FOOD FOR REFLECTION

BEING AN

HISTORICAL COMPARISON

BETWEEN

MUHAMMADANISM AND CHRISTIANITY

BY

'ABD 'ISA

خوانِ عقل

از

عبدِ عیسےٰ

مترجمہ

پروفیسر محمداسمعیل خاں ایم۔ اے

کرسچن لٹریچر سوسائٹی پنجاب برانچ لدھیانہ نے

باہتمام ڈاکٹر ای ۔ ایم ۔ویری صاحب شائع کیا

1918

Sigismund Wilhelm Koelle or Kölle

Pseudonym Abd Isa

(July 14, 1823 – February 18, 1902)

Was a German missionary working on behalf of the London-based Church Missionary Society, at first in Sierra Leone, where he became a pioneer scholar of the languages of Africa, and later in Constantinople. He published a major study in 1854, Polyglotta Africana, marking the beginning of serious study by Europeans of African languages.


یہودی مذہب کا مسیحی مذہب سے مغلوب ہونا جیساکہ مسیحی مذہب کی عجیب طاقت اور گہرے اثر اور باوجود مشکلات کے زمانہ بزمانہ ترقی پانے سے ظاہر ہے

یہودی مذہب مسیحی اور اسلام سے قدیم تر ہے ۔ اگرچہ ہم حضرت موسیٰ کے زمانہ سےجبکہ اس کوہ ِ سینا پر شریعت دی گئی برسوں کا شمار کریں تو یہ مسیحی مذہب سے ۱۴۰۰ برس اور اسلام سے ۲۰۰۰ برس سے زیادہ قدیم تر ہے ۔ شریعت کے نزول سے سیدناعیسیٰ مسیح کے آنے تک بنی اسرائيل یا یہودی ایک ایسی قوم تھے جو ایک واحد اور زندہ خدا کی پرستش کرتے تھے۔ دنیا کی اور سب قومیں جہالت میں گمراہ اور بتوں کی پجاری تھیں۔ اس وقت دنیا میں بنی اسرائیل ہی کامذہب ایک سچا مذہب تھا۔اگر یہ بات سچ ہے یعنی اگر بنی اسرائيل ہی کا مذہب سچا اور برحق مذہب تھا جس کا خدا کی طرف سے حضرت موسیٰ پر کوہ ِ طور پر مکاشفہ ہوا (توریت شریف کتاب ِ خروج ۱۹باب) تو کیا یہ لازم نہیں ٹھہرتا کہ سب محمدی اور مسیحی یہودی ہوجائیں؟ ہرگز نہیں ۔ کیونکہ جو تعلیم خدا کی طرف سے ایک زمانہ میں نازل ہوئی وہ سب زمانوں کے لئے کافی نہ تھی بلکہ وہی تعلیم زمانہ بزمانہ میں مکمل ہوتی ہوگئی ۔ جس طرح ہر چیز بڑھتی اور ترقی پاتی ہے۔ یہاں تک کہ کمال کے درجہ پر پہنچ جاتی ہے جیساکہ خدا نے دنیا کو ایک ہی دن میں پیدا نہ کیا بلکہ کئی دنوں کے عرصہ میں ۔ اسی طرح اس نے اپنی نجات کی تعلیم کو رفتہ رفتہ نازل کیا۔ جب حضرت ابراہیم یہودی قوم کے باپ کو بلاہٹ ہوئی اس وقت طوفان ِ نوح کو کئی سو سال ہوچکے تھے ۔ پھر اس زمانہ سے موسوی شریعت کے زمانہ تک چار سو سال گذر گئے تھے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا پر وقت کی قید عائد نہیں ہوتی بلکہ برعکس اس کے وقت اس کے وسیلے سے قائم ہے۔ وہ اپنے رحم اور انصاف کو ظاہر کرنے کے لئے بخوبی اس وقت تک ٹھہرسکتا ہے جب تک کہ انسان تیا رہویا جب تک کہ ٹھیک موقع آجائے۔ پیشتر اس سے کہ خدا نے حضرت ابراہیم کے خاندان کو کوہِ طور سے شریعت دی اس نے ان کو مصر کی تکالیف میں ڈال کراور بعد ازاں فرعون کے چنگل سے چھڑاکر اس بڑی نعمت کے لئے تیا رکیا۔ اسی طور سے لازم تھاکہ مسیح کے نازل ہونے کے وقت سے پیشتر بہت سا زمانہ گزرے ۔ اسی زمانہ کے سلسلہ پر غور کرو۔ مسیح کے زمانہ سے اب تک کئی پشتیں گزر چکی ہیں لیکن تو بھی روزِ قیامت ابھی تک نہیں آیا کیونکہ اب تک خدا کی نگاہ میں دنیا اس روزِ عظیم کے لئے جس سے کل کائنات کا موجودہ سلسلہ ختم ہوجائیگا تیار نہیں۔ ان سب باتوں سے ثابت ہوگیا کہ یہ بہت ہی مناسب بات ہے کہ کل سچائی ایک ہی دفعہ نازل نہیں کی جاتی او رنہ ہی وہ دنیا کے شروع میں یک لخت نازل ہوئی بلکہ آہستہ آہستہ جیسے بنی آدم تیار ہوتے گئے ویسے ہی یہ صداقت نازل ہوتی رہی۔ یہ قرین قیاس ہے کہ اگر اب پھر خدا کی طرف سے کوئی اور نئی صداقت نازل ہوتو بہت سے انسان یہ سمجھ کر کہ پرانی تعلیم سچی اور برحق ہے اسے رد کردینگے یہی خاص گناہ یہودی قوم کا تھا کہ انہوں نے سمجھا کہ وہ تعلیم جو کہ ان کو قدیم سے موسیٰ کے زمانے سے دی گئی راست اور برحق ہے اور اس تعلیم کو جو مسیح نے ان کو دی اور جو اس نے اپنے کام اور کلام سے ان کے سامنے راست ثابت کورد کیا۔یہاں تک کہ فریسیوں نے جو کہ ان کے مذہبی سرپرست تھے یہ کہا " ہم جانتے ہیں کہ خدا نے موسیٰ سے کلام کیا لیکن اس مرد کی بابت ہم نہیں جانتے کہ کہاں سے ہے "(انجیل شریف ، یوحنا ۹باب ۲۹آیت ) یہودیوں نے جب اس طور سے مسیح کو رد کیا جس نے اپنا کلام نہیں بلکہ آسمانی باپ (پروردگار ) کا کلام جس نے اسے بھیجا تھا پیش کیا تو گویا انہوں نے اپنے آپ کو راست وبرحق مذہب سے ہٹالیا اور خدا کی برگزیدہ قوم ہونے کے بجائے رد کئے گئے ملک سے نکالے گئے اور اب دنیا کی قوموں کے درمیان اپنے گناہ کی سزا کے باعث تتر بتر ہیں پس یہ ظاہر ہے کہ اگر چہ یہودی بالکل سچے مذہب کے پیرو تھے اور اگرچہ اب تک وہ ایک واحد زندہ خدا کی تعلیم کو مانتے ہیں لیکن تو بھی ان کی تعلیم میں بڑی بھاری غلطی اوران کے مذہب میں کمی پائی جاتی ہے۔

ان کا مسیح کو اور اس کی آسمانی تعلیم کو رد کرنا ایک گناہِ عظیم تھا۔ اس لئے خدا نے کل قوم کو اس کی سزا دی۔ مسیح کے آسمان پر جانے کے چالیس برس ہی کے بعد خدا کی طرف سے ایک ایسی لعنت ان پر پڑی کہ ان کے گاؤں اور شہر برباد کئے گئے ہیکل (بیت الله ) جلائی گئی ۔ یروشلیم تباہ کیا گیا۔ مرد قتل کئے گئے او رجو بچ رہے وہ عورتوں اور بچوں کے ہمراہ صفحہ ہستی پر تتر بتر کئے گئے ۔ یہ مسیحیوں نے نہیں کیا مگر ایک غیر مسیحی سلطنت یعنی روما کے ذریعے ہوا جس کے ذریعے خدا نے یہودیوں کو سزا دی۔اس وقت سے آج تک قوم یہود بغیر اپنی سلطنت او رملک کے ہیں وہ قوموں کا ننگ ہیں ان سبھوں سے جن کے درمیان وہ رہتے ہیں ذلیل کئے جاتےہیں۔

اسی اثنا میں مسیحی بڑھتے گئے ۔ ان پر یہودیوں نے پیشتر اس سے کہ یروشلیم تباہ ہوا سخت ظلم کئے اور ان کے بعد کئی صدیوں تک رومیوں نے طرح طرح کی اذیتیں پہنچائیں کیونکہ مسیحی مذہب کو دن بدن ترقی پاتے دیکھ کر ان کوا پنے قومی مذہب کے زائل ہوجانے کا نہایت اندیشہ پیدا ہوا۔

اب ہمارے سامنے ایک واحد خدا کو ماننے والے دو مذہب پیش ہیں ایک یہودی اور دوسرے مسیحی ۔ یہودی مذہب ایک مردہ بے جان مذہب تھا جس نے ظاہر داری پر زور دیا اور باطنی سچے زندہ ایمان کو برطرف کردیا۔ گو پرانی تعلیم نئی تعلیم سے بدل گئی او رکہانت جاتی رہی تو بھی یہودیوں نے نہ جانا کہ اس تعلیم اور اس پرستش کا وقت نہ رہا۔ چند ایک اس مذہب کے پیرو رہے مگر وہ اپنے پرانے خیالات میں ڈوبے رہے او رکبھی بھی سیکڑوں سالوں میں کسی کو اپنا گرویدہ نہ کرسکے ۔دوسری طرف مسیحی مذہب ہے جو کہ زندہ اور پرزور مذہب ثابت ہے۔ دیکھو کس طور سے اس کے ذریعے صدہا شخص گناہ کی غلامی سے رہا کئے جاتے اور پاک زندگی کی طرف راغب کئے جاتے ہیں ۔ خود پسند فریسی جیسے آدمی فروتن اور عاجز ایماندار آدمی بن جاتے خود غرض اپنی خودی کو بھول کر دوسروں کی مدد کے لئے آمادہ کئے جاتے ۔ جاہل علمِ الہیٰ سے معمور کئے جاتے او رکمزور زور آور بنائے جاتے ہیں غور کروکہ کس طرح یہ شہر بشہر پھیلتا جاتا اورملک بملک بڑھتا جاتا ہے مندروں کو پاک عبادت گاہیں بناتا آتش کدہوں کو زندہ قربانی کی جگہ بناتا ہے غریبوں امیروں اور جاہلوں داناؤں سے لاکھوں کو اپنی طرف راغب کرتاہے ۔ تین ہی صدیوں میں اتنا عروج پاگیا کہ دنیا کی سب سے بڑی سلطنت کے بادشاہ کو بھی اپنا پیرو بنالیا۔ جن دنوں میں قوم یہود کو عروج تھا اور طاقت ان کے ہاتھ میں تھی انہوں نے مسیحیوں کو بہت دکھ دیا اور ستایا او رجب مسیحی طاقتور ہوئے تو انہوں نے بجائے دوسروں کو ستانے کے خود سب تکالیف برداشت کیں ۔ مورخ بیان کرتےہیں کہ انہوں نے سخت سے سخت قسم کی مصیبت بھی بڑی برُدباری سے سہی۔ وہ تلوار سے قتل کئے گئے آگ میں جلائے گئے ،درندوں سے پھڑوائے گئے اور طرح طرح کی اذییتوں میں ڈالے گئے مگر سب کچھ خوشی سے سہا۔ بعض دفعہ فتحیابی کے نعرے بلند کرتے گویا کہ بڑے بھاری جلسے میں شامل ہونے پر ہیں ۔ اپنے آپ کو ایسا ظاہر کرتےجیسا کہ کوئی بہادر مرد سب چیزوں پر فتح پاکے تاج حاصل کرنے کو آگے بڑھے ۔ ان سب باتوں سے ہر ایک کھلے دل انسان پر روشن ہے کہ بلاشک مسیحی مذہب ایک ایسا مذہب ہے جو گمراہ کو راہِ راست پر لاتا ہے اور گنہگار کو صادق بناتاہے۔ یہ مذہب ایک آسمانی نو رہے اور خدا کی خاص بخشش ہے ۔ یہی دنیا کو اپنے روحانی زور سے مغلوب کرتا اور بلا کسی ہتھیار کے سب پر فتح پاتاہے۔ اسی باعث یہ نہایت مناسب ہوا کہ یہ ہی مذہب خدا کا سچا مذہب کہلائے او رکل بنی نوع انسان کے واسطے نجات کا ذریعہ ٹھہرے۔

دوسری فصل
پرانے عہد نامہ میں مسیح اور مسیحی مذہب کی بابت پیشینگوئیاں

اگر اس نئے مذہب کی مذکورہ بالا صداقت اس کی کامیابی اور زدو ترترقی اور مقبول ِ ہر خاص وعام ہونے سے ظاہر ہے تو یہ بھی صاف روشن ہوجائيگا کہ یہ مذہب موسوی شریعت سے بہتر اوربالاتر مذہب ہے۔

غور کیجئے کہ مسیح اور مسیحی مذہب آناً فاناً صفحہ ہستی پرظاہر نہ ہوئے لیکن برعکس اس کے قوم یہود کے نوشتوں میں بہت سے اشارے او رپیشینگوئیاں تھیں جو کہ ایک نبی کاہن (امام) اور بادشاہ کے آنے کی اور قومی مذہب میں بڑی بھاری تبدیلی پیدا کرنے کی شاہد تھیں۔

مندرجہ ذیل پیشینگویوں پر غور کیجئے ۔ بمطابق استشنا ۱۸: ۱۸، ۱۹۔ خدا نے موسیٰ سے کہا۔ " میں ان کے لئے ان کے بھائيوں میں سے تجھ سے ایک نبی برپا کروں گا او راپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اسے فرماؤنگا وہ سب ان سے کہیگا او رایسا ہوگا کہ جوکوئی میری باتوں کو جنہیں وہ میرا نام لیکے کہگا نہ سنیگا تو میں اس کا حساب اس سے لونگا ۔"ا س پیشینگوئی کا پورا ہونا مفصلہ ذیل حوالوں سے ثابت ہوتا ہے (اعمال ۳: ۲۲ ، ۲۶۔ لوقا ۲۴: ۱۹۔ یوحنا ۴: ۲۴و۲۶۔ ۸: ۲۸۔ ۱۲: ۴۹و۵۰۔۱۵: ۱۵۔ عبرانیوں ۲: ۳۔ ۳: ۱و۲۔ ۱۲: ۲۵پھر زبور ۱۱۰ آیت ۴ میں بڑے صاف وصریح طور سے ایک آنے والے کی طرف اشارہ ہے جو کہ نہ صرف داؤد کا بیٹا ہونے کو تھا بلکہ اس کا خداوند (دیکھو متی ۲۲: ۴۲تا ۴۵) " خداوند نے قسم کھائی ہے اور وہ نہ پچھتائے گا ۔ تو ملک ِ صدق کے طورپر ابد تک کاہن (امام) ہوگا۔" اس پیشینگوئی کا پورا ہونا ان حوالوں سے ظاہر ہے ۔ عبرانیوں ۵: ۶۔ ۶: ۲۰۔ ۷: ۱سے ۲۴ ۔ مسیح کے شاہانہ جلوس کے بارے میں جس کے لئے یہودی خاص طور سے منتظر تھے اور ہم دانی ایل نبی کی پیشینگوئی منقول کرتے ہیں ۔دانی ایل ۷: ۱۳و۱۴ " میں نے رات کی رویتوں کے وسیلے دیکھا او رکیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص آدمزاد کی مانند آسمان کے بادلوں کے ساتھ آیا اور قدیم الايام تک پہنچا ۔ وہ اسے اس کے آگے لائے اور تسلط او رحشمت اور سلطنت اسے دی گئی کہ سب قومیں اور امتیں او رمختلف زبان بولنے ولے اس کی خدمت گزاری کریں۔ اس کی سلطنت ابدی سلطنت ہے جو جاتی نہ رہیگی اور اس کی مملکت ایسی جو زائل نہ ہوگی ۔ا س پیشینگوئی کا پورا ہونا اس ایت سے روشن ہے متی ۲۴: ۳۰۔ ۲۸: ۱۸۔ افسیوں ۱: ۲۰تا ۲۲ ۔ مکاشفات ۱: ۷۔ ۱۱: ۱۵ ۔ ۱۴: ۱۴۔ ۱۹: ۱۱۔ ۱۶۔ یرمیاہ نبی کی کتاب ۳۱ باب اور اس کی آیت ۳۱ سے ۳۴ آیات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سچا مذہب ہمیشہ ایک ہی صورت میں نہ رہیگا بلکہ بدلتا ترقی پاتا اورکامل ہوتا چلا جائیگا ۔دیکھو وہ دن آتے ہیں خداوند کہتا ہے کہ میں اسرائيل کے گھر میں اور یہوداہ کے گھر میں انسان کا بیج او رحیوان کا بیج بوؤنگا اور ایسا ہوگا کہ جس طرح میں نے ان کی گھات میں بیٹھ کے انہیں کھاڑا اور ڈھایا اور الٹا دیا اور برباد کیا او ردکھ دیا اسی طرح میں چوکی دیکے انہیں بناؤ نگا او رلگاؤنگا ۔ خداوندکہتا ہے ان دنوں میں یہ پھر نہ کہا جائیگا کہ باپ دادوں نے کچے انگور کھائے اور لڑکوں کے دانت کھٹے ہوئے کیونکہ ہر ایک اپنی بدکاری کے سبب مریگا اورہر ایک جو کچے انگور کھاتا ہے اس کے دانت کھٹے ہونگے ۔"

اگر ایسی ایسی پیشینگوئیاں یہودیوں کی مقدس کتابوں میں نہ ہوتیں تو وہ سیدنا عیسیٰ مسیح کے انکاری ہونے کا کچھ عذر پیش کرسکتے تھے اور وہ یہ کہہ سکتے تھے کہ جبکہ ہمارا مذہب خدا سے ہے اور موسیٰ اس کا برگزیدہ خادم تھا تو کیونکر ہم ایک ایسے شخص کی پیروی کریں جو اپنے آپ کو موسیٰ سے بڑا ٹھہراتا ہے اور جس کی بابت خدا کے کلام میں ہم کو بالکل آگاہی نہیں دی گئی یہ جتلایا گیا کہ موسوی شریعت ایک اور بہتر تعلیم سے جو کہ انسان کی ضرورت کو پورا کریگی تبدیل کی جائیگی ؟ مگر جس حال کہ مندرجہ بالا پیشینگوئياں صریح طور سے ان کے نوشتوں میں درج ہیں ان کے پاس کوئی عذر نہیں جس کےرو سے وہ سیدنا عیسیٰ کو جس میں سب پیشنگوئیاں صریح طور سے ان کے نوشتوں میں درج ہیں ان کے پاس کوئی عذر نہیں جس کے رو سے وہ سیدنا عیسیٰ مسیح کو جس میں پیشینگوئیاں پوری ہوئیں اور جس نے کامل نجات کی راہ تیار کی رد کرسکیں ۔

تیسری فصل
سیدنا مسیح اور مسیحی مذہب بنی اسرائیل کے درمیان یعنی اس جگہ ظاہر ہوئے جہاں ان کی بنیاد رکھی گئی

جیسے درخت سے اس کا تنہ اور تنے سے شاخیں پھوٹ نکلتی ہیں اسی طرح سے مسیحی مذہب یہودی مذہب سے نکلا او ریہ صرف اسی کا ایک اعلیٰ درجہ ہے ۔ جب تک کہ لوگ شریعت کے ذریعے تیار نہ ہوئے تب تک خدا نے انجیل کی برکت کو نازل نہ کیا اور جونہی کہ اس نے دیکھا کہ لوگ تیار ہیں خصوصاً یہودی جن کے درمیان زمانہ بزمانہ خدا نے اپنے آپ کو ظاہرکیا تو یہ برکت آسمان سے نازل ہوئی ۔ بعض شاید اعتراض کریں کہ کیوں خدا نے اس برکت کو یہودیوں پر نازل کیا؟ آؤ اس پر غور کریں ۔گو کہ ہم پورے طور سے خدا کے بھیدوں سے واقف نہ ہوسکیں توبھی یہ بات روشن ہوجائیگی اگر بالا تعصب اس پر سوچیں ۔ یہ بات سب مان لینگے کہ اس بڑی برکت کا نازل ہونا اسی جگہ لازم او رمناسب ہے جہاں پہلے اس کے نزول کی تیاری ہوچکی ہو او رجہاں لوگ اس کے حاصل کرنے کے لئے آپ کو تیار کرچکے ہوں۔ یہودی قوم پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہی ایک ایسی قوم تھی جس نے اپنے آپ کو اس کے لئے تیار کیا تھاجیساکہ انجیل سے ظاہر ہے کہ مسیح بیت لحم میں جوکہ داؤد کا شہر ہے پیدا ہوا متی ۲: ۱۔لوقا ۲: ۱تا ۷ ناصرت میں اس کی پرورش ہوئی لوقا ۲: ۳۹تا ۵۱ اور اس نے اپنی خدمت کے ایام میں صاف طور سے کہا کہ نجات پہلے یہودیوں کے لئے ہے ۔ متی ۱۰: ۵تا ۶ میں لکھا ہے کہ اس نے پہلے اپنے بارہ رسولوں کو منادی کرنے اور چنگا کرنے کے لئے یہ کہکر بھیجا "مشرکین کی کسی بستی میں نہ جاؤ اور نہ سامریوں کہ شہروں میں داخل ہو بلکہ اسرائيل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے درمیان جاؤ۔" اور پھر ایک مقام پر جبکہ اس کے شاگردوں نے ایک فینکی عورت کی لڑکی کو چنگا کرنے کے لئے کہا تو مسیح نے یوں جواب دیا" میں اسرائيل کی گمراہ بھيڑوں کے سوا کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا"متی ۱۵: ۲۴ جب تک کہ بنی اسرائيل میں سے ایک خاص تعداد شاگردوں کی جمع نہ ہوئی اور جب تک وہ شاگرد روح القدس سے معمور نہ کئے گئے تب تک زندہ سیدنا مسیح نے ان کو یہودیہ کی سرحدوں سے باہر جانے کی اجازت نہ دی مگر جب وہ روح القدس سے معمور ہوئے تو زمین کے کناروں تک بھیجے گئے اعمال ۱: ۳تا ۸ ۔ مسیحی مذہب کی تواریخ صاف طور سے بتلاتی ہے کہ اگرچہ قوم یہود نے مسیح کو رد کیا مگر تو بھی مسیح نے انہیں کے درمیان اپنی کلیسیا (جماعت) کی ایک پایدار بنیاد ڈالی جس پر کہ ایک عالی شان عمارت بنائی جارہی ہے۔

چوتھی فصل
مسیح کے الہیٰ کام اور نئے عہد کےشروع کا معجزانہ ثبوت

قوم یہود کے لئے مسیح کے معجزوں کا خاص یہ مقصد تھا کہ وہ اس کے پیرو ہوں اور اس طرح خدا کی مرضی کو پورا کریں ۔ جس طور سے موسیٰ کو خدا نے معجزانہ قدرت دی تاکہ وہ بنی اسرائيل کا نبی اور رہائی دینے والا ثابت ہو اسی طور سے مسیح کو بھی یہ قدرت ملی تاکہ وہ خدا کا پیغمبر ثابت ہو تاکہ اس کی تعلیم خدا کی تعلیم اورمکاشفہ مانا جائے ۔ یہ بات قابل غور ہے کہ موسیٰ کو کوئی خاص خصوصیت حاصل نہ تھی بلکہ وہ موقع بموقع خداکی قدرت کوظاہر کرتا تھا جس سے یہ ظاہر ہے کہ بغیراس قدرت کے وہ بذات خود کچھ نہ کرسکتا تھا ۔بہت سے کاموں اور اس معجزانہ قدرت کی ہدایت کے لئے مفصلہ ذیل مقامات غور طلب ہیں خروج ۴: ۲تا ۹۔ ۸: ۵و ۱۶، ۲۰ ، ۲۱۔۳: ۸، ۹، ۲۲۔ ۱۰: ۱۲، ۲۱۔ ۱۴: ۱۶، ۲۶۔ ۱۸: ۶۔

ان معجزات کے سبب سے لوگوں نے موسیٰ کو خدا کا نبی مان لیا خروج ۴: ۳۱، ۱۴: ۳۱اور پھر اسی قدرت کے باعث اور بسبب اس کے خدا نے بالمشافہ اس سے کلام کیا بنی اسرائيل میں کوئی اور نبی اس کے برابر نہ ہوا استشنا ۳۴: ۱۰، ۲۱ حاصل کلام یہ ہے کہ اگر نبی اسرائيل نے موسیٰ کو بلحاظ اس کے معجزوں کے نبی قبول کیا تو کتنا زيادہ لازم تھا کہ وہ مسیح کو قبول کرتے جس نے اپنی خدمت کا یوں بیان کیا کہ اندھے دیکھتے لنگڑے چلتے کوڑھی پاک صاف کئے جاتے بہرے سنتے او رمردے جلائے جاتے اور غریبوں کو خوشخبری سنائی جاتی ہے متی ۱۱: ۵ اور جس کی بابت مرقس ۳: ۱۰و ۱۱ میں یوں لکھا ہے کہ اس نے بہتوں کو چنگا کیا یہاں تک کہ جو سخت بیماریوں میں گرفتار تھے اس پر گرے پڑتے تھے کہ اسے چھولیں اور ناپاک روحیں جب اسے دیکھتیں تو اس کے آگے گر پڑتیں تھیں اور پکار کر کہتی تھیں کہ تو خدا کا بیٹا ہے ۔ مسیح نے اپنی موت کے چند ہی روز پہلے لعزر کو جوکہ چار دن سے مرا ہوا تھا اورجبکہ ا سکا جسم اس ملک کی آب وہوا کے لحاظ سے ضرورہی سڑ گل گیا ہوگا زندہ کیا (یوحنا ۱۱: ۳۹) ۔پطرس کی گواہی پر غور کیجئے جو اس نے ہزارہا یہودیوں کے آگے ان الفاظ میں دی " سیدنامسیح ایک مرد تھا جس کا خدا کی طرف سے ہونا تم پر ثابت ہوا ان معجزوں نشانوں اور اچنبھوں سے جو خدا نے اس کی معرفت تمہارے بیچ میں دکھائے جیساکہ تم آپ جانتے ہو" (اعمال ۲: ۲۲) یہ مبالغہ نہ ہوگا اگر مسیح کے حق میں یہ کہا جائے کہ نہ پہلے نہ اس وقت نہ اس کے بعد کوئی ایسا آدمی ہوا جس نے اس قدر بڑی قدرت او رمحبت ظاہر کی ہو۔ لہذا اس کا یہودیوں کو جتلانا بجا اور برحق تھا جیساکہ یوحنا ۱۰: ۳۷، ۳۸ آیات سے ظاہر ہے " اگر میں اپنے باپ (پروردگار) کا کام نہیں کرتا تو مجھ پر ایمان مت لاؤ لیکن اگر میں کرتا ہوں تو اگرچہ مجھ پر ایمان نہ لاؤ تو بھی کاموں پر ایمان لاؤ تاکہ تم جانو اور یقین کر وکہ باپ (پروردگار ) مجھ میں ہے اور میں اس میں ہوں ۔"

پانچویں فصل
سیدنا مسیح کا الہیٰ مکاشفہ اور اس کی انجیل یہودی مذہب کا درحقیت ایک اعلیٰ درج ہے

یہ مضمون صدہا مثالوں سے ثابت کیا جاسکتاہے مگر ہم بالخصوص چھ باتوں کو پیش کرینگے جن میں سے پہلی تین ہمارا تعلق خدا سے اور روحانی چیزوں سے بتلاتی ہیں اور دوسری تین ہمارا رشتہ ہمارے ہم جنس انسانوں سے ۔

(۱) خدا کی بابت

ہم میں سے ہرایک جو کہ باتوجہ بائبل کا مطالعہ کرتاہے یہ بخوبی جانتا ہے کہ خدا کی بابت جو پرانے عہد نامہ میں بیان کیا گیاہے وہ اس بیان سے جو نئے عہدنامہ میں ہے مختلف ہے ۔ اس میں خدا قادر مطلق خداوند قدوس عادل منصف او رمہر بان اور رحیم حاکم اور بالخصوص بنی اسرائيل کا خداوند ظاہر کیا گیاہے ۔ خروج ۳۰: ۵، ۶ میں خداوند یوں فرماتا ہے " میں خداوند تیرا خدا غیور خدا ہوں او رباپ دادوں کی بدکاریاں ان کی اولاد پر جو مجھ سے عداوت رکھتے ہیں تیسری اور چوتھی پشت تک پہنچاتا ہوں پر ان میں سے ہزاروں پر جو مجھے پیار کرتے ہیں اور میرے حکموں کو حفظ کرتےہیں رحم کرتا ہوں ۔اسی باب کی انیسویں آیت میں یو ں لکھا ہے کہ لوگ چونکہ خدا سے ڈرتے تھے اس لئے انہوں نے موسیٰ سے کہا " توہی ہم سے بول او رہم سنیں لیکن خدا ہم سے نہ بولے ایسا نہ ہو کہ ہم مرجائیں " زبور ۹۵: ۶، ۷ میں یوں لکھا ہے کہ "آَؤ ہم سجدہ کریں اور جھکیں ہم اپنے خالق اور خداوند کے حضور گھٹنے ٹیکیں کہ وہ ہمارا خداوند ہے اور ہم اس کی چراگاہ کے لوگ اور اس کے ہاتھ کی بھیڑیں ہیں۔"

یہ بات سچ ہے کہ موسوی شریعت خدا کی صفات پر بہت کچھ روشنی ڈالتی ہے اور انبیاء کے صحیفوں میں مسیح کے کفارے کی بابت اور خدا کے بے حد پیار کی بابت جتلایا ہے لیکن یہودی قوم نے ان روحانی صفات پر لحاظ نہ کیا جو خاص طور سے شریعت او رنبیوں کی کتابوں میں پائی جاتی ہیں بلکہ انہوں نے صرف انہی صفات کو مدِ نظر رکھا جو کہ عام طور سے بتلائی گئیں۔

نئے عہد نامہ میں خدا بالخصوص محبت کے لباس میں پیش کیا گیا جو کہ سیدنا مسیح کے ذریعے ہمارا باپ ہے اور یہ حقیقتہ ً ایک اعلیٰ ترقی کا درجہ ہے بالمقابل ان صفات کے جن سے خدا صرف ایک خالق یا اخلاقی حاکم یا منصف جتلایا جائے۔ دعایِ ربانی میں سیدنا مسیح نے سکھایا کہ خدا کو " اے ہمارے باپ جو آسمان پر ہے ۔" کے نام سے پکارا جائے (متی ۶: ۹)۔ اسی طور پر مقدس پولوس نے گلتیہ کے مسیحیوں کو لکھا کہ " تم سب سیدنا مسیح پر ایمان لانے کی روسے خدا کے فرزند ہو کہ تم سب نے جتنوں نے مسیح میں بپتسمہ پایا مسیح کو پہن لیا۔ نہ یہودی ہے نہ یونانی ، نہ غلام نہ آزاد ، نہ مرد نہ عورت کیونکہ تم سب مسیح عیسیٰ میں ایک ہو اور اگر تم مسیح کے ہوتو ابراہیم کی نسل اور وعدے کے مطابق وارث ہو" (گلتیوں ۳: ۲۶، ۲۹)۔ مقدس یوحنا نے بھی اپنے زمانہ کے مسیحیوں کو یوں لکھا " اے پیارو آؤ ہم ایک دوسرے سے محبت رکھیں کیونکہ محبت خدا سے ہے اور ہرایک جو محبت رکھتاہے سو خدا سے پیدا ہوا ہےاور خدا کو پہچانتا ہے۔ جس میں محبت نہیں سو خدا کو نہیں جانتا کیونکہ خدا محبت ہے۔۔۔ اور وہ جو محبت میں رہتاہے خدا میں رہتاہے اور خدا میں ۔"(۱ یوحنا: ۴: ۷، ۸، ۱۶)۔

علاوہ اس کے انجیل خدا کی وحدت کو بڑی صفائی سے ظاہر کرتی ہے جوکچھ اس کی بابت موسوی شریعت میں بیان کیا گیا تھا وہ ایسا صاف وصریح نہ تھا۔ انجیل بیان کرتی ہے کہ جس طرح کامل خدا ایک بے نظیر وحدت ہے۔اسی طرح وہ اپنے کمال کو ایک مکمل ہستی میں ظاہر کرتاہے جس سے کہ خدا بذاتِ خود ایک پرُجلال اور نہایت اعلیٰ اور خوشی سے بھرپور ہستی ثابت ہوتاہے اور اس ہستی کو وہ تین اقانیم میں یعنی باپ بیٹے اورروح القدس میں ظاہر کرتاہے اور جس طرح ان تین اقانیم نے جو کہ بلحاظ اپنے جوہر کے ایک ہیں کلُ عالم کو اور ہر شے کو جو اس میں ہے پیدا کیا اسی طرح سے یہی تین انسانوں کی شیطان گناہ اور موت سے نجات کاسبب اولےٰ ہیں۔

الہیٰ ذات کے ان تین اقانیم کا ذکر خدا کی وحدت میں شامل ہیں اور جس کو مسیحی عالموں نے لفظ ِ تثلیث سے بیان کیا ہے انجیل کے کئی مقامات میں پایا جاتاہے جہاں پر بعض دفعہ بیٹے کو اور بعض دفعہ روح القدس کو الہیٰ صفات سے ملبوس کیا گیا ہے ۔ بیٹے کی بابت یوحنا ۱: ۱ کو دیکھئے " ابتدا میں کلام تھا او رکلام خدا کے ساتھ تھا اور کلام خدا تھا"( آیات ۱۴تا ۱۷ دیکھئے ) پھر یوحنا ۵: ۲۰: ۲۳ میں یوں لکھا ہے کہ " اس لئے کہ باپ بیٹے کو پیار کرتاہے اور سب کچھ جو خود کرتاہے اسے دکھاتاہے اور وہ ان سے بڑے کام سے دکھائیگا کہ تم تعجب کروگے ۔ اس لئے کہ جس طرح باپ مردوں کو اٹھاتاہے اورجلاتا ہے بیٹا بھی جنہیں چاہتاہے جلاتاہے کیونکہ باپ کسی شخص کی عدالت نہیں کرتا بلکہ اس نے ساری عدالت بیٹے کوسونپ دی تاکہ سب بیٹے کی عزت کریں جس طرح سے کہ باپ کی عزت کرتے ہیں۔ جو بیٹے کی عزت نہیں کرتا باپ کی جس نے اسے بھیجا ہے عزت نہیں کرتا ۔"بعض دفعہ روح القدس کی بابت کہا جاتاہے کہ وہ باپ کی طرف سے ایمانداروں پر نازل ہوتاہے جیسے کہ یوحنا ۱۴: ۲۶ میں لکھا ہے " لیکن وہ تسلی دینے والا جو روح القدس ہے جسے باپ میرے نام سے بھیجگا وہی تمہیں سب چیزیں سکھائيگا اور سب باتیں جو کچھ کہ میں نے تم سے کہیں تمہیں یاددلائیگا "( دیکھو یوحنا ۱۴: ۲۶۔ ۱۶: ۷۔۲۰: ۲۲) اسی روح القدس کی بابت خطِ اول کرنتھیوں ۲: ۱۰، ۱۱ میں یوں لکھاہے کہ " روح ساری چیزوں کو بلکہ خدا کی گہری باتوں کو بھی دریافت کرلیتی ہے کہ آدمیوں میں سے کون آدمی کا حال جانتا ہے مگر آدمی کی روح جو اس میں ہے"اسی طرح خدا کی روح کے سوا خدا کی باتوں کو بھی کوئی نہیں جانتا " الہیٰ ذات کے تین اقانیم کا ذکر متی ۲۸: ۱۹۔ ۲ کرنتھیوں ۱۳: ۱۴۔ ۱یوحنا ۵: ۷ میں پایا جاتا ہے ۔انسان کی نجات کے لئے ان تینوں میں سے ہرایک کا خاص حصہ ہے۔ خط افسیوں ۱: ۴ میں باپ کی بابت یوں لکھا ہے " خدا نے ہم کو سیدنا مسیح میں دنیا کی پیدائش سے پیشتر چن لیا" اور یوحنا ۳: ۱۶ میں یو ں لکھا ہے " خدا نے جہان کو ایسا پیار کیا کہ اس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخشا تاکہ جو کوئی اس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے"بیٹے کی بابت یہ لکھا ہے کہ وہ ہمارے گناہوں کے بدلے قربان ہوا تاکہ وہ ہم کو گناہ کی سزا اور گرفتاری سے بچا کر خدا کے ساتھ ملادے (مقابلہ کرو متی ۲۰: ۲۸۔ ۱ تمتھیس ۲: ۶۔ گلتیوں ۳: ۱۳۔ ۱ پطرس ۲: ۲۴۔ کلسیوں ۱: ۱۹ ، ۲۲ ) روح القدس کی بابت یہ لکھا ہے کہ وہ ایمانداروں کو پاک کرتا ہے اور ان کو خدا کی ہیکل (بیت الله ) بناتاہے دیکھو رومیوں ۱۵: ۱۶۔ ۲ تھسلنیکیوں ۲: ۱۳۔ ۱ کرنتھیوں ۳: ۲۶۔ اور ۶: ۱۹، ۲۰ ۔ یہ ساری تعلیم کا ۱ پطرس ۱: ۲ میں خلاصتہ ً یو ں بیان ہے جہاں ایمانداروں کو برگزیدہ کہا ہے اور " جو خدا باپ کے اس علم کے موافق جو وہ پہلے سے رکھتا تھا چنے ہوئے ہیں تاکہ روح کی پاکیزگی بخش تاثیر سے فرمانبردار ہوں اور سیدنا مسیح کا خون ان پر چھڑکا جائے ۔"

(۲) پرستش کی بابت

جیسی عبادت یا پرستش نئے عہد نامہ میں بیان کی گئی ہے وہ پرانے عہد نامے کی پرستش سے زيادہ اعلیٰ اور روحانیت کی طرف مائل کرنے والی ہے احبار اور استشنا کی کتابوں سے معلوم ہوتاہے کہ موسوی شریعت زیادہ تر رسومات کے پورا کرنے ظاہری پاکیزگی بجالانے وقتوں اور موسموں کو مد نظر رکھنے اور مختلف قسم کی قربانیوں پرز ور دیتی ہے ۔ برعکس اس کے بجائی اس کے سیدنا عیسیٰ کوئی نئی قبلہ گاہ مقرر کرتا یا اور رسومات جاری کرتا سامریہ کی عورت کو یوں کہتاہے " اے عورت یقین جان کہ وہ گھڑی آتی ہے جبکہ نہ اس پہاڑ پرنہ یروشلیم میں باپ کی پرستش کروگے لیکن سچے پرستار باپ کی روح اور راستی سے پرستش کرینگے ۔ کیونکہ باپ یہی چاہتاہے کہ اس کے پرستار ایسے ہی ہوں ۔"( یوحنا : ۴: ۲۱، ۲۳) مقدس یعقوب اپنے خط کے پہلے باب کی ۲۷ آیت میں یوں لکھتا ہے " وہ دینداری جو خدا اورباپ کے آگے پاک اور بے عیب ہے سویہی ہے کہ یتیموں اور بیواؤں کی مصیبت کے وقت ان کی خبرگیری کرنی اور آپ کو دنیا سے بے داغ بچا رکھنا" انجیل کی تعلیم کے مطابق خدا ہم سے یہ نہیں چاہتا کہ ہم ظاہری رسومات کو مثلاً ہاتھ پاؤں دھونا (وضوکرنا) جماعت سے نماز پڑھنا روزے رکھنا۔ خاص خاص عبادت گاہوں میں جانا اور ایسی ایسی باتوں کو کرنا۔ لیکن وہ یہ چاہتا ہے کہ ہم سب سے پہلے گناہ سے توبہ کریں ۔ مسیح پر جو کہ گناہگاروں کا بچانے والا ہے ایمان لائیں۔ اپنے دل کو بدل دیں اور گناہ سے پاکیزگی کی طرف اس طور سے پھریں کہ وہ زندگی نئی زندگی کہلا سکے اور اس کے بعد اپنی ساری زندگی اس کی مرضی کے مطابق اور اس کے جلال کے لئے بسر کریں۔ اس لئے ہم پڑھتے ہیں کہ یوحنا بپتسمہ دینے والے اور مسیح نے اپنی خدمت توبہ کی تعلیم سے شروع کی " وقت آپہنچا اور خدا کی بادشاہت نزدیک ہے۔ توبہ کرو اور اس خوشخبری پر ایمان لاؤ کیونکہ آسمان کی بادشاہت نزدیک ہے (مرقس ۱: ۱۵۔ متی ۳: ۲۔ ۴: ۱۷)رسول بھی اسی طور سے بھیجے گئے کہ وہ لوگوں کو توبہ کے لئے آگاہ کریں دیکھو مرقس ۶: ۱۲ اور اعمال ۲: ۳۸۔ ۳: ۱۹۔ ۱۷ : ۳۰۔ ایک دفعہ مسیح نے یہودیوں کے سامنے یہ کہا " میرے باپ (پروردگار ) کی مرضی یہ ہے کہ ہرایک جو بیٹے کو دیکھے اس پر ایمان لا کے ہمیشہ کی زندگی پائے اور کہ میں اسے آخری دن میں اٹھاؤں (یوحنا ۶: ۴۰) ایک اور موقع پر یہ کہا " میں تجھ سے سچ سچ کہتا ہوں کہ جب تک آدمی از سر نو پیدا نہ ہو وہ خدا کی بادشاہت کو دیکھ نہیں سکتا "(یوحنا ۳: ۳) مقدس یوحنا اپنے پہلے خط کے ۵: ۴ میں یوں لکھتاہے " جو کہ خدا سے پیدا ہوا دنیا پر غالب ہوتاہے اور وہ غلبہ جس سے ہم دنیا پر غالب آتے ہیں ہمارا ایمان ہے" ہم کو بتلایا جاتا ہے کہ صرف ایسا ہی ایمان ہم کو نجات دلاسکتا ہے اور کوئی انسان ظاہری رسومات کے ادا کرنے سے اور ظاہری شریعت کی پابندی سے بچ نہیں سکتا ۔ گلیتوں ۲: ۱۶ میں یوں لکھا ہے " یہ جانکر کہ آدمی نہ شریعت کے کاموں سے پر سیدنا مسیح پر ایمان لانے سے راستباز گنا جاتاہے ہم بھی سیدنا مسیح پر ایمان لائے تاکہ ہم مسیح پر ایمان لانے سے نہ کہ شریعت کے کاموں سے راستباز گنے جائیں کیونکہ کوئی بشر شریعت کے کاموں سے راستباز نہ گنا جائیگا۔" یہ نجات دینے والا ایمان فضول اور بے فائدہ نہیں اور نہ ہی ایسا ایمان گناہ کی حالت میں رہ کر سکتے ہیں کیونکہ بہت سے مقامات سے صاف ظاہر ہے ۔ ۲ پطرس ۱: ۵، ۸ میں یوں لکھا ہے " پس اس واسطے تم اپنی طرف سے کمال کوشش کرکے اپنے ایمان پر نیکی اور نیکی پر عرفان ، عرفان پرپرہیزگاری ،پرپرہیزگاری پر صبر ، صبر پر دینداری اور دینداری پر بردارانہ الفت اور برادرانہ الفت پر محبت بڑھاؤ کہ یہ چیزيں اگر تم میں ہوں اور بڑھتی بھی جائیں تو تم کو ہمارے سیدنا مسیح کی کامل پہچان حاصل کرنے کے لئے غافل اور بے پھل نہ ہونے دینگی " مقدس پولوس رومیوں ۱۲: ۱ میں یوں لکھتاہے ہے " پس اے بھائیو میں خدا کی رحمتوں کا واسطہ دے کے تم سے التماس کرتا ہوں کہ تم اپنے بدنوں کو گذرانوں تاکہ ایک زندہ قربانی مقدس اور خداکے لئے پسندیدہ ہوں کہ یہ تمہاری عقلی عبادت ہے " اور کرنتھیوں کو ۱ کرنتھیوں ۱۰: ۳۱ میں یوں لکھتا ہے " پس تم کھاتے پیتے یا جوکچھ کرتے ہو سب خدا کے جلال کے لئے کرو" بجائ اس کے کہ مقدس پولوس دعا کا وقت اور اس کے لئے کوئی خاص جگہ بتلائے وہ مسیحیوں کو دعائيہ زندگی بسر کرنے کے لئے آمادہ کرتا ہوا کہتاہے " نت ِ دعا ُ مانگو"( دیکھو ۱ تھسلنیکیوں ۵: ۱۷ اور رومیوں ۱۲: ۱۲) عبرانیوں ۱۰: ۱، ۱۴ میں مسیحی قربانی کے طریقہ کو یوں بیان کرتاہے " کیونکہ شریعت جو آنے والی نعمتوں کی پرچھائیں ہے اور ان چیزوں کی حقیقی صورت نہیں سال بسال انہی قربانیوں سے جو وہ ہمیشہ گذرانتے ہیں ان کو جو پاس آتے ہیں کبھی کامل نہیں کرسکتی ۔۔۔۔کیونکہ ہو نہیں سکتا کہ بیلوں اور بکروں کا لہو گناہوں کو مٹائے ۔ اس لئے وہ (سیدنا مسیح) دنیا میں آتے ہوئے کہتا ہے ۔۔۔۔" دیکھ اے خداوند میں آتا ہوں کہ تیری مرضی بجالاؤں۔۔۔۔ کیونکہ اس نے ایک ہی قربانی سے مقدسوں کوہمیشہ کے لئے کامل کیا" اس سے ہم کومعلوم ہوتاہے کہ وہ رسومات جو احبار کی کتاب میں درج ہیں صرف مسیح کے کفارے کی موت کو اور ان برکتوں کو جو اس سے حاصل ہوتی ہیں جتلاتی تھیں اور جب حقیقت ظاہر ہوئی تو نقل کی ضرورت نہ رہی (دیکھو کلسیوں ۲: ۱۶، ۱۷)۔

(۳) خدا کی بادشاہت کی بابت

خدا کی باد شاہت سے مراد ایک ایسا ذریعہ ہے جس کو خدا نے خود بنی آدم کو گناہ اور شیطان کے پھندے سے بچانے کے لئے اور اس کو اپنے ساتھ پھر بحال کرنے کے لئے اور آسمان کے لئے تیار کرنے کے لئے اپنی بڑی کمال رحمتِ سے استعمال کیا۔ موسوی شریعت میں یہ خدا کی بادشاہت صرف ایک خاص قوم کے لئے ظاہر کی گئی ہے ۔ بنی اسرائیل ہی خدا کی برگزیدہ قوم تھے خروج ۱۹: ۵، استشنا ۱۰: ۵ جو کہ کاہنوں کی سلطنت اورپاک قوم کہلاتے تھے خروج ۱۹: ۶ اور خدا بھی ان کو اپنا پلوٹھا بیٹا کہکر پکارتاہے خروج ۴: ۲۲ بنی اسرائيل ہی بادشاہت کے فرزند تھے متی ۸: ۱۲۔ ۲۱: ۴۳ اورانہی کی یروشلیم کی ہیکل (بیت الله ) میں خدا بودوباش کرتا ہوا بتلایا گیا اور رویِ زمین پر اس کا ٹھکانا کہیں نہ تھا( دیکھو استشنا ۱۴: ۵، ۱۱ اورمقابلہ کرو ۲ کرنتھیوں ۷: ۱۶ اور نحمیا ہ ۱: ۹) دنیا کی اور قوم میں جہالت میں زندگی بسر کرتی تھیں۔ اعمال ۱۷: ۳۰ او راپنے اپنے طریقوں پر چل کر ہلاک ہوتی تھیں اعمال ۱۶: ۱۶ ۔ اور اگر کوئی غیر قوم خدا کی بادشاہت میں داخل ہونا چاہتا تھا تو اس کو پہلے ختنہ کروانا اور قوم یہود میں شراکت پیدا کروانی پڑتی ۔خروج ۱۲: ۴۸ ۔ اگر کوئی ان رسومات کو ادا نہ کرتا تو یہودی جو کہ ان میں اپنا فخر سمجھتے تھے (رومیوں ۲: ۱۶، ۲۰) اس آدمی کو حقیر جانتے اور کسی بات میں شامل نہ کرتے تھے (۱سموئیل ۳۱: ۴ ، افسیوں ۲: ۱۱)مسیح کے آنے پر خدا کی بادشاہت کا یہ قومی پہلو جاتا رہا جوکہ صرف یہودیوں کے لئے خیال کی جاتی تھی اور برعکس اس کے ایک عام روحانی بادشاہت ہوگئی جو کہ سبھوں کے لئے کھلی ہے۔ یوحنا بپتسمہ دینے والے نے صاف یہودیوں کو کہا " یہ خیال نہ کرو کہ ابراہیم تمہارا باپ ہے کیونکہ میں تم سے کہتا ہوں کہ خدان پتھروں سے ابراہیم کے لئے اولاد پیدا کرسکتا ہے" متی ۹: ۲، ۳، ۹ ۔ مقدس پولوس رومیوں ۲: ۲۸و۲۹ میں یوں لکھتا ہے " وہ یہودی نہیں جو ظاہر میں ہے اور وہ ختنہ نہیں جو ظاہری جسم میں ہے ۔ مگر یہودی وہی جو باطن سے ہو اور ختنہ وہی جو دل سے ہو ۔ روحانی نہ کہ لفظی جس کی تعریف آدمیوں سے نہیں بلکہ خدا کی طرف سے ہو" ختنہ جو کہ مذہبی رسم خیال کی جاتی تھی انجیل کی رو سے بالکل مٹا دی گئی ہے جیساکہ گلتیوں ۵: ۲ سے ظاہر ہے " دیکھو میں پولو س تم سے کہتا ہوں کہ اگر تم ختنہ کی پیروی کرو تو مسیح سے تمہیں کوئی نفع نہیں" اور پھر کلسیوں ۲: ۱۱ میں مسیحیوں کو یہ کہتاہے " اسی میں تمہارا ایسا ختنہ ہوا جو ہاتھ سے نہیں یعنی مسیحی ختنہ جو جسمانی گناہوں کا بدن اتار پھینکنا ہے" سیدنا مسیح نے خود بھی یہ کہا " خدا کی بادشاہت نمود کے ساتھ نہیں آتی اور وہ نہ کہیں گے کہ دیکھو یہاں ہے یا دیکھو وہاں ہے کیونکہ خدا کی بادشاہت تمہارے درمیان ہے" اور پھر اس نے ایک اور موقع پر یہ کہا " میری بادشاہت اس جہان کی نہیں۔ اگر ہوتی تو میرے نوکر لڑتے تاکہ میں یہودیوں کے ہاتھ حوالہ نہ کیا جاتا ۔ لیکن میری بادشاہت یہاں کی نہیں ۔۔۔۔ میں اسی لئے پیداہوا اور اسی کی خاطر میں اس دنیا میں آیا تاکہ میں حق پر گواہی دوں۔ ہرا یک جو حق پر ہے میری آواز سنتاہے ۔"( یوحنا ۱۸: ۳۶، ۳۷ ) اسی طرح مقدس پولوس بھی کہتاہے "کیونکہ مسیح میں نہ مختونی نہ نا مختونی کا کچھ فائدہ ہے لیکن ایمان جوکہ محبت سے ہو " گلتیوں ۵: ۶ اورپھر یوں لکھتاہے " خدا کی بادشاہت کھانا پینا نہیں بلکہ راستبازی سلامتی اور خوشی ہے جو کہ روح ِ پاک سے حاصل ہوتی ہے"( رومیوں ۴: ۱۷)

(۴) بدلہ کی بابت

موسوی شریعت میں بدلہ لینے کی تعلیم ہے۔ جب کوئی شخص ناجائز طور سے قتل کیا جاتاتو مقتول کے رشتہ دار خون کا بدلہ لینے والے کہلاتے اور یہ ان کا فرض گنا جاتا تھا کہ قاتل کو مار ڈالیں ۔ گنتی ۳۵: ۱۹ میں یوں لکھا ہے " وہ شخص جو مقتول کا ولی ہے خونی کو آپ ہی قتل کرے ۔ جب وہ اسے پائے اسے مار ڈالے " اگر قاتل پناہ کے شہروں میں بھاگ کر پناہ لے تو استشنا ۱۹: ۱۲ میں شہر کے سرداروں کو یوں حکم دیا ہے " کہ قاتل وہاں پکڑوا منگوایا جائے اور مقتول کے وارث کےہاتھ میں حوالہ کیا جائے تاکہ وہ مار ڈالا جائے ۔" دوسرے قصوروں کے بارے میں بھی بدلہ ہی کی تعلیم دی گئی ہے جیساکہ احبار ۲۴: ۱۹، ۲۰ میں لکھا ہے" اگر کوئی اپنے ہمسایہ کو چوٹ لگائے سو جیسا کریگا ویسا پائیگا ۔ توڑنے کے بدلے توڑنا، آنکھ کے بدلے آنکھ دانت کے بدلے دانت جیسا کوئی کسی کا نقصان کرے اس سے ویسا ہی کیا جائے" یہ صاف ظاہر ہے کہ یہ حکم ملکی کارگزاری کے لئے دئے گئے تھے اوربلاشک یہ اس موقع زمان اورمکان کے موضوع تھے لیکن تواریخ سے معلوم ہوتاہے کہ یہودی زیادہ ترحکموں کی لفظی پیروی کرتے تھے اور ان حکموں کو انہوں نے ہر جگہ عائد کرلیا مثلاً اپنے ذاتی اور خانگی کاروبار میں انہیں پر لفظ بلفظ عمل کرتے تھے ، لہذا مسیح کے لئے یہ لازم ہواکہ ان الفاظ کوکہے جوکہ متی ۵: ۳۸، ۳۹ میں پائے جاتے ہیں" تم سن چکے ہو کہ اگلوں سے کہا گیا کہ آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت ہے لیکن میں تمہیں کہتا ہوں کہ شریر کا مقابلہ نہ کر لیکن جو تیرے دہنے گال پرطمانچہ مارے بایاں بھی اس کی طرف پھیر دے " ان الفاظ کا مطلب اس نے اپنی زندگی سے ظاہر کیا۔۱ پطرس ۲: ۲۳ میں یوں لکھاہے " وہ گالیاں کھاکے گالی نہ دیتا تھا اور دکھ پاکے دھمکاتا نہ تھا۔لیکن اپنے تیئں اس کے جو راستی سے عدالت کرتاہے سپرد کرتاتھا "اس کے رسولوں کی تعلیم سے بھی وہی فروتنی اور حلیمی کی تعلیم ظاہرہوتی ہے دیکھو رومیوں ۱۲: ۱۹ اے عزیزو اپنا انتقام مت لو بلکہ غصے کی راہ چھوڑدوکیونکہ یہ لکھا ہے کہ خداوند کہتاہے انتقام لینا میرا کام ہے " اور مقدس پطرس اپنے پہلے خط کے ۲: ۱۹ ، ۲۱ میں یہ کہتاہے کہ " اگر کوئی خدا کے لحاظ کے سبب سے بے انصافی سے دکھ اٹھاکر ایسی تکلیفوں کی برداشت کرے تو یہ فضیلت ہے کیونکہ اگر تم نے گناہ کرکے طمانچے کھائے اور صبر کیا تو کونسی فخر کی بات ہے پر اگر نیکی کرکے دکھ پاتے اور صبر کرتے ہو تو اس میں خدا کے نزدیک تمہاری فضیلت ہے کیونکہ تم اسی کے لئے بلائے گئے ہوکہ مسیح بھی ہمارے ساتھ دکھ پاکے ایک نمونہ ہمارے لئےچھوڑ گیا تاکہ تم اس کے نقش ِ قدم پرچلے جاؤ" اب اگر یہ پوچھا جائے کہ یہی ہدایت موسوی شریعت میں کیوں اس صفائی سے نہ دی گئی تو ہم یہ بلا تامل مان لیں کہ ہم الہیٰ بھیدوں کو نہیں جان سکتے ۔لیکن تو بھی یہ کہا جاسکتا ہے کہ پیشتر مسیح کی موت سے جو کہ سبھوں کا کفارہ ہے کسی صاف اور واضح صورت میں گناہ کی گندگی کو دور کرکے گنہگار پررحم کرنے کی حالت کو ظاہر نہ کیا تھا اور اگر اسی حالت میں ایسی گناہوں کی معافی پیش کی جاتی تو ممکن تھا کہ آدمی اخلاقی اور روحانی برائی کی حقیقت کو نہ پہچانتے ۔ اس کا سب کچھ ہی تو بھی یہ صاف ظاہر ہے کہ نئے عہد میں بہ نسبت پرانے عہد کے اعلیٰ روحانی درجہ پیش کیا جاتاہے۔

(۵) غلامی کی بابت

یہ کئی وجوہات سے ثابت ہے کہ وہ غلام جوکہ بنی اسرائیل میں تھے بہ نسبت ان کے جو غیر اقوام کے پاس تھے بدرجہا بہتر حالت میں تھے۔ کیونکہ ایک تو ان کو سبت کے روز نہ صرف کام کرنے کی اجازت نہ تھی بلکہ خاص ممانعت تھی(استشنا ۵: ۱۴) اورپھر وہ قومی عیدوں میں شامل ہوتے تھے (خروج ۱۲: ۴۴ ۔ استشنا ۱۶: ۱۰، ۱۱) اگر کوئی غلام کو قتل کرتا تو قانوناً سزا پاتا ( خروج ۲۱: ۱۰) اور اگر کوئی مالک ایسے طور سے غلام کو سزا دیتا کہ اس کے بدن کے اعضا کو نقصان پہنچتا تو اس کو آزاد کرنا پڑتاہے (خروج ۲۱: ۲۶، ۲۷) عام طور پر بنی اسرائيل کو یہ حکم تھاکہ غلاموں کے ساتھ اپنی مصر کی غلامی کو یاد کرکے سلوک کرو(استشنا ۱۵: ۱۲) باوجود ان باتوں کے موسوی شریعت نے غلامی کی رسم کو دور نہ کیا بلکہ جاری رکھا اور غیر قوموں میں سے جو غلام تھے ان کو بنی اسرائیل کا خدمت گزار مانا(احبار ۲۵: ۳۹، ۴۶) لیکن برعکس اس کے انجیل میں غلامی کی سخت ممانعت ہے۔ کیونکہ جس طرح مسیحی مذہب انسان کو اعلیٰ روحانی آزادگی کی طرف مائل کرتاہے جیساکہ مسیح نے یہودیوں سے کہا " اگر بیٹا تم کو آزاد کرتاہے تو تم تحقیق آزاد ہوگے" اسی طرح یہ حکم بھی دیتاہے " پس جو کچھ تم چاہتے ہو کہ لوگ تمہارے ساتھ کریں ویسا تم بھی ان کے ساتھ کرو"( متی ۷: ۱۲) کوئی درجہ یا رتبہ کسی انسان کو انجیل کی برکت سے جدا نہیں کرسکتا کیونکہ یہ برکت ہر ایک جو ایمان لاتااور بپتسمہ پاتاہے ملتی ہے جیسا کہ گلتیوں ۳: ۲۶، ۲۸) میں لکھاہے " تم سب کے سب اس ایمان کے سبب سے جو سیدنا مسیح پر ہے خدا کے فرزند ہو کہ تم سب جتنوں نے مسیح میں بپتسمہ پایا مسیح کو پہن لیا نہ یہودی نہ یونانی ہے نہ غلام نہ آزاد نہ مرد نہ عورت کیونکہ تم سب مسیح میں ایک ہو " مسیح نے یہ نہ چاہا کہ یک لخت اس کی تعلیم سے غلامی بند ہوجائے اور دنیا میں ایک ہل چل مچ جائے لیکن اس کی تعلیم کی رو سے آہستہ آہستہ یہ برُ ی رسم بند ہوتی ہوگئی ۔ گناہ اور شیطان سے آزادگی اتنی بڑی خیال کی جاتی ہے کہ مقدس پولوس کہتاہے کہ انسان کی غلامی قابل ِ برداشت ہے بہ نسبت گناہ اور شیطان کی غلامی کے لیکن تو بھی وہ ہرایک مسیحی غلام کو کہتا ہے کہ وہ اپنی آزادگی حاصل کرنے کے لئے کوشش کرے کیونکہ سیدنا مسیح میں آزاد شخص کے لئے غلامی موزون نہیں ۔ یہ تعلیم ہم کو ۱ کرنتھیوں ۷: ۲، ۲۳ میں ملتی ہے "اگر تو غلام کی حالت میں بلایا گیا تو اندیشہ نہ کر پر اگر تو آزاد ہوسکتاہے تو اسے اختیار کرکیونکہ وہ غلام جو خداوند میں ہو کے بلایا گیا خداوند کاآزاد کیا ہوا ہے اور اسی طرح وہ جو آزاد کی حالت میں بلایا گیا مسیح کا غلام ہے۔ تم داموں سے خریدے گئے ہو آدمیوں کے غلام نہ بنو" مسیحی مذہب کا یہ میلان اس کی تواریخ سے ثابت ہے کیونکہ جس جس ملک میں انجیل کی تعلیم گئی پہلے وہاں غلاموں کی حالت بہتر بنائی گی اور پھر رفتہ رفتہ غلامی بالکل موقوف ہوئی۔

(۶) ایک سے زيادہ نکاح اور طلاق کے بارے میں

اگرچہ موسوی شریعت میں عورتوں کے حقوق بہ نسبت غیر قوم عورتوں کے حقوق کے اچھے ہیں مگر تو بھی طلاق دینا بالکل مرد کے ہاتھ میں تھا جو کہ جب چاہے اس کو اپنے ہاں سے نکال سکتا تھا جیساکہ ہم استشنا ۲۴: ۱، ۲ میں پڑھتے ہیں" اگر کوئی مردکوئی عورت لے کے بیاہ کرے اور بعد اس کے ایسا ہوکہ وہ اس کی نگاہ میں عزیز نہ ہو اس سبب سے کہ اس نے اس میں کچھ پلید بات پائی تو وہ اس کا طلاق نامہ لکھ کے اس کے ہاتھوں میں دے اور اسے اپنے گھر سے باہر کرے او رجب وہ اس کے گھر سے باہر نکل گئی تو جاکے دوسرے مر د کی ہو" موسوی شریعت کے حق میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس میں خاوند کے اختیارات کو ذرا روک دیا ہے کیونکہ وہ اپنی طلاق دی ہوئی جورو کو جو کہ دوسرے کی جورو ہوچکی ہے کسی صورت سے واپس نہیں لاسکتا (دیکھو استشنا ۲۴: ۳، ۴ )اورملاکی ۲: ۱۶ میں یہ صاف طور سے لکھا ہے کہ طلاق دینا خدا کی مرضی کے خلاف ہے اسی طرح سے پیدائش کی کتاب میں لکھاہے کہ خدا کی پاک مرضی یہ ہے کہ جب آدمی شادی کرے تو " وہ اپنے ماں باپ کو چھوڑ ے گا اور اسی سے ملارہے گا اور وہ ایک بدن ہونگے" پیدائش ۲: ۲۴ لیکن شریعت میں کوئی ایسے خاص قانون نہ تھے جن سے یہ طریقے مانے جاتے او رنکاح کی پاکیزگی کو خراب نہ کیا جاتا۔اس شادی کی رسم سے خدا نے ایک مرد اورایک عورت کو جوڑا بنایا (دیکھو پیدائش ۱: ۲۷ اور ۲: ۲۱ ، ۲۵ ) مگر شریعت میں اگرچہ ایک عورت سے شاد ی کرنے کی پاک رسم کوظاہر کیا گیا ہے اور اس کو سب سے بہتر بھی قرار دیا ہے پر تو بھی ایک سے زیادہ کے ساتھ شادی کرنے اور لونڈیاں رکھنے کی ممانعت نہیں کی اوربرعکس اس کے اس کو جائز قرار دیا جیساکہ مفصلہ ذیل حوالوں سے معلوم ہوتاہے (استشنا ۲۱: ۱۵)۔خروج ۲۱: ۸ ، ۱۰ ۔ ۱ سموئیل ۳: ۷ اور ۱۲: ۵۔

لیکن سیدنا مسیح نے اس بات پر خدا کی مرضی کو ایسے صاف طور سے ظاہر کیا کہ اس کے سمجھنے میں ہر گز غلطی نہیں ہوسکتی متی ۱۹: ۲، ۹ میں ایک دفعہ کا ذکر ہے جبکہ اس کے دشمنوں نے اس کوپھنسانے کی غرض سے یہ سوال پوچھا" کیا یہ روا ہے کہ مرد ہر ایک سبب سے اپنی جورو کو چھوڑدئے ؟ " اس نے ان کو جواب دیا " کیا تم نے نہیں پڑھا کہ اس نے جس نے انہیں شروع میں بنایا ایک ہی مرد اورایک ہی عورت بنایا اور فرمایا اس لئے مرد اپنے ماں باپ کو چھوڑ یگا اور اپنی جورو سے ملا رہیگا اور وہ دونوں ایک تن ہونگے ۔ اس لئے اب وہ دو نہیں پر ایک تن ہیں۔ پس جسے خدا نے جوڑا انسان نہ توڑے " اور اس نے بتلایا کہ ان کا خیال بالکل غلط تھا اور کہ وہ موسوی شریعت کے مطابق راست نہیں ٹھہر سکتا " موسیٰ نے تمہاری سخت دلی کے سبب تم کو اپنی جورؤں کو چھوڑدینے کی اجازت دی پر شروع سے ایسا نہ تھا اور میں تم سے کہتا ہوں کہ جو کوئی اپنی جورو کو سوائ زنا کے اور سبب سے چھوڑدے اور دوسری سے بیاہ کرے زنا کرتاہے اور جو کوئی اس چھوڑی ہوئی عوت کو بیاہے زنا کرتاہے ۔"

ان مقامات سے معلوم ہوتاہے کہ سیدنا مسیح شادی کے وہی معنی لیتا ہے جس کی رو سے یہ میل ایک عورت اورایک مرد میں زندگی بھر کا میل ہو۔ ایک سے زیادہ کے ساتھ شادی کرنا اس کی نگاہ میں زناکاری کاجرُم تھا کیونکہ جبکہ وہ اس آدمی کو جو چھوڑی ہوئی عورت سے شادی کرے زنا کا رکہتا ہے تو اس اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ وہ بھی دوسری عورت سے شادی کرتاہے جبکہ ایک اس کے ہاں ہے زناکار ہے۔ دوسری شادی سے زناکاری اس طور سے ٹھہرتی ہے کہ جبکہ پہلی جورو زندہ ہے تو دوسری شادی کرنا گویا زنا کرنا ہے۔ اس لئے رسولوں نے بھی ایک ہی بیوی رکھنے کی تعلیم دی ہے اور جب جب انہو ں نے اپنے زمانہ کی مسیحی شادی شدہ زندگی کا ذکر کیا ہے تو ہمیشہ ایک شادی والی زندگی کا ذکر کیا تو ہمیشہ ایک شادی والی زندگی کا ذکر کیا مقدس پولوس ۱ کرنتھیوں ۷: ۲ میں یو ں لکھتاہے " لیکن حرامکاری سے بچ رہنے کو ہر مرد اپنی جورو اور ہر عورت اپنا شوہر رکھے " اور پھر ۷: ۱۲، ۱۳ میں یو ں لکھتاہے " اگر کسی بھائی کی جورو بے ایمان ہو اور وہ اس کے ساتھ رہنے کو راضی ہو تو وہ اس کو نہ چھوڑے یا کسی عورت کا شوہر بے ایمان ہو اور وہ اس کے ساتھ رہنے کو راضی ہو تو وہ اس کو نہ چھوڑے" پھر افسیوں ۵: ۳۳ میں یوں لکھتا ہے " بہر حال ہر ایک تم میں اپنی اپنی جورو کو ایسا پیار کرے جیسا کہ آپ کو اور عورت اپنے شوہر کا ادب کرے " مسیحی مذہب جبکہ نکاح کی پاکیزه اور پایدار رسم کو اس مستحکم اور صاف طور سے جتلاتا ہے تو اس کی غرض یہ ہے کہ وہ عورت کی اس گری ہوئی حالت کو بحال کرے جو کہ غیر اقوام کے مذاہب میں پائی جاتی ہے اور نیز اس جگہ سے اوپر اٹھائے جہاں موسوی شریعت نے اس کو ادھوری حالت میں چھوڑدیا اور اس طور سے عورت کو خدا کی ایک آزاد فرزند اس کی بادشاہت کی مستحق اور آنے والے جلال کی وارث بناتا ہے (۱ پطرس ۳: ۷)

دوسرا باب

اسلام اور مسیحی مذہب کا باہمی تعلق
یا
کیاوہ مذہب جس کا ذکر انجیل میں ہے قرآن کے مذہب میں تبدیل ہوسکتا ہے ؟
پہلی فصل

کیا اسلام نے بحیثیت مذہب کبھی دینی ودنیاوی برکات پھیلانے اور بنی آدم کو اپنی طرف مائل کرنے میں مسیحیت پر فوقیت حاصل کی ہے؟

پہلے حصہ سے یہ صاف ظاہر ہے کہ جیسا ہم نے مسیحی تعلیم اور موسوی شریعت کا مقابلہ کرکے دیکھا کہ مسیحی مذہب بہ نسبت یہودی کے خدا کے مکاشفہ کاایک اعلیٰ درجہ ہے ۔ اگر کوئی اس بات کو سمجھ کر پھر اسی پرانی تعلیم پر چلے تو خدا کا گنہگار ٹھہرتاہے۔اب اس حصہ میں ہم غور کرینگے کہ آیا اسلام بالمقابل مسیحی مذہب کے ا س رشتہ میں ہے جیسا کہ مسیحی مذہب یہودی مذہب کے رشتہ میں تھا یاکہ آیا یہ خدا کے مکاشفہ کاایک بالاتر درجہ ہے ؟ اور اگر بلاتعصب اس پر غور کرتے ہوئے ہم کو معلوم ہوجائے کہ یہ واقعی ایسا ہے توایک مسیحی کا فرض ہے کہ محمدی ہوجائے اور برعکس اس کے اگر یہ ایسا ثابت نہ ہو تو ہر ایک روشن ضمیر محمدی پر ظاہر ہوگاکہ اس کا فرض اس بڑے اہم مسئلہ میں کیا ہے۔ اس بات پر بلارورعایت غور کرنے کے لئے ہم مسیحی اور اسلام کا مقابلہ اسی طرح کرینگے جس طرح مسیحی اور یہودی مذہب کا کیاگیا اور انہی تعلیمات پر غو ر کرینگے جن پر غور کیاگیاہے۔ اس طرح مقابلہ کرتے ہوئے ہم یہ دریافت کرنے کی کوشش کرینگے کہ آیا اسلام بالمقابل مسیحی مذہب خدا کے مکاشفہ کاایک بالاتر درجہ ہے یا نہیں؟

مسیحی مذہب کی بابت ہم اوپر بیان کرچکے ہیں کہ یہ مذہب ایک پرزور اور دنیا کو مغلوب کرنے والا مذہب تھا جو کہ بنی آدم کے درمیان بہت جلد پھیل گیا اور جس کی رو سے یہ ثابت ہوگیا کہ یہ خدا کی طرف سے ایک سچا اور حقیقی مذہب بنی نوع انسان کو پیش کیا گیا ۔ اسی طور سے ہم نے یہودی مذہب میں دیکھا کہ کیونکر وہ زائل ہوگیا جبکہ قوم یہود نے خداوند قادر ِ مطلق کے نئے ذریعہ ِ نجات کو جو مسیح اور اس کی تعلیم میں پیش کیا گیا تھا رد کیا جس سے یہ ثابت ہواکہ پرانا مذہب اس نئے مذہب میں تبدیل ہوکر جاتا رہا۔ اب یہ کہا جاتا ہے کہ جبکہ اسلام نازل ہوا تو مسیحی مذہب اس میں تبدیل ہوکر جاتا رہا مگر پیشتر اس سے کہ ہم اس کو قبول کرنے کے لائق سمجھیں ہم یہ دریافت کرینگے کہ آیا محمدی مذہب بہ نسبت مسیح کے مذہب کےزیادہ پرُ اثر اور لوگوں کو مفتوح کرنے والا ہے یا نہیں اوراس کے ساتھ یہ بھی دریافت کرینگے جیساکہ دعویٰ ہے کہ اسلام خدا کی طرف سے نازل ہوا اور کیا خدا کے انتظامات ِ دنیا میں یہ دیکھا جاتاہے کہ مسیحی مذہب سے روحانیت زائل ہوگئی اور مسیحی قوم سے سب برکتیں لے لی گئیں اور کہ اس کا اثر دنیا کی اقوام پر نہ پڑا؟

اسلام میں بہت صداقتیں ہیں اورکچھ تعجب نہیں کہ ان کا اثر لوگوں پر پڑے۔ جبکہ محمد صاحب نے تعلیم دینی شروع کی تو اہل ِ عرب بت پرست تھے اور کعبہ میں تین سو سے زیادہ بُت تھے لہذا یہ واحد خدا کی تعلیم جو کہ " لا اِلہ الاالله" میں ظاہر ہے بڑا گہرا اثر ان لوگوں پر ہوا جو بُت پرستی کو ہیچ اور نا چیز سمجھتےتھے لیکن جو سوال درپیش ہے وہ یہ ہے کہ آیا اسلام مسیحی مذہب سے زیادہ پر اثر اوردلوں کو مغلوب کرنے والا مذہب ہے یا نہیں؟

دونوں مذاہب کے اثرات پر غور کرتے ہوئے یہ بات ذرا مشکل سے فیصلہ ہوگی کہ کون سا مذہب کس وجہ سے جلد پھیل گیا کیونکہ مسیحی مذہب کو تین سو برس تک ملکی عروج حاصل نہ ہوا جبکہ اسلام ہجرت کے وقت سے نہ صرف ایک مذہب ہی رہا بلکہ زیادہ حکومت میں تبدیل ہوگیا۔ اس حالت یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کون سے اثرات مذہبی تھے اورکون سے ملکی ۔ لیکن اگر ملکی اختیارات کے زمانہ کو بر طرف کردیا جائے اور اس زمانہ کی مذہبی تعلیم پر غور کیا جائے جبکہ مدینہ جانے سے پیشتر محمد صاحب نے مکہ میں صرف مذہبی تعلیم دی تو مقابلہ صفائی سے ہوسکتاہے ۔ اس زمانہ میں جو کہ قریباً تیرہ سال کا تھا اس مذہب کی بابت تعلیم دینے والے صرف محمد صاحب ہی تھے مسیحی مذہب کے شروع میں بھی صرف مسیح ہی نے تعلیم دی جو کہ صرف تین سال میں تمام ہوئی ۔ اب ہم غور کریں کہ ان دو زمانوں کی تعلیمات کاکیا کیا اثر ہوا یعنی مسیح کی تعلیم نے کیا اثر پیدا کیا اور محمد صاحب کی تعلیم نے کیا اثر پیدا کیا؟ لوقا ۶: ۱۳ میں ہم پڑھتے ہیں کہ مسیح نے بہت سے شاگردوں میں سے صرف بارہ رسولوں کو چناُاور پھر لوقا ۱۰: ۱ میں پڑھتے ہیں کہ اس نے اور ستر کو منادی کرنے کے لئے بھیجا۔متی ۲۱: ۴۶ میں لکھا ہے کہ اس کےد شمن سردار کاہن اور فریسیوں نے اس واسطے اس پر ہاتھ نہ ڈالے کہ وہ عوام سے ڈرتے تھے کیونکہ وہ اس کو (مسیح کو ) نبی جانتے تھے ۔ یوحنا ۷: ۴۰، ۴۱ سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں نے اس کی تعلیم سن کر کہا کہ یہ سچ مچ ایک نبی ہے اور اوروں نے کہا "یہ مسیح ہے " اعمال ۱: ۱۵ میں اس کے ۱۲۰ شاگردوں کی جماعت کا ذکر ہے او رپھر ۱کرنتھیوں ۱۵: ۶ سے ظاہر ہے کہ وہ (مسیح) اپنے جی اٹھنے کے بعد چالیس دن تک جبتک کہ آسمان کو نہ گیا وہ پانچ سو سے زیادہ بھائیوں کو اور ایما ندارمسیحیوں کو دکھائی دیتا رہا ۔

برعکس اس کے جب ہم عربی تاریخ نویسوں مثلاً کاتب الواقدی ابن ہاشم طبری ابن سعد کی طرف رجوع ہوتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ محمد صاحب کے پہلے پیرو انہی کی بیوی خدیجہ ان کا متبنیٰ بیٹا زید اس کا بھائی علی اور ا س کا دوست ابوبکر اور چند ایک اور غلام جوکہ ابوبکر کی دولت سے فیضیاب ہوئے تھے۔عمر جو کہ ارقم خاندان سے تھا اس کے اسلام قبول کرنے کے وقت یا اس زمانہ تک جب محمد صاحب نے چھ یاسات برس تک اس مذہب کی منادی کی ان کے پیرو صرف پچاس تھے جن میں سے ۴۵ مردا اور قریباً ۱۰ عورتیں تھیں اور جبکہ وہ اس ظلم کے باعث جومکہ میں ہوا ابی سینیا کو بھاگ گئے تو ان کا شمار ۱۰۱ تھا یعنی ۸۳ مرد اور ۱۸ عورتیں ۔ یہی شمار ہجرت کے وقت تک محمد صاحب کے پیروں کا تھا کیونکہ کاتب الواقدی لکھتاہے کہ وہ جو کہ جنگ ِ بدر میں محمد صاحب کی طرف سے لڑے قریباً ۸۳ تھے اور یہ بھی ذکر ہے کہ ہجرت کے وقت ان پیرووں کا شمار جو مدینہ میں ہوئے ۷۵ تھا جن میں سے ۷۳ مرد اور ۲ عورتیں تھیں۔ اس شمار سے معلوم ہوجاتاہے کہ مسیح اورمحمد صاحب کی کامیابی محض مذہبی بنیاد ڈالنے والوں کی حیثیت میں اور بلا دنیاوی طاقت اور مدد کے کہاں تک ہوئی ۔محمد صاحب کے پیرووں کا شمار مرد اور عورت ملا کے تیرہ سال کےکام کے بعد ۱۸۰ تھا اور برعکس اس کے مسیح کے پیرووں کا شمار صرف تین سال کی خدمت کے بعد پانچ سو سوائے عورتوں کے تھا۔

اس زمانہ کے بعد مسیحی او راسلام کے پیرووں کے شمار میں بڑا فرق ہوگیا لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ یہ فرق صرف اسی لحاظ سے ہوا کہ مسلمان بہادر او رجنگجو لوگ تھے نہ اس لحاظ سے کہ بالمقابل مسیحی مذهب کے اسلام لوگوں کے دلوں پر زیادہ اثر ڈال کر تبدیل کرسکا۔

مسیح کی موت کے تین سو برس بعد تک مسیحی مذہب پر سخت ظلم پہلے یہودیوں کی طرف سے پھر غیر مسیحی زبردست سلطنت روماکی طرف سے ہوئے ۔یہ سلطنت اس وقت کی تمام دنیا پر پھیلی ہوئی تھی اور اس کے سلاطین جزائر برطانیہ سے ہندوستان تک اور سکینڈینیویا سے افریقہ کے صحرائے اعظم تک حکمراں تھے۔ اس سلطنت کی طرف سے مسیحی مذہب کی سخت ممانعت تھی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیحی مذہب کے مخالف ایک کیسی زبردست طاقت تھی ۔ مسیحی کلیسیا کی تواریخ سے معلوم ہوتاہے کہ سلطنت روما کی طرف سے مسیح کے پیرووں کے برخلاف دس خونریز ایذارسانیاں ہوئیں لیکن باوجود ان تکالیف اور مصائب کے جن میں ہزارہا بوڑھے اور جوان مرد عورتیں شہید ہوئے مسیحی مذہب پھیلتا چلا گیا یہا ں تک سننے میں آیا ہے کہ ان شہیدوں کی بردُ باری کو دیکھ کر ان کی سرگرم دعاؤں کو سن کر بہادری اور فتحیاب خوشی کو دیکھ کر کئی مرتبہ جلاد بھی مسیحی ہوگئے ۔ یہا ں تک کہ یہ ضرب المثل ہوگیا کہ شہیدوں کا خون کلیسیا کی بنیاد ہے۔ مسیحی ایمان اور صبر دنیاوی زبردست سلطنت روما سے کہیں زیادہ فتحمند خیال کیا گیا ۔ تین صدیوں کے بعد بغیر اس کے کہ تلوار یا دنیا وی طاقت یا قوت کو ناجائز طور سے استعمال کیا ہو مسیحی مذہب اپنی ہی روحانی طاقت وقدرت سے اس کثرت سے پھیل گیا کہ ہزارہا مسیحی سلطنت روما کی فوجوں اور محل سراؤں میں بھی پائے گئے ۔ ان کا شمار اس وقت جبکہ کانسٹینٹین بادشاہ جس نے شہر استنبول بنایا مسیحی ہوا اتنا بڑھ گیا تھا کہ اس نے محسوس کیا کہ مسیحیوں کا زور جن پر طرح طرح کے ظلم ہوتے آئے بہ نسبت غیر قوموں کے زور کے زیادہ اور قوی تر ہے۔ کانسٹینٹین بادشاہ کے عہد کے شروع میں جبکہ یہ ایذارسانیاں ختم ہوگئیں تو مسیحیوں کا شمار کئی لاکھ تھا اور تواریخ سے معلوم ہوتاہے کہ مسیحی ہندوستان فارس پارتھیا بکتریا میڈیا آرمینیا میسوپوٹامیہ سیریا عرب مصر افریقہ ایشیا کوچک ترکی یونان اٹلی فرانس سپین اور انگلستان میں بکثرت پائے جاتے تھے۔

یہ بات سچ ہے کہ محمد صاحب کے مدینہ جانے کے بعد اس کے پیرو عرب میں بہت ہوگئے اور ان کی موت کے بعد یہ مذہب بہت سے ممالک میں پھیل گیا ایسا کہ مسلمانوں کا شمار ہزاروں او رلاکھوں تک پہنچا۔ لیکن کوئی شخص بھی جو کہ اس وقت کی تواریخ سے واقف ہے یہ نہ کہیگا کہ مسلمانوں کی ترقی کا سبب ان کا روحانی زور تھا جس کے باعث لوگ اس کی طرف مائل ہوئے ۔ برعکس اس کے کوئی فرقہ یا قوم ایسی نہ تھی جو اسلام قبول کرنے سے پہلے مغلوب نہ کی گئی ہو اور پھر ملکی طاقت اور اثر کی وجہ سے تبدیل نہ کی گئی ہو۔ محمد صاحب نے مدینہ میں وارد ہونے پر اپنے مذہبی کام کے ساتھ ملکی خدمات کو بحیثیت ایک عربی امیر یا حکمران کے شامل کیا کیونکہ تواریخ سے معلوم ہوتاہے کہ ان اٹھارہ مہینوں کے درمیان جو کہ ہجرت او رجنگ ِ بدر کے درمیان پڑے محمد صاحب نے اپنے ہمراہیوں کے ساتھ سات دھاوے کئے جن میں انہوں نے ان سوداگروں کو جو مکہ کو تجارت کے لئے جاتے تھے لوٹا ان میں سے تین دھاوں میں محمد صاحب بذات خود شامل تھے ۔ اگرہم اس قدیم زمانہ کے طریقوں کو مد نظر رکھیں کہ کیونکر مختلف عربی فرقے لوٹ اور مارد ھاڑ کرتے تھے تو یہ بھی روشن ہوجائيگا کہ جب محمد صاحب کے دھاوے کا میاب ہوئے خصوصاً جب ان کو جنگ ِ بدر کے بعد بہت سا مال ومتاع مل گیا تو بہت سے لوگ بخوشی اس نئے مذہب کی طرف رجوع ہوئے اور لوگوں کو یقین ہوگیا کہ نہ صرف یہ نبی ہم کو آنیوالی بہشت عطا کروائیگا بلکہ اس جہان میں بھی مال ودولت بخشیگا ۔ محمد صاحب کی وفات تک جو کہ ہجرت سے نوبرس کے بعد وقوع میں آئی سارا عرب مسلمانوں کا مطیع ہوا اور لوگ اس نئے مذہب کے پیرو ہوئے اور وہ تمام فرقے جو آپس کی خانہ جنگی میں ہمیشہ مبتلا رہتے اور لوٹ مار کرتے تھے اب ایک سردار کے ماتحت ہوئےاور اس کو دینی اور دنیاوی حاکم قبول کیا۔ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ یہ سب اس نئے مذہب کے پیرو ہوئے جبکہ اس قسم کی لوٹ مار کے ذریعے سے نہ صرف ان کا افلاس دور ہوا بلکہ یہی طریق (لوٹ مار کرنا ) بموجب ان کے قدیم دستور اور عادات کے اس نئے مذہب میں جاری رکھا گیا اور چونکہ سلطنت روما اور فارس اپنی خانہ جنگیوں کے باعث تباہ ہوکر زائل ہورہی تھیں اس لئے ان لوگوں کو اور بھی زیادہ موقعہ ملا کہ ایک ساتھ ہوکر قرب وجوار کے ملکوں پر دھاوے کریں اور مال ودولت جمع کریں ۔ لہذا خلفا کے ماتحت ہوکر عرب کی فوجیں اپنی سرحدوں سے بڑے کروفر سے نکلیں اور گرد ونواح کے سارے ملک فتح کر لئے ۔ جہاں تک یہ فوجیں کامیاب ہوئیں اسلام سلطنت کا مذہب ٹھہرایا گیا اور اگرچہ لوگوں پر زبردستی نہ کی گئی کہ وہ اس مذہب کو جبراً قبول کریں لیکن تو بھی ایسی ایسی مشکلات لوگوں کے سامنے رکھی گئیں اور بعض دفعہ ایسے ایسے ظلم ان پر کئے گئے کہ وہ اپنے اپنے مذہب پر قائم نہ رہ سکے خلیفہ عمر کے وقت کا ذکر ہے کہ چار ہزار عبادتگاہیں (گرجے ) مسمار کئے گئے ۔ ان باتوں کو دیکھ کر وہ لوگ جو اپنے ایمان اور دین میں کمزور تھے اور جوکہ اس ردو بدل کے زمانہ میں نہ سمجھ سکے کہ دین حق کیا ہے او رجنہو ں نے چاہا کہ حاکمان ِ وقت کے حقوق کو حاصل کریں فوراً اپنے بزرگوں کے مذہب کو تر کرکے مسلمان ہوگئے ۔ پس اس سے معلوم ہواکہ مسلمان فوجیں نہ صرف لڑائی کا کام ہی کرتیں بلکہ اپنے ساتھ ساتھ اپنے مذہب کو بھی پھیلاتی گئیں یہاں تک کہ جب بہت سے ملک فتح ہوگئے تو لاکھوں کروڑوں لوگ اس مذہب کے پیرو ہوگئے ۔

لیکن یہ فتوحات اوراسلام کا اس طور سے پھیل جانا ہرگز ثابت نہیں کرتاکہ قرآن کا مذہب ایک بڑا روحانی مذہب ہے۔ ایسی ایسی فتوحات معجزانہ واقعات نہیں کہلاسکتے کیونکہ ہم کو تواریخ سے معلوم ہوتاہے کہ اور جگہوں میں بھی بڑی بڑی فتوحات ہوئیں مثلاً اسکندر اعظم نے جو کہ ایک بت پرست آدمی تھا صر ف ۹ سال کے اندر ایک چھوٹے سے ملک سے اٹھ کر جو کہ عرب سے بدرجہا چھوٹا تھا ایک اتنا بڑا ملک فتح کیا جو خلفانے نوے(۹۰) سال میں فتح کیا اور جہاں جہاں وہ گیا یونانی زبان او رملکِ یونان کے طریق معاشرت کو بڑی کامیابی کے ساتھ پھیلایا۔

ایک اور بات قابل ِ غور ہے کہ گوکئی صدیوں تک مسلمانوں نے اپنے مذہب کے پھیلانے میں ہمہ تن کوشش کی مگر تو بھی وہ اپنے مذہب کوپھیلانے کی کامیابی میں ان مسیحی لوگوں کے درمیان جو ان کی زیر حکومت تھے اتنے کامیاب نہ ہوئے جس طرح مسیحی مذہب غیر اقوام میں کامیاب ہوا کیونکہ یہ دیکھا جاتاہے کہ یورپ میں کوئی بھی قوم ایسی نہ رہی جو اپنے قدیم مذہب پر قائم رہی ہو پر برعکس اس کے مسیحی بہت سے ممالک مثلاً ترکی سیریا فارس اور مصر میں لاکھو ں پائے جاتے ہیں لہذا یہ ایک قابل ِ قبول امر ہے کہ مسیحی بالمقابل یہودیوں کے بہت بڑھ گئے پر مسلمان بالمقابل مسیحیوں کے نہ بڑھے بلکہ ان سے شمار میں بہت ہی کم ہیں۔

یہ بھی تواریخ سے ثابت ہے کہ جو ں ہی قوم ِ یہود نے مسیحی مذہب کو رد کیا فوراً ان کی قوم پر وہ لعنتیں ٹوٹ پڑیں جن کی وجہ سے وہ نہ صرف اپنے ملک سے نکالے گئے بلکہ کلُ روی ِ زمین پر پراگنداہ ہوگئے ۔ لیکن اگر تواریخ میں مسیحیوں کی بابت دیکھا جائے کہ آیا ان پر بھی لعنتیں پڑیں جبکہ انہو ں نے محمد مذہب کو رد کیا تو صاف صاف معلوم ہوتاہے کہ وہ مسیحی ملک جنہوں نے قرآن کے مذہب کو رد کیا او رجن میں سے بعض نے مسلمانوں کی فوجوں کو مغلوب بھی کیا نہ صرف لعنت سے بچ گئے بلکہ پہلے سے بدرجہا زیادہ ترقی کرگئے۔ صرف چند ایک دنیا پسند نام کے مسیحیوں نے اپنے دنیاوی فائدے کی غرض سے اسلام کو اختیار کیا مگر بہتوں نے اپنے ایمان کی خاطر بہت سے نقصانات بھی اٹھائے مگر تو بھی وہ کسی روحانی برکت سے محروم نہ ہوئے خیال کیجئے کہ قوم ِ یہود جب سے انہوں نے مسیح کو رد کیا پھر اپنا ملک حاصل نہ کرسکی لیکن مسیحی قوموں نے اسلام کو رد کرکے نہ صرف اپنی خود مختاری قائم رکھی بلکہ باوجود بڑی بڑی مسلمان فوجوں کے جوان کے تباہ کرنے کے لئے بھیجی گئی تھیں انہی کو شکست دی۔ مسیحیوں کی طاقت اور آبادی خدا کی برکت سے بڑھتی گئی یہاں تک کہ اب آدھی د نیا کا سب سے بڑا حصہ انہی سے آباد ہے اور ہر ایک فرقہ اور ملت پر کچھ نہ کچھ رعب داب ہے۔ یہ اب بلامبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ مسیحی دنیا کی اور سب قوموں سے بہت اعلیٰ ہیں اور خدا تعالیٰ نے ان کو صفحہ ہستی پر طاقت اور قدرت عطا کی ہے۔ یہ قابلِ غور بات ہے کہ مسیحی مذہب چند غریب آدمیوں کے ذریعے سے شروع ہوا جن کے پاس نہ دنیاوی مال نہ طاقت تھی۔ اگر کوئی طاقت تھی تو ان کا اپنا ایمان تھا۔ تین سو برس تک مسیحیوں نے سخت تکالیف کا سامنا کرکے اپنے مذہب کی ایمان اور دعا سے اشاعت کی اور ا س کوشش میں سیکڑوں شہید ہوگئے مگر باوجود ان سب کے اب مسیحی مذہب زبردست سے زبردست تخت کا مالک ہے۔ برعکس اس کے اسلام پہلے پہل بہت پھیل گیا کیونکہ اس کے پیرووں نے دنیاوی فتوحات کو مد نظر رکھا مگر اب رفتہ رفتہ اس کی طاقت زائل ہوتی جاتی ہے۔

اگر مسیحی اور محمدی ملکوں کے اندرونی حالات کا مقابلہ کیا جائے تو ان کی صداقت اور بھی زیادہ روشن ہوجائيگی۔ سچا مذہب وہ ہے جو کہ سچائی کو پھیلائے ایمانداری انصاف خدا کے ساتھ رفاقت زندہ ایمان اور سچی پرستاری کے ساتھ بڑھائے جو کہ لوگوں کو بہتر بنائے اور جس سے قوم کی خوشحالی بڑ ھ جائے ۔ اب اگر یہ معیار دونوں مذاہب پر عائد کیا جائے تو ان کی صداقت ظاہر ہوجائیگی اگر مسیحی مذہب سچا مذہب نہ رہا جیسا کہ مسلمان خیال کرتے ہیں تو یہ بات ظاہر ہونی چاہیے کہ مسلمانوں کے ملک خوشحال اور بہت بہتر ہیں اور مسیحی ملک خراب اور خستہ حالت میں ہیں مگر اصل حالت یہ نہیں ۔ عرب کے ملک پر غور کرو کہ محمد صاحب کی جائ ِ ولادت ہے۔ اس ملک کی حالت قریباً یکساں رہی پہلے پہل بہت مال ودولت خلفا کی فتحمند فوجوں کے ذریعے پہنچائی گئی اور کچھ عرصہ تک عرب کے بدوی دنیا کی سب سے مالدار قوموں پر حکمراں رہےلیکن یہ سب دولت اور طاقت جاتی رہی اور اہلِ عرب خوشحال اور باتہذیب انسان ہونے کے بجائے نیم وحشی جاہل اور ویسے ہی لوٹ مار کرنے والے بدوی رہے جیسا کہ محمد صاحب کی پیدائش سے پہلے تھے ۱۲ سو سال تک یہ اسلام کے زیر سایہ رہے مگر تو بھی ان میں تبدیلی نہ پیداہوئی اور یہ اب اتنے بھی مہذب نہیں جیسی بعض اور غیر قومیں ہیں۔ اور ملکوں پر غور کرو جہاں محمد ی سلطنت پھیلی او رجہاں محمد صاحب کی وفات کے بعد اسلام پھیلا اور ابتک قائم ہے مثلاً سیریا فارس ایشیا کوچک مصر اور شمالی افریقہ ۔ جبکہ ان ملکوں پر مسلمانوں نے قبضہ کیا اور تو وہ بہت آباد تھے صدہا گاؤں اور قصبات ان میں تھے زمین کاشت کی جاتی تھی اور لوگ خوشحال اور دنیا کی مہذب قوموں میں شمار کئے جاتے تھے مگر جوں ہی کہ اسلام کے زیر حکومت آئے ان کی خوشحالی اور تہذیب بجائے اس کے کہ ترقی کرتی تنزل کرتی گئی اور اب یہ ملک صحرا او ربیابان بن گئے ہیں اور اگر کوئی ان میں سفر کرے تو دنوں بغیر گاؤں اور قصبوں کے ریگستان میں تنہا مارا پھرے ۔ نہ زمین کا شت ہوتی ہے نہ کھیتی باڑی اور زراعت کوئی کرتاہے ۔ ان اضلاع میں جو کثرت سے آباد تھے اب سوائ ِ خانہ بدوش بدویوں کے اور کوئی نہ رہا۔ آبادی نہ صرف گھٹ گئی بلکہ لوگوں کی حالت افلاس کی ہے اور قریب قریب وحشی اقوام کی مانند ہیں۔ برعکس اس کے مسیحی مذہب کا اثر کیسا عجیب ہے اگر یورپ پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ سوائے اٹلی اور یونان کے جہاں ایک قسم کی شائستگی پھیلی ہوئی تھی اور تمام ملک مسیحی مذہب سے پہلے نیم وحشی اور جاہل تھے ۔ انگلستان میں تو لوگ جانوروں کی کھالوں سے اپنے بدن کو ڈھانکتے اور جرمن ایسے جنگلی تھے کہ لڑائی پر اپنی عورتوں کو بھی ساتھ لے جاتے جوکہ ان کو شکست کے وقت لعن طعن کرتیں اور اگر بھاگنے کی نوبت پہنچتی تو ان کو براُ بھلا کہہ کر پھر لڑنے کو واپس لاتی تھیں۔ لوگ بالکل وحشیانہ حالت میں تھے۔ مگر انجیل کی قدرت نے ان جنگلی مردوں اور عورتوں کو سدھارا ۔ خدا کی محبت نے جو مسیح میں ظاہر ہوتی ہے ان کو مطیع کیا۔ یہاں تک کہ یورپ کی سب قوموں نے اپنے بتوں کو پھینکدیااورایک سچے اور زندہ خداکی پرستش جو اپنے بیٹے دنیا کے نجات دینے والے سیدنا مسیح میں ظاہر ہوا کرنے لگے ۔ یہ ایمان ان کے لئے برکتوں کا سرچشمہ ہوگیا جن سے ان کی روحانی اور جسمانی ترقی ہوئی اور اس الہیٰ کلام کی صداقت جو ۱ تمتھیس ۴: ۸ میں پایا جاتاہے پوری ہوئی "دینداری سب باتوں کے لئے فائدہ مندہے کہ ابکی اور آئندہ کی زندگی کا وعدہ اس کے لئے ہے۔"

مسیحی مذہب کے فائدہ بخش او رپاک اثر کے ذریعے سے نہ صرف یورپ کے ملکو کی آبادی بڑھ گئی بلکہ یورپ کی سب قومیں پہلے کی بہ نسبت زیادہ شائستہ زیادہ تعلیم یافتہ اور زیادہ دولتمند ہیں اور یہ بات عیاں ہے کہ کئی پشتوں سے یورپ کے مسیحی ممالک دنیا کی اور سب قوموں سے سرفراز ہیں اور ان کی تہذیب علم طاقت اور لیاقت بھی زیادہ ہے۔ پس تواریخ سے یہ ثابت ہوا کہ اسلام نہ صرف قوموں کو ترقی دینے میں ناکامیاب ہوا بلکہ اس میں کوئی ایسی طاقت بھی نہ پائی گئی جس سے وہ گرتی ہوئی قوموں کو سنبھال سکتا اور برعکس اس کے وہ مسیحی ملک جنہوں نے اسلام کو رد کیا بجائے اس کے کہ خدا ان کو سزا دیتا زیادہ بڑھے اور ترقی کی یہاں تک کہ اب تمام اسلامی ممالک تہذیب دولت اور طاقت میں ا ن سے کہیں کم ہیں۔

اب اگر یہ دعویٰ سچ ہوتا کہ اسلام کے نازل ہونے سے مسیحی مذہب سچا مذہب نہ رہا اور کہ اب خدا کی یہ مرضی ہے کہ مسیحی اور یہودی اور غیر قوم قرآن کی تعلیم کو اختیار کریں تو یہ دیکھنے میں آتا کہ مسیحی مذہب رفتہ رفتہ کمزور ہوتا جاتا اس کی روحانی قوت اور اثر زائل ہوتا جاتا اور خدا کی برکتوں سے محروم ہوجاتا اوربرعکس اس کے ساتھ ہی ساتھ یہ بھی دیکھنے میں آتا کہ محمدی مذہب اپنے اثر اور طاقت کو بحال رکھتا او رمہذب قوموں میں پھیلتا جاتا اور خدا کی برکتوں سے مالا مال ہوکر یا پہلی طرح فتحمند فوجوں کے ذریعہ سے پھیلتا یا خوشحال امن وامان اور ترقی کے طریقوں کو دنیا کے سامنے پیش کرکے اس کو اپنا گرویدہ بناتا ۔ لیکن حالات پر غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ حالت بالکل دگرگوں ہے۔ یہ سچ ہے کہ وسطی افریقہ میں جہاں بورنیوز مین ڈینگا اور پھولا س قومیں آباد ہیں اسلام کچھ کامیاب نظرآتا ہے مگر یہ اس لئے ہے کہ وہاں کی قومیں نہایت کمزور او ربے جان تھیں۔ پر اگر کلُ ممالک پر جو مسلمان ہیں غور کیا جائے تو اس قسم کی ترقی چند روزہ ظاہرا ترقی معلوم ہوگی کیونکہ جس طرح ایک سبز شاخ جس کی جڑ خراب ہوگئی ہو تھوڑے عرصہ کے لئے لہلہاتی ہے اسی طرح سے یہ قومیں گو تھوڑے عرصہ کے لئے بہتر نظر آیں مگر چونکہ ان کی بنیاد خراب ہے جلد جاتی رہینگی۔ وہ ممالک جوکہ اسلام کی جان خیال کئے جاتے ہیں اور جوملکی حکومت کے لحاظ سے مرکز سمجھے جاتے ہیں مثلاً ترکی فارس اور شمالی افریقہ کب سے خاموش بیٹھے ہیں اور بالکل کوشش نہیں کرتے کہ اور قوموں کو اپنی تعلیم سے مطیع کریں۔ اب نہ صرف مسلمانوں کی فتوحات بند ہوگئیں بلکہ جو جو ملک فتح بھی کئے تھے وہ بھی اب رفتہ رفتہ ان کے ہاتھو ں سے نکلے جاتے ہیں تواریخ سے یہ معلوم ہوتاہے کہ بہت سے ملک جوکہ ایک زمانہ میں مسلمانوں کے ماتحت تھے مثلاً سپین شمالی افریقہ یونان اور ہندوستان اب سب مسیحی سلطنتوں کے ماتحت ہیں۔ یہ بھی بات روشن ہے بلکہ بعض مسلمانوں کا خود یہ اقرار بھی ہے کہ سکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں جو کہ مسلمان کہلاتے ہیں خصوصاً تعلیم یافتہ اور بڑے لوگ صرف نام کے مسلمان ہیں اور ان کا ایمان جاتارہا ہے ۔ یا تو وہ مسیحی مذہب کی طرف راغب ہیں یا دہریت کی طرف رجوع ہیں۔

اگر ہم ان لوگوں کی حالت پر غور کریں جو کہ قرآن کی تعلیم کو مانتے ہیں تو کیا ان کی زندگیوں اور اعمال سے یہ ثابت ہوتاہے کہ ان کا مذہب زیادہ روحانی ہے اور زيادہ پاکیزگی صداقت اورمحبت کو لوگوں کے درمیان پیدا کرتاہے؟ برعکس اس کے ایک مسلمان مسیحی مذہب کے نتائج کو دیکھ کر کیا کہیگا؟ مثلاً ہر قسم کے مرض کے لئے سیکڑوں ہسپتال ہیں ہر عمر کے لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے مفید مدرسے ہیں اندھوں اور بہروں گنگوں کے لئے بھی مدرسے ہیں اور ان محتاجوں کے لئے جو کسی قسم کا کام نہیں کرسکتے مسافر خانے خوراک او رپوشاک گاؤں اور قصبوں میں مہیا کی جاتی ہے۔ علاوہ اس کے اور بہت سی انجمنیں ہیں جو غریب غربا کی مدد کے لئے قائم ہیں جو بیماروں یتیموں اور بیواؤں کی ہمدردی اور خبر گیری کرتی ہیں اور بے پروا اور دنیاداروں کو نصیحت آمیز کلام سناتی ہیں۔

اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ اسلام ہی سچا مذہب ہے اور اسی پر سب خدا کی برکتیں نازل ہیں تو کیا سبب ہے کہ یہ مسیحی ملکوں میں نہیں پھیلتا؟ کیا وجہ ہے کہ سچے اور سرگرم مسلمان اپنا روپیہ صرف نہیں کرتے کہ قرآن عام لوگوں میں بانٹے جائیں اور امام خوجے اور علما مسیحی ملکوں میں بھیجے جائیں تاکہ اوروں کو اسلام کی بابت معلوم ہوجائے ؟ اور اگر مسیحی مذہب سچا نہیں اور خدا کی برکت اس کے ساتھ نہیں تو کیوں یہ زائل نہیں ہوجاتا؟ کیوں یہ اب تک دنیا کےہرملک میں پھیلتا جاتاہے ؟ بُت پرستوں میں یہودیوں میں اور مسلمانوں میں یہاں تک کہ اب سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں مسیحی ایسے پائے جائينگے جو اور مذہبوں سے مسیحی ہوئے ہوں۔

ان تمام مذکورہ بالا دلائل سے یہ صاف اور صریح طور پر ثابت ہوگیاکہ اگرچہ مسیحی مذہب اسلام سے چھ سو سال پہلے سے ہے مگر تو بھی بڑے شدو مد سے پھیل رہا ہے حالانکہ محمدی مذہب کمزور ہوتا جاتا اور روز بروز اپنی طاقت اور اثرکو کھوتا جاتاہے۔

دوسری فصل
کیا جیسے مسیح اور مسیحی مذہب کی بابت پرُانے عہد نامہ میں پیشینگوئياں ہیں اسی طرح محمد صاحب اور اسلام کی بابت نئے عہد نامہ میں پیشینگوئی ہے؟

ہم اوپر ذکر کرچکے ہیں کہ مسیحی مذہب ایک الہیٰ مذہب ہے جس کے نازل ہونے سے پہلے ایک زمانہ کے لئے موسوی شریعت بنی نوع انسان کو عارضی طور پر عطا کی گئی اور جس میں او رپرانے عہد نامہ کے اور حصوں میں مسیح اور مسیحی مذہب کی بابت صاف اور صریح طور سے جتلایا گیا تھا۔ اب اسلام کے الہیٰ ثابت ہونے کے لئے یہ لازم ہے کہ نئے عہد نامہ میں بہت سے مقامات ایسے ہوں جو اس کی صداقت کو ظاہر کریں اور مسیحی مذہب کو ایک عارضی مذہب ٹھہرائیں اور علاوہ اس کے ایک اور پیغمبر او رنجات دہندہ کی خبردیں۔ یہ طریق ثبوت ایسا صاف ہے کہ مسلمانوں نے بھی محمدی مذہب کی صداقت کے لئے اور محمد صاحب کے آنے کی آگاہی کے لئے نئے عہد نامہ سے چند مقامات کو پیش کیا گیا ہے۔ اگر ہم اس دلیل کو پرکھیں تو معلوم ہوجائيگا کہ ان کا انجیل سے یہ ثابت کرنا غلط ہے۔ قرآن میں اس کا یوں ذکر ہے "میں یہ ان کے لئے لکھتاہوں ۔۔۔۔ جو رسول اُمی نبی کی پیروی کریں گے جس کی بابت موسوی شریعت او رانجیل میں پیشخبری ہے"( دیکھو سورہ اعراف آیات ۱۵۶، ۱۵۷) اور ایک جگہ صاف طور سے آیاہے " عیسیٰ ابن ِ مریم نے کہا اے بنی اسرائيل میں خدا کا ایک رسول ہوں جو کہ توریت کی جو مجھ سے پہلے نازل ہوئی تائید کرنے اور ایک رسول کی جو میرے بعد آنے والا ہے جس کا نام احمد ہے خبردینے آیا ہوں"( سورہ صف آیت ۶) پہلے حوالہ کی بابت جس میں دعویٰ ہے کہ محمد صاحب کے آنے کی خبر پرانے عہد نامہ میں درج ہے یہ کہنا کافی ہے کہ واقعی ایک پیغمبر کے آنے کی پیشخبری پائی جاتی ہے مگر وہ پیغمبر بنی اسرائیل ہی کے درمیان سے ظاہر ہونے کو تھا اور کوئی شخص بھی جو بلا تعصب پرانے عہد نامہ کا مطالعہ کرے یہ نہیں کہہ سکیگا کہ وہ پیغمبر ِ ملک ِ عرب سے پیدا ہونے والا بتایا گیا ہے۔دوسرے حوالے کے مطابق سیدنا مسیح نے ایک اور پیغمبر یا رسول کے آنے کی ہرگز خبر نہ دی بلکہ اس آنے والے کا خاص نام بتادیاہے ۔ اب اگر ہم نئے عہد نامہ کو شروع سے آخر تک پڑھیں تو کوئی بھی آیت ایسی نہ ملیگی جس میں کسی ایسے رسول کے آنے کی خبر ہو۔ اب خیال پیدا ہوتاہے کہ جب قرآن میں اس آنے والے کے ذکر کو انجیل سے منسو ب کیا گیا تو وہ انجیل کوئی اور کتاب ہوگی مگر وہ کتاب ہرگز یہ اصلی انجیل نہیں ہوسکتی گو بعض انجیل کے نام سے نامزد کریں۔ بعض دفعہ محمدی علما محمد صاحب کی پیشخبری کو اس آیت سے ثابت کرتے ہیں جو کہ مسیح نے روح القدس کی بابت کہی کہ میں ایک تسلی دینے والا اپنے باپ کی طرف سے جو آسمان پرہے بھیجونگا (یوحنا ۱۴: ۱۶، ۲۶/ ۱۵: ۲۶/ ۱۶: ۷) مگر وہ یونانی لفظ جس کا ترجمہ تسلی دینے والا کیا گیا ہے وہ ایک ایسے فعل سے مشتق ہے جس کے معنی ہم ان الفاظ میں کرسکتے ہیں " کسی کی ملاقات کرنے جانا یا کسی کو مدد کے لئے طلب کرنے یا جانا یا کسی کو رنج وتکلیف میں دلاسا دیکر خوش کرنا" اوراس لفظ کا زبان ِ عربی کے لفظ " حمد یا حمدہ" سے جس کے معنی تعریف کے ہیں کوئی تعلق نہیں۔ اگر محمد صاحب کے زمانہ میں ایک عربی زبان میں انجیل پائی گئی (مگر یہ بات قرین ِ قیاس نہیں )جس میں لفظ " فارقلیط " کا ترجمہ " لفظ " احمد" سے کیا گیا ہو تو یہ ترجمہ بلاشبہ غلط تھا اور غلطی کی وجہ کم فہمی اور لاعلمی قرار دی جاسکتی ہے ۔

علاوہ اس کے ایک اور بات سے ظاہر ہوجائیگا کہ مذکورہ بالا حوالجات محمد صاحب سے ہرگز منسوب نہیں ہوسکتے کیونکہ اعمال ۱: ۴، ۵ سے معلوم ہوتاہے کہ روح القدس یا فارقلیط رسولوں پر تھوڑے ہی دنوں کے بعدنازل ہونے والا تھا اور اس وقت تک ان کو اجازت نہ تھی کہ یروشلیم سے باہر جائیں ۔ اب انجیل کے ہر ایک پڑھنے والے پر روشن ہے کہ روح القدس مسیح کے آسمان پر جانے کے دس روز بعد ہی رسولوں پر نازل ہوا اور جب محمد صاحب چھ سو برس کے بعد پیدا ہوئے تو یہ سب رسول اور شاگرد تہ ِ خاک تھے۔

انجیل میں نہ صرف ایک احمد کے آنے کی یا کسی ایسے اور کے آنے کی پیشینگوئی سے انکار ہے بلکہ اس میں صاف صاف طور سے بتایا جاتا ہے کہ سچی راہ بتانے والی اور خدا تک راہ حق دکھانے والی یہی ایک کتاب ہے اور کوئی ایسی ہدایت یا تعلیم نہیں ملتی جس سے یہ سمجھا جائے کہ مسیح کی تعلیم سے ایک اور اعلیٰ تعلیم او رایک زیادہ اعلیٰ مذہب نازل ہونے کو ہے۔ انجیل میں یہاں تک صاف صاف لکھاہے کہ ایک موقعہ پر جبکہ یوحنا بپتسمہ دینے والے نے اپنے چند شاگردوں کو مسیح کے پاس یہ کہکر بھیجا کہ " آیا جو آنے والا ہے تو ہی ہے یا ہم دوسرے کی راہ تکیں " تو سیدنا مسیح نے بجائے اس کے کہ ان کو کسی آنے والے نبی کی خبر دیتے یہ کہا " جاؤ اور یوحنا سے جو کچھ تم سنتے او ردیکھتے ہو بیان کرو کہ اندھے دیکھتے لنگڑے چلتے کوڑھی پاک صاف ہوتے بہرے سنتے اور مرُدے جی اٹھتے ہیں اور غریبوں کو خوشخبری سنائی جاتی ہے ۔ مبارک ہے وہ جو میرے سبب سے ٹھوکر نہ کھائے " متی ۱۱: ۴، ۶ اور اس کے بعد ہی یہ کہا " میرے باپ سے سب کچھ مجھے سونپا گیا اور کوئی بیٹے کو نہیں جانتا مگرباپ اور کوئی باپ کو نہیں جانتا مگر بیٹا اور جس پر بیٹا اسے ظاہر کیا چاہے۔ اے تم لوگو جو تھکے اور بڑے بوجھ سے دبے ہو سب میرے پاس آؤ کہ میں تمہیں آرام دونگا" متی ۱۱: ۲۷، ۲۸ اور ایک اور موقعہ پر اس نے یوں کہا " کیونکہ خدا نے جہان کو ایسا پیار کیا کہ اس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخشا تاکہ جو کوئی اس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے کیونکہ خدا نے اپنے بیٹے کو جہان میں اس لئے نہیں بھیجا کہ جہان پر سزا کا حکم کر ے بلکہ اس لئے کہ جہان اس کے سبب سے نجات پائے ۔ جو اس پر ایمان لاتا ہے اس پر سزا کا حکم نہیں لیکن جو اس پر ایمان نہیں لاتا اسکے واسطے سزا کا حکم ہوچکا کیونکہ وہ خدا کے اکلوتے بیٹے کے نام پر ایمان نہ لایا اور سزا کے حکم کا سبب یہ ہے کہ نورجہان میں آیا اور انسان نے تاریکی کو نور سے زیادہ پیار کیا کیونکہ ان کے کام برُے تھے (یوحنا ۳: ۱۶، ۱۹) اور پھر اس نے کہا " میں جہان کا نور ہوں وہ جو میری پیروی کرتا ہے اندھیرے میں نہ چلیگا بلکہ زندگی کا نور پائیگا "یوحنا ۸: ۱۲ اور پھرکہا " میں ہوں وہ جیتی روٹی جو آسمان سے اتری اگر کوئی شخص اس کو کھائے تو ابد تک جیتا رہیگا اور روٹی جو میں دونگا میرا گوشت ہے جو میں جہان کی زندگی کے لئے دونگا ۔۔۔۔۔ جو کوئی میرا گوشت کھاتاہے او رمیرا لہو پیتا ہے ہمیشہ کی زندگی اسی کی ہے اور میں اسے آخری دن اٹھاؤنگا کیونکہ میرا گوشت فی الحقیقت کھانے اور میرا لہو فی الحقیقت پینے کی چیز ہے ۔ وہ جو میرا گوشت کھاتاہے اور میرا لہو پیتاہے مجھ میں رہتا ہے اور اس میں ۔ جس طرح سے کہ زندہ باپ نے مجھے بھیجا ہے اورمیں باپ سے زندہ ہوں اسی طرح وہ بھی جو مجھے کھاتاہے مجھ سے زندہ ہوگا" (یوحنا ۶: ۵۱، ۵۴، ۵۷) ۔اسی طرح مقدس پولوس بھی ۱ تمتھیس ۲: ۵، ۶ میں یوں لکھتاہے " خدا ایک ہے اور خدا اور آدمیوں کے بیچ ایک آدمی درمیانی بھی ہے وہ سیدنا مسیح ہے جس نے اپنے تیئں سب کے کفارے میں دیا کہ بروقت اس کی گواہی دی جائے اور پھر ۲ کرنتھیوں ۵: ۱۷، ۱۹ میں یوں لکھتاہے " اس لئے اگر کوئی مسیح میں ہے تو وہ دنیا مخلوق ہے پرانی چیزیں گزرگئیں۔دیکھو ساری چیزیں نئی ہوئیں اور یہ ساری چیزیں خدا کی طرف سے ہیں جس نے سیدنا مسیح کے وسیلہ سے ہم کو آپ سے ملایا اور ملاپ کی خدمت ہمیں دی یعنی خدا نے مسیح میں ہوکے دنیا کو اپنے ساتھ یوں ملالیا کہ اس نے ان کی تقصیروں کو ان کے حقمیں محسوس نہ کیا اور میل کا کلام ہمیں سونپا " مقدس پطرس بھی یہودیوں کے سامنے یہ گواہی پیش کرتاہے " یہ وہی پتھر ہے جسے تم معماروں نے ناچیز جانا جوکہ کونے کا سرا ہوگیا اور کسی دوسرے سے نجات نہیں کیونکہ آسمان کے تلے آدمیوں کو کوئی دوسرا نام نہیں بخشا گیا جس سے ہم نجات پاسکیں " اعمال ۴: ۱۱، ۱۲۔

ان حوالجات کو پڑھ کر معلوم ہوتاہے کہ مسیح نے کیا کیا کہا اور نیز متی ۲۴: ۱۱ کی صداقت بھی ظاہر ہے " بہت سے جھوٹے نبی اٹھینگے اور بہتوں کو گمراہ کرینگے " اور یہ بھی ظاہر ہے کہ کوئی اور نبی مسیح کے موافق یا مسیح کے بدلہ میں نہیں ہوسکتا کیونکہ جبکہ بیٹے نے خود خدا باپ کو ظاہر کیا تو یہ صاف ظاہر ہے کہ کسی اور خادم کے ذریعے اس سے بڑھ کر خدا کا مکاشفہ نہیں ہوسکتا۔ چونکہ سیدنا مسیح کو اناجیل میں روحانی آفتاب ِ صداقت جہان کا نور اوراکیلا نجات دہندہ کہا گیا ہے لہذا اس کے بعد کوئی اور مکاشفہ نہیں ہوسکتا اور اس مسیحی تعلیم کے زمانہ یعنی مسیح کے وقت سے اسکے دوبارہ آنے تک کے زمانہ کو آخری زمانہ اور دنیا کا آخر کہا گیا ہے جیسا کہ ہم ۱ کرنتھیوں ۱۰: ۱۱ میں پڑھتے ہیں" یہ سب کچھ لکھا گیا تاکہ ہم جو آخری زمانہ میں ہیں نصیحت پذیر ہوں" او رپھر ۱ یوحنا ۲: ۱۸میں یوں لکھا ہے" اے بچو یہ آخری زمانہ ہے اور جیسا تم نے سنا ہے مسیح کا مخالف آتاہے سوا بھی بہت سے مخالف ہوئے ہیں" اور عبرانیوں ۱: ۱، ۲ میں لکھا ہے " خدا جس نے اگلے زمانے میں نبیوں کے وسیلے باپ داداوں سے بار بار اور طرح بہ طرح کلام کیا ان آخری دنوں میں ہم سے بیٹے کے وسیلہ سے بولا جس کو اس نے ساری چیزوں کا وارث ٹھہرایا اور جس کے وسیلے سے اس نے عالم بنائے" اور مقدس پطرس بھی ایمانداروں کویوں لکھتاہے " تم بچائے گئے مسیح کے بیش قیمت لہو کے سبب جو بے داغ اور بے عیب برے کی مانندہے جو دنیا کی پیدائش سے پیشتر مقرر ہوا تھا لیکن اس آخری زمانہ میں تمہارے لئے ظاہر ہوا " ۱ پطرس ۱: ۱۹، ۲۰ ۔ لہذا یہ بلاشبہہ صاف وصریح ہے کہ جو بھی اسلام کی بنیاد ہو وہ ہرگز انجیل کی کسی پیشینگوئی پر رکھی نہیں جاسکتی کیونکہ نہ محمد صاحب کی بابت اور نہ اس کی تعلیم کی بابت کوئی پیشینگوئی ہے اور نہ ہی یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسلام مسیحی مذہب کی کمی کوپورا کرنے کے لئے انتظام الہیٰ کے بموجب بنی نوع انسان پر نازل کیا گیا۔

اب اگر کوئی مسلمان جو کہ نئے عہد نامہ کی تواریخ سے ناواقف ہو ان نتائج سے بچنے کے لئے یہ کہے کہ یہ انجیل اصلی انجیل نہیں بلکہ محمد صاحب کے وارد ہونے کے بعد مسیحیوں نے تبدیل کردی تاکہ وہ ان بڑی الہیٰ خبروں کو جوکہ محمد صاحب کی بابت دی گئی تھیں چھپالیویں تو یہ کہنا کافی ہوگا کہ بہت سے محمدی عالم مثلاً امام محمد اسماعیل بخاری شاہ ولی الله ، امام فخر الدین رازی اور اور بہت سے اورہمارے زمانہ کے عالم سید احمد صاحب بھی اس بات کے شاہد ہیں کہ انجیل جوکہ اب رائج ہے وہی ہے جوکہ محمد صاحب کے زمانہ میں تھی اور جوکہ ان سے پہلے تھی علاوہ اس ان انجیلی قدیم نسخوں سے جوکہ مسیحی ملکوں کے کتب خانوں میں ہیں یہ ثابت ہے کہ یہ انجیل اصلی اور حقیقی انجیل ہے لہذا یہ ایک فضول اور بے بنیاد دلیل ہے۔ اگر اب بھی مسلمان یہ کہیں کہ یہ مقدس کتابیں بدل گئیں اور جب تک وہ کوئی ثبوت نہ پیش کرینگے کہ حقیقتہً اس میں ردوبدل ہوا ہم اس اعتراض کے شنوا نہ ہونگے بلکہ اس کو ایک بے بنیاد اعتراض سمجھ کر برطرف کردینگے ۔

تیسری فصل
محمد صاحب اور اسلام بجائے اس کے کہ مسیحی ملک سے نکلتے جیساکہ مسیحی مذہب بنی اسرائیل کے درمیان برپاہوا وہ عرب کے بت پرستوں کے درمیان ظاہر ہوئے

اس میں کچھ شک نہیں کہ ساری زمین خدا کی ہے (زبور ۳۴: ۱) اور وہ جو چاہے کرسکتاہے (زبور ۱۱۵: ۳۰)لیکن اس میں بھی کچھ شک نہیں کہ جو کچھ وہ کرتاہے ایک نہایت اعلیٰ طور سے اور عقل سلیم سے کرتاہے ۔ ہم نے یہ دیکھ لیا ہے کہ بمقتضائ عقل الہیٰ پہلے موسوی شریعت نازل ہوئی جس کے ذریعے سے مسیح کے روحانی مذہب کی تیاری خاطر خواہ ہوئی اور یہ بھی خدا کی کامل دانائی کے مطابق ہوا کہ اس نے ایک نجات دہندہ کو جب ٹھیک موقع آیا بھیجا اور اسی جگہ اس نے اپنی کلیسیا کی بنیاد ڈالی جہاں اس کی پہلے سے تیاری ہوچکی تھی۔ اب ہم یہ قیاس کرسکتے ہیں کہ اگر خدا کی مرضی ہوتی کہ مسیحی مذہب سے ایک اوربالاتر مذہب نازل کرے تو ضرور ان حالات سے معلوم ہوجاتاہے کہ اس اعلیٰ مذہب کی آگاہی مسیحی مذہب میں پائی جائے کیونکہ یہی مذہب تھا جہاں پر روحانی ترقی کا اظہار ہونا لازم تھا۔ مگر تواریخ میں شاید اس سے بڑ ھ کر کوئی اور بات محکم طور سے ثابت نہیں جیسا کہ اسلام کے بانی کی بابت ہے کہ وہ نہ تو مسیحی ملک میں پیدا ہوا نہ اس کی وہاں پرورش ہوئی اور نہ ہی یہودیوں میں ظاہر ہوا بلکہ جاہل بت پرست عربوں میں پیدا ہوا جنہوں نے قریباً ۳۶۰ بتُ اپنے قومی بت ُ خانہ یعنی کعبہ میں جمع کئے ہوئے تھے۔یہ بھی ان لوگوں کو جو عرب کی تواریخ سے واقف ہیں معلوم ہوگا کہ جب محمد صاحب نے پیغمبری کا دعویٰ کیا اور اپنے نئے مذہب کا چرچا کیا تو اہل مکہ اس کے قبول کرنے کے لئے بالکل تیار نہ تھے بلکہ برعکس اس کے محمد صاحب پر تمسخر کرتے اور یہاں تک اس کی مخالفت کہ یہ نیا مذہب جاتا رہتا اگر ابو طالب اور اس کے خاندان کی مدد ہر وقت نہ پہنچتی ۔ تھوڑے ہی عرصہ میں ایک اور چال اختیار کی جس کی وجہ سے یہ مذہب بچ رہا یعنی محمد صاحب نے خاندانی تنازعات کو مد ِ نظر رکھ کر ایک کو دوسرے سے مغلوب کروادیا اور مکہ اورمدینہ کے لوگوں سے جنگ کرواکے مکہ کو آخر کار فتح کیا اور اس طورسے دنیاوی زور کو حاصل کرکے اپنے مذہب کو پھیلایا ۔ اپنے نئے مذہب کی مدد کے لئے دنیاوی طاقت کو استعمال کرنا ثابت کرتاہے کہ اسلام بالمقابل مسیحی مذہب کے اتنا ہی روحانی مذہب نہیں ہے اور اگر ہے توبھی اہل ِ عرب پہلے پہل اس کے قبول کرنے کے لئے ہر گز تیار نہ تھے اگر حقیقتہً یہ روحانی مذہب ہوتا تو دنیاوی طاقت اور قوت کا استعمال فضول ثابت ہوتا کیونکہ یہ بھی مسیحی مذہب کی طرح آہستہ آہستہ خود بخود پھیل جاتا۔ ان سب باتوں پر غور کرکے یہ نتیجہ نکلا کہ یہ امر خدا کی عقل اور دانائی کے برخلاف ہے کہ وہ آخری اور سب سے بڑے پیغمبر کو بت پرست عربوں کے درمیان برپا کرتا جبکہ اس سے دو ہزار برس پہلے سے یعنی ابراہیم کے زمانہ سے اس نے اپنے سب نبیوں کو بنی اسرائيل کے درمیان سے اٹھایا یہاں تک کہ مسیح بھی ابراہیم کی اصل اور نسل سے تھا۔

کیا صرف یہی ایک بات کہ محمد صاحب ہی ایک ایسے پیغمبر ہیں (اگر وہ پیغمبر کہلائے جائیں) جو کہ بہت دیوتاؤں کی پرستش کرنیوالے لوگوں میں ظاہر ہوئے کافی نہیں کہ ان کے الہیٰ کام میں شک پیدا کرے ؟ کیا کوئی تعجب کی بات ہے کہ اگر ہم بے تعصب اور سمجھ دار مسلمانوں کو یہ کہتے سنیں کہ اگر محمد صاحب کو مسیح سے بالا تر مکاشفہ بنی نوع انسان کو پیش کرنا تھا تو کیوں وہ کسی مسیحی ملک میں ظاہر نہ ہوئے جہاں پر ان کو ان قوموں میں روحانی تیاری پہلے ہی سے ملتی ؟ کیوں وہ بت پرست عربوں کے درمیان ظاہر ہوئے جہاں ان لوگوں کو مطیع کرنے کے لئے دنیاوی زور اور طاقت استعمال کرنا پڑا؟ اور اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ سب سے اعلیٰ مکاشفہ پہلے بت پرستوں ہی پر بغیر ان کو شریعت اور انجیل کے ذریعے سے تیار کئے نازل کرنا تھا تو کیوں اس رحیم خداوند نے اسلام کو مسیحی مذہب کے بدلے چھ سو برس پہلے نہ ظاہر کیا؟ یا کیوں دوہزار برس پہلے اس کو شریعت کے بدلے نازل نہ کیا؟ کیوں خداوند تعالیٰ نے اس مذہب کو بنی نوع انسان سےد ور رکھا جبکہ اس کی بہتر اور اعلیٰ تعلیم کسی وقت کسی قوم پر نازل ہوسکتی تھی؟ اگر ایسے ایسے سوالات دل میں آئیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس مذہب کا اور اس مذہب کے بانی کا خدا کی طرف سے ہوناثابت کرنا ایک امر دشوار ہوگا۔

چوتھی فصل
کیا محمد صاحب کے دعوے بحیثیت ایک نئے مذہب کے بانی کے معجزات سے ثابت ہوسکتے ہیں ؟

اب اگر ہم معجزات کی طرف مائل ہوں تو یہ معلوم ہوجائیگا کہ حضرت محمد کے خدا کی طرف سے مامور ہونے کے دعوے بالکل کمزور ہیں۔ہم اوپر بیان کر آئے ہیں کہ موسیٰ اورمسیح نے معجزات دکھائے تاکہ لوگوں کو یقین دلائیں کہ ان کا آنا خدا کی طرف سے مقرر کیا گیا ہے کیونکہ یہ ظاہر ہے کہ بغیر ایسے نشان کے عام لوگوں کے لئے نہایت دشوار ہوجائیگا کہ خدا کے بھیجے ہوئے اور نہ بھیجےہوئے میں فرق کرسکیں۔اگر اب ہم اس طریق سے محمد صاحب کو جانچیں تو یہ غیر ممکن ہوگا کہ ان کا پیغمبر ہونا سیدنا عیسیٰ یا موسیٰ کی طرح صاف اور صریح طور سے ثابت ہو۔ یہ سچ ہے کہ اگر ہم مسلمانوں کی روایتوں کو یقین کریں تو صدہا معجزے بیان کئے جائينگے جن سے محمد صاحب کی پیغمبری ثابت ہو۔ لیکن ان کو بھی مان کر پورا یقین اور تسلی نہیں ہوتی کیونکہ ان معجزات اورمسیح کے معجزات میں آسمان وزمین کا فرق نظر آتاہے اور یہ یقین کرنا دشوار ہوتاہے کہ ایسے ایسے معجزات خدا کی طرف سے خیال کئے جائیں۔مثلاً ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ایک دفعہ محمد صاحب نے ایک درخت کو طلب کیا اور وہ زمین کو چیرتا ہوا ان کے سامنے آیا اور بآواز بلند کہا " میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا ایک اور تو اس کا نبی ہے۔" ایک دفعہ جانوروں پہاڑوں، پتھروں اور کھجور کے گچھوں نے ایسی گواہی دی۔ اور یہ بھی بتلایا جاتا ہے کہ جو لباس چھوٹا یا بڑا پہن لیتے تھے ان کے بدن پر ٹھیک آجاتا تھا۔ ایسی ایسی باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نشانات بمقابلہ مسیح کے معجزوں کے کچھ حقیقت نہیں رکھتے بلکہ دل میں طرح طرح کے شک پیدا کرتے ہیں۔ برعکس اس کے مسیح کے معجزات کیسا گہرا اثر پیدا کرتے ہیں جو سب انسانوں کو دکھ مصیبت اور گناہ سے نجات دینے کے لئے دکھائے گئے۔متی ۴: ۱تا ۱۱ سے معلوم ہوتاہے کہ مسیح نے اپنے ذاتی فائدہ کے لئے ہرگز کسی طاقت کا اظہار نہ کیا بلکہ پتھر کو روٹی بنانے سے انکار کیا اورجب شیطان کی طرف سے اس کو ترغیب دی گئی کہ وہ اپنی قدرت کا اظہار لوگوں پر ہیکل (بیت الله ) کے کنگرے سے کود کر کرے تو اس نے صاف جواب دیا" یہ لکھا ہے کہ تو خداوند اپنے خدا کو مت آزما ۔"

علاوہ اس کے اوربہت سے شکوک ہیں جو کہ محمد صاحب کے معجزوں پر عائد ہوتے ہیں او ریہ بہت کچھ ٹھیک ہے کہ انہوں نے کبھی کوئی معجزہ نہ دکھایا۔وہ بات جو کہ ہر ایک روشن ضمیر مسلمان کو اس بات کا قائل کریگی یہ ہے کہ محمد صاحب نے کبھی اپنی نبوت کے ثبوت میں معجزوں کی دلیل کو پیش نہ کیا ، لیکن برعکس ا س کے قرآن میں صریح طور سے اس بات کا اقرار ہے کہ ان کے پاس کوئی ایسی معجزانہ قدرت نہ تھی جو کچھ ہم کو محمد صاحب کی بابت معلوم ہے اس سے ظاہر ہے کہ انہوں نے معجزوں کو عقلی طور سے ثابت کرنے کی کوشش نہ کی او رنہ ہی ان سے انکار کیا بلکہ جومعجزہ ہوتا وہ اس کو معجزه قرار دیتے اورجو عام قدرتی بات ہوتی اس کو ویسا سمجھتے۔ انہوں نے بارہا قرآن کی زبان کو معجزانہ زبان قرار دیا جوکہ عام فہم لوگوں کو زبان سے کہیں عمدہ اور بہتر تھی (سورہ یونس آیات ۳۸، ۳۹) جب انہو ں نے اسی طور سے معجزوں کی حقیقت کااقرار کیا تو یہ بلا شبہ سچ ہے کہ اگر انہوں نے کوئی بھی معجزہ دکھایاہوتا تو وہ ضرور اس کو اپنی نبوت کے ثبوت میں پیش کرتے کیونکہ بہت مدت تک عرب کے بڑے بڑے لوگ ان کے نبی ہونے کو قبول نہ کرتے اورمتواتر محمد صاحب سے کہتے تھے کہ اپنے دعویٰ نبوت کو معجزوں سے ثابت کرو۔ قرآن میں ان کا ذکر بڑی صفائی سے ان الفاظ میں آیا ہے" کافروں نے کہا ہم کبھی اس کا یقین نہ کرینگے ۔ جب تک کہ وہ ہمارے لئے زمین سے چشمہ نہ پھوٹ نکلوائے یا جب تک کہ وہ ایک کھجوروں اور انگوروں کا باغ نہ لگائے اوراس کے درمیان ایک بہتا ہوا دریا نہ جاری کرے یا جب تک وہ آسمان کو ہم پر نہ گرائے یا جب تک خدا اور فرشتوں کو اپنی گواہی میں پیش نہ کرے"( سورہ بنی اسرائيل آیات ۹۲، ۹۴) اور سورہ رعد آیات ۳۰ سے بھی مقابلہ کرو۔ محمد صاحب ان اعتراضات کا کیا جواب دیتے ہیں؟ کیا وہ یہ کہتے ہیں کہ یہی جوکچھ تم نے کہا تمہارے لئے کرونگا یا کیا وہ کہتے ہیں کہ جوکچھ تم نے کہا فضول اور بے فائدہ ہے اورچونکہ میں نے اور بہت سے معجزے کئے لہذا وہی میری گواہی کے لئے کافی ہیں؟ انہوں نے یہ ہرگز نہ کہا لیکن جو کچھ کہا اس سے ہرایک بے تعصب شخص معلوم کرلیگا کہ انہوں نے اقرار کیا کہ میرے پاس کوئی ایسا معجزہ دکھانے والی طاقت نہیں قرآن سے مذکورہ بالا اعتراضات کا جواب یوں ملتا ہے" سب تعریف خدا کو ہے۔ کیا میں جو رسول ہوں ایک آدمی سے زيادہ قدرت رکھتاہوں؟ لیکن آدمیوں کو ایمان لانے سے کیا چیز روکتی ہے جبکہ ان پر ہدایت نازل ہوچکی ہے کہ خدا نے ایک بشر کو رسول مقرر کرکے بھیجا"(سورہ بنی اسرائيل آیات ۹۵، ۹۶)۔ اسی کے موافق ہم سورہ انعام آیت ۲۰۹ میں یوں لکھا ہوا پاتے ہیں کہ حضرت محمد نے ان لوگوں کو جنہوں نے خدا کی قم کھاکر کہا تھا کہ اگر تو معجزه دکھائيگا تو ہم تجھ پر ایمان لےآئينگے یوں جواب دیا " نشان دکھا نا خدا ہی کے ہاتھ میں ہے لیکن وہ تم کو ان کے ذریعے سے نہیں سکھاتا ہے کیونکہ اگر وہ دکھائے بھی جائیں تو تو بھی تم ایمان نہ لاؤ گے " پھر سورہ رعد آیت ۸ میں یوں آیا ہے کہ " جب کافروں نے کہا کہ اگر کوئی نشان خدا کی طرف سے ہم پر نہ ظاہر کیا گیا تو ہم ایمان نہ لائینگے " تو محمد صاحب کو ان الفاظ سے تسلی دی گئی " تو کہہ کہ میں ایک خبر دینے والا اور ڈرانے والا ہوں "(مقابلہ کرو سورہ حجر آیت ۸۹سے )۔

ان حوالجات سے اور ایسے ایسے او رمقامات سے معلوم ہوتاہے کہ اگر محمد صاحب نے کوئی معجزہ دکھایا بھی ہو تو کم از کم قرآن میں اس کاذکر نہیں پر برعکس اس کے قرآن یہ ظاہر کرتاہے کہ ان کے پاس کوئی معجزانہ قدرت نہ تھی اب یہ بات خیال کرکے کہ اہل عرب کے سمجھدار لوگوں نے بھی اس کے خدا کی طرف سے مامور ہونے سے اس بنا پر انکار کیا اور اس بات کو مد ِ نظر رکھ کر کہ اس کے دعووں کے ثبوت میں کوئی معجزہ قرآن کی رو سے پیش نہ کیا گیا حالانکہ اس کو آخری اور سب سے بڑا نبی ٹھہرایا۔ اس سے یہ صاف نتیجہ نکلتا ہے کہ جیسا ان کو کہا گیا کہ وہ فقط ایک خبر دینے والے اور ڈراینوالے اور کچھ نہ تھے ۔ اب اگر قرآن کا یہ کہنا سچ ہے (اور کوئی اس کی صداقت سے انکار نہ کریگا ) تو یہ لامحالہ نتیجہ پیدا ہوتاہے کہ جتنے معجزات روایتی طور پر ان پر عائد کئے گئے ان کے حق میں سچ نہیں اور نہ ہی تواریخی طور پر ٹھیک ہوسکتے ہیں ۔ معجزوں کا اس طور پر ان کے حق میں عائد کرنا محض ایک ذاتی محبت تھی کیونکہ عام طور پر لوگ اکثر بڑے بڑے آدمیوں کو اس طرح یاد رکھنا پسند کرتے ہیں جیساکہ سب سچے مسلمان محمد صاحب کو سب سے بڑا نبی مانتے ہیں۔یہ جانکر کہ پہلے سب نبیوں نے اپنی نبوت کے ثبوت میں معجزے اور نشان دکھائے ۔ یہ خیال ان کے دلوں میں خواہ مخواہ پیدا ہوا کہ محمد صاحب نے بھی ضرور معجزے دکھائے ہونگے لہذا جس طریق سے ان کی بڑائی کرنی منظور ہوئی اسی طرح کردی اورجو کچھ تواریخ میں پایا نہ گیا انہوں نے اپنے قیاس ووہم سے پورا کردیا۔ اسی ایک طریقہ سے ہم قرآن او راحادیث کے جداگانہ مضامین کو جو محمد صاحب کے معجزات کے بارے میں ہیں سلجھاسکتے ہیں۔ اب اگر اس کتاب یعنی قرآن کی شہادت ایسی واضح وظاہر ہے جو کل مسلمانوں میں پاک ومقدس خیال کی جاتی ہے تو یہ نتیجہ لازم آتا ہے کہ محمد صاحب کو معجزہ کرنے کی قدرت نہ تھی لہذا جس ثبوت سے موسیٰ اور سیدنا مسیح کا خدا کی طرف سے ہونا ثبوت ہوتاہے وہ محمد صاحب کے حق میں کسی طور سے پایا نہیں جاسکتا اور اب محمد صاحب کا جو عرب کے پیغمبر کہلاتے ہیں خدا کی طرف سے ہونا صریحاً شک وشبہ حق پسند آدمیوں کے دلوں میں پیدا کرتا ہے اور یہ شکوک ان مسلمانوں کی سرگرمی کے سبب جو کسی نہ کسی طرح سے روایتوں ک زور پر محمد صاحب کو صاحب ِ معجزہ قرار دیکر ان کی نبوت کو ثابت کرنا چاہتے ہیں اور بھی زيادہ قوی ہوجاتے ہیں۔

پانچویں فصل
کیا اسلام کی تعلیم مسیحی تعلیم سے ویسی ہی اعلیٰ ہے جیسے کہ مسیحی تعلیم موسوی تعلیم سے اعلیٰ ہے ؟

اسلام کے سب سے آخری اور اعلیٰ درجہ کے مذہب کے دعوےٰ کے برخلاف جوکچھ پیش ہوچکا ہے اس سے کافی ثبوت ملتاہے کہ یہ حقیقتہً سب سے اعلیٰ مذہب نہیں مگر وہ دلائل جن پر اب ہم غور کرینگے اس بات کو زیادہ صاف طور سے ثابت کردینگے کہ اس مذہب کی اصلیت اورحقیقت کیا ہے ۔ آؤہم اسلام کے مکاشفہ او تعلیم کو جانچیں اور اس کا مذہب کی تعلیم سے مقابلہ کریں جس کی جگہ یہ لینے کا دعویٰ کرتاہے تاکہ ہم کو معلوم ہوجائے کہ آیا حقیقتہً یہ اس سے بہتر اور اعلیٰ مکاشفہ ہے یا نہیں۔

ہر ایک اس بات کو جانتاہے کہ دعوےٰ کی صداقت اس کے ثابت کرنے کے زور پر مبنی ہوتی ہے۔ ہرایک مرد اپنی روز مرہ زندگی میں اس طریق کو استعمال کرتاہے فرض کروکہ اگر کوئی آدمی دعویٰ کرے کہ اس نے ایک ایسی بندوق ایجاد کی ہے جو موجودہ بندوق سے بدرجہا بہتر ہے تو سرکار جسکی منشا یہ ہے کہ اس کے سپاہی ہمیشہ بہتر سے بہتر ہتھیار سے مسلح ہوں کیا کریگی ؟ کیا وہ بغیر آزمائے اس نئی ایجاد کی ہوئی بندوق کو صرف ایجاد کرنے والے کے الفاظ کو سن کر استعمال کرنے لگیگی اور اپنی پرانی بندوقوں کو دور کردیگی ؟ کبھی نہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ایسی حالت میں سرکار کہیگی کہ آؤ تمہاری نئی بندوق کو آزمائیں اور ان پرانی بندوقوں سے جو مروج ہیں مقابلہ کرکے دیکھیں او ریہی طریقہ قابل ِ قبول ہے۔ اگر آزماکر سرکار کو معلوم ہوجائے کہ فی الحقیقت نئی بندوق کا کنُدا خوبصورت ہے اور نلی لچکدار ہے مگر وہ صرف ایک معمولی طمنچہ ہے جس سے کہ تھوڑے فاصلہ پر بھی اچھی طرح نشانہ نہیں لگاسکتے جیسا کہ انگریزی اینفیلڈ بندوق سے لگاسکتے ہیں توکیا وہ موجد سے یہ نہ کہیگی کہ تمہاری ایجاد کی ہوئی بندوق ہم کسی طور سے استعمال نہیں کرسکتے کیونکہ جو ہمارے پاس ہے تمہاری بندوق سے بہتر ہے ۔ اسی طرح سے اگر اسلام کے بارے میں یہ کہا جائے کہ یہ ایک اعلیٰ مذہب ہے اور مسیحی مذہب سے زیادہ روحانی ہے تو یہ بالکل ناجائز ہوگا اگر اس دعوےٰ کو بلاجانچے قبول کرلیا جائے ۔ ہمارا پہلا فرض یہ ہے کہ ہم دیکھیں کہ آیا واقعی قرآن کی تعلیم بائبل کی تعلیم سے اعلیٰ زیادہ روحانی اور بہتر ہے یا نہیں اور اگر ایسا ہم پائیں تو یہ بالکل واجب ہوگا کہ ہم مسیحی مذہب کو ترک کرکے اسلام کو قبول کرلیں۔ پر اگر یہ ثابت ہوجائے کہ مسیحی مذہب زیادہ بہتر اور اعلیٰ ہے تو یہ سخت غلطی ہوگی اگر ہم اسلام کو قبول کرلیں کیونکہ یہ غلطی اس سپاہی کی غلطی کی مانند ہوگی جو کہ موجودہ بندوق کو چھوڑ کر پرانے زمانہ کی توڑے دار بندوق کو استعمال کرنے لگے ۔ لیکن اب اگر کوئی مسلمان کہے کہ چونکہ ہم اسلام کے پیرو اتنے صدہا سالوں سےہیں لہذا یہ ہمارے لئے مناسب نہیں کہ ہم اس کو چھوڑ یں تو یہ کہنا بالکل بے جا ہے کیونکہ اگر کسی زمانہ میں قرآن کے بدلے انجیل کو قبول کرنا درست ہے تو اب بھی یہ درست ہوگاکہ قرآن کو چھوڑ کر انجیل کو قبول کیا جائے ۔ روز مرہ کے طریق بھی ہم کو صاف طور سے یہی جتلاتے ہیں۔ غور کرو کہ جب ترکی سلطنت کو معلوم ہوا کہ یورپ کےلوگ اب توڑے دار بندوق استعمال نہیں کرتے تو اس نے یہ نہ کہا کہ چونکہ ہم سالہاسال سے توڑے دار بندوق استعمال کرتے آئے جوکہ قدیم زمانہ کے ہتھیار تیر کمان سے بدرجہا بہتر تھی اس لئے ہم اس کو بد نہیں سکتے پر اس نے کیا کیا؟ ہر ایک جانتاہے کہ جب اس کو معلوم ہوگیا کہ مسیحی ہتھیار ان پرانے ہتھیاروں سے بہتر ہیں تو ہر طرح سے کوشش کی کہ ان کو ترک کردے اور ان کی جگہ مسیحی سلطنتوں کے ہتھیاروں کو قبول کرے ۔ہر ایک سمجھدار عثمانی ترکی سلطنت کے اس طریق کا قائل ہے۔ اسی طرح سے اگر غور وخوض کے بعد مسلمانوں کو معلوم ہوجائے کہ انجیل کا مذہب اسلام سے بالاتر ہے اور زیادہ روحانی ہے تو ان کا یہ فرض ہے کہ اسلام کو چھوڑ کر مسیحی مذہب کو اختیار کریں اگرچہ ان کے آباواجداد نے بوجہ کم علمی اور ناتجربہ کاری سے صدہاسال تک اسلام کی پیروی کی ہو اور یہ ان کی نادانی تھی کہ انہوں نے اس اعلیٰ فرض کو نہ پہچانا ۔ زمانہ حال کے مسلمانوں کے لئے یہ ایک نہایت بڑا فرض ہے کہ وہ اچھی طرح جانچ لیں کہ آیا واقعی قرآن مسیحی مذہب سے زیادہ اعلیٰ اور بہتر اور زیادہ روحانی تعلیم دیتا ہے یا نہیں۔ جب تک وہ محض قرآن ہی کو پڑھیں یا صرف ان کتابوں کو پڑھیں جو مسلمانوں نے لکھیں تو اس بات کا پہچان نہیں سکینگے پر اگر وہ جاننا چاہتے ہیں تو ان کو بہر صورت انجیل کا مطالعہ کرنا چاہیے اور کتابیں جو مسیحیوں نے لکھیں پڑھنی چاہیے تاکہ وہ اس بڑے امر کو معلوم کرلیں۔ جو مقابلہ ہم کرنے والے ہیں اس سے بھی حق پسند مسلمانوں کو معلوم ہوجائیگا کہ قرآن کی تعلیم اور انجیل کی تعلیم میں کیا فرق ہے ۔ جس طرح ہم نے اوپر موسوی شریعت اورانجیلی تعلیم کا مقابلہ کرکے بتایا کہ کون اعلیٰ ہے اسی طرح ان دو مذاہب کی تعلیم کے مقابلہ سے ایک کاد وسرے سے اعلیٰ تر اور بہتر ہونا ثابت ہوجائیگا۔

(۱) خداکی بابت

ہم اوپر بیان کر آئے ہیں جہاں موسوی شریعت اورانجیل کا مقابلہ کیا تھا کہ مسلمانوں اور مسیحیوں کا یہ اعتقاد کہ انجیل کی تعلیم خدا کی نسبت موسوی شریعت کی تعلیم سے اعلیٰ تر ہے درست ہے ۔ اور یہ اعتقاد بخوبی ثابت کردیا گیا تھا جبکہ بہت سے حوالجات خدا کی تعلیم کی نسبت انجیل اور موسوی شریعت سے پیش کئے گئے ۔ ان میں دو خاص باتوں پر غور کیا گیا تھا جس سے مذہب کی فوقیت موسوی شریعت کی تعلیم پر ثابت کی گئی ۔ پہلی بات یہ تھی کہ موسوی شریعت میں خداوند القادر دنیا کا پیدا کرنے والا صادق اوررحیم خدا بنی اسرائيل کا آسمانی بادشاہ مانا گیا ہے مگر انجیل میں خداوند ایک مہر بان باپ کی حیثیت میں جو کہ اپنے فرزندوں بنی آدم کو سچائی اور خوشحالی کی راہ پر چلنے کی ہدایت اور رہنمائی کرتا ہے ظاہر کیا گیا۔ دوسری بات یہ تھی کہ موسوی شریعت میں خدا کی ہستی اور ذات کی بابت کم تعلیم دی گئی جبکہ انجیل میں بتایا گیا کہ اس کی ذات واحد میں یہ مقدس تثلیث کے تین اقانیم یعنی باپ بیٹا اور روح القدس شامل ہیں۔ جوکہ نہ صرف بنی نوع انسان کی نجات کا خواہاں ہے بلکہ اس کو پورا کیا ہے اب اگر قرآن حقیقتہً انجیل سے اعلیٰ مکاشفہ پیش کرتاہے تو یہ بلاشک ان اموپر زیادہ روشنی ڈالے گا پر جب ہم اس کوپڑھتے ہیں تو یہ افسوس سے ہم کو کہنا پڑتا ہے کہ یہ تعلیم کہیں نہیں ملتی ۔

بجائے اس کے کہ خدا کی پدرانہ محبت وشفقت کو بنی آدم کی طرف بڑے کھلے طور سے پیش کیا جائے اس نہایت شیرین دل آویز اور تسلی بخش نام کا ذکر تک نہیں پایا جاتا یعنی ۹۹ ناموں میں جو خدا کے لئے قرآن میں آئے ہیں ان میں باپ کا نام آیا تک نہیں۔ہم کو یہ بار بار بتلایا جاتاہے کہ خدا بڑا زبردست عادل ہے جوکہ ہرایک کو اس کے حق کے مطابق دیتاہے کہ وہ مخلوقات سے بلند اور بالا ہے اور قریباً ہر صفحہ پر یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ القادر ہےہر چیز کا علم رکھتاہے گرُدوں اور دلوں کا جانچنے والا ہے۔ ہاں اس کی مہربانی اور رحم کا ذکر بھی کیا گیا مگر نہ اس درجہ تک جیسا کہ چاہیے یہ سب تعلیمات جو قرآن میں خدا کی بابت پائی جاتی ہیں سچ وبرحق تو ہیں پر ان میں نیا کیا ہے؟ کوئی بھی ایسی تعلیم نہیں جو انجیل میں نہ ہو۔ ہاں کوئی بھی ایسی بات نہیں جو زبور اورشریعت میں نہ پائی جائے ۔ اب ایک کا ذکر کریں ۔ خدا کاہر جا حاضر ہونا اور اس کی عالم الغیبی ۱۱۹ ویں زبور میں ایسی خوبصورتی اور دل آویزی سے بیان کی گئی ہے کہ قرآن میں ویسا بیان کہیں نہیں پایا جاتا ۔ حقیقت ِ حال یہ ہے کہ قرآن بجائے اس کے کہ خدا کے پدرانہ پیارو محبت کو ایسا ظاہر کرے جیساکہ انجیل میں ہے وہ اس کو پورے طور سے ظاہر بھی نہیں کرتا پربرعکس اس کے خدا کے نام باپ کو بنظر ِ حقارت دیکھتا ہے لہذا یہ ہو نہیں سکتا کہ خدا اس کے ذریعے ایک بالا اور بہتر مکاشفہ جو کہ انجیل سے بڑھ کر ہو ظاہر کرتا اور قرآن کا نازل ہونا جبکہ اس سے پہلے انجیل نازل ہوچکی تھی۔ایک عجیب واقعہ معلوم دیتا ہے جس کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوتی ۔

ایسا ہی تثلیث فی التوحید کی تعلیم کے بارے میں ہے قرآن بجایِ اس کے کہ اس کو انجیل سے زیادہ واضح طور سے بیان کرے اس کورد کرتا ہے اور یہ خیال الہیٰ ذات کے متضاد خیال کیا جاتاہے نتیجتہً اسلام پھر اسی پرانے نیچری مذہب پر واپس جاتا ہے۔ پرانے عہدنامہ میں توتثلیث فی التوحید کے اشارات پائے جاتےہیں پر قرآن کی تعلیم اس کوچھوڑ کر ایک نیچری مذہب پیش کرتی ہے جوکہ خدا کی ذات سے ناواقف ہے پر فقط کچھ کچھ اس کی بابت اس کے کاموں کو دیکھ کر یا اس کو پروردگار خالق حاکم اور منصف سمجھ کر بتلاتا ہے ۔ اگر قرآن خدا کی وحدت پرایسا زور دیتا ہے جیساکہ اس کے ہر صفحہ سے معلوم ہوتاہے تو یہ ایک خاص اعتقادی بات ہے جو کہ ہر ایک سچا اسلام کا پیرو بمقابل بہت سے خداؤں کے ماننے والوں کی تعلیم کے رکھتاہے۔پر یہ تعلیم نئی نہیں او رنہ ہی انسان بلاقرآن کے اس سے محروم رہینگے کیونکہ یہی تعلیم پرانے اور نئے عہد نامہ میں اس صفائی سے پیش کی گئی ہے کہ قرآن ہرگز اس پر کچھ اضافہ نہیں کرسکتا۔ پس قرآن میں اس تعلیم کا آنا کہ کوئی معبود نہیں سوائے الله کے صرف اس کوتوریت اور نئے عہد نامہ کے برابر اس لحاظ سے لے آتا ہے ۔ پر تثلیث کے انکار سے جو پرانے عہد نامہ میں جتلائی گئی اور جس کا صاف بیان نئے عہد نامہ میں ہوا یہ اس بڑے اور اعلیٰ مکاشفہ سے جو کہ عرب کے پیغمبر سے پیشتر نازل ہوچکا تھا دور ہوجاتا ہے۔ یہ ایک امر واضح ہے کہ ہر ایک سمجھ دار مسلمان جو انجیل اور قرآن کو غور سے پڑھتاہے اس کی پیروی کئے بغیر رہ نہیں سکتا۔ لیکن چونکہ اس کا قبول کرنا قرآن کی تعلیم کے خلاف ہے اور اس کے منجانب ِ خدا ہونے کو شک میں لایا گیا ہے لہذا مسلمان اس کو قبول نہیں کرسکتے ۔ یہ بات قابل ِ قبول ہے کہ خدا پہلے پہل اپنا مکاشفہ بحیثیت بنی آدم تھوڑا کرے اور پھر رفتہ رفتہ جوں جوں روحانی ترقی ہو وہ اپنے آپ کو بتمام وکمال صفائی سے ظاہر کرے مگر یہ بات تسلیم نہیں کرسکتے کہ جب ایک دفعہ اس نے اپنا کامل مکاشفہ نازل کیاہو تو پھر وہ لوگوں پر کسی اور جگہ تھوڑا اور کم نازل کرے ۔ یہ امرایسا ہی عبث ہے جیسا کہ کسی استاد کا کام جبکہ وہ اپنے طالب علموں کو سب کچھ کامل طورسے پڑھاکر ان کو پھر الف بے تے پڑھانے لگے ۔ خدا چونکہ معلموں کا معلم ہے لہذا ہم یہ امر مسلمان صاحبان کی روشن ضمیری پر چھوڑدیتے ہیں کہ وہ خود فیصلہ کریں کہ آیا قرآن خدا کا مکاشفہ ہوسکتاہے جبکہ اس میں خدا کی ذات او رہستی کی بابت اس سے کہیں کم بتلایا گیا جیساکہ پہلے انجیل میں بیان ہوچکا تھا؟

چونکہ قرآن میں تثلیث فی التوحید کی بابت کچھ نہیں پایا جاتا لہذا اس کا انسان کی نجات کے بارے میں بیان جوکہ مقدس ثالوث کے تین اقانیم کے ذریعے سے ہے انجیل کے بیان سے گرا ہوا ہے۔ ہم انجیل میں بہت سی جگہ اس کی بابت پاتے ہیں بالخصوص طیطس ۳: ۵، ۷ میں یو ں لکھاہے " اس نے ہم کو راستبازی کے کاموں سے نہیں جوہم نے کئے بلکہ اپنی رحمت کے مطابق نئے جنم سے غسل اورروح القدس کے سر نو بنانے کے سبب بچایا جسے اس نےہمارے بچانے والے سیدنا مسیح کی معرفت ہم پر کثرت سے ڈالا تاکہ ہم اس کے فضل سے راستباز ٹھہر کر امید کے مطابق ہمیشہ کی زندگی کے وارث ہوں "یہاں پر ہم وہ صداقت پاتےہیں جو کبھی کسی انسانی دماغ میں سما نہیں سکتی پر جو کہ صرف الہیٰ مکاشفہ سے حاصل ہوسکتی ہے ۔ یعنی انسان اپنے اعمال سے نہیں بچا بلکہ خدا کے رحم سے اور کہ سیدنا مسیح ہمارا نجات دہندہ ہے اور اس کی موت اور حقوق سے ہم کو گناہوں کی معافی ملتی ہے اور ہم خدا کے سامنے راستباز ٹھہرتے ہیں اور کہ ضرور ہے کہ ہم روح القدس کے ذریعے سے از سر نو پیدا ہوں کیونکہ انہی وسائل سے ہم کو ہمیشہ کی زندگی او رجلال کی امید ہوسکتی ہے۔ اس جگہ ظاہراً متضاد صداقتیں آپس میں نہایت عمدگی سے ایک کرکے پیش کی گئی ہیں یعنی ایک طرف تو یہ ہے کہ انسان اپنے اعمال سے نہیں بچتا لیکن خداوندباپ بیٹے اور روح القدس میں انسان کو بچاتاہے اور اس کو ہمیشہ کی زندگی عطا کرتاہے اور دوسری طرف یہ ہے کہ انسان جو کہ یو ں فضل سے بچ گیا اب آگے کو لاپروائی اور گناہ کی زندگی بسر نہیں کرسکتا کیونکہ پاکیزگی سچائی محبت اور سب نیک باتیں خود بخود روح القدس کی حضوری کے باعث پیداہوتی ہیں جیساکہ اچھے درخت سے اچھا پھل ہی پیدا ہوتاہے اب اگر یہ پوچھا جائے کہ قرآن ان سے بڑھ کر اورکیا سکھاتاہے توجواب یہ ملتاہے کہ قرآن اس آسمانی باپ سے واقف ہی نہیں جس نے جہان کو ایسا پیار کیا کہ اپنااکلوتا بیٹا بخشا تاکہ جو کوئی اس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے ۔ اور نہ ایسے نجات دہندہ سے آگاہ ہے جس نے ہمارے لئے انسانی صورت اختیار کی تاکہ وہ اس صورت میں ہوکر شیطان اور اس کی سب آزمائیشوں کو مغلوب کرے تاکہ وہ اپنی پاکیزہ زندگی اورکفارہ والی موت سے ہمارے گناہوں کو دور کرے اور ان کو رہا کرے جو موت او رہلاکت کے خوف سے ہمیشہ گناہ کی غلامی میں رہے۔ اوریہ ہمیشہ رہنے والے اور تسلی بحش روح القدس سے بالکل بے خبر ہے جو کہ ایماندار کے دل کو نور خوشی اور سلامتی سے معمور کرتاہے اور ان کو اس لائق بناتاہے کہ آئندہ کو ایک پاکیزہ اور فائدہ مند زندگی بسر کریں تاکہ وہ آنے والی برکت اورجلال کے لئے تیار ہوجائیں بجائے اس کے کہ اس الہیٰ نجات کے طریقہ کے لوگوں کے سامنے پیش کرے وہ ان کو پھر مایوسی کی دلدل میں گراتاہے اور جتلاتاہے کہ ہرایک اپنے اپنے اعمال سے نجات حاصل کرے ۔ دعا خیرات روزہ اور حج کو پیش کرتاہے جس کے ذریعے سے لوگ کچھ کرسکیں اور اس طرح بجائے اس کے کہ وہ ایک اعلیٰ مکاشفہ کو پیش کرے دیگر مذاہب کی مانند مثلاً ہندو مذہب اور بدھ مذہب کی مانند ہوجاتاہے جوکہ ابدی آرام کے حاصل کرنے کے لئے بالکل وہی طریقے بتلاتے ہیں۔لہذا یہ امر ثابت ہواکہ خدا کی بابت اوراس کے تعلقا ت انسان سے خصوصاً اس کی نجات کی بابت جو جو کچھ قرآن میں آیا ہے وہ نہ صرف اس اعلیٰ تعلیم اور تعلق کو نہیں بتاتا ہے جو انجیل میں درج ہے بلکہ اس سے کہیں تھوڑا بیان کرتاہے اور ایسا بیان صدہا سال مسیح سے پہلے مختلف ملکوں میں ہوچکا تھا۔ اس سے سب پر روشن ہےجو تعصب کو کام میں نہیں لاتے کہ اور کوئی تعلیم ہو تو ہو جس سے اسلام سب سے اعلیٰ اور بہتر قرار دیا جائے مگر یہ خدا کی بابت تعلیم نہیں ہوسکتی ۔

(۲) خدا کی عبادت اور پرستش کی بابت

پہلے حصوں میں جہاں ہم نے یہودی اور مسیحی مذہب کا مقابلہ کیا ہم نے یہ ثابت کیا تھا کہ مسیحی مذہب یہودی مذہب سے اعلیٰ اور برتر ہے کیونکہ اس نے بہت سی ظاہری رسموں کو جو وقت اور جگہ کے ساتھ مخصوص تھیں دور کرکے خدا کی پرستش کو روح اور راستی سے کرنے کو پیش کیا ہے اور یہ زندہ ایمان کو بہ نسبت چند ظاہری رسومات کے ماننے کے ترجیح دیتا ہے اور بتلاتاہے کہ ہم اس آسمان سے مقرر کئے ہوئے نجات دہندہ پر ایمان لائیں تاکہ باطنی روحانی زندگی کوحاصل کریں ۔ اب ہمارا یہ فرض ہے کہ دریافت کریں کہ اسلام کی تعلیم اس کے بارے میں کیا ہے اور کس طرح مسلمانوں کا یہ دعویٰ کہ ان کا مذہب سیدنا مسیح کے مذہب سے اعلیٰ اور بہتر ہے ثابت ہوتاہے ؟ قرآن کس پہلو سے اس ایمان پر جوکہ گنہگار نجات دہندہ پر رکھیں زیادہ روشنی ڈالتا ہے ؟ اورکون سے بہتر وسائل بیان کرتاہے جن سے ایسا نئی زندگی پیدا کرنے والا ایمان پیدا ہو؟ ہم کو بڑے افسوس سے ان کا جواب دینا پڑتا ہے کیونکہ قرآن اس کی بابت نہ صرف خاموش ہے بلکہ کچھ اور ہی کہتا ہے کیونکہ انجیل میں یوں لکھاہے کہ مسیح کی پیدائش سے پہلے خداوند کا فرشتہ یوسف پر نازل ہوا اور اسے کہا کہ تو اس کا نام عیسیٰ رکھیگا کیونکہ وہ اپنے لوگوں کو ان کے گناہوں سے بچائیگا (متی ۱: ۲۱) پر قرآن سیدنا عیسیٰ مسیح کے گنہگاروں کا نجات دہندہ ہونے پر نہ صرف بالکل خاموش ہے بلکہ ایک جگہ آیاہے کہ وہ صرف ایک پیغمبر ہے اورکچھ نہیں (سورہ مائدہ آیت ۷۹)اوریوں بھی آیا ہے کہ مسیح ابن مریم صرف ایک رسول ہے جیسے اور رسول اس سے پہلے ہوئے ۔

اب اگر آدمیوں کی موجودہ حالت صرف لاعلمی اور گمراہی کی ہوتی تو شاید ایک رسول یا نبی ان کو سیدھی راہ پر لانے کے لئے کافی ہوتا لیکن انسان نہ صرف گمراہ اور لاعلم تھا بلکہ وہ شیطان اور گناہ کاغلام ہوچکا تھا اور محض ایک سکھانے والا کافی نہ تھا کیونکہ اگر انسان کو بچنا تھا توایک نجات دہندہ کی ضرورت تھی اور یہ ضرورت انجیل سے معلوم ہوتی ہے کہ سیدنا مسیح میں پوری ہوتی ہے جوکہ نبی اور خدا کی طرف سے بھیجا ہوا نجات دہندہ تھا لیکن چونکہ قرآن میں صرف نبیوں ہی کا ذکر آتا ہے اور کسی نجات دہندہ کابیان تک نہیں لہذا یہ نتیجہ نکالنا غلط نہ ہوگا کہ قرآن یا تو انسان کی حاجت سے بخوبی واقف نہ تھا یا اگر واقف تھا تو اس نے اس ضرورت کو رفع کرنے کے لئے کوئی تدبیر پیش نہ کی ان ہر دو صورتوں سے یہی ثابت ہے کہ اس کی تعلیم انجیل کی تعلیم سے کم درجہ کی ہے۔

ایسا ہی از سر نو پیدا ہونے اور روح القدس کی نئی پیدائش کی تعلیم کے بارے میں ہے کیونکہ انجیل میں تو ان پر بہت زور دیا جاتاہے ۔ مسیح نے بلکہ یہاں تک کہا ہے کہ " جب تک آدمی از سر نوپیدا نہ ہو خدا کی بادشاہت کودیکھ نہیں سکتا ۔" (یوحنا ۳: ۳) پر قرآن نہ صرف اس پر کچھ روشنی نہیں ڈالتا بلکہ اس کی بابت ذکر تک نہیں کرتا ۔ ہرایک روحانی انسان سمجھ سکتا ہے کہ ایسی نئی پیدائش اور دلی تبدیلی جو کہ خدا کی مرضی کے مطابق ہواس کو زیادہ مقبول ہوگی بہ نسبت ظاہری رسومات کے بجالانے سے جبکہ دل کسی اور طرف راغب ہے۔ ہم خدا کےکلام سے جانتے ہیں کہ وہ اس حالت میں دعا اور ظاہری پرستش کو ہر گز قبول نہیں کرتا جبکہ دل گناہ میں پھنسا ہوا ہوکیونکہ وہ قوم یہود کو یسعیاہ نبی کے ذریعے سے یوں کہتاہے" اب آگے کو جھوٹے ہدئیے مت لاؤ لُبان سے مجھے نفرت ہے نئے چاند اور سبت اورعیدی جماعت سے بھی کہ میں عید اور بے دینی دونوں کی برداشت نہیں کرسکتا ہوں میرا جی تمہارے نئے چاندوں اور تمہاری عیدوں سے بیزار ہے ۔ وہ مجھ پر ایک بوجھ ہیں۔ میں ان کے اٹھانے سے تھک گیا۔ جب تم اپنے ہاتھ پھیلاؤ گے تو میں تم سے چشم پوشی کرونگا۔ ہاں جب تم دعا پر دعا مانگو گے تو میں تمہاری نہ سنونگا ۔ تمہارے ہاتھ تو لہو سے بھرے ہیں۔ اپنے تئیں دھو کہ آپ کو پاک کرو اپنے برُے کاموں کو میری آنکھوں کے سامنے سے دور کرو ۔ بد فعلی سے باز آؤ ۔ نیکوکاری کو سیکھو ، انصاف کے پیرو ہو مظلوموں کی مدد کرو۔ یتیموں کی فریاد رسی کرو۔ بیوہ عورتوں کے حامی ہو" یسعیاہ ۱۵: ۱۲، ۱۷۔ پر تو بھی ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن وحدت کے ماننے او ربہت سے مذہبی رسومات کو پورا کرنے پر زور دیتاہے گویا کہ ایسے ماننے اور ان رسومات کوپورا کرنے سے انسان ہلاکت سے بچ سکتا اور ابدی آرام کو حاصل کرسکتاہے۔ یہ روشن ضمیراصحاب سے پوشیدہ نہیں کہ یہ ممکنات میں سے ہے کہ کوئی وحدت کا اقرار کرے اور ظاہری رسومات کو بھی پورا کرے پر تو بھی باطنی طور سے خدا سے دور رہے اور گناہ میں مبتلا رہے۔

انجیل خاص طور سے یہ ہدایت کرتی ہے کہ ہم خدا کا جلال سچی توبہ سے اور گنہگاروں کے نجات دہندہ پر ایمان لانے سے ظاہر کریں اور ساتھ ہی روح القدس کے پاکیزه اثر سے موثر ہوکر ایک سچے اور زندہ خداکی پرستش روح اور راستی سے کریں اب جبکہ انجیل ایمانداروں کو ان ظاہری رسومات سے چھٹکارا دیتی ہے جن سیدنا عیسیٰ کے دنوں میں یہودی لوگ مانتے تھے اور خدا کی پرستش کو ایک روحانی پرستش بناتی ہے تو قرآن پھر انہی ابتدائی رسومات کی طرف لے جاتاہے جس سے صاف معلوم ہوجاتاہے کہ یہ روحانی طور پر کوئی بڑا اعلیٰ مذہب نہیں بتلاتا۔

یہ ظاہری رسومات مسلمانوں کے نماز کے طریقوں سے بخوبی سمجھ میں آسکتی ہیں۔ مثلاً مسلمان علما یہ کہتے ہیں کہ سچی دعا کی مقبولیت کے لئے کم از کم بارہ باتوں کا ہونا لازم ہے اور اگر ان میں سے کوئی بھی نہ ہو تو دعا لاحاصل اوربے فائدہ ٹھہرتی ہے اب اگر ہم ان ظاہری ہدایات پر غور کریں تو یہ معلوم ہوجائیگا کہ بجائے اس کے کہ روحانی ہدایات نئےعہد نامہ کی مانند کی جاتیں مثلاً دعا کا سادہ اور عام فہم زبان میں کہنا فروتنی عاجزی اور سرگرمی او رایمانداری سے مانگنا ۔ان کے بجائے فضول ظاہری باتوں پر زور دیا گیا ہے۔

ان ظاہری باتوں پر غورکرنا شاید بیجا نہ ہوگا۔ یہ بارہ فرض دو حصوں میں منقسم ہیں یعنی سات ظاہری رکن اور پانچ باطنی رکن سات ظاہری رکن یہ ہیں قبلہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنا، وضو، جائِ نماز کا صاف کرنا،خاص وقت ، خاص تیاری، جسم کا بخوبی ڈھکنا اور نماز کو الله اکبر کی پکار سے شروع کرنا۔

نماز پڑھتے وقت قبلہ کی طرف منہ کرکے پڑھنے کے لئے سورہ بقرمیں یہ ہدایت ہوئی ہے " ہم نے تجھے دیکھا ہے کہ نماز پڑھتے وقت تو چاروں طرف منہ کرکے پڑھ لیتا ہے لیکن اب ہم تجھے ایک قبلہ کی طرف منہ کرکے پڑھنا بتائينگے جو تجھے اچھا لگیگا ۔ تو اپنا منہ پاک مسجد کی طرف کرکے نماز پڑھ اور جہاں تم ہو اس طرف رخ کرکے نماڑ پڑھو"(سورہ بقرہ آیت ۱۳۹)اس آیت سے نہ صرف یہ معلوم ہوتاہے کہ قبلہ کی طرف منہ کرکے پڑھنا مذہب ِ اسلام کا ایک فرض ہے بلکہ یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اب تک مکہ کی مسجد اہل عرب کی نظر میں کوئی بڑی وقعت نہ رکھتی تھی اور جب تک محمد صاحب نے نبی ہونے کے دعوے کو بڑے زور سے پیش نہ کیا کسی نے اس بات کی پیروی نہ کی ۔ یہ رسم ایک عرب کی رسم نہ تھی بلکہ گمان غالب ہے کہ محمد صاحب نے اس کو یہودیوں سے لیا تھا۔ کیونکہ یہودیوں نے بہت قدیم زمانہ سے یروشلیم کی ہیکل (بیت الله ) کو اپنا قبلہ ماناہوا تھا جیساکہ ہم زبور ۵: ۷۔ یسعیاہ ۲: ۴ اور دانی ایل ۶: ۱ سے معلوم ہوتاہے ۔ اس بات کا ثبوت ایک یہ بھی ہے کہ محمد صاحب خود کئی سال تک یروشلیم کو اپنا قبلہ مانتے رہے جیساکہ عربی مورخوں نے لکھاہے کہ مثلاً تباری نے اورپھر سورہ بقرہ آیت ۱۳۶ میں بھی یوں لکھا ہے " بیوقوف کہینگے کہ کس بات نے ان کو اس قبلہ سے جس کووہ پہلے مانتے تھے پھیردیا "لہذا یہ بات بلاشک ماننے کے قابل ہے کہ محمد صاحب نے یہ رسم یہودیوں سے لی اور بہت مدت تک ان کے ساتھ یروشلیم کی ہیکل کو اپنا قبلہ مانتا رہا گو آخر کار اس نے مکہ کی مسجد کو قبلہ تسلیم کیا۔اس رسم کی بناء خواہ کچھ ہی ہو مگر ایک بات اس سے ثابت ہوتی ہے کہ اس قبلہ پرستی کی رسم کی رو سے مسلمانوں کا مذہب بالکل یہودیوں کے مذہب کے برابر ہوجاتاہے او رکہ مسیحی مذہب ان دونوں سے اعلیٰ اور بہتر نظر آتاہے کیونکہ ا سنے قبلہ پرستی کو جو خدا کی روحانی پرستش کے خلاف ہے رد کردیا او رپھر اس سے خدا کی پرستش میں کوئی مدد بھی نہیں ملتی ۔ مسیحی قبلہ پرستی نہیں کرتے بلکہ اس صداقت کی جو اس سے نکلتی ہے پیروی کرتے ہیں کیونکہ قرآن میں بھی لکھا ہے " مشرق اور مغرب الله کا ہے تم چاہے کسی طرف منہ کرو اس طرف خدا ہے "(سورہ بقرہ آیت ۱۰۹)مسیحیوں کا قبلہ پرستی کو رد کرنا یسعیاہ ۵۷: ۱۵ سے بخوبی ظاہر ہوجاتاہے " کیونکہ وہ جو عالی اور بلند ہے اور ابد آلاباد سکونت کرتاہے ۔ جس کا نام قدوس ہے یوں فرماتاہے میں بلند اور مقدس مکان میں رہتاہوں اور اس کے ساتھ بھی جوشکستہ دل اور فروتن ہے کہ عاجزوں کی روح کو جلاؤں اور خاکساروں کے دل کو زندہ کروں۔"

دوسرا رکن وضو کرنا ہے جوکہ ان مسلمانوں کے لئے کرنا نہایت ضروری ہے جو اپنی دعاؤں کو منظور کروانا چاہتے ہیں۔ ا ن کے لئے قرآن میں یو ں حکم آیاہے " اے ایماندارو جب تم نمازپڑھنے کےلئے تیار ہو تو اپنےچہرے دھو ہاتھ کہنیوں تک دھو اپنے سر کو صاف کرو اور پاؤں کو بھی اچھی طرح دھو اگر پانی نہ ملے تو صاف ریت سے اپنےہاتھ اور چہرے ملو" (سورہ مائدہ آیت ۸، ۹) اگر یہ حکم صرف صفائی کے لئے ہوتا تو ہم اس کے بارے میں کچھ نہ کہتے مگر چونکہ یہ دعا کے منظور ہونے کی ایک خاص شرط ہے لہذا اس کو ظاہر پرستی کا ایک نشان کہنا پڑتاہے اور ساتھ ہی ہم کو ۱سموئیل ۱۶: ۷ کی آگاہی یاد آتی ہے ۔" خداوند آدمیوں کی مانند نہیں دیکھتا کیونکہ آدمی تو ظاہر پر نظر کرتاہے پر خدا دل کو دیکھتا ہے" اب ہرایک سمجھ دار انسان سمجھ سکتا ہے کہ اگر وضو کی کچھ حقیقت ہے تو یہ صرف ایک ظاہری نشان ہوسکتا ہے پر یہ نہ تو دعا میں اثر پیدا کرتاہے او رنہ ہی دعا کو منظور کرانے میں مدد دیتاہے۔ یہ ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ آیا یہودیوں میں یہ دستور تھا یا نہیں پر ان میں کامل پاکیزگی کو حاصل کرنے کے لئے بہت سے طریقے پائے جاتےتھے جیساکہ مندرجہ ذیل حوالجات سے معلوم ہوتاہے گنتی ۱۹ باب ، احبار ۱۵ باب اور مرقس ۷: ۱، ۴ ۔ مسیح نے کبھی اپنے شاگردوں کو دعا مانگنا سکھاتے ہوئے ایسی رسم نہ سکھلائی بلکہ جس نظر سے وہ ایسی ایسی رسموں کو دیکھتاہے وہ متی ۲۳: ۲۵، ۲۶ سے بخوبی معلوم ہوجائیگا " اے مکار اور ریاکا ر فقیہو اور فریسیو تم پر افسوس کہ تم پیالہ اور رکابی کو باہر سے صاف کرتے ہو مگر اند وہ گندگی سے بھرے ہیں۔ اے اندھو فرییسو پہلے پیالے او ررکابی کو اندر سے صاف کرو تاکہ وہ باہر سے بھی صاف ہوجائیں۔"(اور پھر مرقس ۷: ۶، ۱۳سے مقابلہ کرو )پس یہ ظاہر ہواکہ ہاتھ پاؤں دھونے سے دعا مانگنے کے اثر میں جو کہ صرف ایک روحانی اور عقلی کام ہے کچھ فرق نہیں پڑتا اور قرآن چونکہ وضو کو ایک بڑا فرض قرار دیتا ہے لہذا صرف ایک ظاہری بات پر زور دیتا ہے جس سے پرستش میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ خیال کرنے کی بات ہے کہ اگرچہ ہاتھ اور پاؤں دھونے کی رسم عربوں کے لئے جو زیادہ ننگے پاؤں رہتے ہیں آسان اور آرام دہ بھی ہے۔ مگر ان لوگوں کے لئے جوکہ موزہ اور جوتی پہننے کے عادی ہیں کیسی تکلیف دہ ہوگی اور خصوصاً ان لوگوں کے لئے جو شمالی کرہ کی جانب جہاں برف کبھی نہیں پگلتی او رجہاں لوگ جم جانے کے خوف کے مارے مجبوراً بھاری بھاری کپڑوں سے اپنے آپ کو ڈھانکے رکھتےہیں۔ یہ رسم نہایت ہی نقصان دہ ثابت ہوگی کیونکر اس کے پورا کرنے سے ان کی صحت میں خلل آئیگا اور جن خطرے میں پڑیگی ۔ مذکورہ بالا بیان سے معلوم ہواکہ اس وضو کی رسم پر دو اعتراض عائد ہوتے ہیں پہلا یہ کہ یہ ایک ظاہری رسم ہے جوکہ اس حکم کے بعد جو خدا نے انجیل میں دیا کہ پرستش روح اور راستی سے ہونی چاہیے ایک لاحاصل رسم معلوم دیتی ہے دوسرا یہ کہ یہ رسم ان ممالک میں جن کی آ ب وہوا عرب کے آب وہوا سے مختلف ہے مناسب نہیں ہوسکتی ۔

نماز سے پہلے جگہ کا صاف کرنا عام طور پر عام طور سے ایک اچھی بات ہے جیساکہ ہر ایک پاک شے کو صاف ستھرا رکھنا لازم ہے لیکن اس کا اثر دعا پر بالکل نہیں ہوسکتا جیساکہ جسم کے دھونے کا اثر نہیں ہوتا۔ وہ جوکہ خدا کو روح سمجھتاہے جو ہاتھ سے بنائی ہوئی جگہوں میں نہیں رہتا ایسے شخص کے لئے یہ سمجھنا کہ ان ظاہری رسومات سے دعا پر اثر پڑے گا ایک نہایت دشوار امر ہے ۔ کیا کوئی ان ایمانداروں کی دعاؤں کی سرگرمی سچائی او رمنظوری میں شک کرسکتا ہے جوکہ تاریک غاروں میں یا پہاڑوں کی چوٹیوں پر خدا کی پرستش کے لئے جمع ہوتے تھے؟ کیاان کی دعائیں ان لوگوں کو دعاؤں سے جو ستھری سے ستھری مسجد یا گرجا گھر میں دعا کرتے ہیں جبکہ ان کا دل صاف نہیں بدرجہا بہتر نہیں او رکیا وہ خدا کو منظور نہیں؟

چونکہ مذکورہ بالا باتوں سے یہ صاف روشن ہے کہ قرآن کی تعلیم کہاں تک انجیل سے اعلیٰ ثابت ہوتی ہے لہذا ہم اب پانچ باطنی ارکان کی طرف رجوع ہوتےہیں جوکہ سچی دعا کے لئے ضروری سمجھے گئے ہیں ۔ پانچ رکن یہ ہیں دعا مانگتے وقت سیدھے کھڑےہونا قرآن کے بعض حصوں کو پڑھنا سارے جسم کو آگے جھکانا زمین پر سجدہ کرنا ایساکہ پیشانی زمین پر لگے اور دعا کے بعد دو زانو ہوکر بیٹھا۔ یہ پڑھ کر کیا کوئی سچا خدا کا پرستار بغیر یہ افسوس کے ساتھ کہے رہ سکتا ہے کہ افسوس اس مذہب پر جو کہ ایسی ظاہری حرکتوں کو دعا کے لئے باطنی شرائط بنائے۔اس میں شک نہیں کہ ان کاذکر قرآن میں نہیں آیا مگر چونکہ یہ حدیثوں میں پیش کیا گیا اور چونکہ گمان غالب ہے کہ محمد صاحب نے بھی ان پرعمل کیا اور لوگوں کو کرنے کو کہا تو یہ اب تک مسلمانوں میں رائج ہیں۔ ان میں سے چار تو بالکل ظاہری حرکتیں ہیں لہذا ان کے غیر روحانی ہونے میں شک نہیں پر شاید پانچواں رکن یعنی قرآن کی آیتوں کا پڑھنا کچھ نہ کچھ دعا کو روحانی بناتا ہوپر افسوس دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا بالکل نہیں کیونکہ محض آیتوں کادہرانا بجائے اس کے کہ روحانیت پیدا کرے ایک محض ظاہری رسم ہوگئی ہے۔ اس بات کو زیادہ روشن کرنے کے لئے یہ کافی ہوگا اگرہم یہ جان لیں کہ پانچوں وقت کی نماز میں جو کہ ہر ایک مسلمان پر فرض ہے قرآن کی پہلی سورة او رکئی حصے چالیس دفعہ اور الفاظ " سبحان ربی الاعلیٰ"(یعنی خدا وند بزرگ کی تعریف ہو )ایک سو بیس اور ندایِ "الله اکبر" (یعنی خدابزرگ ہے ) دو سو اکیس دفعہ اور الفاظ " سبحان ربی العظیمہ" (یعنی نہایت بڑے خداکی تعریف ہو) دو سو چالیس دفعہ دہرائے جاتے ہیں۔ ایسے طریقوں سے نماز پڑھنا سوائِ اس کے کہ رسم پرستی اور ظاہر پرستی کو بڑھائے او رکیا کرسکتا ہے انسانی طبعیت کا تقاضا ہے کہ اگر کوئی بات ایک طرح سے بار بار ہفتہ بہ ہفتہ اور سال بہ سال دہرائی جائے تو سوایِ بد اثری کے او رکچھ نہیں کرتی اور سیدنا مسیح کی بات صادق ٹھہرتی ہے جوکہ اس نے متی ۶: ۷، ۸ میں فرمائی " دعا مانگتے وقت غیرقوموں (مشرکین) کی مانند بے فائدہ بک بک نہ کرو کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی زیادہ گوئی سے سنی جائيگی ۔ تم ان کی مانند مت ہو کیونکہ تمہارا باپ تمہارے مانگنے سے پہلے جانتاہے کہ تمہیں کن کن چیزوں کی ضرورت ہے۔ "

دعا کے علاوہ مکہ کا حج مسلمانوں کے لئے الہیٰ عبادت میں شامل ہے کیونکہ اس آیت سے معلوم ہوتاہے کہ "پہلی مسجد جوکہ انسان کے لئے بنائی گئی وہ مکہ میں تھی جو مبارک ہے اور لوگوں کے لئے برکت اور رہنمائی کا باعث ہے ۔ اس میں کافی نشان ہیں۔ یہ ابراہیم کے اٹھنے اور بیٹھنے کی جگہ تھی اور جو اس میں داخل ہوتاہے وہ محفوظ ہے اور جو سفر کرنے کے لائق ہے اور جو اس مسجد کو حج کےلئے جاتاہے وہ خدا کی گویا عبادت کرتا ہے " (سورہ العمران آیات ۹۰، ۹۱) مسلمانوں کے یہ فرض بعینہ ان یہودی دستوروں سے ملتے ہیں جو کہ کسی وقت ان پر عائد تھے یعنی عہد کے صندوق کے زیارت کرنے جانا اور یروشلیم کی ہیکل (بیت الله ) میں سال میں تین دفعہ جانا (خروج ۲۳: ۱۷۔استشنا ۱۶: ۱۶) یہودیوں کا ہیکل میں جانا خاص خدا کی طرف سے مقرر کیا گیا تھا کیونکہ خدا نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ اس کی حضوری وہاں ہوگی اور وہیں سے وہ اپنا مکاشفہ نازل کیا کریگا (خروج ۲۵: ۲۲، گنتی ۷: ۸۹ ۔ استشنا ۱۲: ۵، ۱۲)مگر جب قوم یہود اپنے گناہوں کے سبب خدا سے دور ہوگئی (تواریخ ۳۶: ۱۳، ۱۹) تو اس نے سیدنا مسیح کے جسم کو ایک خاص ہیکل بنایا جس میں اس نے اپنے آپ کو ظاہر کیا (یوحنا ۲: ۱۹، ۲۱/ ۴: ۶، ۹/عبرانیوں ۱: ۲، ۳) اور ایمانداروں کےدلوں میں اس نے روح القدس کو نازل کیا کہ وہ بھی سیدنا مسیح کی طرح خدا کی زندہ ہیکل بنیں (اعمال ۲باب ۱کرنتھیوں ۳: ۱۶، ۱۷ / ۲ کرنتھیوں ۶: ۱۶)۔ یہ اس بڑے وعدے کا پورا ہونا ہے جس کی یہودیوں کی ہیکل ایک صرف مثال تھی۔ اس کے بعد یہ پھر ہونہیں سکتا کہ وہ از سر نوایک اور جگہ کوچنے اور اس کو اپنے ظہور کی ایک خاص جگہ ٹھہرائے ۔ اس لئے انجیل میں کسی جگہ کی زیارت کرنے کے لئے نہیں لکھا اور سیدنا مسیح کے الفاظ ہر زمانہ کے لئے سچے اور برحق ہیں جو یوحنا ۴: ۲۱، ۲۲ میں پائے جاتے ہیں۔" وہ گھڑی آتی ہے کہ نہ تو اس پہاڑ پر (گرازیم کے پہاڑ پر ) نہ یروشلیم میں تم خدا باپ کی پرستش کروگے ۔ ۔۔۔۔پر خدا کے سچے پرستار باپ کی روح اور راستی سے پرستش کرینگے کیونکہ خدا اپنے پرستاروں کو ایسا ہی چاہتاہے " اب اگر مذہب اسلام پھر کسی مسجد کی طرف جو پتھروں سے بنائی گئی ہو لوگوں کو راغب کرے اور ان سے کہے کہ وہاں کا حج کریں تاکہ وہ ان برکتوں کو جو اور کسی طرح سے حاصل نہیں ہوسکتیں حاصل کریں تو وہ اس روحانی درجہ سے گرپڑتا ہے جو مسیحی مذہب کو حاصل ہے اور ایسی جگہ آٹھہرتا ہے جوکہ مدت سے چھوڑدی گئی ہے۔

مسلمانوں پر ماہ ِ رمضان میں روزہ رکھنا بھی ایک فرض ہے اس کا ماننا ان الفاظ میں پیش کیا گیا ہے " اے ایماندارو تمہارے لئے ایسے روزے جو تم سے اگلوں کے لئے بھی مقرر کئے گئے تھے مقرر کئے جاتے ہیں تاکہ تم خدا سے ڈرو۔ ماہ رمضان میں جس میں کہ قرآن لوگوں کی رہنمائی کے لئے نازل کیا گیا تھا جب تم پہلا چاند دیکھو تو روزہ رکھنا شروع کردو لیکن جو بیمار ہیں یا سفر میں ہیں وہ اتنے ہی روزے پھر کسی اور وقت رکھیں"سورہ بقرہ آیات ۱۷۹، ۱۸۳۔ یہ الفاظ جیسا کہ تم سے اگلوں کے لئے مقرر کئے تھے ، ظاہر کرتے ہیں کہ یہ رسم بنی اسرائيل سے لی گئی ہے ۔ ہم کو عربی مورخ تباری سے معلوم ہوتاہے کہ محمد صاحب نے برسوں تک کفارہ کے روزہ کو مانا جو کہ عبرانی زبان میں " عشور " (یعنی دسواں ) کہلاتا تھا کیونکہ یہ ہمیشہ یہودیوں کے ساتویں مہینہ کی دسویں تاریخ کو آتا تھا (احبار ۲۳: ۳۷) پر جب محمد صاحب کی طاقت مدینہ میں بڑھ گئی اور یہودیوں سے نفاق بھی زیادہ ہوگیا تو اس کے بجائے ماہ ِ رمضان کے روزے مقرر ہوئے ۔ خیال کیجئے کہ نئے عہد نامہ میں روزے کی ممانعت نہیں پر برعکس اس کے یہ ہرایک پر منحصر ہے کہ اگر وہ سمجھے کہ روزے رکھنے سے وہ گناہ کرنے سے بچتاہے یا اگر روحانی فرائض کو زیادہ اچھی طرح ادا کرسکتاہے تو ضرور روزہ رکھے جیساکہ ان حوالجات سے ظاہر ہے متی ۴: ۲/ ۶: ۱۶، ۱۷ / ۱۹: ۱۵ ۔ اعمال ۱۳: ۲، ۳ لیکن کسی پر یہ فرض نہیں ٹھہرایا کہ وہ کسی خاص دن کا روزہ رکھے جیسے یہودی رکھتے تھے یا ایک خاص مہینے تک روزے رکھے جیسے مسلمان رکھتے ہیں۔ اگر بعض ملکوں کے مسیحی مثلاً لاطینی یونانی یا آرمینی کلیسیاؤں کے شریک اب تک روزہ رکھتے ہیں تو وہ اس لئے نہیں رکھتے کہ ان کو بائبل میں خاص حکم ہے پر اس لئے کہ وہ دستور کے مطابق رکھتے چلے آئے ہیں لیکن انگلستان کی کلیسیائیں اور پروٹسٹنٹ کلیسیائيں کسی پر یہ بوجھ حکماً نہیں لگاتیں بلکہ صرف پرہیزگاری پر زور دیتی ہیں۔ اگر کوئی چاہے کہ روزہ رکھے تو وہ بخوشی رکھ سکتا ہے ۔ اب اگر پھر مسیحی مذہب اور اسلام کا مقابلہ اس لحاظ سے کیا جائے تو معلوم ہوگاکہ مسیحی مذہب جو ایسی ایسی ظاہرداریوں کو مجبوراً عائد نہیں کرتا پرہر ایک پیرو کی مرضی پر چھوڑدیتا ہے بمقابل اسلام کے جو حکماً ان کو لوگوں کے لئے مقرر کرتاہے بدرجہا بہتر ہے کیونکہ جوکچھ خود بخود کیا جائے یا خدا کی محبت کے سبب کیا جائے وہ اس بچہ کے کام کی مانند ہے جو والدین کی تابعداری بخوشی کرتاہے لیکن وہ جو حکماً کیا جائے ایک غلام کے کام کی مانند ہے۔ مسیحی مذہب کی بزرگی اس سبب سے نہیں کہ اسلام رمضان کے روزوں کو حکماً مقر ر کرتا ہے جبکہ مسیحی مذہب ایسی ظاہری باتوں کو قانوناً مقرر کرنا جائز نہیں سمجھتا پر اور بھی وجوہات ہیں جن کی رو سے ایسی رسم کا مقرر کرنا خدا کی رضا مندی انصاف اور دانائی کے برخلاف ہے لہذا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ نہ اس کی طرف سے اور نہ اس کی خواہش سے دوبارہ ٹھہرائے گئے ۔یہ بات سچ ہے کہ رمضان کے مہینے میں روزہ رکھنا بہتوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتا مگر بڑے بڑے ڈاکٹروں کی یہ رائے ہے کہ بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جوچونکہ دن کو کھانا پینا بالکل بند کردیتے اور رات کو ایک پورے مہینہ بھر خوب کھاتے پیتے ہیں خصوصاً جبکہ رمضان کا مہینہ گرمیوں کے موسم میں پڑے اپنی صحت کو سخت نقصان پہنچاتے ہیں اور بسا اوقات اسی سبب سے مہلک بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ تو کیا یہ خدا کی رضا مندی اور دانائی کے مطابق ہوگا کہ روزوں کو مجبوراً لوگوں کے لئے مقرر کرے جبکہ صحت کو جو کہ سب سے بڑی برکت ہے ایسا سخت نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو؟ کیا جوروحانی فائدہ روزوں کے ذریعہ سے ہوسکتا ہے اور وسیلوں سے نہیں ہوسکتا ؟

یہی ایک بات نہیں بلکہ اس رسم پر ایک اور طرح غورکرنے سے بھی معلوم ہوجائيگا کہ کسی حالت میں یہ اسلام کو مسیحی مذہب سے اعلیٰ نہیں ٹھہراسکتی ۔ مسیحی مذہب کا دعویٰ ہے کہ وہ ہر ایک فرقہ مذہب ملت قوم وملک کے لئے ہے اور کہ دنیا کی ہر قوم کے لئے ٹھیک ہے۔ اب چونکہ اسلام مسیحی مذہب پر فوقیت ظاہر کرتاہے لہذا یہ ہر ایک ملک اور قوم کے لئے اور بھی زیادہ ٹھیک اور مناسب حال ہوناچاہیے لیکن اس روزہ رکھنے کی رسم سے ہم کو کیا معلوم ہوتاہے ؟ ہر ایک جوکہ علم ِ جغرافیہ سے واقف ہے جانتاہے کہ منطقہ حارہ میں دن اور رات تمام سال برابر ہوتے ہیں لیکن منطقہ معتدل اور منجمد میں چھوٹے بڑے ہوتے ہیں ۔ بعض بعض جگہوں میں دن رات سے چار یا چھ گناُ بڑا ہوتاہے اور بعض جگہوں میں رات دن سے چار یا چھ گنی بڑی ہوتی ہے۔مسلمان چونکہ آفتاب کے طلوع ہونے سے غروب ہونے تک روزہ رکھتے ہیں تو یہ نتیجہ نکلا کہ منطقہ حارہ کے لوگ تو صرف بارہ گھنٹے روزہ رکھینگے لیکن وہ جو کہ زیادہ شمال کی جانب رہتے ہیں مثلاً استنبول جیسی جگہ میں ان کو ۱۶ یا ۲۰ گھنٹے روزہ رکھنا پڑیگا ۔ لیکن یہ خدا کے عدل وانصاف کے مطابق ہوسکتا ہے ؟ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ۶۷ درجہ شمال میں دن قریباً ایک مہینہ تک رہتا ہے ۔ ۶۹ درجہ میں دو مہینے اور ۷۳ درجہ میں تین مہینے کا دن ہوتاہے یعنی سورج کے طلوع ہونے اور غروب ہونے کے درمیان ایک دو یا تین مہینہ کا فرق ہوتاہے ۔ اب اگر ان جگہوں کے مسلمان رمضان کے روزے اس قاعدے سے رکھیں یعنی سورج کے طلوع ہونے سے غروب ہونے تک اور اس وقت کے درمیان کچھ نہ کھائیں پیئں تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ سب کے سب فاقے سے پیشتر اس سے کہ وہ اس جگہ کی دوپہیر کی نماز پڑھے کے قابل ہوں مرجائينگے ۔ ان باتوں سے یہ ثابت ہوگیاکہ رمضان کے روزوں کے قاعدے کل بنی نوع انسان کے لئے ٹھیک نہیں۔اب انہی جگہوں میں ہزاروں مسیحی ہیں جو کہ کسی ایسی رسم سے مجبور نہیں ہوتے کہ بھوک سے ہلاک ہوں۔ پس یہ ظاہر ہے کہ اسلام کم از کم اس بات میں مسیحی مذہب سے ہر گز بہتر نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کی پیروی سے شمالی قطب کے لوگ کبھی زندہ نہیں رہ سکتے ۔ کیا ایسی رسم خدا کی طرف سے نازل ہوسکتی ہے جوکہ کل بنی آدم کے لئے ٹھیک نہ ہو؟ کیا ہم یہ کہیں کہ خدا نے ایسی رسم مقرر کرنے کے سے جس کو کہ تمام قومیں مان نہیں سکتی غلطی کی ؟ یا یہ کہیں کہ محمد صاحب نے غلطی کی کہ انہوں نے لوگوں کو ماہ ِ رمضان میں سورج کے طلوع ہونے سے غروب ہونے تک تمام دنیا میں روزہ رکھنے کو کہا ؟ ا سکا جواب ہم روشن ضمیر مسلمان صاحبان ہی پر چھوڑتے ہیں۔

(۳) خداکی بادشاہت کی بابت

جبکہ ہم نے مسیحی مذہب اور موسوی شریعت کا مقابلہ خدا کی بادشاہت کے بارے میں کیا تو ہم نے جتلایا تھاکہ سیدنا مسیح کے نازل ہونے نے خداکی بادشاہت میں ایک بڑی بھاری تبدیلی پیدا کی کیونکہ اس نے خدا کی بادشاہت کو قومی بادشاہت سے ایک عالمگیر بادشاہت قرار دیا۔ ختنہ کی رسم بھی اٹھا دی جس سے یہ درحقیقت ایک روحانی بادشاہت ہوگئی اور ہر ایک انسان کے لئے خواہ وہ کسی فرقہ ومذہب وملت کا کیوں نہ ہو دروازہ کھول دیا اورہرایک جو سچائی سے اس کا خواہاں ہو اور جو اپنے تعلق کو خدا سے اور انسان سے پھر بحال کرنا چاہتا ہو اس کوقبول کرکے حاصل کرسکے ۔ سیدنا مسیح کی تعلیم کے بموجب خدا کی بادشاہت ملکی تعلقات مجلسی رسومات اور خاندانی طریقوں سے بالکل جدا ُ قائم ہوسکتی ہے۔ یہ ہرایک ملک میں بغیر اس کی دنیاوی سلطنت کو رد وبدل کئے قائم ہوسکتی ہے ۔ یہ اس جہان کی نہیں بلکہ سچائی اور صداقت کی بادشاہت ہے۔چونکہ یہ روحانی اور خصوصاً مذہب ہی کی بنا پر قائم ہے لہذا یہ ہرایک حالت او رہرایک ملک میں جہاں جہاں آدمی ہیں بغیر دنیاوی حاکموں اور بادشاہوں کی حمایت کے قائم ہوسکتی ہے اس کا مقصد کسی خاص قوم کی دنیاوی قوت کو بڑھانا نہیں پر خدا کے جلال کو بزرگی دینا اور اس کی سلطنت کو انسان کے دل میں خاندان میں اور ہر ملک میں پھیلانا ہے۔ جو جو اس کو قبول کرتے اور اس میں داخل ہوتے ہیں وہ سب پاک بردارانہ الفت اور محبت سے ایک ہوجاتے ہیں اور ان کو بہتر خوشحال اور زیادہ دانا آدمی بنادیتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ ان کو آنے والے جہان کو جلالی خدمت اور خوشی کے لئے تیار کرتی ہے ۔ اب اگر یہ دعویٰ برحق ہو کہ اسلام مسیحی مذہب سے اعلیٰ ہے تو کیا اس کا یہ فرض نہیں کہ اس آسمان کی بادشاہت کے بارے میں کوئی بہتر اور زیادہ روحانی تعلیم پیش کرے جو دنیاکی قوموں کے لئے زیادہ مناسب ہو اور کہ اس دنیا میں آدمیوں کو زیادہ خوش دانا اور صادق بنائے اور جو موت کے بعد انسان کو ابدی زندگی اور اس کے جلال کی بہتر امید دے؟ وہ جو کہ دونوں مذاہب سے بخوبی واقف ہیں جانتے ہیں کہ یہ باتیں اسلام میں نہیں پائی جاتیں۔

آؤہم اس امید کے بارے میں جو مسیحیوں کو موت کے بعد حاصل ہوتی ہے کچھ ذکر کریں۔ ہر ایک مسیحی سیدنا مسیح کے زندہ ہونے میں اپنے دوبارہ زندہ ہونے کو بخوبی سمجھ لیتا ہے اس لئے موت اس کے لئے کوئی خوفناک انجام نہیں بلکہ مرنا اس کے لئے مسیح میں سونا ہے "(۱ کرنتھیوں ۱۵ باب ۔ اعمال ۷: ۶۰۔ ۱ تھسلنیکیوں ۴: ۱۴) کوئی نقصان نہیں بلکہ سراسر فائدہ ہے (فلپیوں ۱: ۲۱ مکاشفات ۱۴: ۱۳) ہم اس سے انکار نہیں کرتے کہ گو بہت سے مسلمان مرنے سے ڈرتے ہیں پر تو بھی ان کا مذہب ان کو دوسری دنیا کے حاصل کرنے کی بابت بہت کچھ سکھاتاہے اور بہت سی مثالیں ایسی بھی ہیں کہ جب وہ مرنے کو تھے تو وہ یہ کہکر پکارے" مجھے خیال ہے کہ میں سیاہ آنکھ والی حوروں کو دیکھتا ہوں جوکہ مجھے آنے کے لئے اشارہ کررہی ہیں " لیکن اس خوشی میں جو کہ ان کو موت کے وقت ہوتی ہے ایک بات پائی جاتی ہے جس کی رو سے ان کا مذہب مسیحی مذہب سے روحانیت میں کم نظر آتا ہے۔ مسلمان کی خوشی تو دوسرے جہان کی عیاشی کی امید ہے مثلاً عمدہ ونفیس پوشاک میں لذیز خوراک اور دلفریب شراب میں اور بے شمار حوروں کی صحبت میں پر برعکس اس کے مسیحی کی خوشی اس کے اپنے خداوندسےملنے میں ہے اور نئے جسم میں ہوکر خداکی رفاقت میں رہنے سے ہے تمام گناہوں سے پاک ہوکر کامل پاکیزگی میں رہنے سے ہے (۲ کرنتھیوں ۵: ۱ تا ۹)فلپیوں ۱: ۲۰ تا ۲۲ ، رومیوں ۸: ۱۰تا ۲۵۔ مکاشفات ۲۱: ۱تا ۷) قرآن میں ہم یہ پڑھتے " وہاں حوریں ہونگی سیاہ آنکھوں والی جیسے کہ موتی جوسیپ میں بند ہو یہ سب ان کو پچھلے کاموں کے اجر میں ملینگی ۔۔۔ہم نے ان کو عجیب طرح سے خلق کیا ہے وہ ہمیشہ کنواریاں رہینگی اور اپنے آدمیوں کی عزیز رہینگی ان لوگوں کے لئے جو دہنے ہاتھ پر ہونگے ان کے لئے ہم نے حوروں کو ان کی برابر عمر کی بنایا اورپہلی اورپچھلی پشتوں کے لئے بے شمار بنایا" (سورہ واقعہ آیات ۲۲، ۲۳، ۳۴، ۳۹)لیکن اس کا بالکل برعکس خاکہ خدا کی بادشاہت کا جو آنے والی دنیا میں ہوگا ہم انجیل میں سیدنا مسیح کے ان الفاظ میں پاتے ہیں " کیونکہ وہاں نہ بیاہ کرتے نہ بیاہے جاتےہیں لیکن آسمان میں خدا کے فرشتوں کی مانند ہیں "(متی ۲۲: ۲۳، ۳۳)یعنی وہ جو رو اور خاوند کی طرح نہ رہینگے جیساکہ اس دنیا میں رہتے ہیں ۔ یہ ثابت ہواکہ قرآن اس بات کے لحاظ سے انجیل سے روحانی تعلیم میں بہت ہی کم ہے بلکہ وہ دنیاوی خیالات کو پیش کرتاہے۔

ایسا ہی مقابلہ ہم ختنہ کی رسم کو مد ِ نظر رکھ کر کرسکتے ہیں جوکہ یہودیوں کے لئے محض ایک نشان تھا جس کی رو سے وہ خدا کے لوگ سمجھے جاتے تھے۔ اگرچہ قرآن میں اس رسم پر چلنے کا حکم نہیں مگر توبھی ہم جانتے ہیں کہ سب مسلمان اس کوایک مذہبی فرض سمجھ کرکرتےہیں۔ مگر انجیل کی مذکورہ بالا آیات سے یہ صاف ظاہر ہے کہ مسیحی مذہب جسمانی ختنہ کا ہرگز طلبگار نہیں بلکہ دلی پاکیزگی اورروحانی زندگی کا خواستگار ہے۔ پس ثابت ہواکہ محمدی مذہب چونکہ اس رسم کو اب تک جاری رکھنے کا حکم دیتاہے لہذا یہ اس بات کو جاری رکھنے کی کوشش کررہاہے جس کو خدا نے انجیل میں بیفائدہ ٹھہرایا۔

محمدی اور مسیحی مذہب میں سب سے بڑا فرق خدا کی بادشاہت کے بنیادی اصول کے بارے میں ہے۔ ان الفاظ یعنی" خد اکی بادشاہت" سے وہ بادشاہت مراد ہے جوکہ خدا نے اس دنیا میں اپنے برگزیدہ بندوں کے ذریعے سے جاری کی تاکہ لوگوں کو ان کے گناہوں سے اور ان تمام نتائج سے جو کل بنی نوع انسان سے ان کے پہلے ماں باپ آدم اور حوا کے گرنے (گناہ کرنے ) سے لاحق ہوئے رہائی ہو اور تاکہ وہ آسمان میں داخل ہونے کے لائق ٹھہریں۔بالعموم یہ پینتکوست کے دن سے شروع ہوتی ہے۔ آؤ اس بادشاہت کے اصول پر غورکریں ۔ خدا نے اس کو سچائی کی بادشاہت کہا جو کہ روحانی اور باطنی ہو یہ نہ صرف ہم سیدنا مسیح کے الفاظ سے سنتے ہیں بلکہ اس کے رسولوں نے بھی اس کی بابت یہی کہا ہے لہذا نہ مسیح نے او رنہ ہی کسی اس کے رسول نے کسی حاکم یا بادشاہ کو جب انہوں نے انجیل کو نہ مانا اس کی حکومت یا سلطنت سے برطرف کرنے کی کوشش کی بلکہ برعکس اس کے نئے عہدنامہ میں تو حاکموں اور بادشاہوں کی فرمانبرداری پر زور دیا ہے ۔ غور کیجئے یہ حکم اس وقت دیا گیا جبکہ مسیحی ایماندار غیر لوگوں کے ماتحت تھے اورجب ان پر طرح طرح کے ظلم ہوتے تھے۔ محمد صاحب نے اس کے برخلاف کیا یعنی وہ فوراً ان حکومتوں پر حملہ آور ہوئے جو ان کی فرمانبردار نہ ہوئیں اور خود دینی اور دنیاوی اختیارات کی باگ اپنے ہاتھ میں لی اور اسلام یوں شروع ہی سے نہ صرف مذہب ہی رہا بلکہ ایک دنیاوی سلطنت بھی قرارپایا۔ سیدنا عیسیٰ مسیح نے صاف دنیاوی بادشاہت اور خدا کی بادشاہت میں فرق بتایاجو چیزيں قیصر کی ہیں قیصر کو اور جو خدا کی ہیں خدا کو دو۔ مگر محمد صاحب نے دنیاوی سلطنت اور مذہب میں اختیار نہ کیا اور بذات خودایک خدا کے پیغمبر کے اور ایک دنیاوی قیصر کے اختیارات لے لئے۔ایک عام فہم آدمی یہ کہہ سکتاہے کہ اسلام کا کمال اس میں ہے کہ اس میں دنیاوی بادشاہت اور مذہب ایک ساتھ رکھے گئے مگر مسیحی مذہب میں چونکہ یہ نہیں ہے لہذا وہ نامکمل ہے پر درحقیقت مذہب اور سلطنت کا باہم ملادینا بے شمار کمزوریوں کا اور تنزل کا باعث تواریخ سے ثابت ہوچکا ہے او ربرعکس اس کے جہاں جہاں مذہب اور سلطنت علیحدہٰ علیحدہ قرار دئے گئے وہاں طاقت ظاہرہوئی اور بے شمار باتوں میں ترقی پیدا ہوئی ۔ چونکہ اسلام میں دنیاوی حکومت ملائی گئی لہذا وہ لوگ جنہوں نے دولت اور طاقت کو سچائی پاکیزگی اور خدا کی رفاقت سے بہتر جانا اس کی طرف مائل ہوگئے اس سبب سے بحیثیت مذہب یہ صاف وپاک نہ رہ سکا پرچونکہ مسیحی مذہب نے شروع ہی سے دنیاوی حکومت کو برطرف کیا اور خدا کے ساتھ پوری رفاقت پرزور دیا اورچونکہ اس پر طرح طرح کے ظلم برپا ہوئے لہذا دنیا دار لوگ اس میں داخل نہ ہوئے پس یہ شروع ہی سے اپنے بانی مسیح کی روحانی پاکیزگی اور بزرگی میں بڑھتا گیا جس کے گواہ دشمن بھی ہیں۔اسلام کی یہ بڑی غلطی جس کی رو سے مذہب اور سلطنت ملائے گئے بہت سی باتوں میں ظاہر ہوتی ہے جس سے یہ مذہب مسیحی مذہب کی طرح کل بنی نوع انسان کے لئے یکساں موزوں نہیں ہوسکا پر اس سے کم ہی رہا لہذا یہ روحانی ترقی کا اعلیٰ درجہ بمقابلہ مسیحی مذہب کے پیش نہیں کرتا۔ اب ہم ان چند برائیوں کا ذکر کرینگے جو کہ سلطنت او رمذہب کو ملانے سے پیدا ہوتی ہے۔

مذہبی روسے پہلی غلطی یہ ہے کہ محمد صاحب کے بعد خلیفوں یا اس کے اور جانشینوں کا ہونا لازمی ٹھہرا۔ اگر وہ صرف ایک مذہب ہی کا بانی ہوتا تو خلفا ءکی کوئی ضرورت نہ ہوتی پر صرف استادوں کی ضرورت ہوتی جو اس مذہب کو سکھاتے اور لوگوں کی جو اس پر عمل کرتے جیساک سیدنا مسیح نے اپنے بعد کوئی خلیفہ نہ مقرر کیا مگر صرف استاد اور مبشروں کو ٹھہرایا جن کے وسیلہ سے اس کا مذہب اپنی ذاتی روحانی قدرت کے سبب تمام بنی آدم میں پھیل گیا۔ سیدنا مسیح نے بحثییت مسیحی مذہب کے بانی ہونے کے اپنے بعد کوئی جانشین نہ مقرر کیا کیونکہ اس نے بذات خود نجات کے کام کو پوری طرح کامل کرکے ختم کیا اور کوئی ضرورت باقی نہ چھوڑی سوائے اس کے کہ لوگ اس کو سچائی اور ایمان سے قبول کریں۔ایک اور سبب سے اس کے جانشین ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ خود مردوں میں سے زندہ ہوا اورا ب اپنی کلیسیا میں بشخصیہ ایک نادیدہ صورت میں موجود رہتاہے بلکہ ہر ایک ایماندار کے دل میں بحیثیت خداوند حاضر رہتاہے۔ برعکس اس کے چونکہ محمد صاحب نے مذہب کی جگہ ایک حکومت کی بنیاد ڈالی لہذا اس کے بعد خلفا کا یا جانشین کا ہونا لازم ٹھہرا۔ محمد صاحب چونکہ خود نبی اور سلطان تھے لہذا ان کا دوسرا جانشین اعلیٰ امیر المومنین یعنی ایمانداروں کا حاکم کہلایا۔ چونکہ اسلام میں مذہب او رحکومت دونوں ملی ہوئی تھیں اس لئے خلفا نے اس کی تعلیم کے موافق سب مسلمان رعایا سے پوری اطاعت قبول کروائی اور رعایا نے بھی ایسوں ہی کی حکومت کو قبول کیا جنہوں نے مذہب اور سلطنت دونوں کو ملا کر پیش کیا۔ لہذا خلفا او رمسلمانوں کو اس طور کے کام کےسبب مذہب بحیثیت مذہب ایک طرف کرنا پڑا اور اسلام نے دنیاوی حکومت کی شکل اختیار کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بھی حکومتوں کی طرح زوال پذیر ہوا۔ خلفاچونکہ مذہبی استاد وں کے عوض دنیاوی حاکم تھے لہذا طرح طرح کی سازشوں میں پڑگئے جیساکہ اور دنیاکے حاکموں کا طور ہے اوریوں مذہب کے اصلی مقصد سے دور ہوگئے اور یہ بھی دیکھنے میں آیاکہ بہت جلد مسلمان ایک دوسرے سے جدا ہوگئے جیساکہ جنگ ِ ناقہ سے معلوم ہوتاہے جہاں صرف محمد صاحب کی موت کے ۲۵ برس ہی کے بعد قریباً دس ہزار مسلمان اپنے ہی بھايئوں سے قتل کئے گئے ۔ یہ بات بھی سب کو معلوم ہے چار میں سے تین خلفا کا انجام کیساہولناک ہوا ایک تو ایک فارسی سے مارا گیا جس نے اپنے ملک کی خاطر اس کو قتل کرکے بدلہ لیا اور دوملکی معاملات کی وجہ سے مسلمانوں ہی کے ہاتھ سے مارے گئے اور چوتھا علی جو کہ محمد صاحب کا بھائی اور داماد تھا نہ تو معاویہ کو مغلوب کرسکا او رنہ ہی سیریا کے مسلمانوں کو اپنے ماتحت لاسکا اورعلی کے بعد اس کا بیٹا حسن انہی ملکی سازشوں کے باعث اپنے باپ کا جانشین نہ ہوسکا بلکہ سلطنت کو اپنے دشمن کے حوالہ کرنا پڑا۔ قابل غور بات یہ بھی ہے کہ ان چاروں خلفا کے حقوق پر اتنا تنازع ہے کہ مسلمان دو بڑے فرقوں میں منقسم ہیں یعنی شیعہ اور سنی جو کہ ایک دوسرے سے نفرت کرتے لعن طعن کرتے اور بسا اوقات لڑتے بھی ہیں۔ اب یہ ہر ایک پر روشن ہے کہ یہ سب باتیں شروع ہی سے کمزوری اور تنزلی کا باعث ہیں اور اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ قرآن میں مذہب اور دنیاوی حکومت دونوں کو ملادیا گیاہے یہ بات سچ ہے کہ مسیحی قوموں میں بھی مذہبی جنگ اور جدل ہوئے مگر یہ مسیح کے آسمان پر چلے جانے کے کئی سو برس بعد واقع ہوئے مگر ان کا سبب لوگو ں کی جہالت اور کم علمی تھا خصوصاً زندہ اور سچے ایمان کی پیروی نہ کرنا تھا جو مسیح اور اس کے شاگردوں نے اپنی پاک زندگیوں سے ظاہر کیا تھا۔

ایک اور برائی جو اس سبب سے ظاہر ہوئی وہ خصوصاً غیر مسلمانوں کے لئے پیدا ہوئی ۔ مسیحی مذہب تو غیر مسیحیوں کےلئے یہ سکھاتا ہے کہ ان کو رحم کی نظر سے دیکھا جائے کیونکہ وہ راہ ِ راست سے گمراہ شدہ لوگ ہیں ان کو محبت سے آسمانی باپ کی طرف راغب کیا جائے تاکہ وہ سچی توبہ کرکے سیدنا مسیح پر زندہ ایمان لاکر اپنے گناہوں سے بچ جائیں مگر مسلمانوں کو غیر مسلمانوں کے لئے یہ تعلیم ملتی ہے کہ وہ نہ صرف کافر بلکہ ملک کے دشمن سمجھے جائیں اور ان سے جبراً اطاعت قبول کروائی جائے ۔ قرآن میں بھی یہ تعلیم پائی جاتی ہے " کافروں سے لڑو یہاں تک کہ لڑائی ختم ہوجائے اور خدا کاایک ہی مذہب قائم ہوجائے (سورہ انفال آیت ۴۰) اور مائدہ آیت ۶۶ میں یوں لکھا ہے" اے رسول تو ایمانداروں کو لڑنے کے لئے ابھاراگر بیس تم میں سے کمربستہ ہوکر لڑیں تو دوسو کو شکست دینگے اور اگر سوہوں تو ہزارکافروں کو شکست دینگے کیونکہ کافر عقل ودانائی سے خالی ہیں" ان آیات کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کو اجازت تھی کہ وہ منکروں کو جبراً رسول کے فرمانبردار بنائیں کیونکہ یہ ان حکموں سے ثابت ہوتاہے جو محمد صاحب نے ساتویں ہجری میں تمام قرب وجوار کے بادشاہوں کے پاس بھیجے کہ وہ سب اس کی اطاعت وفرمانبرداری کریں۔ او رپھر یہ ان تباہ کن لڑائیوں سے ثابت ہوتاہے جوکہ مسلمانوں نے غیروں کو رسول کی تابعداری میں لانے کے لئے کیں۔ علاوہ اس کے واقدی کا محرر اس بات کو ان الفاظ سے ثابت کرتاہے جو محمد صاحب نے مرنے سے پہلے کہے " میرے لوگوں میں سے ایک فرقہ ایسا ہوگا جو حق کے لئے لڑنے سے جب تک کہ دجال نہ آوے باز نہ رہیگا" یہ سب حکم بے فائدہ نہ رہے ۔ تواریخ سے معلوم ہوتاہے کہ مسلمانوں نے نہایت کوشش اور سرگرمی سے ان پر عمل کیا اور بہت سے ملک لڑائیوں کے شور وغل سے تباہ ہوگئے جو مذہب کی آڑ میں لڑی جاتی تھیں۔ جب فتوحات ختم ہوئیں تب بھی ملک تباہی اور خستگی میں مبتلا رہے۔ اگر مفتوح قومیں اپنے مذہب پر رہنے میں اصرار کرتیں تو فاتح فوج بجائے اس کے کہ خود انکاری او رمحبت سے پیش آئے ان کو طرح طرح کی تکلیفوں سے دکھ پہنچاتی۔ کوئی بھی ایسا ملک نہیں جو مسلمانوں نے فتح کیا ہو اور اس کے باشندوں کو جودوسرے مذاہب کے تھے اپنے ساتھ برابر کے حقوق دئے ہوں۔ برعکس اس کے ان کے ساتھ مفتوح قوم کا سا سلوک کرتے تھے جومجبوراً مسلمانوں کو اپنا سردار تسلیم کرتے۔ یہ حال ایسا بڑھ گیاکہ سرکاری خط وکتابت میں بھی ان کو برُے برُے ناموں سے منسوب کیا جاتا تھا پس ان باتوں سے ظاہر ہے کہ چونکہ اسلام میں دنیاوی حکومت اور مذہب کو باہم ملایا گیا لہذا نہ صرف اس سے مذہبی پاکیزگی اور روحانیت جاتی رہی بلکہ وہ سلطنت کے ایک خاص فرض کو بھی نہ انجام دے سکا یعنی اس نے اپنی رعایا کو انصاف اور حق پسندی سے نہ رکھا اور ایک کودوسرے پر بے انصافی سے ترجیح دی ۔ گو یہ خوشی کا باعث ہے کہ حال ہی میں مسلمانوں کی سب سے بڑی موجودہ سلطنت یعنی ترکی نے یہ قانونا ً نا جائز ٹھہرایا کہ کسی غیر مسلمان کو سرکاری خط وکتاب میں براُ بھلا کہا جائے اور اب ان غیر مسلمانوں کے ساتھ کم از کم براُ سلوک نہیں کرتے پر مسلمانوں کی حکومت کی یہ قابل تعریف بات جو کہ انہو ں نے غیروں کو انصاف اور حق پسندی کے ساتھ سلوک کرنے میں ظاہر کی قرآن کی تعلیم کے باعث یا مذہبی اثر کے باعث نہیں بلکہ یہ موجودہ سلطان کی اس چال کے بموجب ہے جو اس نے اپنے ملک میں مسیحی ملکوں کے موافق اصلاح جاری کرنے کی غرض سے اختیار کی ۔ حاصل کلام یہ ہے کہ اس مذہبی اور دنیاوی حکومت کے ملانے کے سبب خونریز لڑائیوں کی ابتداہوئی جوکہ بے شمار فوجوں کے رکھنے کے باعث خود بخود واقع ہوئیں ملکوں پر طرح طرح کی تکالیف آئیں اور لوگوں کو بدتر اور خراب حالت میں پہنچایا ۔ مسیحی مذہب چونکہ صرف ایک مذہب تھا لہذا شروع ہی سے صلح وسلامتی کے طریقوں سے اور پاک نمونہ سے پھیلایا گیا۔ اگر کوئی مسیحی ملک کی سلطنت اپنی فوجوں کو مسلمانوں یا بت پرستوں کو جبراً مسیحی بنانے کے لئے بھیجے تو یہ مسیح کی تعلیم کے او رہر ایک مسیحی کی خواہش کے بالکل خلاف ہوگا۔ گو دونوں مذاہب کی اشاعت میں اتنا بڑا فرق ہے لیکن تو بھی مسیحی مذہب بہ نسبت اسلام کے دنیا میں جلد اور زیادہ پھیلتا جاتاہے او ریہ اپنی برکتیں بغیر خون بہائے یا ظلم کے ان سب پر جو اس کو قبول کرتے ہیں۔ نازل کرتاہے جبکہ اسلام طبعی طور پر غیروں پر جو اس کو رد کرتے ہیں لڑائی کرنے کے لئے اور ان کو اپنے تابع کرنے پر مجبور ہوتاہے تاکہ وہ اپنے پیروں کو کسی طرح کے فائدے پہنچائے۔ ان دونوں حالتوں پر نظر رکھ کر ہرایک بے تعصب شخص پر یہ روشن ہوجاتاہے کہ ان دونوں مذاہب میں سے کونسا بلحاظ فائدہ پہنچانے کے بہتر اور اعلیٰ ہے یا کونسا لوگوں کی ضروریات کے مطابق اپنی ذات میں اچھا ہے۔

اب جیساکہ اسلام اپنے ملکی اور مذہبی تعلق کے لحاظ سے غیر مسلمانوں کے لئے نقصان دہ ثابت ہوا ویسا ہی وہ مسلمانوں کے لئے بھی کوئی بڑے فائدہ کا باعث ثابت نہیں ہوتا۔ان کے لئے بھی یہ نقصان کا باعث ہے کیونکہ جبکہ اس میں ملکی او رمذہبی قانون میں امتیاز نہیں کہ دونوں ایک ہی منبع یعنی اس کے بانی سے اخذ کئے جاتےہیں تو یہ نتیجہ نکلتاہے کہ مسلمان سلطنت مذہبی فرائض کو اسی زور وجبر سے پیش کرنے پر مجبور ہوگی جیسا کہ ملکی فرائض کو۔ لیکن یہ مسلمانوں کی اخلاقی ترقی کے لئے ایک نہایت خطرناک بات ہے کیونکہ جب تک مذہبی فرائض دلی خواہش سے اور خدا کی فرمانبرداری اور محبت سے پورے نہ کئے جائیں خداکو منظور نہیں ہوتے اور اگر یہ ظاہرداری کے لئے یا بیرونی حکم کے زور سے کئے جائیں تو یہ صرف فرضی ہونگے او رمکاری پر مبنی ہونگے ۔ فرض کرو کہ اگر کوئی مسلمان چاہے کہ ماہِ رمضان میں روزہ نہ رکھے اور وہ اس بات کا قائل ہو کہ یہ خدا کی مرضی نہیں پر تو یہ بھی وہ لوگوں کے ڈر سے یا سزا کے ڈر سے جس میں اس کو گدھے پر دُم کی طرف منہ کرکے بیٹھ کر شہر میں گھومنا پڑے روزہ رکھے تو ایسے مذہبی فرائض کا ادا نہ کرنا صرف خدا کو نا منظور ہوتاہے بلکہ سراسر مکاری مانا جاتاہے۔ اس طرح اسلام چونکہ مذہبی فرائض کو حکماً جاری کرتاہے لہذا وہ ایک مکاری بڑھانے کا یعنی گناہ کرانے کا سبب ہوا۔ ممکن ہے کہ کوئی مسلمان قائل ہوجائے کہ اسلام سچا مذہب نہیں اور وہ دوسرے مذہب کی جس کو وہ سچا خیال کرے پیروی کرنی چاہے پر اگر وہ اس خوف سے کہ مذہب کی تبدیلی شاید موت کا فتویٰ جاری کروائے ظاہر اطور پر اپنی مرضی کے خلاف مسلمان ہی رہے تو یہ ایک سخت بزدلی اورمکاری ہوگی جوکہ وہ اسلامی مذہب کی تعلیم کی رو سے کرنے پر مجبور ہوتاہے بھلا ایک آدمی کو اس کی مرضی کے خلاف جبراً ایک مذہب میں رکھنے سے کیا فائدہ حاصل ہوتاہے؟ ایسا حکم ہرگز خدا کی جانب سے نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ کبھی کسی آدمی کو اس کی مرضی کے خلاف کسی مذہب میں رہنے یا نہ رہنے کے لئے مجبور نہیں کرتا بلکہ اس پر سچائی کودلیلوں سے اور ، اور باتوں سے ظاہر کرتا ہے جواس کی طبیعت کو رفتہ رفتہ اس طرف مائل کرتی ہیں۔ وہ ایسی دلیلوں سے ظاہر کرتاہے جو انسان کی عقل اگر وہ اچھی طرح استعمال کی جائے بآسانی سمجھ لے او رایسے طریقوں سے پیش کرتاہے جس کی انسان کا دل خود بخود اختیار کرتاہے ۔قرآن میں خود اسکی تائید کی گئی ہے دیکھو سورہ بقرہ آیت ۲۵۷" مذہب میں کسی قسم کی زبردستی نہ ہو" مگر یہ آیت بالکل برطرف کردی گئی اور دوسری آیات پر جو کہ اس کے برخلاف حکم پیش کرتی ہیں عمل کیا جاتاہے ۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ باوجود اس آیت کے مسلمانوں نے جہاں جہاں ان کا زور چلا کبھی مذہبی آزادی نہ دی بلکہ حتے المقدور دوسرے مذاہب کے لوگوں کو دبایا اور مجبور کیا کہ وہ مجبوراً اسلام قبول کریں۔ اور یہ بھی کوئی پوشیدہ بات نہیں کہ آج تک پکے مسلمان جو کہ مسیحی مذہب کے نیک اثر سے علیحدہ رہے یہ اپنا مذهبی فرض سمجھتے ہیں کہ ان لوگوں کو جو مذہب تبدیل کرنے کی جرات کریں جان سے مار ڈالیں ۔ خیال کرو کہ یہ انجیل کی تعلیم سے کس قدر مختلف ہے یوحنا ۶: ۶۶، ۶۸ میں کیا ہی مفید تعلیم پائی جاتی ہے کہ جبکہ ایک موقع پر سیدنا مسیح کے چند شاگردوں نے اس کی تعلیم کو سخت خیال کرکے اس کو چھوڑ دیا۔ اس نے یہ الفاظ اپنے بارہ رسولوں کو کہے " کیا تم بھی چلے جاؤ گے" تب ان میں سے ایک نے سب کے بدلے کہا " اے خداوند ہم کس کے پاس جائیں؟ ہمیشہ کی زندگی تو تیرے پاس ہے" ۔ اس موقع پر یہ کہدینا بجا ہے کہ اس مذہبی آزادی کو مدنظر رکھ کر ترکی سلطنت نے حال ہی میں اپنے پرانے متعصب خیالات کو چھوڑ کر اعلان کیا ہے کہ رعایا میں سے کوئی شخص جو مذہب وہ بہتر خیال کرے اختیار کرسکتاہے یہ واقعی ایک اعلیٰ بات ہے جس کو نہ صرف مسلمان ہی قابل ِ تعریف سمجھینگے بلکہ جو سنیگا تعریف کریگا۔

چونکہ اب ثابت ہوگیا کہ اسلام کا یہ ملاپ یعنی ملکی اور مذہبی مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے لئے نقصان دہ ملاپ ہے لہذا یہ خیال بھی پیدا ہوتاہے کہ شاید یہ اپنی ہی ترقی کو بھی روکنے یا اس کو نقصان پہنچانے کا سبب ہو۔ یہ تواریخ سے ظاہر ہوتاہے کہ جونہی محمد صاحب نے ملکوں کے فتح کرنیکا ارادہ کیا اس کے پیرو بڑھنے لگے اور جب اس نے لوُٹ کے مال سے ان کو مال دار کیا تو اور بہت سے عربی فرقوں نے اپنے قاصد بھیجے اور محمد صاحب کے ساتھ فرمانبرداری کی شراکت کے خواہاں ہوئے ۔ اس طرح اسلام بڑھتا رہا اورپہلے خلفا کے عہد میں جبکہ بہت سے ملک فتح ہوئے یہ بہت پھیل گیا او ران کے بعد بادشاہوں اور حاکموں کے ذریعے جو زبردست اور طاقتور تھے اس کی اشاعت ملک بملک بڑھتی گئی۔ یہ ایک طبعی بات ہے کیونکہ اس لئے کہ اسلام صرف ایک مذہب ہی نہ تھا بلکہ ملکی طاقت لہذا یہ دنیاوی سلطنت زور پکڑتی گئی اور بہتوں نے اس ترقی کو اسلام کی مذہبی صداقت کے ثابت کرنے کے لئے پیش کیا۔ فرض کرو کہ اسلام اعلیٰ اور آخری اور خداکی بادشاہت کے مکاشفہ کاسب سے بہتر مذہب ہے جوکہ اب تک دنیا کے لئے نازل کیا گیا اور کہ اس میں روحانی زندگی کا اعلیٰ معیار اور ملکی حکومت کا اعلیٰ نمونہ پایا جاتاہے تو یہ لازمی نتیجہ پیدا ہوگا کہ اس میں بحیثیت مذہب سچائی کی سب سے اعلیٰ تعلیم اور بحیثیت حکومت سب سے زیادہ ملکی فتوحات دنیاوی طاقت اور خوشحالی پائی جائے ۔ لہذا جب تک مسلمانوں کی حکومت میں اپنی فتوحات اور طاقت سے گرد ونواح کے ملکوں کو لوُٹ کر اپنے آپ کو مالا مال کیا تو ہرایک مسلمان نے اپنے مذہب کی صداقت کے ثبوت میں ان فتوحات کو کافی سمجھا۔ لیکن اگر ہم اس دلیل کو اس صورت میں مان لیں تو کیا اس دلیل کی دوسری صورت کو ہم نہ تسلیم کریں؟ کیونکہ اگر کوئی مسلمان مذہب اسلام کی پہلی فتوحات پر نظر رکھ کر اس طور سے دلیل کرے کہ ہمارا مذہب ضرور خدا کی طرف سے ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری حکومت جوکہ مذہب کا ایک خاص حصہ ہے دنیا کی اور سب حکومتوں سے فتحمند ہے تو کیا وہ اسی دلیل کو اس کی دوسری صورت میں قبول کرنے کو تیار ہوگا؟ یعنی کیا وہ یہ مانیگا کہ چونکہ ہماری حکومت جوکہ مذہب کاایک خاص حصہ ہے اب زائل ہوتی جاتی اورکہ بہت سے ہمارے ملک مسیحیوں کے قبضہ میں آتے جاتے ہیں اور کہ تین کروڑ سے زیادہ مسلمان مسیحی سلطنتوں کے باجگذارہیں اورکہ ترکی سلطنت نے بھی اپنے آپ کو قائم رکھنے کے لئے مناسب سمجھاکہ مذہب اسلام کے اصول کے برخلاف چند ایسی ضرور اصلاحیں کرے جن کے بغیر سلطنت کا قائم رہنا دشوار ہوگا کیا ان سب باتوں کو دیکھ کر ایک مسلمان ماننے کے لئے تیار ہوگاکہ چونکہ ملکی حکومت دن بدن کمزور ہوتی جاتی ہے لہذا مذہب اسلام بھی اپنی طاقت اور اثر میں کم ہوتاجاتاہے؟ چونکہ اسلام میں مذہب او رحکومت ملادئے گئے ہیں لہذا ہر ایک سمجھدار مسلمان کے سامنے ایسی ایسی دلائل ضرور پیش آئینگی کیونکہ جب جب ان باتوں پر خیال کا جائیگا فوراً یہ عرب کے پیغمبر کے مذہبی اصول کے خلاف نتائج پیش کریگی خصوصاً ان جگہوں کو مد نظر رکھ کر جو کہ اب مسلمانوں کی حکومت سے نکل کر مسیحی یا غیر مسیحی لوگوں کے ہاتھ آئیں مندرجہ ذیل نتائج ہر ایک مسلمان کی عقل سلیم کے سامنے پیش آئينگے کہ اصولاً اسلام شروع ہی سے بجائے ایک خالص مذہب ہونے کے ایک ملکی حکومت رہا ہےیا یوں کہیں کہ اس میں دینی ودنیاوی معاملات اس طرح سے ملادئے گویا ایک ہوگئے اور کہ اب ایک کا تنزل پذیرہونا دوسرے کو بھی گھٹاتاہے۔ برعکس اس کے مسیحی مذہب یہ صریحاً جتلاتاہے کہ اس کا مقصد یہ ہرگز نہیں کہ ایک دنیاوی بادشاہت قائم کرے بلکہ یہ ہے کہ انسان کو گناہ اور شیطان کی ہلاک کرنیوالی طاقت سے بچا کر ا س کو پھر خداکی رفاقت میں پہنچادے۔ لیکن باوجود اس کے کہ اسلام ایک ملکی حکومت ہوگئی جس نے دنیا کی قوموں کو اپنے ماتحت کرنا چاہا اور باوجود اس کے کہ مسیحی مذہب فقط ایک مذہب تھا اور تین سو برس تک سخت سے سخت مظالم اٹھاکر بغیر دنیاوی مدد کے بڑھتا رہا خدا نے اپنی عقل اور دانائی کے بموجب مسلمانوں کی قومیں کو گھٹایا اور ان قوموں کو جو مسیحی مذہب کی پیرو ہوئیں اس طور سے برکت دی او ران میں ایسی ایسی عجیب خوشحالی پیدا کی کہ اب بہت سے ممالک مسیحی مذہب کے پیرو ہیں یعنی انگلستان امریکہ فرانس جرمنی آسٹریا اٹلی اور روس جن میں سے ہرایک عثمانی سلطنت سے جوکہ تمام موجودہ مسلمانوں کی حکومتوں میں سب سے زیادہ تعلیم یافتہ اور طاقتور خیال کی جاتی ہے زیادہ مہذب زیادہ تعلیم یافتہ اور طاقت اور قوت میں بھی زیادہ ہے۔

مذکورہ بالا دلائل سے یہ ثابت ہوگاکہ اسلام بحیثیت مذہبی اورملکی بھی بالمقابل مسیحی مذہب کے نہ صرف اسلامی اقوام ہی میں کمزور رہا بلکہ دنیاکی اور قوموں میں بھی خاطر خواہ نہ پھیل سکا اب ہم ایک اور طرف ناظرین کی توجہ کو لگانا چاہتے ہیں جس سے اس کی کمزوری اور بھی زیادہ روشن ہوجائیگی ۔ انجیل میں خدا کی بادشاہت ایک سچے زندہ اور روحانی مذہب کی صورت میں کل ُ بنی آدم کے لئے پیش کی گئی ہے جو کسی قوم کے لئے کوئی خاص رکاوٹ نہیں رکھتی۔ لیکن جو کچھ قرآن خداکی بادشاہت کے بارے میں ایک اعلیٰ طور پر پیش کرتاہے وہ ایک خاص قومی رنگت میں رنگا ہوا اور ظاہری رسومات کے بوجھ تلے دباہوا ہے جس سے اس کی ترقی نہ صرف رک جاتی ہے بلکہ اس کو تمام دنیا میں پھیلنے سے روکتی ہے ہم نے پہلے بتادیا ہے کہ ان ظاہرار سومات کی وجہ سے یہ تمام قوموں میں نہیں پھیل سکتا کیونکہ دوسری قوموں کی عادات اور رسومات میں فرق ہے۔ اب ہم دو باتوں کو واضح طور سے بیان کرینگے یعنی عربی زبان کا جہاں لوگوں کا مذہب اسلام ہوا جاری کرنا اور دوسرے مکہ اورمدینہ کا حج ایک مذہبی فرض ٹھہرانا ۔

مکہ کے حج پر غور کرنے سے معلوم ہوگاکہ یہ دستور اہل ِ عرب میں قومی رسم کے طور پر محمد صاحب کے آنے کے کئی سو سال پہلے سے مانا جاتا تھا۔ مختلف فرقے جبکہ بت پرست ہی تھے سال میں ایک دفعہ مکہ کی عبادت گاہ میں جمع ہوتے اور اس عرصہ میں وہ اپنے سارے ذاتی لڑائی جھگڑوں کو برطرف کرکے آپس میں بھائیوں کی طرح ایک قوم کے ملتے تھے۔ یہ قومی نقطہ خیال سے اچھی بات تھی کیونکہ بدقوموں کے لئے جو جگہ بجگہ پھرتے تھے یہ ایک بڑی خود انکاری کا باعث ہوتی اور ان کو ایک دوسرے سے ملاتی تھی۔ پر جب یہ دستور محمد صاحب نے بھی اختیار کیا اور اس کوکلُ قوموں کے لئے فرض ٹھہرایا تو اس کے ذریعے سے دو بڑے نقصان پیدا ہوئے اول یہ سب مان لینگے کہ اگرچہ اس دستور پر عمل کرنا اہل عرب کے لئے مشکل نہ تھا کیونکہ ان کے پاس اونٹ اور گھوڑے بکثرت پائے جاتے تھے پر چونکہ اب مسلمان ترکی فارس افغانستان ہندوستان الجیریا ،مراکو اور افریقہ کے دور دراز ملکوں میں پائے جاتے ہیں لہذا یہ ان کے لئے خصوصاً غریبوں کے لئے نہایت مشکل ہوگیا کہ وقت اور روپیہ کو صرف کرکے اس دور دراز حج کو کریں اور اس طرح اگر اسلام دنیاکی اور بھی دور جگہوں میں پھیل جائے تو ان باشندوں کے لئے یہ غیر ممکن ہوگا کہ وہاں سے آکر اس فرض کو ادا کریں اور اس کے اجر سے فیضاب ہوں۔ اب اس مذہب کے کل بنی آدم کے لئے ہونے کے لئے کونسی دانائی اور بہتری خیال کی جائیگی جبکہ اس کے پیرووں میں سے بہت سے اس فرض کے ادا کرنے میں قاصر ہونگے۔دوسرا نقصان یہ ہے کہ مکہ اور مدینہ کا حج کرنا چونکہ فرض ٹھہرایا گیا لہذا یہ شہر گویا مسلمانوں کے لئے مرکز قرار دئے گئے جس جگہ جاکر وہ زیارت کریں اور اس کے اثر سے موثر ہوں یعنی یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ مذہب اسلام میں جہاں تک عرب کے طور اور طریقے قائم رکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اسکے قائم رکھنے میں کوئی نقصان پیدا نہ ہوتا اگر مذہب صرف عربی فرقوں کے لئے ہوتا پر چونکہ یہ دنیا کی اور سب قوموں کے لئے بھی پیش کیا جاتاہے لہذا خاص عربی طوروطریق کا قائم رکھنا دوسری قوموں کے لئے مشکلات پیدا کرتاہے کیونکہ جبکہ عربی قوم کو اتنی بڑی بزرگی دی لہذا دوسری قوموں کو ان کی نظر میں ہیچ اور نا چیز جانا۔ یہ بیان موجودہ حالت پرغورکرنے سے صاف ہوجائیگا۔ اہل عرب کو آج کل خو د مختاری حاصل نہیں بلکہ سلطنت عثمانیہ کے ماتحت ہے پر چونکہ وہ مسلمان ہیں لہذا ان سے طلب کیا جاتاہے کہ وہ عرب کے دور دراز ملک کا سفر کریں او راپنے دارالخلافہ استنبول کو چھوڑ کر مکہ ومدینہ کو زیادہ عزت کی نگاہ سے دیکھیں کیونکہ مذہبی روسے یہ خدا کی نظر میں زیادہ پسندیدہ ہیں۔ کیا ایسے کرنے سے ایک قوم کو دوسری قوم پر بے جا بڑائی نہیں حاصل ہوتی؟خیال کرو کہ مسیحی مذہب اس سے کیسا مختلف ہے اس کی رو سے کسی شہر یا ملک کی زیارت درکار نہیں بلکہ ہرایک شہر یا ملک اپنی اپنی جگہ بلحاظ مذہب کی باطنی پاکیزگی اور روحانیت کے اچھا ہے۔

دوسری وجہ جس کی رو سے اسلام قومی رنگ ڈھنگ کو علیحدہ نہیں کرسکتا اور کل ُ دنیا کے لئے مقبول ِ عام نہیں قرار دیا جاتا اس کا عربی زبان پر زور دینا ہے۔ اس بات کو واضح کرنے کےلئے آؤ ہم مسلمان اقوام کی زبانوں پر غور کریں مثلاً ترکی فارسی اور اردو جن سب میں کچھ نہ کچھ عربی الفاظ شامل ہیں۔ پر اسلام کی سب سے بڑی زبردستی اس بات میں ہے کہ وہ اپنے پیرووں کو خواہ وہ کسی قوم یا ملک کے ہوں قرآن کو صرف عربی ہی زبان میں پڑھنے پر مجبور کررہاہے بجائے اس کے کہ وہ اپنی اپنی زبانوں میں سہولیت سے اس کوپڑھیں اور سمجھیں یہ زبردستی بے جا طور سے عربی زبان کو بزرگی دیتی اور اسکو ایک خاص طور سے پاکیزه شمار کرتی اور اس کے مقابلہ میں دوسری زبانوں کو حقیر سمجھتی او رکم وبیش ناپاک، لہذ ا جہاں جہاں محمدی مذہب پھیلا وہاں علم الہٰیات کو حاصل کرنے اور عبادت وپرستش کرنے کے لئے عربی زبان لازم ٹھہری اور کوئی سچا پیروشمار نہیں کیا جاتا جو کم از کم عام دعاؤں کو عربی زبان میں جماعت کے ساتھ نہ پڑھ سکے ۔اور کوئی اپنے مذہب کی بابت جان بھی نہیں سکتا جب تک کہ وہ اس کو عربی زبان میں نہ پڑھے۔ اب یہ روشن ہے کہ کم از کم زبان کے لحاظ سے اسلام فقط ایک قومی رنگت یعنی اہل عرب کی رنگت رکھتاہے ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جہاں جہاں اسلام کی اشاعت ہو وہاں عربی زبان بھی سکھائی جائے ۔ کیا یہ مذہب کی اشاعت میں ایک بڑی سدِ راہ نہ ہوگی؟اورکیا اس کی وجہ سے اسلام بجائے اس کے کلُ دنیا کا مذہب مانا جائے ایک قومی مذہب نہ ٹھہرا؟ یہ کس طرح ہوسکتاہے کہ دنیا کی موجودہ قومیں جو کہ اب خدا سے انگریزی جرمنی فرانسیسی اور روسی زبان میں دعا مانگتی ہیں وہ عربی زبان کو سیکھنے کی رضا مند ہوں جبکہ وہ اس زبان میں اپنی دعا ایک بالکل نامکمل طور سے خدا کے سامنے پیش کرنے کے قابل ہونگی؟ یہ ہرایک قوم جس نے عرب کا مذہب اختیار کیا ہے جان سکتی ہے کہ غیر ملک کی زبان کا سیکھنا اور اس کو عبادت اور پرستش کے لئے استعمال کرنا بجائے ترقی کے تنزلی کا باعث ہوگا۔ مثال کی طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہزاروں عثمانی سلطنت میں مسلمان ہونگے جو ان دعاؤں کو بغیر سمجھے پڑھتے ہونگے اور قرآن کی سورتوں کو بغیر مطلب جانے سنتے ہونگے اور ہزاروں ایسےہونگے جوان کو صرف تھوڑا سمجھتے ہیں اور جوکہ بہت زیادہ فائدہ اٹھاتے اگر ان ہی دعاؤں کو اپنی ترکی زبان میں پڑھتے کوئی آدمی اس میں شک نہ کریگا کہ سب سے فائدہ مند اورطبعی دعا مانگنے کا اور کلام پڑھنے کا طریقہ اپنی زبان میں مانگنا اور پڑھنا ہے بہ نسبت اس زبان کے ذریعہ سے جس کو صرف تھوڑے سمجھیں اور بہت سے بالکل نہ سمجھیں اور یہ بھی ہرایک فیصلہ کرسکتا ہے کہ کس طریقہ سے مذہب بلحاظ زبان کلُ دنیا کے لئے ہوسکتاہے۔ کیا مسیحی مذہب ہوسکتاہے جس کی کتاب یعنی انجیل ہرایک زبان میں ترجمہ ہوکر دنیا کے کونے کونے میں پہنچائی جاتی ہے؟ یا قرآن جو صرف عربوں ہی کی زبان میں پیش کیاجاتاہے؟ کونسا مذہب اس صورت میں خدا کی مرضی اور دانائی کے مطابق ہوسکتاہے؟ کیا انجیل کا مذہب جو کہ ہر ایک قوم کو اس کی زبان میں پہنچایا جاتاہے یا عربی قرآن کاجو کہ بہت سالوں کی محنت کے بغیر عرب کے باہر سمجھا نہیں جاسکتا؟ کیاکوئی یہ قیاس کرسکتاہے کہ کل ُ دنیا (کل دنیا کیوں صرف یورپ ہی کو لے لو) ایک وقت اس قدر عربی زبان میں مہارت پیدا کرلیگی کہ سب دعائیں اسی زبان میں مانگ سکے اورخدا کاکلام بھی اسی زبان میں پڑھ سکے؟ کبھی کوئی غیر آدمی یا مسلمان جوکہ دنیا کے حالات سے واقف ہے یہ خیال کریگا شاید ہی اس کو کوئی یقین کرے پر اگر کوئی کرے تو وہ آدمی وہی ہوگا جوکہ عربی زبان کو آسمانی زبان خیال کرے ۔ جب اس طرح اسلام کو ایک قومی مذہب کے پیرائے میں اورمسیحی مذہب کو ایک مقبول عام روحانی مذہب کے پیرائے میں کوئی مقابلہ کرے تو وہ بلاشبہ اس نتیجہ پر آئیگا کہ اسلام بجائے اعلیٰ اور بہتر مذہب ہونے کے اس بلند روحانی اور مقبول ِ عام مذہب کے مقابلہ میں کہیں کمتر اور کم اثر ہے۔

(۴) بدلہ لینے کے بارے میں

ہم پہلے ذکر آئے ہیں کہ انجیل محبت صبر اور بردُباری کی تعلیم میں بمقابل موسوی شریعت کے بہت سے اعلیٰ اور بہتر ہے۔ اس تعلیم سے بڑھ کر تعلیم روحانیت اور سچائی میں ہم خیال بھی نہیں کرسکتے پر یہ دیکھ کر تعجب آتاہے کہ اسلام بجائے اس کے کہ مسیحی مذہب سے اعلیٰ روحانی تعلیم پیش کرتاہے وہ پھر اسی پرانی تعلیم کو جو کہ موسوی شریعت کے ذریعےسے دی گئی اور جس کویہودیوں نے اچھی طرح نہ سمجھا بڑے زور شور سے پیش کرتا ہے۔ محمد صاحب نے جو بدلہ لینے کی تعلیم دی وہ قرآن کے ان الفاظ سے ظاہرہے" وہ جو کہ ظلم سے قتل کیا جائے اس کے وارثوں کو ہم نے غلبہ دیدیا پھر وہ قتل کرنے میں زیادتی نہ کریں کیونکہ ان سے بھی پھر بدلہ لیا جائیگا" سورہ بنی اسرائيل آیت ۳۵ او رپھر یوں آیا ہے" اے ایماندارو تمہارے لئے مقتولوں کا قصاص لینے کا حکم لکھا گیا ہے۔آزاد کے بدلے آزاد غلام کے بدلے غلام عورت کے بدلے عورت پس جس کو اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معاف کیا جائے وہ دستور کا پابند ہوکر احسان کو مانتے ہوئے اس کو ادا کرنے "سورہ بقرآیت ۱۷۳۔ یہ بات سوچنے کے قابل ہے کہ قرآن نے توریت کی مانند اس برائی کو روکنے کی کوئی بہت کوشش نہیں کی۔ بہت سے مسلمان فرقے قرآن کی رو سے یہ خیال کرتے ہیں کہ ان کو مقتول کا بدلہ لینے کا حق ہے چاہے وہ قاتل کے خاندان اور قبیلہ میں سے کسی کا ماردیں لہذا وہ مذہب کی آڑ میں بے گناہ کو مجرم کے بدلے مارتے ہیں۔ بدلہ لینے کے ایسے اصولکے برخلاف توریت میں صاف صاف آیاہے" باپ بچوں کے بدلے مارا نہ جائے او رنہ بچے باپ کے بدلے۔ ہرایک آدمی اپنے ہی گناہ کے لئے مارا جائے " استشنا ۲۴: ۱۶ ۔ خون کے بدلے کے علاوہ قرآن میں ذاتی نقصان کے عوض میں بھی بدلہ لینا جائز ٹھہرایا ہے۔

"اورجس نے اسی قدر بدلہ لیا جتنی اس کو تکلیف دی تو الله ضرور مددکریگا" سورہ حج آیت ۵۹ ۔ ایسی تعلیم ایک سخت بدلہ لینے کی طبعیت لوگوں کے دلوں میں پیدا کریگی جوکہ انجیل کی برُدباری صبر اور حلیمی کے تعلیم کے سراسر خلاف ہوگی فرائض منصبی کوادا کرنے کےلئے انجیل کی تعلیم محبت کے اصول کو پیش کرتی ہے توریت عدل کو اور قرآن کی تعلیم ایسی ہے کہ اس پر بے انصافی اور ظلم کا الزام عائد ہوتاہے۔ یہ مسلمان بھی قبول کرتے ہیں کہ کیونکہ سلطنت عثمانیہ جیسی حکومت قرآن کے ان بے رحم احکام پر نہیں چلتی " وہ جو الله سے اور اس کے رسول سے مقابلہ کرتے ہیں او رملک میں فساد مچانے کی کوشش کرتے ہیں ان کی یہی سزا ہے کہ وہ مار ڈالے جائیں یا صلیب پر کھیچنے جائیں یا ان کے ہاتھ اور پاؤں مختلف جانب سے کاٹ ڈالے جائیں یا ملک سے نکال دیئے جائیں" سورہ مائدہ آیت ۳۹ او رپھر ۴۲ آیت میں یوں آیاہے" چور کے لئے خواہ وہ مرد ہو یا عورت یہ سزا ہے کہ اس کے ہاتھ چوری کے عوض میں کاٹ ڈالے جائيں۔"

(۵) غلامی کے بارے میں

ہم نے اوپر بیان کیاہے کہ پرانے عہد نامہ کی روسے غلامی جائز تھی مگر تو بھی غلاموں کی سختیوں کو ہلکا کردیا تھا اور ان کو قانون کی روسے بہت کچھ بچایا تھا مسیحی مذہب میں غلام رکھنا جائز قرار دیا گیا اس لئے رفتہ رفتہ اس کے اثر سے غلامی مسیحی ملکوں سے بالکل جاتی رہی۔اب یہاں ایک سوال پیدا ہوتاہے کہ کیا اسلام بمقابلہ مسیحی مذہب کے غلاموں کے حق میں زیادہ بہتر اور اعلیٰ پیش کرتاہے؟ تواریخ سے معلوم ہوتاہے کہ یہ بات ہرگز نہیں ثابت ہوئی۔ بلکہ یہ معلوم ہوتاہے کہ ہر ایک محمدی ملک میں غلاموں کی خریدو فروخت ہوتی ہے مسلمان غیر مسلمانوں کو بلکہ بعض دفعہ مسلمانوں ہی کوخریدتے یا بیچتے ہیں خصوصاً حبشیوں کو توجانوروں کی طرح مول لیتے ہیں۔ کہیں کسی جگہ اسلام نے غلاموں کی آزادی کے لئے نرمی یا فراخ حوصلگی اس قدر نہیں دکھائی کہ جس سے ان کی حالت بہتر ہوجائے۔ برعکس اس کے یورپ کی مسیحی سلطنتوں میں کہیں ایسی غلامی پائی نہیں جاتی اورکہیں انسان وحشیوں کی طرح خریدا یا بیچا نہیں جاتا۔انگلستان کی بڑی سلطنت میں جو کہ کل آبادی کا ۱/۵ حصہ ہے یہ قانون ہے کہ جو کوئی غلام اس سلطنت کی کسی جگہ اپناپاؤں دھرے وہ اس گھڑی سے آزاد شخص کیا جائيگا۔ دیکھو غلامی کے بارے میں اسلام اور مسیحی مذہب میں کتنا بڑا فرق ہے اوریہ فرق اس تعلیم کے لحاظ سے ہے کہ ان دونوں مذاہب میں انسان کے باہمی تعلقات میں پائی جاتی ہے گو قرآن میں ایسے حوالجات پائے جاتے ہیں جیسے کہ پرانے عہد نامہ میں جن میں غلاموں کے حق میں نرمی کو اختیار کرنا پیش کیا گیا ہے مگر تو بھی قرآن کی تعلیم میں دو ایک ایسی باتیں ہیں جن کی رو سے یہ نرمی بمقابلہ توریت کی تعلیم کے کچھ حقیقت نہیں رکھتی۔قرآن میں غلام عورتوں کے حقوق پر کچھ نہیں کہا گیا بلکہ ان کو سراسر مالکوں کے اختیار میں چھوڑ دیا جبکہ توریت میں آدمی اور عورت دونوں کا حق برابر رکھا گیا ہے ۔ یہ سوائے اس کے ظلم ہو اور کیا ہوسکتا ہے کیونکہ عورتوں کی پاکیزگی کا جو ایک نہایت اعلیٰ خوبی ہے کچھ لحاظ نہیں رکھا گیا۔ قرآن کی اس آیت سے اس امر کی صداقت ظاہر ہوگی " ایمانداروں کو پرہیزگار ہونا چاہیے بجز اپنی بیویوں کے او راپنے ہاتھ کے مال کے (لونڈیوں کے ) کیونکہ ان کے لحاظ سے ان پر کچھ ملامت نہیں" سورة المعارج آیات ۲۹، ۳۰ او رپھر غور کرو " تم پر حرام ہیں حرمت والی بیویاں مگر ہاں تمہارے ہاتھ کی ملک ہوجائیں" سورہ النسا آیت ۲۸ ۔ اسی طرح سے اور حوالجات دئے جاسکتے ہیں پر یہ کافی طور سے ظاہر کرتے ہیں کہ عورتوں کا خصوصاً غلام عورتوں کا کیا درجہ تھا۔ مگر توریت میں یہ آیا ہے کہ ہرایک غلام اپنے آقا کی چھ سال تک خدمت کرے اور ساتویں سال آزاد کیا جائے خروج ۲۱: ۲ اورجو آقا اپنے غلام کو جان سے مارے وہ سزا پائےخروج ۲۱: ۲۶، ۲۷ ۔ پر قرآن میں ایسی تعلیم کہیں نہیں ملتی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آقا اپنے غلاموں سے مسلمان ملکوں میں جو چاہیں بدسلوکی کرسکتے ہیں جس کے لئے توریت کی روسے وہ کبھی سزا سے بچ نہ سکتے تھے۔لہذا یہ صاف صاف ثابت ہوگیا کہ غلام توریت کی رو سے بمقابلہ قرآن کے زیادہ محفوظ اور بہتر حالت میں ہیں۔ یہ ایک مانی ہوئی بات ہے کہ غلامی ہر ایک مسلمان ملک میں جائز ہے اور کسی مسلمان ملک سے یہ ابھی تک خارج نہیں کی گئی ۔ برخلاف اس کے کہ یورپ کے تمام مسیحی ملکوں میں غلامی کا صرف نام ہی باقی رہ گیا اورہرایک انسان آزاد ہے۔ انگلستا ن نے تو یہاں تک کیا کہ اس نے ان تمام غلاموں کو جواسکی سلطنت کے نیچے آئے بالکل آزاد کردیا اور ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کو اس بری حالت سے رہائی دی پس اب یہ ہرایک فیصلہ کرسکتا ہے کہ اسلام غلاموں اور غلامی کی رو سے بجائے اس کے کہ مسیحی مذہب سے زیادہ انصاف پسند ۔ مہربان اور بہتر ہوتا اس سے کہیں گرا ہوا ہے بلکہ موسوی شریعت سے بھی گیا گزراثابت ہوتاہے۔

(۶) کثرتِ ازدواجی اور طلاق کے بارے میں

یہ آخری بات تھی جس کی رو سے ہم نے نئے او رپرانے عہد نامہ کا مقابلہ کیا تھا اور یہ ظاہر کیا تھا کہ نئے عہد نامہ کی تعلیم پرانے عہد نامہ سے بہتر اور اعلیٰ ہے ۔ کیونکہ موسوی شریعت میں کثرت ِ ازدواجی کی مخالفت نہیں اور طلاق کی اجازت ہے پر برعکس اس کے سیدنا عیسیٰ مسیح کی انجیل طلاق اور کثرت ِ ازدواجی دونوں کے برخلاف ہے اور عورت کو ان تمام بندشوں سے جو کہ اس کی آزادی میں خلل انداز ہیں چھٹکارا دیتی ہے۔ اب ہم یہاں غور کرینگے کہ آیا اسلام اس لحاظ سے مسیحی مذہب سے بہتر اور اعلیٰ تعلیم پیش کرتاہے یا کہ اس سے کم۔

کثرت ازادواجی کی قرآن میں نہ صرف مسیحی مذہب سے بڑھ کر ممانعت کی گئی بلکہ موسوی شریعت کی مانند اس کی کسی صورت میں بندش بھی نہیں ۔ بمقابل پہلی تعلیم کے اس تعلیم کے لحاظ سے قرآن بالکل پیچھے رہ جاتاہے کیونکہ کثرت ازدواجی کو جاری رکھنے کے لئے سورہ نساء آیت ۳ میں یوں آیا ہے" اگر تم کو اس بات کا ڈر ہوکہ ہم یتیم لڑکیوں کے حق میں انصاف نہ کرسکینگے تو ان عورتوں میں سے جو تمہیں اچھی معلوم ہوں نکاح کرو دودو تین تین چار چار اور اگر تم کو ڈرہو کہ عدل نہ کرسکوگے تو صرف ایک ہی یا وہ جن کے تمہارے ہاتھ مالک ہوچکے ہوں" اب جبکہ ہر ایک مسلمان جو چاہے اور جو طاقت رکھتا ہو چاربیویوں سے ایک ہی وقت نکاح کرسکتاہے اور جتنی لونڈیوں سے چاہے بغیر نکاح کے مباشرت کرسکے تو اس کا نتیجہ کیا ہوگا ؟ محمد صاحب کو خود دیکھو کہ انہوں نے اپنے حق میں یہ کہاں تک جائز رکھا؟ ان کی دس سے زیادہ بیویاں تھیں اورسوا لونڈیوں کے اور اسکی منظوری بحیثیت ِ نبی قرآن میں یوں آئی ہے" اے نبی بیشک ہم نے تجھکو تیری وہ بیویاں حلال کیں جن کے تو مہردے چکا اور جو تیرے ہاتھ کا مال ہو(یعنی لونڈیاں ) جو الله تیری طرف لایا تیرے چچا کی بیٹياں تیری پھوپھی کی بیٹياں تیرے ماموں کی بیٹياں اور تیری خالاؤں کی بیٹياں جنہوں نے تیرے ساتھہ ہجرت کی اور ہر ایماندار عورت جو اپنا نفس نبی کو بخش تھے بشرطیکہ نبی اس سے نکاح کرنا چاہے۔ یہ خاص تیرے ہی لئے ہیں نہ اور ایمانداروں کے لئے " سورہ احزاب آیت ۴۹ ۔ جبکہ قرآن کی تعلیم ایسی اور نبی کانمونہ ایسا ہو تو تعجب کی کیا بات ہے کہ سب مسلمان ملکوں میں باوجود خانگی مشکلات کے اب تک کثرت ازدواجی پائی جائے؟ اس لئے عورتوں کی غلامی خاص طور سےجائز ہے نہ اس لئے کہ ان کی خدمت کروائی جائے پر صرف شہوت پرستی کے لحاظ سے ۔ لیکن یہ حالت نیک اور عادل خدا کی نگاہ میں ہرگز مناسب نہیں ہوسکتی کیونکہ یہ شادی کی پاکیزگی کو ردکرتی ہے جس کی روسے عورت کا وہ رشتہ جو خدا نے ٹھہرایا ٹوٹ جاتا ہے یعنی عورت ایک ذی عقل ساتھی اور مددگار نہیں رہتی بلکہ صرف ایک خادمہ کی مانند ہوجاتی ہے جو صرف انسان کی شہورت کو دور کرے ۔ کثرت ازدواجی چونکہ خاوند اورجورو میں یگانگی کودور کرتی ہے اور خاندانی خوشی کی مٹا دیتی ہے لہذا یہ خدا کے اس بڑے ارادے کو توڑدیتی ہے جو اس نے ایک خاوند ایک جورو کے رشتہ میں رکھا۔ شادی کے عام معنی یہ ہیں کہ خاوند اور جورو میں یگانگی اورملاپ ہو ایسا کہ وہ خوشی سے زندگی بسر کرسکیں اب اگرآدمی کی کئی بیویاں ہو جوکہ صرف اپنا خاوند سمجھیں اور اس سے وفادار رہیں تو وہ اکیلا آدمی کیونکر ہرایک کو ایک ہی سمجھ کر پیار کرسکتا ہے جبکہ وہ خود ایک ہی شخص ہے؟ کثرت ازدواجی میں شادی کی اصلی حالت کی یگانگی نہیں ہوسکتی اور خاوند اور جورو ایک دوسرے پر پورے طور سے بھروسا نہیں رکھ سکتے کیونکہ جبکہ ہرایک بیوی تو خاوند کو پورے طور سے پیار کرے لہذا اس پیار کی روسے وہ آدمی کسی کا بھی سچا اور حقیقی خاوند نہ ہوا۔ جبکہ خاوند اور جورو میں یہ حال ہوتوکیونکر خاندان میں امن وخوشی ہوسکتی ہے؟ ان لوگوں کا گھر جو کہ کثرت ازدواجی پر عمل کرتے ہیں کبھی ایک جا اور ایک دل ہوکر نہیں رہ سکتا بلکہ اگر رہے بھی تو ان کی حالت ایسی ہوگی جیسے بہت سے اور جدا جدا گھر۔ ہرایک اپنے بچوں کے ساتھ اپنے ہی ذاتی فائدے کو نگاہ میں رکھیگی وہ دوسری عورتوں سے اپنے خاوند سے بھی جدا خیالات رکھیگی۔ لہذا اس کا نتیجہ وہی ہوتاہے جو کہ عرب کے پیغمبر کے خاندان کا ہوا (مقابلہ کرو سورہ مریم آیت ۵) یعنی جہاں ایک سے زیادہ بیویاں ہونگی وہاں بے شمار جھگڑے اور جدائياں ہونگی۔ اس بات کو مد نظر رکھ کر یہ تعجب انگیز نہ ہوگا اگر ہم دیکھیں کہ باوجود کثرت ازدواجی کی اجازت کے سوائے ترکی کے چند امیر مسلمانوں کے اور کوئی اس رسم کی پیروی نہیں کرتا خصوصاً غریب توبالکل نہیں کرتے ۔ جس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ کثرت ازدواجی ایک غیر طبعی رسم ہے جو کہ انسان کے لئے ہر گز موزوں نہیں۔ اور اس سے عورت کا مرتبہ بھی گرجاتاہے کیونکہ اس سے یہ نتیجہ نکلتاہے کہ چونکہ ایک عورت شادی کی حالت کے فرائض اور مناصب کو پورا نہیں کرسکتی لہذاآدمی کو اپنے لئے دو یا تین یا چار عورتیں کرنی پڑتی ہیں۔ اگر مسلمان ملکوں کی عورتیں لکھ پڑھ جائیں تو وہ کبھی اس ذلیل رسم کو گوارا نہ کرینگی۔ لہذا اس سے انکار نہیں ہوسکتا کہ اسلام نے کثرت ِ ازدواجی کو رائج کرنے سے اپنے آپ کو آسمانی خالق کے اس بڑے قانون سےدور کردیا جس پر مسیحی چھ سو برس پہلے سے عمل کرتے چلےآئے تھے۔خالق کاقانون جو اس نے ایک مرد اور ایک عورت کے نکاح کی پاک حالت میں داخل ہونے سے ظاہر کیا وہ موجودہ زمانہ کی سائنس کی تحقیقات سے بخوبی ظاہر ہے کیونکہ کل کرہِ زمین پر آدمیوں اور عورتوں کی پیدائش قریباً قریباً اوسط حالت پر ہے ۔ لہذا محمد صاحب کا کثرتِ ازدواجی کا قانون کسی ایسی حالت پر مبنی نہ ٹھہرا جو خدا نے اپنی خلقت میں پیدا کی ہو بلکہ برعکس اس کے اس کی تعلیم اور اس کا نمونہ طبعی اور خدا کی طرف سے نازل کی ہوئی تعلیم کے بالکل خلاف ہے۔ ان باتوں سے یہ ظاہر ہوا کہ جبکہ ایک مسلمان دو یاتین یاچار سے نکاح کرتاہے تو کئی اور مسلمان ضرورہونگے جو عورتوں کے نہ ہونے سے شادی نہیں کرسکتے ۔ شاید مسلمان یہ کہیں کہ اس حاجت کوپورا کرنے کے لئے خدا نے مسلمانوں کو فاتح کیا اور ، اور قوموں کو مغلوب کرکے ان کی عورتوں سے شادی بیاہ کیا پر یہ ہرگز نہیں ہوسکتا کہ خدا نے مسلمانوں کو اس لئے فتح بخشی تاکہ وہ اور ملکوں کے مردوں کو قتل کرکے اپنی حرم سرائیں ان کی عورتوں اور بیٹیوں سے بھریں گزشتہ زمانہ میں یہ بہت دفعہ ہوا کہ مسلمان غیر ملکوں کو فتح کرکے وہاں کی عورتوں کو بیویاں یا لونڈیاں بنانے کے لئے غلام کرکے لے گئے لیکن اب خدا کے احکام اس طور سے بنی آدم میں جاری ہوئے ہیں کہ مسلمانوں کی فوجیں غریب عورتوں کو فتح کرکے اپنے لئے نہیں لے جاسکتیں یہ تبدیلی جو کہ خدا کی طرف سے ہوئی ظاہر کرتی ہے کہ خدا کی قدرت مسلمانوں کو کثرت ِ ازدواجی کی اجازت نہیں دیتی جیساکہ ان کا مذہب ا ن کو دیتا ہے۔ لہذا یہ ظاہر ہے کہ خدا کی مرضی اور مسلمانوں کاقانون کثرتِ ازدواجی کے بارے میں ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔

طلاق دینا موسوی شریعت میں جائز رکھا گیا مگر سیدنا مسیح کی انجیل میں اس کی سخت ممانعت ہے پر پھر محمد صاحب کے قرآن نے اس کی اجازت دی۔ سورہ طلاق (۶۵) کا قرآن میں ہونا ہی طلاق کو ظاہر کرتاہے وہاں ہم یہ پڑھتے ہیں" اے نبی جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دینے لگو تو ان کی عدت کی حالت میں طلاق دو اور عدت کو شمار کرو اور الله سے ڈرو جو تمہارا رب ہے ۔۔۔۔۔ تمہاری بیویوں میں سے جو حیض کے آنے سے نا امید ہوچکی ہوں اگر تمہیں شبہہ ہو تو ان کی عدت تین ماہ کی ہے۔ اور ایسی ہی جن کو حیض آنے کی نوبت نہ آئی ہو ان کی جو حاملہ ہوں عدت یہ ہے کہ وہ اپنا بچہ جنَ لیں اور جو الله سے ڈرتاہے وہ اس کے کام میں آسانی پیدا کردیتاہے (سورہ طلاق آیات ۱، ۴) پھر سورہ بقرہ آیات ۲۲۹، ۲۳۲ میں ہم یوں پڑھتے ہیں" طلاق صرف دوبارہ دینا واجب ہے پھر یا تو عزت سے ان کو رکھنا یا خوش سلوکی سے رخصت کرنا، اور تم پر یہ حلال نہیں کہ اس میں سے جو کچھ تم نے ان کو دیا ہے کچھ بھی واپس لو جب تک کہ تم دونوں کو اس بات کا خوف نہ ہو کہ تم خداکی مقررہ حد میں قائم نہیں رہ سکتے اور اگر تم کو خوف ہو کہ وہ خدا کے احکام پر نہیں چل سکتیں تو دونوں پر کچھ گناہ نہیں اس بات میں کہ عورت اس کو اپنے بدلے میں دے ۔۔۔۔۔۔ جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دے چکو اور وہ اپنی عدکو پہنچ جائیں ان کو نہ روکو کہ اور خاوندوں سے نکاح کریں جو باہم دستور کے موافق اس بات پر راضی ہوں۔ اس بات سے اس شخص کو نصیحت ہے جو تم میں الله پر اور آخری دن پر ایمان لایا ہے اور اس میں تمہارے لئے زیادہ پاکیزگی اور صفائی ہے الله جانتا ہے جو تم نہیں جانتے " ہم قرآن سے ایک اور حوالہ پیش کرینگے یعنی سورہ نسا آیت ۲۴" اگر تمہارا دل چاہے کہ ایک جورو کو دوسری سے بدل لو اور اس کو بہت سا مال دے چکےہو تو پھر اس میں سے کچھ واپس نہ لو" ان حوالجات سے ظاہر ہے کہ قرآن طلاق کو قانوناً جائز ٹھہراتاہے اور طلاق دی ہوئی عورت سے پھر شادی کرنے کی اجازت دیتاہے۔ آدمی صرف اس بنا پر کہ وہ اپنی بیوی کو جدا کرن کی خواہش رکھتاہے طلاق دے سکتاہے اور عورت کے لئے اور کوئی حق نہیں سوائے اس کے کہ وہ مال طلب کرے جو شادی کے موقعہ پر مہر کے طور پر دینے کو ٹھہرایا تھا۔ اگر ہم اس طور سے کھلے طور پر طلاق دینے کی رسم کو سیدنا مسیح کی ممانعت سے مقابلہ کریں جب اس نے متی ۱۹: ۶ میں فرمایا کہ جس کو خدا نے ملایا آدمی جدا نہ کرے " تو یہ صاف ہوجاتاہے کہ آیا قرآن عرب کے پیغمبر کی تعلیم کے ذریعے سے جو طلاق کے بارے میں مسیح کی تعلیم کے برخلاف ہے انجیل سےبہتر اور اعلیٰ مکاشفہ پیش کرتاہے یا نہیں۔ کیا یہ بات سچ نہیں کہ جب خدا نے آدم اور حوا کو پیدکیا تو انہیں ایک پاک شراکت میں جوڑا ؟ کیا اس نے وقت کوئی اشارہ دیا جس سے یہ سمجھا جائے کہ آدی جب چاہے اس پاک شراکت کو توڑدے؟ پھر کیا سیدنا مسیح نے جو کہ قریباً ۴۰۰۰ برس کے بعدآیا اور جس کو ہرایک مسلمان خدا کا نبی مانتاہے صریحاً یہ منع نہیں کیا کہ کوئی شادی کے جوڑے کو نہ توڑے ؟ اب اگر ۶۹۰ سال کے بعد ایک اور قانون جاری کیا جائے جس کی رو سے ہرایک شادی شدہ آدمی کو پوری اجازت ہو کہ جب چاہے اپنی بیوی کو طلاق دے جیساکہ مسلمانوں کی تواریخ سے ظاہر ہے کہ بعض دفعہ ایک ہی آدمی نے ۲۰ یا ۳۰ طلاق دئے اور دوسری شادیاں کیں تو کیا اس قانون کے خدا کی طرف سے ہونے میں شک نہیں ہوتا؟ کیا اس سے لاتبدیل خدا کی دانائی اور عقل پر دھبہ نہیں لگتا؟

یہ بات بخوبی روشن ہے کہ چونکہ قانوناً طلاق اس قدر کھلم کھلا رواہے اور چونکہ یہ آسانی سے دی جاسکتی ہے لہذا مسلمانوں کے درمیان اس کا رواج کثرت ِ ازدواجی سے بھی زیادہ ہے۔ اورجو خرابیاں اس سے ظاہر ہوتی ہیں ان سے مسلمانوں کی قوم کو بڑا سخت نقصان پہنچتاہے۔ ہرایک آدمی جو مسلمانوں کے ملک میں رہا ہو جانتا ہے کہ طلاق سے کس قدر بے رحمی اور سخت تکلیف عورتوں پر ہوتی ہے۔ آؤ ہم ایک مثال پر غور کریں ۔ میرے ہمسایہ میں ایک مسلمان رہتاہے جو کہ تیس سال سے ایک عورت سے بیاہا ہوا تھا اور اس کے دوبڑے بڑے بیٹے تھے تھوڑے عرصے کے بعد وہ ایک جوان عورت سے شادی کرنے کے ارادے سے اس کو برُی نظر سے دیکھنے لگا اور اسے حقیر خیال کیا آخر کار اس نے اس کو طلاق دیدی اور ایک جوان عورت سے جو اس کے بڑے بیٹے سے کم سن تھی نکاح کیا۔ چونکہ یہ آدمی سرکاری ملازمت میں تھا اور معقول آمدنی تھی اس کی بیوی آرام سے رہتی تھی پر جب طلاق کے بعد اس کو صر ف تھوڑا سا روپیہ گذران کے لئے ملنے لگا اوروہ اپنے بڑھاپے کے سبب کوئی اور خاوند نہ کرسکی او رنہ کوئی کام اٹھاسکی تو وہ روپیہ جلد ختم ہوگیا اورکسی نے اس کی مدد نہ کی لہذا وہ نہایت تنگ حال ہوگئی اور بعض دفعہ کئی دن فاقوں میں گذرے ایسے ایسے حالات سے کون واقف نہیں ؟ہر جگہ جہاں جہاں مسلمان ہیں صدہا ایسی مثالیں پائی جاتی ہیں۔اس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ طلاق یافتہ عورتیں گناہ میں مبتلا ہوجاتی ہیں اور بازاری عورتوں میں جا ملتی ہیں تاکہ اپنے کو بھوک کی ہلاکت سے بچائیں اور آدمی اس آزادی سے اپنی شہوت کو پور ا کرنے کےلئے بے انتہا خراب ہوجاتے ہیں ۔ کچھ عرصہ ہوا کہ مجھے ایک ترُک کی بابت جو کہ پچاس سال کا تھا بتلایا گیا کہ اس نے ستر۷۰ عورتوں کو طلاق دی اور اب دو اور جوان عورتوں کےساتھ زندگی بسر کررہا ہے۔ اگر اوسط لگائی جائے تو یہ معلوم ہوگا کہ اگر اس نے پہلی شادی بیسویں برس کی تو اوسطاً دوعورتوں کو ہر سال اس نے طلاق دی خیال کیجئے کہ اس محمدی قانون نے کہا تک خرابی پیدا کی ۔ کیا ایسی خرابیاں پاک خداکی نگاہ میں اور ہرایک سچے اور پاکیزه انسان کی نظر میں گناہ اور زناکاری نہ خیال کی جائینگی۔

اسلام کے اس قانون کے رو سے علاوہ عورتوں کی سخت تکالیف اور مصائب کے اور آدمیوں کی حرامکاری اور شہوت پرستی کے کلُ محمدی جماعت کا نہایت سخت نقصان ہوتاہے۔ ہرایک مسلمان جب شادی کرنے لگتاہے جانتاہے کہ وہ جب چاہے اس عورت کو چھوڑ سکتاہے ۔ اس کوکوئی خوف اور خدشہ نہیں سوائے اس کے کہ کچھ روپیہ جو شادی کے موقعہ پر ٹھہرایا گیا تھا بطور پرورش کے عورت کو دے ۔ اور یہ ہرایک مسلمان عورت بھی جانتی ہے کہ جب وہ اپنے شوہر کو خوش نہ کرسکیگی یا جب اس کا شوہر کسی اور سے راضی ہوجائيگا تو اس آدمی کو اختیار ہے کہ اس عورت کو چھوڑ کر کسی اور سے نکاح کرالے۔ جب یہ بات دونوں مرد اور عورت جانتے ہیں تو بھلا شادی کی وہ پاک اور خوشنما حالت جو مسیحی مذہب کے ذریعے پیش کی جاتی ہے کب پیدا ہوسکتی ہے؟ ہاں مسلمانوں کے لئے تو شادی ایک تھوڑے عرصے کےلئے ہے اس کی اخلاقی بندش کوئی بڑی بندش نہیں پر اگر کوئی بندش ہے تووہ صرف اپنی خوشی کو پورا کرنا ہے۔ کیا اس سے طرح طرح کی برائیاں پیدا نہ ہونگی؟ یہ ہر حالت میں خاندان کے اس بڑے قانون کو توڑدے گی جس کی رو سے خاوند او ربیوی اپنے گھر کے سردار خیال کئے جاتے ہیں کیونکہ بیوی کو شروع ہی سے ڈر رہیگا کہ شاید اس کا خاوند اس سے کسی حالت میں ناخوش ہوکر طلاق دیدے لہذا بجائے اس کے کہ خاندان کی بہبودی کو مد نظر رکھے وہ اپنے آئندہ کے آرام کا خیال رکھیگی ۔ تاکہ اگر وہ کسی وقت طلاق کے ذریعے سے چھوڑدی جائے توکچھ نہ کچھ سرمایہ اور پونجی اس کے پاس ہو۔ اسی طرح سے خاوند چونکہ اپنی بیوی پر پورا بھروسہ نہیں رکھ سکتا یہ جان کر کہ جب وہ عورت کو چھوڑدیگا تو اسکے بھید ظاہر ہوجائينگے لہذا وہ بھی خاندانی پوری خوشی کوحاصل نہیں کرسکتا ۔ یہ اکثر مسلمانوں سے سنا جاتاہے کہ خاندان کی ناکامیابی زیادہ تر بیوی کے سبب سے ہوتی ہے کیونکہ بجائے اس کے کہ وہ خاوند کی باتوں کی تائید کرے اوراس کے مطابق چلے وہ ہمیشہ روپیہ پیسہ پر نگاہ رکھتی اورجتنا ہوسکے خاوند کی آمدنی میں سے اپنے اور اپنے رشتہ داروں کے لئے حاصل کرتی ہے۔ جہاں خاندان کی یہ حالت ہو یقین جانو وہاں گھر بار کی خوشحالی نابود ہوجاتی ہے۔

یہ رسم اور قانون بچوں کی بہبودی پر بھی گہرا اثر ڈالتے ہیں۔ بسا اوقات ماں بچوں کو اپنی راغب کرنے کےلئے تاکہ وہ طلاق کی حالت میں بھی اس کے ساتھ رہیں زیادہ آسائش میں رکھتی ہے اور باپ بھی بچوں کی ماں کو طلاق دے کر ایک سخت غلطی اور ظلم ان پر کرتا ہے کیونکہ اب چونکہ باپ نہ صرف اس سے بے پرواہ ہوجاتاہے بلکہ اس کا ایک طرح کا دشمن اور چونکہ وہ گھر نہیں آسکتی لہذا بچے ماں سے جدا ہوجاتے ہیں گویا وہ مرگئی ہے ۔ شاید کبھی نہ کبھی اس سے مل سکیں مگر یہ باپ کو منظور نہیں ہوتا بلکہ بعض دفعہ وہ منع کردیتاہے۔ اس طرح وہ اپنی ماں سے بالکل دور کئے جاتے ہیں ۔ پس طلاق کی رو سے وہ محبت او رپیار جو قدرتی طور سے ہرایک کے دل میں خدا نے پیدا کیا ہے یک لخت بچوں کے دل سے مٹایا جاتاہے اور اس کے دو ر ہونے سے جس قدر صدمہ اور نقصان طرفین کو پہنچتاہے ہرایک سمجھ سکتا ہے ۔

طلاق کو اس کھلے طور سے رائج کرنے سے شادی شدہ شخصوں میں حسد پیدا ہوتاہے اور طبعی میل ملاپ میں ایسی اخلاقی مشکلات پیدا ہوتی ہیں جن سے قوم کی مجلسی حالت جیساکہ مسیحی ملکوں میں ہے قائم نہیں رہ سکتی کیونکہ مسیحیوں میں تو یہ یقین ہوتاہے کہ جب تک زناکاری یا حرامکاری کا گناہ سرزد نہ ہو تب تک طلاق دینا ناممکن ہےلہذا ان میں ایک قسم کی تسلی اور سلامتی پائی جاتی ہے اوربرعکس اس کے مسلمانوں میں خصوصاً عورت کی طرف سے طرح طرح کے حسد آمیز شکوک پیدا ہوتے ہیں کیونکہ اس کو ہمیشہ یہ خیال رہتاہے کہ کہیں کسی حرکت سے ا س کا خاوند اس کو نہ چھوڑدے یا شاید کسی بے پروائی کی وجہ سے وہ رد نہ کردی جائے ۔ جب یہ حالت شادی شدہ حالت میں ہو تو کیسے خوشحال زندگی ہوسکتی ہے؟ مسیحیوں میں نہ تو کوئی دوسری بیوی رکھ سکتا ہے او رنہ ہی ایک کو دوسری سے بدل سکتا ہے جیسے کہ مسلمانوں میں ہے لہذا مردوزن کا عام مسیحی رشتہ ایک پاک ومقدس رشتہ ہے جو بمنزلہ بھائی اور بہن کے ہوتا ہے اس طریق سے وہ عورتوں کی مجلس میں شریک ہوکر ان کی ہمدردی مہر بانہ برتاؤ نیک مزاجی اور آزادی سے فیضیاب ہوسکتاہے جیساکہ وہ اپنی بہنوں کی رفاقت سے یا اپنے بھائیوں کی صحبت سے فیضیاب ہوتاہے۔ ہرایک شادی شدہ مسلمان یہ جانتاہے کہ اس کے ایک عورت کے ساتھ نکاح کرنے سے خواہ وہ اس کو رکھے یا چھوڑدے یہ قانوناً جائز نہیں کہ وہ دوسری عورتوں سے رفاقت رکھے اور ان سے نکاح کرےاور یہ بھی جانتا ہے کہ اگر کوئی عورت شادی شدہ بھی ہو تو بھی وہ اس کو اگر چاہے خواہ اس کے خاوند کو روپیہ دیکر یا پھسلا کر یاکسی اور طریق سے طلاق دلوا کر اپنی بیوی کرسکتاہے بعض دفعہ شادی شدہ عورت اپنے خاوند سے بچنے کے لئے اس کو تکلیف دینا شروع کرتی ہے تاکہ اس سے طلاق حاصل کرکے دوسرے سے بیاہ کرے۔ چونکہ مسلمان عورت اور مرد اپنے مذہب کی رو سے شادی کی حالت کو یک پایدار حالت جو کہ موت تک قائم رہے نہیں سمجھتے بلکہ یہ جانتےہیں کہ یہ صرف عیش اور آرام طلبی کے لئے ہے تو یہ مرد کے لئے خیال کرنا کوئی بڑی بات نہیں کہ وہ جب وہ چاہے اپنی بیوی کو چھوڑ دے اور دوسری سے شادی کرے جو کہ اگر کسی اور کی بیوی بھی ہو وہ اسے طلاق دلوا کر اپنی بیوی کرلے اور اسی طرح یہ مسلمان عورت کے لئے کوئی بڑی بات نہیں کہ اگر وہ چاہے تو اپنے خاوند سے بدسلوکی کرکے طلاق نامہ لے لیوے اور یوں دوسرے کی بیوی ہوجائے۔لہذا اس کا سب سے بڑا نتیجہ یہ ہوا کہ شادی کی اس رسم کو بچانے کے لئے تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ بالکل ہلاکت اور تباہی برپا ہو اور ناجائز لونڈی بازی پھیل جائے مسلمانوں میں مردوں اور عورتوں کے باہم اٹھنے بیٹھنے کی رسم بالکل اٹھادی گئی او ران میں کسی قسم کا دوستانہ برتاؤ نہ رکھا ایسا کہ سوسائٹی مردوں اور عورتوں کی نہ رہی جیسا کہ خدا نے ابتدا میں مقرر کی اور جس طرح مسیحی ملکوں میں اب ہے بلکہ صرف مردوں ہی مردوں کی رہی او ربیچاری عورتوں کو پردے کے پیچھے چھپا رکھا دروازے سے نکلنے کی اجازت بھی نہ دی بلکہ اگر نکلیں بھی تو منہ ہاتھ برقع سے چھپا کر ، چونکہ عورتوں کو مجبواً طلاق او رنکاح کے قانون اور رسموں کی روسے مجلس (سوسائٹی )سے بالکل خارج کردیا لہذا اس سے بڑے نتیجے پیدا ہوئے یعنی آدمیوں کی سوسائٹی سے وہ پاک اور اعلیٰ اثر دور ہوگیا جس سے کے اٹھنے بیٹھنے کےکل دستور معتدل رہے ہیں۔ سوسائٹی بذاتِ خود آدھی رہ گئی اور دوسرے آدھے حصہ کو حرم سرا کی ناخوشگوار سست حالت میں چھوڑ دیا اور اس کو زندگی کے اعلیٰ درجہ سے گرادیا اور مردوں کی عقلی روشنی اور ترقی سے خارج کردیا اگرطلاق کی یہ رسم دو کردی جائے تو پردہ کی رسم بھی ہٹا دی جاسکتی ہے عورتوں کو سوسائٹی میں دخل دیا جاسکتاہے تاکہ وہ اپنے ذاتی فائدہ کو حاصل کریں اور آدمیوں کی دنیاوی کاروبار میں مددگارہوں۔

یہ بیان کرنا خالی از فائدہ نہ ہوگا کہ چونکہ طلاق کھلے طوپر رائج ہے اور مردوں اور عورتوں میں بالکل علیحدگی ہے لہذا جب تک شاید نہ ہو مرد اور عورت بالکل نہیں مل سکتے اور کسی قسم کی دوستی اور محبت پیدا نہیں کرسکتے وہ صرف قریبی رشتہ داروں اور دوستوں کے ذریعے سے شادی سے پہلے کچھ کہہ سن سکتے ہیں۔ اس لئے یہ بالکل مشکل ہے کہ وہ ایک دوسرے کی حالت اور مزاج سے یا عادات اور زندگی کی بابت اور خیالات سے واقف ہوں وہ ایک دوسرے کی شکل سے بھی واقف رہتے ہیں کیا جبکہ کوئی آدمی کسی گھر یا گھوڑے کو نہیں خریدتا جب تک کہ بخوبی اس کو دیکھ نہ لے او رجبکہ کوئی عورت اپنے زیور اور لباس کو نہیں خریدتی جب تک اچھی طرح اس کو جانچ نہ لے تو کیا اس رسم کا مسلمانوں میں جاری رہنا ایک نہایت بری حالت کوظاہر نہیں کرتا کہ مرد اور عورت شادی سے پہلے ایک دوسرے سے بالکل نہ ملیں اور کہ زندگی کے سب سے بڑے اہم معاملہ میں وہ دوسروں کی رائے پر منحصر رہیں؟ لہذا یہ تعجب کی بات نہ ہوگی کہ بہت سے ایسے نکاح ہوجاتے ہیں کہ مرد اور عورت بالکل ایک دوسرے سے ناواقف اور ان کا چال چلن عادات واطوار زندگی کی بابت خیالات بالکل مختلف ہوتے ہیں ان کی شکل وصورت ویسی نہیں ہوتی جیسی کہ وہ دونوں ایک دوسرے میں چاہتے تھے جس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ شادی کے دن ہی سے ان میں جدائی کے خیالات پیدا ہوجاتے ہیں۔ یہ بعض دفعہ سننے میں آیا ہے کہ چالاکی سے بُرے چال کی لڑکیاں آدمیوں سے نکاح پڑھوالیتی ہیں تاکہ صرف وہ اس روپیہ کو حاصل کریں جو بطور مہر کے نکاح کے وقت لکھا جاتاہے اور وہ شروع ہی میں ایسا ستانا شروع کرتی ہیں کہ خاوند طلاق دینے پر مجبور ہوجاتاہے۔ طلاق کی اس رسم سے نکاح کی حالت میں کدورت پیدا ہوتی ہے او رنکاح بھی ایسا ہوتاہے کہ چونکہ ہمدردی اور محبت نہ تھی لہذا فوراً طلاق دینے کی نوبت پہنچتی ہے۔ایسی رسم کسی صورت سے سوسائٹی یا شخصی بہتری اوربہودی کے لئے ٹھیک اور واجب نہیں ہوسکتی ۔

مذکورہ بالا دلائل سے یہ ظاہر ہے کہ قرآن شادی اور طلاق کے بارے میں نہ صرف انجیل سے بہتر تعلیم نہیں پیش کرتا بلکہ موسوی شریعت سے بھی گرجاتا ہے۔لیکن قرآن میں ایک اور خاص حکم ہے جو اس کی گری ہوئی اور تنزل کنندہ تعلیم کو واضح طور سے پیش کرتاہے۔ موسوی شریعت میں تو یہ بالکل منع ہے کہ چھوڑی ہوئی عورت کسی حالت میں پھر اسی آدمی سے بیاہی جائے پر قرآن میں نہ صرف ایک بلکہ دو یہاں تک کہ بعض حالتوں میں تین دفعہ طلاق دیکر پھر بھی اجازت ہے کہ وہی آدمی اسی عورت سے نکاح کرلے۔سورہ بقرہ آیت ۲۳۰ میں یوں لکھا ہے " اگر خاوند اپنی بیوی کو تیسری دفعہ طلاق دے تو یہ اس کو لازم نہیں کہ پھر اس سے نکاح کرے۔ پر اگر وہ دوسرے سے نکاح کرے اور وہ مرد اس کو چھوڑدے اس حالت میں پہلا آدمی پھر اس عورت سے نکاح کرسکتا ہے اوراس پر کوئی جرم نہیں کیونکہ وہ خدا کی ٹھہرائی ہوئی حدوں میں رہتاہے اور خدا اس کو ان پر جو علم رکھتے ہیں روشن کرتاہے " اس آیت سے معلوم ہوتاہے کہ مسلمانوں کی یہ رسم نئے پرانے عہد نامہ کی پاک تعلیم کے بالکل خلاف ہے اور یہ ہر شخص کی ضمیر کے بھی بالکل خلاف ہے۔ اس رسم کے معنی حقیقت میں یہ ہیں کہ اگر کوئی آدمی اپنی بیوی کو تین بار طلاق دے کر پھر اس سے بیاہ کرنا چاہے تو وہ اس طور سے کرسکتاہے کہ پہلے اس کا نکاح ایسے شخص سے کرائے جو عام طور سے برُے اخلاق بریُ عادت کا اور بدشکل ہو خصوصاً ایسا آدمی روپیہ دیکر مقرر کیاجاتاہے اور اس کے ساتھ نکاح صرف نام کو پڑھا یا جاتاہے جو ایک رات کے لئے قائم رہتاہے دوسرے دن اس سے طلاق دلواکر پہلا آدمی پھر اسی عورت سے نکاح کرلیتاہے۔ اس رسم کی ابتدا خواہ کچھ ہی ہو یہ کسی صورت سے ٹھیک نہیں خیال کی جاتی او رہرایک فہیم آدمی اس کو شادی کی پاک رسم کو خراب کرنیوالی خیال کرتاہے اور یہ سراسر عورت پر جو کہ پاکدامن ہے صرف خاوند کے شہوتی جذبوں کو پورا کرنے کےلئے ظلم کرواتی ہے۔

عورت کا ایسا کم اور شرمناک درجہ قرآن میں عارضی طور سے پیش نہیں کیا گیا بلکہ یہ قرآن کی خاص آیات پر مبنی ہے جن میں مرد کو عورت پر زائد بزرگی دی گئی ہے ۔ذیل کی آیت کو غور سے پڑھو" مرد عورتوں پر فضیلت رکھنے والے ہیں بلحاظ اس کے کہ الله نے انسانوں میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی اور اس لئے بھی کہ وہ اپنے مال سے خرچ کرتے ہیں۔ پاکباز عورتیں فرمانبردار رہتی ہیں اور خاوند کی پیٹھ پیچھے نگہبانی کرتی ہیں جیساکہ الله نے ان کی نگہبانی کی اور جن عورتوں میں سے تم کو سرکشی کا ڈر ہو تو انہیں سمجھادو اور ان کو خوابگاہ میں چھوڑدو اور ان کو مارو پھر اگر وہ تابع ہوجائیں تو ان پر او رکوئی بات مت ڈھونڈو بیشک الله بڑے مرتبے والا ہے"سورہ نساآیت ۳۸ عورت کا کم اور ذلیل داد نے درجہ قرآن کی آیت سے ثابت ہوا۔ہم نے اوپر بیان کیا ہے کہ دو تین چار بیویاں ایک ہی وقت ایک خاوند کی ہوسکتی ہیں اور یہ بھی بتلایا کہ طلاق دینے کی طاقت خصوصاً آدمی کے وہم پر منحصر ہے اور عورت سے کوئی مشورہ نہیں کیا جاتا اور عورت کو اس کے برابر طلاق حاصل کرنے کا کوئی حق نہیں بتایا گیا۔ ہم نے یہ بھی بتایاکہ عورت مجلسی کاروبار سے بالکل برطرف کردی گئی گویاکہ وہ اس کام کے لئے کسی صورت سے مفید نہیں ہوسکتی اور پردہ کی رسم یہاں تک بڑھائی گئی کہ عورت کو بالکل عام جگہ میں باہر آنے کی بندش ہوگئی۔ سوائے اس کے کہ اگر وہ آئیں تو اپنے آپ کو چاروں طرف سے ڈھانک کر آئیں اور کہ وہ اپنے گھروں میں حرم سرا میں بندرہیں ایساکہ اگر کوئی کسی مسلمان کے گھر ملنے جائے تو یہی معلوم ہوتاہے کہ وہ اور اس کے بیٹے ہی گھر میں رہنے والے ہیں کیونکہ اس کی بیوی اور بیٹیاں ہردم چھپی رہتی ہیں گویا ان کا دوسروں سے ملنا خاوند کے لئے باعث شرم ہے۔ یہ رواج حد تک بڑھا ہوا ہے کہ اگر کوئی بیوی سے ملاقات کی خواہش بھی ظاہر کرے تو یہ انکی نگاہ میں نہایت برُا اور بیجا معلوم ہوتاہے ۔ ایک اور بات عرب کے پیغمبر کی تعلیم کی بابت کہی جاسکتی ہے کہ باپ کی موت کے بعد بیٹی کا حصہ بیٹے کے حصہ سے صرف آدھا ہے (سورہ نساءآیت ۱۲) اور چونکہ یہ قانوناً جائز ہے تو یہ تعجب کی بات نہیں کہ گو لڑکے کی تعلیم بہت بہتر اور اعلیٰ نہیں تو بھی لڑکی کے لحاظ سے بالکل بے بہرہ رہتی ہے۔ پاشاؤں یا اور بڑے لوگوں کی بیویاں عام طور سے ان پڑھ ہوتی ہیں اور جو اپنی پڑھائی پر کچھ فخر بھی کرسکتی ہیں وہ صرف قرآن کی لفظی طور پر دہرانے کے لائق ہوتی ہیں اور بڑے شہروں کی صرف چند عورتیں اس کے ساتھ کچھ باجایا انگریزی یا فرانسیسی زبان کے چند الفاظ جانتی ہیں۔ اگر ماں کی تعلیم اچھی نہ ہو تو وہ کس طرح بچوں کی تعلیم کو عمدہ طور سے شروع کرسکتی ہے؟ اور اگر عورتوں کو علم اور سائنس سے علیحدہ رکھا جائے تو وہ کس طرح جہالت اور گمراہی کےپھندے سے نکل سکتی ہیں؟مذہبی فرائض کے ادا کرنے میں اور دوسری دنیا (بہشت) کی خوشبوں کو حاصل کرنے میں بھی عورت کادرجہ نہایت کم ہے۔ یہ سب جانتے ہیں کہ مسلمانوں کا یہ رواج ہے کہ مسجدوں میں نماز صرف مرد ہی آکر پڑھیں اور عورتوں پر یہ ٹھہرایا گیا ہے کہ یا تووہ گھر ہی پرپڑھیں یا اگر نہ چاہیں تو نہ پڑھیں اور اگر عورتوں کو مسجد میں آنے کی اجازت بھی ہوئی تو وہ عام جگہ میں سب کے ساتھ نماز نہیں پڑھ سکتیں بلکہ برعکس اس کے ایک کنارے حجرہ میں جہاں سے ان کو کوئی دیکھ نہ سکے نماز پڑھنے کی اجازت ہے۔ عورتوں کو اس طرح سے نماز میں بھی مردوں سے علیحدہ رکھنا بڑا تعجب پیدا کرتاہے کیونکہ قرآن میں یہ صاف آیا ہے کہ دوسری دنیا میں عورتیں اپنے شوہروں کے ساتھ بہشت میں داخل ہونگی سورہ رعد آیت ۲۳، سورہ الشعرا آیت ۵۶، سورہ المومن آیت ۸ ، سورہ الزخرف آیت ۷ پر ہم ان حوالجات سے زيادہ نہیں اخذ کرسکتے کیونکہ قرآن میں یہ صاف طور سے کہیں نہیں آیاکہ عورتوں کا رتبہ بہشت میں آدمیوں کے برابر ہوگا ، پر برعکس اس کے صرف آدمیوں کے اجراور خوشیوں کا بیان متواتر ملتاہے سورہ واقعہ آیت ۲۳، ۲۴ ۔ سورہ رحمان آیات ۵۶، ۷۰، ۷۸ مگر عورتوں کی بابت کہیں ایسا ذکر نہ ملیگا۔

ان سب باتوں پر غور کرکے یہ بڑا تعجب معلوم ہوتا ہے کہ کوئی پھر بھی اس مذہب کو اعلیٰ اور بہتر خیال کرے جس میں عورتوں کا درجہ نہایت کم اور ذلیل نہ صرف اس دنیا میں بلکہ آنے والی دنیا میں بھی ٹھہرایا ہے۔یہ بات او ربھی تعجب انگیز ہوتی اگر عورتیں اپنی مرضی سے اس حالت میں رہنا پسند کرتیں پر اب تو موجودہ حالت کو دیکھ کر معلوم ہوتاہے کہ کم علمی کی وجہ سے عورتیں اس بات پر سوچ نہیں سکتیں کیونکہ ہونہیں سکتا کہ اگر روشنی ان کے دماغ پر پڑے تو وہ اس دنیا میں ایسا ذلیل وحقیر رہناپسند کریں اورآنے والے جہان میں بھی خوار ولاچار رہیں جیساکہ وہ اسلام کی رو سے مانی اور سمجھی گئی ہیں۔

خاتمہ

جتنا اس موقع کے لئے مناسب تھا اتناہم نے اس مضمون پر غورکیا۔ ہم نے مسلمانوں اور مسیحی علماکے خیال کو قبول کرکے خدا نے ایک ہی دم اپنا مکاشفہ ظاہر نہیں کیا بلکہ آہستہ آہستہ مختلف زمانوں میں اس کوبنی آدم پر نازل کیا تینوں مذاہب کو جانچا یعنی یہودی مسیحی اور اسلام کو۔ان تینوں مذاہب کے پیرو مانتے ہیں کہ وہ مذہب جو کہ موسیٰ کے ذریعے اور اس کے بعد اور نبیوں کے ذریعے یہودیوں کو دیا گیا خدا کی طرف سے نازل ہوا تھا اورکہ وہ سچا مذہب تھا۔ اس لئے اس کی صداقت کے لئے کوئی دلائل پیش نہ کئے گئے ۔ اس کے بعد جب خدا نے کئی سو سال تک نبی نہ بھیجے تو اپنے آپ کو ایک نئے طریق سے یہودیہ کے ملک میں ظاہر کیا اوراس مذہب نے دعویٰ کیا کہ وہ سب مذہب سے اعلیٰ اور بہتر او رکامل ہے۔یہ نیا مذہب یعنی مسیحی مذہب خدا کی طرف سے نازل ہوا اور یہودیوں کے مذہب سے بہتر تھا اور یہ امر محمدی اور مسیحی دونوں مانتے ہیں گو یہودی اس سے انکار کرتے ہیں۔ لہذاہم نے مسیحی او رمحمدی دلائل کو پیش کرکے ظاہر کیا کہ کس رو سے مسیحی مذہب یہودی مذہب سے اعلیٰ ہے ہم نے جتنا ضرور اور مناسب تھا اس سے تجاوز نہیں کیا کیونکہ اس رسالہ میں اس کی گنجائش نہ تھی۔اس واسطے ہم نے صرف مسیحیت کی اندرونی طاقت اور اثر کو بیان کیا اوربتایا کہ اس وقت کے وسیلے یہ مذہب دنیا میں باوجود سخت تکالیف اوررکاوٹوں کے اور بغیر دنیاوی مدد یا سلطنت کے پھیل گیا۔ دوسرے ہم نے پرانے عہد نامہ سے ان پیشینگویوں کو بھی پیش کیا جو مسیح کے آنے کوبتلاتی تھیں او رایک اعلیٰ روحانی درجہ کوظاہر کرتی ہیں ۔ تیسرے ہم نے یہ جتلایا کہ مسیحی مذہب یہودی مذہب کے درمیان ہی سے جہاں اس کی تیاری خدا کی طرف سے پہلے ہوچکی تھی اٹھا۔ چوتھے ہم نے مسیحی مذہب کے بانی کو خدا کی طرف سے مقرر کیا ہوا ثابت کرنے کے لئے اس کے معجزانہ کاموں کابیان کیا۔ پانچویں ہم نے نئے اور پرانے عہد نامہ کی تعلیم کا مقابلہ کرکے بتایا کہ نئے عہد نامہ کی تعلیم پرانے سے بہتر اور زندگی کا اعلیٰ معیار پیش کرتی ہے ۔ یہ پانچواں حصہ ہم نے چھ خاص باتوں سے ثابت کیا جن میں سے تین خدا کی بابت اور الہیٰ مکاشفہ کی بابت تعلیم پیش کرتی ہیں مثلاً (۱) خدا کا اپنے آپ کو بنی آدم پر ظاہر کرنا (۲) اس کی پرستش (۳) اس کی بادشاہت اورباقی تین انسانوں کے باہمی تعلقات کی بابت پیش کرتی ہیں مثلاً (۱) بدلہ لینا (۲)غلامی (۳) عورتوں کے ساتھ سلوک خصوصاً کثرت ازدواجی اورطلاق کے بارے میں۔ ان چھ باتوں پر بحث کرتے ہوئے معلوم ہواکہ مسیحی کی انجیل کی تعلیم انسان کی ضروریات کے مطابق ہے زندگی کا اعلیٰ درجہ پیش کرتی ہے اور ایسی روحانی او رمکمل ہےکہ بمقابلہ موسوی تعلیم کے یہ اپنے آپ میں مسلمانوں اور مسیحیوں کے نزدیک کافی ثبوت رکھتی ہے کہ اس سے بہتر اور اعلیٰ ترہے اور خدا کے سچے مذہب کا سب سے بزرگ روحانی اورحقیقی معیاری بنی نوع انسان کے لئے بہ نسبت قدیم یہودی مذہب کے پیش کرتی ہے۔

پھر ہم نے مسیحی مذہب اور اسلام کا مقابلہ کیا اور جتلایا کہ آیا قرآن انجیل کی تعلیم سے ایسا ہی بالا اور برتر نہیں ہے جیسے کہ انجیل موسوی شریعت سے ثابت ہوئی ۔ اب جبکہ یہودی مسیحی اور محمدی اس بات کو مانتے ہیں کہ بنی اسرائيل کا مذہب خدا کی بخشش تھی اور جبکہ مسیحی اور مسلمان دونوں مانتے ہیں کہ مسیحی مذہب یہودی مذہب سے بہتر اور اعلیٰ مذہب ہے تو اب مسلمان ہی ایک طرف ہیں جو کہ اسلام کو بمقابلہ مسیحی اور یہودی مذہب کے خدا کی سب سے بڑی بخشش مانتے ہیں حالانکہ مسیحی اور یہودی دونوں اس بات سے انکار کرتے ہیں۔علاوہ اس لفظی انکار کے ہم نے دونوں مذاہب کی تعلیم پرغور کیا کیونکہ ہم یونہی رد کرنا نہیں چاہتے پر دریافت کرنا چاہتے تھے کہ آیا فی الحقیقت محمدی مذہب اس طرح بہتر اور اعلیٰ ہے یا نہیں ۔ اس واسطے کسی کی طرفداری نہ کرتے ہوئے ہم نے مسیحی اور اسلام کا انہی چھ باتوں میں مقابلہ کیا جن سے ہم نے مسیحی مذہب او ریہودی مذہب کا مقابلہ کیا تھا یعنی ہم نے عام لوگوں کی رائے پر یا کسی خاص عالم کی رائے پر فیصلہ نہیں چھوڑا بلکہ قرآن اور انجیل کی تعلیم پر جو کہ تواریخ سے ظاہر ہے اور جس کی بابت کوئی شک وشبہہ نہیں پس جو نتائج پیداہوئے وہ بالخصوص قرآن اور انجیل کی تعلیم سے پیداہوئے۔ ان سب نتائج نے یہ فیصلہ قرار دیا کہ اسلام کا دعویٰ صحیح نہیں او رکہ کسی ایک تعلیم کے لحاظ سے بھی اسلام مسیحی مذہب پر فوقیت نہیں رکھتا اور نہ ہی وہ مکاشفہ کا اعلیٰ معیار پیش کرتاہے بلکہ بہت سی باتوں میں مسیحی مذہب کی تعلیم سے بہت گرا ہوا ہے ۔ اب اگر ہم ان منطقی دلائل کو منظور کریں تو بلاشبہ یہ نتیجہ پیدا ہوگا کہ اسلام اعلیٰ اور بہتر مذہب نہیں اور اگر ہم اب بھی یہی کہتے جائیں کہ اسلام ہی سب سے بہتر ہے تو یہ ایک بے معنی بات ہوگی کیونکہ اس کے ثبوت میں کوئی بڑی دلیل نہیں ہے۔لہذا یہ نہایت مناسب اور واجب ہے بلکہ ہر ایک کا فرض ہے جیسا کہ ہر ایک کھلے دل والا اور بے تعصب آدمی کرتاہے کہ اس منطقی نتیجہ کو قبول کرے یعنی محمدی مذہب گو چند اصول مسیحی او ریہودی مذہب کے رکھتاہے مگر بہت سی باتوں میں ان سے کم اور مسیحی مذہب سے تو کہیں کم ہے۔

جبکہ ہم اسلام کو اس طرح عقل اور ضمیر سے جانچ کے قبول کرنے کو تیار ہیں تو ہم اس کی سب باتوں کو بے فائدہ رد نہیں کرتے۔ یہ خیال رکھنا چاہیے کہ ہم نے اسلام کو محض ایک مذہب کی حیثیت سے جانچا ہے پر اگر اس کی دنیاوی حکومت کا خیال کیا جائے تو ہرایک شخص خواہ مسلمان ہو یا غیر مسلمان ہو پھر نئے سرے سے غور کرسکتا ہے کہ آیا اسلام بحیثیت سلطنت کے جس میں مذہب کے اصول شامل کردئے گئے ہیں دنیا کی اور سلطنتوں سے گوئِ سبقت لے گیا ہے یا نہیں؟

یہ چند خیالات ہدیہ ناظرین ہیں اور مصنف اس مضمون کو ختم کرتے ہوئے اپنے اس فرض سے سبکدوش ہوتاہے اب چاہے مسلمان ان دلائل کو اس طرح قبول کریں یا نہ کریں یہ ان کے ذمہ ہے اگر وہ فی الحقیقت سوچیں اور جستجو کریں تو وہ ان دلائل کو یک لخت رد نہیں کرسکتے۔اور اگر قبول کریں تو وہ ضرور یہ سوچنے لگینگے کہ اگر اسلام مسیحی مذہب سے اعلیٰ اور بہتر مذہب نہیں تو کیا وہ خدا کی طرف سے ناز ل کیا ہوا مذہب ہوسکتاہے؟ کیا یہ خدا کی دانائی اور عقل کے بموجب ہوسکتاہے کہ جب اس نے سیدنا مسیح کے ذریعے انسان کو ایک مذہب کا اعلیٰ مکاشفہ دیاہو تو اس کے چھ سو برس کے بعدایک ادنیٰ مکاشفہ پھر محمد صاحب کے ذریعے دے ؟کیا یہ ہوسکتا ہے کہ خدا پھر اپنے ایک خاص فرشتے جبرائيل کو آسمان سے وہی باتیں نازل کرنے کو بھیجے جو اس نے ہزاروں برس پہلے اپنے بندوں پر نازل کیں؟ یا یہ ہوئے کہ محمد صاحب نے مسیحی اور یہودی مذہب سے چند تعلیمات لیکر ایک نیا مذہب بنایا تاکہ یہ تعلیم آسمان سے اترُی ہوئی ان جاہل عربوں کے سامنے پیش کرے جوکہ ان باتوں کی بابت کچھ نہیں جانتے تھے۔ کوئی سمجھدار مسلمان ان باتوں سے سوائے اس ارادے کے اورکچھ نہیں کرسکتا کہ میں اب زیادہ دیر تک شک کی حالت میں نہ رہونگا بلکہ چونکہ یہ ظاہر ہوگیا کہ اسلام مسیحی مذہب سے بہتر اور اعلیٰ نہیں لہذا میں کوشش سے اس بات کی اور جستجو کرونگا او راپنے دل کو تسکین دونگایہ مان کر کہ مسیحی مذہب ایک پاکیزه اور اعلیٰ مذہب ہے۔ ہزارہا مسلمان اب خدا کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے خدا سے ہدایت پائی اور مسیحی ہیں وہ اس بات کے گواہ ہیں کہ ان کا موجودہ مذہب پرانے مذہب سے بہتر اورزیادہ زندگی بخش ہے۔ وہ اپنے مسلمان بھائیوں کے لئے دعا کرتے ہیں کہ وہ بھی دلی تسکین اور عقلی روشنی کو حاصل کریں جوکہ ان کو حاصل ہے اور جو ان کو سوائے سیدنا مسیح کے مذہب کے او رکہیں نہیں مل سکتی۔ اس کتاب کا مصنف جو کہ محض پیدائشی مسیحی نہیں بلکہ جس نے مسیحی مذہب کو ایک محبت آمیز اعلیٰ اور بہتر خدا کا مکاشفہ پایا دعا مانگتاہے اور اس کے ساتھ ہزارہا ہزار ایماندار دعا کرتے ہیں کہ خدا مسلمانوں کو جلد وہی نور اور تسلی بخشے کہ وہ سب مسیحیوں کے ساتھ خدا کے اس محبت آمیز نجات دینے والے مذہب میں آکر خوش ہوں اور آرام پائیں ۔ اس میں ہمارا نہ کوئی ذاتی فائدہ ہے او رنہ کوئی دنیاوی فائدہ کیونکہ اگر ترکی مصرف فارس سیریا اور ہندوستان کے ہزاروں مسلمان عیسائی ہوجائیں تو اس سے ہمارا دنیاوی فائدہ کیا ہوگا ہ صرف انہی کو زيادہ خوشحال اور بہتر بنائيگا موت کی حالت میں امیدوار اور ابدیت کی خوشحالی عنایت کریگا۔ اگر ہماری کوئی خواہش ہے تو یہی ہے کہ وہ بھی ہماری طرح نجات کو حاصل کریں۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ ہم آخری زمانہ کے نزدیک ہیں اور بہت جلد اس کتاب کا لکھنے والا او رپڑھنے والا خدا کے تخت عدالت کے سامنے بلائے جائينگے جہاں سبھوں کے دل کے حالات اور بھید فاش کئے جائینگے۔ اس حالت میں ہم کسی کو دھوکا نہیں دے سکتے پربرعکس اس کے ہم سبھوں کو مسیح اور اس کے مذہب کے پاس لے آتے ہیں یہ یقین کرکے کہ اس سے دل میں ایسا اطمینان اور چین پیدا ہوتاہے اور یہ اس طور سے انسان کو خدا کی حضوری سے معمور کرتاہے جس کو ہرایک انسان جانے یا نہ جانے ڈھونڈتا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ سیدنا مسیح اب بھی ان مبارک الفاظ کو جو اس نے گناہ کے بوجھ سے دبے ہوئے لوگوں کو کہے اپنی ذات سے پورا کرتا ہےیعنی " اے تم لوگوجو تھکے اور بوجھ سے دبے ہوئے سب میرے پاس آؤ ۔ میں تمہیں آرام دونگا "(متی ۱۱:۲۸) ہم جانتے ہیں کہ اس کے الفاظ سچ اور برحق ہیں گویا ان پر خدا کی طرف سے صداقت کی مہر لگائی گئی ہے اور یہ الفاظ وہی ہیں جو اس نے انسان اور خدا کے درمیان میل کرانے والے کی حیثیت میں کہے ہیں۔ وہ فرماتاہے" راہ اور حق اور زندگی میں ہوں۔ کوئی باپ کے پاس بغیر میرے وسیلہ کے آنہیں سکتا" (یوحنا ۱۴: ۶) لہذاہم ہرایک انسان کو خداوند کے ان الفاظ کی طرف متوجہ کرتے ہیں جو اس نے ایک مرتبہ اپنے شاگردوں سے کہے تاکہ ہرایک انسان خود ان کو جانچے اور آزمائے اور برکت حاصل کرے ۔ چنانچہ اس نے فرمایا تھا " ہرایک جو میری ان باتوں کو سنتا اور ان پر عمل کرتاہے اس عقلمند آدمی کی مانند ہے جس نے اپنا گھر چٹان پر بنایا اور مینہ برسا اور باڑھیں آئیں اور آندھیاں چلیں اور اس گھر پرزور مارا پروہ نہ گرا کیونکہ اس کی نیوچٹان پر تھی"( متی ۷: ۲۴، ۲۵)۔

تمت