ہی میلوں کے اندر گویا مقید ہیں۔ اپنے اور گھر بناتے ہیں باغ لگاتے ہیں اور اپنے بال بچوں میں رہتے ہیں۔ دیسیوں کی چھوٹی چھوٹی جماعتوں کی نگرانی کرتے ہیں۔ اور اسی پر کفایت کرتے ہیں۔ یہ حال دیکھ کر وہ ان کو چھوڑ کر باشندوں کے عین درمیان گھس گیا اور ہمیشہ آگے آگے بڑھنے کی دُھن میں لگا رہا۔ اور ہزاروں میل کی منزلیں کاٹ کر ایسے علاقوں میں گیا۔ جہاں کسی مشنری کا گذرنہ ہوتا تھا۔ اور جب موت نے اس کو آلیا تو وہ آگے ہی بڑھا جا رہا تھا۔ پولوس کا مزاح بھی اسی قسم کا تھا۔ وہ بڑا باہمت اور عالی حوصلہ اور اُولوالعزم (بلند ارادے رکھنے والا)تھا جو دور دراز کا علاقہ نامعلوم تھا اُس کے لئے گھبرانے کی بجائے ایک عجیب کشش رکھتا تھا۔ جہاں دوسروں نے بنیاد ڈالی تھی۔ وہاں وہ عمارت کھڑی کرنا نہ چاہتا تھا۔ بلکہ جن علاقوں میں کسی نے پیشتر انجیل نہ سنائی تھی وہاں انجیل سنانے کا آرزو مند تھا۔ کلیسیائیں قائم کر کے وہ دوسروں کے سپرد کر کےوہ دوسری جگہ چلا جاتا تھا۔ اُسے پورا یقین تھا کہ انجیل کا جو چراغ اُس نے روشن کیا ہے۔ وہ اپنی ذاتی تاثیر سے اُس کی غیر حاضری میں بھی اپنی روشنی پھیلائے گا۔ جن منزلوں کو وہ طے کر چکا تھا ان کا خیال تو کیا کرتا تھا۔ لیکن اُس کا تمام شوق اور اشتیاق(تمنا یا آرزو) یہی تھا۔ آگے بڑھو۔ خوابوں میں بھی اُس کو یہی نظر آتا ہے کہ کوئی شخص اُسے نئے ملکوں کی طرف بلا رہا ہے۔ اُس کے دل میں کام کا ایک طویل نقشہ کھچا تھا۔ جسے وہ پورا نہ کر سکا اور جب موت کا وقت قریب آیا اُس وقت بھی دور دراز سفر کا خیال اس کے دل میں تھا۔

۱۲۴۔اُس کی سیر ت میں اس کی ایک اور صفت بھی پائی جاتی ہے آدمیوں پر اس کی تاثیر اور رسوخ ۔ بعض لوگوں کی تو ایسی طبیعت ہوتی ہے۔ کہ اگر کسی اجنبی سے سخت معاملہ بھی پڑ جائے تو بھی سلام کرنے پر راضی نہیں ہوتے۔ اور بعضوں کا یہ حال ہے کہ اپنے ہی مزاج اور اپنے ہم پیشہ لوگوں سے ملتے جلتے ہیں۔ لیکن پولوس کا واسطہ ہر قسم کے لوگوں سے پڑا اور جس کام میں وہ لگا ہوا تھا۔ اجنبیوں کو بھی وہ اس میں شریک کرتا ہے۔ ایک وقت تو بادشاہوں اور حاکموں کے سامنے تقریر کر رہا ہے۔ اور ایک وقت چندغلاموں یا سپاہیوں سے متکلم (کلام کرنے والا)ہے ایک دن تو اُسے یہودیوں کے عبادت خانہ میں وعظ کرنا پڑتا ہے۔ اور دوسرے روز آئینی کے فیلسوفوں کے سامنے اور کسی روز دیہات میں جا کر گنوار ان پڑھ لوگوں کے سامنےنصیحت کرنے کا اتفاق ہوتا ہے۔ اور خدا نے اُسے ایسی قابلیت عطا کی تھی۔ کہ وہ ہر حالت اور ہر موقع کے مناسب خدمت کر سکتا تھا۔ یہودیوں کے سامنے تو وہ ایک ربی کے طور پر جو مقدس نوشتوں سے بخوبی ماہر ہے۔ کلام کرتا یونانیوں کے سامنے تقریر کرتے ہوئے انہی کے شاعروں کی تصنیفات سے اقتباس کرتا۔ اور وحشی لوگوں کے سامنے صرف اس قسم کی دلیل دیتا کہ جو خدا آسمان سے بارش نازل کرتا ہے۔ اور موسم پر پھل دیتا ہے۔ اور ہمارے دلوں کو خوراک اور خوشی سے سیر کر دیتا ہے۔ جب کوئی کمزور یا بدنیت شخص سب آدمیوں کے لئے سب کچھ بننے کا دعویٰ کرتا ہے۔ تو آخر میں ثابت ہو جاتا ہے۔ کہ اُس سے کسی کو کچھ فائدہ حاصل نہ ہوا۔ لیکن پولوس جو اس اصول پر کار بند رہا اُس کے ذریعے انجیل ہر جگہ پھیل گئی اور لوگ اُس کی عزت و قدر کرنے لگ گئے اگرچہ دشمن اُس سے سخت دشمنی رکھتے تھے۔ لیکن دوست اُس کو بہت پیار کرتے تھے۔ انہوں نے اُسے خدا کے فرشتے بلکہ خود خداوند یسوع مسیح کی طرح قبول کیا اور یہاں تک اس کے ساتھ ہمدرد تھے کہ اگر ہو سکتا تو اپنی آنکھیں نکال کر اُس کو دیتے۔ ہر کلیسیاء یہ چاہتی تھی۔ کہ میں دوسروں سے بڑھ کر اُس میں خاص حصہ لوں۔ اور جب کسی جگہ وہ نہ جا سکا جہاں اُس نے جانے کا وعدہ کیا تھا پھر تو اُن کی مایوسی کی کچھ حد نہ تھی۔ اُسے وہ اپنا سخت نقصان سمجھتے تھے۔ جب وہ اُن سے رخصت ہوتا ہے تو زار زار روتے اُس کے گلے لپٹتے اور اُسے بوسے دیتے ہیں۔ کئی نوجوان اُس کی خدمت میں حاضر رہتے تا کہ اُس کے پیغام ادھر اُدھر لے جائیں۔ یہ اُس کی عالی حوصلگی اور اعلیٰ مردی کا ثبوت تھا کیونکہ بڑے لوگوں کے پاس سب جاتے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ اس سایہ تلے رہنا سلامتی کا باعث ہے۔

۱۲۵۔لیکن اس کی ہر دل عزیز ی کا باعث ایک اور امر بھی تھا۔ پولوس خود غرض شخص نہ تھا۔ اس عدم خود غرضی نےاس کی سیرت کو عجیب جلا بخشی۔ انسانی ذات میں ایسی صفت شاذو نادر ہی نظر آتی ہے۔ لیکن دوسروں پر اثر کرنے ہیں یہ جادو کا حکم رکھتی ہے۔ یہ قاعدے کی بات ہے۔ کہ ہر شخص اپنے ہی پر دوسروں کا قیاس(جانچ ) کرتا ہے۔ الناس یقیس علیٰ نفسہ۔ اگر کوئی شخص ایسا نظر آئے کہ وہ اپنے فوائد سے قطع نظر کر کے دوسروں کی بہبودی میں کوشاں ہے تو پہلے پہل تو وہ شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کہ شاید در پردہ اس کی کوئی غرض ہے۔ لیکن جب کسوٹی امتحان پر وہ پورا اترتا ہے۔ پھر تو اس کی تعظیم حد درجہ کی ہونے لگ جاتی ہے۔ پولوس ملک بہ ملک اور شہر بہ شہر جاتا تھا۔ پہلے پہل تو لوگوں کے سامنے وہ ایک معمہ کی صورت میں ظاہر ہوا اور اس کی حقیقی غرض اور منشا کے بارے میں بہتیرے قیاس کے گھوڑے دوڑائے گئے۔ شاید کسی نے سمجھا کہ یہ روپیہ کمانے کی دُھن میں ہے۔ کوئی یہ خیال کرتا ہوگا۔ کہ یہ اختیار و حکومت حاصل کرنے کا خواہان ہے۔ بعضوں نے کچھ دیگر ادنیٰ اغراض اُس سے منسوب کئے ہو ں گے۔ کیونکہ اُس کے دشمن تو اسی تاک میں رہتے تھے۔ کہ کچھ اس قسم کی بات نکال کر اُس قسم کی بات نکال کر اُس کی سیرت پر بٹہ(عیب ) لگائیں۔ لیکن جب لوگوں نے دیکھا کہ وہ دوسروں سے اپنے لیے روپیہ طلب نہیں کرتا بلکہ ہاتھوں سے دن رات محنت کر کے اپنی اور اپنے رفیقوں کی ضروریات رفع کرتا تو روپیہ پیسہ کے لالچ کا الزام اُس پر نہ لگا سکتے تھے ۔ خود تو شادی نکاح کے بند سے آزاد رہا لیکن جو محبت وہ بیوی اور بچوں پر صرف کرسکتا تھا۔ وہ اُس نے اپنے کام میں لگا دی۔ اپنے شاگردون سے اُس کو ایسی محبت تھی جیسی والدہ کو اپنے بچوں سے ہوتی ہے۔ وہ اُن کو کئی بار یاد دلاتا ہے کہ میں تمہارا باپ ہوں اور انجیل میں تم مجھ سے پیدا ہوئے۔ انہیں وہ اپنا جلال اور تاج۔ اپنی اُمید اور خوشی کہتا ہے۔ اگر چہ وہ دوسری جگہوں میں انجیل پھیلانے اور مسیح کے لئے لوگوں کو فتح کر نے کا مشتاق تھا لیکن جن کو اُس نے مسیح کے لئے فتح کیا تھا۔ اُن سے کبھی غفلت نہیں کی۔ وہ اپنی قائم کردہ کلیسیاؤں کو یقین سے کہتا ہے۔ کہ میں دن رات تمہارے لئے دُعا مانگتا اور شکر یہ ادا کرتا ہوں۔ اور فضل کے تخت کے آگے ان کا نام لےکر یاد کیا کرتا تھا۔ پھر کون خود غرضی کا الزام اُس پر لگا سکتا تھا۔ اگر ہم یہ کہیں کہ پولوس نے جہان کو فتح کیا تو ہم یہ بھی کہیں گے۔ کہ اُس نے محبت کے زور سے اُس کو فتح کیا۔

۱۲۶۔پولوس کی دو خاص مسیحی صفات کا ذکر کرنا بھی ضرور ہے۔ ایک تو یہ صفت اس کی خدمت میں نمودار تھی کہ وہ یہ سمجھتا تھا۔ کہ خدا نے مجھے مسیح کی منادی کرنے کے لئے مقر ر کیا ہے۔ اور اس خدمت کا بجا لانا وہ اپنا فرض لازمی جانتا تھا اکثر لوگوں کا یہ حال نہیں ہوتا ان کا کام اتفاقی ہوتا ہے۔ وہ بلا امتیاز اور بلا لحاظ یہ یا وہ کام اختیار کر لیتے ہیں۔ اور اگر ہو سکتا تو یہ کام چھوڑ کر کوئی دوسرا کام اختیار کر لیتے یا کچھ بھی نہ کرتے۔ لیکن پولوس کا یہ حال نہ تھا۔ جب سے وہ مسیحی ہو گیا اُس نےجان لیا کہ مجھے ایک خاص کام کرنا ہے اور اس کام کے لئے جو بلاہٹ اُسے ملی وہ اس کے دل میں بآواز بلند یہ چلا رہی تھی ۔ واویلا مجھ پر اگر میں انجیل کی منادی نہ کروں۔ اسی یقین اور تحریک نے اُسے جا بجا پھرایا۔ اُس کو اس امر کا یقین ہو گیا تھا۔ کہ مجھے یہ نئی تعلیم ضرور سنانی چاہیے کیونکہ نوع انسان کی نجات اسی تعلیم پر موقوف ہے اُس نے یہ جان لیا تھا کہ میں اسی لئے بلا یا گیا ہوں کہ میں مسیح کو ان سب پر ظاہر کردوں جن تک میں سعی(کوشش) بلیغ(کامل ) سے پہنچ سکتا ہوں۔ اسی لئے وہ شتابی (جلدی )کر رہا تھا۔ اور اسی دُھن میں و خطروں اور مصیبتوں کو ہیچ سمجھتا تھا۔ میں اپنی جان کو عزیز نہیں سمجھتا کہ اُس کی کچھ قدر کروں بمقابلہ اس کے کہ اپنا دور اور وہ خدمت جو خداوند یسوع سے پائی ہے۔ پوری کروں۔ یعنی خدا کے فضل کی خوشخبری کی گواہی دوں۔ وہ دن ہمیشہ اُس کی آنکھوں کے سامنے تھا جب اسے مسیح کے تخت عدالت کے آگے کھڑا ہو کر حساب دینا ہو گا۔ اور مایوسی کی حالت میں زندگی کے اُس تاج کی اُمید اُسےہمت دلاتی تھی۔ جس کا وعدہ خداوند حاکم عادل نے اُن سب سے کیا ہے جو وفادار ثابت ہوتےہیں۔

۱۲۷۔ دوسری خاص صفت جس نے اُس کی خدمت پر اثر کیا وہ مسیح کی محبت تھی وہ مسیح پر ذرا تھا ۔ اور جہاں مسیح لے جاتا وہا ں وہ خوشی سے جاتا جب سے اُس کی مسیح سے ملاقات ہوئی وہ دل سے اُس پر نثا ر ہو گیا۔ اور ساری عمر اس محبت کا شعلہ مشتعل (بھڑک )رہا بلکہ جو ں جوں موت کا وقت قریب آتا گیا۔ یہ محبت زیادہ بڑھتی گئی۔ اور اُس کو یہ محاورہ بہت پسند تھا۔ کہ میں مسیح کا غلام ہوں۔ اور اُسے بڑی آرزو یہی رہی کہ مسیح کے خیالات کو سب پر ظاہر کرے اور اس کی تاثیر کو جاری رکھے۔ اور بڑی دلیری سے اُس نے اس پر زور دیا کہ میں مسیح کا ایلچی ہوں۔ وہ یہ کہتا تھا۔ کہ مجھے اپنے شاگردوں سے مسیح عیسیٰ محبت ہے کہ مسیح کی عقل میر ے دماغ میں کام کر رہی ہے اور کہ میں مسیح کے کام کو انجام دے رہا ہوں۔ اور اُس کے دُکھوں کی کمیاں اپنے بدن سے پوری کر رہا ہوں۔ وہ مسیح کے زخموں کو اپنے بدن میں دکھا رہا ہے وہ یہ بھی کہتا ہے کہ میں مرتا ہوں تا کہ دوسرے زندگی حاصل کریں جیسے مسیح نے جان دی تا کہ جہان زندگی حاصل کرے۔ ان فخر یہ جملوں کی تہ میں فی الحقیقت فروتنی تھی۔ وہ یہ جان گیا تھا کہ مسیح نے سب کچھ میرے لئے کیا ہے۔ وہ میرے اندر داخل ہو گیا ہے۔ اُس نے پرانے پولوس کو نکال دیا ہے ۔ پرانی زندگی اور پُرانے آدم کو مار ڈالا ہے اور نیا انسان میرے اندر پیدا کر دیا ہے جس کے ارادے نئے ہیں خیالات اور کام کی طاقتیں سب نئی ہیں۔ اور اُس کی تمنا یہی تھی۔ کہ یہ کام اُس کے اندر ہی جاری رہے اور کمال تک پہنچ جائے کہ پُرانا انسان بالکل معدوم(نیست ) ہو جائے اور نیا انسان مسیح کے قد کے پورے اندازے تک پہنچ جائے تاکہ اُس کے خیال مسیح کے خیال اور اُس کے الفاظ مسیح کے الفاظ ہوں۔ اُس کے کام مسیح کے کام اُس کی سیرت مسیح کی سیرت اوروہ یہ کہہ سکے کہ میں زندہ ہوں۔ تو بھی نہیں بلکہ مسیح مجھ میں زندہ ہے۔

آٹھواں باب

پولوسی کلیسیاء کی تصویر

۱۲۸۔ جب کوئی سیاح کسی نئے شہر میں جاتا ہے تو وہاں کا نقشہ اور کتاب رہنما اپنے ساتھ لے کر وہاں کےمقبروں۔ قدیم یادگاروں۔ عمارتوں وغیرہ پر نظر مارتا جاتا ہے۔ اور یوں وہ اپنے زعم میں اُس شہر سے واقف ہو جاتا ہے۔ لیکن ذرا غور کرنے سے وہ جان لے گا کہ میں نے شہر کے بارے میں کچھ معلوم کیا ہی نہیں کیونکہ میں نے وہاں کے گھروں کے اندر قدم تک نہیں دھرا۔ اُسے اس کا علم ہی نہیں کہ وہاں کے لوگوں کا طرز زندگی کیا ہے۔ یا کسی قسم کا سامان آرائش بھی ان کے گھروں میں ہے ۔ یا ان کی خوراک پوشاک کس قسم کی ہے۔ دیگر گہری باتوں سے تو بھلا اس کو کیا ہی آگاہی ہو گی۔ وہ کیا جانتا ہے؟

کہ ان کی محبت کیسی ہے کیسی چیزیں پسند کرتے اور کن کی تلاش کرتے ہیں۔ آیا وہ اپنی حالت پر قناعت کرتے ہیں۔ یا نہیں تاریخ کے پڑھتے وقت بھی اس قسم کی حیرت پیدا ہوتی ہے۔ کیونکہ یہ تو زندگی کا بیرونی پہلو ہی دکھاتی ہے۔ دربار کی شان و شوکت ۔ جنگ و جدل کا برپا ہونا۔ فتوحات کا حاصل ہونا ۔ انتظام سلطنت کا انقلاب ۔ حکومتوں کا قائم ہونا۔ اور زوال پکڑنا وغیرہ تو سب ٹھیک طور سے تاریخ بتاتی ہے۔ لیکن تاریخ پڑھنے کے بعد یہ آرزو رہ جاتی ہے۔ کہ کاش میں ایک گھنٹہ کے لئے ان باتوں کو دیکھ سکتا کہ اُس کسان دکاندار۔ خادم دین اور رئیس شہر کے گھروں میں کیا ہو رہا ہے۔ مقدس نوشتوں کی تاریخ میں بھی یہی مشکل پیش آتی ہے۔ رسولوں کے اعمال کی کتاب میں پولوس تاریخ کی دل ہلادینے والی باتیں قلمبند ہیں۔ ایک شہر سے دوسرے شہر میں جلد جلد جا پہنچتے ہیں اور مختلف کلیسیاؤں کے قائم کرتے وقت جو واقعات ہوئے وہ بھی مندرج ہیں لیکن یہ تمنا با قی رہتی ہے کہ کاش ان کلیسیاؤں میں سے ایک کی اندرونی حالت کا نقشہ بھی ہم دیکھ سکتے۔ پافس۔ یا اقوینوم۔ تھسلنیکی۔ یا بریہ یا قرنطس میں پولوس کے جانے کے بعد کیا واقع ہوا۔ وہ مسیحی کس قسم کے تھے۔ اور ان کی عبادت کس قسم کی تھی؟

۱۲۹۔ خو شی کی بات ہے کہ اس اندرونی حالت کا نظارا کسی قدر ہم کو حاصل ہو سکتا ہے جیسے لوقا نے پولوس کے دور دورہ کے بیرونی پہلو کو دکھا یا ہے۔ ویسے ہی پولوس کے خطوط اس کے اندرونی پہلو کو دکھاتے ہیں۔ یہ دو مصنف دو مختلف مقامات یا خیالات سے لکھتے ہیں۔ اور یہ بات خاص کر پولوس کے اُن خطوں پر صادق آتی ہے۔ جو اُس نے اپنے تیسرے سفر کے آخر کے قریب لکھے ۔ان سے پہلےسفروں کے واقعات پر بڑی روشنی پڑتی ہے ان تین خطوں کے علاوہ جو اس وقت کے قریب لکھے گئے ایک اور خط بھی اُسی زمانہ کا ہے یعنی کرنتھیوں کا پہلا خط جس کے ذریعے ہم گویا جادو کے زور سے آنکھیں بند کرتے ہی دو ہزار برس پہلے کے زمانہ میں جا پہنچتے ہیں اور ایک بڑے یونانی شہر کو دیکھتے ہیں۔ جس میں ایک مسیحی کلیسیاء ہے۔ آو ہم ایک گھر کی چھت اُتار کر ذرا اندر جھانکیں۔

۱۳۰۔ ہم اندرکیا دیکھتے ہیں۔ یہ سبت کی شام ہے حالانکہ غیر قوم اہل شہر بہت سے ناواقف ہیں۔ سامنے بندرگاہ ہے دن کا کام ختم ہو گیا ہے۔ گلیوں میں تماشائیوں کاہجوم ہے جورات عیش و عشرت میں کاٹنا چاہتے ہیں کیونکہ یہ قدیم زمانہ کا نہایت بدکار شہر ہے۔ غیر ممالک کے سینکڑوں سوداگر اور جہاز ران گلی کوچوں میں گھومتے پھرتے ہیں۔ رومی جوان بانکے(بہادر سپاہی ) جو اس پیرس ثانی میں شہوات نفسانی کوپورا کرنے آتے ہیں گاڑیوں میں سوار ادھر اُدھر اُڑے پھر تے ہیں۔ اگر یہ سالانہ کھیلوں کا وقت ہے تو کشتی گیروں۔ دوڑنے والوں۔ گاڑی بانوں وغیرہ کی ٹولیاں ادھر اُدھر منڈ لا رہی ہیں۔ گروہ گروہ کے مداح شرطیں بند رہے ہیں۔ کہ وہ جیتے گا ۔ وہ سہرا حاصل کر ے گا۔ وہ لتاڑ مار گا۔ موسم خوب ہے کہ خوردوکلاں گھر سے باہر نسیم شام کا لطف اُٹھا رہے ہیں۔ اور غروب آفتاب اپنی سنہری شعاعوں سے اس دولت مند شہر کے محلوں اور مندروں کو لباس زریں پہنا رہا ہے۔

۱۳۱۔اسی اثنا میں مسیحیوں کا ایک چھوٹا جُھندا دھر اُدھر سے نکل کر اپنی عبادت کی جگہ کی طرف جارہا ہے۔ کیونکہ یہ ان کے جمع ہونے کا وقت ہے۔ یہ عبادت کی جگہ تو بہت نمایاں و نمودار نہیں۔ جو بڑے بڑے عالی شان مندر شہر میں پائے جاتے ہیں۔ ان کے پاسنگ (برابر) بھی نہیں۔ یہ تو یہودی عبادت خانہ سے بھی ادنیٰ ہے کسی مسیحی کے گھر کا یہ وسیع کمرہ ہے یا کسی سوداگر نے اپنے اسباب کے کمرے کو اس موقع کے لئے خالی کر دیا ہے۔

۱۳۲۔اب ذرا حاضرین پر نظر مار کر ان چہروں کو دیکھوان چہروں میں بڑا فرق معلوم ہوتا ہے۔ بعضوں کے خط و خال تو بتارہے ہیں۔ کہ یہ یہودی ہیں۔ اور دیگر غیر قوموں میں سےہیں۔ اور انہی کی کثرت ہے۔ذرا گہری نظر ڈالنے سے ایک اور فرق بھی معلوم ہوتا ہے بعض تو انگوٹھی پہنے ہیں۔ جس سے ظاہر ہے کہ وہ آزاد ہیں۔ لیکن دوسرے غلام ہیں اور ان کا شمار آزادوں سے بڑھا ہوا ہے۔ ان یونانی مسیحیوں میں ایک تو حسب نسب سے یونانی ہے اور فیلسوفوں کی طرح بڑی سنجیدگی اس کے چہرے سے ٹپک رہی ہے۔ دوسرا کچھ صاحب مال ہے۔ لیکن نہ تو اُن میں بہت دولت مند ہیں نہ اہل ثروت نہ اعلیٰ خاندانی بلکہ اکثر ایسے لوگ ہیں جو اہل شہر کی نظر میں نادان ۔ کمزور ۔ کمینہ ور حقیر ہیں۔ بعض غلام ہیں جن کے آباؤاجداد یونان کی آب وہوا سے ناآشنا تھے۔ بلکہ دریائے ڈینوٹ یا دریائے ڈان کے کناروں پر وحشیوں کے طور پر رہتے تھے۔

۱۳۳۔ ان سب کے چہروں پر ان کی گذشتہ زندگی کے خوفناک آثار نمودار ہیں۔ پولوس نے انہیں یہ لکھا تھا۔ کیا تم نہیں جانتے کہ بدکار خدا کی بادشاہی کے وارث نہ ہو ں گے۔ فریب نہ کھاؤ۔ نہ حرام کار خدا کی بادشاہت کے وارث ہوں گے۔ نہ بت پرست نہ زناکار۔ نہ عیاش۔ نہ لونڈے باز۔ نہ چور۔ نہ لالچی۔ نہ شرابی ۔ نہ گالیا ں بکنے والے۔ نہ ظالم ۔ اور بعض تم میں ایسے ہی بھی۔ وہ جو سامنے دراز قد یونانی شخص بیٹھا ہے وہ ہر طرح کی عیاشی کی دلدل میں لوٹ پوٹ رہا تھا۔ وہ جو سکوتی غلام اس کے قریب ہے وہ ایک وقت جیب کترا تھا اور مدتوں تک جیل خانے کی ہو ا کھاتا رہا۔ وہ پتلی ناک اور تیز چشم یہودی سو د خوری کے ذریعے قرنطس کے جوانوں کا شای لاک کی طرح گوشت کاٹ رہا تھا۔ لیکن ان سب میں عجیب تبدیلی واقع ہوئی۔ گناہ کی داستان کے علاوہ ایک او رکہانی بھی ان کے چہروں پر لکھی معلوم ہوتی ہے۔ مگر تم خداوند یسوع مسیح کے نام سے اور ہمارے خدا کی روح سے دُھل گئے اور پاک ہوئے اور راستباز بھی ٹھہرے ۔ زرا سنو وہ گار ہے ہیں۔ یہ چالیسواں مزمور ہے وہ مجھے ہولناک گڑھے اور دلدل کی کیچ سے باہر نکال لایا۔ کیسے جوش سے گارہے ہیں۔ کیسی خوشی ان کے چہروں سے آشکار ا ہے وہ مفت فضل اور جاں نثار محبت کی یادگا ر ہیں۔

۱۳۴۔ اب ذرا یہ تصور باندھے کہ وہ سب ایک جگہ جمع ہیں۔ اور دیکھئے کہ ان کی عبادت کس طرح کی ہے ہماری نماز کے طریقہ میں اور ان کی نما زکے طریقہ میں یہ ایک بڑ ا فرق نظر آئے گا۔ کہ ہماری عبادت میں ایک شخص امام ہو تا ہے جو دعائیں پیش کرتا۔ و عظ سناتا۔ اور مزامیر وغیرہ بتاتا ہے۔ حالانکہ اُس وقت حاضرین میں سے سب کو عبادت میں حصہ لینے کا حق تھا۔ البتہ ایک میر مجلس تو ہو اکرتا تھا۔ لیکن پھر بھی ایک شخص تو مقدس نوشتوں میں سے ورد پڑ رہا ہے۔ دوسرا شخص دُعا مانگتا۔ ایک اور شخص وعظ سناتا۔ گوئی گیت اُٹھا تا اور کوئی دیگر حصہ لیتا۔ ان کے درمیان کوئی مقرہ ترتیب بھی نظر نہیں آتی جس سے ظاہر ہو کہ فلا ں فلا ں حصہ فلاں فلاں موقع پر آنا چاہیے۔ جماعت میں سےجو شخص چاہتا اُٹھ کر حمد کے گیت گانے یاد دُعا مانگنے اور دھیان کی طرف جماعت کی توجہ دلانے لگتا۔ ہر شخص اپنی روحانی تحریک کے مطابق نماز میں حصہ لیا کرتا تھا۔

۱۳۵۔اس کی وجہ خاص یہ معلوم ہوتی ہے۔ کہ خاص خاص اشخاص کو خاص خاص انعام خدا کی طرف سے ملے تھے۔ بعضوں کو معجزہ کرنے کی قوت حاصل تھی مثلاً بیماروں کو شفا دینا وغیرہ بعضوں کو زبان بولنے کا انعام ملا تھا۔ یہ تو صاف معلوم نہیں۔ کہ یہ انعام کس قسم کا تھا۔ غالباً ایسا ہوتا۔ ہو گا کہ ایسا شخص کچھ وجد کی سی حالت میں آجاتا اور کچھ موزوں فقرات اُس کی زبان سے سرزد ہوتے اور کبھی خود بولنے والوں کو ان کے معنی معلوم نہ ہوتے تھے۔ بعض دیگر اشخاص کو یہ طاقت عطا ہوئی تھی کہ ایسے جملوں کا مطلب جماعت پر ظاہر کریں بعضوں کو نبوت کی روح ملی تھی۔ اور یہ بیش بہا انعام تھا۔ اس سے محض آئندہ واقعات کی خبر دینا ہی مراد نہ تھا۔ بلکہ یہ ایسے پر جوش اور فصیح طریقے سے سر زد ہوتی کہ اگر اس وقت کوئی غیر مسیحی بھی آجاتا اور ان نبیوں کا کلام سنتا تو اس کی گذشتہ زند گی کے گناہ اس کے سامنے آکھڑے ہوتے اور منہ کے بل گر کر اقرار کرتا کہ سچ مچ خدا ان کے درمیان ہے۔ بعضوں کو تعلیم دینے اور بعضوں کو انتظام کرنے کا ملکہ حاصل ہو گیا تھا۔ یہ سب کچھ الہام الہٰی کا نتیجہ تھا نہ کسی تیار یا اٹکل کا نتیجہ۔

۱۳۶۔ یہ امور ایسے عجیب ہیں کہ اگر تاریخ میں ان کا بیان کیا جاتا تو شاید کوئی مشکل سے ان کو مانتا ۔ لیکن ان کے بارے میں جو شہادت ہے اُس میں کسی کو کچھ کلام نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ یہ تو قاعدہ کی بات ہے کہ اگر کوئی شخص کسی جماعت یا گروہ پر ان کی حالت کو ظاہر کیا چاہے وہ ایک فرضی یا قیاسی حالت کو ان کے سامنے پیش نہیں کیا کرتا بلکہ اصلی اور حقیقی۔ اور پولوس تو ایسے امور کو کچھ روکنا چاہتا ہےان کی زیادہ اشاعت کا مشتا ق نہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے۔ کہ جب مسیحی دین نے پہلے پہل اس دُنیا میں قدم رکھا تو جن لوگوں کے ساتھ اس کو واسطہ پڑا اُن پر اُس نے کیسی تاثیر کی۔ ہر ایماندار کو عموماً اس کے بپتسمہ کے وقت جب کہ بپتسمہ دینے والا اُس پر اپنے ہاتھ رکھتا ایک خاص انعام ملتا اور اگر وہ اپنی بلاہٹ میں وفا دار رہتا تو یہ انعام بھی تادم زندگی اُس کو حاصل رہتا۔ یہ روح القدس کا کام تھا۔ جب روح القدس کثرت سے شاگردوں پر نازل ہوا تو وہ ان کے دلوں میں جاگزیں ہو گیا اور جیسا چاہا ہر ایک کو ایک انعام عطا کیا۔ اور اب ایسے شخص کا فرض تھا کہ دوسروں کے فائدہ کے لئے اس برکت کو کام میں لاتا۔

۱۳۷۔جس عبادت کا ذکر اُوپر ہوا ہے اُس کے بعد یہ لوگ محبت کی ضیافت کے بعد ایک دوسرے کو بردارنہ بوسہ دے کر اپنے گھروں کو رخصت ہوئے۔ یہ دلچسپ نظارہ برادارنہ الفت اور روحانی قوت کا اظہار تھا جب اُس بت پرست شہر کی گلیوں میں سے گذرتے ہوئے اپنے گھروں کو جارہے تھے۔ تو وہ جانتے تھے۔ کہ ہمیں ایسی نعمتوں کا مزہ حاصل ہو گیاہے۔ جو آنکھوں نے دیکھی نہیں اور کانوں نے سنی نہیں۔

۱۳۸۔ راستی کا یہ تقاضا ہے کہ وہ تصویر کے دونوں پہلوؤں کو دکھانا چاہتی ہے۔ نہ صرف درخشاں چمک دمک کا پہلو بلکہ تاریک پہلو بھی۔ افسوس کی بات ہے کہ کلیسیاء میں کچھ بے قاعدگیاں بھی نظر آتی ہیں۔ یہ خرابیاں دو وجوہات سے تھیں۔ جن مذاہب اور فرقوں سے یہ لوگ نکل کر مسیحی گلہ میں شریک ہوتے تھے۔ جس حالت اور چال چلن کو چھوڑ کر آئے تھے۔ اُس کا کچھ بقایا ان کے ساتھ لگا چلا آیا تھا۔ علاوہ ازیں مسیحی کلیسیاء میں یہودی اور غیر قوم اشخاص کے باہم اکٹھا ہونے سے کچھ اس قسم کا نتیجہ نکلا۔ اور سچ مچ یہ بڑا انقلاب تھا۔ غیر قوم مندروں کی پرستش سے خالص مسیحی سادہ عبادت کی طرف آتا کوئی خفیف امر نہ تھا۔ غیر قوم مندروں کی پرستش سے خالص مسیحی سادہ عبادت کی طرف آتا کوئی خفیف امر نہ تھا۔ پرانی زندگی کے چیتھڑے ابھی پورے طور سے اُترے نہ تھے۔ بلکہ اکثر وہ لوگ خود حیران تھے کہ کن باتوں کو ترک کرنا اور بدلنا چاہیے۔ اور کن کو جاری اور قائم رکھنا۔

۱۳۹۔ شاید ہم سن کر حیران ہوں گے کہ ان میں سے بعض خواہشات نفسانی اور شہوانی میں غلطان و یپچاں (متبلا )رہتے تھے۔ اور ان کے فیلسوف اس قسم کی خرابی کو اپنا ایک اصول سمجھتے تھے۔ ان کا خیال تھاکہ جس ان خواہشوں کو پورا کرتے کرتے گویا گھٹہ جاتا ہے اور ایسی خواہشوں کے پورا کرنے کے ناقابل ہو جاتا ہے اور بالطبع(فطری طور پر ) ان کو چھوڑ دیتا ہے ان میں سے ایک شخص جو بظاہر کچھ مالدار اور صاحب درجہ معلوم ہوتا ہے اس قسم کے ناجائز تعلقات میں پھنسا ہے کہ غیر اقوام میں بھی اس کی نظر مشکل سے ملے گی۔ اگرچہ پولوس نے بڑے ناراض ہو کر یہ حکم دیا تھا۔ کہ ایسا شخص خارج کر دیا جائے لیکن کلیسیاء نے اس پر عمل کرنے میں تامل (توقف)کیا اور یہ عذر پیش کیا کہ ہم نے آپ کے حکم کا مطلب نہیں سمجھا۔بعض دیگر مسیحی تھے جو بتوں ضیافتوں میں شریک ہو جاتے تھے۔ حالانکہ ان کو بخوبی معلوم تھا۔ کہ ان ضیافتوں میں بڑی نشہ بازی ہوتی ہے۔ اور اس کے متعلق وہ یہ بہانہ کرتے تھے۔ کہ ہم بتوں کی عزت و تعظیم کرنے کے لئے شریک نہیں ہوئے بلکہ ایک معمولی کھانا سمجھ کر شریک ہوتے ہیں۔ اور اگر ہم ایسا نہ کریں تو ہم کو دُنیا سے نکلنا پڑے گا۔

۱۴۰۔اس قسم کی خرابیاں کلیسیاء کے اکثر اُس حصہ میں تھیں۔ جو غیر اقوام پر زیادہ تر مشتمل تھا۔ لیکن جس جماعت میں یہودیوں کی کثرت تھی۔ اُس میں ان امور کے بارے میں بہت شک و شکوک پائے جاتے تھے۔ مثلاً بعض اشخاص جو اپنے غیرقوم بھائیوں کے بے لگام چلن سے نفرت کرتے تھے۔ وہ دوسری انتہا تک جاپہنچے اور شادی ہی کو بُرا سمجھا۔ اور یہ سوال اُٹھایا کہ کیا بیوہ کو دوبارہ شادی کرنا چاہیے ۔ یا اگر کسی مسیحی کی شادی غیر مسیحی سے ہوئی ہو تو اُسے رکھنا یا چھوڑنا چاہیے وغیرہ وغیرہ جو مسیحی غیر اقوام سے آئے تھے۔ وہ تو بتوں کی ضیافتوں میں حصہ لیتے تھے۔ اور جو یہودیوں میں سے آئے تھے۔ وہ بازار میں سےا یسا گوشت بھی خرید نا نہ چاہتے تھے۔ جو بتوں کے لئے قربانی چڑھا یا گیا ہو اور جو لوگ ایسی آزادی کام میں لاتے تھے۔ ان کو ملامت کرتے اور نظر حقارت سے دیکھتے تھے۔

۱۴۱۔ یہ مشکلات تو مسیحیوں کی خانگی زندگی سے متعلق تھیں۔ ان کی بر ملا مجلسوں میں بھی بعض بھاری بے قاعدگیاں پائی جاتی تھیں۔ روح کے عین انعام بد ی کے وسیلے اور پردے بن گئے ۔ جن کو معجزے کرنے یا زبان بولنے کی طاقت ملی تھی۔ وہ ان کے باعث متکبر اور شیخی باز ہو گئے۔ اس لئے کبھی کبھی ایسی مجلسوں میں بڑی ابتری اور شور غل ہو جاتا تھا۔ کیونکہ کبھی ایسا اتفاق ہوتا تھا۔ کہ جن کو زبان بولنے کی نعمت ملی تھی۔ وہ دو دو تین تین اکٹھے بولنے لگ جاتے اور ان کے معنی کچھ سمجھ میں نہ آتے تھے۔ اور اگر اس وقت کوئی اجنبی آجاتا تو وہ یہی خیال کرتا کہ شاید یہ سارے دیوانے ہیں اور ان میں سے جونبی تھے۔ وہ کبھی ایسا طول طویل بیان کرتے کہ لوگ تھک جاتے۔ اور ہر شخص زور مارتا کہ عبادت میں میں حصہ لوں۔ ان خرابیوں کے باعث پولوس نےا ن کو سخت تنبیہ کی اور بتایا کہ نبیوں کی روحیں نبیوں کے قابو میں ہونی چاہیئں۔ اور روحانی انعاموںکو خلل اندازی اور ابتری کا بہانہ نہ بنانا چاہیے۔

۱۴۲۔ علاوہ ازیں کلیسیاء کے اندر اور بھی چند مکروہ باتیں پائی جاتی تھیں۔ بعض عشائے ربانی کی پاک رسم کو بے جا طور پر عمل میں لانے لگے تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت یہ دستور تھا کہ مختلف شخص روٹی اور مےعشائے ربانی کے لئے اپنے ساتھ لے جایا کرتے تھے۔ اور جو دولت مند لوگ تھے وہ کثرت سے ان چیزوں کو ساتھ لے جاتے اور وہ دوسروں کی نسبت کچھ نفیس اشیابھی تھیں۔ وہ غریب مسیحیوں کی انتظاری نہ کرتے تا کہ ان کے غریبانہ سامان میں کچھ حصہ لیتے بلکہ اپنی آوارہ اشیاء کو استعمال کرنے لگے جاتے۔ اور کھاپی کر خوب مست ہو جاتے اور یوں خداوند کی میز کو شراب خوری اور عیاشی کی میز بنا دیتے تھے۔

۱۴۳۔ اس افسوس ناک تصویر میں کچھ اور مزید کر سکتے ہیں۔ وہ یہ ہے کہ برادرانہ محبت کےبوسہ کی بجائے جس کے ساتھ کہ ان کی مجلس ختم ہوتی تھی اُن میں رشک و حسد بھی پایا جاتاتھا۔ اور شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ جگہ جگہ کی مولی اکٹھی کی گئی تھیں۔ مختلف اقسام کے لوگ کلیسیاء میں داخل ہو گئے۔ جن کی طبائع(طبیعت ) مختلف اور مزاج متضاد اپنا جو ہر دکھائے بغیر نہ رہ سکتی تھی۔ اس کا نتیجہ بعض اوقات یہ ہوا کہ باہمی مسیحی فیصلہ کی بجائے غیر مسیحی منصفوں کے سامنے مسیحی مسیحی پر نالش کرتے تھے۔ اور کلیسیا میں آرائے مختلفہ کے باعث چار فرقے ہو گئے تھے۔ بعض تو اپنے تئیں پولوسی کہتے تھے۔ اور جو لوگ گوشت وغیر ہ کے متعلق کچھ و سواس رکھتے تھے۔ ان کو نظر حقارت سے دیکھتے تھے۔ اور بعض اپنے تئیں پولوس کے پیرو کہتے تھے۔ یہ پولوس سکندریہ کا فصیح (خوش بیان )معلم تھا اور پولوس کے دوسرے اور تیسرے سفر کے مابین قرنطس میں آیا۔ یہ کچھ فیلسوف لوگ تھے۔ اور قیامت کے مسئلے کا انکار کرتے تھے۔ کیونکہ ان کے نزدیک ایسا ماننا دانی تھا کہ بدن کے بکھرے ہوئے ذرات پھر جمع ہو کر ایک بدن بن جائیں گے۔ تیسرا فرقہ پطرس یا کیفاس کے نام سے کہلاتا تھا۔ یہ تنگدل یہودی تھے۔ جوپولوس کے آزاد ا نہ اور وسیع خیالات کو قبول نہ کر سکتے تھے چوتھے فرقے کے لوگ ان سب سے اپنے تئیں بالا تر ٹھہراکر مسیح کے پیرو یا صرف مسیحی کہتے تھے۔ یہ پولوس کے اختیار کو بالکل نہ مانتے تھے۔ اور شاید سب سے زیادہ تفرقہ پیدا کرنے والے تھے۔

۱۴۴۔ پولوس نےاپنے ایک خط میں اس وقت کی کلیسیاء کا خاکہ کچھ اسی طرح کا کھینچا اور اس خانہ میں بعض خال و خط خوب نمودار اور آشکار کئے ہیں۔ مثلاً اس سے ظاہر ہے کہ پولوس اپنے ہی زمانہ میں ایک نرالی قسم اور لیاقت کا شخص تھا۔ نیک نیتی اور ہمدردی نے مستقل مزاجی۔ شخصی پاکیزگی اور تو قیرنفسی کے ساتھ ترکیب پاکر ایک معجون(مرکب ) (ممعتدل(اعتدال پسند) اور فرحت بخش پیدا کر دیا تھا۔ جو کلیسیاء کی اُس طفلی(طفولیت ،کم عمری ) حالت کے لئے نہایت مفید اور باعث برکت ثابت ہوا ۔ اس سے یہ ظاہر ہو جاتا ہے کہ کوئی ایسا کلیسیائی انتظام نہ تھا۔ جو ہر زمانہ میں قابل تسلیم و تقلید ہو۔ یہ تو ابتدائی حالت تھی البتہ جو خطوط پولوس نے اس کے بعد لکھے ان سےپتہ لگتا ہے کہ کلیسیائی عبادت کا انتظام کچھ مستقل صورت اختیار کر گیا تھا۔ اُس کلیسیاء کی حالت سے اُس پر غور کرنے کے ذریعے ہمیشہ ایک تازہ روح اور روحانی قوت ملتی ہے اور ہر زمانہ میں مسیحی اس کے لئے رسولی زمانہ کی طرف رجوع کریں گے۔ ہر مسیحی میں روح کی قوت اپنا جلوہ دکھا رہی تھی۔ ہر ایک سینے میں نئے خیال جوش مار رہے تھے۔ اور سبھوں کو یقین تھا کہ ایک نئے مکاشفے کا آفتاب ان پر طلوع ہوا ہے۔ یہ زندگی محبت اور نور ہر جگہ زور مار کر پھیل رہے تھے۔ اور اس ابتدائی کلیسیا کی بے قاعدگیاں بھی کثرت زندگی کا نتیجہ تھیں۔ مابعد زمانوں کی بےجان ترتیب اور ضابطہ اس کی تلافی نہیں کر سکتا۔

نواں باب

بڑا مُباحثہ

۱۴۵۔ اس رسول کے خطوں سے جو اُس کی زندگی کا حال معلوم ہوتا ہے اُس سے ظاہر ہے کہ اُس کا بہت وقت ایک ایسے مباحثہ میں خرچ ہوا جس سے اُس کو نہ صرف بہت تکلیف اور رنج پہنچا بلکہ جس میں اُس کے بہت سال لگ گئے لیکن لوقا نے اس مباحثہ کا تقریباً کچھ بھی ذکر نہیں کیا۔ اس کی دووجوہات ہوں گی۔ ایک تو یہ کہ جب لوقا نے اعمال کی کتاب لکھی اُس وقت یہ مباحثہ تقریباً فتح ہو گیا تھا۔ اور دوسری وجہ غالباً یہ تھی کہ لوقا کا جو مدعا(مقصد) اس رسالہ کے لکھنے میں تھا۔ اُس سے اس مباحثہ کا بہت تعلق نہ تھا لیکن جس وقت یہ مباحثہ اپنے زوروں تھا تو اُس سے پولوس کو ایسی تکلیف پہنچی کہ سمندر کے آندھی و طوفان اور جہاز کی مصیبتیں بھی اُس کے مقابلہ میں ہیچ نظر آتی ہیں۔ پولوس کے تیسرے مشنری سفر کے اختتام کے قریب یہ اپنی سمت الراس(نقطہ عروج ) پر پہنچا ہوا تھا اور مذکورہ بالا خطوط کے لکھے جانے کا باعث یہی مباحثہ تھا اور گلتیوں کا خط پولوس کے مخالفوں کے لئے آسمانی گولے کا حکم رکھتا ہے۔ اس کے جوش بھرے الفاظ اور محاورے ظاہر کرتے ہیں کہ پولوس کے دل میں یہ مضمون کیسا جو ش مار رہا تھا۔

۱۴۶۔ امر زیر بحث اور حل طلب یہ تھا کہ کیا غیر اقوام کو مسیح بننے سے پیشتر یہودی بننا چاہیےیا دوسرے الفاظ میں یوں کہیں کہ کیا نجات پانے کے لئے ختنہ کرانا ضرور ہے یا نہیں۔

۱۴۷۔ قدیم زمانہ میں خدا کو یہ پسند آیا کہ دُنیا کی قوموں میں سے یہودی قوم کو چُن لے۔ اور اُسے نجات کا محافظ بنا دے۔ اور مسیح کی آمد تک یہ حال رہا کہ جو لوگ غیر اقوام میں سے حقیقی مذہب میں شریک ہونا چاہتے وہ اسرائیل کے مقدس احاطہ میں بذریعہ مرید ہونے کے دخل حاصل کرتے تھے۔ چونکہ خدانے اُن کو حقیقی مکاشفہ کا امین بنا دیا تھا اس لئے خدا نے ان کو دیگر اقوام سے بالکل علیحدہ کر دیا تھا۔ اور سارے دیگر مقاصد سے جو اس مُدعا میں خلل انداز ہوتے ان کی توجہ پھرا دی تھی۔ تا کہ جو امانت ان کے سپرد ہے اس کی حفاظت ایمانداری سے کر سکیں۔ اس مقصد کی تحصیل کےلئے ان کے ایسے قاعدے قوانین اور رسوم عطا کیے تھے۔ جن سے وہ ایک خاص اُمت بن جائیں اور دُنیا کی دیگر اقوام سے ان کا امتیاز ہو جائے۔ الغرض زندگی کے ہر طبقہ کے لئے خواہ طریق عبادت ہو یا قوانین تمدن ۔ خواہ خوراک ہو یا پوشاک با لتفصیل قانون ان کو دئیے گئے۔ اور یہ سارے اموران کی کتاب میں جو شریعت یا توریت کہلاتی ہے منضبط ہو گئے۔ اس لئے یہ شریعت ان کے لئے بار گراں ہو گئی۔ اور ان کی تمیز کے لئے یہ سخت آزمائش ا ور تربیت تھی جسے اُس قوم کے دیندار لوگ محسوس کئے بغیر نہ رہ سکتے تھے۔ البتہ بعض اسے باعث فخر جانتے تھے۔ او راپنے تئیں دُنیا کی قوموں میں سے چیدہ اور سب سے اعلیٰ سمجھتے تھے۔ حالانکہ اگر ان کی تمیز تیز اور صاف ہوتی بجائے فخر کرنے اور خوش ہو نے کے وہ اس جوئے تلے کراہتے اور چلاتے۔ لیکن انہوں نےتو اس امتیاز کو چند در چند (بہت زیادہ )کر دیا اور قانون پر قانون رسوم پر رسوم ایزاد (زیادہ ) کئے اور ایک طومار بے ہنگام بنا کے کھڑا کر دیا۔ ان کی نظر میں یہودی ہونا شاہد قوم میں شامل ہونے کا نشان تھا اور اس حق کو حاصل کرنا ان کے نزدیک سب سے اعلیٰ عزت اور افتخار کا باعث تھا۔ جو کسی غیر قوم کو حاصل ہو سکتا تھا۔ الغرض ان کے سارے خیالات اس قومی گھمنڈ کی چار دیواری کے اندر مقید تھے۔ مسیح کے بارے میں ان کی اُمید بھی انہیں تعصبات سے تنگ و تاریخ ہو گئی تھی۔ اور وہ یہ سمجھنے لگ گئے تھے۔ کہ مسیح ان کی قوم کا ایک جنگی بہادر شخص ہو گا جو دیگر قوموں کی بذریعہ ختنہ یہودی بنائے گا۔ اور یہودی شریعت کی پابندی ساری قوموں کو لازم ہو گی۔

۱۴۸۔جب مسیح ظاہر ہوا تو فلسطین میں یہودیوں کے خیالات اسی قسم کے تھے۔ اور جن لوگوں نے یسوع کو اپنا مسیح تسلیم کیااور مسیحی کلیسیاء میں داخل ہوئے وہ بھی کچھ اسی قسم کی رائے رکھتے تھے۔ وہ مسیحی تو ہو گئے تھے۔ لیکن یہودیت کا جامہ ابھی نہ اُتارا تھا۔ وہ ہیکل میں عبادت کے لئے جاتے تھے۔ اور مقررہ اوقات پر دُعا مانگتے مقررہ دنوں پر روزہ رکھتے۔ اور یہودی طریقے پر پوشاک رکھتے اگر نامختون غیر اقوام کے ساتھ کوئی کھا تا تو اُسے ناپاک سمجھتے اور ان کو یہی خیال تھا۔ کہ اگر کوئی غیر قوم میں سے مسیحی ہو تو اس ختنہ کرانا اور یہودی رسوم کو قبول کرنا ضرور تھا۔

۱۴۹۔ قیصر یہ کے صوبہ دار قرنگیوس کےمعاملہ میں خدا نے خود براہ راست بلا وساطت(بغیر کسی واسطہ کے ) اس امر کو طے کر دیا جب کہ قرنلیوس کے ایلچی پطر س رسول کی طرف یا فہ کو جا رہے تھے۔ تو خدا نے رسولوں میں سے اس سر کر دہ رسول پر چادر کی رویت کے ذریعے جس میں پاک اور ناپاک دونوں قسم کے جانور تھے۔ یہ ظاہر کر دیا کہ کلیسیاء میں مختون اور نا مختون دونوں یکساں ہیں۔ اس رویت کی ہدایت کے مطابق پطرس قرنلیوس کے ایلچیوں کے ہمراہ قیصر یہ کو روانہ ہوا اور ایسی شہادت اُسے ملی کہ قرنلیوس کےخاندان کو بلا ختنہ ایمان اور روح القدس کا خاص مسیحی انعام عطا ہوا ہے تو اُسے بپتسمہ دینے میں کچھ تامل(توقف،وقفہ ) نہ ہوا۔ کیونکہ وہ اس کے نزدیک مسیحی ہو چکے تھے۔ لیکن جب وہ یروشلم کو گیا تو اُس کی کاروائی سے یہودی مزاج مسیحیوں کو سخت تعجب اور غصہ پیدا ہوا۔ پطرس نے اپنی رویت کا حال سنایا اور یہ ظاہر کیا کہ جب ان نامختون غیر قوم اشخاص کو ہماری طرح ایمان اور رُوح القدس کا انعام حاصل ہوا ہے تو اُن کے مسیحی ہونےمیں کیا شک رہا اور کس امر میں وہ ہم سے ادنیٰ رہے۔

۱۵۰۔ پطرس کی یہ دلائل بہت پختہ تھیں اور چاہیے تھا۔ کہ انہیں سے معاملہ رفع دفع ہو جاتا اور طول نہ کھینچتا لیکن قومی فکر اور عمر بھر کے تعصبات کب آرام لینے دیتےتھے۔ وہ ایسی آسانی سے کب مان لیتے۔ اگرچہ یروشلم کے مسیحیوں نے اُس خاص مقدمہ میں پطرس کی کارروائی کو منظور کر لیا۔ لیکن انہوں نے اُس عالمگیر اُصول کو جو اُس مقدمہ میں چھپا تھا گرفت نہ کیا اور خود پطرس بھی جیسا کہ مابعد واقعات سے معلوم ہوتا ہے قرنلیوس کے معاملے کی حقیقت اور اُس رویت کی وسعت سے واقف نہ تھا۔

۱۵۱۔ اس مسئلہ کو ایک دوسرے شخص نے صا ف کر دیا۔ اس وقت کے قریب پولوس کا رسولی کا م انطاکیہ میں شروع ہوا۔ اور اُس سے تھوڑی ہی دیر بعد برنباس کے ہمراہ اپنے پہلے مشنری سفر پر غیر قوموں کی طرف روانہ ہوا۔ اور جہاں کہیں وہ گئے انہوں نے غیر قوموں کو بنا ختنہ کئے مسیحی کلیسیا ء میں شامل کیا اس کام میں پولوس نے پطرس کی تقلید نہ کی۔ کیونکہ اُسے انجیل براہ راست خدا سے ملی تھی ۔مسیحی ہونے کے بعد ہی وہ عرب کے بیابان میں چند سالوں تک رہا اور وہاں غوروفکر کے بعد جو کچھ اُسے کرنا تھا اُسے خوب اپنے دل میں فیصلہ کر کے ٹھان لیا۔ اُس کے نزدیک شریعت غلامی کا جواتھا۔ اور جس قدر اس کی سختی پولوس نے محسوس کی شاید کسی دوسرے نے نہیں کی تھی۔ اُسے خوب معلوم ہو گیا کہ شریعت مسیحی دین کا کوئی جز نہیں صرف اُس کے لئے ایک پُر مشقت تیار ہے ایک طرف تو اُسے شریعت کی مصیبت اور لعنت نظر آتی تھی۔ دوسری طرف انجیل کی خوشی اور آزادگی اس لئے اُس کے نزدیک غیر قوموں کو شریعت کے جوئے تلے لانا مسیحی دین کی حقیقت کو کھو دینا تھا۔ انجیل میں تو نجات کی صرف ایک ہی شرط بیان ہوئی ہے۔ اور شریعت میں جو شرائط نجات ہیں وہ اس ایک شرط سے بالکل مختلف ہیں۔ انہی وجوہات سے اُس نے اس مسئلہ کو اپنے دل میں بخوبی حل کر لیا۔ پولوس تو غیر قوموں کو مسیح کے جھنڈے کے تلے لانے کا آرزو مند تھا۔ لیکن یروشلم کے یہودی تنگ خیال تھے۔ اس لئے جو شرائط وہ غیر اقوام پر لگانا چاہتے تھے۔ وہ یہودیہ سے باہر مسیحی دین کی اشاعت کے لئے سخت مضر تھیں کیا کبھی رومیوں کا فخر۔ یونانیوں کی بلند خیالی ختنہ کرانے پر رضا مند ہو جاتی۔ اور یہودی روایت کے دائرہ میں مقید ہونے کو گوارا کرتا۔ ہرگز نہیں۔ جو مذہب ایسے اُلجھن میں پھنسا ہو وہ بھلا کب عالمگیر مذہب بن سکتا تھا۔

۱۵۲۔ لیکن جب پولوس اور برنباس اپنے پہلے مشنری دور ہ سے انطاکیہ کو واپس آئے تو انہیں معلوم ہوا کہ اس سے بھی قطعی فیصلہ درکار ہےکیونکہ یہودی مزاج کے چند مسیحی یروشلم سے انطاکیہ میں جا کر غیر قوم مسیحیوں کو یہ کہنے لگے کہ جب تک تم ختنہ نہ کراؤ تم نجات نہیں پاسکتے۔ یہ سُن کر وہ لوگ گھبرائے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم کسی ایسے اصول کو نظر انداز کرتے ہوں۔ جس سے ہماری رویتوں کی بہبودی میں فرق آئے اور انہیں انجیل کی سادگی پر بھی شک ہونے لگا۔ ایسے لوگوں کی تسلی کےلئے انطاکیہ کی کلیسیاء نے یہ ارادہ کیا کہ یروشلم میں رسولوں کے سامنے اُس مقدمہ کو پیش کریں اور انہوں نے پولوس اوربرنباس کو یروشلم بھیجا۔ یروشلم میں اسی فیصلہ کے لئے مجمع ہوا اور رسولوں اور بزرگوں کا فیصلہ پولوس کے دستور العمل کا مصدق تھا غیرقوموں کو ختنہ کرانا ضرور نہ سمجھا گیا۔ البتہ ان کو یہ کہا گیا کہ جو گوشت بتوں کے آگے قربانی کے لئے چڑھا یا جائے اُسے نہ کھائیں اور نہ حرام کاری میں پڑیں اور میخوں کھائیں۔ پولوس نے یہ شرائط منظور کر لیں البتہ وہ یہ تو نہیں کہتا تھا کہ ایسا گوشت کھانے سے نقصان ہوتا ہے۔ جو بتوں کی قربانیوں میں استعمال ہوا اور پھر بازار میں بکتا ہو۔ لیکن بتکدوں میں جہاں ایسی ضافتیں ہوتی ہیں۔ اور جہاں ہر طرح کی عیاشی پیچھے عمل میں آتی ہے۔ (حرام کاری کی ممانعت میں اسی دستور کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے)۔ وہ بڑی آزمائش کی جگہیں تھیں جن کے بارہ میں مسیحیوں کو آگاہ کرنا ضرور تھا۔ خون کھانے کی ممانعت یعنی ایسے گوشت کو کھانے کی ممانعت جس کے مارنےمیں خون بہا یا نہ گیا ہو یہودی تعصب کےباعث تھی اور کسی اخلاقی اصول پر مبنی نہ تھی۔ اس لئے کی مخالفت پولوس نے ضروری نہ سمجھی۔

۱۵۳۔ جس اس بڑے مجمع نے جس کے اختیار پر کسی کو کچھ کلام نہ ہو سکتا تھا۔ اس مشکل مسئلہ کا یوں فیصلہ کر دیا تو اُمید تھی کہ آئندہ کو یہ جھگڑا بر پا نہ ہو گا۔ کیونکہ جب پطرس، یوحنا اور یعقوب جیسے اشخاص جو یروشلم کی کلیسیاء کے ستون سمجھے جاتے تے۔ اور پولوس اور برنباس نے جوغیر قوم مسیحیوں کے خاص وکیل تھے۔ مقفق الرائے ہو کر یہ فیصلہ کر دیا تو خیال تھا کہ اس سے سبھوں کی خاطر جمع ہو گی اور منہ بند ہو جائے گا۔

۱۵۴۔ لیکن تھوڑی ہی دیر بعد یہ پتا لگا کہ یہ اُمید پوری نہ ہوئی اور اس فیصلہ کو اکثروں نے قطعی نہ سمجھا بلکہ جس مجمع نے یہ فیصلہ کیا اُسی میں چند ایسے اشخاص تھے جو ایسے فیصلہ کے سخت مخالف تھے۔ اگرچہ رسولی اختیار کے زور پر یہ فیصلہ ہو گیا اور گشتی خط دُور دُور کی کلیسیاؤں کے بھیجے گئے تا کہ اس فیصلہ سے وہ سب آگاہ ہو جائیں لیکن یروشلم کی مسیحی جماعت اس پر متفق نہ تھی۔ بلکہ مخالفت پر زیادہ آمادہ ہو گئی۔ اور مد ت تک یہی کشمکش رہی۔ بلکہ اس کی شدت بڑھتی چلی گئی۔ کئی طرف کا مصالح (سامان )بھی اس کا ممد (مددگار)ہوا۔ مثلاً قومی فخر اور تعصب نے اس سمندر ناز پر تاز یانہ(کوڑا) کاکام دیا۔ اور خود غرضی نے اس مثل کی تصدیق کر دی۔ کہ ایک تو کڑوا کریلا دوسرے نیم چڑھا۔ مذہبی جوش نے اس کو فرقہ بندی کی دلدل میں دھکیل دیا۔ اور مرید بنانے کی آرزو ۔ جھوٹی سرگرمی وار شخصی عداوت نے اس چنگاری کو پنکھا ہلا کر ایک شعلہ بنا دیا۔ یہاں تک کہ ان مخالفوں کی طرف سے مشنری جگہ جگہ کلیسیاؤں کی طرف بھیجے گئے اوررسولی فیصلہ کے خلاف یہ تعلیم دینے لگے کہ جب تک تم ختنہ نہ کراؤ گے حقیقی مسیحی دین کے پورے حقوق حاصل نہ کر سکو گے بلکہ اپنی روحوں کے نقصان کا باعث ہو گے۔

۱۵۵۔ یہ تنگ خیال مسیحی اپنے تئیں ہی حقیقی مسیحی جانتے تھے۔ اور جہاں جہاں پولوس نے غیر اقوام کے درمیان مسیحی جماعتیں قائم کی تھیں۔ ان کے درمیان برسوں تک ان کے ایلچی پولوس کی مخالفت کرتے رہے۔ وہ خود تو غیر اقوام میں جا کر کلیسیائیں قائم نہ کرتے تھے۔ اور پولوس کی طرح اس امر کے آرزو مند نہ تھے۔ کہ جہاں انجیل نہیں سنائی گئی وہاں جاکر انجیل سنائیں بلکہ ان کا کام یہ تھا کہ جہاں پولوس نےمسیحی جماعتیں قائم کی ہیں ان کے درمیان چپکے سے گھس کر اپنی رائے کی طرف مائل کرنے کی کوشش کریں۔ اس لئے سایہ کی طرح یہ پولوس کےپیچھے لگے رہے اور بہت سالوں تک اس کو انہوں نے دق کیا۔ وہ مسیحیوں کے کان میں یہ ڈالتے تھے۔ کہ جو انجیل پولوس سناتا ہے وہ صحیح انجیل نہیں ہے اور نہ پولوس دیگر رسولوں کی طرح معتبر(سچا) اور جائز رسول ہے۔ کیا وہ بارہ رسولوں میں سے ہے؟ کیا وہ مسیح کے ساتھ ر ہ چکا ہے ؟ اور اپنے حق میں وہ یہ کہتےتھے۔ کہ ہم یروشلم سےجو دین کا صدر مقام ہے حقیقی دین تمہارے پاس لاتےہیں اور یہ بھی بلا تامل(بغیر دیر کیے ) کہتے تھے۔ کہ ہم رسولوں کی طرف سے بھیجے گئے ہیں۔ اور پولوس کی روش میں جو فضیلت کی باتیں تھیں۔ انہیں کو وہ بگاڑ کر پولوس کی مخالفت میں پیش کرتے تھے۔ مثلا پولوس کا اپنی خدمتوں کے عوض میں روپیہ پیشہ کا قبول نہ کرنا ان کے نزدیک اس وجہ سے تھا۔ کیونکہ وہ رسولی اختیار نہ رکھتا تھا۔ حالانکہ رسول ہمیشہ اس قسم کا مختانہ(محنت کا معاوضہ ) قبول کر لیتے تھے۔ اور اس کا بے بیا ہے رہنا بھی ان کے خیال میں کوئی خوبی میں داخل نہ تھا۔ ان لوگوں نے جس کا م کا بیڑا اُٹھایا تھا۔ اس کی قابلیت بھی رکھتے تھا۔ شیریں کلامی اور ملاحت (خوشنمائی )سے کام لیتے اور اپنے تئیں ذی(شان،صاحب ) رتبہ ظاہر کرتے تھے۔ اور چھوٹی چھوٹی باتوں کی پروانہ کرتے تھے۔

۱۵۶۔ افسوس کی بات ہے کہ ان کو قدرے کا میابی بھی حاصل ہوئی۔ پولوس کے مریدوں کے دلوں کو پریشان کیا۔ اور پولوس کی طرف سے ان کو بدظن کر دیا خاص کر گلاتی مسیحی ان کا شکار ہو گئے اور کرنتھی کلیسیاء اپنے بانی کی مخالف ہو گئی۔ جگہ جگہ فرقہ بندی کی روح ظاہر ہونے لگی۔ اور ایسا معلوم ہوتا کہ جو عمارت پولوس نے برسوں کی محنت و مشقت کے بعد تیار کی تھی وہ اب زمین پر گرنے کو تھی۔ پولوس کو یہ اندیشہ تھا۔ اگر یہ لوگ اپنے تئیں مسیحی کہتے تھے۔ لیکن پولوس ان کو ایسا نہ سمجھتا تھا۔ ان کی انجیل دوسری انجیل نہ تھی۔ اگر اس کے مریدوں نے ان کی تعلیم قبول کی تو پولوس نے صاف ان کو کہہ دیا کہ تم فصل سے گر پڑے ہو۔ اور اُس نے ایسے شخصوں پر لعنت کہی جو خدا کی ہیکل کو گرا رہے تھے۔ جسے اُس نے تعمیر کیا تھا۔

۱۵۷۔ بھلا پولوس جیسا شخص اپنے مریدوں کی ایسی بربادی دیکھ سکتا تھا۔ اُس نے سارے زور سے ان معلموں کی مخالفت کی۔ اور جہاں جہاں اُسے خیال تھا۔ کہ ان معلموں نےغلطی کا بیج بویا ہے۔ وہاں ہی پولوس یا تو خود جاتا یا اپنے ایلچیوں کو بھیجتا تا کہ وہ مرید پھر واپس آئیں اور جولوگ خطر ے میں تھے۔ ان کو خطوط بھی لکھے۔ ان خطوط میں اس کی طبیعت کا زور ظاہر تھا اور اُس کی لیاقت کا ثبوت پر لے درجہ کا تھا ہے۔ منطق اور کتاب مقد س سےاُس نے دلائل پیش کئے اور اپنے مخالفوں کی خوب دھجیاں اُڑائیں اور ان کی غلطیوں کو طشت ازبام(ظاہر کرنا ) کر کے اُن پر ہنسی کی ہے اور اپنے مریدوں کے قدموں میں سر رکھ کے وہ ان کی سارے زور سے منت کرتا ہے۔ کہ مسیح اور اس کے ساتھ وفادر رہیں۔ پولوس کے ان فکروں اور اُس کی دل کی زاری کا سارا حال ہمارے نئے عہد نامہ میں ملتا ہے۔ اس کے لئے ہم پولوس کے شکر گزار ہیں۔ اور خود پولوس کے ساتھ ہماری ہمدردی ہے کہ اس کے اس خستہ شکستہ دل (پریشان حال )سے یہ قیمتی میراث ہم کو حاصل ہوئی۔

۱۵۸۔ یہ معلوم کر کےہم کو بڑی تشفی ملتی ہے۔ کہ وہ آخر کار کامیاب ہوا۔ اگرچہ اس کے حریف بڑے باہمت اشخاص تھے لیکن پولوس کے مقابلہ کی تاب نہ لا سکے عداوت اگرچہ بہت مضبوط ہوتی ہے۔ لیکن محبت اُس سے بھی زیادہ زور آور ہے اس کی مابعد تصنیفات میں اس مخالفت کے آثار بہت ہی کم یا بالکل معدوم(غائب ،ناپید) ہیں۔ اس کی دلیل نے اُس مخالفت کو بالکل پاش پاش کر دیا کہ کلیسیاؤں میں پھر مشکل سے اس کا پتہ ملتا ہے۔ اگر معاملہ اُلٹا پڑتا ہے۔ تو مسیحی دین ایسے دریا کے مشابہ ٹھہرتا جو اپنے چشمہ کے نزدیک ہی ریگستان میں گھس کر جذب اور خشک ہو جاتا ہے۔ اور آج عالمگیر مذہب ہونے کی بجائے وہ زمانہ ماضی کا ایک گیا گزرا یہودیہ فرقہ ہوتا۔

۱۵۹۔ یہاں تک تو اس قدیم مباحثہ کا صاف پتہ لگ سکتا ہے۔ لیکن اس کی ایک اور شاخ بھی ہے۔ جس کی ٹھیک رفتار کا تحقیق کے ساتھ سُراغ لگا نا آسان نہیں پولوس کی تعلیم اور منادی کے مطابق یہودی مسیحیوں کا تعلق شریعت کے ساتھ کیا تھا؟ کیا ان کا یہ فرض تھا کہ جس شریعت کے احکام اور رسوم پر وہ چلتے تھے۔ ان کو ترک کر دیں اور اپنے بچوں کا ختنہ نہ کرائیں اور ان کی شریعت پر چلنے کی تعلیم نہ دیں؟ سرسری نظر سے پولوس کے اصولوں میں کچھ ایسا ہی پایا جاتا ہے اگر غیر قوم کے لوگ شریعت پر عمل کیے بغیر آسمان کی بادشاہت میں داخل ہو سکتے ہیں تو یہودیوں کے لئے اس کا پابند ہونا کیا ضرور ؟ اور اگر شریعت محض مسیح تک پہنچانے کے لئے ایک استاد یا ملازم کے طور پر تھی۔ تو جب یہ مقصد حاصل ہو گیا شریعت کا کام ختم ہوا۔ اور بچہ سیا نا ہو کے اپنی میراث کا مالک ہو گیا تو اتالیق(استاد) کی پابندی جاتی رہی۔

۱۶۰۔ مگر اس میں کچھ شک نہیں کہ دیگر رسولوں اور یروشلم کے اکثر مسیحیوں نے بہت دنوں تک اس حقیقت کی تکلیف کو نہ جانا۔ رسول اس پر اتفاق کر گئے تھے۔ کہ غیر قوموں کو ختنہ کی اور تعمیل شریعت کی تکلیف نہ دی جائے۔ لیکن وہ ان دونوں کے پابند تھے اور سب یہودی مسیحیوں سے اسی امر کے متوقع تھے۔ یہاں خیالات و تصورات کا اختلاف تھا جس سے پیچھے افسوس ناک نتائج پیدا ہوئے۔ اگر یہ حال جاری رہتا یا پولوس بھی اس امر پر اتفاق کر جاتا تو کلیسیاء دو حصوں پر منقسم ہو جاتی جن میں سے ایک حصہ دوسرے کو نظر حقارت سے دیکھتا۔ کیونکہ شریعت کی پابندی کا ایک جز یہ تھا۔ کہ نامختونوں کے ساتھ نہ کھائیں۔ اس کے مطابق یہودی مسیحی بھائی کہتے تھے۔ چنانچہ ایک موقع پر اس کی عملی مثال وقوع میں آئی پطرس رسول ایک دفعہ انطاکیہ شہر میں غیر اقوام کے درمیان تھا۔ اور غیر قوم مسیحیوں کے ساتھ کھلم کھلا کھاتا پیتا تھا۔ لیکن جب چند یہودی مسیحی جو شریعت کے بڑے پابند تھے۔ یروشلم سے وہاں گئے تو ان کے دباؤ میں آکر غیر قوم مسیحیوں سے اجتناب اختیار کیا۔ یہاں تک کہ برنباس بھی اس تعصب کے جال میں پھنس گیا۔ پولوس اکیلا انجیلی آزادی پر قائم رہا۔ اور اُس نے پطرس کا رو برو مقابلہ کیا۔ اور اس کی روش کے نقص کو طشت ازبام (ظاہر)کیا۔

۱۶۱۔ لیکن جو لوگ یہودیوں میں سے مسیحی گلہ میں شریک ہوئے پولوس ان کو ختنہ اور شریعت پر عمل کرنےسے منع نہ کرتا تھا۔ اُس کے دشمنوں نے اس پر اس قسم کا الزام لگا یا لیکن وہ الزام غلط تھا۔ جب تیسرے مشنری سفر کے خاتمے پروہ یروشلم میں پہنچا تو رسول یعقوب اور بزرگوں نے اس کو اطلاع دی کہ اس غلط افواہ سے اُس کے نیک نام کی کیسی بدنامی ہوتی ہے۔ اور اُس کو صلاح دی کہ برملا اس کی تکذیب (جھٹلانا)کرے جن الفاظ میں انہوں نے اُس سے درخواست کی وہ بہت قابل لحاظ ہیں۔ اے بھائی تو دیکھتا ہے کہ یہودیوں میں ہزار ہا آدمی ایمان لے آئے ہیں۔ اور سب شریعت کے بارے میں سرگرم ہیں اور ان کو تیرے بارے میں سکھا دیا گیا ہے۔ کہ تو غیر قوموں میں رہنے والے سب یہودیوں کو یہ کہہ کر موسیٰ سے پھر جانے کی تعلیم دیتا ہے کہ نہ اپنے لڑکوں کا ختنہ کرو نہ موسوی رسموں پر چلو۔ پس کیا کیا جائے لوگ ضرور سنیں گے کہ تو آیا ہے اس لئے جو ہم تجھ سے کہتے ہیں وہ کہ ہمارے ہاں چار آدمی ایسے ہیں جنہوں نے منت مانی ہے۔ انہیں لے کر اپنے آپ کو ان کے ساتھ پاک کر اور ان کی طرف سے کچھ خرچ کرتا کہ وہ سر منڈائیں۔ تو سب جان لیں گے۔ کہ جو باتیں انہیں تیرے بارے میں سکھائی گئی ہیں۔ ان کی کچھ اصل نہیں بلکہ تو خود بھی شریعت پر عمل کر کے درستی سے چلتا ہے۔ پولوس نے اس صلاح کو منظور کر لیا۔ اور جس رسم کا یعقوب نے اُس سے ذکر کیا اُس پر پولوس نے عمل کیا اس سے صاف ظاہر ہے کہ پولوس نےکبھی پر پیدائشی یہودیوں کو یہودی طریق پر رہنے سے منع نہیں کیا۔ شاید کوئی یہ کہہ سکتا ہے۔ کہ اس کو ایسا کرنا چاہیے تھا۔ کیونکہ اس کے اصولوں کا یہ تقاضا تھا کہ جو عہد گذر چکا ہے اُس کے متعلق سارے اُمور سے وہ علیحدہ ہونے پر زور دیتا۔ لیکن پولوس کا ایسا خیال نہ تھا۔ بلکہ جو نامختونی میں بلائے گئے ان کو وہ کہتا ہے کہ وہ مختون نہ بنیں اور اس کی وجہ یہ بیان کرتا ہے۔ کہ نہ ختنہ کچھ شے ہے نہ نامختونی۔ اس امتیاز کو وہ اُسی قسم کا جانتا تھا۔ جو نرومادہ میں یا غلام و آقا میں ہو تا ہے۔ الغرض اُس کے نزدیک اس میں کوئی مذہبی بات نہ تھی۔ اگر کوئی کہتا کہ یہودی نما زندگی میری قومیت کا نشان ہے تو پولوس کو اُس سے کچھ جھگڑا نہ تھا بلکہ کسی قدر وہ ایسے امتیاز کا طرقدار تھا کہ محض ظاہر ی صورت پر وہ زور نہ دیتا نہ اس کی تائید میں نہ اس کی تردید میں۔ البتہ اگر یہ امتیاز کسی کو مسیح کے پاس لانے سے رو کے یا مسیحی بھائیوں میں جدائی کا باعث ہو تو وہ اس کا سخت دشمن تھا۔ وہ خوب جانتا تھا۔ کہ آزاد گی ظلم کا وسیلہ بھی ہوسکتی ہے اور غلامی کا بھی۔ چنانچہ گوشت کے بارے میں جو ہدایات اُس نے دیں ان سے ظاہر ہے کہ اُس نے خود غرضی سے ہرگز کام نہیں لیا بلکہ کمزور بھائیوں کی خاطر ہر طرح کی خود انکاری کی تاکید کی۔

۱۶۲۔ الغرض پولوس ایسے وسیع خیال کا شخص تھا کہ اس کی ٹھیک تعریف کرنا آسان نہیں۔ و ہ ظاہر قاعدے قوانین ہر روز نہ دیتا تھا۔ اور جو لوگ اُس کے ساتھ اختلاف رائے رکھتے تھے۔ اُن کا وہ خاص لحاظ کرتا۔ ہر طرح کی غلامی اور تعصبات سے وہ یک لخت(فوراً) آزاد ہو گیا اورنہ اپنی آزادگی کو دوسروں کے لئے سدِ راہ (راستہ روکنے والا )بنا یا۔

دسواں باب

اخیر

۱۶۳۔ تیسرے مشنری سفر کے اخیر کے قریب یونان میں تھوڑی دیر رہنے کے بعد پولوس یروشلم کو واپس گیا۔ اس وقت اس کی عمر تقریباً ساٹھ سال کی ہوئی اور بیس سال سے وہ معمول سے بڑھ کر محنت کر رہا تھا۔ اور برابر سفر کرنے اور انجیل سنانے میں لگا رہا ۔ علاوہ ازیں کلیسیاؤں کی خبر گیر ی کی فکر ایک بار گراں کی طرح اُس کو نیچے کچل رہی تھی۔ ایک طرف تو بیماری نے جسم کو کھا لیا تھا ایک طرف دشمنوں کی طرف سے عذاب و تکلیفات نے اُس کو توڑ ڈالا تھا اُس کے بال توضرور سفید ہو گئے ہوں گے۔ اور چہر ہ مر جھا گیا ہو گا۔ لیکن مسیح کی خدمت کرنے سے نہ تو اس کا بدن تھکا تھااور نہ اس کی روح اس کی آنکھیں روم جانے پر لگی ہوئی تھیں۔ اور روم کو روانہ ہونے سے پیشتر اُس نے روم میں کہلا بھیجا تھا۔ کہ میں جلد وہاں آنے والا ہوں۔ لیکن جب کہ وہ یونان کے ساحل سے گذرتا ہوا یروشلم کو جانے کی شتابی کر رہا تھا۔ تو اُسے اطلاع ملی کہ تیرا کام تقریباً ختم ہو چکا ہے اور موت نزدیک ہے مسیحی جماعتوں میں جہاں کہیں ایسے اشخاص تھے جن کو خدا کی طرف سے پیشین گوئی کرنے کا انعام ملا تھا۔ وہ برابر پولوس کو جتانے لگے کہ زنجیر اور قید اس کے لئے تیار ہیں اور جس قدر وہ یروشلم کے نزدیک پہنچتا اسی قدر یہ اطلاع زیادہ صفائی سے ملتی گئی ۔پولوس اس اطلاع کی حقیقت سے واقف تھا۔ لیکن وہ دلیران سب مصیبتوں کو جھیلنے کے لئے تیار تھا۔ لیکن چونکہ بڑا فروتن اور دیندار تھا اس لئے موت اور عدالت کے خیال نےاُس پر بڑا اثر کیا اس کے ساتھ کئی ایک رفیق تھے۔ لیکن اب وہ زیادہ تنہائی چاہتا تھا۔ اپنے شاگردوں کو الوداع کہا جیسے کہ آدمی مرتے وقت اپنے دوستوں سے رخصت ہوتا ہے اور انہیں صاف بتا دیا کہ تم میرا منہ پھر نہ دیکھو گے۔ لیکن جب وہ اس کی منت کرنے لگے کہ اپنے ارادہ سے باز آئے اور اس اٹل خطر ہ سے کنارہ کرے تو ان کے پیارے ہاتھو ں کو جن سے وہ بغل گیر ہو رہے تھے۔ آہستہ سے ہٹا دیا اور کہا تم کیا کرتے ہو کیوں رو رو کے میرا دل توڑتے ہو۔ میں تو یروشلم میں خدا وند یسوع کے نام پر نہ صرف باندھے جانے بلکہ مرنے کو بھی تیار ہوں۔

۱۶۴۔ ہمیں یہ تو ٹھیک طور سے معلوم نہیں کہ یروشلم میں کونسا ایسا ضروری کام تھا جس کے لئے وہ وہاں جانے کے لئے اتنا زور مارتا تھا ۔اتناتو البتہ معلوم ہے کہ وہ یروشلم کے غریب مقدسوں کے لئے کچھ چندہ لے جارہا تھا جو اُس نے غیر قوم کلیسیاؤں سے کوشش کر کے جمع کیا تھا۔ اور شاید اس کا خود چندہ لے کر وہاں حاضر ہونا اس کے نزدیک نہایت ضرورتھا۔ یاشاید رسولوں سے غیر قوم کلیسیاؤں کے لئے کوئی خاص پیغام حاصل کیا چاہتا تھا۔ جس سے کہ اُس کے دشمنوں کا منہ بند ہو جائے جو اس کے رسولی اختیار اور اُس کی انجیل پر شک کرتے تھے۔ بہر حال ایک اٹل بلا ہٹ اُسے یروشلم کی طرف دھیکنے لئے جا رہی تھی۔ اور موت کے خوف اور دوستوں کی زاری کے باوجود اپنے انجام کی طر ف بڑھا جا رہا تھا۔

۱۶۵۔جب وہ یروشلم میں پہنچا تو عید پنتیکوست کا موقع تھا اور حسب معمول دُنیا کے سارے اطراف سے لاکھوں یہودی عید کے لئے یروشلم میں جمع ہو رہے تھے۔ اور ان میں ضرور بعض ایسے یہودی بھی ہوں گے۔ جنہوں نے پولوس کی منادی سنی تھی۔ اور جن سے شاید اس کامقابلہ بھی ہوا ہو۔ ان ممالک میں تو وہ غیر قوم حکام کے باعث اُس پر اپنے دل کی ہوس نہ نکال سکتے تھے۔ لیکن اس یہودی دارالخلافہ میں یہاں کے باشندوں کی مدد سے وہ بہت کچھ کر سکتے تھے۔

۱۶۶۔ فی الحقیقت یہی خطرہ اُسے پیش آیا۔ افسس کے بعض یہودیوں نے جہاں پولوس نے تیسرے سفر کے وقت بہت کام کیا تھا۔ اُسے ہیکل میں پہچان لیا اور چلانے لگے کہ یہ وہ بدعتی شخص ہے کہ جو یہودی قوم۔ شریعت اور ہیکل کے خلاف کفر بکتا پھرتا ہے۔ یہ کہنا ہی تھا کہ لوگ جوش میں آکر آگ بگولا ہو گئے۔ اور جائے تعجب ہے کہ انہوں نے اُسی وقت اُس کو ٹکڑے ٹکڑے نہیں کر دیا۔ لیکن شاید اس پاک مکان میں خون بہانے سے ڈر ے اور جونہی وہ اُسے غیر قوموں کے صحن میں کھینچ کر لائے جہاں وہ اُسے مار ہی ڈالتے۔ رومی پہرہ داروں نے جو اُوپر قلعہ میں پہر ہ دےے رہے تھے۔ یہ ہنگامہ دیکھ لیا ۔ اور فوراً آکر پولوس کو اپنی حفاظت میں لےلیا اور جب ان کے کپتان کو معلوم ہوا کہ یہ رومی حقوق رکھتا ہے پھر تو اس کی حفاظت ان کا لازمی فرض ہو گیا۔

۱۶۷۔ اہل یروشلم کا جوش تو سمندر کی طرح بانسوں اُچھلنے لگا اور اُس کو چاروں طرف سے آگھیرا۔ اس پررومی کپتان نے اس کی گرفتاری سے دوسرے روز اُسے صدر مجلس کے سامنے پیش کیا۔ تا کہ اس کے خلاف الزام کی تحقیقات کرے۔لیکن پولوس کو دیکھ کر لوگوں میں ایسا شور وغل ہوا کہ کپتان اُس کو علیحدہ لے گیا۔ تا کہ لوگ اُسے ٹکڑے ٹکڑے نہ کر ڈالیں۔ سچ مچ اس عجیب شہر کے لوگ بھی عجیب تھے۔ شاید ایسی کوئی قوم نہیں گزری جس کی اولاد کو خدا کی طرف سے ایسی لیاقت ملی ہو جس کے باعث اس کا نام ایسا مشہور ہو گیا ہو جیسا کہ یہودیوں کا ہوا ہے۔ اور نہ کوئی دُنیا میں شہر ایسا ہوا ہے جس کو وہاں کے باشندے ایسا پیا ر کرتے ہوں۔ جیسا کہ یہودی یروشلم کو کرتے تھے۔ پھر بھی دیوانہ ماں کی طرح اُس نے اپنے بعض نہایت ہی نیک بچوں کو اپنے سینے سے اُٹھا کر زمین پر پٹک کر ہلاک کر دیا۔ اب یروشلم کی بربادی کو چند ہی سال باقی تھے۔ یہ آخری فرزند صاحب الہام اور صاحب نبوت ایسی فرط(کثرت،بہتات ) محبت سے اپنی ماں کو دیکھنے آیا ہے اور ماں نے اُسے مار ہی ڈالا ہوتا اگر غیر قوم حاکم اُس کے غضب سے اُسے نہ بچاتا۔

۱۶۸۔ زیلوتی (سرگرم ) فرقے کے چالیس شخصوں نے قسم کھا کر عہد کر لیا کہ رومیوں کے دستہ میں سے اُسے چھین لے جائیں گے۔ جب رومی کپتان کو اس کی خبرلگی تو راتوں رات اُسے اپنے دستہ فوج کے ہمراہ یروشلم سے قیصر یہ کو بھیج دیا۔ قیصر یہ بحیرہ شام کے ساحل پر رومی شہر تھا۔ اور فلسطین کے رومی گورنر کا صدر مقام اور رومی فوج کی چھاونی تھا اور یہاں پولوس یہودیوں کے ظلم سے بالکل محفوظ تھا۔

۱۶۹۔ یہاں پولوس دو سال تک قید میں رہا۔ یہودی حکام نے بار بار یہ کوشش کی کہ یا تو رومی حاکم اس کے قتل فتویٰ دے یا وہ اُسےاُن کے سپرد کر دے تا کہ وہ اپنی شریعت کے مطابق اُس کا فیصلہ کریں لیکن وہ رومی حاکم پر یہ ثابت نہ کر سکے۔ کہ پولوس کا قصور سزائے موت کا مستحق ہے یار ومی حقوق والے شخص کو ان کے سپرد کر نا جائز ہے پولوس تو قید سے رہا ہو گیاہو تا لیکن اُس کے دشمن بڑے زور ے یہ کہتے رہے کہ یہ نہایت سخت جرم کا مرتکب ہوا ہے اور حاکم اسی انتظار میں رہا کہ شاید کوئی نیا ثبوت اور شہادت اُس کے خلاف پیدا ہو جائے۔ اور ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی۔ کہ فیلکس حاکم کو اُمید تھی کہ اس مذہبی پیشوا کے رہا کرانے کے لئے اُس کو زر کثیر رشوت کے طور پر مل جائے گا۔ فیلکس پولو س کی باتیں شوق سے سنا کرتا تھا۔ جیسے کہ ہیرو دیس یوحنا اصطباغی کی باتیں۔

۱۷۰۔ پولو س قید کی حالت میں عالم تنہائی میں نہ تھا کم سے کم جس بارک میں وہ قید تھا اُس کی سب کو ٹھڑیوں میں وہ آ جا سکتا تھا۔ وہ اُن بارکوں کی فصیل پر کھڑے ہو کر بحیرہ شام کی طرف نظر مارتا ہو گا۔ مقددنیہ۔ اخیہ افسس کے علاقو ں کی طرف اُس کی نگاہ جاتی ہو گی جہاں اس کے روحانی فرزند اُس کے لئےکُڑھ رہے تھے۔ یا ایسے خطروں سے گھرے تھے۔ جن سے بچنے کے لئے پولوس کی موجودگی ان کے درمیان ضرور ی تھی۔ کیوں خدا کی قدرت کاملہ نے ایسے شخص کو کام سے روک کر یوں بیکار کر دیا تھا۔ اُس کی سمجھ کی رسائی سے پرے تھا۔ لیکن اب ہم اُس کی وجہ معلوم کر سکتے ہیں۔ پولوس کو آرام کی ضرورت تھی۔ بیس سال کی لگاتار محنت کے بعد اُسے فرصت درکار تھی کہ اپنے تجربہ کی فصل کھتے میں جمع کر سکے۔ اس سارے عرصہ میں و ہ انجیل کے اُس پہلو کی منادی کرتا رہا۔ جو اُس کی مسیحی خدمت کے شروع میں عرب کے بیابان میں روح نے اُس پر منکشف (ظاہر)کیا تھا۔ لیکن اب وہ زندگی کی اس منزل پر پہنچ گیا تھا۔ جہاں سے وہ اس حقیقت کےجو یسوع میں ہے مختلف پہلوؤں پر نظر ڈال سکے اور اس کے لئے اسے فرصت ملنا نہایت ضرور تھا۔ اس لئے خدا کو پسند آیا کہ وہ قید خانہ میں بند ہو جائے۔

۱۷۱۔ ان دو سال کے عرصے میں اس نے کچھ نہیں لکھا۔ یہ روحانی غورو فکر اور اندرونی ترقی کا وقت تھا۔ لیکن جب پھر لکھنے کے لئے قلم اُٹھایا تو اس غورو فکر کے نتائج ہر قدم پر آشکار ہونے لگے۔ اس اسیری کے بعد جو خط اُس نے لکھے ان میں پہلے کی نسبت زیادہ حلاوت(لذت۔راحت ) اور تعلیم کا زیادہ کمال پایا جاتا ہے۔ ایسا تو نہیں ہے جو نبیاد اُس نے رومیوں اور گلایتوں کے خطوں میں ڈالی تھی افسیوں اور کلسیوں کے خطوں میں اُسی پر عمارت تعمیر کی گئی ہے۔ البتہ یہ عمارت پہلے کی نسبت زیادہ اعلیٰ اور دلکش ہے۔ ان میں وہ مسیح کے کام پر بہت زور نہیں دیتا بلکہ خود مسیح پر گنہگاروں کے راستباز ٹھہرنے کا اتنا ذکر نہیں کر تا جس قدر کہ مقدسوں کی تقدیس کا کرتا ہے۔ جو انجیل اُس پر عرب میں ظاہر ہوئی اُس میں مسیح کی زمینی تاریخ سب سےنمودار تھی۔ اور اُس کی پہلی آمد کو ایسا ظاہر کیا جس کی طرف یہودی اور غیر قوم دونوں کو آنا چاہیے لیکن جو انجیل قیصریہ میں اُس پر منکشف (ظاہر)ہوئی اُس میں جلالی آسمانی مسیح کی تصویر دکھائی گئی۔ ساری چیزیں مسیح کے لئے خلق ہوئیں۔ یہ مسیح فرشتوں اور جہانوں کا خداوند بیان کیا گیا ہے۔ جس کی دوسری آمد کے لئے سارے عالم تیاری کر رہے ہیں۔ جس سے جس کے وسیلے اور جس کےلئے ساری چیزیں ہیں پہلے خطوں میں مسیحی زندگی کے پہلے قدم یعنی آدمی کے راستباز ٹھہرنے کا مفصل ذکر ہوا لیکن پچھلے خطوں میں اُس رشتہ کا خاص ذکر ہے جو راستباز ٹھہرائے ہوئے شخص اور مسیح کے درمیان ہے۔ اس کی تعلیم کے مطابق مسیحی زندگی کا سارا نظارہ مسیح اور روح کے مابین رشتہ پر مبنی ہے اور اس رشتہ دار کو ظاہر کرنے کے لئے اُس نے چند تشبیہیں استعمال کی ہیں مثلاً ایماندار مسیح میں ہیں۔ اور مسیح اُن میں ہے۔ اُن کا اُس میں وہی رشتہ ہے جو عمارت کے پتھر وں کا بنیاد پتھروں سے ہوتا ہے یا جیسے شاخوں کا درخت سے یا جیسے اعضا کا سر سے۔ یا بیوی کا خاوند سے یہ اتحاد روحانی ہے کیونکہ خدا نے اپنے ازلی ارادہ میں مسیح اور ایماندار کو ایک ہی دھاگے میں پرو دیا ہے۔ یہ شرعی بھی ہے کیونکہ ان کے قرض اور نیکیاں مال مشترکہ ہیں۔ یہ زندہ ہے کیونکہ مسیح کے ساتھ تعلق رکھنے سے پاک اور ترقی کن زندگی کی قدرت حاصل ہوتی ہے۔ یہ اخلاقی بھی ہے کیونکہ مزاج اور دل میں سیرت اور چلن میں مسیحی اشخاص روز بروز مسیح کی مانند بنتے چلے جاتے ہیں۔

۱۷۲۔ان پچھلے خطوں کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں روحانی اور اخلاقی تعلیم کا موازنہ پایا جاتا ہے کیونکہ ان خطوں میں تقریباً ہمیشہ دو حصے ہیں۔ پہلے حصہ میں عموماً اصولی تعلیم کا ذکر ہے اور دوسرے حصہ میں اخلاقی نصحتیں ہیں۔ پولوس کی اخلاقی تعلیم مسیحی زندگی کے ہر صیغہ (شعبہ یا سلسلہ )پر حاوی ہے کوئی خاص باقاعدہ تربیت تو ان فرائض کی پائی نہیں جاتی البتہ خانگی فرائض کا کچھ مفصل ذکر ہے۔ اور ان میں خاص کر مسیحی چلن کی تحریک اور نیت پر زور دیا گیا ہے۔ پولوس کے نزدیک مسیحی اخلاق خاص کر تحریک و نیت کے اخلاق ہیں۔ مسیح کی کل تاریخ نہ زمینی زندگی کی تفصیل بلکہ مخلصی دینے والا سفر جو آسمان سے زمین کی طرف اور زمین سے آسمان کی طرف ہوا ایک ایسا اعلیٰ نمونہ ہے جس کی پیروی ہر روز مسیحی کو کرنی لازم ہے۔ خواہ فرض کیسا ہی خفیف کیوں نہ ہو وہ مسیح کے افعال کے اصول میں سے کسی نہ کسی کی تشریح ہو سکتا ہے۔ عام فروتنی اور مہربانی کے کام اُس خاکساری کی نقل ہے جس کے ذریعے وہ جو خدا کے برابر تھا وہ انسان بنا۔ اور خادم کی صورت پکڑی اور صلیبی موت تک فرماں بردار رہا اور مسیحیوں کی باہمی محبت کے لئے وہ عام رشتہ یاد رکھنا چاہیے جوان کے اور مسیح کے درمیان ہے۔

۱۷۳۔ جب پوپولس کوقید ہوئے دو سال گذر گئے تو فیلکس کی جگہ فیستس فلسطین کا حاکم ہو کر آیا۔ یہودی برابر اس ساز ش میں لگے رہے کہ پولوس ان کے ہاتھوں میں آ پڑے۔ اور نئے حاکم کے آتے ہی انہوں نے یہ ضد کرنی شروع کی کہ پولوس ان کے سپرد کر دیا جائے ۔ جب فسیطس اسی تامل میں تھا تو پولوس نے بھی رومی حقوق کو جتایا کہ میں روم میں بھیج دیا جاؤں تا کہ قیصر کے تخت عدالت کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کروں۔ حاکم اس درخواست کو نامنظور نہ کر سکتا تھا۔ اس لئے قیدی کے طور پر وہ فوراً روم کی طرف روانہ کر دیا گیا۔ الغرض دیگر قیدیوں کے ہمراہ رومی سپاہیوں کی زیرنگرانی وہ جہاز میں میں روانہ کر دیا گیا۔

۱۷۴۔ اس سفر کا احوال رسولوں کے اعمال کی کتاب میں محفوظ ہے اور قدیم زمانہ کی جہازرانی کے متعلق ایک بیش بہا خزانہ ہے اور پولوس کی زندگی کی بھی یہ ایک قیمتی تاریخ ہے۔ کیونکہ اس کتاب سے پولوس کی سیر ت بخوبی ظاہر ہوتی ہے جہاز تو ایک جہان خورد ہے یہ جزیرہ رواں ہے جس میں حاکم اور محکوم دونوں پائے جاتے ہیں۔ لیکن وہاں کی حکومت امریکہ کی جمہوری حکومت کی مانند ہے جہاں تمدنی انقلاب ناگہاں پیدا ہو جاتے ہیں۔ اور جو سب سے لائق شخص ہوتا ہے وہ سر گردہ بن جاتا ہے یہ سفر نہایت پر خطر تھا۔ جس میں بڑی ہمت درکار تھی۔ تا کہ لوگ اعتبار کریں اور جو کیا جائے اُسے مانیں سفر ابھی ختم نہ ہوا تھا کہ پولوس ایک طرح سے جہاز کا کپتان اور سپاہیوں کا جرنیل ظاہر ہوتا ہے اور جتنے جہاز پر تھے۔ ان کی زندگی پولوس کےذریعے بچ گئی۔

۱۷۵۔ آخر کار سمندر کے خطرات کا خاتمہ ہوا اور پولوس اپیوس کے راستے سے رومی سلطنت کے دارالخلافہ کے قریب پہنچا۔ اور اہل مشرق عموماً اسی راہ سے روم میں آیا کرتے تھے۔ جونہی وہ روم کے نزدیک آیا شہر کا شور غل چارو ں طرف سےاُس کے کان تک پہنچنے لگا۔ اور رومی شان و شوکت کے نشان ہر قدم پر ظاہر ہونے لگے بہت برسوں سے پولوس کو روم جانے کی آرزو تھی۔ لیکن اُس کو کبھی یہ خیال نہ تھا۔ کہ میں اس طریقے سے وہاں جاؤں گا۔ جیسے کوئی جرنیل کسی ملک کو فتح کرتے وقت اُس کے مضبوط قلعے پر دھاوا کرنا چاہتا ہے اسی طرح پولوس روم پر حملہ کیا چاہتا تھا پولوس تو مسیح نے لئے جہان کو فتح کرنے میں مصروف تھا۔ اور روم اس جہان کا مضبوط قلعہ تھا۔ اس لئے اُس کو بڑی آرزو تھی کہ اپنے خداوند کے لئے اس بڑے شہر کو بھی فتح کرے چند سال پہلے اُس نے اس امر کی اطلاع لکھ بھیجی تھی میں تم کو بھی جو رومہ میں ہو۔ خوش خبری سنانے کو حتی المقدور تیار ہوں۔ کیونکہ میں انجیل سے شرماتا نہیں اس لئے کہ وہ ہر ایک ایمان لانے والے کے واسطے۔۔۔۔ نجات کے لئے خدا کی قدرت ہے۔ لیکن اب جو وہ روم میں پہنچا تو اپنی اس ذلیل حالت کو دیکھ کر بہت افسردہ خاطر ہوا۔ بڑھاپے کا زور ہے بال سفید ہو گئے ہیں۔ مصیبتوں نے چُور کر دیا ہے۔ ہاتھوں میں زنجیر ہے جہاز کی تباہی سے بمشکل نجات ملی ہے یہ سارے ماجرے وہ اپنے دل سے دور نہ کر سکتا تھا۔ لیکن عین وقت پر ایک چھوٹے سے واقعہ نے اُس کی ہمت بڑھادی روم سے کوئی چالیس میل کے فاصلے پر ایک چھوٹے سے گاؤں میں چند مسیحی بھائی اُس کے ملنے کو آئے۔ ان کو پولوس کے آنے کی خبر ملی تھی۔ اس یہ اُس کی ملاقات کو نکلے تھے۔ اور پھر دس میل آگے بڑھ کر چند اور مسیحی اس کی ملاقات کو آئے۔ اگر چہ پولوس کو اپنے پر بہت بھروسہ تھا پھر بھی انسانی ہمدردی کی ازحد قدر کرتا تھا۔ اس لئے ان چند مسیحیوں کی ملاقات سے اس کے دل کی پثر مردہ (مرجھایا ہوا )کلی کھل گئی اور اُس نے خدا کا شکر کیا اور ہمت باندھی۔ اور پُرانے خیالات بڑے شدو مد(زور شور) کے ساتھ تازہ ہو گئے اور جب ان دوستوں کے ہمراہ البان پہاڑی کے اُس حصہ پر پہنچا جہاں سے شہر کا نظارہ پہلی دفعہ نظر پڑتا ہے اُس کا دل فتح کی اُمید سے بھرگیا۔ نہ قیدی کی حیثیت سے بلکہ ایک فاتحہ کی حیثیت سے وہ شہر کے پھاٹک سے گذرا اور اسی راہ سے اُس کا گذر ہوا جو مقدس سڑک کہلاتی اور اکثر رومی جرنیل اسی راہ سے فتح مندی کی گاڑی پر سوار کر دشمنوں کی غنیمت اور اسیروں کو لے کر گذرے تھے اور اہل شہر آفرین اور شاباش کے نعرے مارتے تھے۔ پولوس کا تو یہ حال نہ تھا۔ نہ تو فتح مندی کی گاڑی پر وہ سوار ہے بلکہ تکان کے مارے قدم بھی جلدی نہیں اُٹھتا۔ نہ تمغے نہ دیگر زیورات زیب تن ہیں۔ اگر ہے تو ہاتھ میں زنجیر ہے اور وہ بھی لوہے کی نہ عوام الناس تعریف و آفرین کے نعرے بلند کرتے ہیں۔ صرف چند غریب بھائی ہمراہ ہیں۔ لیکن ایسے فاتح کا قدم پہلے یہاں نہ پڑاتھا اور نہ کسی کو ایسی اعلیٰ فتح کی اُمید تھی جیسے کہ پولوس کو تھی۔

۱۷۶۔ اب پولوس شہر طرف نہیں جا رہا بلکہ قید خانہ کی طرف اور اُسے بہت عرصہ تک قید خانہ میں رہنا تھا۔ کیونکہ اُس کا مقدمہ دو سال تک پیش نہ ہوا قانونی تاخیر تو ہر ملک اور ہر زمانہ میں ضرب المثل ہے۔ اور نیرو کے عہد سلطنت میں بھی وہ اس الزام سے مستثنے(جدا یا علیحدہ )نہ تھی۔ کیونکہ یہ تو مشہور بات تھی۔ کہ نیرو مزاج کا ایسا چھچھورا تھا۔ کہ ذرا سے عیش کے کام کے لئے یا ذرا سا چڑنے سے بڑے بڑے ضروری کاموں کو معرض تاخیر میں ڈال دیتا۔ البتہ یہ تو ہم جانتے ہیں۔ کہ یہ قید بہت ہی نرم قسم کی تھی۔ شاید جو کپتان اُسے روم میں لا یا تھا۔ اُس نے پولوس کی کچھ سفارش کی ہو گئی۔ کہ اُس نے جہاز پر میری جان بچائی تھی۔ یا شاید جس افسر کے وہ سپرد ہوا وہ صاحب انصاف و مروت تھا اور غالباً پولوس کا حال سن کر اُس کو اُس سے ہمدرد ی پیدا ہو گئی ہو۔ بہر حال پولوس کواجازت مل گئی تھی۔ کہ وہ کرایہ کا گھر لے کر رہے۔ وہاں اُس کو پوری آزادی تھی سوائے اس امر کے کہ جس سپاہی کے وہ سپرد تھا وہ ہمیشہ سایہ کی طرح اس کے ساتھ تھا۔

۱۷۷۔ پولوس جیسے شخص کو ایسی حالت کب گوارا ہو سکتی تھی۔ وہ تو یہ چاہتا ہے کہ اس بڑے شہر میں ہر عبادت خانہ میں جا کر مسیح کی خوشخبری دیتا۔ وہاں کے گلی کوچوں میں انجیل کی منادی کرتا اور یہاں کے باشندوں کے درمیان کلیسیاء اور جماعت قائم کرتا۔ شاید کوئی دوسرا شخص ایسی حالت میں پڑ کر سُست اور کاہل اور مایوس بن جاتا۔ لیکن پولوس کا یہ حال نہ تھا۔ بلکہ اُس کی کوشش سے اُس کے کمرہ کی تاثیر دور دور پہنچ گئی۔ اور تھوڑے ہی فاصلہ کے اندر اُس نے ایسی قوت کی بنیاد ڈالی جس نے جہان کو ہلا دیا۔ اور نیرو کے دارالخلافہ ہی میں اُس حکومت کا بنیادی پتھر رکھ دیا جو رومی سلطنت سے کہیں بڑھ کر تھی۔

۱۷۸۔ اور اس تکلیف دہ حالت سے بھی اُس نے فائدہ اُٹھایا جیسا اُوپر ذکر ہو ا۔ ایک سپاہی ہر دم اس کی نگرانی کرتا تھا۔ پولوس جیسے مزاج کے شخص کے لئے اکثر یہ تکلیف کا باعث ہوا ہو گا۔ اور جو خط اُس نے قید خانے سے لکھے اُن میں اکثر وہ اپنی زنجیر کا ذکر کرتا ہے۔ جس سے ظاہر ہے کہ وہ زنجیر اس کے دل میں چبھ گئی تھی۔ لیکن اس تکلیف کے باعث وہ اس فائدہ کو نظر انداز نہ کر سکتا تھا۔ جو اس حالت میں حاصل ہو سکتا تھا۔ یہ سپاہی تو برابر چند گھنٹوں کے بعد بدلتا رہتا تھا۔ اور دوسرا سپاہی پہلے کی جگہ پہرہ کے لئے آجاتا تھا یوں چوبیس گھنٹے کے اندر اس کو کم سے کم چھ یا آٹھ سپاہیوں سے واسطہ پڑتا تھا۔ اور یہ سپاہی شاہی دستہ سے متعلق تھے۔ اور یہ شاہی دستہ ساری رومی فوج کا گویا ناک تھا۔ بھلا پولوس اتنے گھنٹے بلا مسیح کا ذکر کئے کب رہ سکتا تھا۔ وہ ان سپاہیوں سے ان کی غیر فانی روحوں اور مسیح کے ایمان کا ذکر کر تا تھا۔ یہ لوگ جو رومی جنگ وجدل کے ہولناک نظاروں اور رومی چھاونی کے دستوروں کے عادی تھے۔ ان کے لئے پولوس کی زندگی اور سیرت بالکل عجیب اور بے نظیر تھی۔ ان کے ساتھ گفتگو کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان میں سے بہت لوگ ایمان لائے اور ساری چھاونی میں یہ آگ بھڑک اُٹھی اور شاہی خاندان تک جاپہنچی۔ پولوس کا کمرہ ان لوگوں سے بھرا رہتا تھا۔ پولوس کو ان کے ساتھ ہمدردی تھی اور ان کی حسب طبیعت وہ ان سے کلام کرتا تھا۔ بلکہ خود پولوس ایک جنگی طبیعت کا شخص تھا۔ اور اُس نے روحانی شخص کی تصویر کا خاکہ بھی ایک سپاہی کے طور پر کھینچا ہے چنانچہ وہ کہتا ہے کہ خدا کے سارے ہتھیار باندھ لو تا کہ تم ابلیس کے منصوبوں کے مقابلے میں قائم رہ سکو۔ کیونکہ ہمیں خون اور گوشت سے کشتی نہیں کرنی ہے بلکہ حکومت والوں اور اختیار والوں اور اس دُنیا کی تاریکی کے حاکموں اور شرارت کی اُن روحانی فوجوں سے جو آسمانی مقاموں میں ہیں۔ اس واسطے تم خدا کے سارے ہتھیار باندھ لو تا کہ بُرے دن میں مقابلہ کر سکو اور سب کاموں کو انجام دے کر قائم رہ سکو۔ پس سچائی سے اپنی کمر کس کر اور راست بازی کا بکتر لگا کر اور پاؤں میں ضلح کی خوش خبری کی تیاری کے جوتے پہن کر اور ان سب کے ساتھ ایمان کی سپر لگا کر قائم رہو۔ جس سےے تم اُس شریر کے سارے جلتے ہوئے تیروں کو بجھا سکو اور نجات کا خود اور روح کی تلوار جو خدا کا کلام ہے لے لو۔ یہ خاکہ پولوس نے اُس سپاہی کی حالت سے لیا جو ہر وقت اُس کے کمرہ امیں اُس کے ساتھ تھا۔ اور غالباً وہ اپنے سامعین کے کانوں کو اُن سے مانوس کر چکا تھا۔ پیشتر اس سےکہ احاطہ تحریر میں آئیں۔

۱۷۹۔ان کے علاوہ دوسرے لوگ بھی اُس کو دیکھنے جاتے تھے۔روم میں جو لوگ مسیحی دین سے کچھ اُنس(محبت ) رکھتے تھے۔ خواہ وہ یہودی تھے۔ یا غیر قوم اُس کے پاس جایا کرتے تھے۔ اور اُس دوسال کی قید کے عرصہ میں شاید کوئی دن ایسا گذرا ہو گا۔ جس میں کوئی نہ کوئی ایسے اشخاص میں سے ملنے گیا ہو۔ رومی مسیحی تو ایسے شوق سے اُس کے پاس جاتے تھے۔ جیسے خدا کا کلام سننے کے لئے جایا کرتے ہیں۔ بہت سے مسیحی اُستادوں کی تلواریں وہاں صیتل(قلعی ) کی گئیں۔ اور اُس شہر کے مسیحیوں میں ایک نئی جان پڑ گئی۔ بعض باپ اپنے بیٹوں کو اُس کےپاس لے جاتے تھے۔ بعض دوست اپنے دوستوں کو تا کہ پولوس کی نصیحت سے ان کے دل پر اثر ہو۔ اور ضمیر بیدار ہو بعض اتفاق سے وہاں جانکلے اور نئی انسانیت کا جامہ پہنے ہوئے وہاں سے باہر آئے ۔ چنانچہ اُنیسس ایسا ہی ایک شخص تھا۔ یہ غلام کلسی سے بھاگ کر روم میں آنکلا جسے پولوس نے واپس اُس کے آقا فلیمون کے پاس بھیج دیا۔ نہ غلام کے طور پر بلکہ پیارے بھائی کے طور پر۔

۱۸۰۔ نوجوانوں پر پولوس کی تاثیر عجیب تھی۔ پولوس کی مردانہ طبیعت ان کو اکثر اپنی طرف کھینچ لاتی تھی۔ پولوس کوا ن سے بڑی ہمدردی تھی اور ان کو اپنے کام میں اُس سے بڑی ہمت اور دلیری ملتی تھی۔ یہ نوجوان دوست جو مسیح کی خدمت کے لئے سارے جہان میں منتشر (بکھرے )تھے۔ روم میں اس کے پاس آجمع ہوئے۔ تمطاوس۔ لو قا۔ مرقس۔ وار سترخس۔ تخکس۔ اور اپفراس اور بہت دوسرے دوست آن کر حکمت اور سر گرمی کے اُس تازہ بہتے چشمہ سے سیر حاصل ہوتے۔ اور وہاں سے پولوس نے ان کو پھر کلیسیاؤں کے پاس پیغام دے کر اور ان کی خبر لانے کے لئے بھیج دیا۔

۱۸۱۔ دور دراز ممالک میں جو لوگ اس کے ذریعے ایمان لاتے تھے۔ پولوس ان کا بڑا خیال رکھتا تھا۔ ہر روز اُس کا سمندر خیال گلاتیہ کے مرغزاروں(چراگاہوں ) اور ایشیاء اور یونان کے ساحلوں پر دوڑتا پھرتا تھا۔ اور ہر رات کو وہ انطاکیہ۔ افسس۔ فلپی تھلونیکی اور قرنطس کے مسیحیوں کے لئے دُعا مانگا کر تا تھا۔ اور اس کو یہ سن کر بڑی خوشی حاصل ہوئی کہ وہ بھی اُسے یاد رکھتے ہیں۔ کبھی کسی کلیسیاء کا ایلچی اس کے کمرہ میں آمنہ دکھاتا اور اُن مسیحیوں کی طرف سے سلام پہنچاتا اور کبھی کبھی چندہ لے کر آتا تا کہ پولوس کی دُنیاوی ضروریات رفع کریں۔ یا کسی خاص مسئلہ یا دستور یا مشکلات کے بارے میں اس کی صلاح و مشورت پوچھے۔ یہ ایلچی کبھی خالی ہاتھ نہ بھیجے جاتے۔ وہ محبت کا پیغام یا اس رسول کی سنہری نصیحت اور مشورت لے کر جاتے۔ اور بعض اوقات کچھ زیادہ قیمتی خزانہ بھی ان کے ہمراہ روانہ کیا جاتا۔ چنانچہ جب فلپی کی کلیسیاء کی طرف سے اپا فرو دیطس محبت کی قربانی لے کر پولوس کے پاس آیا تو اس کے ہاتھ نہ صرف ان کی مہربانی کی رسید بھیجی گئی۔ بلکہ فلپیوں کی طرف کا خط بھی اور ہم جانتے ہیں کہ اُس کے خطوں میں یہ خط کیسا اعلیٰ رتبہ رکھتا ہے۔ اور اس میں پولوس کی محبت کا کیسا اظہار ہے بلکہ ماں کی محبت سے زیادہ پولوس کے دل میں ان مسیحیوں کی محبت معلوم ہوتی ہے۔ اور جب اُنیسمس کو اُس نے واپس بھیجا تو وہ خط فلیمون کے نام کا اس کے سپر د کیا جو حسن اخلاق میں بے نظیر ہے علاوہ ازیں کلسی کلیسیاء کے لئے بھی ایک خط اُس کو دیا۔ پولوس نے یہ خط قید خانہ ہی سے لکھے جس سے اُس کی محنت اور کوشش کا اندازہ لگ سکتا ہے۔ مزید براں افسیوں کی طرف کا خط بھی یہاں ہی احاطہ تحریر میں آیا۔ جو اعلیٰ روحانی تعلیم کے لحاظ سے شاید دُنیا بھر میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ مسیح کی کلیسیاء نے خدا کے بندوں کی قید کے طفیل بہت برکتیں حاصل کی ہیں۔ چنانچہ مسیحی مسافر کی کتاب جو غیر الہامی کتابوں میں ایک اعلیٰ کتاب ہے۔ وہ جیل خانہ ہی میں لکھی گئی۔ لیکن شاید سب سے بڑھ کر پولوس کی قید کے ذریعے کلیسیاء نے فائدہ اُٹھایا۔ جب اس کو قیصر یہ اور روم میں دیگر کاموں سے فرصت ملی اور اُس نے یہ خزانہ اپنے دل کے مخزن سے باہرنکالا۔

۱۸۲۔ شاید پولوس کو بھی یہ مشاق گذرا ہو کہ خدا نے اس طرح سے اُس خدمت کو جو وہ برسوں انجام دے رہا تھا۔ اس قید کے ذریعے بالکل معطل(علیحدہ ) کر دیا۔ لیکن خدا کے خیالات انسان کے خیالات سے اعلیٰ ہیں اور خدا کی راہیں انسان کی راہوں سے اعلیٰ ہیں اور خدا نے اس کو فضل دیا کہ وہ اپنی اس حالت کی آزمائش پر غالب آئے اور اس حالت مجبوری میں دُنیا کی بہبودی اور اپنے کام کی مضبوطی کے لئے ایسا کچھ کر سکے۔ جو اور بیس برس مشنری کام کرنے سے بھی نہ ہو سکتا تھا۔ اُس کمرہ میں بیٹھے ہوئے وہ اپنے دل میں ہزارہا میل کے فاصلے کی آہ زاری کو سُن سکتا تھا۔ اور اپنے نمونہ اور نصیحت کے ذریعے ہر طرف ہمت اور دلیری پیدا کر رہاتھا۔ وہ دھیان میں ڈوب کر اُس چٹان پر چوٹ مارتا تھا۔ جس میں سے جیتے پانی کی ندیاں پھوٹ نکلتی تھیں اور جو اب تک خدا کے شہر کو سیراب کر رہی ہیں۔

۱۸۳۔ اعمال کی کتاب توپولوس کے دو سال تک روم میں قید رہنے پر یک لخت (فوراً)ختم ہو جاتی ہے۔ کیا اور کچھ بیان کرنے کے لئے باقی نہ رہا تھا۔ اور جب پولوس کا مقدمہ پیش ہوا تو موت کا فتویٰ اُس پر جاری ہو گیا یا وہ قید سے آزاد ہو کر پھر اپنے کام میں مشغول ہو گیا۔ سوال کے جواب دینے میں روایت سے مدد ملتی ہے۔ اور یہ پتہ لگتا ہے۔ کہ مقدمہ کے پیش ہونے پر وہ بری ہو گیا۔ اور دورہ شروع کر دیا۔ اور ہسپانیہ وغیرہ ممالک کو گیا۔ اور کچھ دیر کے بعد وہ پھر اسیر ہو کر روم بھیجا گیا۔ اور نیرو کے جو رو ستم کے خنجر سے شہید ہوا۔

۱۸۴۔ اس کی تصدیق محض روایت پر منحصر نہیں۔ بلکہ خود پولوس کی تحریریں ہمارے پاس موجود ہیں جو پہلے دو سال کی قید سے رہا ہونے کے بعد اُس نے لکھیں۔ یعنی چو پانی خطوط یا تمطاؤس اور طیطس کی طرف کے خطوط۔ ان خطوں سے ظاہر ہے۔ کہ اس کو آزادگی حاصل ہو ئی اور قائم کردہ کلیسیاؤں کو جا کر اُس نے دیکھا اور کئی کلیسیائیں قائم کیں۔ البتہ اس دورہ کی تفصیل تو ٹھیک طور پر ہم کو معلوم نہیں ہو سکتی۔ اُس کے افسس اور طراؤس میں جانے کا ذکر ہے۔ کرنیے کو وہ گیا اور یونان کے شمالی اضلاع کا اُس نے دورہ کیا۔ اور اُس نے اپنے نوجوان دوستوں کو کلیسیاؤں کے انتظام اور نگرانی کے لئے مقرر کیا۔

۱۸۵۔ لیکن دیر تک یہ حال نہ رہا۔ اس کی رہائی کے عین بعد ہی روم کو آگ لگ گئی اور وہ جل کر خاک سیاہ ہو گیا۔ جس کے شعلوں کی یاد سے اب تک ہمارے بدنوں پر رونگٹے ہو جاتے ہیں۔ اور شاید خود قیصر ہی کی متلون مزاجی(رنگ بدلنے والا،جس کے مزاج میں استقلال نہ ہو) کا یہ ایک چوچلا ہو۔ لیکن نیرو نے یہ مناسب سمجھا کہ اس کا الزام مسیحیوں پر لگایاجائے۔ پھر تو کیا تھا بے چارے مسیحی طرح طرح کے عذاب میں مبتلا ہوئے اس کی شہرت ساری سلطنت میں پھیل گئی۔ پھر مسیحی دین کے رسول کو کہاں چین مل سکتا تھا۔ اور ہر گور نر خوب جانتا تھا۔ کہ اگر میں پولوس کو پکڑ کر نیرو کے پاس بھیج دُوں گا۔ تو نیرو بہت خوش ہو گا۔

۱۸۶۔ بہت عرصہ نہ گذرا تھا کہ پولوس پھر گرفتار ہو کر قید خانہ میں آیا اس وقت یہ قید بہت سخت تھی۔ اُس کی کوٹھٹری دوستوں سے خالی ہے۔ ملاقات کے لئے لوگ بہت کم وہاں آتےہیں۔ کیونکہ روم کے بہت مسیحی تو تہ تیغ (تلورا سے قتل ہونا )ہوئے۔ بہت روم چھوڑ کر بھاگ گئے۔ بلکہ کسی کا اپنے تئیں مسیحی کہنا جان کو معرض خطر میں ڈالنا تھا۔ اس قید خانہ سے جو خط اس نے لکھا وہ اب تک ہمارے پاس موجود ہے۔ یہ اس کا آخری خط ہے۔ یعنی تمطاوس کی طرف کا دوسرا خط۔ اس خط سے پولوس کی درد ناک حالت کا کچھ پتہ لگتا ہے۔ اس میں ذکر ہے کہ اُس کے مقدمہ کی ایک پیشی تو ہو چکی ہے۔ اور جب وہ تخت عدالت کےسامنے ظالم حاکم پیش ہوا تو کوئی یار غم خوار اُس کے ساتھ نہ تھا۔ البتہ خدا اُس کے ساتھ تھا۔ جس نے اُس کو توفیق بخشی۔ کہ قیصر اورد یگر تماشائیوں کو انجیل کی بشارت سنائے۔ جو الزام اُس پر لگا یا گیا تھا۔ وہ تو غلط ثابت ہوا لیکن پھر بھی رہائی کی کوئی اُمید باقی نہ تھی۔ ابھی اور پیشی بھگتنی تھی۔ اور پولوس جانتا تھا۔ کہ کسی نہ کسی طرح سے شہادت اس کے خلاف تلاش کی جائے گی۔ یا گھڑ لی جائے گی۔ اس خط میں اس کے قید خانہ کی مصیبتوں کا کچھ ذکر پایا جاتا ہے۔ اُس نے تمطاؤس کوتاکید سے کہلا بھیجا۔ کہ جو چوغہ میں ترو آس میں چھوڑ آیا ہوں۔ وہ اپنے ساتھ لیتے آنا۔ اس قید خانہ کی رطوبت اور موسم سرما کی شدت سے بچنے کے لئے اس کی بڑی ضرورت تھی۔ اور کتابیں اور کاغذ بھی منگوائے تا کہ اپنے عالم تنہائی میں تحریر و مطالعہ کے ذریعے اپنا دل بہلائے۔ لیکن ان سب سے زیادہ اُس نے خود تمطاؤس کو اپنے پاس آنے کی تاکید کی تاکہ آخری وقت میں ایک دوست عزیز کی موجودگی سے اس کے دل کو ڈھارس اور کلیجہ کو ٹھنڈک ہو۔ کیا اس وقت وہ بہادر شیر دل مغلوب ہوگیاتھا۔ خط کے پڑھنے سے اس کا جواب مل سکتا ہے چنانچہ شروع خط ہی میں یہ الفاظ آتےہیں۔ اسی باعث سے میں یہ دُکھ بھی اُٹھاتا ہوں ۔ لیکن شرماتا نہیں۔ کیونکہ جس کا میں نے یقین کیا ہے اُسے جانتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ وہ میری امانت کی اُس دن تک حفاظت کر سکتا ہے۔ ۲تمطاؤس ۱۲:۱۔ اور اس خط کے آخر میں یہ بیان ہے میں اب قربان ہو رہا ہوں اور میرے کوچ کا وقت آپہنچا ہے میں اچھی کشتی لڑ چکا۔ میں نے دوڑ کو ختم کر لیا میں نے ایمان کو محفوظ رکھا۔ آئندہ کےلئے میرے واسطے راست بازی کا وہ تاج رکھا ہوا ہے جو عادل منصف یعنی خداوند مجھے اس دن دے گا۔ اور صرف مجھے ہی نہیں بلکہ اُن سب کو بھی جواُس کے ظہور کے آرزو مند ہوں۔ ۲۔ تمطاؤس ۵:۴، ۸۔ یہ الفاظ مغلوب اور مایوس شخص کے نہیں۔

۱۸۷۔ کچھ شک نہیں کہ نیرو کے تخت عدالت کے سامنے وہ پھر پیش ہوا اور اس وقت وہ الزام رفع دفع(دور کرنا ) نہ ہوا۔ نیرنگی زمانہ کی یہ ایک عجیب مثال ہے کہ اس وقت جو شاہی ارغوانی لباس زیب تن کے تخت پر بیٹھا ہے وہ اس خراب دُنیا میں سب سے خراب اور کمینہ شخص ہے جس کا دامن ہر طرح کے جرم سے آلود ہ ہو چکا ہے یہ وہ شخص ہے جس نے اپنی والدہ ماجدہ کو قتل کیا۔ جس نے اپنی بیویوں کو مروا ڈالا۔ جس نے محسن کش کی شہرت حاصل کی۔ جس کا بدن اور روح ہر طرح کی گندگی سے ایسا آلود ہ تھا کہ اُس کے کسی ہمعصر نے خوب کہا کہ وہ کیچڑا اور خون سے مرکب ہے اور قید خانہ میں ایک ایسا شخص ہے۔ جس کا ثانی ملنا دُنیا میں محال (مشکل )ہے جو انسان اور خدا کی خدمت میں محنت کرتے کرتے سر سفید ہو گیا۔ الغرض جو شخص تخت عدالت پر بیٹھا اور جو اُس کے سامنے کھڑا رہے ان میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔

۱۸۸۔ مقدمہ کا فیصلہ ہو گیا۔ پولوس پر موت کا فتویٰ دیا گیا۔ اور وہ جلاد کے سپر د ہوا۔ اُس کو گرفتار کر کے شہر کے باہر لے گئے اور شہر کے شہدوں کی جماعت اُس کے پیچھے ہولی۔ جب متصل( نزدیک ) پر پہنچے تو اُس نے گھٹنے ٹیک کر دعا مانگنی شروع کی۔ اُدھر ظالم جلاد نے تلوار کو ہوا میں ہلا کر اُس رسول کے سر کو تن سے جدا کر دیا۔

۱۸۹۔ گناہ نے اپنا سارا زور لگایا اور بظاہر ا فتح یابی کا نقارہ (طبل یا بڑا ڈھول )ٹھونکا۔ لیکن خالی ڈھول کی طرح اس کی فتح کھوکھلی ثابت ہوئی۔ اس شمشیر نے زندان بدن کے قفل(تالا یا لاک ) کو توڑ ڈالا اور مرغ روح اس قفس (قید خانہ )عنصری سے آزاد ہو کر عالم بالا کو پرواز کر گیا۔ روم جس نے لازوال کا غلط لقب حاصل کیا تھا۔ اُس مقد س شخص کو اپنے پھاٹکوں سے خارج کر کے خوش ہوا ہو گا۔ لیکن اُس آسمانی شہر نے جو سچ مچ لازوال ہے ہزار چند بہتر طور سے اس کو خیر مقدم اور خوش آمد ید کہا۔ زمین پر بھی پولوس مر نہیں گیا۔ وہ اب بھی ہمارے درمیان موجود ہے اور اُس کی تاثیر اب ہزارہا گنا اس سے زیادہ ہے۔ جب کہ وہ قید جسم میں مقید تھا۔ اور اس کی زندگی کا اثر کئی گناہ زیادہ ہو رہا ہے۔ جہاں کہیں مبشروں کے پاؤں خوشنما پہاڑوں پر پڑتے ہیں۔ پولوس ان کے ساتھ ہو کر ان کو حوصلہ دیتا اور ان کی رہبری کرتا ہے۔ جس انجیل سےوہ کبھی شرماتا نہ تھا۔ وہ اب ہزاروں گر جاؤں میں ہر سبت کو اور لاکھوں گھروں میں آج تک برابر سنائی جاتی ہے۔ اور جہاں کہیں انسان قدسیت کے سفید پھول کی تلاش میں کو شاں ہیں یا خود انکاری کی دشوار گذار چوٹی پر چڑھنے کے لئے جان فشانی کر رہے ہیں۔ وہاں پولوس جو ایسا پاک اور جو مسیح کے لئے ایسا جان نثار تھا اور جس نےہمیشہ ایک ہی مقصد کو مد نظر رکھا سب سے اچھا رفیق اور دوست سمجھا جاتا ہے۔