Leslie Earl Maxwell

(July 2, 1895 – 1984)

Was an American-born Canadian educator and minister

Born Crucified

by

Leslie Earl Maxwell

پیدائشی مصلوُ ب

مُصنفہ

ایل ۔ ای ۔ میکسویل

مُترجم

اے ۔ ڈی ۔ خلیل ۔ بی۔اے،بی ۔ٹی

پنجاب رلیجس بُک سو سائٹی

انار کلی ۔ لاہور

۱۹۶۳ء


مُصنّف کا پیش لفظ

پیدائشی مصلوُب ۔

فرانسیسی واعظ لیکور ڈائر (Lacor Daire)کا فرمان ہے کہ کلیسیائے جامع(ہمہ گیر،تمام) پیدائشی مصلو ب ہے۔ ان الفاظ سے اس کا یہ مفہوم تھا کہ کلیسیاء کے سر کے اعضاء آدم ثانی میں اور آدم ثانی کے ساتھ مر گئے۔ اس کتاب کے صفحات میں اس خیال کو کسی قدر واضح کر نے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ نہ تو کوئی شرح ہے اور نہ علم ِالہیات کا بیا ن بلکہ اس کتاب کے سادہ الفاظ میں ایک وعظ اور تنبیہ (نصیحت، آگاہی)کے رنگ میں ’’ ایمان دار کی زندگی میں صلیب ‘‘ کے خیال کو پیش کیا گیا ہے۔

قارئین کرام اس کتاب کا تھوڑا سا مطالعہ کر لینے کے بعد شائد یہ نتیجہ اُخذ کریں کہ مصنف ہر بات کو چھوڑ کر محض لوگوں کو مر تا ہوا دیکھنا چاہتا ہے۔ ایسی صورت میں ہم مجرم اور بہت بڑے مجرم ہیں ۔ کیا کتاب ِمقدس کو غلط طریق سے استعمال میں لانے کی جسارت کر سکتے ہیں۔ مبارک ہی وہ مُردے جو مسیح میں مرتے ہیں ۔ نفس کی ایسی مبارک اموات کے بعد اس کی قیامت ہوتی ہے۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے رات کے بعد د ن آتا ہے ۔

ایک افریقی مِشنری نے حال ہی میں ہم سے کہا تھا۔ ’’اگر ہمارے کُل مشنری صاحبا ن محض یہی تعلیم پاتے تو صلیب مشنری میدان عمل میں ہماری متعدد مشکلات کا حل ثابت ہوتی ۔ دراصل صلیب ہی زندگی کے کُل حا لت اور ہماری الہٰامی کتب کی کلید ہے ۔ اگر میں اس کلید کو کھودُوں تو میں نہ صرف الہٰامی کتب کے مفہوم کو کھودُوں گا ۔ بلکہ میں اپنی ساری زندگی کے مقصد سے بھی بے بہرہ رہوں گا ۔ اگر ایماندار کی زندگی میں عمر بھر صلیب کو نجات بخش قرار دے کر تھا ما جاتا تو آج کلیسیائے جامع زمانہِ جدید کی بے دینی و کفر کا شکار نہ ہوتی ۔ ہم اس بات کا بہت کم خیال ہے کہ ہم مسیح مصلوب کے بغیر خوشخبری سنا نے کی بیماری میں مبتلا ہیں۔ یہ کتاب اس غرض سے لکھی گئی ہے،کہ ایمان دار پر واضح ہو جائے کہ اس کے نجات پا لینے کے بعد اس کا صیلب سے تعلق پیدا ہو جاتا ہے ۔ اور اگر وہ اس کے بعد صلیب کے مطابق زندگی بسر نہیں کرتا تو وہ مکمل طور سے اپنے نفس کے لئے اخلاقی تضاد (ضد،مخالفت)میں گرفتار ہے اور اس کا مسیح کے ساتھ تعلق رکھنا بھی تضاد ہی ہے۔

اس کتاب کے بہت سے ابواب مصروفیات کے دباؤ کی وجہ سے بہت جلدی جلدی قلم بند کئے گئے ہیں۔ در گاہ ایزدی (خُدائی)میں ہماری یہی لگا تار دُعا ہے کہ ہماری اس کمزور پیش کش کے باو جود ہمارے خداوند یسوع کے وسیلے خدا کا جلا ل ہو ۔ اور اُس کا جلا ل ابد الا ٓ باد تک ہو تا رہے۔


پیدائشی مصلوُب

باب اوّل

ایماندار کی مشابہت

انگلستان میں ۱۶۴۲ء میں بڑی خونریز خانہ جنگی ہوئی۔ جاؔرج وائٹ کے نام کا قرعہ نکلا کہ وہ محاذ جنگ پہ جا کر دشمن کی فوجو ں سے نبردآزما ہو ۔ وہ چھ بچوں کا باپ تھا ۔ ایک نوجوان مُسمّٰی (موسوم کیا گیا،پکاراگیا)رچؔرڈ پر یٹ نے اُس کی جگہ محاذ جنگ پر جانے کی پیش کش کی۔ وہ جاؔرج وائٹ کے نام اور نمبر سے بھرتی ہوا۔ تھوڑے عرصہ کے بعد پر بؔت میدان کا ر زار(جنگ، لڑائی) میں کام آیا ۔ اور باب اختیار نے جاؔرج وائٹ کو دوبارہ بھرتی ہونے کے لئے کہا ۔اُس نے احتجاج کیا اور یہ عذر پیش کیا کہ وہ پریٹ کے نام سے فوج میں بھرتی ہو کر جان بحق تسلیم ہو چکا ہے۔ اُس نے ارباب اختیار سے اصر ار کیا کہ وہ اپنے ریکارڈ کا جائزہ لیں کیونکہ وہ اپنے عوضی پریٹ کی صورٹ میں مر چکا ہے ۔ اس بنا پر کو بھرتی سے مستثنیٰ (الگ،علیحدہ)اقرار دیا گیا کیونکہ وہ قانون اور فوجی ملازمت کی حدود سے باہر تھا ۔ وہ اپنے نما ئندہ یا عوضی کی شخصیت میں مر چکا تھا ۔ قصہ مختصر یہی مماثل (مانند، برابر،نظیر)کی حقیقت ہے۔ خدا موت کے ذریعہ سے رہائی بخشتا ہے کہ ہم اپنے عوضی کی موت اور مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے مماثل ہیں ۔

پولُس رسول کہتا ہے۔ کہ ہم مسیح کی موت کے وسیلہ سے راست باز ٹھہرے ( رُومیوں باب ۵ )۔ اس کے بعد وہ ہمیں (رُومیوں باب ۶ )میں یہ حقیقت بتا تا ہے کہ ایمان دار اُس کی موت کی مشابہت سے اُس کے ساتھ پیوستہ ہو گئے۔ پانچویں باب میں ’’ مسیح کی موت ‘‘ ہمارے لئے ہے لیکن چھٹے باب میں ہم مسیح میں مر گئے ۔ پانچویں باب میں مسیح کی موت بنیادی اور اہم ہے لیکن ہمیں ذرا اگلے باب کا مطالعہ کرنا چاہیے ۔ چھٹے باب میں یہ لکھا ہے کہ ہمارا راستباز ٹھہرایا جا نا محض رسمی یا قانونی سودے بازی نہیں ہے۔ ( اگرچہ یہ لازمی طور پر قانونی بات ہے) ۔ لیکن حقیقت میں یہ مسیح سے پیوستہ ہونا ہے۔ جب خدا بے دین گنہگار کو راست باز ٹھہراتا ہے تو وہ ایمان دار کی مسیح کے ساتھ حقیقی اور گہری زندگی کی پیوستگی کے علاوہ کسی دُوسری چیز کو ذمہ دار نہیں ٹھہراتا ۔ خُدا نے حقیقت میں بے دین کو راستباز ٹھہرایا ہے۔ لیکن یہ بات مسیح کے وسیلہ کے بغیر اور اس سے علیحدہ نہیں ہے۔ ہم صرف مسیح میں راستباز ٹھہرتے ہیں ۔ یعنی ہم اُس کی موت کے کفارہ کے وسیلہ سے ایمان کے ساتھ حقیقی زِندگی میں شامل ہوئے ۔ جنہیں خُدا راست باز ٹھہراتا ہے وہ یسو ع میں خلق ہوتے ہیں۔ ہم فی الحقیقت نئی مخلوق ہیں۔

پولُس رُسول (رومیوں ۲۰:۵ ) میں اعلان کرتا ہے ’’جہاں گناہ زیادہ ہوا وہاں فضل اُس سے بھی زیادہ ہوا‘‘ ۔ قدرتی طور پر چھٹے باب کی پہلی آیت میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ’’ کیا گناہ کرتے رہیں تا کہ فضل زیادہ ہو ‘‘ ؟ ’’ ہر گز ‘‘ کا لفظ اس بات پر مبنی ہے کہ ہم مسیح کی موت میں اُس کے ساتھ شامل ہیں۔


چونکہ ہم اُس کے ساتھ شامل ہو چکے ہیں اس لئے ہم نے ’’ اُس کی موت میں شامل ہونے کا بپتسمہ لیا ‘‘ ۔ چونکہ ہم مسیح مصلوب میں شامل ہو چکے ہیں ( اپنے راستباز ٹھہرائے جانے میں ( رومیوں ۵ باب ) تو ہم اُس کی موت میں بھی شامل ہیں۔ پولُس رُسول کہتا ہے ’’ جب ایک سب کے لئے موا تو سب مر گئے ‘‘۔ یہ ظاہر ہے کہ مسیح جو سب کے لئے موا تو سب مر گئے ۔ ہم گناہ کے اعتبار سے مسیح میں مر گئے ۔ کیا ہم گناہ کرتے رہیں؟ اس خیال کو اپنے دل سے نکال دو ۔ ’’ گناہ ‘‘ اور ’’ اور ’’ مسیح ‘‘ میں یہ کیسا اخلاقی تردیدی بیان ہے۔ مسیح کا میرے لئے مرنا میری موت کو ضروری قرار دیتا ہے ۔ کوہ کلوری پر خداوند مسیح کا کام ہمیشہ کے لئے ۔ کفارے کے کام کو لا نیفک (جُدا نہ ہونے والا)بنا دیتا ہے ۔ اس لئے خُدا نے جسے جوڑا ہے آدمی اُسے جدا نہ کرے۔ ’’ آج مسیح کے نام کو بہت زیادہ نقصان پہنچ رہا ہے کیونکہ ’’ صلیب کو ٹکڑے ٹکڑے کیا جار ہا ہے ‘‘ اور ’’ انجیل کو بے جان ‘‘ بنایا جا رہا ہے۔

خُدا وند یسوع مسیح مجسم ہوا ۔ اُس نے میری طرح گنہگار جسم اختیار کیا اس کے بغیر وہ میرے گناہوں کی سزا کبھی نہ بھگت سکتا ۔ اُس نے مجھے اپنے پاس اُٹھا لیا ، اور مجھے اپنے ساتھ ایک کر لیا ۔ میں قانونی اور اخلاقی طور پر اُس سے تعلق رکھتا ہوں ۔ مجھے مسیح میں موت کی سزا ملی ہے۔ میری قانونی حیثیت یہی ہے ۔ ذرا ایک لمحہ سوچئے ۔ کیا میں نے بچنے کی خاطر موت کو قبو ل کر لیا ہے ؟ جب میں نے محسوس کیا کہ مجھے موت کی سزا ملے گی تو میں نے دوسرے کی موت پر بھروسہ کیا۔ گناہوں کی خاطر مسیح کی موت خود بخود گناہ کے اعتبار سے میری موت ہے۔ خدا کا فتح اور خلاصی دینے کا طریقہ یہ ہے کہ وہ ہمیں آدم کے درخت سے کاٹ کر مسیح میں پیوند کرتا ہے۔ اور موت کے وسیلہ سے وہ ہمارا اُس کے ساتھ میل ملاپ کر ا دیتا ہے ۔ میں ایمان دار تو ہوں لیکن میری اپنی کوئی مرضی نہیں ہے ۔ میں مسیح کے ساتھ مصلوب ہو جاتا ہوں ۔ میرا مسیحی ہونا اس امر کی دلیل ہے کہ میری زندگی مصلو ب ہے۔ یہ مسیحی زندگی ہے نگر گہری روحانی زندگی نہیں ہے۔ علم الہٰیات کے ایک عالم نے کہا ہے کہ میں ’’ پیدائشی مصلوب ہوں ‘‘۔ ( یعنی میں نئے سرے سے پیدا ہو ا ہوں )۔

کیا قاری نے خدا کو خوش کرنے کے لئے دُکھ سہا ہے ؟ آپ نے ارادہ کر لیا ہے کہ آپ بائبل مقدس کی تلات کیا کریں گے ۔ آپ خدا کی شریعت پر غور کیا کریں گے ۔ اور آپ کی زندگی دُعا ئیہ زندگی ہو گی ۔ لیکن یہ سب کچھ بے اثر چیز ہے۔ آپ کو یقین ہے کہ آپ ناکامی اور شکست کو کچل دیں گے ۔ اپنی تمام کوششوں کے باوجود آپ خدا وند مسیح کی مانند نہیں ہیں ۔ مسیح کے احکام بڑے الم انگیز ہیں۔ وہ نشاط و شادمانی (خوشی)کے پیامبر نہیں ہو تے ۔ وہ آپ کے اعصاب پر سوار رہتے ہیں۔ آپ کو احساس ہے کہ آپ کی زندگی خداوند مسیح کے قائم کردہ معیار کے بالکل خلاف ہے یعنی آپ کی مسیحی زندگی نہیں ہے۔ آپ نے حقیقت میں غور و فکر کیا ہو گا ۔ کہ منجی نے کیوں اس قسم کا مطالبہ کیا ہے ۔ اس قسم کے خیالات سوہان روح(جان کو تکلیف دینے والا) اور عذاب آفرین ہوتے ہیں۔ اور خواہ آپ کتنی ہی شرمندگی محسوس کریں ، درد و الم میں مبتلا ہوں اور توبہ کریں آپ کی جدوجہد بے فائدہ ہے ۔

سب سے پہلے آپ کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ مسیح کے مطالبات تک رسائی نہیں ہو سکتی ۔ اپنے مطالبات میں مسیح عام فطرت سے درے پہنچتا ہے۔ وہ محض نقلی چیزیں نہیں چاہتا ۔ وہ آپ کی فطری خامیوں سے واقف ہے۔ وہ ناممکن کا مطالبہ کرتا ہے۔ اور ایمان دار کو اس چیز سے صدمہ ہو تا ہے کہ خون اور گوشت مسیح کے معیار تک نہیں پہنچ سکتے ۔ وہ کونسا آدمی ہے جو حقیقی طور پر اپنے دشمن سے پیار کرتا ہے۔ اور خندہ پیشانی سے مصائب برداشت کرتا ہے۔ اپنے سے نفرت کرتا ہے۔ اور ایک اور کوس بیگار جانے کے لئے تیار ہے ؟ اور یہ باتیں سچی مسیح زندگی کا جزو لا یتفک(وہ حصہ جو علیحدہ نہ ہوسکے) ہیں۔


ہم فوراً اپنے آپ کو ملز م ٹھہراتے ہیں اور مایوس ہو جاتے ہیں ۔ خُداوند مسیح کے مطالبات اور انسانی ممکن الحصول باتو ں کے درمیان ایک ناقابل عبور خلیج حائل ہے ۔ خون اور گوشت کوکچھ حاصل نہیں ہو سکتا ۔ ایف ۔ جے۔ ہیوگؔل نے اپنی کتاب موسومہ ’’ اُس کی ہڈی میں سے ہڈی ‘‘ میں ہماری ناکامیوں کا پورا حال درج کیا ہے۔ ہم ایک جھوٹی بنیاد پر عمل پیرا ہیں۔ ہم یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ مسیحی زندگی مسیح کی تقلید ہے۔ مسیح زندگی مسیح کی تقلید نہیں ہے بلکہ مسیح کی شراکت ہے۔

دراصل ہمیں الہٰی فطرت میں شریک ہونا ہے اور مسیحی کی زندگی میں اس قسم کی تجرباتی شرکت کی شاہراہ اس کا مثیل ہونا ہے۔ یعنی اپنے آپ میں اُس کی موت اور جی اُٹھنے میں مشابہت پیدا کرنا ہے۔

جارج وائٹ نے قانون کے خلاف چارہ جوئی کرکے یا ارباب اختیار کو خوش کرکے رہائی حاصل نہ کی ۔ اُس نے سر کاری ریکارڈ سے اپنی موت ثابت کرنے کا موقف اخیتار کیا ۔ اُس نے یہ دلائل پیش کیں کہ ’’ یہ لکھا ہے ‘‘ ۔ وُہ اپنے نمائندہ یا عوضی کی شخصیت میں مر چکا ہے۔ اسی طرح سے میر ا بھی ایک عوضی اور نمائندہ ہے۔ وہ ایک خوفناک لڑائی میں برسر پیکار ہوااورمیری موت مر گیا ۔ ’’ میں مسیح کے ساتھ مصلو ب ہوا ہوں۔ اور اب میں زندہ نہ رہا بلکہ مسیح مجھ میں زندہ ہے ‘‘ ( گلتیوں ۲۰:۲ )۔ یہ حقیقت بہت بڑی ہے۔ میری جدوجہد اس حقیقت کو اس سے زیادہ سچا نہیں بناسکتی ۔ میں مسیح میں حقیقی طور پر شامل ہو ں ۔ اور اس لئے اُس کی موت اور جی اُٹھنے میں بھی شریک ہوں ۔ مسیح مجھ میں زندہ ہے۔ اُس کی زندگی گناہ کے اعتبار سے موت ہے ۔ مگر خدا کے اعتبار سے زندگی ہے۔ یہ میرا فرض ہے کہ میں اپنا سب کچھ اُس کے سپرد کر دُوں ۔ میں اُس پر ایمان لاؤں ۔ اُس میں شادمان رہوں اور اُس میں چین حاصل کروں ۔

ایک پُرانا مشنری مُدت العمر تک شکست خورد ہ مسیحی زندگی بسرکرتا رہا ۔ اسی مایوسی میں اُس کی نظر اس آیت پر پڑی ۔ ’’ مسیح مجھ میں زندہ ہے ‘‘ اُس نے اپنے دل میں کہا ’’ کیا مسیح سچ مچ مجھ میں زندہ ہے ‘‘ ؟ اگر چہ وہ راسخ الا عتقاد پر یسبٹیرین تھا تاہم وہ فر ط انبساط (کثرت کی خوشی)سے اُچھل پڑا او ر اپنی میز کےگرد ناچتے ہوئے کہنے لگا ’’ مسیح مجھ میں زندہ ہے ! مسیح مجھ میں زندہ ہے ‘‘ جب اُسے محسوس ہوا کہ مسیح مصلوب اُس میں زندہ ہے تو وہ پرانی انسانیت کے بندھنوں سے آزاد ہو گیا ۔

وہ زِندگی جو خداوند مسیح کے مشابہ ہے فراوانی کاملیت اور فتح کی زندگی ہے۔ اس زندگی کو احساسات یا ارتعاش(کانپنا) کی زندگی سے خلط ملط نہیں کرنا چاہیے ۔ یہ ’’ زندگی ایمان رکھنے کے باعث خوشی اور اطمینان سے ‘‘ معمور ہے۔ ہمیں جذبانی زندگی بسر نہیں کرنی چاہیے کیونکہ جذبات اکثر اوقات گمراہ کردیتے ہیں۔ خداوند مسیح نے فرمایا ’’ تم سچائی سے واقف ہو گے اور سچائی تم کو آزاد کرے گی ۔ یہ الفاظ زمانہ حال کے مشنریوں کے لئے مشعل راہ ہیں جے ۔ ہڈسن ٹیلر کا تجربہ اس سچائی کو اور زیادہ واضح کرتا ہے ۔ کئی مہینوں تک وہ کثرت کی زندگی ، پاکیزگی اور روحانی قوت حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہا ۔ اُس نے اس سلسلہ میں بہت سےدُکھ اُٹھائے ۔ آخر کار اُس نے مایوس ہو کرو فاداری پر بھروسہ کیا۔ اُس نے اپنی ہمشیرہ کو خط لکھا اور وہ اُس میں ایک حصے کا ذکر کرتا ہے۔


وہ حصہ جیسے سب سے زیادہ خوبصورت کہا جائے وہ آرام ہے جو مسیح کے ساتھ پوری پوری مشابہت سے حاصل ہوتا ہے ۔ اب مجھے کسی چیز کی تشویش نہیں ہے کیونکہ وہ اپنی مرضی پوری کرنے پر قادر ہے اور اُس کی مرضی میری مرضی ہے ۔یہ بات اتنی اہم نہیں ہے کہ وہ مجھے کہاں رکھتا ہے یا کس طرح رکھتا ہے ؟ ایسا سوچنا میرا کام نہیں بلکہ مسیح کا کام ہے۔ جب آسانیاں ہو ں تو وہ مجھے اپنا فضل عطا فرماتا ہے اور مشکلات میں اُس کا فضل میرے لئے کافی ہے۔

پس اگر خدا مجھے پر یشانی میں مبتلا کرے تو کیا وہ میری رہنمائی نہیں کرے گا ۔ کیا جب مشکلات بڑی ہوں ۔ تو وہ زیادہ فضل نہیں بخشے گا ۔ اور بڑی آزئشوں اور سختیوں میں مجھے زیادہ طاقت نہیں عطا فرمائے گا ؟ میرے کام کے بارے میں یہ عرض ہے کہ وہ زیادہ نہیں تھا ۔ وہ کام نہ ہی زیادہ ذمہ داری کا تھا اور نہ ہی مشکل تھا ۔لیکن اب تمام بوجھ دُور ہو چکا ہے۔ اُس کے تمام ذرائع میرے لئے ہیں کیونکہ وہ میرا ہے ۔ اور ان چیزوں کا سر چشمہ ایما ن دار کے لئے مسیح کے ساتھ پیو ستہ ہو کر ایک ہو جانا ہے۔

دیا تو نے جو کچھ وہ میں نے لیا گو نا چیز ہوں مجھ کو میرے خُدا
شب و روز مجھ سے ہے یہ التجا مگر میر ی یا رب ہے تجھ سے دُعا
تری زندگی ہو مری زندگی میری زندگی ہو تری زندگی


باب دوم

گنا ہ پر فتح کا راز

آج کل جنگ و جدل کا زمانہ ہے۔ ہمیں وہ آدمی یاد آتا ہے۔ جس نے اپنے کما نڈ نگ افسر سے کہا تھا ۔ ’’ میں نے ایک قید ی کو گرفتار کیا ہے ‘‘ ۔ کمانڈ نگ افسر نے جو اب میں کہا ’’ اُس قید ی کو اپنے ساتھ لے کر آو ٔ ‘‘۔ سپاہی نے شکایت کی کہ وہ آنا نہیں چاہتا ۔ اس پر کمانڈنگ افسرنے کہا ’’ پھر تم خود آؤ ‘‘۔ سپاہی نے کہا ’’میں حاضر ہونے سے قاصر ہوں کیونکہ وہ مجھے آنے نہیں دے گا ‘‘۔ مجھے ڈر ہے کہ آج کل بھی اسی قسم کی مسیحی فتح تو ہے جو اس سے زیادہ گہری نہیں ہے ۔ دراصل تمام مسیحی گناہ کی سزا سے بچ چکے ہیں ، لیکن گناہ کی قوت کیا ہے؟ کیا ہم اس سچائی پر تکیہ لگا ئے رکھیں کہ ’’ جہان گناہ زیادہ ہوا وہاں فضل اس سے زیادہ ہوا ‘‘؟ کیا ہم یہ بات کہنے کے لئے حق بجا نب ہیں کہ ہم قانونی اور شرعی طور پر محفوظ ہیں اور ہم اخلاقی اور روحانی طور پر مضبوط ہوں گے ؟ کیا خداوند مسیح میں ہمارے راست باز ٹھہرنے کی یہ وجہ نہیں تھی کہ ہماری زندگی پا ک اور بے عیب ہو ؟۔

خُدا کے بہت سے فرزندوں نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ چونکہ ہم راست باز ٹھہرائے جا چکے ہیں لہٰذا نیک زندگی بسر کر نا ہماری مرضی پر منحصر ہے۔ ہماری بے چین اور مضطرب روحیں ہمیں جھنجھوڑ کر قائل کر دیں گی ۔ کہ ہم پاک نہیں ہیں۔ لیکن مسیح مسیں ہم اپنی قانونی حیثیت سے مطمئن ہیں۔ ہم نے اس پُر فضل سچائی سے ناجائز فائدہ اُٹھایا ہے کہ ’’ اگر کوئی گناہ کرے تو باپ کے پاس ہمارا ایک مدد گار ہے یعنی یسوع مسیح راست باز ‘‘۔ شاید غیر شعوری طور پر ہم نے ایک معمولی شکست خور دہ رسمی ناپاک زندگی اختیار کر لی ہے۔ جب ہماری نجات کا بانی ہے تو ہمارا درجہ فاتحین سے بھی زیادہ ہے۔ ہم ہر جگہ کا مران ہیں ، اور اسیری کو بھی اسیر کر لیتے ہیں اور اگر اپنی گنہگار زندگیوں کو مسیح کے تابع نہیں کر سکتے تو ہمارا سپہ سالا ر کہتا ہے ’’ اچھا ! اب خود آؤ ‘‘ لیکن وہ گناہ جو مجھ میں بسا ہوا ہے مجھے آنے نہیں دیتا۔

بعض مسیحی کا ملیت کی مجنونانہ حُدود سے خوفزدہ ہیں تو اُن کا خوف بے معنی نہیں ہے۔ ہم اس کتاب کے پڑھنے والے سے گذارش کرتے ہیں۔ کہ وہ ڈاکٹر اے ۔ جے ۔ گاؔرڈن کے پُر حکمت الفاظ کا مطالعہ کریں۔

’’ الہٰی سچائی جو کتاب مقدس میں بیان کی کئی ہے وہ اکثر دو تھائی حُدود کے درمیان ہوتی ہے۔ اگر ہم بے گناہ کاملیت کے عقیدے کو بدعت خیال کریں تو گناہ آلود ناکاملیت کے ساتھ مطمئن ہونا اس سے بھی بڑی بدعت ہے اور ہم کو خدشہ ہے کہ بہت سے مسیحی لوگ رسول کے ا ن الفاظ کو غیر شعوری طور پر ادنیٰ درجے کی مسیحی زندگی بسر کرنے کا جواز ٹھہراتے ہیں کہ ’’ اگر ہم کہیں کہ ہم بے گناہ ہیں تو اپنے آپ کو فریب دیتے ہیں‘‘۔ وہ شخص جو نیک زندگی بسر کرنا چاہتا ہے اُسے یہ سمجھنا چاہیے کہ پاکیزہ زندگی بسر کرنا ممکن ہے اور روائتی ناپاکی سے قطعاً مطمئن نہیں ہو نا چاہیے ۔ اگر کوئی دُنیا دار مسیحی کسی کا مل مسیحی پر پتھر پھینکے تو یہ کوئی قابل تعریف بات نہیں ہے۔ لیکن کتاب ِمقدس میں کیا لکھا ہے ’’ کیا گناہ کرتے رہیں ۔ کہ فضل زیادہ ہو ؟ ہر گز نہیں‘‘ ( رومیوں ۱:۶ ) ۔


کیا قاری ان لوگوں میں سے ہے جو سمجھتے ہیں کہ انہوں نے کسی کو اسیر کر لیا ہے۔ لیکن وہ خود غلام ہیں یعنی وہ اپنے نفس اور اُس گناہ کے غلام ہیں جو اُن میں بسا ہوا ہے؟ کیا آپ دو دِلے ہیں اور اپنی تمام روشوں میں نا پائیدار ہیں ؟ آپ پولُس کے ساتھ کیا یہ کہتے ہیں ’’ جس نیکی کا ارادہ کرتا ہوں وہ تو نہیں کر تا مگر جس بدی کا ارادہ نہیں کر تا اُسے کر لیتا ہوں ‘‘ آپ جاگتے اور دُعا کرتے ہیں۔ آپ نے جدوجہد کی ہے اور اس بات پر آنسو بہائے ہیں کہ آپ نے مسیح کی خاطر جینے کےلئے بے فائدہ کو شش کی ہے۔ ممکن ہے کہ آپ نے ساری رات دُعا میں گزاری ہے تا کہ آپ کو برکت حاصل ہو ۔ آپ اپنی بُرائی پر خفیہ طور پر آنسو بہاتے رہے ہیں ۔ اور اکثر اوقا ت مایوسی اور شرمندگی کا شکار ہوئے ہیں۔ لیکن یہ سب رنج و الم اُٹھانے کے باوجود آپ کے تمام ارادے اور کوشش نقش بر آب(جلد مٹ جانے والا) ثابت ہوئیں ۔ نفس امارہ(انسان کی خواہش جو برائی کی طرف مائل کرئے) کس طرح نفس امارہ کو نکال سکتا ہے ؟ آپ گناہ کے خلاف جدوجہد کرتے کرتے کمزور ہو رہے ہیں یہاں تک کہ آپ کا ایمان بھی متزلزل ہو چکا ہے۔ جب آپ ارادہ کرتے ہیں کہ آپ گناہ کو اسیر کر کے اُسے اپنے ساتھ سپہ سالا ر کے پاس لے آئیں او ر ۔۔۔۔ زنداں(قید خانہ) میں ڈال دیں او ر اُسے آزاد نہ ہو نے دیں ۔ تو آپ کو معلوم ہو تا ہے کہ حقیقت میں آپ خود اسیر ہیں۔ گناہ اور نفس نے آپ کی زندگی کو اپنے چنگل میں لے رکھا ہے ۔ یہ اندرونی المیہ کشمکش اور شکست ہے۔ ذاتی کوشش بیکار اور حماقت ثابت ہو گی ۔ لیکن اس کا ایک خوشگوار پہلو یہ ہے کہ ایمان اکثر اوقات نا اُمیدی میں پیدا ہو تا ہے اگر ہم اپنی نگاہوں میں بے حد گنہگار ہوں تو ہم پولُس کی طرح دل شگاف آہ بھر نا شروع کر دیں گے ’’ہائے میں کیسا کم بخت آدمی ہوں ! اس موت کے بدن سے مجھے کون چُھڑائے گا ‘‘؟ ( رومیوں ۲۴:۷ ) ۔

مینار روشنی کا خالق خدا ہمارا

نومید ہوں تو اپنا بنتا ہے وہ سہارا

خاطی کو پیار کرتی ہے اُس کی کاملیت

تو پھر بات کیا ہوئی ؟ ہماری مشکل کیا ہے؟ ہم نے غلط راستہ اختیار کیا ہے۔ ہم نے گناہ پر فتح حاصل کرنے کا خدا کا طریقہ اختیار نہیں کیا ۔جیمس ایج ۔ میکانکی نے کیا خوب کہا ہے ۔

’’خدا اپنی نیو بڑی گہری رکھتا ہے۔ وہ گناہ پر فتح کی بنیاد موت کی گہرائیوں میں رکھتا ہے۔ روح القدس گناہ پر ایماندار کی فتح کی کامران تعلیم کو ایک سخت مو ثر اور مفصل محاروہ میں بیان کرتا ہے یعنی میں یہ گناہ کے اعتبار سے مر گیا ‘‘۔


اور رومیوں کے خط کے چھٹے باب میں رُوح اس کی ’’ گناہ کے اعتبار سے موت ‘‘ پر زور دیتا ہے ( آیت ۲) ’’ گناہ کے اعتبار سے مُوا ‘‘ ( آیت ۱۰ ) ’’ گناہ کے اعتبار سے مُروہ ‘‘ ( آیت ۱۱)۔

آیت ۱۰ میں یہ سچائی مرقوم ہے کہ یسوع مسیح نہ ہی صرف گناہ کی خاطر مُوا بلکہ وہ ’’ گُناہ کے اعتبار سے مر گیا ‘‘ ۔ جب خدا نے اُسے گناہ ٹھہرایا تو اُسے گناہ کی پوری پوری سز ا دی گئی ۔ موت کی وجہ سے گناہ کی سزا اور طاقت ختم ہوئی ۔ اب گناہ کی طاقت اور گُناہ کے مطالبات باقی نہیں رہے۔ اسی لئے ہم انجیل مقدس میں پڑھتے ہیں کہ ’’ موت کا اُس پر کچھ اختیار نہیں ہو نے کا ‘‘ کیونکہ مسیح گناہ کے اعتبار سے مر گیا ۔ اب وہ خدا کے اعتبار سے ابد الا ٓ باد تک زندہ ہے ، اور وہ گناہ کی زد سے باہر ہے۔

پولس رسول کہتا ہے ’’ گناہ کرتے رہیں تا کہ فضل زیادہ ہو ۔ ہر گز نہیں ۔ ہم جو گناہ کے اعتبار سے مر گئے کیونکر اُس میں زندگی گذاریں ۔ کیا تم نہیں جاننے کہ جتنوں نے مسیح یسوع میں شامل ہونے کا بپتسمہ لیا تو اُس کی موت میں شامل ہونے کا بپتسمہ لیا ‘‘۔ ( رومیوں ۶: ۱۔۳ ) یہ یاد رکھیں کہ پولُس کہتا ہے کہ ہم حقیقت میں مر چکے ہیں اور وہ یہ نہیں کہتا کہ ہم لفظی طور پر ’’ گناہ کے اعتبار سے مر گئے ‘‘۔ جو کچھ وہ کہتا ہے وہ ہر ایمان دار کے لئے سچ ہے کہ وہ مسیح کے ساتھ میل ملاپ کی وجہ سے گناہ کے اعتبار سے مر چکا ہے ۔ ’’جو خداوند کی صحبت میں رہتا ہے وہ اُس کے ساتھ ایک روح ہوتا ہے ‘‘ یعنی ہو مصلوب کے ساتھ ایک ہے یعنی مسیح نے میری انسانیت اختیار کر لی ۔ وہ ایسا کئے بغیر میرے گناہوں کی سزا بھگت نہیں سکتا تھا ۔ اُس نے مجھے اپنے ساتھ شامل کر لیا ۔ میری اُس کے ساتھ مشابہت ہے۔ وہ نہ ہی صرف میرے واسطے موا بلکہ میں بھی اُس کے ساتھ مر گیا ۔ اُس نے مجھے اپنے ساتھ موت میں شامل کر لیا ۔ اور اس کی موت گناہ کے اعتبار سے میری موت تھی ۔ میں اُس کے ساتھ دفن ہوا ، اور پھر مُردوں میں سے جی اُٹھا ۔ اب گناہ کا مجھ پر کچھ اختیار نہیں ہے۔ یہی بنیاد حقیقتِ عظیم ہے۔ رُوح القدس آپ کو او ر مجھے کہتا ہے کہ تمہیں جان لینا چاہیے کہ مسیح نے تمہار ا بدن اختیار کیا ۔ یعنی اُس نے تمہاری انسانیت کا جامہ زیب تن کیا ۔ اُس نے تمہیں اپنی موت میں شامل کر لیا ۔ اور موت کے ذریعہ سے تم جلال کے ساتھ مُردوں میں سے جی اُٹھے اور آزاد ہوئے اور اب موت کا تم پر کوئی اختیار نہیں ہے۔

اپنے جذبات کا خیال کئے بغیر ہمیں اس بڑی حقیقت کو سمجھنا چاہیے کہ ہم مسیح کی موت اور مُردوں میں سے جی اُٹھنے میں شامل ہیں ’’ اُسی طرح تم بھی اُپنے کو گناہ کے اعتبار سے مُردوں مگر خدا کے اعتبار سے مسیح یسوع میں زندہ سمجھو ‘‘۔ ( رومیوں ۱۱:۶) یہ نوت کریں کہ پولس یہ نہیں کہتا کہ گناہ کو اپنے اعتبار سے مُردہ سمجھو ۔

گناہ پر فتح حاصل کر نے کا الہٰی طریقہ یہ نہیں ہے کہ بُری خواہشات کو دبایا جائے ، یا پُرانی انسانیت و اتار پھینکا جائے یا فطری گناہ کو دُور کا جائے بلکہ گناہ پر فتح پانے کا الہٰی طریقہ صلیب کے ذریعہ سے ہے صرف موت کے ذریعہ مخلصی حاصل ہو سکتی ہے۔ اپنے آپ کو گناہ کے اعتبار سے مُردہ سمجھنے اور گناہ کو اپنے اعتبار سے مُردہ سمجھنے میں بڑا فرق ہے ۔ اپنی ذاتی کوشش ، جدوجہد ، یا برکت یا اعتقاد سے گناہ کو مُردہ سمجھنا کتابِ مُقدس کے نمونہ کے مطابق نہیں ہے۔ خدا کہتا ہے کہ تمہیں اپنے آپ کو گناہ اعتبار سے مُردہ سمجھنا چاہیے ۔ اگر میں گناہ سے خلاصی کا ارادہ رکھتا ہوں تو مجھے ایمان کے ذریعہ خداوند مسیح کے ساتھ شامل ہونے کے وسیلہ سےا پنے آپ کو گناہ کے اعتبار سے مُردہ سمجھنا چاہیے ۔ میں ’’ مسیح میں شامل ہوں ‘‘۔ اور اُس میں شامل ہو نا گناہ کے اعتبار سے مُردہ ہونا ہے۔


یہی آپ کا ایمان ہونا چاہیے پس اپنے جذبات کا خیال نہ کیجئے ۔ جب کبھی مجھے کسی گناہ کا سامنا ہو تو مجھے کہنا چاہیے ۔ میں اِس گناہ کے اعتبار سے مسیح مر چکا ہوں۔ اگر کوئی دُنیا کے نفع کی بابت ہو تو میں دُنیا کے اعتبار سے اور دُنیا میرے اعتبار سے مصلوب ہو چکی ہے۔ اگر میرا اپنا مغرور نفس ہو تو مجھے یہ سمجھنا چاہیے کہ جب ایک سب کے لئے موا تو سب مر گئے ۔ تو پھر مجھے اپنے لئے زندہ رہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں اپنے حریص غرور اپنے اُونچے اُونچے خیالا ت اور اپنے تکبر کے اعتبار سے مر چکا ہوں۔ مجھے ان دونوں جوان عورتوں کا سارویہ اختیا ر کرنا چاہیے جنہیں جب ایک محفل رقص سرور میں شامل ہونے کا دعوت نامہ وصول ہوا تو اُنہوں نے کہا ’’ ہمیں بڑا افسوس ہے کہ اس محفل میں ہماری شمولیت نا ممکن ہے کیونکہ پچھلے ہفتہ سے مرچکی ہیں۔ ہم مسیحی ہیں ‘‘۔ جب انہوں نے پچھلے ہفتہ بپتسمہ کے وقت گواہی دی تو انہوں نے اعلان کیا کہ ہم مرگئیں ۔ دفن ہوئیں اور پھر جی اُٹھی ہیں اور اس لئے ہم صرف مسیح کے لئے ہیں۔

کہتے ہیں کہ شہنشاہ ولیم نے ایک شخص سے ملاقات کی درخواست منظور نہ کی ۔ یہ در خواست ایک امریکی جر من نے دی تھی۔ شہنشاہ نے فرمایا کہ وہ جرمن جو جرمنی میں پیدا ہوتے ہیں لیکن امریکہ کی شہریت اختیار کرنے پر امریکن بن جاتے ہیں ان کے متعلق یہ حکم ہے ’’ میں امریکی لوگوں کو جانتا ہوں ۔ میں جرمنوں کو بھی جانتا ہوں لیکن جرمن امریکنوں کو نہیں جانتا یہی حال میرا ہے۔ میں آدم کی اولدد ہونے کی وجہ سے گرفتار تھا لیکن اب مسیح میں آزاد ہوں۔ صلیب نے میرے بندھن تو ڑ دیئے ۔ میں اپنی پرانی شہریت اور زندگی کے اعتبار سے مر گیا ۔ مَیں آدم اور مسیح دونوں پر ایمان رکھنے والا نہیں ہوں۔ اس صورت میں مَیں بادشاہ کے حضور حاضر نہیں ہو سکتا ، اور مجھے پُرانی انسانیت سے رہائی نہیں مل سکتی ۔ مجھے اس قسم کی ناپاک منافقت کو چھوڑ دینا چاہیے ۔ مجھے یہ کہہ دینا چاہیے کہ میں صرف مسیح کا ہی ہوں ۔ مجھے اپنے آپ کو اُس کے حضور ایسے آدمی کی طرح پیش کرنا چاہیے جو ’’ گناہ کے اعتبار سے مُروہ مگر خدا کے اعتبار سے مسیح یسوع میں زندہ ‘‘ ہیں ( رومیوں ۱۱:۶ ) ۔



باب سوم

گناہ پر فتح کا راز

گذشتہ سے پپوستہ

پیدا ئشی مصلوب مسیحی ہونے کی وجہ سے نیا مخلو ق ہونا میرے لئے سب کچھ ہے یعنی میں یسوع مسیح کی موت کے وسیلہ سے نئے سرے سے پیدا ہوا ہوں۔ جب میری مخلصی ہوئی تو میں نے موت کو ہی اپنا چھڑانے والا سمجھا ۔

میری خاطر مسیحا نے مقدس خون بہایا ہے سزا دار ہلاکت تھا گنا ہوں کی وجہ سے مَیں

مسیح میری جگہ مُوا ۔ اگر مسیح میری خاطر نہ مرتا تو مَیں مُروہ تھا ۔ وہ میری موت مرا ۔ ’’ وہ آپ ہمارے گناہوں کو اپنے بد ن پر لئے ہوئے صلیب پر چڑھ گیا تا کہ ہم گناہوں کے اعتبار سے مر کر راستبازی کے اعتبار سے جئیں۔ اور ’’ اُسی کے مارکھانے سے تم سے شفا پائی ‘‘ ( ۱ ۔پطرس ۲۴:۲ ) ۔ مجھے یا تو ’’ گناہوں میں مُردہ ‘‘یا’’ گناہوں کے اعتبار سے مُردہ ‘‘ ہونا چاہیے ۔ اگر میں آدم میں کھو چکا ہوں تو میں ’’ گناہوں میں مردہ ‘‘ ہوں ۔ اگر میں مسیح میں شامل ہونے کے سبب بچ گیا ہوں تو میں گناہ کے اعتبار سے مُردہ ہوں ۔ جب مَیں نے اپنے گناہوں کی خاطر مسیح کی موت کو قبول کر لیا ہے تو گُناہ کے اعتبار سے اپنی موت کو قبول کر نا میرے لئے ناگزیر ہو گیا۔ اب میرے واسطہ صلیب سے ہے ۔ اور اگر میں کسی دوسری حیثیت کو قبول کروں تو میں نفرت انگیز اخلاقی تناقض کا مر تکب ہو ں گا ۔ منطقی طور پر موت ہی میرا موقف ہے ۔ میں پیدائشی مصلوب ہوں ۔ مسیحی زندگی کا سب سے پہلا اصول یہی ہے۔

یہ محض میکا نکی(مشین سے بنی ہوئی ) چیز نہیں ہے او رنہ ہی قانونی افسانہ ہے۔ مَیں حقیقی طور پر مسیح میں شامل ہوں ۔ لیکن بائبل کی ایک اور سچائی کی طرح میری دلی مقبولیت ضروری ہے۔ مسیح تجھ میں زندہ ہے ۔ وہ ایک پُر عظمت سچائی ہے ۔ اگر مَیں نجات یافتہ ہوں تو یہ محض بے جان دبے روح اتہام (الزام) نہیں ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے ، لیکن یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے مجھے دلی سے ’’ آمین ‘‘ کہنا چاہیے تا کہ میں یہ محسوس کروں کہ وہ مجھ میں زندہ ہے اور مَیں گناہ کے اعتبار سے اپنے آپ کو مُردہ لیکن خدا کے اعتبار سے ۔۔۔۔مسیح یسوع میں زندہ سمجھو ں ۔ ایسا سمجھنا محض یقین ہی نہیں ہو تا یاجیسا کسی نے کہا ہے ’’ ایک ایسی چیز پر یقین رکھنے کی کوشش کرنا تو اس طرح سے نہیں ہے ‘‘ تا ہم زندہ رکھنے والا ایمان عام سمجھ بوجھ سے زیادہ ہے۔

حقیقی ایمان نفس کُشی ہے ۔اور جب تک ہم اپنی خودی سے انکار نہ کریں ہمارا گناہ کے اعتبار سے اپنے آپ کو مُردہ سمجھنا بیکار ہے ۔ مسیح کی موت کی قوت میں مجھے اپنی پُرانی انسانیت سے دست بردار ہو جانا چاہیے ۔


کلوری اور موت کے اعتبار سے مسیح میں ایک ہونے کی وجہ سے میں اپنی جسمانی خواہشات کو اپنے آپ پر بادشاہی نہیں کرنے دُوں گا ۔ مجھے دو میں سے ایک کو انتخاب کرناہے ۔ کہ کیا میری گندی اور گھناؤنی انسانیت مجھ پر بادشاہی کر ے گی یا مسیح ۔ اس قسم کی زندگی کو یہ کہنا چاہیے کہ ’’ اب میں زندہ نہ رہا بلکہ مسیح مجھ مَیں زندہ ہے ‘‘ اور اگر مَیں ابھی تک اپنی ہی خواہشات کے مطابق عمل کرتا ہوں تو مسیح کی موت کی برکات کس طرح سے حاصل کر سکتا ہوں ؟ اپنی خودی کو جلاوطن کر دینا چاہیے ۔ مجھ سے اُسی وقت ہی نئی زندگی کا وعدہ کیا جا سکتا ہے جب میں پُرانی انسانیت کو باہر نکا ل دُوں ۔ اگر خدا وند مسیح اپنے آپ کو خالی کر نے اور اپنی خودی سے انکار کی غرض سے اتھاہ گہرائیوں میں اُتر گیا تو مجھے بھی اپنی پُرانی انسانیت کو ذلت کی گہرائیوں میں پھینک دینا چاہیے ۔ مجھے بھی سموئیل راؔتھر فورڈ کی طرح یہ کہنا اور تسلیم کرنا چاہیے کہ

’’ میں خداوند مسیح کی صلیب کے سامنے سر جھکا ؤں اور وہی مجھ سے آمین کہلائے ‘‘۔

جب ہم اس طرح سے اپنی خودی سے انکار کر یں تو ہم دیکھیں گے کہ اپنے خاندان یا کاروباری حلقہ میں سے کس کی متا بعت (پیروی)سے یہ چیز ہو سکتی ہے۔ سب سے اعلیٰ چیز متابعت ہے ۔ کچھ ایسی خواتین ہیں جو اپنے گھر میں اپنے شوہر کے مزاج کے سامنے سر تسلیم خم کرتی ، اور طرح سے اُنہیں عملی طور پر فتح حاصل ہوتی ہے ۔ اور بعض شوہر اپنی زبان دراز بیوی کی طعن و تشینع (بُرابھلا کہنا)کے سامنے سپر ڈال دیتے ہیں ۔ اور اسی میں ہی وہ اپنی فتح محسو س کرتے ہیں۔ بعض ایسے بھی ہیں جوایسے حالات اور مشکلات سے ہمکنار ہو کر کامیاب و کامران زندگی بسر کرتے ہیں۔ اسی قسم کی عملی فرمانبرداری سے ہی کامران زندگی بسر کی جاسکتی ہے ۔ اپنی خودی سے انکار یہی ہے ۔ عملی خود انکاری کے بغیر اپنے آپ کو نجات یا فتہ سمجھنا محض ظاہر داری ہے۔ یہ محض اپنے آپ کو راست باز سمجھنا اور اپنی جدوجہد کا ڈھنڈو راپیٹنا ہے ۔

اپنے آپ کو مسیح کے ساتھ شامل کرنے کا مطلب ہے گناہ سے نفرت پولس رسول کہتا ہے۔ کہ تم ’’ گناہ کے اعتبار سے اپنے آپ کو مُردہ سمجھو ‘‘اور پھر اس کے بعد کہتا ہے ۔ پس گناہ تمہارے فانی بدن میں بادشاہی نہ کرے ‘‘۔ ہمیں گناہ کو بادشاہت نہیں کرنے دینا چاہیے ۔ ہم اس بات کو جانتے ہیں لیکن اس سے بہتر یہ بات ہے کہ ہم گناہ کو بادشاہی کر نے ہی نہ دیں کیونکہ ہم مرگئے اور موت سے ہو کر مسیح کے جی اُٹھنے میں شامل ہوئے ۔ اور گناہ کا ہم پر کوئی اختیار نہیں ہے۔ گناہ کا اُن لوگون سے کوئی مطالبہ نہیں ہے جو مسیح مصلوب میں شامل ہیں اور گناہ کا اُن لوگوں پر کوئی اختیار نہ ہو گا جو رُوح القدس کے تابع رہتے ہیں ’’ کیونکہ زندگی کے روح کی شریعت نے مسیح یسوع میں مجھے گناہ اور موت کی شریعت سے آزاد کر دیا ‘‘ ( رومیوں ۲۰:۸ )۔ لیکن اگر ہم رُوح سے تکرار کرتے رہیں تو ہم گناہ کے اختیار سے بچ نہیں سکتے ۔ رُوح القدس ایک خاص موت ہے اور خدا کا کلام صاف اور سادہ ہے۔ ٹھوکر کھلانے والے کی سزا موت ہے ۔ اُسے لاڈ پیا ر سے بگاڑنا ٹھیک نہیں ہے ۔ یہاں تک کہ اُس کے لئے دُعا بھی نہیں کرنی چاہیے ۔ برکت کے لئے دُعا کر نا اور دل کی پاکیزگی کے لئے التجا کر نا اچھا ہے لیکن جب خدا کہتا ہے کہ اسے ’’ کاٹ دو ‘‘ تو اُس وقت یہ ٹھیک نہیں ہے ۔ خدا نے ہمیں صلیب پر تمام بدی سے رہائی دی ہے ۔ اب وہ کہتا ہے کہ گناہ سے قطع تعلق کرنا اب تمہارا کام ہے ۔ گناہ تمہارے فانی بدن میں با دشاہی نہ کرے ۔

اب اس لئے کہ ’’ خُدا اور آدمیوں کے باب میں میرا دل مجھے کبھی ملامت نہ کرے ‘‘ میں نے کئی مرتبہ ذلت اُٹھائی ہے۔ مجھے میرے خاندان ،کاروباری دوستوں ،سنڈے سکول ، کلاس اور کلیسیاء کے سامنے ’’علانیہ ذلیل ‘‘ کیا جا رہا ہے کیا میں دلیری سے کہہ سکتا ہوں کہ میں نے کسی کو ٹھو کر نہیں کھلائی اور اس لئے روح القدس نے اس سلسلہ میں مجھے اُ س کی فرمانبرداری کرنے کی التجا نہیں کی ؟ مسیح کو دیدہ و دانستہ رد کیا گیا اور قصور واروں میں شمار کیا گیا ۔


مجھے گُناہ سے مخلصی دلانے کی غرض سے خداوند مسیح نے اپنی مرضی سے اپنی جان دے دی ۔ اس لئے مجھے اپنی فطرت کو بگاڑنا نہیں چاہیے بلکہ اپنے تکبر اور غرور سے نفرت کرنی چاہیے مجھے اُس کے حضور سر جھکانا چاہیے ۔ اگر میں اپنے گُناہ اور ذِلّت کی جگہ لے کر نہ جاؤں تو خواہ میں گُناہ سے چھٹکارا حاصل کر نے کی قیمت ہی کیوں نہ ادا کرؤں مَیں کلوری کی اُس قوت کو کسی طرح سے بھی حاصل نہیں کرسکتا ، جو گناہ سے مخلصی بخشتی ہے۔ میں صلیب سے قطعاً ہم آہنگ نہیں ہوں ۔ گُناہ کا اقرار گناہ کو رَدّ کرتا ہے ۔جب ہم صلیب سے ہم آہنگ ہوتے ہیں تو گناہ کی طاقت بالکل ٹوٹ جاتی ہے ۔ لیکن صلیب چھپنے یا گناہ کو چھپانے یا ڈھانپنے کی جگہ نہیں ہے ۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں ہم اپنے گناہوں سے دستبردار ہو تے ہیں ۔ ہمارے گناہو ں سے پردہ اُٹھ جاتا ہے ۔ یہ علانیہ تذلیل کی جگہ ہے۔ مجھے ہر ایک انجام کےلئے تیار رہنا چاہیے ۔ اگر مسیح گناہوں سے چھٹکارا دینے کی خاطر مر گیا تو کیا مجھے بھی اُس کے ساتھ مصلوب نہیں ہونا چاہیے ؟ لیکن اگر ہم گناہ سے اتنے بیزار نہیں ہوتے کہ گناہ سے چھٹکارا حاصل کرنے کے متمنی ہوں تو ہمیں اُس کے حضور اپنا سر جھکا کرآہ زاری کرنی چاہیے اور اپنی زنجیروں کو اُتار پھینکنا چاہیے حتی کہ کہ ہم گناہ کے بدن سے ’’مرنے کو ‘‘ ہو جائیں ۔ ہمیں اپنی نا پاک ریا کاری س چھٹکارا حاصل کرنا چاہیے ۔ ہمیں اپنے دو دِلے پن کا اعتراف کرنا چاہیے ۔ لیکن ہمارا خدا بڑا ہی اچھا خُدا ہے ۔ مسیح غیور اور پیار کرنے والا ہے۔ وہ ہر ایک ایمان دار کو مخلصی عطا کرنا چاہتا ہے۔ اگر آپ اس قوت کو حاصل کرنا چاہتے ہیں جو آپ کی خاطر کلوری سے صادر ہوئی تو وہ آپ کو ذلیل اور مایوس کر نے سے گریز نہیں کرے گا ۔ آپ کو مہربانی یا خوف سے سکھایا جا سکتا ہے۔ خدا کی مرضی کی تلوار ہر اس بند ھن کو کامیانی سے کاٹ سکتی ہے جس نے آپ کو گناہ اور بدن سے باندھ رکھا ہے ۔ دولت ،صحت اور دوست اس تلوار کا لقمہ ہو سکتے ہیں۔ آپ کی زندگی کے اندرونی تار د پود ٹکڑے ہو جائیں گے ۔ آپ کی خوشی جاتی رہے گی ۔ خارجی اور داخلی طور پر آپ کو مارا کو ٹا جائے گا ۔ آپ کو جلا یا جائے۔ آپ کی کھال کھینچی جائے اور آپ کو بھسم کر دیا جائے ۔ اور آخر کار اُس خوفناک بپتسمہ کے ذریعہ آپ کو اپنی گناہ آلود زندگی سے بالکل پاک و صاف کر دیا جائے ، اور پھر انجام کار آپ اپنے آپ کو فتح مند صلیب کے سپرد کردیں تو صلیب کی یہ قوت کتنی پُر عظمت ہے۔ ہم کب تک اس کا مقابلہ کرتے رہیں گے ؟ وہ قوت جو کلوری صا در ہوتی ہے وہ آپ ہی کے لئے ہے۔

ایف ۔ جے ، ہیو گل اپنی کتاب بنا مم’’ اُس کی ہڈی میں سے ہڈی ‘‘ میں اُن خواتین کی عجیب و غریب قسمت کے متعلق بیان کرتا ہے جو ایک ایسی تجربہ میں کام کرتی ہیں۔ جہاں ریڈیم کے برقی حلقہ میں رہنا نا گزیر ہے ۔ جو نہی وہ اس تجربہ گاہ میں داخل ہوتی ہیں ۔ انہیں اس امر کا احسا س ہوتا ہے کہ یہاں اُن کے چاروں طرف موت ہی موت ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد انہیں چھٹی مل جاتی ہے۔ اور انہیں دس ہزار ڈالر کا ایک چیک دیا جاتا ہے ۔ ڈاکٹروں نے اُن نو جوان لڑکیوں کا ایکس رے کے ذریعہ سے معائنہ کیا ہے۔ جو ریڈیم کے برقی حلقہ میں کام کرتی رہی ہیں ۔ اُن کا کہنا ہے کہ ایک عجیب قسم کی زندگی کو کھا جانے والی آگ اُن کی ہڈیوں میں جلنے لگتی ہے۔ اس طرح سے ایک ہی جگہ طاقت کا اجتماع انہیں موت کی طرف کشاں کشاں لئے جاتا ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ مجتمع طاقت کلوری سے صادر ہوئی تھی۔ کلوری پر آسمانی ریڈیم کی عظیم قوت کو گناہ اور شرمندگی کے ناسور پر مرکوز کیا گیا ۔ ریڈیم میں فنا کرنے کی قوت موجود ہے۔ آسمان کے تلے کوئی ایسی طاقت موجود نہیں ہے ۔ جو اس کی اجتماعی قوت محرکہ کا مقابلہ کر سکتی ہے ۔ ’’ صلیب فنا کردیتی ہے ۔ وہ شخص جو کلوری کے سامنے اپنی ظاہر ی اور باطنی انسانیت لے آتا ہے اُسے جلدی ہی معلوم ہو جاتا ہے ۔


کہ ایک خفیہ آتش اُس کی ہڈیوں میں جل رہی ہے ۔ مجھے اس کی اجتماعی قوت کی کوئی حد نہیں مقرر کرنی چاہیے۔ اُس کی فنا کر دینے والی جان بخش اور شفاء دینے والی شعاعیں میری زندگی کے نہایت ہی خفیہ حصوں میں داخل ہوں حتّٰی کہ یہ چھپی ہوئی آگ میری ہستی کی ہڈی ہڈی کو جلا کر راکھ کر دے ۔ ہمیں مسیح مصلوب کا ریڈیم بار با ر استعمال کر نا چاہیے۔ یہ ایک عمل ہے۔ لیکن الہٰی علاج کرانے سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔ اگر میں مصنوعی حیلہ سازیوں اور کھوکھلے بیانوں سے بیزار ہوں، اگر نجات کے لئے میرا دل تمنا کی بھٹی میں جل رہا ہے ۔ اگر میری رُوح حیات آفرین چشموں کی پیاسی ہے تو صلیب کا عالمگیر پیام بڑی خوشی سے قبول کیا جائے گا ۔ خداوند مسیح کی جلالی فتح کی خوشی میں مجھے ہر وقت یہ کہنا چاہیے کہ میں مسیح کے ساتھ مصلوب ہوا ہوں ۔ اور اب مَیں زندہ نہ رہا بلکہ مسیح مجھ میں زندہ ہے اور مَیں جواَب جسم میں زندگی گزارتا ہوں تو خُدا کے بیٹے پر ایمان لانے سے گزار رہا ہوں۔ ۔۔۔ جس نے مجھ سے محبت رکھی اور آپ کو میرے لئے موت کے حوالہ کر دیا ۔ وہ مجھ میں زندہ ہے ۔ وہ مر کر زندہ ہوا ۔ اُس کی زندگی گناہ کے اعتبار سے مُردہ ہے ۔ مگر خُدا کے اعتبار سے زندہ ہے ۔

مسیح کی موت میں شامل ہوا ہوں

اُسی کی موت سے کامل ہوا ہوں

مرا جینا مسیح کے ساتھ جینا

حیات ِنو کا مَیں حامل ہوا ہوں۔



باب چہارم

صلیب اور دُنیا

رُومی خطیب سیؔسرو نے صلیب کے متعلق دُنیا کے رویہ کا یوں اظہار کیا ہے ’’ صلیب نہ صرف رُوم کے شہریوں کے بدن سے دُور ہے بلکہ صلیب کا نام تک اُن کے خیالا ت ، آنکھوں اور کانوں سے بھی دُور ہے۔ آج سے دو ہزار سال پہلے صلیب کی یہ شان و شوکت نہ تھی۔ صلیب نے تاریخ کو اتنا خوبصورت نہیں بنایا تھا اور نہ ہی صلیب کی اتنی قدر و منزلت تھی۔ صلیب کی قربانی کوئی مستحسن (نیک، پسندیدہ)بہادر انہ فعل نہ تھی۔ فی زمانہ صلیب کیسی پُر شان ہے ، یہاں تک کہ بے ایمان دُنیا بھی کہتی ہے۔ ’’صلیب انسانیت کی سب سے اعلیٰ خوبیوں کی علمبر دار ہے ‘‘! لیکن ابتدائے مسیحیت میں یہ بات نہ تھی۔ اور آج بھی یہ بات نہیں ہے ۔ جوں ہی ہم صلیب کو ذلت اور حقارت کی جگہ سمجھنا چھوڑ دیتے ہیں مسیح کی صلیب بے کار اور غیر موثر ہو جاتی ہے۔

خداوند مسیح کے زمانہ میں اُس کے شاگردوں نے دیکھا ہو گا کہ بدکار قاتل اور باغی اپنی صلیبیں اُٹھائے ہوئے بڑی شرمندگی سے سر جھکائے جارہے ہیں۔ صلیبی موت ذلت اور حقارت کی موت تھی۔ اور اُس عالمگیر نفر ت اور توہین و تذلیل کا اظہار الفاظ میں نہیں کیا جاسکتا ۔ کلام مقدس میں لکھا ہے کہ ’’ جسے پھانسی ملتی ہے ۔ وہ خدا کی طرف سے ملعُون ہے ‘‘۔ اور ہم یہ چیز سمجھ سکتے ہیں کہ صلیب بڑی لعنتی سز اہے ۔

لیکن یہ صلیب ہی تھی جس میں اِس دُنیا کے بادشاہوں نے خدا کے مسیح سے اپنی نفرت کا اظہار کیا ۔ مغرور دُنیا نے اپنے مافی الضمیر کا اظہار کیا ۔ اس لئے صلیب مسیح کے متعلق دُنیا کے خیالات کی تصویر کشی کرتی ہے ۔اے دُنیا مشور ہ کر اور اپنے دل کی بات کہہ کہ مسیح کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے ؟ وہ چلا کر کہنے لگے کہ اُس کو صلیب دے صلیب ‘‘ ۔ میرے دوستو! فریب نہ کھاؤ ۔ دُنیا کی آستین میں ابھی تک وہ خنجر چھپا ہو ا ہے ۔ ڈی ۔ ایم ۔ پنیٹن نے کہا ہے ۔

’’کسی زمانے یا رُوح یا رُوحوں کی رُوحانیت جا نچنے کا صرف یہی طریقہ ہے کہ وہ لفظ دُنیا کو کتنا خطرناک خیال کرتے ہیں‘‘۔

لفظ دُنیا کی تعریف آسان نہیں ہے۔ انجیل مقدس میں ’’ دُنیا کے سردار ‘‘ کا ذکر آیا ہے ( یوحنا ۳۱:۱۲ ) ۔ ’’ دُنیا کی روش ‘‘ ( افسیوں ۲:۲ ) ’’ اس جہان کے خُدا ‘‘ (۲۔کرنتھیوں ۴: ۴) کی مرضی کے مطابق ۔ ’’ دُنیا کی رُوح ‘‘’’ خُدا کے رُوح ‘‘ کے خلاف ہے ۔ ( ۱۔کرنتھیوں ۲:۲)۔’’ دُنیوی کاروبار کرنے والے ایسے ہوں کہ دُنیا ہی کے نہ ہو جائیں کیونکہ دُنیا کی شکل بدلتی جاتی ہے ‘‘( ۱۔ کرنتھیوں ۳۱:۷) ۔’’ اس جہان کے سرداروں ‘‘ نے ’’ جلال کے خداوند کو مصلوب ‘‘ کیا ( ۱ ۔کرنتھیوں ۸:۲) ۔


اور جب خدا کہتا ہے کہ’’ دُنیا سے محبت نہ کرو ‘‘ تو یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے۔ دُنیا آد می کی زندگی کا محور ہے ۔ ’’ نہ دُنیا سے محبت رکھو نہ اُن چیزوں سے جو دُنیا میں ہیں ‘‘ ( ۱۔یوحنا ۱۵:۲) ۔اس آیت کا آخر ی حصہ بڑا اہم ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ اس کتاب کے بیشتر پڑھنے والے دُنیا دار نہ ہو ں ۔ لیکن میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا آپ دُنیا داری کے شکار ہیں ؟ تمہیں دُنیا کی کون سی چیزوں سے محبت ہے؟ اگر کوئی نوجوان کھیل تماشے یا نا چ رنگ کا شیدائی ہے تو آپ اُسے ملامت کر سکتے ہیں۔ لیکن کیا آپ پر سیاست ، فنون لطیفہ ، سائنس ، دولت ، خواہشات ، یا مجلس میں شہرت یا کاروباری طاقت کا جادُو ہے؟ یہ دُنیا اُدھیڑ عمر اور بُوڑھے آدمی کے لئے کسی نوجوان کی نسبت بالکل مختلف ہے ۔ سُن کرنے والی چیزیں کم مہلک نہیں ہیں؟

اِسی دُنیا نے خُداوند مسیح کو مصلوب کیا اور یہی دُنیا خدا سے نفرت کرتی ہے۔ اس کی تمام خواہشات اور آرزوئیں ، اس کی تمام شُہرت اور عیش و عشرت ، ہاں اس کی دس ہزار دلکشیاں صلیب کے خلاف ہیں اور ان میں ’’ خدا کی محبت ‘‘ شامل نہیں ہے ۔رسول یہ نہیں کہتا کہ ’’ دُنیا سے اتنی محبت نہ رکھو یا دُنیا سے زیادہ محبت نہ رکھو ‘‘ بلکہ وہ کہتا ہے ’’ دُنیا سے محبت نہ رکھو ‘‘۔

اس کے بعد رُسول نفسانیت کے تین بڑے بڑے سر چشموں کی تشریح کرتا ہوا کہتا ہے ’’ کیونکہ جو کچھ دُنیا میں ہے یعنی جسم کی خواہش اور آنکھوں کی خواہش اور زندگی کی شیخی وہ با پ کی طرف سے نہیں بلکہ دُنیا کی طرف سے ہے ( ۱۔ یوحنا ۱۶:۲) ۔ ایک لالچی انسان ان تین طرح کی خواہشات کو پورا کر کے تسکین حاصل کرتا ہے ۔ لیکن ان خواہشات کے اعتبار سے ایک مسیحی مصلوب ہو چکا ہے۔ اُسے اس صلیب سے نیچے نہیں اُترنا چاہیے ۔ ’’ جو مسیح یسوع کے ہیں ، اُنہوں نے جسم کو اُس کی رغبتوں اور خواہشوں سمیت صلیب پر کھینچ دیا ہے ‘‘۔ لیکن جسم کی اُن خواہشوں پر افسوس جنہیں صلیب پر نہیں کھینچا گیا اور وہ خدا کے فرزندوں پر بادشاہی کر رہی ہیں۔ اور اس سے مسیح مصلُوب کی علانیہ ذلیل ہو رہی ہے۔

دُنیا کی رغبتیں اتنی عیار اور پُر فریب ہیں کہ عام انسان اُن میں تمیز نہیں کر سکتا ۔ دُنیا کی خواہشات مسحور کن ، فسُوں کار (جادوگر)، اور پُر شکوہ ہیں کہ انسان خود بخود فریب میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ مادہ پرستی نے مختلف شکلو ں میں ہماری مذہبی زندگی میں جڑ پکڑلی ہے ۔ یہ مہلک کوڑھ ہے جس سے درد تو نہیں ہو تا لیکن یہ ہماری ہڈیوں کو اندر کھائے جاتا ہے۔ یہ دیمک ہے جس نے ہمارے رُوحانی گھر کو چاٹ لیا ہے۔ یہی عقلّیت (عقل پرستی، عقل کو تمام علم کی بنیاد تصور کرنا)کی کشتِ حسین(حُسن کا قتل) اور ماڈرن ازم (جدیدخیالات)کی کنیز ہے۔ یہ ففتھ (پانچواں)کالم ہے جو اندر ہی اندر ہماری زندگی کو کھو کھلا کر رہی ہے۔ اور اس نے صلیب کی روح کو جلا وطن کر دیا ہے۔

جے ۔ گر یگوری مینٹل نے لکھا ہے کہ ’’ ایک مقناطیس کا پہاڑ تھا ۔ اس میں قوت کشش یہاں تک تھی کہ جب کوئی کو ہے کی چیز اُس کی زد میں آ جاتی تو وہ اُسے اپنی طرف کھینچ لیتا تھا ۔ اس سر زمین کے ساحل کے پاس سے گزرنے والے جہازوں کے لنگروں ، لوہے کے رسوں اور سلاخوں پر کشش کا اثر ہوتا تھا ۔ پہلے تو اس پہاڑ کی طرف جہاز کے جانے کا احساس بھی نہ ہوتا تھا۔ وہ جہاز اپنے راستے سے ذرا اِدھر اُدھر ہو جا یا کرتےتھے۔ جس سے خطرے کااحتمال نہیں ہو تا تھا۔ لیکن آہستہ آہستہ یہ کشش بڑھتی جاتی تھی۔ حتّٰی کہ آخر کار جہاز بڑی تیزی سے اس پہاڑ کی طرف بڑھنے لگتا تھا۔ تب جہاز کے تختوں ، اور شہتیروں کے تمام کیل ، قبضے اور پیچ اُکھڑ کر اس پہاڑ کے ساتھ پچمٹ جایا کرتے تھے اور جاز ٹکڑے ٹکڑے ہو کر غرق ہو جایا کرتا تھا۔


اب آیئے دُنیا کی رغبتوں کی چند صورتیں ملا حظہ کیجئے جو کشا ں کشاں ہمیں اس قسم کی پہاڑیوں کی طرف لئے جاتی ہیں اور ہماری مسیحی زندگی کو تباہ و بربا د کر دیتی ہیں۔

دُنیا پر ست لوگوں کا خوف اور غصہ ہمارے لئے عذاب جان ہے لیکن دُنیا کی خوشامد اور ربیانہ پن کتنا دل پذیر ہے۔ ہم اپنا فالتو وقت کسی حسین مشغلے میں گُزار سکتے ہیں اور ’’ وقت کو غنیمت نہیں سمجھتے ‘‘۔ ہم اِسے تفریح کہتے ہیں لیکن ممکن ہے کہ اِس میں بہت زیادہ مادہ پرستی ہو۔

ہم بڑے آرام سے اپنے کمرے میں بیٹھے بیٹھے دُنیا کی خبروں پر تبصرہ سُنتے ہیں لیکن یہی وقت ہمیں دُوسروں کو ’’ خوشخبری کا پیغام ‘‘ سُنانے میں صرف کرنا چاہیے ۔ ہم یسوع مسیح کے اچھے سپاہیوں کی طرح سختیاں برداشت کرنے سے گریز کرتے ہیں ۔ اس نرم و نازک دُنیا نے ہمیں اپنا بنا لیا ہے۔

ہم آدھی آدھی رات محفل نقل و شرب میں گلچھرے اُڑاتے رہتے ہیں ۔ ہماری ہر صبح صبح بنارس اور ہر شنام شام ادَدھ ہوتی ہے۔ ہم اپنا وہ وقت جو خُدا اور اُس کے کلام کی تلاو ت اور دُعا میں گُزارنا چاہیے یونہی گنوا دیتے ہیں ۔ اگلی صبح ہم بن سنور کر نکلتے ہیں اور دُنیا کی عیش و عشرت میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم دُنیا پرست ہیں۔

ہم اپنی پسند ااور ناپسند اور اپنی نگاہ انتخاب کا بڑا اِحترام کرتے ہیں۔ ہم اپنے متعلق عوام کی آراء کا بڑا خیال کرتےہیں۔ ہم کلام ِمقدّس کے اُصولات سے زیادہ اپنی مذہبی زندگی کا لحاظ کرتے ہیں۔ ہم ایسے ایسے کام کرکے مطمئن ہو جاتےہیں جو بظاہر بڑے معصُوم اور خُوبصورت نظر آتے ہیں ۔ لیکن انجام کا ر وہ پریشانی کا موجب بنتے ہیں۔

ہم اُس کے نام کی خاطر ذِلّت اُٹھانا فخر کا باعث نہیں سمجھتے ۔دُنیا کے آرام اور چین سے ہم نے سکون ِقلبی کی کتنی بڑی تو قعات وابستہ کر رکھی ہیں ۔ ہم خوبصورت چیزوں اورعیش و عشرت کے رسیا ہیں۔ عیش وعشرت کو چھوڑ کر خدا کی خوشخبری کا پیغام دُوسروں تک پہنچانے میں ممدو معاون نہیں ہوتے ۔

اگر ہمیں کوئی مجذوب یا نرالا آدمی کہے تو ہم پسند نہیں کرتے ۔ ہم نئے نئے فیشنوں کے دلدادہ ہیں۔ اور یہ سب کچھ اس وجہ سے نہیں ہے۔ کہ فیشن کا سٹائل بڑا خوبصورت نفیس اور حقیقت پسند انہ ہے۔ اور عام طور پر فیشن بڑے ہی غیر شریفانہ طرز کے ہوتے ہیں۔ ہم اتنے دُنیا پرست ہیں کہ ہم غیر شریفانہ پن قبول کر لیتے ہیں مگر ان سے گریز نہیں کرتے۔ بادشاہ نفسانیت حکم صادر فرما تا ہے ’’ یہ کرو ‘‘ اور بہت سے لوگ اُس کے حکم کی اتنی فرما نبرداری سے تعمیل کرتے ہیں ۔ جیسے کسی صوبے دار کا نوکر اپنے رُومی آقا کے کوڑے کے خو ف سے اُس کا حکم بجا لا تا ہے۔

جب تک ہم اپنے نفس پر قابو نہ پائیں ہمیں جھوٹی تعلیم ، نئی روشنی کے دلدادہ خادمان ِدین ، کلیسیاء کے فر سودہ نظام اور بیہودہ رسوم کے متعلق حیران نہیں ہونا چاہیے۔ نفسانیت ہی ہماری تباہی کا باعث ہے ۔ ولیم لؔا نے کیا خوب کہا ہے

’’ نفسا نیت کی رُوح بدعتوں کی بدعت ہے ۔ آجکل کی مسیحی کلیسیا ء کے زوال کا کیا سبب ہے؟ اور میں یہ کہوں گا کہ اس کی وجہ نفسانیت یا مادیت کی رُوح ہے‘‘۔



باب پنجم

صلیب اور دُنیا

گذشتہ سے پیوستہ

ایک دن میں دُنیا کی گہرائیوں میں مستغرق (ڈوبا ہوا)تھا لیکن ’’ اُس نے اُوپر سے ہاتھ بڑھا کر مجھے تھام لیا اور مجھے بہت پانی میں سے کھینچ کر باہر نکالا ۔ وہ سمندر کتنا گہرا تھا جس میں ہمارے منجی کو اُترنا پڑا ۔ ’’ تیری سب موجیں اور لہریں مجھ پر سے گزر گئیں ‘‘ تا کہ ہمارے خدا اور باپ کی مرضی کے موافق ہمیں اس موجودہ خراب جہان سے خلاصی بخشے ۔

ہماری خلاصی کتنی شان دار ہے ! اس سمندر کو اپنے آپ میں سے نکالنے کے لئے مزید فتح کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ فتح اور زیادہ شاندار بن جاتی ہے ۔ جب خلاصی پانے والے دُوسرے ڈوبنے والوں کو نکالنے کی خاطر اس سمندر میں غوطہ زن ہوتے ہیں ۔ بات یہی ہے ۔ جب ہمیں اِس دُنیا سے خلاصی حاصل ہو جاتی ہے۔ اور جب اس دُنیا کی تاریکی کی بُری چیزیں ہم میں سے نِکل جاتی ہیں تو ہمیں پھر اِسی دُنیا میں بھیجا جاتا ہے تا کہ ہم اس دُنیا میں ڈوبتے ہوئے لوگوں کو بچا سکیں۔

جس وقت ہم اس بڑی دُنیا میں داخل ہوتے ہیں تو ہمارا اس دُنیا کے ساتھ تعلق بالکل واضح ہو نا چاہیے ۔ چونکہ ہم اُوپر سے پیدا ہوئے ہیں ۔ لہٰذا ہم آسمان کے شہری ہیں ۔ روحانی طور پر ہم اس دُنیا کے شہری نہیں ہیں ۔ خداوند مسیح صاف صاف کہتا ہے ’’ تم اس دُنیا کے نہیں ہو ‘‘ ۔ ہم دُنیا کے اعتبار سے مصلوب ہو چکے ہیں اور دُنیا سارے اعتبار سے مصلوب ہو چکی ہے۔ اور مسیح کے مصلوب پیرو کاروں اور مصلوب دُنیا میں کتنا اخلاقی فاصلہ ہے ؟ ان دونوں میں بعد مشرفین ہے یعنی ان میں اتنا فاصلہ ہے جتنا آسمانی تخت اور دوزخ کے پھاٹک کے درمیان فاصلہ ہے۔ اور ان دونوں کی فطرت میں ایسا تفاوت (فرق، جُدائی)جیسا ’’ بھیڑیں بھیڑیوں کے بیچ میں ‘‘ ۔ ہمیں اس بدکار اور دغا باز نسل کے سامنے بڑی دلیری کے ساتھ خدا کے فرزندوں کی طرح زندگی بسر کرنا ہے ۔ ہمیں اس دُنیا میں نُور کی طرح چمکنا ہے۔

یوحنا کی انجیل کے سترویں(۱۷) باب میں مسیحی حالت کو یوں بیان کیا گیا ہے۔ کہ جنہیں تو نے دُنیا میں سے مجھے دیا ( ۶آیت ) وہ بھی دُنیا کے نہیں (۱۴آیت ) اُس شریر سے اُن کی حفاظت کر ( ۱۵آیت ) ۔ یہ دُنیا میں ہیں ۔ ( ۱۱آیت ) میں نے بھی انہیں دُنیا میں بھیجا تا کہ لوگ اُن کےوسیلہ سے ایمان لائیں (آیات ۱۸۔ ۲۰) دُنیا نے اُن سے عداوت رکھی ( ۱۴ آیت ) ۔ چونکہ ہمار ے پیغام کا مرکز یہی ہے کہ دُنیا کا صلیب کے ساتھ کیا رویہ ہے۔ لہٰذا یہ آخری نکتہ اہم ہے۔


اے مسیحی اپنے دل میں یہ بات یاد رکھ چونکہ تم دُنیا کے نہیں تھے اس لئے دُنیا تم سے عداوت رکھتی ہے ۔ دُنیا سچائی سے عداوت رکھتی ہے۔ اس بات کو کبھی حقیر نہ سمجھو۔ وہ دُنیا جس نے خداوند مسیح کو صلیب دی وہ کس طرح تمہاری برداشت کر سکتی ہے۔ دُنیا کے لوگ دیوانوں کی طرح تمہارے خلاف اُٹھ کھڑے ہو ں گے ۔ مسیحی ہونے کی وجہ سے چاروں طر ف سے لوگ تم پر لعن طعن کر یں گے ۔ تعجب نہ کرنا ۔ سچے مسیحی کی یہی نشانی ہے۔ ’’ جتنے مسیح یسوع کے ساتھ دین داری سے زندگی گزارنا چاہتے ہیں ، وہ سب ستائے جائیں گے ‘‘۔ کسی شخص کو یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ میں ایسے آدمی کی طرح لکھ رہا ہوں جسے ستائے جانے کی افسر دہ کُن حرِص ہے یا وہ شہاد ت کو معمولی خیال کر تا ہے۔ اس قسم کی قابل نفرت ریا کاری سے خدا بچائے ۔ لیکن اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ آج کل کئی مسیحیوں کے لئے صلیب کی ایذارسائی نہیں ہے ۔ کیونکہ انہوں نے اِس دُنیا کے ساتھ سمجھو تا کرلیا ہے اور اُن کی زندگی یا گواہی سے دُنیا سے نفرت کا اظہا ر نہیں ہوتا ۔ کلیسیاء اور دُنیا میں سمسون اور دلیلہ کی طرح ناپاک اتحاد ہو چکا ہے ۔

کئی مسیحی کلیسیاء میں عجیب سی چال چل رہے ہیں

خلوص و اُلفت سے دل ہیں خالی ہو س کے چشمے اُبل رہے ہیں

مگر خدا وند ہر دو عالم جو دل کے رازوں کو جانتا ہے

ہو س پر ستوں وفا شعاروں خودی طرزوں کو جانتا ہے

ہمارے منجی نے ایمان نہ لانے والوں کے حق میں کہا ’’ دُنیا تم سے عداوت نہیں رکھ سکتی‘‘ ( یوحنا ۷ :۷) ۔اس آیت میں دُنیا کے لوگوں کو ملامت کی گئی ہے۔ اگر میں بھی دُنیا کا بن جاؤں اور اہلِ دُنیا کی تمام باتوں اور اس کے ماحول کو اپنا لُوں اور دُنیا مجھ سے نفرت نہ کرے اور اس کے دل میں مسیح کی دُشمنی کا جذبہ پیدا نہ ہو اور اگر دُنیا مجھ میں کوئی ایسی وجہ نہ پائے کہ مجھ سے نفرت کرے یا اپنی محفل سے مجھے خارج کر دے تو میں نے مسیح سے بے وفائی کی ہے اور اُس کے دوستوں کےگھروں میں نئے سرے سے اُسے مصلوب کیا ہے۔ کیا مَیں نے اس دُنیا کے ساتھ دوستی پیدا کر لی ہے جس نے اُس کے ہاتھوں اور پاؤں میں کیل ٹھونکے ؟ اس خیال کو اپنے دل میں سے دُور کر دو ۔ اگر مجھ میں مسیح کی مشابہت ہے تو دُنیا مجھے صلیب کے قابل سمجھے گی ۔اور مسیح کا شاگرد ہونے کی حیثیت سے یہ مصلو ب دُنیا مجھ سے محبت نہیں کرے گی ۔ اور میں اس بات کو ترجیح دُوں گا کہ ایک لعنتی مصلوب اور مرنے والا مجرم مسیح صلیب پر سے مسکر ا کر مجھے دیکھے۔

خدا کے دوستوں کی پوشیدہ انجمن میں شامل ہونے کی پہلی شرط یہ ہے کہ دُنیا کی عدالت کے سامنے ہم اُس کے ساتھ کھڑے ہوں۔ اُس کےساتھ ہم ٹھٹھوں میں اُڑائے جائیں ۔ ہماری حمایت اور سر پرستی کی جائے ۔ دُنیا کے مذہب ، ثقافت اور دُنیا کی طاقت کو ہمارے متعلق غلط فہمی پید ا ہو ۔


دُنیا کی مصنوعی تدابیر کو جو اُس نے اُصول سمجھ کر و ضع کر لی ہیں ۔ تا کہ وہ سچائی سے عداوت رکھیں ، ہمارے متعلق غلط رائے پیدا کر لیں۔ جس لمحہ ہم یہ اعلان کرتے ہیں کہ دُنیا ہمیں وہ غیر محسوس بادشاہی نہیں دے سکتی جس کے ہم آرزو ہیں تو ہم دُنیا کی ہمدردی کھو دیتے ہیں اور دُنیا یہی خیال کرتی ہے کہ اُس کی توہین ہوئی ہے۔ دُنیا ہماری عداوت کو تیار ہوتی ہے ۔ ہم میں جو باغی روح موجود ہے اُس کے ساتھ عقل مندی سے اور بیو قوف کے ساتھ مروت سے پیش آنے کےلئے تیار ہو تی ہے۔ اس وقت جہالت ، تساہل ، اور بزدلی مزے لے کر ہمیں اُلٹی کو ستی ہیں جس طرح انہوں نے خیر الورا(بہترین مخلوق) ، آدم ثانی اور نیک ذات کو ملامت کی تھی۔

ڈاکٹر اے ۔ جے گارڈؔن اگلے وقتوں کے بڑے ہی دُور اندیش مسیحی مبشر تھے۔ وہ اِس بات سے آگاہ تھے کہ اِس دُنیا میں ایک مسیحی کا کیا مقام ہے ۔ اُنہوں نے ایک مرتبہ فرمایا ۔

وہ لوگ جنہوں نے رُومی سلطنت کو مسیح کی خاطر فتح کیا وہ ایک اور ہی دُنیا کے حملہ آور تھے۔ اُنہوں نے اس دُنیا کا شہری ہونے سے انکا ر کر دیا ۔ اُن کے بت پرست پڑوسی ان کے چال چلن سے حیران تھے۔ اُنہیں اپنی زندگی کی قطعاً فکر نہ تھی۔ وہ اپنے ضمیر کا بہت ہی خیال کیا کرتے تھے۔ انہیں اپنی جان کی پرواہ نہ تھی۔ وہ بّرے کے مقدس خون کی مغلوب کرنے والی قوت سے آگاہ تھے۔ جس ملک میں وہ آکر بسے اُس کے رسم و رواج کے سامنے انہوں نے سر تسلیم خم کیا ۔ اور وہ اس ملک کے رہنے سہنے کے طریقوں کا بڑا ہی خیال رکھتے تھے جہاں وہ ابھی نہیں پہنچے تھے۔ انہوں نے اس دُنیا کی اعانت(مدد،سہارا) اس کے حاکموں کی سرپرستی اور اُن کے وسائل اور طریقوں کو استعمال کرنے سے انکار کر دیا مبادا ایسا کرنے سے وہ اس ملک کے بادشاہ کے حریف(دشمن) بن جائیں ۔ حملہ آور فوج ایک نظر نہ آنے والے محاذ سے اندیکھے سپہ سالا ر کی قیادت پر کسی شاہی امداد سے زیادہ امداد رکھتی تھی ۔ یہی وہ تھی کہ بت پرست دُنیا حیران و ششد ر رہ گئی اور آتشِ غضب میں جلنے لگی ۔ یہ بت پرست دُنیا مسیحیوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی متمنی تھی ۔ لیکن وہ اپنے دیوتاؤں کو چھوڑنے کےلئے تیار نہ تھی۔ لیکن اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ جس زمانہ میں کلیسیا ء اس دُنیا سے کسی قسم کا سرو کار نہ رکھتی تھی ۔ اُسی زمانہ میں ہی مسیحیت کامران و فتح مند تھی۔

پر و فیسر ایچ ۔ بی ۔ ورک مؔین نے سلطنت روم کے زمانہ کے مسیحیوں کی حالت کا یوں نقشہ کھینچا ہے:۔

دو برس تک مسیحی ہونے کا یہی مطلب رہا کہ مسیحی کو بالکل علیحدہ کر دیا جاتا تھا یعنی وہ ایک مقہور (جس پر غصہ ہو)اور قابل نفر ت فرقہ میں شمار کیا جاتا تھا۔ رائے عامہ کے تعصب کے سیلاب میں وہ ہاتھ پاؤں مارتا تھا۔ شاہی عتاب (غصہ)کا مستوجب(لائق،قابل) ہوتاتھا ۔ اور ہر لمحہ قید و بند کا خطرہ رہتا تھا۔ موت مختلف شکلوں میں اُس کی منتظر رہتی تھی۔ دو سو(۲۰۰) سال تک یہ حالت رہی کہ مسیحی ہونے کی بھاری قیمت ادا کر نی پڑتی تھی ۔ مسیحی کو اپنی آزادی اور مال و جان کی حفاظت کے لئے ایک بھاری رقم دینی پڑتی تھی۔ دو سو(۲۰۰) سال تک مسیحیت کا اعتراف جرم خیال کیا جاتا رہا ۔ زیر ِعتاب شخص کی پیٹھ پر ’’ مسیحی ‘‘ کا کتبہ لگا دینا ہے کافی تھا۔ ایک مسیحی نہ ہی معذر ت پیش کر سکتا تھا۔ اور نہ ہی بذریعہ وکیل اپنی ب گناہی کا ثبوت دے سکتا تھا۔ تر تولین(طرطلیان) لکھتا ہے کہ


’’ لوگ مسیحیوں سے ایسی نفرت رکھتے ہیں کہ وہ جرم کی تفتیش کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے ۔ محض مسیحی ہونا ہی جرم عظیم ہے‘‘۔

وہ نامِ مسیحا کی خاطر مظلوم بنے مقہور ہوئے

دُکھ درد سے گو دِل چُور ہو لیکن وہ بڑے مسرور ہوئے

رُومی ، یونانی اور غیر اقوام ’’ خیرا لا نام ‘‘ کہلاتے تھے۔ یہودی جو اِن سے مختلف نسل تھی انہیں ’’ نسل درجہ دوم‘‘ کہا جاتا تھا ۔ لیکن مسیحی جو ’’ اس دُنیا کے نہ تھے ‘‘ ۔ اور اِس دُنیا کی رغبتوں اور اس کے ماحول کو پسند نہیں کرتے تھے اور وہ نفسانی خواہشات کا بڑی دلیری سے مقابلہ کرتے تھے انہیں بدنام کرنے کی غرض سے ’’ تیسرے درجے کی نسل ‘‘ کہا جانے لگا ۔ لیکن مسیحیوں نے خندہ پیشانی سے اُس رسوائی کو برداشت کیا ۔ بہر حال گناہ سے تو یہ چیز بہتر تھی۔ بت پرست لوگ ستم ڈھالیں ، مسیحیوں کی دُنیا ہی اور تھی۔ وہ اس کرہِ ارض کے اعتبار سے مر چکے تھے اور ان کااِس دُنیا کے ساتھ کوئی تعلق نہ تھا ۔پس کار تھیج کے سرکس میں یہ نعرہ بلند ہوا کہ ہم اس ’’ تیسری نسل ‘‘ کی کب تک برداشت کریں گے ؟۔ اس قسم کی غیر مصالحانہ فتح مند گواہی کے نتائج و اضح تھے۔ آجکل کی کلیسیا ء اُس زمانے کے شہیدوں کی روشن کی ہوئی آگ کی برداشت نہیں کر سکتی ۔ اس قسم کا ’’ جلتا اور چمکتا ہوا چراغ ‘‘ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ہم مسیح مصلوب سے کتنے دُور ہیں۔ اے ہر دلعزیز مسیحی اور مبشر اچھی طرح سے خیال کرو کہ دُنیا کو جیتنے کی غرض سے تم کہاں تک اس کے ساتھ چلتے ہو۔ جس زمانہ میں کلیسیاء کا دُنیا سے کوئی تعلق نہیں تھا ۔ اُس وقت دُنیا پر اس کا اثر بہت تھا۔ اس زمانہ کے مسیحی رومی دنیا سے بالکل قطع تعلق تھے۔ لیکن وہ اِس درہم برہم ہونے والی سلطنت میں کود پڑے ۔ تا کہ وہ اُسے تحت الثرائے (پاتال)سے نکال کر بام ثُریا (ستاروں کی بلندی )تک پہنچادیں۔ انہوں نے تاریخ کے دھارے کا رُخ بالکل تبدیل کر دیا ۔ اُس ابتدائی زمانہ کے متعلق تر تو لین (طرطلیان)کہتا ہے۔

’’ ہم ایسی جدوجہد میں ایسے آدمیوں کی طرح شریک ہوتے ہیں جو اپنی جان کو اپنی نہیں سمجھتے ‘‘۔



باب ششم

صلیب اور تقدیس

’’ یہوواہ ہی خدا ہے اور اُسی نے ہم نُور بخشا ہے۔ قُربانی کو مذبح کے سینگوں سے رسیوں سے باندھو ‘‘ ( زبور ۲۷:۱۱۸) ۔

اس کتاب کے راقم کا ایک عزیز دوست ہے جو پادری ہے۔ جوانی کے دنوں سے ہی اُس نے اپنے آپ کو خدا کی خاطر وقف کرنے کی کوشش کی ہے ۔ لیکن اُسے ناکامی ہوئی ہے۔ وہ مخلص تھا لیکن پھر وہ دُکھی رہا ۔ وہ اُن نوجوان آدمیوں کی طرح تھا جو اپنے آپ کو مخصوص کرتے ہیں رہتے ہیں ۔ آخر کا ر اُسے معلوم ہوا کہ وہ تقدیس کی اساس سے بالکل بے بہرہ ہے ۔پھر اُس نے پُر انے عہد نامہ کےکاہنوں کی تقدیس کے متعلق پڑھا ۔ خدا نے خود اُن کی تقدیس کی تھی۔ اُس پر تمام حقائق واضح ہو ئے۔ جب اُس نے دیکھا کہ کاہن کے کان کی لو اُس کے انگوٹھے اور پاؤں کے انگوٹھے پر خون لگا یا گیا اور پھر اُس کے کپڑو ں پر خون چھڑکا گیا تو اُسے اس بات کی سمجھ آئی کہ مسیح کے ساتھ اُس کا ملاپ ہو گیا ہے جو گناہ بن گیا ۔ اُس نے دیکھا کہ اس کے تمام جسم پر موت لکھی ہوئی ہے ۔ اُس نے اس خوفناک انجام اور موت کو دیکھا جس طرف کلوری اُسے لے جا رہی تھی ۔ اُس نے مسیح کے ساتھ اپنی مشابہت کو محسوس کیا ۔ اُس نے دیکھا کہ وہ مسیح مصلوب کی مو ت اور اس کے جی اُٹھنے میں شامل ہے۔ موت اور زندگی کے اس میل نے مسیح کے سامنے اپنے آپ کو جھکا نے کے تمام نظر یئے کو تبدیل کر دیا ، اور اُس کی زندگی میں ایک کامیاب اور ابدی تقدیس کی بنیاد ڈال دی۔

مسیحیوں میں اس قسم کا تجربہ عام ہے۔ وہ ایمان کے ذریعہ سے راست باز ٹھہرائے گئے ہیں اور ہمارے خداوند یسوع مسیح کے وسیلے اُنہیں خُدا میں اطمینان حاصل ہے۔

لیکن انہوں نے صلیب کے مفہوم کو ابھی تک نہیں سمجھا ۔ ہماری بہت سی بہترین کلیسیاؤں میں (رومیوں۵: ۱ )کی رو سے راستباز ٹھہرائے جانے او پھر (رو میوں ۱۲: ۱۔۲)میں بیان شدہ تقدیس کی حقیقت پر توجہ فوراً مرکوز کر دی جاتی ہے۔ اصلی مفہوم پر مزید نکتہ چینی نہیں کی جا سکتی ۔ لیکن اگر ہم (رُومیوں ۶ اور ۸ باب )میں مسیح کے ساتھ اپنے ملاپ کی حقیقت سے پہلوتہی کریں ، تو یہ تقدیس کے مفہوم کو نہ سمجھنے کے مترادف ہے۔ میرے عزیز دوست نے کئی سالوں تک اس حقیقت کو نہ سمجھا ، اور اس لئے وہ مصائب میں گرفتار رہا۔ اُسے اپنی نفسانی خواہشات پر فتح حاصل کرنے کا طریقہ معلوم نہیں تھا ۔ وہ غیر شعوری طور پر اپنی تما م نفسانیت کو اپنی قوت سے مذبح پر قُربانی ہونے کے لئے پیش کر رہا تھا ۔ جب اُسے یہ معلوم ہو ا کہ وہ مسیح کے ساتھ شامل ہے اور وہ خداوند کا ہو چکا ہے، اور مسیح کے ساتھ مصلوب ہو چکا ہے اور اُس کے ساھ مُردوں میں سے جی اُٹھا ہے۔ اور گناہ کے اعتبار سے مُردہ مگر خدا کے اعتبار سے خداوند یسوع مسیح میں زندہ ‘‘ تو وہ اپنے آپ کو خدا کے حضور پیش کرنے کے قابل ٹھہرا ۔ اور اُس نے کامیابی کا مُبارک راز معلوم کر لیا ۔ میں اس کے متعلق کچھ اور بیان کر تا ہوں۔


ابراہیم لنؔکن نے ۱۹ ۔ نومبر ۱۸۶۳ ء کو گیٹسبرگ میدان جنگ کے قبر ستان کی مخصوصیت کا خطبہ دیتے ہوئے فرما یا ۔’’ ہم اس میدان کے ایک حصہ کو اُن سپاہیوں کی آخری آرام گاہ کے طور پر مخصوص کر رہے ہیں۔ جنہوں نے اسی جگہ اپنی جانیں قربان کر دیں۔ لیکن اپنے وسیع مفہوم میں نہ ہی ہم اسے مخصوص کر سکتے ہیں اور نہ ہی اس کی تقدیس کر سکتے ہیں اور نہ ہی اس میدان کو قابل عزت بنا سکتے ہیں ۔ وہ سپاہی جو زندہ ہیں اور میدان جنگ میں کام آنے والے بہادروں نے دادِ شجاعت دی ، انہوں نے اپنے کارناموں سے اس میدان کو اتنا مخصوص کر دیا ہے۔ کہ اس سے زیادہ مخصوص کرنے کی ہم میں طاقت نہیں ہے بلکہ ہم جو زندہ ہیں ہمیں اس مقام پر اپنے آپ کو اس عظیم کام کے لئے مخصوص کرنا چاہیے ۔ جو ا بھی نامکمل ہے‘‘۔ ہم مسیحی تقدیس کی بات کیاکرتے ہیں ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اپنے وسیع مفہوم میں ہم نہ ہی مخصوص کر سکتے ہیں اور نہ ہی تقدیس اور نہ ہی قابل عزت بنا سکتے ہیں کیونکہ ہماری مخلصی ہو چکی ہے۔ خداوند مسیح نے صلیب پر جان دے کر ہماری ایسی تقدیس کر دی ہے۔ کہ اب ہم اس سے زیادہ تقدیس نہیں کر سکتے ۔ ہمیں مسیح کی طرف تکتے رہنا چاہیے ۔ مسیح مصلوب سے ہمارا ملاپ ہو چکا ہے۔ ہمیں یہ ایمان رکھنا چاہیے کہ اگر ہم اس کے ساتھ مر چکے ہیں تو اس کے ساتھ زندہ بھی رہیں گے۔

موت اور مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے سبب ہمارا مسیح کے ساتھ ملاپ ہو چکا ہے۔( رومیوں ۶ تا ۸ ابواب) میں ایک کامیاب تقدیس کی اسا س موجود ہے۔( رومیوں۱۲: ۱۔۲) میں بھی یہ بات بالکل صاف کر دی گئی ہے۔ چونکہ پیارے مسیح میں ہمارا ملاپ ہو چکا ہے ۔ اب خداوند مسیح ہمیں اپنی لا محدود مہربانیوں کا واسطہ دے کر ہمیں کہتا ہے کہ اس کے حضور اپنے بدن کی ایسی قربانی نذر کریں جو زندہ، پاک اور پسند ید ہ ہو ۔ جب ہم اپنی سوختنی قربانی کے بّرے کے پاک سر پر اپنے ہاتھ رکھتے ہیں تو ہم یہ جانتے ہیں کہ اُس میں ہم خدا کے لئے راحت انگیز خوشبو ہیں یعنی مکمل فرمانبرداری ، مکمل تقدیس اور مکمل قربانی کی راحت انگیز خوشبو ۔ اور یہ ایسی چیز ہے۔ کہ ہم نہ ہی اس میں کوئی اضافہ کر سکتے ہیں اور نہ ہی اس میں سےکچھ نکال سکتے ہیں ۔ یہ کیسی قوت ہے۔ یہ کیسی ترغیب اور کیسا مکمل اطمینان ہے ! اس کا اطمینان کامل ہے۔ یہ ایسی راحت انگیز قربانی کی خوشبو ہے جو آگ میں جلائی جاتی ہے۔ ہمیں یہ حق حاصل ہے کہ ہم اس میں جلتے رہیں ۔ کیا ہم اس پر بھروسہ نہیں رکھ سکتے ؟ کیا ہم اُس کے ساتھ جانے کے لئے تیار نہیں ہیں؟ آؤاُس کو سب کچھ دے دیں ۔’’ دینا لینے سے مبارک ہے‘‘۔ خُدا خوشی سے دینے والوں کو پیار کرتا ہے ۔ آؤ اس کے ساتھ ایسے سمندروں کو اتھا ہ گہرائیوں میں اُتر جائیں جہاں ابھی انسان نہیں پہنچے ۔ جو لوگ طو فانی سمندروں میں جہاز رانی کرتے ہیں وہ حضور بادشاہ سلا مت کا حکم بجا لاتے ہیں۔ وہ بلا حیل و حُجّت اس کا فرمان بجا لاتے ہیں ۔جارج وائؔٹ فیلڈ نے کہا تھا ۔

’’ میں اس کے لئے شہید ہوتا ہوں جس نے میری خاطر صلیب پر اپنی جان دی ۔ میں آنکھیں بند کر کے اُس کی طرف جا رہا ہوں ۔ اور میرا ایمان ہے کہ اُس کے بازُووں میں مجھے پناہ ملے گی‘‘ ۔

کوریا کی بہادر خاتون مس اہؔن سات (۷)سال تک جاپان کی قومی مجلس میں شرکت اور مسیحی ایذار سانی کے خلاف خُدا سے حُجّت کرتی رہی کیونکہ مسیحی لوگ شنٹو کے بُت خانوں میں بُتّوں کے سامنے اپنا سر نہیں جھکاتے تھے ۔ جب اُس نے آخر کار خدا کی آواز کو سننے کا عہد کیا تو اس نے اپنا سارا مال و متاع فر وخت کر دیا اور ٹوکیو جانے کا ٹکٹ خریدا تا کہ وہ حکم کی تعمیل کرےاور وہاں اپنی جان عز یز جان آفرین کے سپرد کردے۔

ہم کہتے ہیں کہ ’’تقدیس خدمت اور قربانی کے لئے ہے۔ لیکن مس اؔہن کے لئے دونوں باتیں تھیں ۔ اُس نے مرنے کی خاطر یہ سفر اختیار کیا ۔ اُس نے جاپان جانے کا ایک طرف کا ٹکٹ خریدا اور واپسی کاٹکٹ نہ لیا۔ وہ واپس نہیں آنا چاہتی تھی ۔ محبت نے اُسے مجبور کر دیا تھا کہ وہ حکم کی تعمیل کرے ، جاپان پہنچے ، خدمت سر انجام دے اور اگر ضرور ت ہو تو اپنی جان تک قربان کر د ے ۔ کلوری ایسی دلکش ہے کہ بڑی دیر تک اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے ۔ ہم موت کی طرف جار ہے ہیں اور بھوک ایسی شدت کی ہے کہ وہ اس قربانی کو چٹ کرنے کے لئے تیار ہے۔آہ !حقیقت میں یہی زندگی ہے یہی کثرت کی زندگی ہے۔ جو زندگی مسیح کے ساتھ خدا میں پوشیدہ ہے۔’’ جو بھی مجھے کھائے گا ۔ میرے سبب سے زندہ رہے گا ‘‘۔

لیکن ایک پہلُو او ربھی ہے جو نہایت ہی اہم ہے فر انسس رڈلؔے ہیورگل نے کہا ہے۔

’’ ایک لحاظ سے مکمل تقدیس ایک لمحے کا کام ہے۔ مگر دُوسرے لمحے میں مدت العمر (ساری عمر)کا کام ہے۔ اگر تقدیس حقیقی ہے تو مکمل ہے۔ لیکن اگر یہ حقیقی تقدیس ہے تو ہمیشہ نامکمل رہتی ہے۔ یہ سکون کا مقام ہے۔ لیکن اس میں ابدی ترقی موجود ہے‘‘۔

ہمیں فریب نہیں کھانا چاہیے۔ ہمیں زبور نویس کے ساتھ یہ کہنا چاہیے’’ یہوواہ ہی خدا ہے اور اسی نے ہم کونور بخشا ہے۔ (تبدیلی ) قربانی کو مذبح کے سینگوں سے رسیوں سے باندھو‘‘ ( تقدیس ) ۔ اس قسم کی تقدیس کے لئے ہمیں اپنا سارا اثاثہ اور مال و متاع قربان کر نا پڑے گا ۔ چونکہ ہم آگ سے ڈرتے ہیں اور ذبح کرنے والی چھُری کا ہمیں احساس ہے ہم با ر بار چلا اُٹھیں گے ۔ ’’اے مبارک منجی مجھے قربانی کی طرح اپنی محبت کی رسیوں سے باندھ لے مبادا میں شرمندگی سے اپنی روش کو ختم کروں۔ مَیں کسی اور جگہ گوشت کی تلاش نہ کرؤں میری نذ ر سوختنی قربانی کا ہد یہ ہے۔ وہ بے عیب ہدیہ ہو۔ وہ ہمیشہ کی سوختنی قربانی ہو ۔ مجھے اپنی جان بچانے کے لئے صلیب سے نیچے نہ اُترنے دے۔ مجھے اپنی رسیوں سے کلوری کے ساتھ باندھ دے۔ کلوری ہمیشہ کی آتشین قربانی ہے‘‘۔

ایک مشنری دوست اپنے علاقے میں واپس آیا ۔ وہ نئے سرے سے مسح ہونا چاہتا تھا۔ وہ کہتا ہے۔’’ خدا نے میرے دل کو اور میرے مال و متاع کو اچھی طرح جانچا تا کہ دیکھے کہ کیا کوئی چیز مجھے اُس سے زیادہ پیاری تو نہیں ہے‘‘۔’’ کیا تو مجھے اُن سے زیادہ پیار کر تا ہے‘‘ ؟ اس کا مطلب ہے کہ کیا میں اپنی رفیقہ حیات (بیوی)اور اپنے بیٹے کو اس سے زیادہ پیار کرتا ہو ں ۔ مَیں ہچکچا یا ۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے اس نے موت کے وارنٹ (پروانہ تقرر)میرے سامنے رکھ دیئے ہیں تا کہ میں اس پر اپنے دستخط کردُوں ۔ میرے دل میں خوف ناک کشمکش تھی کیونکہ سر تسلیم خم کرنے کا مطلب موت تھا۔ بڑی لمبی کشمکش کے بعد اُس کے فضل سے میں نے اس کی مرضی کے سامنے اپنا سر جھکا دیا اور میرے دل میں پوری اُمید تھی کہ اب اُن کی زمینی زندگیوں کا خاتمہ ہے۔ چند دنوں کے بعد میں اپنے جاپانی گھر میں اکیلا واپس آرہا تھا ۔ میرے دل میں ایک خیال آیا ’’ میرا بیٹا بیمار ہے ‘‘ ۔ جب میں گھر سے چلا تھا تو وہ بالکل تندرست اور صحیح وسالم تھا۔ جب میں گھر پہنچا تو میری بیوی میرے استقبال کو آگے بڑھی اور کہے لگی ’’ گارڈن بیمار ہے ‘‘ مَیں نے کہا مَیں اس بات کو جانتا تھا ۔ آخر کا ر وہ بات ہو کہ رہی ۔


تب دردو الم کی کشمکش شروع ہوئی۔ ’’کیا تو مجھے اپنے بیٹے سے زیادہ پیار کرتا ہے ‘‘؟ لیکن میں نے فتح حاصل کرتی تھی۔ پس میں الوداع کہنے کے لئے اپنے بیٹے کے پاس گیا۔ میرا دل غم سے نڈھال تھا ۔ میرا بیٹا بسترپر لیٹا ہوا تھا اُس کا چہرہ زرد تھا اور اُس تکیے پر سر رکھا ہوا تھا ۔ وہ بے حد بیمار اور نحیف و نزار (کمزور)تھا ۔ میں نے محسوس کیا کہ راضی بر ضا ہونے کا یہی مطلب ہے کہ موت کو بھی خندہ پیشانی سے لبیک کہا جائے ۔ مَیں نے پورے دیانت دار دل کے ساتھ خدا سے کہا ۔’’ تیری مرضی سب سے افضل ہے۔ او ر مَیں دنیا کی ہر ایک چیز پر تیری مرضی کو ترجیح دُوں گا ‘‘۔ اس کے بعد پھر کیا ہوا؟ میرے ساتھ بھی اُسی طرح کا واقعہ پیش آیا جیسا ابراؔہام کے ساتھ ہو ا تھا۔ جب وہ اپنے بیٹے کو قربان کرنے کےلئے موریا ؔہ کےپہاڑ پر آیا ۔ خدانے ابر اہام کو اس کا بیٹا دے دیا اورمجھے میرا ۔

’’ قربانی کو مذبح کے سینگوں سے رسیوں سے باندھو ‘‘



باب ہفتم

صلیب اور مصلوب

ایک نوجوان جوڑےکی زندگی بڑی اجیرن (ناگوار)تھی ۔ اُن میں ہر وقت جُو تم پیزار(لعن طعن، لڑائی جھگڑا) رہتی تھی۔ اُن کی خانہ آبادی خانہ بربادی ثابت ہوئی۔ ایک دن وہ میاں بیوی کشتی رانی کےلئے گئے۔ توجوان نے جان بوجھ کر کشتی اُلٹ دی اور اپنی بیوی کو ڈبو دیا ۔ لیکن قانون نے اُسے آڑے ہاتھوں لیا اوراُسے اِس جرم کا مرتکب ہونے کی وجہ سے موت کی سزا ہوئی ۔ پھانسی دیئے جانے سے ایک رات پیشتر اس کے باپ کو اس کے ساتھ اکا ل کو ٹھڑی میں ٹھہرنے کی اجازت ملی ۔ اگلی صبح سرکاری آدمی اُسے پھانسی دینے کے لئے لے چلے۔ چند لمحوں کے بعد انہوں نے شکستہ دل بوڑھے باپ کو بلا یا ۔ جب وہ اپنے بیٹے کی بے جان لاش کے پاس آیا تو اُس نے کہا ’’ اے کاش میں اپنی زندگی تجھ میں ڈال سکتا تا کہ تم وہ بن سکتے جس کا میں نے ارادہ کر رکھا تھا ‘‘۔ اسی طرح مسیح کے پاس میرے لئے کثرت کی زندگی ہے۔ وہ آرزو مند ہے کہ میں اس کی الہٰی فطرت میں شریک ہو جاؤں میں اُسی قسم کا مسیحی بن جاؤں جیسا وہ چاہتا ہے۔ اس کام کے لئے اُس نے فرشتوں کی فطرت اختیار نہ کی بلکہ وہ ابراہام کی نسل میں آیا ۔ وہ میری ہی صورت اور شکل بن گیا ۔ اُس نے میری انسانیت کی مشابہت اختیار کر لی ۔ ہاں وہ میرے ہی مشابہ بن گیا ۔ وہ مجھے اپنے ساتھ قتل گاہ میں لے گیا ۔ وہ میری موت مرا ۔ اس کی موت کی وجہ سے گناہ کا مجھ پر کچھ اختیار نہ رہا ۔ یا جیسا پولس رسول کہتا ہے ۔’’ گناہ کے اعتبار سے راستباز ٹھہرا ‘‘۔ مسیح کے مُردہ جسم کی وجہ سے گناہ کا اختیار اور طاقت جاتی رہی ۔’’ مَیں مسیح کے ساتھ مصلوب ہو چکا ہوں۔ اب گناہ کا مجھ پر اختیار نہیں ہے‘‘۔ پس خدا نےمجھ سے وعدہ کیا ہے کہ’’ گناہ تم پر بادشاہی نہ کرے گا‘‘۔ مَیں مسیح مصلوب میں مر چکا ہوں ۔ مُردوں میں سے زندہ مسیح میں مَیں مُردوں میں سے جی اُٹھا ہوں۔ اُس کے جی اُٹھنے میں اس کی موت کا ہر ایک نشان ہے۔ اگروہ نہ مرتا تووہ کبھی مُردوں میں سے نہ جی اُٹھتا ۔ اب وہ مصلوب کی حیثیت سے زندہ ہے تا کہ اپنی قدرت والی موت کی طاقت کو بیکار کر دے ۔اب میں مسیح میں شامل ہوں۔ اس میں ایسا پیوند ہو چکا ہوں جیسا شاخ انگور کے درخت میں پیوند ہوتی ہے ۔’’ جو خداوند کی صحبت میں رہتا ہے وہ اس کے ساتھ ایک روح ہوتا ہے‘‘۔ آدم اوّ ل کے ساتھ میرا تعلق ہے ۔ کیا اُس کی فرمانبرداری کی وجہ سےموت کے اثرات مجھ میں بھی سرایت کر گئے ہیں؟ اسی طرح سے یہ سچ ہے کہ چونکہ مسیح کے ساتھ میرا زندگی کا تعلق ہے لہٰذا اس کی موت سے فرمانبرداری مجھ میں اثر کرتی ہے۔ خُداوند مسیح مر گیا ۔ لیکن گناہ کی خاطر نہیں مرا گناہ کے اعتبار سے مرا۔ خداوند مسیح نے اپنی جان دےکر گناہ کی طاقت کو بالکل ختم کر دیا ۔ صلیب کی روشنی میں گناہ کی بادشاہی نہیں ہے۔ مسیح کے ساتھ اپنے زندہ رشتہ کی وجہ سے مَیں آزما ئش میں نہیں گِروں گا ۔ میرے اس انکار میں مُردوں میں سے جی اُٹھے ہوئے خداوند کی موجودگی کا ثبوت ملتا ہے۔ خداوند یسوع مسیح اپنی مصلوب مُردوں میں سے جی اُٹھی ہوئی زندگی مجھے دینے کے لئے تیار ہے ۔ وہ ایک دل شکستہ باپ سے بھی زیادہ اس امر کا آرزو مند ہے کہ مجھے وہ زندگی ملے جو تمام آزمائشوں میں وفا دار رہے۔


اگر کوئی قاتل عین موقع پر پکڑا جائے تو رومی قانون میں ایسے مجرم کے لئے بڑی عبرت ناک سزا تھی۔ قاتل کو مقتول کے ساتھ باندھ دیا جاتا تھا ۔ حتّٰی کہ قاتل سسک سسک کر مرجاتا تھا۔ صرف مر کر ہ وہ مقتول کی لاش سے چھٹکارا حاصل کر سکتا تھا۔ اسی طرح مسیح نے موت سے زیادہ مضبوط محبت کی رسیوں سے مجھے اپنے ساتھ باندھا اور مجھے اپنے ساتھ صلیب پر لے گیا ۔ جہاں مَیں اس کے ساتھ مر گیا ۔مسز پین لؔوئیس نے ایک مشنری کی زبانی بتا یا ہے۔ کہ اسے ایک خواب آیا جس سے وہ بہت متاثر ہوا ۔ یہ مسیح کی صلیب تھی ۔ تاہم جس جس سے خون بہ رہا تھا وہ منجی کا نہ تھا ۔ یہ بہت ہی بد صورت بے حد گندی اور قابل نفرت چیز تھی۔ وہ اسے سمجھنے سے قاصر تھا ۔ یہ کیا چیز تھی جس نےاسے اتنا خوفزدہ کر دیا ؟ اس کے بعد جب اس نے مشابہت کا پیغام سُنا او ر اُس نے محسوس کیا کہ وہ مسیح کے ساتھ مصلوب ہو چکا ہے تو روح نے اُسے بتا یا کہ خواب والی وہ گندی چیز دہ خود تھا ۔ ہم محض زبانی طور پر یا اپنا ارادہ ظاہر کر نے سے مسیح کے ساتھ اس کی موت اور مُردوں میں سے جی اُٹھنے میں شامل ہونے کے تجربہ کی سچائی نہیں معلوم کر سکتے۔ مسیح کی موجودگی کے حاصل کرنے کے محض ارادے سے ہی اس زندگی کی تقلید نہیں ہو سکتی ، اور نہ ہی اس طرح سے اس زندگی کو اپنا یا جا سکتا ہے۔ تقلید کا فائدہ نہیں ، جسم کی نئی موت کے ذریعہ سے رُوح کی زندہ شراکت کی ضرورت ہے۔جب تک مَیں مسیح کی موت میں شریک نہیں ہوں مَیں مصلوب کی زندگی میں سے کچھ حاصل نہیں کر سکتا ۔ مجھ میں نئی زندگی ہے۔کیونکہ میں نے پرانی زندگی کو صلیب پر چڑھا دیا ہے۔ میں سب کچھ اس کی موت کی طاقت کے سامنے جھکاتا ہوں۔ہم ’’اُس کے جی اُٹھنے کی مشابہت سے بھی اُس کے ساتھ پیوستہ ہوں گے‘‘۔ کام اور کوشش کرنا اور یہ تصور کرنا کہ ہم صلیب پر ہیں آسان ہے۔ ہم یہ تصور کر سکتےہیں کہ ہمارے ہاتھ اور پاؤں میں کیل ٹھونکے جا رہے ہیں ۔ یوں ہم اس کی موت کے اثرات کا اندازہ لگا سکتے ہیں ۔نفس کی یہی سب سے بڑی حماقت اور بے ہودگی ہے۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں ۔ جو مسیح کی موت کا خیال نہیں کرتے ۔ وہ مسیح کی طرح زندگی بسر کرنے کی کوشش کرتےہیں۔ اور اس کی مثال کو اپنی آنکھوں کےسامنے رکھتےہیں۔ وہ صلیب جس میں مسیح نہ ہو پروٹسٹنٹ اور کیتھولک دونوں کے لئے بے فائدہ ہے ۔ لوگ مسیح کے نمونہ پر چلنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنی گفتار اور رفتار میں ’ ’ مسیح کی طرح ‘‘ بننا چاہتے ہیں ۔ لیکن وہ مسیح جو صلیب کے بغیر ہو وہ اپنے ساتھ ہمارا ملاپ نہیں کر سکتا ۔ ہم صرف موت کے ذریعہ سے ہی اُس میں پیوست ہو سکتے ہیں۔

صلیب بے مسیح مرے لئے پنا ہ گاہ نہیں

مسیح بے صلیب منجی اور شاہراہ نہیں

صلیب پر جو مر گیا میر ا وہی حبیب ہے

لیکن مسیح مصلوب میں جب مسیحی کو اطمینان حاصل ہوتا ہے ۔ تو اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں رہتی ۔ مسیح ہی ہمارا سب کچھ ہے۔ اکثر اوقات ایک مسیحی کی زندگی بُرے دُکھوں میں سے گُزرتی ہے ۔ اسے شکست اور مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تب کہیں وہ خوشی خوشی مسیح کے ساتھ مصلوب ہونے کےلئے رضا مند ہوتا ہے۔ اپنےنفس کی نہ ماننا مشکل ہے ۔ جب تک گُناہ سے بیزار ہو کر ہمارے مرنے کی نوبت نہیں پہنچتی گناہ کے اعتبار سے اپنے آ پ کو مُردہ شمار کرنے کے لئے ہمیں بڑی تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ہم مختلف قسم کی صلیبیں اُٹھاتے ہیں لیکن اُ ن کا کچھ فائدہ نہیں ہو تا ۔


نفسانی خواہشات بڑی مشکل سے مرتی ہیں۔ نفس کی مُردہ لا ش کی غلامی اور حلقہ بگوشی سے ہم چلا اُٹھتے ہیں’’ ہائے میں کیسا کم بخت آدمی ہو ں اس موت کے بدن سے مجھے کون چھڑائے گا‘‘۔ اس قسم کے لمحات میں خُداوند مسیح ہمارے اوپر جھکتا ہے۔ اور کہتا ہے۔ اے میرے بیٹے اُٹھ ! مجھے مُردوں میں سےجی اُٹھی ہوئی ہستی کی روح کو اپنے میں داخل کرنے دے تا کہ تم ’’حقیقت میں آزاد ہو جاؤ‘‘۔ گناہ اور موت کی شریعت سے آزاد ہو جاؤ ۔ تم وہ سب کچھ کرنے کےلئے آزاد ہو جاؤ جس کا میں نے ذکر کیا ہے۔ یہ وعدہ کتنا مبارک ہے کہ ’’ اگر اُسی کا روح تم میں بسا ہو ا ہےجس نے یسوع کو مُردو ں میں سے جلا یا تو جس نےمسیح یسوع کو مُردوں میں سے جلا یا وہ تمہارے فانی بدنوں کو بھی اپنے اُس روح کے وسیلہ سےزندہ کر ے گا ۔ جو تم میں بسا ہوا ہے ‘‘۔ اپنے نفس کو صلیب پر کھینچنا مسیحی فتح کی اساس نہیں ہے ۔ بلکہ مسیح کے ساتھ اس کو موت اور مُردوں میں سے جی اُٹھنے میں شریک ہونا مسیحی فتح کی اساس ہے۔ مصلوب اپنی عظیم موت کو حقیقی بنا نے کے لئے زندہ ہے۔

ایک مسیحی دولت مند سو داگر کی کہانی بیان کی جاتی ہے۔ کہ اس کا اکلوتا بیٹا تھا جو اسے جان سے زیادہ عزیز تھا۔ وہ لڑکا کا بڑا خوبصورت جوان تھا ۔ باپ اپنے بیٹے کی آئندہ کامیاب زندگی کے سہانے خواب دیکھا کرتا تھا۔ ایک رات ایک آوارہ اور اوباش لڑکا اُن کے گھر میں چوری چوری داخل ہوا اور اس نے اس کے بیٹے کو قتل کرنے کی نیت سے اُس پر حملہ کر دیا ۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ لڑکا جانبر نہیں ہو گا ۔ لیکن جب اُسے ہوش آیا اور وہ اپنے حملہ کے متعلق باتیں سننے کے قابل ہوا تو اُسے اُس لڑکے کی تصویر دکھائی گئی جس نے اُسے قتل کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس نوجوان کی جوانی کو دیکھ کر اُس کا دل بے تاب ہو گیا اس کے دل میں یہ آرزو پیدا ہوئی کہ کسی نہ کسی طرح حملہ کرنے والے لڑکے کو اس مجرمانہ زندگی بسر کرنے سے بچا یا جائے۔ آخر کار باپ اس بات پر رضا مند ہوگیا کہ اُس جوان مجرم کو اپنے گھر میں متبنیٰ(لے پالک) کی حیثیت سے رکھ لے اور اسے اپنے حقیقی بیٹے کے ساتھ جائید اد کا بھی وار ث بنا دے ۔ بڑی مشکل کے بعد اِس نوجوان مجرم کو ان کی خلوص نیت کا یقین ہوا۔ آخر کار اس نے اُن کی بات مان لی ۔ پرانی بُری عادتوں نے اس پر اتنا قبضہ جما رکھا تھا ۔ کہ کبھی کبھی وہ بدی کا مرتکب ہو ہی جاتا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ باپ بڑ ا مایوس ہوا۔ لیکن ان باتوں کے باوجود بھی باپ بیٹا دونوں اس سے بڑی مروّت سے پیش آتےتھے۔ ایک دن باپ بڑاہی مایوس تھا۔ وہ اسی حالت میں اس مجرم لڑکے کے کمرے میں گیا اور وہاں اس نے اپنے عزیز بیٹے کی تصویر دیکھی۔ اس نے اس تصویر کو اُٹھا یا ۔ اور اسے اچھی طرح سے دیکھا۔ تصویر پر نشانات لگے ہوئے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا ۔ کہ اسے با ر بار کسی نے اپنے ہاتھوں میں لیا ہے۔ اس تصویر کی دوسری طرف یہ عبارت لکھی ہوئی تھی۔ ’’آہ !میں بھی آپ کی طرح بننا چاہتا ہوں کیونکہ آپ نے میرے لئے بہت کچھ کیا ہے۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میں کبھی نیک نہیں بن سکوں گا ‘‘۔ باپ کے دل میں اُمید کی کرن روشن ہوئی ۔ جب یہ مجرم لڑکا نیک بن گیا ۔ تو اس باپ کی مساعی ثمر بار(کوشش پھل دار) ہوئیں ۔ کیا آپ نے کبھی مسیح کی مانند بننے کی آرزو کی ہے ؟ کیا آپ نے اُس کی طرح بننے کےلئے آہیں بھر ی ہیں ؟ کیا آپ نےخداوند یسوع سے کہا ہے۔ ’’آہ ! میں بھی تیری طرح بننا چاہتا ہوں کیونکہ تو نےمیرے لئے بہت کچھ کیا ہے۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میں کبھی نیک نہیں بن سکوں گا‘‘۔ میرے عزیز و ! خداوند مسیح کے ساتھ اپنی موت اور مُردوں میں سے جی اُٹھنے کی شراکت کا خیال کیا کر و ۔ وہ ایمان جو خداوند مسیح پر ہے ۔ اس کی وجہ سے تمہارا ملاپ اس کے ساتھ ہے۔ جہاں تک جذبات کا تعلق ہے بلا سوچے سمجھے ایمان کے ساتھ مسیح پر بھروسہ رکھتے ہوئے اس کے ساتھ حقیقی ملاپ پیدا کر نے کی کوشش کرو۔ اپنی زندگی اس میں پیوست کر دو۔


اور خداوند مسیح کو اپنی زندگی ، اپنی روشنی ، اپنی فتح ، غرض یہ کہ اپنا سب کچھ بننے دو ۔ یاد رکھو کہ تمہارا زندہ مصلوب آسمان میں ہے۔ سر اور اعضاء سب ایک ہوتےہیں۔یہ اس زندگی کی ایک حقیقت ہے۔ میں اور آپ ’’اس کی ہڈی میں سے ہڈی ہیں‘‘۔ تم اس ملاپ کے بندھن میں ایسے باندھے جاؤ کہ پھر تم پُرانے انسان نہ رہو ۔ اس جگہ ریاضی کے اصول صحیح نہیں اُترتے ۔ عام بات ہے کہ ایک اور ایک دوہوتے ہیں۔ لیکن خدا میں ملاپ سے ہم ایک ہی رہتے ہیں ۔’’ وہ دونوں ایک تن ہو ں گے‘‘۔ اور پولس رسول کہتا ہے ۔ ’’یہ بھید تو بڑا ہے لیکن میں مسیح اور کلیسیاء کی بابت کہتا ہوں ‘‘ ( افسیوں ۳۱:۵ )۔ اور ’’کیونکہ جس طرح بدن ایک ہے ۔ اور اس کے اعضا بہت سے ہیں اور بدن کے سب اعضاء گو بہت سےہیں مگر باہم ملا کر ایک ہی بدن ہیں اسی طرح مسیح بھی ہے ‘‘ ( ۱۔کرنتھیوں ۱۲:۱۲) ۔ اگسٹیؔن کہتا ہے کہ

’’مکمل مسیح میں سر اور بدن شامل ہے ‘‘۔

ماؔرٹن لوتھر نےیہ عملی نظریہ پیش کیا ۔

’’ جس لمحہ مَیں مسیح اور اپنے آپ کو دو خیال کرتا ہوں مَیں ختم ہو جاتا ہوں‘‘۔

آؤ تجربہ کے طور پر مسیح میں ایک ہو جائیں تا کہ ہم منادی خدمت ا ور نظریے میں ایک ہوں۔ یعنی مسیح میں ایک ہوں ۔یعنی ہم’’ یک جان دو قالب‘‘ ہوں۔

ڈاکٹر اے ۔ ٹی پیرسؔن کہتا ہے ۔

’’ مَیں ایک خاتون کے ہاں اس کی بزرگ اور فرشتہ سیرت والدہ کی وفات پر ماتم پُر سی کے لئے گیا ۔ وہ مجھ سے مسکر ا کر کہنے لگی ۔ چالیس برس سے میر ی ماں روحانی طور پر آسمان میں تھی‘‘۔

اس کی یہ بات سن کر مجھے گولڈ سؔمتھ کے یہ اشعار یاد آئے۔

وہ وادی میں طوفان سے کھیلتا ہے وہ کوہ ِگراں جس سے ہیبت ہے طاری
ازل کا جو ہے نور وہ پھیلتا ہے سحابی فضائیں مگر چوٹیوں پر

ہمارا زمینی گھر اگ اُونٹ کٹاروں اور کانٹوں میں گھر ا ہو تو کوئی بات نہیں ہے ۔لیکن ہمارا ایمان ہے کہ ہم پر نورِ ازل چمکتا ہے۔ ہماری’’ زندگی مسیح کے ساتھ خدا میں پوشیدہ ہے‘‘ ( کلسیوں ۳:۳) ۔ میں اور وہ دونوں ایک ہیں۔ ’’جیسا وہ ہے ( اپنے جلال میں ) ویسے ہی دُنیا میں ہم بھی ہے‘‘ ( ۱۔یوحنا ۱۷:۴ ) ۔ ایک مدرسہ الہٰی کے گر یجویٹ کی چھٹی کا تھوڑا سا حصہ نقل کرتے ہیں جواس سچائی کو واضح کرتا ہے’’ میں خدا کی حمد کرتا ہوں جس نے مجھ پر ظاہر کیا کہ فضل کے وسیلہ سے اس کا تمام مال میرا ہے جو مسیح کی موت اور مُردو ں میں سے جی اُٹھنے کے سبب سے کامل ہوا ہے۔ میں بڑی مدت تک جدوجہد کرتا رہا تا کہ مجھے وہ جگہ مل جائے جہاں اس ہمیشہ رہنے والی زندگی کے نشیب و فراز نہ ہوں۔


میں خلوص دل سے فتح مند مسیحی زندگی کی آرزو کرتا رہا ۔ لیکن جتنی زیادہ میں نے اس کے حاصل کرنے کی کوشش کی اتنی ہی میری زندگی اجیرن ہو گئی ۔ میں نے دُعا وفرمانبرداری ، ارادوں اور وعدوں سے اسے حاصل کرتے کی کوشش کی لیکن سب بے سود ثابت ہوا۔ میں مسیح پر ایمان کے وسیلہ سے گناہ کے جرم سے بچا رہا ۔ میں کیوں اتنا احمق تھا کہ میں نے خیال کر لیا کہ اعمال کے ذریعہ سے میں گناہ کی طاقت سے بچ جاؤں گا ؟ مجھ پر یہ حقیقت ظاہر نہ ہوئی کہ میں صرف مُردوں میں سے جی اُٹھنے والے مسیح پر ایمان لانے سے بچ سکتا ہوں۔ اس سال ماہ جنوری میں خداوند مسیح کے ساتھ میری موت کی مشابہت کی حقیقت مجھ پر ظاہر ہوئی۔ میرا یقین ہے کہ پولُس رسول کے الفاظ کے معانی پہلی مرتبہ پر واضح ہوئے۔ خدا نہ کرے کہ میں کسی چیز پر فخر کروں ۔ سوا اپنے خداوند یسوع مسیح کی صلیب کے جس سے دنیا میر ے اعتبار سے مصلوب ہوئی اور میں دُنیا کے اعتبار سے۔ میں صلیب کی وجہ سے خدا کا شکر کرتا ہوں۔ جب گناہ کی بیڑیوں کو اتارنے کی تمام کوششیں بے سود ثابت ہوئیں تو صلیب کے ذریعہ سے میں نے گناہ کی طاقت پر فتح پائی جب تمام چیزیں بے سود ثابت ہوئیں تو موت نے مجھے رہائی بخشی ‘‘۔

باب ہشتم

صلیب اور نفس

دُنیا ئے کلیسیا ئے پر و فیسروں اور خادمانِ دین سے بھر ی پڑی ہے۔ سنڈے سکولوں کے اُستاد ، مبشر اور مشتری صاحبان جنہیں روح کی نعمتیں ملی ہیں ۔ وہ عوام کے لئے خوشخبری کا پیغام لاتے ہیں۔ لیکن اُن کے دل میں اس دُنیا کی تمام خواہشات بھری ہوتی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ مسیح کی خاطر سب کچھ چھوڑ کر یہ تصور کرتے ہیں کہ وہ پُرانے زمانے کے شاگردوں کی طرح مسیح کی خاطر اپنی جان قربان کر نے کےلئے تیار ہیں۔ لیکن اُن کی شخصی زندگی کی گہرائیوں میں نفس کی تمام بُری خواہشات پوشیدہ ہیں۔

یہ لوگ شاید تعجب کرتےرہتے ہیں کہ انہیں اپنے زخم خوردہ غرور ، زُود رنجی، لالچ پر فتح اور موعودہ ،لا لچ پر فتح اور موعودہ ’’ زندگی کے چشموں ‘‘ سے محرومی ہے۔ یہ راز بعید از فہم نہیں ہے۔ وہ خفیہ طور پر اور عادتاً اپنے نفس کی پرستش کرتےہیں ۔ یعنی وہ بت پرست ہیں۔ وہ اپنےنفس کےسامنے سر جھکاتے ہیں۔ اور اس کا کہا مانتے ہیں۔ وہ اُصول پرست ہیں ۔ وہ ظاہر ی صلیب پر فخر کرتے ہیں ۔ لیکن باطن میں ایک اور دیوتا کی پرستش کرتے ہیں۔ وہ اپنے نازو نعمت سے پلے ہوئے اپنے پیارے نفس کی خدمت میں مگن رہتےہیں ۔یہ ظاہر ی صلیب گناہ کی سز ا کی قیمت ہے یعنی یہ عوضی موت ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ مسیح نے اس کام کو ’’پورا ‘‘ کیا ہے۔ لیکن وہ صلیب کے ظاہر ی اور باطنی بھید کو نہیں جان سکتے ۔ اس صلیب کی یہ گہرائیاں جن کا تعلق باطنی زندگی سے ہے ۔ اُن سے پوشیدہ ہیں لیکن ’’جب تک مسیح تم میں باطنی طو ر پر اپنی صلیب کے اثرات پیدا نہ کر دے جو تمہارے نفس سے تمام شیفتگی اور و الہانہ محبت کا خاتمہ کر دے اور محبت کے گہرے رشتے سے خدا کے ساتھ ملاپ نہ کر دے ۔ تمہیں ہزار ہا بہشت اطمینان اور راحت نہیں عطا کر سکتے‘‘۔

خُداوند ! غلام نفس ہوں آزاد کر دینا


سکُوں نا آشنا ہوں تو میرا دل شاد کر دینا

میرا یہ نفس میری ذات کا ہے دُشمن جانی

بنا یہ دوست جس کا وہ ہوا وقفِ پریشانی

لیکن ایک ہے جو مشکلوں میں کا م آتا ہے

مری خاطر مرا بار گرا ںوہ خود اُٹھاتا ہے

میرا منجی مجھے آزاد کرتا ہے گناہوں سے

بڑھا جاتا ہوں منزل کی طرف پُر خوف راہوں سے

انسان اپنے اصلی گھر سے جہاں خدا اُس کی روشنی اور زندگی تھا خدا اس کی زندگی کا سانس اور ا س کی دُنیا کا مرکزی آفتاب تھا۔ کبریا کے اسی پوشید ہ مقام سے اس نے اپنی رشتہ توڑ لیا اور وہ نفس کی مملکت میں کُود پڑا ۔ اور وہ ایسی تاریکی میں پہنچ گیا جو انسان کو خدا سےبالکل جدا کر دیتی ہے ۔ یوں خدا کو زندگی میں سے خارج کر دیا گیا ہے۔ نفس نے تخت کو غصب (زبردستی قبضہ)کر لیا ہے۔ اور یہ ایسا غاصب (حق مارنے والا)ہےجو تخت سے کبھی دست بردار نہیں ہوتا ۔ نفس ایک نیا اور کاذب(جھوٹا) مرکز ہے۔ جسے انسان نے اپنا لیا ہے۔ وہ اپنے آپ کے سوا کسی دوسری چیز کو پیار نہیں کرتا ۔ اس کے کارہائے نمایا ں اپنی شُستہ (پاک ، دھویاہوا)صورت میں اس کی پوشدہ نفسانی خواہشات کی گندی دھجیاں ہیں۔ وہ اپنے دائیں ہاتھ سے کام کرتا ہے تا کہ نفس کی تسکین کا بایاں ہاتھ اُسے جان سکے۔ ولیم لؔا نے کہا ہے کہ

’’ نفس ہماری گری ہوئی حالت کی تمام بُرائیو ں کی جڑ ، شاخیں اور درخت ہے ‘‘۔

جب قادر نفس تخت سے اُتار دیا گیا تو خدا کیا کر سکتا تھا؟ اسے کوئی تعجب نہ ہوا ۔ لیکن اس سب سے بڑے المے کا کیا سد باب ہو سکتا تھا ؟ انسان کو اس نازو نعمت سے پلےہوئے نفس کی زنجیروں سےکس طرح سے چھڑایا جا سکتا تھا؟ خدا انسان کو نہ ہی سبز باغ دکھاتا ہے اور نہ ہی اسے مجبو ر کرتا ہے۔ اس کے آسمانی جلال کی خود بخود پرستش کی جاتی ہے۔ خُدا پنے الہٰی مقصد یعنی اپنے جلال کو کیسے شکست دے سکتا تھا۔ خدا کی دانش اور علم اسی سے ظاہر ہو تا ہے۔ صلیب حقیقت میں ’’خد ا کی قدرت اور خدا کی حکمت ہے‘‘۔ کلوری خدا کا کلہاڑا ہے جو نسلِ انسانی کے شجر کی جڑوں پر رکھا ہواہے۔ پہلا آدم کاٹ ڈالا گیا اور ایک نیا انسان تخت نشین ہوا۔

خداوند یسوع ایک نئی نسل کا سر ہوا۔ وہ اپنی مرضی سے عرشِ اعظم سے اُتر آیا اور گناہ کا بدن اختیار کیا ہے۔ بے لوث محبت کی رسیوں سے اُس نےہمیں اپنے ساتھ باندھ لیا اور ہمیں ساتھ لےکر موت کی گہرائیوں میں اُتر گیا تا کہ گناہ کی مزدوری چکا دے۔ اور ہمیں یہ ترغیب دے کہ ہم نفس کی بجائے خدا کو چن لیں۔ اس نے مرنا گوار اکیا۔ یعنی وہ ہماری خاطر ہماری جگہ مرے ۔ ہاں وہ ہماری موت مر ے تا کہ وہ ہمیں گنہگار نفس سے بچا لے۔


میرے ہم ایمان دوستو! آؤ ۔ ابن آدم نے گناہ اُٹھا لیا یعنی ہمارے لئے ملعون بنا ۔ وہ سانپ کی طرح اونچے پر چڑھا یا گیا ۔ آپ اس کی ماں کے ساتھ اس کی صلیب کےپاس کھڑے ہو جائیں ۔ ’’تیری جان بھی تلوار سے چِھد جائے گی تا کہ بہت لوگوں کے دلوں کے خیا ل کھل جائیں‘‘۔ ( یعنی میرے اور آپ کے دل کےخیال ) ۔ لیکن کوئی کہےگا کہ خداوند مسیح کو سانپ کے ساتھ کیوں مشابہت دی گئی ہے۔ اُسےکیوں سوسن یا گلاب کے پھول یا کسی خوبصورت چیز سے تشبیہ نہیں دی گئی۔ کیونکہ اس سے اس کےبادشاہ ہونے اور اس کے نجات کےکاموں کا اظہار ہوتا تھا؟ لیکن جب خدا نے گنہگار نفس کی تصویر کھینچنا چاہی تو اس نے غلطی نہیں کی۔ صرف سانپ ہی حقیقت کے مشابہ ہو سکتا تھا۔ یہ چیز مجھ پر ایک بہت بڑی روشنی پھینکتی ہے۔ یہ روشنی میرے رگ و ریشے میں سے گزرجاتی ہے۔ نہ ہی صرف میرے گناہوں کی تصویر بلکہ میرے نفس کی بھی تصویر کھینچ جاتی ہے۔ جو کچھ میرےدل میں ہے۔ اس کی ہو بہو تصویر موجود ہے۔ سچائی اپنے اصلی روپ میں نظر آتی ہے۔ یہ مَیں ہوں یعنی میرا اپنا نفس ہے۔ ان پردوں کو کیوں اُٹھایا جائے؟ آؤ آؤ اچھی طرح سےصلیب کو دیکھیں۔ اور صلیب سےپیدا ہونےوالی تمام باتوں پر قائم رہنے کا اردہ کریں۔

پیلا طس کی کچہری میں کھڑے ہیں کچھ تماشائی

مسیح پاک کے دشمن جنونی اور سودائی

وہ نور کبریا ، مولائے کُل ، خیرا لو را جس سے

ہیں روشن چاند اور سورج ستاروں نے ضیا پائی

یہوداؔہ اس شہ لولاک کو ہے بیچنے والا

کہا پطرس نےڈر کر میری اُس سے کیا شنا سائی

کھڑا ہوں مَیں بھی اس پر تھوکنے والوں میں شامل ہُوں

اگر چہ میں نے خود دیکھے ہیں اعجاز مسیحائی

وہ کہتے ہیں پیلاطس سے اسے مصلوب کر جلدی

سراسر کفر کہتا ہے نہیں تاب شکیبائی


مجھے محسوس ہوتا ہے میں لعن و طعن کرتا ہوں

مری گستا خیاں ہیں آج محو غوغا آرائی

وہ اس کے ہاتھ اور پاؤں میں میخیں ٹھونک دیتے ہیں

کہاں ہیں اس کی ذات پاک کے دلداد و شیدائی

ستم گر ہوں مَیں کانٹوں کا انوکھا تاج لا یا ہوں

مرے دل میں پریشا ن ہیں خیالات من دمائی

مسیح پاک کو لیکن وہ ٹھٹھوں میں اڑاتے ہیں

اگر چہ ذرے ذرے میں ہیں اس کی جلو ہ فرمائی

مگر صدحیف جب میں نے بغور اس بھیڑ کو دیکھا

مجھے ہر بے ادب میں اپنی ہی صورت نظر آئی

کیا اس قسم کا اعتراف خوفناک معلوم نہیں ہوتا ؟ کیا میں اپنےجرم کا اقرار نہیں کرتا ؟ کیا ایسا کرنےکی مجھ میں جرات ہے؟ جب تک میں اقرار نہ کروں انکار نہیں کر سکتا ۔ صلیب کے بلند تخت سےپہلے تو میں اُونچے پر اُٹھایا جا تا ہوں تا کہ نفس کا اقرار کروں اور پھر انکار کروں ۔ میں دو رُخی پالیسی اختیار نہیں کر تا کہ نفس کی بات بھی کرو ں اور مسیح کی بات بھی۔ مجھ پر لعن طعن ہوتی ہے۔ میں چھوڑا نہیں جاتا ۔ مجھے کاٹ کر پھینک نہیں دیا جاتا بلکہ کاٹ دیا جاتا ہے۔ ماضی اور نفس سے میرا تعلق منقطع کر دیا جاتا ہے۔ میں مکمل طور پر لعنتی بن جاتا ہوں ۔ کسی دوسرے کی شخصیت میں مَیں قانونی طور پر قتل ہو چکا ہوں۔ میں مکمل طور پر لعنتی بن جاتا ہوں۔ یہ خاتمہ باعث رسوائی ہے اور ابد تک منقطع ہو جاتا ہے۔

مندرجہ بالا عدالتی فِقرے کو میں بلا حیل و حُجّت مانتا ہوں۔ مَیں مصلوب ہونےکےلئے رضا مند ہوں۔ اوراپنے قتل نامہ پر دستخط ثبت کرتا ہوں۔ میں اکیلا مصلوب نہیں ہو ں گا ۔ اس قسم کا کام عظیم اور الہٰی ہے۔ مَیں موت کا مزا چکھ چکا ہوں۔ یعنی مسیح کے ساتھ مصلوب ہو چکا ہوں۔ یہ کام ختم ہو چکا ہے۔ اور اب میں خود اپنی موت کی سزا پر دستخط کر وں گا۔ جو کچھ خد ا نے میرے لئے مقرر کیا ہے۔ میں اس پر راضی ہوں۔ اس کی موت کے وسیلہ سےمَیں نفس کو تخت سے اُتاردوں گا ۔ میں نفس کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کروں گا۔ صلیب حقیقت میں خدا کا مُسلم الثبوت ہتھیار ہے۔ جب ہم ایمان کے وسیلہ سے اس کے ساتھ شامل ہیں تو مسیح کی موت میں علیٰحدہ کرنے کی طاقت موجود ہے۔ مَیں ایسی الہٰی موت کے لئے رضا مند ہوں ۔


اس قسم کی خود انکاری اس رعایت یا اعانت سے قطع تعلق کرنا نہیں ہے۔ بلکہ شجر نفس کی جڑوں پر صلیب کا کلہاڑا رکھنا ہے۔ خدا کہتا ہے کہ اس درخت سے کا ٹ دو۔ خدا یہ نہیں کہتا کہ محض اس کی شاخوں کو تراشو ۔ نفس کی تمام راست بازی عزت اور ظاہر داری اور اپنی ذات کی طرف مہلک طور پر مائل ہونا اور اس قسم کی ہزار ہا نفسانی خواہشات کا ظہور اسی شجر نفس کی ہزاروں شاخیں ہیں۔ اگر ہم اس کی شاخوں کو محض تراش دیں تو نفس کی زندگی اس سے بھی بھدی جڑو ں کی شکل میں رونما ہوگی اور نفس کا فریسی ایک تنا ور درخت بن جائے گا ۔اپنی ظاہری شکل وصورت میں وہ بڑا خوبصورت اور قابل ِ عزت انسان سمجھا جائے گا ۔ لیکن در پر دہ اس کے شجر نفس میں کڑوے پھل آئیں گے ۔ اور وہ لوگ جو اس کے قرب و جوار میں رہتے ہیں ۔ وہ اس کڑوے پھل کی تلخی سے آشنا ہیں۔

لیکن اُمید کی شمع روشن ہے۔ مَیں مسیح مصلوب میں پیوند ہو چکا ہوں۔ یعنی اس کی الہٰی فطرت میں شریک ہُوں ۔ مجھے مصلوب زندگی ودیعت (امانت) ہوئی ہے۔ میرانفس ہزار ہا شکلوں میں مر چُکا ہے۔ نفس نفس پر غالب نہیں آ سکتا لیکن خدا کا شکر ہےکہ خداوند مسیح میر ا ہے۔ اور چونکہ میں مسیح مصلوب کے سامنے سر تسلیم خم کرتا ہوں ۔ اس لئے اس کی عظیم موت نےمیر ے باطن میں صلیب کا عمل شروع کر رکھا ہے۔ جتنا زیادہ میں مسیح مصلوب کے قبضہ وا ختیار میں ہو ں گا۔اتنا ہی زیادہ مجھے نفس کے اعتبار سے مر جانا چاہیے۔

ایک شخص نے جارج ملؔر سے اُس کی بشارتی خدمت کے راز کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا ۔’’ ایک د ن ایسا بھی تھا ۔ جب میں مر گیا ‘‘۔ ایسا کہہ کر وہ اتنا جھکے کہ زمین کو چھونے لگے ۔ انہوں نے پھر کہا ۔ جارج ملؔر کے اعتبار سے میں مرگیا یعنی اس کی آرا ء، ترجیحات ، مذاق اور ارادے سب مر گئے ۔ مَیں دُنیا کے اعتبار سے مر گیا ۔ یعنی دنیا کی تحسین و آفرین یا نفرت سے مَیں بے نیاز ہو گیا ۔ مَیں اپنے خویش و اقارب اور عزیز دوستوں کی الزام تراشیوں کے اعتبار سے مر گیا ۔ اور اس دن سے میں صرف خدا کی نظر میں مقبول ہونے کی کوشش کر تا ہوں۔

میرے واسطے ہے رہِ زندگی میں نا چیز ہوں کاملیت تری
سکو ں چین ، آرام پاتا ہوں مَیں تیرے سامنے سر جھکا تا ہو ں مَیں
مَیں بیگانہ ہوں پر یگانہ ہے تُو میرا مال و دولت خزانہ ہے تُو
مَیں نازاں ہوں یا رب تیری ذات پر مجھے فخر ہے تیری ہی ذات پر
ابدتک رہے گا وہ فرماں دا مسیحا خداوند میرا بادشاہ
شاہِ انبیاء مجھ پر ہو مہربان مَیں اس کے کرم سے رہُوں شادمان

کنگال ہیں۔ نسل آدم کو موت کی سزا دی جاتی ہے۔ یہ خدا کی ضرب کاری ہے۔ جوہماری انسانیت کا خاتمہ کر دیتی ہے تا کہ ایک مافوق الفطرت زندگی اس کی جگہ لے لے۔


خداوند یسوع اس لئے نہیں آیا کہ وہ ہمیں سیدھا کر دے بلکہ وہ اس لئے آیا کہ جسمانی نقطہ نگاہ سے ملیامیٹ(ختم کردینا) کردے۔ وہ ہمیں تراشنے نہیں آیا بلکہ کاٹ دینےکے لئے آیا ۔ وہ اس لئے نہ آیا کہ ہم سے کوئی کوم لے بلکہ اُس نے ہماری پُرانی فطرت کو بیکار کر دیا ۔ صلیب جسم کی تمام رغبتوں کا خاتمہ کر دیتی ہے۔ اور الہٰی موت کا مکاشفہ عطا کرتی ہے۔ مسیح خداوند اس لئے نہیں آیا کہ پُرانی مشکوں میں نئی مے بھر د ے۔ وہ پُرانےکپڑے میں نیا پیوند لگانے نہیں آیا بلکہ وہ پُرانی انسانیت اور اس کی تمام نفسانی خواہشات کا خاتمہ کرنے کے لئے آیا ۔ لہٰذا خداوند مسیح کے اس حکم کا مطلب کہ ’’ جو میرے پیچھے آنا چاہے ۔ وہ اپنی خودی سے انکار کرے اور اپنی صلیب اُٹھائے ‘‘۔ یہ ہے کہ ہماری پُرانی اخلاقی اور روحانی میراث جو ہمیں آدم سے ملی تھی ۔ جو نفرت انگیز ہے۔ مسٹر ولیم لؔانے کہا ہے کہ

’’ہماری گری ہوئی حالت کی تمام تر ذمہ دار ہماری خواہشات ہیں۔ ہماری نفسانی خواہشات ہی بدی کا سر چشمہ ہیں‘‘۔

ہمیں یہ چیز یاد رکھنا چاہیے کہ خود انکاری محض اس یا اُس آرام کو چھوڑ دینا نہیں ہے ۔ بلکہ جیسا ڈاکٹر اے ٹی پیؔر سن نے کہا ہے ۔

’’نفسانی خواہشات کے درخت کی جڑوں پر کلہاڑا رکھنا ہے ۔ جسم کی تمام رغبتیں اسی کی چھوٹی بڑی شاخیں ہیں‘‘۔

نفسانی راست بازی ،اپنے آپ پر اعتماد نفس پر ستی ، خود آرائی ، اپنی خواہشات کی تکمیل کی دُھن اور فخر اس درخت کی ہزار ہا شاخوں میں سے چند ایک ہیں۔ اور اگر ان میں سے ایک یا دو کو کاٹ دیا جائے ۔ تو کوئی خاص فرق نہیں پڑتا ۔ کیونکہ ایک دو کو تراشنے سے نفسانی خواہشات میں ایک نئی زندگی دوڑنے لگتی ہے۔ جب تک نفسانی خواہشات کے درخت کی جڑوں پر کلہاڑ ا نہ رکھا جائے۔ اور ہماری یہ فطرت انسانی ، روحانی فطرت کو اپنی جگہ نہ دے دے ۔ ہمار ی تمام نیکیاں محض عادت کی وجہ سے ہیں ۔ جو ایک بُری زمین میں جڑ پکڑ چکی ہیں۔

کیا خداوند مسیح میں جڑ پکڑ چکنے کے بعد بھی یہ رحجان نہیں ہے۔ کہ ہم اپنی پُرانی خواہشات کے سر چشموں سے سیراب ہوتے رہتےہیں ؟ ایمان دار کو صلیب ایک قوت بخشتی ہے۔ اس سے مسیحی کو بہت کچھ سیکھنا چاہیے ۔ آئیے اس کی وضاحت کر دیں۔ خداوند مسیح نے فرمایا ۔ ’’میں انگور کا درخت ہوں ، تم ڈالیا ں ہو‘‘۔ کیونکہ مَیں نسل آدم کی شاخ ہو ں اس لئے مَیں جنگلی پھل لا یا ۔ ا ب چونکہ مَیں مسیح میں شامل ہوں مَیں اس میں پیوند ہو چکا ہوں ۔جب مَیں مسیح مصلوب پر ایمان لا یا تو مَیں کاٹ ڈالا گیا یعنی میرے تمام فطرتی تعلقات منقطع ہو گئے اور مَیں مسیح یعنی زندہ انگور کے ساتھ پیوند ہو گیا ۔ ای ۔ جے۔ پؔیس کہتا ہے۔

’’ کچھ عرصہ ہو ا فلؔوریڈا میں میرے گھر کے نزدیک سنگتروں کا ایک باغ تھا۔ میں اکثر وہاں جا یا کرتا تھا ۔ ایک دن میں نے باغ کے منتظم سے کہا کہ پیوند لگانے کا طریقہ مجھے بتا دے۔ وہ مجھے چھوٹے چھوٹے پودوں کے پاس لے گیا ۔ پھر اُس نے ایک ننھے سے پودے سے ایک شگوفے دار شاخ کو کاٹا ۔ پھر وہ ایک نزدیکی پودے کی طرف بڑھا اور بلا خوف اس میں ایک صلیب کا نشان بنا دیا ۔ پھر اُس نے بڑی مہارت سے اس نئی شاخ کو اس میں پیوند کر دیا‘‘۔


اسی طرح سے ہم بھی نسلِ انسانی کے درخت سے کاٹے گئے ہیں اور صلیب کے پاس اُ س ابدی مسجود میں ۔ پیوند ہو چکے ہیں۔ ایمان اس حقیقت کے ساتھ ہمیں پیوستہ رکھے گا ۔ مَیں مسیح کے ساتھ میراث میں شریک ہوں۔ ہم نے الہٰی فطرت کو حاصل کرلیا ہے۔

ہمارا یہ پیوند ہونا ’’ فطرت کے خلاف ہے‘‘۔ پیوند کرنے کا عام طریقہ یہ ہے کہ ایک شاخ کا ٹ کر ادنیٰ میں پیوند کر دیا جاتا ہے۔ اور یہ فطرت کے خلاف ہے۔ کہ ہم ادنیٰ کو اعلیٰ کے ساتھ پیوند کریں۔ جب حقیقی انگور کو مصلوب کیا گیا تو ہم منجی کے زخمی پہلو میں پیوند ہوئے ، یعنی ادنیٰ شاخ اعلیٰ درخت کے ساتھ پیوند ہوئی ۔ یہ ایک اہم بات بھی ہے جو ’’قانون فطرت ‘‘ کے خلاف ہے۔ جب شاخ اور انگور آپس میں پیوند ہو جاتےہیں۔ تو شاخ اپنی اصل کے مطابق پھل لاتی ہے یعنی یہ اُس کی پُرانی فطرت ہے۔ لیکن میں تو آدم میں مر گیا ۔ وہ زندگی جو میں نے آدم سے حاصل کی ۔’’ موت کے موافق ‘‘ پھل لائی ۔ خواہش موت پیدا کرتی ہے۔ خدا کے موافق پھل لانے کے لئے خون اور گوشت کی تمام خواہشات کو چھو ڑ دینا چاہیے۔

ہمیں اس طبعی زندگی کو فناکر دینا چاہیے ۔ صلیب کے اعتبار سے مَیں لعنتی ٹھہرا ۔ اب روح کے ذریعہ سے مجھے معلوم ہوتا ہے کہ مَیں زندہ رہنے کے قابل نہیں ہو ں کیونکہ صلیب اسی طرح کہتی ہے ،ا ور مجھے یہ بات تسلیم کرنا ہے۔ مجھے یہ چیز قبول کر لینی چاہیے کہ مَیں خداوند مسیح کے ساتھ مصلوب ہو چکا ہوں۔ اب مَیں زندہ نہ رہا بلکہ مسیح جو مجھ میں زندہ ہے اسی کی مصلوب زندگی کے پھل مجھ میں ظاہر ہو نے چاہیں ۔ مَیں اس میں پیوند ہو چکا ہوں ۔ مجھ میں راست بازی کے پھل ظاہر ہونے چاہیں ۔ یہی روح کے پھل ہیں، ان سے خُدا کا جلا ل ظاہر ہو اور اُسی کی حمد ہوتی رہے۔

ایمی کا ؔر میچل ایک نرس کو ہیلؔا کے متعلق بتاتی ہے۔ کہ ایک دفعہ اسے اپنی ’’ خودی ‘‘ کا احساس ہوا ۔ کسی شخص کاقول ہے کہ خدا کا کوئی کام ایسا نہیں ہے جو وہ اس آدمی کی معرفت کروائے جو اس کی پرواہ نہیں کر تا کہ لوگ اس کا م کی وجہ سے کس کی تعریف کرتے ہیں ۔ خودی اس چیز کی خواہش مند ہے۔ کو ہیلؔا نے خودی کو چھوڑنے کا ارادہ کیا تا کہ وہ آزادی سے دُوسروں کی خدمت کر سکے۔ جب خداوند مسیح کسی شخص کی زندگی میں داخل ہو تا ہے۔ تو وہ اُسےپورے طور سے لے لیتا ہے اور جب تک وہ اُس آدمی میں سے اُس کی ’’ مَیں ‘‘ کو نکال نہیں دیتا وہ آرام کا سانس نہیں لیتا ۔ صلیب مجھے خوشی بخشتی ہے۔ میری خودی ختم ہو جاتی ہے۔اور یہ پیوند لگانے ا ور پھل لانے کے قانون کے خلاف ہے۔ خداوند مسیح نے کہا ۔’’ تم مجھ میں قائم رہو‘‘ ہماری مسیح کے ساتھ شراکت ہے۔ اس کے بعد خداوند مسیح کہتا ہے ’’ مَیں تم میں قائم رہوں‘‘۔ اور تم بہت سا پھل لاؤ ۔ ہمیں اپنی ساری زندگی میں مسیح کی پیروی کرنی چاہیے ۔

اور ساری کاوشیں نفس کی سب خواہش
تُو ہو میرا راہنما چھوڑتا ہوں اے خدا
مالک کون و مکان وہ مسیح د و جہاں
میرا فدیہ ہے دیا مر کے پھر وہ جی اُٹھا
اُس کو میں سجدہ کروں اُس کی راہوں پر چلُو ں
اور ساری کاوشیں نفس کی سب خواہشیں
تو ہو میرا راہنما چھوڑتا ہوں اے خدا

آیئے ۔ اس پیوند ہونے والی شاخ کے متعلق (گلتیوں ۲۰:۲ )میں پڑھیئے ۔ اس آیت کو یوں ادا کیا جا سکتا ہے۔ ’’مَیں شاخ ہوں جو اپنے درخت سے کاٹی گئی ہوں۔ مَیں اپنے دیرینہ تعلقات اور حسب و نسب کے اعتبار سے مصلوب ہو چکی ہوں۔ مجھے بڑی بے رحمی سے علیٰحدہ کیا گیا ہے۔ مَیں اپنے دیرینہ تعلقات کے اعتبا ر سے مر چکی ہوں۔ لیکن پھر بھی مَیں زندہ ہو ں۔ مَیں جانتی ہوں کہ مَیں وہی شاخ ہوں اور اس سے زیادہ کچھ نہیں ۔ ابھی تک مَیں وہی ہوں۔ مَیں زندہ ہوں۔ اب مَیں زندہ نہ رہا بلکہ مجھ میں کسی اور کی زندگی ہے جو مجھ میں زندہ ہے ۔ وہ انگور کے خوشے جو مجھ میں لگے ہیں میرے نہیں ہیں۔ وہ کسی اور کی زندگی کا ثمر ہیں۔ وہ میری پُرانی انسانیت کےخلاف نبرو آزما ہے۔ اور وہ مجھ میں اثمر پیدا کر رہا ہے۔ تا کہ مَیں اس عظیم باغبان کا جلا ل ظاہر کر سکُوں ۔ نفس نے ان اصُولوں کی خلاف ورزی کی ہے۔ لہٰذا ایف ۔ جے ۔ہیوگؔل اس کی گِری ہوئی حالت کے متعلق کہتا ہے۔

’’ ہم نفس کے ایسے غلام ہیں ، نفس میں اس قدر لپٹے ہوئے ہیں۔ خواہشات سے چمٹے ہوئے ہیں اور جسم کی رغبتوں کےایسے والاو شیدا ہیں کہ ہماری فطرت کسی طرح سے خدا کی طرف مائل نہیں ہو سکتی جب تک ہم اپنی پُرانی انسانیت کی شدید طور پر مخالفت نہ کریں ۔ صلیب کایہی راز ہے ۔ صلیب بُری فطرت کے ساتھ بہت ہی بُرا سلوک کرتی ہے۔ حتیٰ کہ پُرانی زندگی کو قتل کر دیتی ہے‘‘ ۔

وہ لوگ جو یہ تعلیم دیتے ہیں کہ خداوند یسوع مسیح کا خون ہمارے تما م گناہوں کو دھوتا ہےاور ہماری پُرانی انسانیت کا قلع قمع کر دیتا ہے اکثر اوقات اس چیز کے معنی نہیں جانتے کہ مسیح کی وہ زندگی جو ہم میں موجود ہے۔ وہی جسم کی تمام خواہشات کی دوا ہے۔ مقدس فرانسس ڈی سیلؔز کا کہنا ہے کہ

’’ بنی بنائی کاملیت کی تلاش خیالِ خام ہے۔ کاملیت کوئی لباس نہیں ہے جسے فوراً پہنا جا سکتا ہے۔ اور وہ پاکیزگی جسے حاصل کرنے کے لئے مصائب کو برداشت نہیں کر نا پڑتا خیالِ خام ہے۔ اگر چہ اس قسم کی پاکیزگی ہماری فطرت کے عین مطابق ہے ‘‘۔


ہم یہ خیال کرتے ہیں کہ اگر ہم پاکیزگی کا راز معلوم کر لیں تو ہم بڑی جلدی اور آسانی سے مقدس بن جائیں گے ۔ ہم اپنی باقی زندگی میں اپنی فطرت میں وہ بد نما داغ اور دھبے معلوم کر یں گے ۔ جن پر صلیب رکھی جا سکتی ہے۔ کیا قاری نے یہ معلوم نہیں کیا ہے۔ کہ نفس اور گناہ پر کئی فتوحات کے باوجود ہماری بہت سی پسند اور ترجیحات پر کلوری کی موت کے نشانات ہونے چاہییں ؟ فطرت کے پیدائشی نشانات کو کلوری کی موت کے نشانات سے رد کرنا چاہیے ۔ آیئے خداوند سےکہیں کہ وہ ہماری پسند کی تمام قدرتی باتوں پر اپنی صلیب کے نشان لگا ئے۔

مسیح کلوری ہم کو حقیقت آشنا کردے

شعاع نُورِ ایما ں سے ہمیں مرد ِدُعا کردے

ہماری آرزوئیں جن پر فطرت ناز کرتی ہے

خدا یا نفس کی وہ خواہشیں یکسر فنا کر دے

لیکن خُدا کا شُکر ہے۔ کہ یہ خُود غرضی کی مسیحی زندگی و دامی نہیں ہے کیونکہ خُدا وند یسوع نے کہا ہے۔ ’’جو کوئی میری خاطر اپنی جا ن کھوتا ہے ۔ اُسے بچائے گا ‘‘۔ اس بات سے کونسی چیز اعلیٰ ہے کہ خد ا بیٹا جو ابدی اور جلالی ہے اور جو تمام چیزوں کا خالق ہے اور ’’ جس نے مجھ سے ایسی محبت رکھی کہ اپنے آپ کو میری خاطر دے دیا‘‘ ۔ اس نے اپنے آپ کو خالی کر دیا تا کہ وہ مجھے اپنا بنا کر میرے دل کو اپنی ہیکل بنا لے اور مَیں زندہ ایمان کی زبان میں کہہ سکو ں ’’مسیح مجھ میں زندہ ہے‘‘۔ کیا اس نے وعدہ نہیں کیا ’’ چونکہ میں جیتا ہوں تم بھی جیتے رہو گے‘‘۔ ’’’تم مجھ میں‘‘ اور ’’مَیں تم میں‘‘ کا یہی راز ہے۔ ڈالی انگور کےدرخت میں ہے اور انگور کا درخت ڈالی میں ۔ محبت اور آزادی کا یہ کیا شاندار زندگی کا ملاپ ہے۔ مَیں بھی اس کے ساتھ مُردو ں میں سے جی اُٹھا ہوں اور اس کے ساتھ تخت پر بیٹھا ہوں۔ میں اس ابدی خدا وند میں جڑ پکڑ چکا ہوں ۔ میری زندگی ’’ مسیح کے ساتھ خدا میں پوشیدہ ہے‘‘۔

جے ۔ گریگوری میؔنٹل کہتا ہے۔

’’ پر تھ شائر کی وادیوں میں ایک درخت ہے جو ایک پہاڑی سے ہوتا ہوا ایک ندی تک پہنچتا ہے۔ زمین زرخیز نہیں ہے۔ اور نہ ہی ایسی زمین میں یہ درخت پھلتا پُھولتا ہے۔ کُچھ مدّت تک یہ درخت نشوونما نہ پا سکا ۔ لیکن آخر کا ر نباتات کی جبلت کےسبب اِس درخت کی شاخیں ایک چھوٹے سے بھیڑ پُل سے گُزر کر ندی تک پہنچ گئیں ۔ آہستہ آہستہ اُس نے ندّی کے کنارے میں جڑیں جما لیں اور یوں زمین سے خوراک حاصل کر کے دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کر نے لگا ۔ اس ننھے سے پُل نے جو کام اس درخت کے لئے کیا وہی کام خداوند کا مُردوں میں سے جی اُٹھنا ایماندار کے لئے کر تا ہے‘‘۔


اگر ہماری زندگی کی جڑیں زندہ خداوند یسوع مسیح میں ہیں تو ہم کو ہمارے خداوند یسوع مسیح کے پہچاننے میں بیکار اور بے پھل نہ ہونے دیں گی ۔ کیا ہمیں پھل لانے میں کوشش کرنے کا تلخ تجربہ ہو ا ہے؟ ہم نے محنت اور کوشش اور دُعا کی ہے۔ ہم نے خون بھی بہایا ہے۔ لیکن بے فائدہ ہے۔ اِنہی تمام کوششوں کے باوجود ہماری زندگی کی ندی ہماری اپنی ناپاک خواہشات کی وجہ سے کیچڑ سے اٹی پڑ ی ہے ۔ ہم جانتے ہیں کہ خداوند مسیح میں کاملیت ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہم اس کاملیت کو کس طرح حاصل کریں ؟ ہڈسؔن ٹیلر کے الفاظ میں ہم کہتے ہیں ۔’’ مجھےاچھی طرح سے علم تھا کہ جڑمیں کثر ت کی کاملیت ہے ، لیکن سوال یہ تھا کہ میں ننھی سی ڈالی میں اسے کس طر ح سے حاصل کروں ‘‘۔ مایوسی کے اس حقیقی غلبہ میں ہم چلّا اُٹھتے ہیں ’’ ہائے میں کیسا کم بخت آدمی ہوں اس موت کے بدن سے مجھے کون چھڑائے گا ‘‘؟ خدا کا شکر ہو کہ ایک الہٰی اور طاقت ور زندگی موجود ہے جو ہمیں آزاد کر سکتی ہے ۔’’ اپنے خداوند یسوع مسیح کے وسیلہ سے خدا کا شکر کر تا ہوں۔ غرض میں خود اپنی عقل سےتو خدا کی شریعت کا مگر جسم سے گناہ کی شریعت کا محکوم ہوں۔۔۔۔ کیونکہ زندگی کے روح کی شریعت نے مسیح میں مجھے گناہ اور موت کی شریعت سے آزاد کر دیا ‘‘۔

حقیقی قوت ،حقیقی راحت خُودی کے پندارمیں نہیں ہے

خودی کی حرص و ہوا و لیکن مسیحی کردار میں نہیں ہے

خُودی خود آرا ، نفع پر ستی ہے زر کی اُلفت شعا ر اِس کا

یہی ہے انسانیت کی دُشمن ہے رہزنوں میں شمار اس کا

صلیب پر تم خو د کو کھینچو مُسرتوں کا ملے خزانہ

وہ کس طرح سوگنا پھلے گا ، ملے گا مٹی میں جو نہ دانہ



باب دہم

صلیب اور دو فطرتیں

ڈی ۔ ایم ۔ پنؔٹن نے کہا ہے کہ

’’اگر کسی وحشی آدمی کو پنجر ےمیں بند کر دیا جائے تو جب تک وہ اکیلا ہے وہ بڑا ہی حلیم الطبع ، تربیت پذیر ، خاموش اور نہایت مہذب اور صاحب شعو ر نظر آتا ہے ۔ اگر وہ پنجر ہ میں اکیلا ہے تو وہ اپنی مرضی کے تابع ہے۔ وہ اپنی من مانی کرتا ہے۔ اور بڑا پُرا من ہو تا ہے۔ لیکن دروازہ کھول کر اس پنجرے میں ایک مہذب آدمی کو دھکیل دیجئے اور پھر دیکھئے ۔ و حشی آدمی کا چہرہ متغیر (بدلا ہوا)ہو جائے گا ۔ ایک غصے کی لہر اُس کے چہر ے کو سیا ہ کر دے گی ۔ اور وہ دفعتہً پنجرے میں داخل ہونے والے آدمی پر پل پڑے گا ۔ اورپھر دونوں گتھم گتھا ہو جائیں گے‘‘۔

ایک دفعہ میرے ایک رفیق کا ر نے مجھ سے کہا ’’ جب تک میں نے نئی زندگی حاصل نہ کی مجھے معلوم نہ ہوا کہ مجھ میں غصہ ہے‘‘۔ اس وقت تک اس کے اپنے گھر کے لوگ اس کے خلاف نہ تھے۔ نفس نے اُس پر اپنا قابو جما رکھا تھا ۔ وہ (مس صاحبہ ) اپنی ہی من مانی کر نے کی عادی تھی۔ اُسے اپنے ہی سود وزیاں سے سرو کار تھا ۔ لیکن جب وہ خداوند مسیح میں ’’ نیا مخلوق ‘‘ بن گئی تو اُسے معلوم ہوا کہ نفسانی خواہشات کے زہریلے اُصول جو انسان کے زوال کے وقت موجو د تھے ۔ اس میں بھی ہیں ۔ منجی نے دیندار نیکو و یمس سے کہا تھا۔ ’’جو جسم سےپیدا ہوا جسم ہے‘‘۔ وہ روح کی دُنیا میں داخل نہیں ہو سکتا ۔ جسم کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اس کے مرض کو دُور کیا جا سکتا ہے۔ اور نہ ہی وہ تندرست ہونے کے قابل ہے ۔ صرف ’’ جو روح سے پیدا ہوا ہے روح ہے ‘‘ اس لئے ایک ہر ایک ایمان لانے والے میں پُرانا آدمی بھی ہے ۔ اور نیا بھی۔ جب خدا کا کلام کہتا ہے کہ ’’ پہلا آدم ‘‘’’ نفسانی ‘‘تھا۔ اور’’ تم اپنے اگلے چال چلن کی اس پُرانی انسانیت کو اُتا ر ڈالو جو فریب کی شہوتوں کے سبب سے خراب ہوتی جاتی ہے‘‘۔ تو اس کا یہ مطلب ہے کہ ہم آدم کی نسل ہیں ۔ لیکن جو نئے سرے سے پیدا ہوئے ہیں مسیح میں نئے مخلوق بن گئے۔ ہیں انہوں نے نئی انسانیت کو پہن لیا ہے۔

ایک ایما ن دار کی حیثیت سےجب مجھے پہلی مرتبہ یہ معلوم ہوا کہ ’’مجھ میں کوئی نیکی بسی ہوئی نہیں ہے‘‘۔ تو مجھے بے حدصدمہ ہوا۔ نفس کی نیت موت ہے۔ ’’جسمانی نیت خدا سے دُشمنی ہے کیونکہ نہ تو وہ خدا کی شریعت کے تابع ہے نہ ہو سکتی ہے‘‘ ( رومیوں ۷:۸ ) ۔ نفس رُوحانی چیزوں کی شدت سے دشمنی کرتا ہے۔ یہ’’ محض دشمن نہیں ہے‘‘ ۔ کیونکہ دشمن سے تو مصالحت کی جا سکتی ہے۔ لیکن یہ ’’ خدا کی دشمنی ہے ‘‘ پولس رسول کہتا ہے۔ ’’جسم روح کے خلاف خواہش کرتا ہے۔ اور روح جسم کے خلاف اور یہ ایک دوسرے کے مخالف ہیں‘‘ ( گلتیوں ۱۷:۵ ) ۔


لیکن سب سے زیادہ مجھے اس چیز سے صدمہ ہوتا ہے کہ مجھ میں دونوں ہیں ۔ ’’مَیں جسمانی اور گناہ کے ہاتھ بِکا ہواہوں اور باطنی انسانیت کی رُو سے تو مَیں خدا کی شریعت کو بہت پسند کر تا ہوں ‘‘۔ ہر مخلص مسیحی کسی نہ کسی وقت شعوری یا غیر شعور ی طور پر چلا اُٹھے گا ’’ ہائے میں کیسا کم بخت آدمی ہوں اس موت کے بدن سے مجھے کون چھڑائے گا‘‘۔

خد ا کے کلام اور تجربہ کے مطابق یہ جنگ تمام جنگوں سے زیادہ خوفناک ہے۔ یہ جنگ کسی خارجی دشمن کے ساتھ نہیں ہے ۔ بلکہ داخلی ’’ ففتھ (چھٹا) کالم‘‘ کے ساتھ ہے جو انسان کی روح کے عین مرکز میں موجود ہے۔ اور یہ قیاس کرنا غلط ہے کہ یہ بے رحم اور ختم نہ ہو نے والی دشمنی ایک ایسے تعطل پر پہنچ جائے گی جہاں طرفین میں سے کوئی نہیں جیتےگا ۔ہم ڈرتے ہیں کہ بہت سے مسیحیوں نے شکست خوردہ ذہنیت اختیار کرلی ہے۔ اور وہ ’’ پُرانی انسانیت کو اپنی روز مرہ کی بد اعمالیوں کا موجب گردانتے ہیں ۔ وہ بلا شک بعض علما کی وجہ سے اس انتہا پسند نظر یئے کے قائل ہو چکے ہیں جو یہ اکثر پیدا کرتے رہتے ہیں۔ کہ اصلاح یا فتہ آدمی میں علیحدہ علیحدہ دو شخصیتیں ہیں۔ فرشتہ اور انسان دونوں ملےہوئے ہیں۔ پُرانا انسان غیر متغیرہ بدی کا حامل اور نیا انسان کامل اور معصوم ہے‘‘ ۔ (ایچ ۔ بُونؔر )

لیکن مَیں ایک ہی فرد ہوں۔ اس حیثیت سے مَیں ’’پُرانی کو اُتار نے ‘‘ اور ’’ نئی کو پہننے ‘‘ کا خود ذمہ دار ہوں ۔ پُرانا اورنیا دونوں واضح شخصیتیں نہیں ہیں بلکہ ایک ذمہ دار فرد کے محض دورُخ ہیں۔ بشپ مو لؔے کہتا ہے۔

’’ اور جسم کوئی علیحدہ حقیر حیثیت نہیں ہے۔ اگر آدمی کا جسم کوئی سازش کرتا ہے تو گنہگار آدمی ہی ہے‘‘ ۔

کسی پچھلے باب میں ہم نے اس بات کی وضاحت کی تھی کہ شہنشاہ ولیم نے ایک ملا قات کی درخواست کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ یہ درخواست ایک امریکی جرمن نے لکھی تھی۔ اس درخواست کو اس وجہ سے ٹھکر ا دیا گیا تھا۔’’ وہ جرمن جو جرمنی میں پیداہوتے ہیں لیکن امریکہ کی شہریت اختیار کرنےپر امریکن بن جاتے ہیں۔ مَیں امریکی لوگوں کوجانتا ہوں لیکن جرمن امریکنوں کو نہیں جانتا ‘‘۔ ایک فرد کی حیثیت سے مَیں’’ آدم میں تھا‘‘۔ اب وہی خود ’’ مسیح میں‘‘ ہے۔ اس کے متعلق یہ غلطی نہ رہے کہ مَیں ایک ہی وقت میں ’’ آدم میں بھی ہوں ‘‘ اور ’’ مسیح میں بھی ‘‘ ۔ جب مَیں آدم میں تھا ۔ تو مَیں جسم میں تھا۔ مَیں کھویا جا چکا تھا۔ مَیں لعنتی تھا اور ہرگز مسیحی نہ تھا۔

لیکن جب مَیں آدم سے کاٹ ڈالا گیا تو صلیب پر میرا خداوند مسیح سے ملاپ ہو گیا ۔’’ مَیں مسیح کے ساتھ مصلوب ہوا ہوں‘‘۔ مَیں اس لئے مصلوب ہوا کیونکہ میرا مرض لا علا ج تھا ۔ مسیح کے ساتھ ملاپ کی وجہ سےمَیں جسمانی نہیں بلکہ روحانی ہوں۔ ہم اس بات پر پھر زور دیتے ہیں کہ جو نئے سرے سےپیدا ہوئے ہیں وہ آدم اور مسیح دونوں کے ماننے والے نہیں ہیں۔ اس طرح سے تو مجھے اپنے بادشاہ سے ملا قات کی اجازت نہیں مِل سکتی ۔ پُرانے عہد نامہ میں ذکر ہے کہ ایک مجرم سزا سے بچنے کی غرض سے’’ خُدا وند کے خیمہ کو بھاگ گیا اور مذبح کے سینگ پکڑ لئے ‘‘۔ وہ کیفر کردار (بُرے کام کا بدلہ)کو پہنچا یا گیا ۔ ’’تُو اسے میری قربانگاہ سے جدا کر دینا تا کہ وہ مارا جائے ‘‘ ( خروج ۲۱: ۱۴) ۔اسی طرح سے جسم پر لعنت ہے۔ ہماری پُرانی انسانیت اس کے ساتھ مصلوب ہو چکی ہے۔


ہمیں ڈر ہے کہ بہت سے ایمان داروں میں دو فطرتیں ہیں اور اس لئے اُن کی بادشاہ کے ساتھ ملاقات نہیں ہو سکتی ۔ ہم کس اساس اور تخت تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں؟ جسم پر رحم نہیں ہو سکتا ، اُسے پاک مقام تک آنے کی جرات نہیں ہونی چاہیے ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ خدا کہہ دے ’’اَسے میری قُربان گاہ سے جداہ کر دینا تا کہ وہ مارا جائے‘‘۔ ہم مصلوب ہو کر ہی اس کے قریب جا سکتے ہیں ۔ اس کے بغیر اس کے قریب نہیں جا سکتے۔ صلیب نے ہماری پُرانی انسانیت اور نئی زندگی کے درمیان ابدی جدائی کی دیوار کھڑی کر دی ہے۔ زندگی بھر میرا یہی شعار ہونا چاہیے ۔ صرف اسی وجہ سے ہم خداوند یسوع مسیح کے خون کے وسیلہ سے کہہ سکتے ہیں۔ لیکن اس کی وضاحت یوں ہے۔ اگر کوئی یہودی یا ہندو مشرف بہ مسیحیت ہو تو اس کے رشتہ دار اس سے بالکل قطع تعلق کرنے کی غرض سےاس کا جنازہ نکالتے ہیں۔ یعنی اس نفرت انگیز کام کے بعد وہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ مر چکا ہے۔ ہم نے ایک یہودی مسیحی کے متعلق سُنا جس نے اسی طرح اپنی تجہیز و تدفین کااہتما م کیا ۔ اس جنازے کی رسم کے بعد اس یہودی مسیحی کے باپ نے ایسا ظاہر کیا۔ جیسے وہ اپنے بیٹے کا بوسہ لے کر الوداع کہنے کو ہے۔ لیکن اس بیٹے کی ماں ان دونوں کے درمیان کھڑی ہو گئی۔ اور کہنے لگی ’’ کیا تم اس مُردہ کتّے کا بوسہ لو گے‘‘؟ جب مسیح نے میری صورت اختیار کی تو اس نے مجھے اپنے ساتھ باندھ لیا اور مجھے اس لعنتی صلیب پر لے گیا اور پھر مُجھے لے کر قبر میں اُترگیا تا کہ ہمیشہ کے لئے میری ’’ پُرانی انسانیت ‘‘ کے ساتھ رشتہ منقطع کر دے ۔اس کے بعد دفن ہو چُکنے کے بعد میرا کسی اور سے نکا ح ہو چکا ہے۔ جو مُردوں میں سے جی اُٹھا ہے۔ کیا کبھی مجھ پر یہ حقیقت کھلی ہے کہ میں اپنی روح کی دُلہن کا اخلاقی طور پر کیسا مخالف ہوں جب مَیں ’’ اس مُردہ کتّے ‘‘ کا بوسہ لینے کے لئے آگے بڑھتا ہوں؟ آؤ پھر سنجیدگی سے اپنی موت کے حکم پر دستخظ کر دُو ں اور ابد تک اپنی موت کی یاد مناتا رہوں۔

تھوڑا عرصہ ہوا ہم اسی خیال کے متعلق وعظ و نصیحت کر رہے تھے تو ایک بانکے چھیلے جوان نے وعظ پر یوں تبصرہ کیا ۔’’ جو وعظ وہ کررہا تھا مَیں اسے نہیں جانتا ہوں۔ مَیں ایسا بُرا تو نہیں ہوں ‘‘۔ ایک دوست نے کہا ’’ کیا تمہارا مطلب یہ ہے کہ تم حسد ، کینا اور غرور سے پر یشان تو نہیں ہو ؟ ( ایسی چیزیں تو صاف ظاہر ہیں) ۔ اس نے جواب دیا ۔ ہاں بے شک مَیں پر یشان تو ہو تا ہوں‘‘۔ اُس کے دوست نے کہا ان باتو ں کے متعلق تم کیا کرتے ہو؟ تو اس جوان نے فوراً جوا ب دیا ۔ ’’اُس کا خون ان ساری چیزوں کی فکر کرتا ہے‘‘۔ اس خود کفیل نوجوان مسیحی کے نزدیک گناہ ابھی تک ’’ گناہ عظیم ‘‘ نہیں بنا تھا۔ خداوند مسیح جہنم سے نکلے ہوؤں کی آرام گاہ ہے۔ اس کا خون شفا بخشنے والا ہے۔ جو اس قسم کے مصنوعی مسیحی کو تمام ذمہ داریوں سے آزاد کر دیتا ہے۔

پھر (رومیو ں پانچویں باب )کی ’’ راست بازی ‘‘ اور (رومیوں چھٹے باب) میں جو ربط ہے اسے بغور ملاحظہ کریں یہ ایک دوسرے کی اساس ہے ۔ اور پھر اسی میں مل جاتی ہے۔ راستبازی کے متعلق پولس رسول کہتا ہے۔ ’’جہاں گناہ زیادہ ہوا وہا ں فضل اس سے بھی نہایت زیادہ ہوا ہے‘‘۔ پا کیزگی کے متعلق وہ پوچھتا ہے ۔’’ پس ہم کیا کہیں ؟ کیا گناہ کرتے رہیں تا کہ فضل زیادہ ہو ؟ ہر گز نہیں ۔ ہم جو گناہ کےاعتبار سے مر گئے ۔ کیونکہ اس میں آئندہ کو زندگی گزاریں‘‘ ( رومیوں ۲۰:۵ ، ۶ :۱ ۔ ۲ ) ۔ پھر رسول اس کی یوں وضاحت کرتا ہے کہ جب ہم مسیح میں راستباز ٹھہرے تو اس میں شامل ہوئے ۔ ہم نے ’’ اس کی موت میں شامل ہونے کا بپتسمہ لیا‘‘ ۔ اب آدم اور گناہ کے ساتھ ہمارا کوئی تعلق نہ رہا ۔ ہیو گؔل نے کہا ہے۔ کہ مسیح نے اپنی موت کے ذریعہ سے میری پُرانی اور نئی انسانیت کے درمیان کلوری کی اتھاہ گہرائیوں کی ابدی ہلاکت حائل کر دی ۔ میری زِندگی مسیح مصلوب کے ساتھ وابستہ ہے۔ اس لئے مَیں اُس کی موت میں شامل ہوں ۔یہ میری قانونی حیثیت ہے۔ اِسی سے وہ زندگی صادر ہوتی ہے۔ جو مَیں بسر کر رہا ہوں ۔ یہ زندگی گناہ کے اعتبار سے موت ہے۔ ہم خدا کے ساتھ ایک ہوئے جُو نہی میں مسیح ہو جاتا ہوں میری یہی حیثیت ہوتی ہے۔


اگر چہ خُدا کے کلام کی روسے کوئی وجہ موجود نہیں ہے کہ کیوں وہ ایماندار جو راستباز ٹھہر چکا ہے۔ اپنی تبدیلی پر اپنے آپ کو’’ گناہ کے اعتبار سے مُردہ مگر خد اکے اعتبار سے مسیح یسوع میں زندہ‘‘ ۔ سمجھے پھربھی حقیقت یہ ہے۔ اور ہم میں سے بہت سے لو گ پولُس رسول کی طرح حیران ہو کر کہتے ہیں کہ ’’میرے جسم میں کوئی نیکی بسی ہوئی نہیں‘‘ ( رومیوں ۷ باب )۔ لیکن جب مایوس ہو کر ہم کہتے ہیں کہ ’’ ہائے میں کیسا کم بخت آدمی ہوں ! اس موت کے بدن سے مجھے کون چُھڑا ئے گا ‘‘؟ تو اس کے بعد ہم پھل دار فرما نبرداری کی مُبارک کشمکش کی سر زمین میں داخل ہو تےہیں۔ ہاتھ یہ کشمکش( رومیوں ۸ باب) تک موجودہے۔لیکن یہ کیسی مختلف ہے۔ (رومیوں ۷ باب )میں پولس ایسی کشمکش کا ذکر کرتا ہے۔ جسے زبردست شکست ہوئی ۔ یہ باب ’’مَیں‘‘ اور ’’مجھے‘‘ سے بھر ہوا ہے۔( رومیوں ۸ باب )میں بھی کشمکش جاری ہے۔ لیکن یہاں پولُس فتح مند ہے۔ وہ کہتا ہے کہ’’ زندگی کے روح کی شریعت نے خداوند مسیح یسوع میں مجھے گناہ اور موت کی شریعت سے آزاد کر دیا‘‘۔

لیکن غور فرمایئے کہ (رومیوں ۸ باب) میں پولس دوسڑکوں کے موڑپر کھڑا ہے۔ بائیں ہاتھ ’’ جسم کے مطابق ‘‘ اور دائیں ہاتھ ’’ روح کے مطابق ‘‘ راستہ ہے۔ یہ دونوں راستے بڑےبڑے فتح مند مسیحیوں کے سامنے بھی رہتے ہیں ان راستوں میں سے ایک کو چننا ہمار ا کام ۔( رومیوں ۸ باب) میں ایک ایمان دا ر آزاد ہے کہ وہ’’ روح کے مطابق ‘‘ چلےیا نہ چلے۔ وہ آزاد ی جو خود بخود غیر شعوری طور پر کام کرنے والی ہو آزادی نہیں ہو تی ۔ بلکہ ہمیں انتخاب کرنا ہوتا ہے۔

خدا کا شکر ہے کہ ’’ہم قرضدار تو ہیں مگر جسم کے نہیں کہ جسم کے مطابق زندگی گزاریں‘‘ ۔ یہ حوصلہ افزائی کیسی شان دار ہے۔ ہمارے پُرانے قرض منسوخ ہو چکے ہیں۔ پھر (رومیوں ۸ : ۱۳ آیت) میں پولس اس حوصلہ افزائی کے ساتھ تنبیہ بھی کرتا ہے۔ ’’کیونکہ اگر تم جِسم کے مطابق زندگی گزارو گے تو ضرور مر و گے‘‘۔ ’’ضرور مر و گے‘‘۔ کے محاورے کے مختلف معانی بیان کئے جاتےہیں۔ مثلاً’’ مرنے کے قریب ‘‘’’ مرنےلگا ہو‘‘ اور جس پر ’’موت کاحُکم صادر ہو چکا ہو‘‘ ۔ یعقوب رسول جب اُن لوگوں کو تنبیہ کرتا ہے۔ جو اپنی ہی نفسانی خواہشات میں مست ہیں تو کیااس کا یہی مطلب ہے کہ ، خواہش حاملہ ہو کرگناہ کو جنتی ہے۔ اور گناہ جب بڑھ چُکا تو موت پیدا کرتا ہے‘‘۔ کلام مقدس کے بیشتر مفسرین اس آیت میں ان لوگو ں کےلئے بڑی خوفناک تنبیہ پاتےہیں جو ’’جسم کے مطابق ‘‘ زندگی بسر کرتےہیں۔

ایک مشہور و معروف مفسر میتھیوہنری کہتا ہے۔

’’ ایک طرح سے ہم گو مگو کے عالم میں ہوتے ہیں۔ کہ یا تو جسم کو ناخوش کریں یا روح کو تباہ کرلیں‘‘ ۔

جیمی سن ، فاسٹ اور براؤن اپنی بہترین تفسیر میں کہتے ہیں۔

’’اگر تم گُناہ کو فنا نہ کرو تو وہ تمہیں فنا کر دے گا ‘‘۔

ایک لا متناہی کشمکش جاری ہے۔ رسول اسے یک یکی سے تشبیہ دیتا ہے۔ جس ایک یک یکی باز دوسرے کو قتل کرنےکی کوشش کرتاہے۔

جس وقت بنی اسرائیل دریائے یردن کو عبور کر کے پھل اور لڑائی کی سر زمین میں داخل ہوئے تو وہ ایک گومگو کے عالم میں تھے۔ ’’اگر تم کنعانیوں کو قتل نہ کر و تو وہ تمہیں قتل کر دیں گے ‘‘۔ اس تشبیہ میں جسم اور روح کے درمیان لڑائی ہے۔ ہم ان تنبیہات کے تاریک پہلو کو یونہی نہیں سمجھتے اور روش پہلو کےلئے خدا کا شکر کر تے ہیں کہ’’ اگر تم روح کے وسیلہ سےجسم کے کاموں کو ( کنعانیوں کو ) فنا کر دو ، تو زندہ رہو گے‘‘۔


باب یاز دہم

صلیب او ر فطرتیں

گذشتہ سے پیوستہ

اس باب میں ہم( ۱ ۔ یوحنا ۳: ۶ ۔ ۹ )کا بغور مطالعہ کریں گے۔ یہ حصہ بڑا ہی مشکل ہے ۔ اور اس پربڑی بحث ہوتی رہتی ہے

’’جو کوئی اس میں قائم رہتا ہے۔ وہ گناہ نہیں کرتا ۔ جو کوئی گناہ کرتا ہے نہ اس نے اسےدیکھا ہے اور نہ جانا ہے‘‘۔ اے بچو ! کسی کے فریب میں نہ آنا ۔ جو راست بازی کےکام کرتا ہے ۔ وہی اس کی طرح راستبا ز ہے۔ جو شخص گناہ کرتا ہے۔ وہ ابلیس سے ہے کیونکہ شروع ہی سے گناہ کرتا رہا ہے۔ خدا کا بیٹا اسی لئے ظاہر ہو ا تھا کہ ابلیس کے کاموں کو مٹائے۔ ’’جو کوئی خدا سے پیدا ہوا ہے وہ گناہ نہیں کرتا کیونکہ اس کا تخم اس میں بنا رہتا ہے بلکہ وہ گناہ کر ہی نہیں سکتا کیونکہ وہ خدا سے پیدا ہو ا ہے‘‘۔

مندرجہ بالا آیا ت کی جو کھینچ تا ن کر تفسیر کی جاتی ہے۔ ہم اس سے مطمئن نہیں ہیں ۔ بعض مفسرین اپنے عقائد میں ایسے سرشار ہیں کہ وہ اس خط کا مقصد نہیں سمجھتے ۔ یوحنا رسول نے یہ خط اس لئے لکھا تا کہ خدا کے فرزندوں کی ’’ شرکت باپ کے ساتھ اور اس کے بیٹے یسوع مسیح کے ساتھ ‘‘ ہو ۔ اس قسم کی شراکت کی شرائط قابل عمل بھی ہیں اور سخت بھی ۔ اور ان کا مرکز صحیح ایمان اور مسیحی کردار ہے۔ یوحنا رسول کہتا ہے’’ اے میرے بچّو ! میں تمہیں اس لئے لکھتا ہوں کہ تم گناہ نہ کرو اور اگر کوئی گناہ کرے تو باپ کے پاس ہمارا ایک مد دگا ر موجود ہے۔ یعنی یسوع مسیح راستباز ‘‘ ( ۱۔ یوحنا ۱:۲ ) ۔ نیک اور پاک اِنسان اس آیت کے پہلے حصے پر زیادہ زور دیتے ہیں ۔ مگر ہم اس آیت آخر ی حصہ پر ۔ دوسروں پر الزام لگانے سے پہلے ہمیں اپنا جائز ہ لینا چاہیے ۔ ڈاکٹر اے ۔ جے گؔاڑدن کے دانشمند انہ الفاظ ہم دُھراتے ہیں ۔ الہٰی سچائی جو مقدس کتا ب میں بیان کی گئی وہ اکثر دو انتہائی حدود کے در میان ہوتی ہے۔ اگر ہم بے گناہ کاملیت کے عقیدہ کو بدعت خیال کریں تو گناہ آلود ناکاملیت کے ساتھ مطمئن ہونا اس سے بھی بڑی بدعت ہے۔ اور ہم کو اندیشہ ہے کہ بہت سے مسیحی رسول کے ان الفاظ کو غیر شعوری طور پر ادنیٰ درجے کی مسیحی زندگی بسر کرنے کا جواز ٹھہراتے ہیں ۔ کہ ’’اگر ہم کہیں کہ ہم بے گناہ ہیں تو اپنے آپ کو فریب دیتے ہیں‘‘۔

یوحنا رسول کہتا ہے کہ’’ اے بچّو ! کسی کے فریب میں نہ آنا ۔ جو راست بازی کے کام کرتا ہے وہی اس کی طرح راست باز ہے‘‘۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یوحنا رسول ان ایمان داروں کی اصلاح کرنا چاہتا ہے۔ جو مسیح میں راست باز ہونے کی شیخی بھگارتے ہیں لیکن ابھی تک وہ گناہ میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ’’مسیح میں ہونا ‘‘ اور ’’ گناہ میں زندگی بسر کرنا ‘‘ دونوں اکٹھے نہیں رہ سکتے ۔


مقدس یوحنا کہتا ہے۔ ’’اُس کی ذات میں گناہ نہیں‘‘۔ اور اس لئے اس میں قائم رہنا گناہ سے دُو ر رہنا ہے۔ پھر وہ اس دلیل کو انتہائی کمال تک پہنچا تا ہے اور کہتا ہے کہ ’’ جو کوئی خدا سے پیدا ہوا ہے وہ گُناہ نہیں کر تا کیونکہ ا س کا تخم اس میں بنا رہتا ہے۔ بلکہ وہ گناہ کر ہی نہیں سکتا کیونکہ خدا سے پیدا ہوا ہے‘‘۔ کیا مقدس یوحنا رسول کو ہماری اس وضاحت سے تسلّی ہو جاتی ہے کہ مسیحی زندگی کا عام رُحجان نیکی کی طرف ہے ؟ یہ عام سچائی ہے۔ لیکن ہو سکتا ہے کہ کوئی آدمی اچھا مسیحی ہو لیکن اس کی خدا سے وہ شراکت نہیں ہے۔ جس کا تصور یوحنا رسول کے ذہین میں ہے ۔ اس قسم کی وضاحت اس خط کے مقصد کو پورا نہیں کرتی یعنی وہ نئے مخلوق کی خدا کے ساتھ ہمیشہ کی شراکت نہیں پیدا کرتی ۔ پھر کیا مقدس یوحنا رسول اس خیال کے متعلق سو چ رہا تھا کہ ایمان دار اپنی نئی زندگی کے ساتھ گناہ نہیں کر تا بلکہ پُرانی زندگی کے ساتھ گناہ کرتا ہے۔ ہمارا یہ ایما ن نہیں ہے۔ آخر میں بات یہ ہے کہ کیا یوحنا رسول ان لوگوں کا خیال کرتا ہے جو ایسے پاک ہو گئے ہیں کہ گناہ کر ہی نہیں سکتے؟ یقیناً نہیں۔

پہلے غور کیجئے کہ’’ پیدا ہو ا ہے‘‘کے الفاظ انگریز ی زبان کے مطابق فعل حال مکمل ہے۔ مقدس یوحنا رسول ایمان دار کی گذ شتہ تبدیلی کا ذکر نہیں کرتا ہے۔ رسول یہ نہیں کہتا کہ ’’ وہ گناہ کر ہی نہیں سکتا کیونکہ وہ خدا سے پیدا ہو ا تھا‘‘۔ بلکہ وہ ’’پیدا ہو ا ہے‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول یہ شرط پیش کرتا ہے کہ نیا مخلوق خدا سے شراکت کا تجربہ رکھتا ہے۔ لیکن اس کا عملی پہلو یہ ہے کہ جب میرے سامنے کوئی اخلاقی انتخاب ہو تا ہے ۔ تو اگر میں اُس میں’’ پیدا ہو ا ہوں‘‘ ۔ تو میں ’’گناہ کر ہی نہیں سکتا ‘‘۔ اس کی مکمل وضاحت (پیدا ئش ۳۹ باب )میں دی گئی ہے۔ جب حضرت یوسف کے سامنے انتخاب کرنے کا مسئلہ در پیش تھا کہ آیا وہ جسم کے مطابق چلے یا روح کے مطابق تو حضرت یوسف نے کہا ’’ میں کیوں ایسی بدی کروُ ں اور خدا کا گنہگار بنُو ں‘‘ ۔ حضرت یوسف نے خُدا کے وعدے کے کلام کو اپنے دل میں چُھپائے رکھا یعنی اس کا تخم اس میں بنا رہا ۔ اور وہ ’’بھا گا اور باہر نکل گیا ۔ اُس نے اُس پوشاک سے بھی نفرت کی جو جسم کے سبب سے داغی ہو گئی تھی ‘‘۔ اس مثال میں حضرت یوسف نے ’’ گناہ نہ کیا‘‘ ۔ حضرت یوسف نے یوں کہا ’’ میں پیدا ہو ا ہوں ۔ میں گناہ کر ہی نہیں سکتا ‘‘۔

زندگی بھر ہم اس قسم کی دو سڑکوں کے درمیان موڑو ں پر کھڑے ہیں ۔ جہاں ہمیں ہر روز جسم اور روح ، پُرانی اور نئی انسانیت میں سے انتخاب کر نا ہو گا۔ اس موڑ پر’’ ہر روز ‘‘ ہماری صلیب ہمار ے سامنے آتی ہے۔ اس نئے فرض کے لئے نئی موت اور نئی قیامت کی ضرور ت ہے۔ یعنی یہ ایسا راستہ ہے جس پر ایمان دار کو ’’نئی زندگی میں ‘‘ چلنا ہے۔ وہ اسی لئے ’’ پیدا ہو ا ہے‘‘۔ نئی روشنی اس راستے کومنور کر دے گی تا کہ ایمان دار سے فرما نبرداری کا مطالبہ کر تی رہے۔

کیا اب ہم پھر کنعان یعنی پھل اور لڑائی کی سر زمین کا ذکر چھڑیں ؟ جب اسرائیلی اُس فرمانبرداری کی مبارک سر زمین میں داخل ہوئے تو کیا وہ سر زمین وراثت کی رو سے ان کی نہ تھی ؟ اسی طرح سے ایمان داروں کو خُداوند مسیح میں تمام رُوحانی برکات حاصل ہیں ۔ لیکن یشوع کی طرح ہمارے ساتھ بھی وعدہ کیا گیا ہے’’ جہاں تمہارے پاؤں کا تلوا ٹکے وہ جگہ تمہار ی ہو جائے گی ‘‘۔ یشوع کو اپنے دشمن کی گردنوں پر اپنے پاؤں کے تلوے ٹکانے چاہئیں ، اور ایمان داروں کو اپنے اعضاء سے نیست و نابود کر دینے چاہئیں ۔ ’’بدن کے کاموں کو نیست و نابود کر دو‘‘۔


لیکن کیا خدا نے اسرائیلیوں کو فوراً اس سر زمین پر قبضہ کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا؟ نہیں ۔ خدا نے فرما یا تھا’’ میں اُن کوایک ہی سال میں تیرے آگے سے دُور نہیں کروں گا ۔ تانہ ہو کہ زمین ویران ہو جائے اور جنگلی درندے زیادہ ہو کر تجھ ستانے لگیں ۔ بلکہ میں تھوڑا تھوڑا کر کے اُن کو تیرے سامنے سے دور کرتا رہو ں گا ۔ جب تک تو شمار میں بڑھ کر ملک کا وارث نہ ہو جائے ‘‘( خروج ۲۳: ۲۹۔۳۰)۔ ہمارا بھی یہی حال ہے۔ ہمیں عمر بھرنئے نئے علاقوں کو فتح کرتے رہنا چاہیے ۔ پہلے اپنی ہی زندگی کے علاقے کو اور اس کے بعد ’’ غیر کے علاقہ ‘‘ کو فتح کرنا چاہیے۔ بنی اسرائیل کو سات قوموں کا مقابلہ کرنا پڑا جو اُن سے کہیں بڑی اور زور آور تھیں ۔ وہ قادر مطلق خدا کی طاقت کے بغیر ان قوموں پر کس طرح غالب آسکتی تھیں۔ہمارا بھی یہی حال ہے۔ پُرانی زندگی ہم سے زیادہ طاقتور ہے ۔لیکن وعدہ یہ ہے کہ ’’اگر تم روح میں مضبوط ہوتے جاؤ اور بدن کے کاموں کو نیست و نابود کر دو تو تم زندہ رہو گے‘‘۔ خدا بنی اسرائیل سے اور ہم سے بھی یہی کہتا ہے کہ اس طرح سے ہم اپنی میراث کو حاصل کریں گے۔

آیئے آگے بڑھیں ۔ پہلا قلعہ بند شہر یریؔحو تھا ۔ بنی اسرائیل کو اس کا سامنا کر نا پڑ ا۔ لیکن ’’ایمان ہی سے یریؔحو کی شہر پنا ہ جب سات د ن تک اس کے گرد پھر چکے تو گر پڑی‘‘۔ اور یشوع نے سب کو تلوار کی دھا ر بالکل نیست کر دیا ۔ اب ایک موزوں سوال پیدا ہو تا ہے۔ کیا بنی اسرائیل کو ہر دوسرےدن اس شہر کے کچھ حصے پر قبضہ کرنا تھا ؟ نہیں ۔ ہر گز نہیں۔ اُنہیں غالب آنے کے بعد تھوڑی دیر تک انتظار کرنا تھا۔ اُنہیں اس فتح میں قائم رہنا تھا جو اُنہوں نے ابھی ابھی حاصل کی تھی۔ اُنہوں نے اس حکم کی تعمیل میں گناہ نہ کیا ۔ اس طرح سے ہمیں بھی کوئی نہ کوئی قلعہ لے لینا چاہیے ۔ ( مثلاً سُستی ۔ حسد ۔ لالچ ۔ آرام طلبی اور تساہل پسند ی ) ۔ اور پُرانی انسانیت کے اس حصہ پر صلیب گاڑ دینی چاہیے ۔ جو چیز ہم نے اپنے قبضے میں کر لی ہے۔ ہم اس میں قائم رہیں ۔ اگر ہم چند اُونچے مقامات ہی لعنتی کنعانیوں سے لےلیں ۔ اور اُن سے صلح کر لیں تو یہ عہد جُھوٹا ہے کیونکہ ان ہی اونچے مقاموں میں شیطان اپنے لوہے کے ر تھوں سے حکومت کرتا ہے۔

ایک دفعہ یبوسؔیوں نے داؤد اور اُس کے آدمیوں کی نافرمانی کی اور اُن کا مضحکہ اُڑایا۔لیکن داؤد نےصیُّون کا قلعہ لے لیا۔ یہ اُس کا دارالسلطنت ہوا ۔ اس مقام سے وہ اس سر زمین پر حکومت کرنے لگا ۔ کیا اس کتاب کے قار ی کا کوئی ایسا مقام ہے ۔ جو ابن داؤد کو داخل نہیں ہونے دیتا ۔ ابن داؤد کے ساتھ ان تمام بلندیوں کوسر کرو ۔ اور دشمنوں کو مار بھگاؤ اور اپنی زندگی میں خداوند یسوع مسیح کے ساتھ بادشاہی کرو۔ یوحنا رسول کہتا ہے’’ جو کوئی خدا سے پیدا ہو ا ہے۔ وہ دنیا پر غالب آتا ہے‘‘ ( ۱۔ یوحنا ۴:۵ )۔ تمہاری دُنیا میں اور کونسا مقام ہے جس پر ابھی تمہارا غلبہ نہیں ہے؟ وہ جو تمہاری زندگی کی سر زمین میں ’’ پیدا ہو ا ‘‘ وہ غالب آئے گا۔

ایمان دار ہر روز صلیب اُٹھا تا ہے۔ موت کو مُردو ں میں سے جی اُٹھنے کے عمل سے وہ نئی زندگی میں ’’ پھل اور لڑائی ‘‘ کے لئے ’’پیدا ہوا ہے‘‘۔ وہ روشنی میں چلتا ہے ۔ہر نئی مشکل پر قابو پاتا ہے اور وہ قائم رہنا سیکھتا ہے۔ خُدا اسی چیز کا مطالبہ کرتا ہے۔ مقدس رسول اور یوحنا رسول یہی کہتے ہیں۔’’ روح کے موافق چلو تو جسم کی خواہش کو ہر گز پورا نہ کرو گے‘‘( گلیتوں ۱۶:۵)۔ عزیز و! کیا ہم یہ تصور کر سکتے ہیں کہ نافرمان بنی اسرائیل جب بیابان کی سختیاں جھیل رہے تھے۔ تو وہ اس بات کی شیخی مارتے تھے کہ اُنہیں کنعان میں سب کچھ میسرہے ؟ دو دِ لے ایماندار کے لئے کس قسم کا یہ فخر ہے کہ وہ بدن اور روح کی رغبتوں میں گھِر ا ہو اہے۔


اور وہ ہر وقت شیخی مارتا ہے کہ اُسے ’’مسیح میں آسمانی مقاموں میں‘‘ سب کچھ میسر ہے؟ وہ مسیح کے لئے کوئی علاقے فتح نہیں کرتا ۔ اُسے دودھ شہد اور انگور کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔اور اپنے منجی کی خاطر اس نےکسی دشمن کا مقابلہ نہیں کیا۔ اگر انسان میں دو فطرتیں ہوں اور ان میں باہمی جنگ نہ ہو تو وہ کلامِ مقدس کے معیا ر پر پورا نہیں اُتر تیں ۔ تُم’’ آدم اور مسیح ‘‘ دونو ں پر ایمان نہیں رکھتے ۔ کیا تم اپنی خواہشات کو دبائے رکھتے ہو ؟ خدا نے یہ نہیں کہا تھا کہ کنعانیوں کو با جگذار بنا لو یا انہیں ا سیر کو لو۔ خدا نے کہا کہ کنعانیوں کو قتل کر دو۔ کیا تم اِس قسم کے نیست و نابود کر نے والے ہو کہ پھل بھی نہ رہے اور اس کے بعد جنگ و جدل بھی نہ ہو ؟ تمہاری یہ حالت کلامِ مقدس اور تجربہ کے خلاف ہے ۔ یہ دونوں حالتیں قرین ِعقل نہیں ہیں ۔ صلیب اس کا حل ہے۔ ہم مسیح کے ساتھ مصلوب ہو چکے ہیں اور ہم نے پُرانی انسانیت کو اپنے میں سے دور کر دیا ہے۔ اب اسے نکال دو یعنی اس کے کاموں کو نیست و نابود کر دو ۔ اس کی موت کی کو اپنے پر وار د کر و۔ اگر تم ناپاک اور ریا کار ہو تو صلیب تمہیں شرمند ہ کرے اور مصلوب کرے۔’’ اے دو دِلو ! اپنے دِلوں کو پاک کر و‘‘ ۔ صلیب اس حق میں نہیں ہے کہ ہم رسولوں اور ولیوں کی سی زندگی بسر کریں جو تگ و دو سے خالی ہو ۔ ہلیلو یا ہ ! آؤ ہم اپنے بلند مقام کو حاصل کریں۔ ہم ’’روح سے ‘‘سب کچھ حاصل کر سکتے ہیں ۔ اس آدمی کےلئے یہ حوصلہ افزائی کا کلام ہے جو آزمائش میں گِر چکا ہے یا جس سے کوئی لغز ش (غلطی)سر زد ہو گئی ۔ اور وہ کون سا آدمی ہے جس سے کبھی کوئی لغز ش نہیں ہوتی ؟ ا س کا علاج صرف یہ ہے کہ فوراً اپنے گناہوں کا اقرار کریں ۔ کفارا ہمارا ہے یہ بھی یاد رکھیں کہ اس کا خون بھول چوک کے گناہوں کا بھی کفارہ ہے۔ لیکن یوحنا رسول کی طرح ہمارا وطیرہ یہ ہو کہ ہم ’’ گناہ نہ کریں‘‘۔

اے ایمان دار ساتھیو ! ’’قبضہ کرنے کو ابھی بہت سا ملک باقی ہے‘‘۔ آؤ ہم اپنی آنکھیں اوپر اُٹھائیں اور کھیتوں پر نظر کریں کہ فصل پکنے کو ہے۔ ہم ان سر زمینوں پر بھی رہ رہے ہیں جو ہماری زندگی میں فتح نہیں ہوئی تھیں ۔ لیکن ہم بُری طرح سے خدا کے اس پروگرام کو پورا کرنے سے قاصر رہیں گے۔ اگر ہم دنیا کے اُن علاقوں کا خیال نہ کریں ۔ جہاں ابھی انجیل مقدس کی تبلیغ نہیں ہوئی ۔ آیئے ہم اندرونی خانہ جنگی سے نپٹ لیں تا کہ ہم ساری دُنیا میں جا کر منادی کریں اور بّرے کے لئے دُنیا کو جیت لیں ۔ ’’ بھیڑوں ‘‘ کا وہ بڑا چرواہا جس نے ہمیں حکم دیا کہ ’’ میرے آنے تک لین دین کرنا‘‘ اُسے ’’اور بھیڑوں ‘‘کی بھی فکرہے جن کے متعلق اُس نے فرما یا ’’ مجھے ان کو بھی لانا ضرور ہے ‘‘۔ مِشنوں یا رسالت کا عنوان کچھ ایسا ہے ۔ کہ کوئی اس کے سوا اور ایسا نکتہ نہیں ہے جس کے متعلق خداوند یسوع مسیح کی کلیسیا ء مصلوب کے احکام کی فرمانبرداری کر رہی ہے۔ حرص اور سُستی کے کنعانی ترک ِفعل کے گناہ بعض اوقات ارتکاب فعل کے گناہو ں سے زیادہ ہوتے ہیں۔ ان ہی چیزوں نے کلیسیا ء کی ترقی کو روک دیا ہے ۔ کلیسیا ء مجموعی طور پر جسم کے مطابق زندگی گذار رہی ہے ۔ کلیسیاء گھلتی جا تی اور مر رہی ہے۔ ایک مشہور مشنری لیڈر ریورنڈ آر۔ واٹسؔ ڈی ۔ ڈی پر یذیڈنٹ امریکن یونیورسٹی قاہر ہ نے ڈاکٹر گلؔوور کی کتاب ’’ پر وگریس آف ورلڈ وائڈ مشنز ‘‘ میں سے مندرجہ ذیل اقتباس نقل کیا ہے:۔

اس بشارتی زما نے کا سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ مقامات جہاں ابھی انجیل مقدس کی مناد ی نہیں کی گئی وہاں انجیل کا پیغام سُنایا جائے اگر کلیسیائیں اس چیلنج کو قبول کرلیں تو اس سے بہت سے مسائل پید اہوتے ہیں ۔ مثلاً مسیحی کلیسیا ء کی زندگی ، کروڑ ہا ہم جنس انسانوں کی بہتری و بہبود ی ، قوموں کی زندگی پر شرائظ کر نا اور وہ مسائل کہ خدا نے خود اپنے ازلی مقصد کو خداوند یسو ع مسیح میں ظاہر کیا ہے ۔ وہ مقامات جو انجیل مقدس کی روشنی سے محروم ہیں وہاں انجیل کی روشنی پھیلائی جائے۔ اور کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کو اس کی کیا قیمت ادا کرنی پڑےگی۔ ان دُور افتادہ(درماندہ، بغیر جوتی ہوئی ناکارہ زمین) مقامات کو جو راستہ جاتا ہے۔ وہ ہمارے اپنے دل اور ہماری اپنی زندگیوں کےایسے حصوں سے ہو کر جائے گا ۔ جو ابھی تک خدا کی کامل محبت کی آگ اور تقدیس سے بے بہرہ ہیں۔ وہ حصے ابھی تک خداوند یسوع مسیح کی مرضی کے تابع نہیں ہیں۔ اور اس کے روح نے ابھی تک وہاں اپنا قبضہ نہیں جمایا ۔ اور جب اُسے ہمارے اپنے دِل کے ان علاقو ں میں جو بہت ہی قریب ہیں داخل ہونے کی اجازت ہو جائے گی ۔ تُو دُنیا کے وہ علاقے جو بہت دُور دراز ہیں وہا ں وہ خود بخود داخل ہو جائے گا ۔



اب دواز دہم

صلیب اور جسم ( خواہشات )

اگر جسم میں قوت گویا ئی ہوتی تو جب اِس کا صلیب سے سامنا ہو تو وہی زبان استعمال کر تا جو مسٹر ایماایل نے استعمال کی ہے ۔ایمی کاؔر میخیل نے ان الفاظ کو یوں بیان کیا ہے۔ جب جسم کے متعلق ڈاکٹروں نے یہ فیصلہ دے دیا کہ بس اب یہ مر چکا ہے تو اس نے کہا ’’ جب میں پیدا ہوا تو مجھے ایسا معلوم ہوا کہ میں دیدے پھاڑ پھاڑ کر مستقبل میں جھانک رہا ہوں۔ کیا ان تمام چیزوں کامیرے ساتھ ہی تعلق ہے؟ کیا میری ذلت اور رسوائی بڑھ رہی ہے۔ غلامی کی زنجیریں بوجھل ہیں اور میرے عمل کی دُنیا آہستہ آہستہ تنگ ہوتی جا رہی ہے ؟ سب سے بڑی نفرت انگیز چیز یہ ہے کہ اب رہائی کی اُمید نہیں ہے ۔ اب میرے مصائب میں یکے بعد دیگرے (مسلسل)اس طرح سے اضافہ ہوتا جائے گا کہ میرے لئے سانس لینا بھی مشکل ہو جائے گا ۔ مستقبل میں میرے لئے کوئی اُمید نہیں ہے۔ میرے راستے مسدود(بند) ہو چکے ہیں اور رہائی کی کوئی صورت ممکن نہیں ہے۔

جسم کے لئے صلیب خدا کا فیصلہ یعنی ’’موت کی اسیری ‘‘ہے۔ پولس رسول نے بڑے جان جو کھوں کے بعد اس حقیقت کو سمجھا کہ ’’میرے جسم میں کوئی نیکی بسی ہوئی نہیں ہے‘‘۔ وہ ایمان دار جو بیدار ہو چکا ہےکہتا ہے۔ کہ میرا بھی یہی حال ہے کہ ان باتوں کا مجھ پر بھی اطلاق ہوتا ہے؟ یہ بات سمجھنے میں بڑا عرصہ لگتا ہے کہ ’’جسمانی نیت خدا کی دشمنی ہے‘‘۔ اس لئے یہ ’’نہ تو خدا کی شریعت کے تابع ہے نہ ہو سکتی ہے‘‘۔ فیصلہ ہو چکاہے اور سزا کا حکم سنا یا جا چکا ہے۔ اس کا واحد علاج ذلت ، مصلوبیت اور مسیح کے ساتھ مرنا ہے ۔جسم کی تمام بُری خواہشیں مصلوب کے ساتھ صلیب پر کھینچی گئی ہے۔ اس لعنتی صلیب پر مسیح نے جسم کی تمام ’’رغبتوں اور خواہشوں کو ‘‘ میخوں سے ٹھونک دیا ۔

صلیب پر مسیح نے نظام قدر ت کو تبدیل کر دیا۔ پُرانی انسانیت کا خاتمہ ہوا تا کہ وہ نئی زندگی کے لئے جگہ تیار کردے کیونکہ موت زندگی کی وارث نہیں ہو سکتی ۔ اور ’’جسمانی نیت خدا کی دشمنی ہے‘‘ ۔جس میں بُری خواہشات کی بدبو آتی ہے۔ یہ عفونت انگیز ہے، کیونکہ جسم کی نیت موت ہے اس لئے خدا نے اسے صلیب پر چڑھا دیا ۔

’’جسم‘‘ کو’’ روح ‘‘کے مخالف کہا گیا ہےکلام مقدس ’’ جسم ‘‘ اور ’’ روح ‘‘ کا استعارہ استعمال کرتےوقت انسانی فطرت کی گری ہوئی حالت کو مدِنظر رکھتا ہے۔ ہم کلامِ مقدس میں جسم کے ارادے ، جسمانی خواہش ، جسمانی نیت ، جسمانی حکمت ، جسمانی مقصُود ، جسم کے بھروسے جسم کی ناپاکی جسم کے کاموں جسم کی لڑائی اور جسم کے فخر کے متعلق پڑھتے ہیں۔ انجیل مقدس جسم کے موافق زندگی بسر کرے والوں کاذکر کرتی ہے۔ انسان کے جذبا ت و احساسات ، عقل ، قوت، خیالات اور ارادے جسم کے ماتحت ہیں۔ اس جسم کو ضرور صلیب دینا چاہیے ۔ جسم کو اس حقیقت کا سامنا کرنا چاہیے کہ رہا ئی کی کوئی اُمید نہیں رہی ۔ میرے لئے تو سانس لینا بھی مشکل ہو رہا ہے۔ صلیب آدمی کی جسمانی خواہشات کو اپنے قبضہ میں کرلیتی ہے۔ اور اس پر سز اکا حکم لگاتی ہے، اور یہ سزا کا حکم موت ہے۔


ایمی ایؔل نے یہ محسوس کیا کہ انسانی جسم کے لئے صلیب سے بچنا مشکل ہے۔ یہ مشکل ہی نہیں بلکہ محال ہے ۔ لیکن خدا کے نزدیک ناممکن ممکن ہو جاتا ہے ۔ وہ نئے سر ے سے پیداہوئے ہیں۔ وہ خدا وند مسیح کی شخصیت میں اس سزا سے گزر چکے ہیں ۔ خدا ایمان نہ لانے والے سے کہتا ہے ’’جو جسمانی ہیں وہ خدا کو خوش نہیں کر سکتے‘‘۔ لیکن خدا ہم سے کہتا ہے۔ ’’لیکن تم جسمانی نہیں بلکہ روحانی ہو‘‘ ۔ اور چونکہ ہم اس کے ہیں ہمیں یقین دلا یا جاتا ہے کہ ’’جو مسیح یسوع کے ہیں اُنہوں نے جسم کو اس کی رغبتوں اور خواہشوں سمیت صلیب پر کھینچ دیا ہے‘‘۔ اور چونکہ ہم خدا کے سامنے اپنے آپ کو اُن آدمیوں کی طرح جھکاتے ہیں جو مُردوں میں سے جی اُٹھے ہیں تو ہمیں یہ معلوم ہو تا ہے۔ کہ مسیح نےہمیں آزاد کر دیا ہے۔ اور تسلی کے الفاظ یہ ہیں۔’’ اور اگر اُسی کا روح تم میں بسا ہو اہےجس نے یسوع کو مُردوں میں سے جلا یا تو جس نے مسیح یسوع کو مُردوں میں سے جلا یا وہ تمہارے فانی بدنوں کو بھی اپنے اُس روح کے وسیلہ سے زندہ کر ے گا ۔ جو تم میں بسا ہو ا ہے۔ پس اے بھائیو! ہم قرضدار تو ہیں مگر جسم کے نہیں کہ جسم کے مطابق زندگی گُذاریں‘‘ ( رومیوں ۸: ۱۱۔۱۲)۔ پولس رسول کے کہنے کے مطابق اگر چہ ایمان دار (رومیوں ۷ باب) ذکر کی گئی اُلجھنوں سے نکل چکا ہے کہ ’’تم بھی مسیح کے بدن کے وسیلہ سے شریعت کے اعتبار سے اس لئے مرُدہ بن گئے کہ اُس دُوسرے کے ہو جاؤ جومُردوں میں سے جلا یا گیا ‘‘۔ اور یہ حقیقت ہے کہ جسم اپنی خواہشات پوری کرنا چاہتا ہے۔( رومیوں ۸با ب )میں ذکر ہے کہ کس طرح بدن کے کاموں کو نیست کیا جا سکتا ہے۔ فتح مند ایماندار کو بدن کی کئی ایسی حالتیں بھی معلوم ہو جائیں گے ۔ جن سے نپٹنا باقی ہے۔ ہم مندرجہ ذیل باتیں معلوم کریں گے ۔ مسیح کی بشارت کا پیغام سُنانے میں ہم میں خود اعتمادی اور خودداری پید ا ہو گی ۔ دُکھ اُٹھانے میں اپنے آپ کو اپنے آپ پر رحم آئے گا ۔ سمجھ بوجھ میں ذاتی بچاؤ اور نخوت پرستی ، زندگی کے مقصد میں خود پرستی اور جاہ طلبی ،چھوٹی چھوٹی آزمائشوں میں خود بینی والزام تراشی ۔ روز مرہ کے کارو بار میں نفع پر ستی اور خو د انتخابی اپنے تعلقات میں خود ادعائی، اور خودداری ، اپنی تعلیم میں لاف زنی اور خودستائی، اپنی خواہشات میں تن پروری اور اطمینان یا لذات ، اپنی کامیابی میں خود آرائی اور ستائش پسند ی ، اپنی ناکا میوں میں بہا نہ تراشی اور اپنے آپ کو حق بجانب ثابت کر نا ۔ اپنی روحانی متاع میں راست بازی اور دلجمعی ۔ خادم دین ہونے کی صورت میں ظاہر یت اور بے جا فخر اور اپنی مجموعی زندگی میں ہم اپنی ذات کو پیار کرنے والے اور حریص (لالچی)ہیں ۔ جسم میں’’ مَیں‘‘ ہی ’’مَیں‘‘ ہے۔

جسم کی خواہشات کی یہ چند صورتیں ہیں۔ ان ہی کو صلیب پر کھینچتا ہے۔ مسٹر میؔنٹل نےلکھاہےکہ

’’ورٹزنگ کے محل میں ایک شیشے کا معلق ہال ہے۔ اُسے ایک ہزار آیئنوں کا ہال کہتے ہیں ۔ جب آپ اُس میں داخل ہوتے ہیں تو ایک ہزار ہاتھ آپ کا استقبال کرنےکے لئے آپ کی طرف بڑھتے ہیں۔ ایک ہزار مسکراہٹیں آپ کی مسکر اہٹ کا جواب دیتی ہیں۔ اگر آپ اشک فشاں ہوں تو ایک ہزار آنکھیں آپ کے ساتھ اشک فشانی کرتی ہیں۔لیکن وہ ہاتھ تمہارے اپنے ہاتھ ہیں۔ وہ مسکر اہٹیں تمہاری اپنی اور وہ اشک بھی تمہارے ہی ہیں۔ یہ حریص آدمی کی تصویر ہے۔ وہ آدمی سر اسر جسمانی ہے اور فریب خُوردہ ہے‘‘۔


یہ خدا کی حکمت ہے کہ ہم فوراً جسمانی زندگی کی ان لاتعداد صورتوں سے زیر بار (بوجھ سے دباہوا،احسان سے دباہوا) نہ ہو ں ۔ اگر چہ ہم نے اپنے مخلصی دینے والے کے ذریعہ مخلصی حاصل کر لی ہے۔ پھر بھی ہم میں کش مکش جاری ہے ۔ لیکن ہم کامران ہوتے ہیں۔ جسم کے وسیع و عریض علاقوں کو ابھی صلیب پر کھینچنا ہے ۔ ہمیں خداوند مسیح کے ہم شکل بننا چاہیے ۔ افریقہ کے ایک حبشی مسیحی نے کہا ہے۔’’ مسیح کی صلیب مجھے مقدس اور ولی بننے سے روکتی ہے‘‘ ۔ ہم نے مصر چھوڑنے میں ’’ جلدی کی ‘‘۔ مصر ی بڑے انتقام کے ساتھ ہمیں جانے کی اجازت دے دیں۔ اس طرح مت دیکھو ۔ اس طرف تو موت ہے مخلصی نہیں ہے۔ ’’ اُن کے گھوڑے گوشت ہیں روح نہیں ‘‘ ۔ دو دِلے نہ بنو ۔ کلوری کے موت کے طوفان ہمارے اور اس دُنیا کے درمیان ہیں۔ ہم خداوند مسیح کے ساتھ مصلوب ہو چکے ہیں۔ یہی ہمارا موقف ہے۔ مستقل مزاج رہو۔ ہم دو نظر یوں کے درمیان کیوں ڈانواں ڈول رہیں؟ ہم دو دِلے کیوں بنیں ۔ ہم جسم کو موقع کیوں دیں؟ ہم جس کو ہمیشہ کے لئے کیوں سلام نہیں کہہ دیتے ؟ خدا کا شُکر ہے کہ ہم جسم کے قرضدا ر نہیں ہیں کہ ’’ جسم کے مطابق ’’ زندگی گزاریں ‘‘ بلکہ آپ خدا کے ہیں ۔ ہم خدا کی ملکیت بنیں ۔ اور علانیہ اُس کے ہو کر رہیں ۔ خدا کا حکم مانیں۔ بُری باتوں کو نکال پھینکیں ۔ اپنے ضمیر کو دُعا کے ذریعہ لیپ پوت (پلستر کیا ہوا) کرنے کی کوشش نہ کریں۔ جب خدا کہتا ہے کہ ’’ کاٹ ڈالو ‘‘ تو ہمیں اس وقت چیخنے چلا نے کی ضرورت نہیں۔

ہم زیادہ تر عادت کے غلام ہیں۔ ہم اپنی پیدائش سے ہی حریص (لالچی) ہیں ، اور ہمیں اپنی خوشنودی مقصو د ہے۔ ہم کسی نہ کسی جسمانی رُجحا ن کے قرض دار ہیں۔ ہمارے دل میں یہی خیال سما چکاہے۔ کہ حال اسی طرح سے رہے گا ۔ کچھ کنعانی ایسے ہیں جو اس سر زمین میں ’’ رہیں گے ‘‘ ۔ اُن کے پاس لوہے کے رتھ ہیں۔ آیئے جسم کی تمام صورتوں میں سے چند ایک کا ذکر کریں ۔ جو بعض مسیحیوں میں رونما ہیں۔

شائد آپ بڑبڑانے والے مسیحی ہیں۔ آپ اپنی ذات کے لئے بڑے ہی فکر مند رہے ہیں ۔ لیکن آپ کو فکر مند ہو نے کی ضرور ت نہیں ہے ۔ اور ’’اگر اُسی کا رُوح تم میں بسا ہو ا ہے جس نے یسوع کو مُردوں میں سے جلا یا تو جس نے خُداوند مسیح یسوع کو مُردوں میں سے جلایا وہ تمہارے فانی بدنوں کو بھی اپنے اپنے اُس روح کے وسیلہ سے زندہ کر ے گا ۔ جو تم میں بسا ہو ا ہے۔ اگر خدا کا روح تم میں ہے تو تمہاری بڑ بڑانے والی روح جاتی رہے گی ۔ اس میں ایک نکتہ ہے کہ یہ فتح خود بخود حاصل نہیں ہو گی ۔ یہ فتح اُسی وقت حاصل ہو گی ۔ جب ’’ روح سے بدن کے کاموں کو نیست و نابود کرو گے ‘‘۔ (رومیوں ۸:۱۳) ۔

کیا آپ حساس (زیادہ محسوس کرنے والا) اور زد و رنج ہیں؟ آپ سے اسے گناہ آلود فکر کیوں نہیں کہتے ؟ اگر کوئی تمہیں بُر ا بھلا کہے تو اُسے کہیے ’’ آپ حقیقت سے واقف نہیں ہیں ۔ اگر آپ کو علم ہوتا تو آپ مجھے اس سے بھی بہت بُرے القاب سے یاد کرتے ‘‘ ۔ ایسے رویے سے آپ صلیب سے ہم آہنگ ہو سکتے ہیں۔ کم از کم یہی حقیقت ہے۔

جسم یہ دلیل پیش کر تا ہے کہ اگر آ پ کے حالات ذرا مختلف ہوتے تو فتح آپ کے قدم چُومتی ۔ لیکن حالات صحیح تصور پیش کر تے ہیں۔ ہم اس بات پر زور دیتے ہیں ۔ کہ ’’کسی چیز کا اصلی جو ہر اُس چیز میں نہیں ہوتا بلکہ اُس چیز کی طرف ہمارے رد عمل کی کیفیت پر منحصر ہے‘‘۔ اگر مشکل کے وقت ہم اپنی نفرت کا اظہار کرنے سے مغدور رہے توہمارے لبوں پر مہر خاموشی لگی رہی اور ہم شستہ مزاج (پاکیزہ) نظر آتے رہے ۔ تویہی بات قابل غور ہے۔ ہمارے مغموم (غم زدہ) لمحے اسی طرح سے گزر جائیں گے جیسے ہوا گزر جاتی ہے۔ لیکن سب سے اہم یہ بات ہے کہ جب طوفان کی زد میں تھے تو اس وقت ہماری کیا کیفیت(حالت) تھی ۔ ( ایمی ۔ کار ۔ میخیل ) ۔


ہو سکتا ہے کہ آپ غیو ر مسیحی ہو ں ۔ لیکن کیا آپ نے طاقت حاصل کر نے والے بپتسمہ کی خلش پر قابو پا لیا ہے؟ کیا ایمان لا نے سے پیشتر آپ نشان اور عجیب کام دیکھنا چاہتے ہیں؟ جسم خدا کے حضور بھی اپنی شان و شوکت کا اظہار کرنے کی خواہش رکھتا ہے۔ وہ لوگ جو خد ا سے اس قسم کے تحکمانہ مطالبات پیش کرتے ہیں۔ ان میں جسم کی خواہشات اور لالچ موجود ہے۔ لیکن انہیں تو صلیب پر کھینچنے کی ضرورت ہے ۔ پُرانے عہد نامہ کی رسومات میں خون جو موت کو ظاہر کرتا ہے ۔ ہمیشہ تیل سے مسح ہونے سے پہلے ہو ا کر تا تھا ۔ تیل روح کو ظاہر کرتا ہے۔ کیا ہم اس بات کو بھول چکے ہیں کہ روح مسیح مصلوب سے صادر ہو تا ہے جو آسمان میں ہے ؟ مسیح کے جسم پر پانچ زخم ہیں۔ یہ زخم یہ ظاہر کرتے ہیں کہ جسم کو اس کی تمام رغبتوں اور خواہشوں سمیت صلیب پر کھینچا جا چکا ہے۔ ندب اور ابیہود نے ایک مرتبہ خداکے حضور اُوپری آگ نذر گذرانی اوروہ مذبح کی آتش میں جل کر بھسم ہو گئے۔

کیا آپ گپ با ز ی کے عادی ہیں ؟ تجسّس کا اصُول تلا طم خیز (لہروں سے بھرپُور) سمندر کی طرح ہے، جس میں موجیں اُٹھتی رہتی ہیں۔ کیا آپ کی زبان بے سرو پا باتیں کہتی ہے؟ ہمیں ایک وزیر کے متعلق معلوم ہے۔ کہ وہ اپنی زبان پر قابو پانے کے لئے ایک لوہے کی گرم سلاخ سے اُسے دا غتا تھا۔ لیکن مصیبت کچھ اور تھی ۔ بے سر پا باتیں تو دل سے نکلتی ہیں۔ اس کے بعد اُسے معلوم ہو ا کہ کس طر ح ’’ روح کے ذریعہ ‘‘ زبان کے کاموں کو نیست و نابود کیا جا سکتا ہے۔ ایک شعلہ بیان مبشر کے بارے میں بیان کرتے ہیں ۔ کہ اس کی بیوی اپنی ہی بات منوانے والی تھی۔ ایک معاملے میں غلطی اُسی کی تھی۔ لیکن مبشر نے اپنی ہی بیوی کی طرفداری کی۔ اُس نے جسم کے ساتھ مصالحت کر لی ۔ اب بات یوں ہے کہ گھر میں امن و امان اور صلح و آشتی خدا کی نعمت ہے لیکن انہیں بڑی قیمت دے کر حاصل کرنا نہیں چاہیے ۔ اب روح نے اس مبشر سے کام لینا بند کر دیا ہے۔ ایسی باتوں کے متعلق خدا سخت تادیبی قدم اُٹھا تا ہے۔ وہ کہتا ہے۔ ’’ اگرتیرا بھائی یا تیری ماں کا بیٹا یا تیرا بیٹا یا بیٹی یا تیری ہم آغوش بیوی یا تیرا دوست جس کو تو اپنی جان کے بر ابر عزیز رکھتا ہے۔ تجھ کو چپکے چپکے پھسلا کر کہے کہ چلو ہم اور دیوتاؤ ں کی پوجا کر یں۔ جن سے تو اور تیرے باپ دادا واقف بھی نہیں یعنی اُن لوگوں کے دیوتا جو تمہارے گردا گرد تیرے نزدیک رہے ہیں۔ یا تجھ سے دُور زمین کے اس سرے سے اس سرے تک بسے ہوئے ہیں تو تُو اس پر اُس کے ساتھ رضا مند نہ ہو نا اور نہ اس کی بات سننا ۔ تو اُس پر ترس بھی نہ کھا نا اور نہ اُس کی رعایت کرنا اور نہ اُسے چھپا نا ، بلکہ تو اُس کو ضرور قتل کرنا اور اس کو قتل کرتے وقت پہلے تیرا ہاتھ اُس پر پڑے ۔ اس کے بعد سب قوم کا ہاتھ ۔اور تو اُسے سنگسار کرنا تاکہ وہ مرجائے کیونکہ اُس نے تجھ کو خداوند تیرے خدا سے جو تجھ کو ملک مصر یعنی غلامی کے گھر سے نکال لا یا برگشتہ کرنا چاہا ‘‘ ( استثنا ۱۳: ۶۔۱۰) ۔

موجود ہ نسل روحانی نرمی اور موت کی خو گر (گدیلا)ہے ۔ہمیں اپنے باپ دادا کی طرح ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں موسیٰ کی سی سختی کی ضرورت ہے۔ کیا اس کتاب کے پڑھنے والے نے اس بات پرغور کیا ہے۔ کہ جب ہم خود غلطی کرتے ہیں تو دوسرے غلطی کرنے والوں سے نرمی کا رویہ اختیار کرتے ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ نرمی کا برتاؤ کیا جائے ۔ لیکن اِس قسم کے نرم رویے سے روحانی سالمیت پیدا نہیں ہو سکتی ۔ اور اگر چہ یہ رویہ اُس محبت کی طرح دکھائی دیتا ہے۔ جوایمان اور اُمید سے افضل ہے اور بہت سے لوگ اس کی تعریف کرتے ہیں لیکن یہ ہرگز قابل تعریف نہیں ہے۔ یہ گناہ ہے ۔ ( ایمی کار میخیل ) ۔


کیا وہ مبشر ِ انجیل اِس وجہ سے اپنی خدمت سے ہاتھ دھو بیٹھا کہ وہ جسم کے کاموں کی طرح سے محتاط نہیں تھا ؟ کیا اُس کی بیوی نے وہی خود پرستی اُس کے سامنے پیش نہ کر دی ۔ جس کی وہ تلاش میں تھا؟ جسم نے شیطان کو موقع دیا ۔ شیطان اپنے خلاف خود صف آرا(لڑائی یا جنگ کے لیے تیار) نہیں ہو تا ۔ جسم ہمیشہ جسم کے خلاف یا رانہ گا نٹھتا (جوڑنا)ہے۔

ج کل کلیسیا ء میں ضبط کا کیوں فقدان ہے؟ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ آج کل غلط کارلو گوں سے نرمی کا برتاؤ کیا جا تا ہے؟ کبھی کبھی ڈیکن تک یو ں کہتے ہیں۔ ’’اس معاملے میں میرا نام نہ لینا ‘‘ ۔ لیکن وہ شخص جو صلیب نہیں اُٹھا سکتا وہ راستباز نہیں ٹھہرسکتا ۔ صلیب پر خدا نے گناہ کو دُور کر دیا ۔’’ پس اُس شریر آدمی کو اپنے درمیان میں سے نکال دو‘‘ ( ۱۔ کرنتھیو ں ۵: ۱۳)۔

خاندانی تعلق جسم کی خواہشات کی بہت سی صورتوں میں سے ایک ہے۔ خاندانی شک رنجیاں اور عداوتیں چھوڑیئے ، اور اس کی نازک صورت ملا حظہ فرمائیے ۔ زیادہ لاڈ پیار ہی والدین کی کمزوریوں کی غمازی کرتا ہے۔ وہ اپنے جسمانی تعلقات کی بنا پر اپنے بچوں کوصلیب کی راہ پر نہیں چلاتے ۔ کیا اس کی یہ وجہ ہے کہ والدین نے خود صلیب کا راستہ اختیار نہیں کیا ؟ چند سال ہوئے ارقم الحروف کی ایک عزیز دوست اس جہان سے رحلت کر(وفات پانا) گئیں۔ اس خاتون کی پرورش ہی کچھ اس طرح سے ہوئی تھی ۔ کہ خوراک اور لباس کے متعلق اس کا یہ خیال تھا کہ اس کے جسم کے یہ تقا ضے ہیں۔ وہ فضول خرچ نہ تھی ۔ اس کی زندگی کا محور اس کی پسند اور مذاق اور ترجیحات تھیں۔ وہ ان جسمانی تقاضوں کے سامنے سر تسلیم خم رہتی تھی۔ وہ سرخ بھڑ کیلا رنگ پسند کر تی تھی۔ وہ مٹھائیوں کی دلدادہ اور مرغن اشیاء کی بہت شیدا (شوقین)تھی۔ وہ ان اشیاء سے اسی طرح چمٹی ہوئی تھی۔ جیسے گھر یلو بلی گھر پہ فریفتہ ہوتی ہے۔ اس کی زندگی ان ہی اشیاء سے عبارت تھی ۔ لیکن منجی کا فرمان ہے ’’جو اپنی جان کو عزیز رکھتا ہے وہ اسے کھو دیتا ہے‘‘۔ یہ بات دینیات سے بھی بڑی معلوم ہوتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ زندگی کا اصول ایک اٹل قانون ہے۔ اور یہ بات اس دُنیا میں بھی سچ ہے۔ وہی چیزیں جن کو حاصل کرنے کے ہم بڑے خواہشمند ہوتے ہیں اُن سے ہم کسی قیمت پر جُدا نہیں ہوتے اور اُنہیں اپنے لئے جمع کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہی چیز یں ہم کھو دیتے ہیں ۔ ہمیں معلوم ہونے لگتا ہے کہ ان چیزوں میں کوئی چاشنی (مٹھاس) نہیں رہی ۔ اور حالت چند ہی دنوں کے بعد خراب ہو جاتی ہے۔ اپنی موت سے چند مہینے پہلے اس خاتون کو رنگ سے کوئی اُنس نہ رہا ۔ جسم کہ کسی سُرخ لباس کی ضرور ت نہ رہی ۔ اب اس کے جسم کا رواں رواں مرغن اشیاء سے بغاوت پر آمادہ ہو گیا ۔ مٹھائیوں کا یہ حال ہوا کہ تھوڑی سی مٹھاس سے بھی طبعیت بیزار ہو نے لگی ۔ مٹھاس تو اس کی زندگی تھی ۔ لیکن اب وہ اس سے نفرت کرنے لگی ۔ وہ اپنی زندگی کو عزیز رکھتی تھی۔ اُس نے اس کبھی کھویا نہیں اور نہ ہی اسے کھونے کے لئے تیار تھی ۔ لیکن اب وہ اس سے نفرت کرتی تھی۔

ہمارے منجی نے فرمایا ۔ ’’لؔوط کی بیوی کو یاد رکھو ۔ جو کوئی اپنی جان کو بچانے کی کوشش کرے وہ اُسے کھوئے گا اور جو کوئی اُسے کھوئے وہ اُس کو زندہ رکھے گا ‘‘۔


کیا لُوط کی بیوی سدوم سے نہ نکلی ؟ ہاں۔ وہ نکلی تھی ۔ لیکن اُس کا جسم سدوم کی مٹھائیوں کا دلدادہ تھا ۔ اس لئے اُ س نے اُسے نہیں چھوڑا تھا ۔ یعنی اُسے کھو یا نہیں تھا۔ خدا سدوم کو بھسم کرنا چاہتا تھا۔ لیکن لؔو ط کی بیوی خیال کرتی تھی ۔ کہ یہ شہر اس قابل ہے کہ اُسے بچا یا جائے ۔ وہ آسمان سے نازل ہونے والی آگ سے اپنے آپ کو نہیں بلکہ اپنی مرغوب چیزیں بچا نا چاہتی تھی۔ کیونکہ وہ شہر سے باہر تھی۔ جب اُس نے پیچھے مُڑ کر شہر کی طر ف دیکھا ۔ سدوم کے شہر میں اس کی پسند یدہ چیزیں موجو د تھیں۔ وہ ابھی تک اپنی جان بچا نا چاہتی تھی۔اس کی یہی آرزو تھی۔ اس نے پیچھے مُڑ کر دیکھا اور اُ سے کھو دیا ۔ اس نے سدوم میں ہی اپنا سب کچھ کھو دیا یعنی اپنی جسمانی زندگی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھی ۔ وہ نمک کا کھمبا بن گئی ۔ وہ ان لوگو ں کے لئے جائے ِعبرت (عبرت کی جگہ) ہے جو جسم کے مطابق زندگی گزارتے ہیں۔

میرے عزیز دوستو! خداوند مسیح کی آمد نزدیک ہے۔ آپ کی زندگی کس قسم کی ہے؟ کیا آپ اسے رُوح کے مطابق گُزار رہے ہیں؟ صلیب کی قوت یہ ہے کہ وہ ان تمام رشتوں کو توڑ دیتی ہے جو ہمیں جسم سے باندھے ہوئے ہیں۔ ہم صرف روح کے قرضدار ہیں۔ اپنی زندگی میں صلیب کو پور اپورا کا م کرنے دو ۔ اپنے آپ کو مصلوب کے سہارے پر چھوڑ دو کیونکہ اُ س کی مصلوب زندگی پر جسم کو کوئی اختیار نہیں ہے۔ صلیب کو اپنے آپ پر قبضہ جمانے دو تاکہ و ہ تمہیں جسم کی غلامی سے آزاد کر دے ۔ جب کسی چیز کا یقین کُلّی (کامل بھروسہ)ہم پر قبضہ جما لیتا ہے۔ تو پھر وہ ختم ہو جاتا ہے۔ وہ یقین ہم پر غالب آکر ہمیں اپنے میں جذب کر لیتا ہے۔ اور دُنیا کی دوسری چیزوں سے ہمارے تعلقات منقطع (الگ) کر دیتا ہے۔ کیا صلیب نے اسی طرح سے تم پر قبضہ جما لیا ہے ۔ اگر اس کا جواب اثبات (ہاں) میں ہے ۔ تو آپ جسم کے مطابق زندگی نہیں بسر کر سکتے ۔ آپ پُرانے زمانے کے ایک مقدس کی طرح پکار اُٹھیں گے۔

’’ اے خدا! اس کی فریاد پر کان لگا جس پر تو نے رحم فرمایا اور میرے دل کو تیار کر کہ جو کچھ خداوند مسیح نے اپنی جان دے کر میر ےلئے خریدا ہے میں اس کو حاصل کر سکو ں ۔ خُداوند! ان نعمتوں سے میں محروم نہ رہ جاؤں ۔ میری اُن خوشیوں میں کانٹے ڈال دے۔ اور اُس راحت کو رنج میں بدل دے جو مجھے تیر ا ہونے سے روکتی ہے یا کسی نہ کسی طرح سے میری روحانی زندگی کی ترقی میں حائل ہیں‘‘ ( ٹی ۔ سی ۔ اوپم ) ۔

اس باب کو مِس ایمی کار میخیل کے ایک اقتباس سے ختم کرنا بہتر ہو گا۔ مس صاحبہ بڑی ہی نیک دل خاتون تھیں۔ انہوں نے اپنی زندگی میں بڑے دُکھ اُٹھائے ۔ اُن کے جسم پر خداوند یسوع کے داغ تھے۔ وہ کہتی ہیں۔

ہم جو مسیح مصلوب کے پیرو کار ہیں زندگی کی دُنیاوی خوشیوں کے لئے نہیں بلائے گئے ۔ ہم اس گنہگار دُنیا میں دُکھ اُٹھانے کے لئے زندہ ہیں۔ خداوند ہمیں معاف کر ئے کہ ہم مصائب سے گھبراتے ہیں۔ اور دُکھوں سے پہلوتہی (جان چھوڑانا) کرتے ہیں۔ اس کے سر پر کانٹوں کا تاج رکھا گیا ۔ کیا ہم اپنے سرپر تاج رکھنے کے لئے گلا ب کے پھول تلا ش کرتے ہیں؟ اُ س کے ہاتھوں میں کیل ٹھونک گئے ۔ کیا ہمارے ہاتھوں میں قیمتی زیور نہیں ہیں؟ اُس سے پاؤں ننگے تھے۔ اور انہیں صلیب کے ساتھ جڑ دیا گیا ۔ کیا ہم خراماں خراماں چلتے ہیں۔ ہمیں رنج والم کا کیا اندازہ ہے؟ ہم اُن آنسوؤں کو نہیں جانتے جو چر کا (زخم)لگنےسے آنکھوں سے نکلتے ہیں۔


کیا ہم دل کے ٹوٹ جانے سے واقف ہیں ؟ کیا ہم لعن طعن کو جانتے ہیں؟ خدا معاف کر ے کہ ہم عیش و عشرت کے رسیا (شوقین) ہیں۔ خدا معاف کر ے کہ ہم ایسی زندگی بسر کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ جو خداوند یسوع مسیح کو زندگی کے متشابہ(کی مانند) بھی نہیں ہوتی ۔ خدا ہمیں معاف کرے کہ ہم آرام طلبی کے خواہاں ہیں۔ ہم اپنے خویش و اقارب (عزیز ،رشتہ دار)میں خوش رہنا پسند کرتے ہیں۔ ہم دُنیا کی دولت اور مال کے خواہشمند ہیں ۔ ہم نے کبھی ایسی دُعا کا خیال تک نہیں کیا جس میں ہم یہ کہہ سکیں۔ کہ ہم صلیبی زندگی بسر کرنے یا کلوری یا گتسمنی کے دُکھوں کو برداشت کرنے کے آرزو مند ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے۔ کہ ہم ایسی زندگی بسر نہیں کرنا چاہتے ۔

سن رواں ۱۹۴۴ء ہے۔ ہمارے چارو ں طرف جنگ چھڑی ہوئی ہے۔ جسم کی آسائش کی کون برداشت کر سکتا ہے۔ افسوس ہے کہ جنگ کے اس زمانہ میں مسیحی گواہی کا فقدان (کمی) ہے۔ لوگ عیش و طرب کے دلدا دہ ہیں ۔ یہ کیسے دُکھ اور شرم کا مقام ہے۔

ہوا بار گرا ں فرماں تیرا خداوند بلاؤں نے ہے گھیرا
شہادت کی نہیں مجھ میں جسارت میرے دل میں نہیں شوق بشارت
تو اپنے زخمی ہاتھوں کو دکھادے
سبق بھولا ہواہے جو سکھادے
میری دُنیا میں ہر سُوا ابتری ہے خداوند ! روش میری بُری ہے
پر یشان حال میر ا قلب بریاں ہوا میں آبلہ پائی سے نا لا ں
تو اپنے زخمی پاؤں کو دکھا دے
سبق بھولا ہوا ہے جو سکھادے
میرے پاؤں کو تو درد آشنا کر مجھے بھی ہا تھ زخمی تو عطا کر
بشارت کی میسر ہو سعادت میرے دل میں رہے شوق شہادت
تجھے میں اپنے زخموں کو دکھاؤں
تیرے لطف کر م کے گیت گاؤ ں


باب سیزدہم

صلیب اور خویش و اقارب

کرائی سو سسٹم سے روائت ہے کہ جب سینٹ لو سؔین سے اس کے جلا دُوں نے پوچھا ’’ تمہارا ملک کو نسا ہے‘‘ ؟ تو اس نے جواب دیا ۔ ’’میں مسیحی ہوں‘‘۔

’’تمہار ا پیشہ کیا ہے‘‘؟’’ میں مسیحی ہوں‘‘۔

’’تمہارا خاندان کو نسا ہے‘‘ ؟’’ میں مسیحی ہوں‘‘

سینٹ لوسؔین کے نزدیک مسیح ہی سب کچھ تھا۔ وہی اس کا ملک ، پیشہ اور خاندان تھا۔

صلیب کتنی انقلاب انگیز ہے۔ صلیب خدا کے ساتھ ہماری ذات کے ساتھ ، دوسرو ں کے ساتھ اور سب لوگوں کے ساتھ ہمارے رشتوں میں انقلاب بر پا کر دیتی ہے۔ جب صلیب کسی مسیحی پر قبضہ جما لیتی ہے۔ تو اس کا اس دُنیا سے سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے۔ پُرانی زندگی ، پُرانی دُنیا ، پُرانے رسم و رواج اور پُرانے رشتے ناطے سب قصہ پا رینہ (پرانی داستان) بن جاتے ہیں۔ دیکھو ! سب چیزیں نئی ہو گئیں ۔’’ اگر کوئی مسیح میں ہے۔تو وہ نیا مخلوق ہے۔ پُرانی چیزیں جاتی رہیں ۔ دیکھو ۔ وہ نئی ہو گئیں ‘‘۔ صلیب کی خاصیت یہی ہے۔ جب صلیب ہم پر قبضہ جما لیتی ہے۔ تو وہ ہم پر غالب آکر ہمیں اپنے میں جذب کر لیتی ہے۔ اور دُنیا کی دوسری چیزوں سے ہمارے تعلقات منقطع کر دیتی ہے۔ صلیب ہماری زندگی کا مقصد اولیٰ بن جا تا ہے۔ دُنیا کی کوئی خارجی چیز ہم پر اثر انداز نہیں ہو سکتی ۔ وہ جو صلیب کی ماہیت کو نہیں سمجھتے وہ ہمارے لئے اجنبی ہیں۔ وہ جو صلیب پر رکیک حملے کرتےہیں۔ وہ ہمارے دشمن ہیں۔ وہ جو صلیب سے محبت کرتےہیں۔ اور ہمارے ساتھ مل کر اُس کی خوشخبری سناتے ہیں۔ حقیقت میں وہی ہمارا خاندان ہے۔

خداوند مسیح نے اپنے شاگردوں سے کہا ’’ کیا تم گمان کرتے ہو کہ میں صلیب پر صلح کرانے آیا ہوں ۔میں تم سےکہتا ہوں کہ نہیں بلکہ جدائی کرانے ۔ کیونکہ اب سے ایک گھر کے پانچ آدمی آپس میں مخالفت رکھیں گے ۔ دو سے تین اور تین سے دو ۔ باپ بیٹے سے مخالفت رکھے گا ۔ اور بیٹا باپ سے ۔ ماں بیٹی اور بیٹی ما ں سے ۔ ساس بہو سے اور بہو سا س سے‘‘ ( لو قا ۱۲ :۵۱۔۵۳ ) ۔ خُداوند مسیح سے زیادہ کو ئی جُدائی پیدا کر نے والا نہیں ہے۔ وُہ ہے وہ رشتہ داروں کو کس طرح ایک دوسرے سے جد ا کر دیتا ہے۔ وہ ’’ صلح کرانے نہیں بلکہ تلوار چلوانے آیا ‘‘ ( متی ۱۰: ۳۴) ۔ اُس کی صلیب زمین کے تمام محبوب رشتوں کو توڑ دیتی ہے۔ ہمارے گہرے تعلقات کو ختم کر دیتی ہے۔ ہمیں اپنی ذات کے لئے فولا د کا دل عطا کر تی ہے۔ مگر دوسروں کے لئے بڑا نرم و نازک دل دیتی ہے۔ ایمان میں کرنتھی مسیحی پولس کے بچے تھے۔ جب انہوں نے پولس پر الزام لگایا کہ اب وہ اُن سے محبت نہیں کرتا تو رسول نے اُن سے کہا ’’ ہم کو اپنے دل میں جگہ دو ۔ ہم نے کسی سے بے انصافی نہیں کی۔ کسی کو نہیں بگاڑا ۔ کسی سے دغا نہیں کیا ۔ میں تمہیں مجرم ٹھہرانے کے لئے یہ نہیں کہتا کیونکہ پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ تم ہمارے دِلو ں میں ایسے بس گئے ہو کہ ہم تم ایک ساتھ مریں اور جئیں ‘‘ (۲۔ کرنتھیوں ۷: ۲۔۳ )۔ غور کیجئے کہ پولس رسول ’’ جسم کے خلاف ‘‘ بات کر تا ہے۔ ۔پیار کرنے والے والدین فطرتا ً یہ چاہتے ہیں۔ کہ اُن کے بچے اُن کے نزدیک ہی رہیں۔ اُن کا مرنا اور جینا ایک ساتھ ہو ۔ لیکن پولس نے اپنے کرنتھی بچوں سےکہا ’’پس ہم کسی کو جسم کی حیثیت سے نہ پہچا نیں گے ۔ اس کے بعد وہ یہ دلیل پیش کرتا ہے۔


’’جب ایک سب کے واسطے مُوا تو سب مر گئے‘‘ ( ۲ ۔کرنتھیوں ۵: ۱۴ ) ۔ پولُس کرنتھی بچوں کو اپنے دل میں اس لئے نہیں رکھتا کہ وہ اُن کے ساتھ جئے اور مرے بلکہ میرے اور جئے ۔ وہ اُنہیں خداوند مسیح کا ہونے کی حیثیت سے پہچا نتا ہے۔ اور اگر وہ مسیح یسوع کے ہیں تو وہ مصلوب ہو کر جی اُٹھے ہیں۔ اور اب نئے مخلوق ہیں۔ پولس کرنتھیوں سے محبت کرتا ہے۔ لیکن جسم کی ’’حیثیت سےنہیں ‘‘ وہ اُن سے صلیب کی حیثیت سے محبت کر تا ہے۔ وہ’’ کسی کو جسم کی حیثیت سے نہیں پہچانتا ‘‘ ۔ کوئی مسیحی والدین صلیب کے ان اُصولوں پر عمل نہیں کرتے ۔ ہم ہمیشہ اچھے مسیحٰ گھروں کا خیال کرتے رہتے ہیں۔ والدین اپنےبچوں کی محبت میں ایسے مستغرق (ڈوبے) ہوتےہیں۔ کہ وہ یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ اُن کے بچے صلیبی شعار (راہ)اختیار کر یں ۔ وہ اُنہیں یہ دُکھ بھرا راستہ اختیار کرنے سے روکتے ہیں۔ مسیحی نوجوان اکثر اوقات مسیح کی خاطر دُنیا کی سرحدوں تک پہنچنا چاہتے ہیں ۔ لیکن اُن کے والدین ایسا قدم اُٹھانے سے روکتے ہیں ۔ ’’ کبھی کسی نے اپنے جسم سے دشمنی نہیں کی ‘‘۔ لیکن مسیح کے شاگرد ہونے کا سب سے پہلا اصول یہی ہے ۔ کہ انسان جسم سے نفرت کرے ۔ خدا وند مسیح نےفرمایا ’’ اگر کوئی میرے پاس آئے اور اپنے باپ اور ماں اور بیوی اور بچو ں اور بھائیوں اور بہنوں بلکہ اپنی جان سے بھی دشمنی نہ کرے تو میرا شاگرد نہیں ہو سکتا ‘‘ ( لوقا ۱۴: ۲۶) ۔ خون ضرور جوش مارتا ہے۔ مسیحی والدین جنہو ں نے اپنی زندگی کو اُس کو خاطر مخصوص اور تقدیس کرنے میں اپنے انتہائی خلوص کا ثبوت دیا ہے اور جو دل سے مسیح کے پیرو کار اور اُس کی خاطر دُکھ اُٹھانے کے لئے ہر وقت تیار نظر آتےہیں۔ وہ بھی اس بات کے امتحان میں پورے نہیں اُترتے ۔ اُن کے جسمانی جذبات شاید غیر شعوری طور پر انہیں مسیح کی صلیب کا دشمن بنا دیتے ہیں۔ صلیب بیٹے یا بیٹی پر اپنا حق جماتی ہے۔ اور ما ں چلا اُٹھتی ہے۔ خدا نہ کرے ۔ یہ تجھ پر ہر گز نہیں آنے کا ۔ اپنے آپ پر رحم کر ۔ اپنے آپ کو بچا ۔ صلیب سے نیچے اُتر آ اور ہمیں اور اپنے آپ کو بچا ۔ وہ نوجوان کتنا خوش نصیب ہےجو ایسے خوفناک لمحے میں سانپ یعنی شیطان کے بہکانے میں نہ آئے اور یہ کہہ سکے۔ ’’اے شیطان ۔ میر ے سامنے سے دُور ہو تو میرے لئے ٹھو کر کا باعث ہے۔ کیونکہ تو خد ا کی باتوں کا نہیں بلکہ آدمیوں کی باتوں کا خیال رکھتا ہے ‘‘( متی ۱۶: ۲۳)۔

ہمیں ایک نوجوان مسیحی خاتو ں کے متعلق معلوم ہے جو چین میں مشنری خدمت پر مامُور تھی۔ اس کی ماں نے اُس سے کہا ’’۔ اگر چین میں مسیح کی خدمت کے لئے جاؤ ں گی تو میری لاش پر سے گزر کر جا سکو ں گی ‘‘۔ اور اُس نے ایسا ہی کیا ۔ اس مشنری خاتون کی ماں نے بستر ِمرگ پر یہ اعتراف کیا۔’’ میری بیٹی راہ راست پر ہے مَیں غلطی پر ہوں‘‘۔ اپنے بستر ِمر گ پر الہٰی احکام کے سامنے بڑے ہی افسوس کی بات ہے۔ ماں نے رحلت فرمائی اور بیٹی چین روانہ ہو گی ۔

چاندی کو پاک و صاف کرنے والا اُس ماں کے بستر ِ مرگ کی کُٹھالی کے قریب بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے اس کے حرص وہوا کی تمام میل کچیل سے اُسے صاف کر دیا ۔ اب وہ ماں مزا حمت کرنے سے رہی۔ یعنی وہ پنی نیند سو گئی ۔ اب وہ ایسی حالت میں تھی کہ اپنی بیٹی کی چین کی طرف بلا ہٹ کا انکا ر نہیں کر سکتی تھی۔ ایسے والدین کے بارے میں ایمی کار میخیل نے کہا او ر اس نے مندرجہ ذیل اشعار میں یہ خیال بیا ن کیاہے۔


خداوند ! میری امداد کر فریا د کر تا ہوں

تیرے ذکر مبارک سے مَیں دل کو شاد کر تا ہو ں

صلیبی ذلتیں سہہ کر میں تاج زندگی لے لُوں

ضرور ہو تو تیری راہ میں جان تک دے دُوں

ایک اور خاتون کو ہندوستان جانے کی بلاہٹ ہوئی۔ اس کی ماں نجات یافتہ مسیحی نہ تھی۔ اور اس لئے وہ گھر کے کام کاج میں اُس کی مدد کی محتاج تھی۔ لیکن خُداکی بلا ہٹ کو مقدم رکھنا چاہیے تھا۔ کیونکہ خدا کی بلا ہٹ بر حق ہوتی ہے۔ اس خاتون کےمسیحی دوستوں نے اُسے جسم کے مطابق مشور ہ دیا اور کہا کہ اگر وہ حقیقی مسیحی ہے۔ تو اُسے گھر میں رہ کر اپنی ماں کی خدمت کر نی چاہیے ۔ اُس خاتون نے اپنے دوستوں کے مشور ہ کو ترجیح دی۔ آخر کار وہ مر گئی یعنی وہ اپنے دوستو ں اور ننگ و ناموس (عزت) کے اعتبار سے مر گئی ۔ دوستوں نے اسے ظالم اور محبت نہ کرنے والوں میں شمار کیا ۔ وہ خطا کاروں میں گنی گئی۔ اس نے موت کا راستہ اختیار کیا لیکن مسیح مصلوب کے حکم کے مطابق وہ ہندوستان روانہ ہوئی ۔اس کی ماں ابھی تک صلیب کی دوسری طرف تھی۔ وہ اپنے گناہوں میں مردہ تھی۔ کلوری ما ں اور بیٹی کے درمیان آن وارد ہوئی۔ لیکن یہ خدا کا حکم ہے۔ کلوری نہ ہی صر ف جدائی پیدا کر تی ہے۔ بلکہ یہ انسانوں کو اپنی طرف بھی کھینچتی ہے۔ اس ماں نے مسیح کو صلیب پر دیکھا ۔ کلوری کے متعلق خداوند یسوع نے کہا اور میں اگر زمین سے اونچے پر چڑھا یا جاؤں گا ۔ تو سب کو اپنے پاس کھینچوں گا ۔ عملی صورت میں خداوند مسیح اُس بیٹی میں اونچے پر چڑھا یا گیا اور پھر اس ماں میں بھی اونچے پر چڑھا یا گیا ۔ پولس رسول کہتا ہے۔

’’تمہاری تو گویا آنکھوں کے سامنے یسوع مسیح صلیب پر دکھا یا گیا‘‘۔ اس ماں نے مسیح مصلوب کو دیکھا کیونکہ اس کی بیٹی کے ساتھ مصلوب ہو چکی تھی۔ بیٹی کے دِل میں ماں کی یاد تھی۔ اس لئے نہیں کہ وہ ایک ساتھ جئیں اور مریں بلکہ اس لئے کہ وہ ’’ مریں اور جئیں‘‘ ۔ خدا اُن لوگوں کو عزت دیتا ہے جو اس کی عزت کی خاطر مرتے ہیں۔ کچھ عرصہ کے بعد یہ مشنری خاتون اپنی پہلی رُخصت پر اپنے گھر واپس آئی ۔ اور اس نے اپنی ماں کو مسیحی بنا لیا ۔ اس کی ماں مسیح میں ابدی نیند سو گئی۔ بیٹی نے اُسے دفن کیا اور خدا کی مرضی سے پھر ہندوستان آگئی۔

ایک اور قصہ سنیئے ۔ ایک مسرف بیٹا اپنی من مانی کرنے پر تُلا ہوا تھا۔ اس کی ماں بڑی دُعا گو عورت تھی۔ بیٹے نے اپنی ماں کی دُعاؤں سے یہ اطمینان حاصل کیا کہ وہ اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے دُور دراز نہیں جا سکتا تھا۔ آخر کار ماں نے معلوم کیا کہ اُس کی دُعاؤں میں ایک خطر ناک خامی ہے۔ اس ماں کے جذبات اپنے بیٹے کو شریروں کی راہ پر چلنے سے بچا سکیں گے۔ لیکن یہ بڑی مشکل بات ہے۔ اس کی صلیب کی روح سے مشابہت نہ تھی۔ آخر کار اس نے اپنے بیٹے کو اپنے د ل میں ایسے جگہ دی کہ وہ ایک ساتھ مریں اور جئیں ۔ ماں نے اپنے بیٹے کو متنبہ کر دیا ۔ میرے بیٹے ! میں اب یہ دعا نہیں کر تی کہ خدا تمہیں مصائب سے محفوظ رکھے بلکہ یہ دُعا کرتی ہوں۔ کہ وہ تمہیں مُردہ یا زندہ اپنا بنا لے۔ مسٹر آسو لڈ چمیبرز نے کہا ہے۔ ’’جب کبھی ہم دوسرے کی طرف اپنی ہمدردی کا اظہار نہیں کرتے اور خدا کی محبت کی ہم میں مشابہت پیدا نہیں ہوتی تو خدا کے ساتھ ہمارا کوئی رشتہ نہیں رہتا ۔

ہم نے دوسروں کے لئے اپنی ہمدردی اور پیار کوپس پشت ڈال دیاہے ۔ اور یہ صریحاً (صاف)خدا کو لعن طعن کر نا ہے ۔ آج کل وہ بیٹا افریقہ میں مشنری ہے۔ اُسے اپنی ماں کی دُعاؤں سے ڈر لگتا تھا۔ کیا میں یہ کہہ سکتا ہوں۔ کہ ماں اپنے جسم کے تعلقات کی بنا پر مر گئی ‘‘؟ اُس کے بیٹے نےصلیب کی مُردوں میں سے جی اُٹھتے ، زندگی اور منادی تک پیروی کی ۔

سکاٹ لینڈ میں فرقہ متعہد بن کے پیرو تھے۔ اُن کے عقائد میں ابھی تک کمزوری واقع نہیں ہوئی تھی۔ جان ناکس کی معزز بیٹی جین ویلش کو جیل کے ارباب اختیار نے کہا کہ اگر جاؔن ویلش پر و ٹسٹنٹ مذہب کو ترک کر د ے تو اُس کے خاوند مسٹر جان ویلش کو آزاد کر دیا جائے گا۔ ۔۔۔۔ لیکن جیؔن ویلش نے بڑی دلجمعی سے کہا ، حضور والا ! میں یہ پسند کر و ں گی ۔ کہ اس کا سر قلم کر دیا جائے ۔ آج کل کے زمانہ میں جؔین ویلش کے جذبات و احساسات کو غیر روا دا رانہ ، اداعائی ، اور بے مرو تانہ کہا جائے گا۔ لیکن سچ تو یہ ہے ۔ کہ وہ خدا کو پیار کرتی تھی۔ اور اپنے خاوند سے اپنی مانند محبت کرتی تھی۔ اپنے خاوند کی قید کی وجہ سے ایمان کے سبب اُسے بڑی بڑی مصیبتوں کا سامنا کر نا پڑا ۔ لیکن ابھی تک اس کے دل میں یہ خیال موجود تھا۔ کہ اُسے اس کے ساتھ مر نا اور جینا ہے۔

صلیب سے زیادہ کوئی اور چیز اتنی خوفناک اور انقلاب انگیز نہیں ہے۔ ہمارے لئے او ر ہمارے رشتہ داروں کے لئے صلیب فتح کا مقام ہے ۔ ہم مرتے ہوؤں کی مانند ہیں۔ مگر دیکھو جیتے ہیں۔



باب چہار دہم

صلیب اور خدا کی مرضی

مجھے ایک ننھی سی بچی کا خیال آرہا ہے۔ اس کا نام میؔموسا تھا ۔ اُس نے ایک مرتبہ قادر مطلق خالق خدا کے متعلق ایک وعظ سنا چونکہ وقت قلیل تھا۔ لہٰذا اُسے کفارہ کے ذریعہ خدا کی محبت کے ظہورکے بارے میں زیادہ کچھ نہ بتا یا گیا۔ اُس کا باپ ظالم تھا۔ وہ ایک مشن سکول میں زیرِ تعلیم تھی ۔ اس کے باپ کوڈرتھا ۔ کہ کہیں اس کی یہ بچی بھی اپنی بہن سٹاؔر کی طرح نہ ہو جائے ۔ لہذا وہ اُسے سکو ل سے اپنے گھر لے گیا۔ پورے بائیس (۲۲) سال تک اس نے کسی مشنری کی صورت تک نہ دیکھی ۔ کیا اُس ننھی بچی سے صغر سنی(بچپن) کے عالم میں سُنے ہوئے خوشخبری کے پیغام سے زیادہ کسی چیز کی تو قع کی جا سکتی تھی؟ لیکن یہ قدرت کا اعجاز ہے کہ اُس کی روح پر کلام ِ مقدس کا غلبہ ہو چکا تھا۔ جب وہ گھر پہنچی تو اُس پر مصائب کےپہاڑ ٹو ٹ پڑے ۔ اُسے فریب دیا گیا ۔ آخر کار اُس کی شادی ہوئی لیکن یہ شادی خانہ آبادی کا باعث نہ ہوئی ۔ بلکہ خانہ بربادی کا موجب بن گئی۔ اپنے خاوند کا قرض چکا نے کی غرض سے اُس کو غلاموں کی طرح کھیتوں میں کام کرنا پڑا ۔ آخر کار وہ اس زندگی سے اُکتا گئی ۔ اُس نے اُس سے فریاد کی جس کے متعلق اُس نے اپنے بچپن کے زمانہ میں سنا تھا۔ اس نے کہا ’’ اے خداوند ! میرے خاوند نے اور میرے دیور نے مجھے فریب دیا ہے۔ یہاں تک کہ میری ما ں نے بھی مجھ سے دغا کیا ہے ۔ لیکن تو مجھے فریب نہیں دے گا ‘‘۔ پھر تھوڑےسے تو قف کے بعد اُس نے آسمان کی طرف اپنی آنکھیں اُٹھائیں اور اپنے ہاتھ پھیلا کر کہنے لگی ۔’’ ہاں سب نے مجھے فریب دیا ہے۔ لیکن میں نے تیرے نام کی تکفیر نہیں کی ۔ جو کچھ تو کر ے گا۔ وہی بہتر ہو گا‘‘۔ اُس کی تربیت اچھی طرح سے نہیں ہوئی تھی۔ وہ دعا کرنے کے عام اُصولوں سے ناواقف تھی ۔ تھوڑے عرصہ کے بعد اس کے بت پرست بھائی نے اُس کی بر ملا (سرعام) بے عزتی کی۔ ہندوستانی نقطہ نگاہ سے یہ زلت آمیز سلوک ناقابل ِفراموش اور ناقابل معافی تھا۔ یہ توہین ایسی خوفناک تھی کہ اس کی نظیر ناممکن ہے۔ اس واقعہ سے چند د ن پیشتر ایک نیم گرم اور نیم سر دمسیحی نے اسے وعظ و نصیحت کی۔ اس نے کچھ اس طرح سے کہا ’’ ہر ایک بات میں وہ عجیب طرح سے تمہاری رہنمائی کر ے گا‘‘۔ کیایہ ممکن ہو سکتا تھا۔ کہ وہ اُسی نفرت انگیز اور ہتک آمیز سلوک کو برداشت کرے اور اُسی گھر میں زندگی کے دن گزارتی رہے۔ جب اُس نے اس معاملہ پر غور کیا تو شرم و حیا کی سُرخی اُس کے چہرے پر دوڑ گئی۔ اُس کے اپنے بھائی کے گھر میں ہی اُس کی بےعزتی ہوئی تھی۔ لیکن ذات الہٰی نے میمؔوسا کی حوصلہ افزائی کی۔ اُس نے اپنے بھائی کو معاف کر دیا ۔ وہ اسی چھت تلے زندگی کی گھڑیاں گزارتی رہی ۔اُس نے سمجھا کہ یہ سب کچھ اوپر سے ہے۔ وہ سمجھتی تھی کہ جو کچھ وہ کرتا ہے بہتر ہے۔

ایمی کار میؔخیل نے ایک نظم میں بیان کیا ہے کہ کس طرح سے ہم اپنے غموں کو برداشت کرتے ہیں۔ سب سے پہلا غم سے نجات حاصل کرنے کا قدرتی طریقہ یہ ہے۔ کہ ہم اُسے بھولنے کی کوشش کریں۔


نئی دُنیا بساؤ ں گا میں سب کچھ بھول جاؤں گا
کسی نےکب وفا کی ہے؟ عزیزوں نے دغادی ہے
میرا ویران گلشن ہے میرا دل غم کا مسکن ہے
علاج غم نہیں لیکن
خیال غم بھلانے میں

جب غم کو ’’ بھول جانا ‘‘ غم کا علا ج نہیں ہوتا اور ہمیں کسی طرح سے چین نہیں ملتا تو ہم شبانہ روز انواع و اقسام کے کاموں میں منہمک (کسی کام میں بہت مصروف) رہتے ہیں تا کہ غم کا مداوا ہو سکے۔

عمل تا بندگی میری عمل ہے زندگی میری
میری بگڑی سنورتی ہے عمل کی شمع جلتی ہے
جہاں میں آبرُو ہو گی جوانی سُر خرُو ہوگی
علاج غم نہیں لیکن
غم محنت اُٹھانے میں

اور جب یہ حربہ (طریقہ) بھی کار گر نہیں ہوتا تو ہم اس کے برعکس قدم اُٹھاتے ہیں۔ ( اس معاملہ میں دُنیاوی حکمت ہمارے کام آتی ہے) ۔ ہم گوشہ تنہائی میں بیٹھ کر دُنیا کے ہنگاموں سے بالکل بے نیاز ہوجاتے ہیں۔

میری اس پیش بینی سے میری گوشہ نشینی سے
ہوئے آرام کے ساماں ملا ہے درد کا درماں
بلا وقف پریشانی تمنا نقش حیرانی
علاج غم نہیں لیکن
جہاں کا غم نہ کھانے میں

اس کے بعد چارہ کار یہ ہے کہ انسان یوں کہہ دے’’ میں گرفتار بلا ہوں لیکن میں نا گز یر حالات کے سامنے سر تسلیم خم کرتا ہوں‘‘۔ طوعا و کر ہا ً(خواہ مخواہ،جبراً) یہ تلخ جام نوش کر نا پڑتا ہے۔

رہا نہ بیش و کم میرا سر تسلیم خم میرا
کہا ں وہ محفل یاراں کہاں ہیں عیش کے ساماں
گناہ میں مُردہ ہوں یا ر ب ہزیمیت خوردہ ہو ں یا رب
علا ج غم نہیں لیکن
یونہی سر کو جھکا نے میں

اور آخر کار یہ ہوتا ہے کہ تمام جسمانی چارہ سازیاں ناکا م ثابت ہوتی ہیں۔ جسم کے تمام تقاضے مر جاتے ہیں ۔ اور ہم کہتےہیں’’ میں خدا کی مرضی کے سامنے سر نیاز جھکا تاہوں ۔ اُس کی مرضی اعلیٰ ،مکمل اور قابل قبول ہے ۔ اُس کی مرضی میں ہی میرا نفع ہے۔

میں راضی بر رضا ہوں گا الم سے آشنا ہوں گا
نہ غم مجھ کو ستائے گا خدا مجھ کو سکھائے گا
رہے درد زباں ہر دم رہوں گا شادماں ہر دم
علاج غم ہوا لیکن
تجھے اپنا بنانے میں

کسی آئندہ باب میں ہم یہ بتائیں گے کہ شیطان کا مقابلہ کرنے سے پیشتر خد ا کی رضا کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ضرور ی ہے ۔ بعض لوگ دُکھ بیماری یا رنج و الم کا مقابلہ کرتے ہیں۔ اُنہیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ بیماریاں اور دُکھ خدا کی طرف سے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اُن کہ تمام مصائب کا ذمہ دار شیطان ہے۔ ان لوگوں پر افسوس ہے کیونکہ اُن کو معلوم نہیں ہے کہ فتح اور امن وامان کا راستہ یہی ہے۔ اور ہم یہ سمجھ لیں کہ تمام مشکلات خدا کی طرف سے ہیں۔ یقیناً اگر وہ لوگ خدا کے لوگ ہیں تو ان مصیبت آنے سے پیشتر خدا کے بیٹے پر آتی ہے اور جب تک مصائب صریحاً شیطان کی طرف سے نہ ہوں اُن کا مقابلہ کرنا چاہیے ۔ لیکن خدا کا طریقہ یہ ہے کہ اپنے آقا خداوند مسیح کی طرح دُکھوں کو برداشت کیا جائے ۔’’ جو پیا لہ باپ نےمجھ کو دیا کیا میں اُسے نہ پیوں ‘‘؟ مِس کا ر میؔخیل کہتی ہیں:۔


’’ خونخوار شیر ببر کا کون مقابلہ کر سکتا ہے جو کسی نہ کسی کو نگلنے کے لئے گھاتے میں بیٹھا ہے۔ جب تک ہم اپنی زندگی اُس کی مرضی کے مطابق نہ ڈھال لیں ہم اُس کا مقابلہ نہیں کر سکتے ‘‘۔

اگر ہم منجی کے ساتھ یہ کہہ سکیں کہ’’ تیری مرضی پوری ہو ‘‘ ۔ تو یہ سب سے اچھی بات ہے۔ راضی برضا ہونا یعنی یہ کہنا کہ ’’ تیری مرضی پوری ہو ‘‘ نا گزیر حالات کے سامنے سر جھکا نا نہیں ہے۔ بلکہ خداوند کے ساتھ تعاون کی روح کے ذریعہ ہم یہ کہتے ہیں کہ ’’ جو کچھ تو چاہتا ہے ‘‘ وہ کر ۔

کچھ عرصہ ہوا میں ایسے مسیحی عزیز دوستوں کے ساتھ منسلک رہا جو بیماروں کےلئے ۔ ’’ تیری مرضی پوری ہو‘‘ ۔ کا محاور ہ استعمال نہیں کرتے تھے۔ اُن کا خیال تھا کہ جس طرح گناہ کے لئے کفارہ ہے اُسی طرح شفاء کے لئے بھی کفارہ ہے۔ اس لئے وہ بیمار کےلئے دُعا کرتے وقت یہ نہیں کہتے تھے۔

’’تیری مرضی پوری ہو‘‘۔ کیا شفا دنیا خدا کی مرضی نہیں ہے؟ خدا کی مرضی یہ بھی نہیں ہے کہ کوئی مر جائے ۔ اس قسم کی دُعا اعصاب اور دل پر بار گرا ں ہے۔ اس طرح کی کھینچا تا نی سے انسان پاگل ہو جاتا ہے ایک دفعہ غریب میمؔوسا بھی بیمار ہوئی۔ اس کی تربیت کچھ ایسے طریقے سے نہ ہوئی تھی۔ لیکن روح نےاُس کی تربیت کر رکھی تھی۔ اُسے تجربہ ہوا کہ اگرچہ افاقہ (فائدہ) تو نہیں ہوتا لیکن ایک قسم کا سکون میسر ہو جاتا ہے۔ اُس نے یہ بات تسلیم کر لی کہ خدا شفا ء تو بخش سکتا ہے۔ لیکن اُس کی مرضی قبول کرنےمیں ہی حقیقی سکون ملتا ہے۔ اور میمؔوسا نے معصومانہ انداز سے کہا کیا سکوں زیادہ اہم نہیں ہے ؟ ۔

ہم اکثر سو چتے ہیں کہ اگر ایوب نبی کو شیطان کے بارے میں سب کچھ معلوم ہوتا تو وہ اس تباہ کار پر فوراً فتح حاصل کر لیتا ۔ ایوب نبی کی مایوس بیوی نے جب کہا ۔ ’’خدا کی تکفیر کر اور مر جا ‘‘۔ تو ایوب نےجواب دیا ۔’’ خداوند نے دیا اور خداوند نے لیا خداوند کا نام مبارک ہو ۔ بہت سے غیر تربیت یافتہ مقدسین اس طرح سے کہیں گے ۔ خداوند نے دیا اور شیطان نے لے لیا ۔اس لئے اب میں شیطان کا مقابلہ کروں گا ۔ لیکن ایوب نے تمام مصائب کا مقابلہ کیا ۔ اس کے تمام جسم پر پھوڑے نکلے ہوئے تھے۔ لیکن اُس نے اُف تک نہ کی ۔وہ اپنےنفس کا شکار نہ ہوا ۔ اُس بزرگ نےکہا ۔ مجھے اپنے آپ سے نفر ت ہے۔ اُس نے مکمل طور پر اپنے آپ کو خدا کے حوالہ کر دیا ۔ شیطان کو نیچا دکھا نےکا اس سے بہتر کوئی اور طریقہ نہ تھا۔ شیطان نے ایوب نبی کی بار بار آزمائش کی لیکن اُسے رتی بھر بھی کامیابی نہ ہوئی بلکہ شکست ہوئی ۔ مسٹر ہدؔسن ٹیلر نے کہا ہے۔ اس لئے ہم اس نیتجے پر پہنچتے ہیں کہ ایوب نے غلطی نہیں کی اور اگر ہم بھی اُس کی تقلید کرتے ہوئے اپنے آپ کو خدا کو مرضی کے تابع کر دیں ۔ تو ہم کوئی غلطی نہیں کر یں گے ۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ سب کچھ اُس کی طرف سےہے۔ اور ہمیں اُمید ہے کہ یہ مشکلا ت ہمارے لئے بھلائی کا باعث بنیں گی ۔ کیونکہ خدا آخر خدا ہے۔ اور ہم کو معلوم ہے کہ سب چیزیں مل کر خدا سے محبت رکھنے والو ں کےلئے بھلائی پیدا کرتی ہیں۔ آیئے فیبر کا یہ گیت گائیں۔


خدا کے ساتھ کامیابی کی ضمانت ہے

خداوند کا کلام پاک سینوں میں امانت ہے

خدا وند کی رضا کے سامنے سر کو جھکا تا ہوں

اُسی کی مہربانی سے بدی پر فتح پاتا ہوں

میں گرداب بلا میں بھی اُسی کا شکر کرتا ہوں

اگر میں ڈوب جاؤں اُس کی رحمت سے اُبھر تا ہوں

رضا ہو اُس کی تو پھر ہر بُرائی میں بھلائی ہے

گنہگاروں پہ رحمت اُس کی شان کبریائی ہے

پولس رسول بڑی آسانی سےیہ دلیل پیش کر سکتا تھا کہ اُس کا قید میں پڑنا شیطان کی طرف سےہے۔ ہاں ۔ یقینا نیرو شیطان کی طرف سے تھا لیکن پولس رسول کبھی اشارہ نہیں کرتا کہ نیرو اُسے قید میں ڈالتے والا ہے۔ وہ کہتا ہے۔ پولس یسوع مسیح کا قیدی اور پولس نےنیرو کے زمانہ میں ہی لکھا تھا ۔ کوئی حکومت ایسی نہیں جو خد اکی طرف سے نہ ہو۔ اس سے ہمیں سموائیل رتھرفورڈ کی کہانی یاد آتی ہےجس نے خوشی خوشی تمام دُکھو ں کو برداشت کیا اور اُس نے کہا میں بہت جلدی ایبر ڈین میں بادشاہ کے محل میں پہنچ جاؤں گا ۔ ایبرڈؔین میں اُسے قید میں ڈال دیا کیا۔ اُس نے قید خانہ سے ایک دوست کو خط لکھا ۔ خدا میرے ساتھ ہے اس لئے مجھے کسی آدمی سے کچھ ڈر نہیں ہے۔ کوئی شخص مجھ سے زیادہ خوشحال نہیں ہے۔ میری زنجیریں بھو سونے کی ہیں۔ قلم اور الفاظ سے مسیح خداوند کی خوبصورتی کو بیان نہیں کیا جا سکتا ۔ وہ شخص جس نے اپنا سب کچھ خدا کے ہاتھ میں دے دیا ہو اس کے ساتھ شیطان کیا کر سکتا ہے؟ یقینا ً وہ اُس کے ساتھ وہی سلوک کرے گا ۔ جیسے کوئی دہکتے ہوئےانگارے کو پھینک دیتاہے۔ دشمن پر فتح پانے کا یہی الہٰی طریقہ ہے کہ خدا وند مسیح خداوند وں کے خداوند کی مرضی کے سامنے سر تسلیم خم کیا جائے ۔

اس قسم کی تمام چیزوں پر فتح حاصل کرنے کےلئے مجھے اپنا سب کچھ اپنے مالک خداوند مسیح کے ہاتھ میں سونپ دینا چاہیے ۔ میرے کان اُس کا آواز کی طرف لگے رہیں ۔ میں یہ کہوں گا ۔ پر اگر وہ غلام صاف کہہ دے کہ میں اپنے آ قا سے اور اپنی بیوی اور بچو ں سے محبت رکھتا ہوں۔ میں آزاد ہو کر نہیں جاؤں گا۔ حقیقی تقدیس امتحان میں پوری اُترتی ہے ۔

قرون وسطی کی عارف میڈم گائی آن نے یوں کہا ہے۔ جب تک کوئی شخص مکمل طور پر اپنے آپ کی خداوند کےلئے تقدیس نہیں کر دیتا وہ خدا کا نہیں ہو سکتا ، اور دُکھ اُٹھانے کے بغیر کسی شخص کی تقدیس کا علم نہیں ہو سکتا ۔ دُکھ اُٹھانا ہی تقدیس کا امتحا ن ہے ۔ خدا کی مرضی میں خوش رہنا ( جب یہ مرضی خوشی عطا فرماتی ہے ) ہر آدمی کے لئے آسان ہے لیکن صرف وہی شخص جو نئی پیدائش حاصل کر چکا ہے۔ اُس کی رضا جوئی میں خوش رہ سکتا ہے۔ کبھی کبھی خدا کی مرضی پر چلنے سے مایوسی اور غم کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس لئے آزمائش سے گھبرانا نہیں چاہیے ۔ ان آزمائشوں کا خیر مقدس کرنا چاہیے کیونکہ ہماری تقدیس کا یہی سچا امتحان ہے۔ میرے عزیز دوستو! ایسی خوشیاں ہیں جو چند روزہ ہیں لیکن اُس مرضی پر عمل کرنے اور صلیب سے محبت کرنے میں ہی حقیقی خوشی نصیب ہو سکتی ہے۔ وہ شخص جو صلیب کا خیر مقدم نہیں کر تا خدا کا مقدم نہیں کر تا ۔


یہ محاورہ وہ شخص جو صلیب کا خیر مقدم نہیں کرتا خداکا خیر مقدم نہیں کرتا ۔ ہمیں خداوند مسیح کے دُکھوں کے راز سے آگاہ کرتا ہے۔ جب آدم شہنشا ہ دوسرا سے باغی ہو کر اپنی مرضی کے تابع فرمان ہوا تو خدا نے اُس کی نجات کےلئے مرد غمناک کو پیش کر دیا تا کہ وہ مارا کوٹا اُس گناہوں کی تباہی سے بچائے ۔ گناہ کیا ہے؟ اپنے نفس کو اپنے جسم میں اعلیٰ طاقت سے سر فراز کرنا گناہ ہے، اور نفسانی خواہشات حکمران رہتی ہیں ۔ حتیٰ کہ اُن سے ایک زبردست طاقت اس تخت پر جلوہ فگن ہوتی ہے۔ جسے اُس نے غصب کر رکھا ہے۔ ایک آدمی نے کہا ہے۔ اگر خداوند مسیح مجھے اپنا وزیر اعظم بنا لے تو میں اُسے بادشاہ بنا نے کے لئ تیار ہوں ۔ لیکن جسم کی خواہش اپنی فطرت میں لا تبدیلی قانون ہے۔یہ اپنے آپ کو تباہ کرنےوالی ہے۔ کلؔیرواکس کے برناؔ رڈ نے کہا ہے۔ کہ وہ شخص جو خدا کی مرضی کے تابع فرمان نہیں ہے ۔ وہ اپنے جسم کے ماتحت ہے اور اُس پر سزاکا حکم رہتا ہے۔ اور وہ آدمی جو محبت کے ملائم اور ہلکے جوئے کو اُتار پھینکتا ہے۔ وہ جسم کی مرضی کے نا قابل برداشت بوجھ کو اُٹھاتا ہے۔

جب قادرِ مطلق کوتخت سے اُتار دیا گیا ۔ اورجسم کی خواہشات کو تخت پر بٹھا دیا گیا ۔ توخدا نے نئے آدم سے کام شروع کیا تا کہ وہ ایک نئی نسل کا نیا سردار ہو ۔ آدم ثانی پہلے آدم کے کا موں کو تباہ کرنےاور سانپ کے سر کو کچلنے کے لئے آیا ۔کیا پہلے آدم نے اپنے آپ کو سر بلند کیا ؟ آخر ی آدم نے اپنے آپ کو خالی کر دیا۔ کیا غرور اور تکبر نے خدا کو پہلے آدم کے دل سے نکال دیا ؟ خداوند مسیح نے اپنی جائے پیدائش کےلئے کسی سلیمان کے محل کو نہیں بلکہ ایک اصطبل کو چن لیا۔ ناصرت کا حقیر گاؤں اُس کی زمینی زندگی کے لئے منتخب ہوا۔ کیا پہلے آدم کی اُس بہشت میں آزمائش ہوئی جس میں سب نعمتیں میسر تھیں۔ اور انکار کی ضرورت نہ تھی؟ آخری آدم نے تمام باتوں میں اپنے بھائیوں کی طرح بیابان میں آزمایا جانا پسند کیا ۔ وہ چالیس دن اور رات بیابان میں رہا۔ اس بیابان میں جنگی درندے عام تھے۔ چالیس (۴۰)دن تک اُس نے کچھ کھایا نہ پیا ۔ اور آزمانے والے نے پاس آکر اُس سے کہا۔ خداوند مسیح کی ساری زندگی خود انکاری کی زندگی تھی۔ اُس کے پاس سرد ھرنے کو بھی جگہ نہ تھی ۔ اگرچہ وہ بیٹا تھا لیکن اس نے دُکھ اُٹھا کر فر مانبرداری سیکھی ۔ آخر کار تین مرتبہ یہ کہنے کے بعد کہ میری مرضی نہیں بلکہ تیری مرضی پوری ہو۔ اُس نے صلیبی موت گوارا کی۔ اُس کی زندگی مکمل طورپر خود انکاری کی زندگی تھی۔ لیکن کسی آدمی نے اس سے اُس کی زندگی نہ چھینی ۔ وہ خود بخود اس سزا کو برداشت کرنا چاہتا تھا۔ وہ اس بات پر رضا مند تھا کہ اُس کے منہ پر تھو کا جائے۔ وہ ٹھٹھوں میں اُڑائے جانے کے لئے تیار تھا۔ وہ اس بات پر رضا مند تھا ۔ کہ اُسے بدکاروں میں شمار کیا جائے ۔وہ اُس بات کے لئے تیار تھا۔ کہ بڑی ذلت کے ساتھ ٹھٹھوں میں اُڑانے والی بھیڑ کے سامنے صلیب کا دُکھ اُٹھائے ۔ دیکھو ! خدا کا برّہ جو جہان کے گناہ اُٹھا کر لے جاتا ہے ۔ ( یوحنا ۱: ۲۹) ۔ کیا وہ دوسروں کو بچانے کے لئے آیا تھا۔ وہ اپنے آپ کو بچا نہ سکا۔ ( وہ بچا نا نہیں چاہتا تھا۔ اُس کے دوستوں نے اُسے چھوڑ دیا ۔ اُس کے دشمنوں نے اس کی بے عزتی کی۔ ہم نے اُس کی نافرمانی کی لیکن وہ موت تک وفادار رہا ۔ وہ رضا مند تھا۔ آخر ی آدم اپنی مرضی کرنے والے پہلے کے کاموں کو برباد کرنے والا تھا۔ اور یہ ابدی سچائی ہے۔ کہ وہ جو صلیب کا خیر مقدم نہیں کر تا وہ خدا کا خیر مقدس نہیں کر تا ۔


میرے واسطے مار کھائی ہے اُس نے صلیبی ذلت اُٹھائی ہے اُس نے
جو بگڑی ہوئی تھی بنائی ہے اُس نے میں علم و عرفاں پلا ئی ہے اُس نے
فدائے رضا ئے خدا ہے مسیحا
بلا ریب راہ ہدی ہے مسیحا
ہماری شفاعت کا ساماں ہوا ہے کوہ کلوری پر وہ قرباں ہو ا ہے
اندھیرے گھرو ں میں چراغان ہوا ہے وہی درد عصیاں کا درماں ہو ا ہے
اُسی نے مصیبت کا سر کہ پیا ہے اُسی نے گناہوں کا فدیہ دیا ہے

باب پانز دہم

صلیب اور خدا کی مرضی

( گذشتہ سےپیوستہ )

خدا کی فرما نبرداری اور دُکھ اُٹھا نا دونوں نفس کے خلاف ہیں۔ ہر ایک انسان اپنے آپ سے زیادہ کسی چیز کو پیار نہیں کرتا ۔ ہر ایک انسان اپنی من مانی کرنا چاہتا ہے۔ وہ خوش و خرم رہنے کا متمنی ہے۔ جہاں نفس زندہ ہے ۔وہاں دُکھ ہمیشہ انسان کے درپے آزار رہتا ہے۔ ان حالات میں نفس بغاوت پر اُتر آتا ہے۔ اور حکم ماننے سے انکار رتا ہے۔ جسم یا نفس دُکھوں سے نفرت کرتا ہے۔ اس لئے وہ اپنی مرضی کو کلی طور پر اپنے تابع رکھتا ہے۔ اس چیز سے اس امر کی وضاحت ہوتی ہے۔ کہ اگر چہ خداوند بے گناہ اور معصوم تھا پھر بھی اُس نے دکھ اُٹھا اُٹھا کر فر ما نبرداری سیکھی ۔گناہوں سے نجات دلا نے والا بننے کی غرض سے خداوند مسیح نے خو د انکاری اور سخت آزمائش کے ذریعہ خد اکی مرضی کو افضل تریں مقام دینا سیکھا ۔ اس نے ذلت اُٹھائی یہاں تک کہ صلیبی موت تک گوارا کی ۔ا نتہائی دُکھ اور درد میں اس کی فرما داری کی انتہا نہ تھی ۔

جب میؔموسا اپنی بہن سٹاؔ ر سے مشن اسکو ل میں ملی تو اس کو پڑھنا لکھنا نہیں آتا تھا۔ اُس نے بڑے ادب سے بائبل مقدس اور دوسری کتابوں کو دیکھا اور کہا ’’تم مطالعہ کرنے سے خدا کو جانتی ہو لیکن میں د’کھ اُٹھانے سے اُسے جانتی ہوں‘‘۔

گناہ کی خرابی اور تباہ کاری کی وجہ یہ ہے کہ انسان نے خدا کی مرضی کو چھوڑ کر اپنی مرضی پوری کرنی چاہی ۔ انڈریو مؔرے کہتا ہے کہ ’’ خداوند مسیح کے مخلصی دلانے میں نہ کوئی دلیل ہے۔ اور نہ ہی کوئی مقصد اور کا میابی کا امکان ہے۔


سوائے اس کےکہ یہ انسان کو خدا کی مرضی پر عمل کرنےکی طرف راغب کرتی ہے۔ خداوند مسیح اسی واسطے مُوا تھا۔ اُس نے اپنی مرضی کو خدا کے سپر د کر دیا ۔ اُس نے اپنی جان دینا گوارا کیا لیکن اپنی مرضی نہ کی ‘‘ ۔ جب آخر کار خداوند مسیح نے سر جھکا کر جان دے دی تو ایک چیز تھی جسے دُکھ ، مصیبت اور موت اس چھین نہیں سکتے تھے۔ یہ خدا کی مرضی کے لئے محبت تھی۔ وہ خدا کی مرضی کو پور ا کرتا ہوا مر گیا ۔ آپ اس خیال پر غور کریں کہ صرف خدا کی مرضی ہی باقی رہی ۔ لیکن خدا کا شکر ہے کہ اُس کی مرضی ہی باقی رہی۔ ’’جو خدا کی مرضی پر چلتا ہے۔ وہ ابد تک قائم رہے گا ‘‘۔ خداوند یسوع نے انسان ہونے کی حیثیت سے ابدی زندگی کا انعام حاصل کیا ۔ اُس کے پاک نام کی ستائش ابد الا ٓباد تک ہو تی رہے۔ زمانہ گزرتا جا رہا ہے۔ اُسے گزرنے دو ۔’’ پر تو اے خداوند ! ابد تک قائم ہے‘‘۔

کیا اس کتاب کےپڑھنے والے نے غور کیا ہے۔ کہ جب خداوند مسیح اس دُنیا میں تھا ۔ تو وہ متواتر انسان کا ناممکن باتوں سے سامنا کراتا رہتا تھا۔ اس نے آدمیوں کے سامنے ایسے احکام پیش کئے جو جسم اور انسانی عقل و فہم کے بالکل خلاف تھے۔ اُن پر عمل کرنے سے جسمانی نیت سے بے انصافی ہوتی ہے۔ اور جسم کی خواہشات سے نا شکر گزاری کا اظہار ہوتا ہے۔ یہ مطالبہ کرنا کتنا فطرت انسانی کے خلاف ہے کہ انسانی فطرت اپنےدشمنوں سے پیار کرے ۔ اپنا دُوسرا گال بھی پھیر دے۔ دُکھوں سے لعن طعن اور صلیبی موت سے اور اسی قسم کی ناممکن چیزوں سے خوش نظر آئے۔ اور ان باتوں سے سوائے اس کے اور کیا ضرورت تھی کہ انسان اپنے آپ کا ، خدا کا اور اس کے فضل کا سامنا کریں تا کہ وہ ناممکن کوسر انجام دے سکیں ۔ منجی انسانی مرضی کے قلعہ پر حملہ کر رہا تھا۔ اس لئے وہ اس مرضی کو رد کرنا چاہتا تھا۔ وہ اس ک مخالفت کرنا چاہتا تھا۔ اور بنی نوع انسان کو خدا کی مرضی کے سامنے سر تسلیم خم کرنے والا بنا نا چاہتا تھا۔ سب سے بڑی وجہ یہی تھی۔ کہ خداوند مسیح کیوں صلیب پر زور دیا کر تا تھا۔ اس نے اصول فرمان الہٰی اور تمثیل کے ذریعہ صلیب کی تعلیم دی ۔ کسی آدمی کا قول ہے۔ خدا اکثر اوقات ان آزمائشوں کا خاتمہ کرنا چاہتا ہے۔ جو ہمیں بہت عزیز ہیں۔ خداوند مسیح نے حکم دیا کہ اگر تیر ا دایا ں ہاتھ تجھے ٹھوکر کھلائے تو اُسے کاٹ ڈال ، اور اگر تیری دہنی آنکھ تجھے ٹھوکر کھلائے تو اُسے نکال دے۔ یعنی اگر وہ آرام و آسائش کے سامان جس سے ہم بڑی خوشی حاصل کرتے ہیں۔ ہماری روحانی ترقی کے راستے میں حائل ہوں اور خدا کی آواز کے سننے میں مخل (رکاوٹ)ہوں اور ہم اُس کی پاک مرضی کے مطابق عمل نہ کریں تو ہم پریہ حکم لازم آتا ہے۔ کہ ہم اس آرام و آسائش کے سامان کو اپنے سے دُور کر دیں۔ ممکن ہے کہ یہ اقتباس بڑا ہی سخت معلوم ہو ۔لیکن خداوند مسیح نے کبھی کوئی نرم کلمہ استعمال نہیں کیا ۔ اور چونکہ خدا کی الہٰی قدرت نے ہم میں جنم لیا ہے۔ اس لئے وہ ہمارا خدا ہے۔ خداوند مسیح نے ہر قدم پر جسم کی مخالفت کی ۔ صلیب مخالفت کے متشابہ ہے ۔ جس طرح خداوند مسیح کی اپنی صلیب اُس کی مکمل فرما نبرداری کا اظہار ہے اسی طرح سے خدا وند یسوع مسیح اپنے ہر ایک شاگرد کو صلیب اُٹھانے کے ذریعہ سے خدا کی مرضی بجا لانے کی طرف لے آتاہے۔ اس وقت شاگرد کی اپنی مرضی ہو جاتی ہے۔ ہم اس سے پیشتر بھی کہا ہے کہ خداوند مسیح ہماری جسمانی زندگی تصحیح کرنے نہیں بلکہ صلیب پر چڑھانے کے لئے آیا ۔

اس آدمی کی مثال پر غور کیجئے جس کا ہاتھ سوکھا ہوا تھا۔ وہ ہاتھ ٹیڑ ھا اور ناکارہ تھا۔ وہ آدمی اُس ہاتھ کے ساتھ نہ کوئی چیز پکڑ سکتا تھا اور نہ کوئی کام کاج کر سکتا تھا۔ لیکن ایک بڑی بھیڑ کےسامنے خداوند مسیح نے اُس آدمی کو حکم دیا ۔’’ اپنا ہاتھ بڑھا ‘‘ ۔ یہ کام ناممکن اور قرین عقل (وہ بات جسے عقل قبول کرئے) نہیں تھا کہ وہ آدمی اپنے ہاتھ کو بڑھا تا ۔ اس قسم کے ناممکن اور نا واجب حکم کی بجا آوری کے لئے اس آدمی کو خداوند یسوع مسیح کے ذریعہ خدا کی مکمل طور پر فرمانبرداری اور اپنی مرضی کا خاتمہ کرنا تھا۔ وہ خداوند یسوع مسیح کے تابع فرما ن ہو گیا۔ یہی اُس کے ایمان کا مقصد تھا۔ اُس سوکھے ہوئے ہاتھ میں خون زندگی دوڑنے لگا ۔ اس نے وہ کر دکھا یا جو وہ کر نہیں سکتا تھا۔


ہمارا بھی یہی حال ہے۔ ہمارے منجی کا فرمان ہے۔ اگر کوئی میرے پیچھے آنا چاہے ۔ تو اپنی خود ی کا انکار کرے اور اپنی صلیب اُٹھا ئے اور میرے پیچھے ہولے‘‘۔ہم یہی شکایت کرتے ہیں کہ ہم سے یہ نہیں بن پڑتا ۔ لیکن ساری مصیبت یہ نہیں ہے کہ ہم سےیہ ہو نہیں سکتا ۔ بلکہ مصیبت یہ ہے کہ ہم ایسا کرنا نہیں چاہتے ۔ اس فرمان الہٰی میں اس مصیبت کی اصل جڑ کے متعلق بتا یا گیا ہے۔ صلیب نفس کو چھوتی ہے۔ اور یہ بتاتی ہے کہ ہم ایسا نہیں کرنا چاہتے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم الہٰی قوت اور طاقت سےمعمور ہوں تو ہم اُس کے فرمان سے ناممکن بھی کر دکھائیں گے۔

کیاآپ کا ہاتھ سوکھا ہو ا ہے کہ آپ اس کی خوشخبری کے متعلق کوئی ٹریکٹ نہیں تقسیم کرسکتے؟ کیاآپ کی حقیقی مصیبت یہ نہیں ہے کہ آپ خداوند مسیح کا نام لینے سے شرماتے ہیں۔ خداوند مسیح کا فرمان ہے۔’’ اپنا ہاتھ بڑھا‘‘۔ آپ جانتےہیں کہ آپ کے ہاتھ میں کوئی آزار نہیں ہے۔ آپ کے ہاتھ کے ذریعہ سے خدا آپ کے دل کو چھونا چاہتا ہے۔ آپ کے لئے یہ موت ہے یعنی یہ خُود ی کی موت ہے۔ لیکن آپ کا منجی کوئی مصلحت آمیز سمجھوتا نہیں چاہتا ۔ وہ کہتا ہے۔’’ یہی کر تو تُو جئے گا ‘‘۔ آپ یہ کریں تو آپ معلوم کریں گے کہ آپ کے سوکھے ہوئے ہاتھ میں وہ بڑی زبردست طاقت بھردے گا۔ بعض لوگ اس بات سے حیران ہوں گے کہ ہم عہد جدید کا پُرانے عہد عتیق کی شریعت کے اصولات پر اطلاق کر رہے ہیں۔ خداوند کے کلام کی یہ آیت کہ یہی کرتو تُو جئے گا‘‘۔ کا یہ مطلب ہے ۔ کہ ’’یہ موت بر داشت کرتو تُو جئے گا ‘‘۔ ایمان لانے والوں کے لئے مسیح پاکیزگی کی رو سے شریعت کی انتہا ہے۔ لیکن طوالت (لمبائی)کےخوف سے اس مضمون کو یہیں چھوڑا جاتا ہے۔ کیا آپ کسی انسان سے یا کسی انسانی مجلس میں اُس کی گواہی دینے سے قاصر ہیں۔ خداوند مسیح فرماتا ہے۔ ’’یہ کر تو تو جئے گا ‘‘۔ آپ کی سوکھی زبان گواہی دینے کے لئے ہلنی چاہیے ۔ آپ کہتے ہیں۔ ’’ مَیں مر نا گوارا کروں گا ۔ لیکن ایسا نہیں کروں گا ‘‘۔ آپ دونوں کام کریں موت کے بعد پھر آپ جیئیں گے۔ اپنی سوکھی ہوئی زبان کے ساتھ ہی بشارت کے لئے نکلیں۔ اور اپنے لبوں سے خداوند مسیح کا اقرار کریں۔ آپ اپنے ہی منہ کی گواہی سے شیطان پر غالب آئیں گے ۔ لیکن سب سے اعلیٰ برکت یہ ہے کہ اس عمل کے دوران آپ کا نفس مر جائے ۔ جو نہی نفس صلیب سے ہم آغوش ہو گا ۔ شیطان کا قبضہ ختم ہو جائے گا۔ کیا آپ کا پاؤں لنگڑا ہے اور آپ خداوند مسیح کے فرمان کے مطابق چل نہیں سکتے؟ کیا آپ اُس جگہ نہیں جا سکتے جہا ں خدا وند آپ کو جانے کےلئے کہتا ہے۔ آپ کہتےہیں ’’ خداوند کسی اور جگہ بھیج دے پھر اُس جگہ نہ بھیج ۔ لیکن خد ا آپ سے کام لینا چا ہتا ہے۔ آپ کا نفس دوسری جگہوں پر جا سکتا ہے۔ اسی لئے تو آپ کہتےہیں کہ اس جگہ نہیں لیکن کسی دوسر ی جگہ بھیج دے۔ خداوند مسیح آپ کے نفس کو تخت سے اُتار دے گا ۔ اُس کے سامنے ذاتی کمزوری کا اظہار کرنا حکم عدولی ہے۔ وہ آپ کے پاؤں کے ذریعہ آپ کے ارادے کو صلیب پر چڑھا تا ہے۔ وہ کہتا ہے ’’اپنے پاؤں پر کھڑا ہو‘‘۔

عرصہ دراز کی بات ہے کہ آپ سے زیادہ ایک لنگڑا آدمی تھا ۔ لیکن وہ کود کر کھڑا ہو گیا اور چلنے پھرنے لگا اور چلتا اور کودتا اور خدا کی حمد کرتا ہوا اُن کے ساتھ ہیکل میں گیا اُس نے ایک ناممکن العمل حکم کی تعمیل کی ۔ جب آپ خداوند مسیح کے زیرِ فرمان ہو جائیں گے ۔تو آپ کا لنگڑ ا پن جاتا رہے گا۔ جب تک آپ اُس کے حکام کو بجا نہیں لاتے آپ اُسے خداوند نہ کہیئے ۔ اپنے آپ کو اُس کے تابع فرمان بنا لیں۔ اور پولس رسول کے ساتھ یوں کہیں جو مجھے طاقت بخشتا ہے۔ اس میں میں سب کچھ کرا سکتا ہوں۔ آپ اُچھلتے کودتے اور خوشی مناتے ہوئے یہ کہیں گے کہ خدا کی مرضی پسند ید ہ ہے۔ گو نگے کی زبان گیت گائے گی۔ اس سےبھی زیادہ یوں ہو گا۔ کہ لنگڑے ہرن کی مانند چوکڑیاں بھریں گے۔


ان صلیبی اُصولوں کے ہوتے ہوئے یہ بڑے دُکھ کی بات ہے کہ ایک راسخ الاعتقاد شخص خُدا وند مسیح کی خوبیوں کواس کی ہزار رسالہ بادشاہی منسوب کر دے ، تاکہ وہ تمام چیزیں جو جسم اور نفس کے تقاضوں کے خلاف ہیں اُن سے چھٹکارا حاصل ہو۔’’ کیا جب اِس زمین کی حالت بدل جائے گی ۔ تو پہاڑی وعظ کے بلند مطالبات پورے نہ ہو جائیں گے ‘‘۔ کم ازکم یہ سوال دُکھ پیدا کرتا ہے۔ کیا ابتدائی زمانہ کے مسیحیوں نے خداوند مسیح کا انکار کر دیا تھا۔ جب کہ لوگوں کے سامنے خداوند مسیح کے اقرار کرنےکا مطالبہ بڑی آسانی سے پورا کیا جا سکتا تھا ۔ کیا وہ شیر ببر سے پھاڑے گئے ؟ شاید انہوں نے ہزار رسالہ بادشاہی تک صبر کیا ہو جب تک کہ’’ شیر ببر بیل کی طرح بھوسا کھائے گا ‘‘۔ ہمارا منجی جانتا تھا کہ وہ ان ناممکن العمل احکام کے ذریعہ سے ہی انسان کی حریص خواہشات کو صلیب پر چڑھا سکتا ہے۔ اور خدا کی مرضی اسی طرح سے زمین پر پوری ہو سکتی ہے۔ جیسے آسمان پر پوری ہوتی ہے ۔ کیا خداوند کی مبارک بادیوں کی فہرست میں یہ خیال کار فرما نہیں ہے’’جو مجھ سے اے خداوند ! کہتے ہیں اُن میں سے ہر ایک آسمان کی بادشاہی میں داخل نہ ہو گا مگر وہی جو میرے آسمانی باپ کی مرضی پر چلتا ہے‘‘۔ خداوند مسیح کی صلیب اور اس کی تعلیم کا یہ مقصد تھا کہ نفس کو نکا ل کر ہمارے دلوں کو خدا کی مرضی کے مطابق بنا یا جائے ۔ مخلصی یہی ہے کہ انسان کو اس کے اپنے آپ اور غرور اور تکبر سے رہا ئی دلا ئی جائے ۔ صلیب کی طاقت ہم میں خُدا کی مرضی کو پورا کرتی ہے۔ ہیوگؔل نے کیا خوب کہا ہے’’ صلیب ہمارے دلوں سے ایسا مطالبہ کروانا چاہتی ہے۔ کہ اگر چہ ہمارے تعلقات منقطع ہو جائیں اور اس دُنیا میں وہ چیز جسے ہم سب سے زیادہ پیار کرتے ہیں۔ یعنی نفس بھی مصلوب ہو جائے ۔ تو بھی ہم اس بات پر رضا مند ہو جاتے ہیں۔ہم یہ پکار اُٹھتے ہیں ۔’’ اے خداوند مجھ میں ایسی کوئی چیز نہ رہے جو مجھے تیرے ساتھ محبت کے ابدی رشتہ کو استوار کرنے کے راستہ میں حائل ہو‘‘ ۔ اسی میں صلیب کی عظمت ہے، اور خیال کے متعلق کہ صلیب کی عظمت اس میں کیوں ہے مقدس پولس رسول اس کے متعلق یوں کہتا ہے۔’’ مسیح خدا کی قدرت اور خدا کی حکمت ہے‘‘۔ صلیب ہم سے مخاطب ہو کریہ کہتی ہے کہ ہم جسم کے اعتبار سے مر جائیں اور اسی لئے تو صلیب انسان کی مخلصی کا سبب بنتی ہے۔ صلیب ہماری مرضی کو اپنے تابع کر لیتی ہے اور ہم اپنے آپ سے علیحدہ ہو جاتے ہیں اور یوں خد ا سے ہمارا ملاپ ہو جاتا ہے۔ کسی اور قسم کی نجات محض افسانہ ہے۔

زندگی کی تمام مُشکلات کے دوران میں آپ مرنے کے موقعہ کی تلا ش میں رہیے ، کیونکہ خدا کے اعتبار سے زندہ رہنے کی خاطر آپ کو اپنے آپ کے اعتبار سے مرنا پڑے گا ۔کیا آپ کی تمام خواہشات مصلوب ہو چکی ہیں ؟ کیا آپ کی پسند اور ناپسند سے لاپروائی کی جاچکی ہے ؟ کیاآپ کی دانائی بیکار ہے؟ کیا آپ کی سمجھ کو طیش دلایا گیا ہے اور آپ کی رائے کا مضحکہ اُڑایا گیا ہے؟ کیا آپ پر جھوٹی تہمت لگی ہے اور آپ کو بُر ا سمجھ کر رد کر دیا گیا ہے؟ ان میں سے ہر ایک بات کو اپنی صلیب سمجھو ۔ اور ان میں سے ہر ایک میں غرور اور جھو ٹے ر کے اعتبار سے مرنے کا موقع ہے۔ آپ آہستہ آہستہ یہ سمجھ جائیں گے ۔ کہ آپ بّرے کی طر ح مذبح کی طرف پہنچائے جارہے ہیں۔ آپ کی مرضی آپ کو راستباز ثابت کر نا اور اپنی مدافعت آپ کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ کسی شخص نے کہا ہے۔’’ ہر اس چیز کو خوش آمدیدکہو جو آپ کو اپنی اصلی حالت سے آگاہ کرتی ہے۔ آپ کو مسیح کےساتھ مصلوب ہونا ہے۔ پھر آپ اس جلالی حقیقت کا تجربہ کریں گے کہ مسیح مجھ میں زند ہ ہے‘‘۔


خدا وند مسیح ہمیں مصلوب زندگی عطا فرما تا ہے۔ اس زندگی کا مرکز خدا ہے ۔ اور اس کا خدا پر ور د گار ہے۔ یہ زندگی خدا کی مرضی کے مطابق بسر کی جاتی ہے۔ آپ کو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ خداوند مسیح کی زندگی اُس کی زندگی ہے۔ جس نے اپنے دُکھ اور موت کے موقعہ پر اپنی زمینی خدمت کے دوران سب سے پہلی مرتبہ فرما یا ’’ اپنا اطمینان ‘‘ ’’اپنی خوشی ‘‘ تم کو دیتا ہوں ۔ اور پھر اس نے اپنے عزیز وں کی خاطر دُعا کرتے ہوئے فرمایا ’’ میری خوشی تم میں ہو اور تمہاری خوشی پوری ہوجائے ‘‘ ۔ خداوند مسیح نے اپنی زند گی کے انتہائی غمگین لمحوں میں بھی خدا کی مرضی کو پورا کیا۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے۔ ’’ خوشی کوئی طوفان نہیں ہے ۔ بلکہ خوشی خدا کی مرضی کے سامنے مکمل طور پر سر تسلیم خم کرنا ہے کیونکہ روح خُدا میں خوش رہتی ہے‘‘۔ خداوند مسیح نے خدا کو اپنا خدا اور باپ کہا اور اسی وجہ سے آخر کار اس نے کہا ۔ ’’ میری خوشی اس میں ہے کہ مَیں تیری مرضی پوری کروں ۔ خد ا کی مرضی پورا کرنا صلیب کا پیا لہ پینا ہے۔ خداوند مسیح کو وہ دُکھ اُٹھانا پڑا جسے کوئی انسان نہیں اُٹھا سکتا ۔ خدا وند مسیح کو خدا کی مرضی بجا لانے میں اپنا خون بہانا پڑا ۔ آپ اپنے منجی خداوند مسیح ، خدا کے بیٹے میں خدا باپ کی محبت کا مزا چکھیں ، اور روح القدس کے ذریعہ خدا کی مرضی بجا لانے میں خوشی منائیں ۔ اپنے سروں اور دلوں کو خدا کےسامنے جھکائیں ، اور خدا کی مبارک مرضی پوری ہونے دیں‘‘۔

جار جؔ فاکس نے اپنی قوتِ ارادی اور مسیح کے سامنے اپنے آپ کو جھکانے کا کیا خُوب اظہار کیا ہے۔ وہ درخت کی طرح سخت تھا اور اُس گھنٹی کی طرح تھا جو خالص دھا ت سے بنائی گئی ہو ۔ اُسے جُھکانا ممکن نہیں تھا۔ لیکن جب ایک جھوٹے الزام ک بناء پر اُسے بدمعاشوں کے درمیان ایک خوفناک جیل میں ڈال دیا گیا تو اُس نے کہا ’’ وہ جگہ بڑی ہی غلیظ اور گندی تھی۔ اس جیل میں مرد اور عورتیں اکٹھے بند تھے۔ جیل کی حالت ناگفتہ بہ تھی۔ اگرچہ وہ جگہ بڑی ہی خراب تھی تاہم وہ قیدی ایک دوسرے سے محبت سے پیش آتے تھے۔ وہ میری بات مان لیا کرتے تھے اور بعض قیدی کلام کی سچائی کے قائل ہو گئے‘‘۔

جارج ؔفاکس نے کچھ عرصہ کے بعد کہا

’’ مَیں کسی ایسے قید خانہ میں نہیں رہا ہوں جہاں میں سینکڑوں لوگوں کو قید سے چھڑانے کا باعث نہیں بنا ‘‘۔

اور یہ خوشی کیسی عملی اور متعدّی ہے۔ اُن لوگوں کی خوشی کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا جنہیں یہ خوشی میسر ہے۔ اُن سے یہ خوشی کوئی شخص نہیں چھین سکتا۔ ’’پس جو خدا کی مرضی کے موافق دُکھ پاتے ہیں ۔ وہ نیکی کر کے اپنی جا نوں کو وفا دار خالق کے سپرد کریں ‘‘ ( ۱۔پطرس ۴: ۱۹) ۔ اور پولس رسول کہتا ہے ’’کیونکہ مسیح کی خاطر تم پر فضل ہوا کہ نہ فقط اُس پر ایمان لاؤ بلکہ اُس کی خاطر دُکھ بھی سہو‘‘ ( فلپیوں ۱: ۲۹) ۔ اس قسم کا کلام اُ ن لوگوں کے لئے کتنا خوبصورت ہے۔ جو راستبازی کی خاطر اور دوسروں کی خاطر دُکھ اُٹھاتے ہیں۔ میڈم گؔائی اُون اس برکت سے معمور تھی۔ اُس نے کہا ہے

’’ دوسروں کی خاطر میں نے کیا کیا۔ دُکھ نہیں اُٹھائے ان دُکھو ں نے میری کمر ہمت نہیں توڑی اور نہ ہی میرے جوش و خروش میں کمی آنے دی ہے۔ جس خدا نے مجھے اس خدمت کے لئے مامور کیا اور یہ خدمت گنہگارو ں اور رد کئے ہوئے لوگوں کےلئے امن اور محبت کا پیغام ہے۔ اُس نے مجھے سکھا یا کہ مَیں خداوند مسیح کے دُکھوں میں شریک ہونے کے لئے تیار ہوں اس خدمت کے لئے خدا جو آزمائشوں کے مطابق توفیق عطا فرما تا ہے۔ اُس نے مجھے نفس کو مصلوب کرنے کے وسیلے تیار کیا ہے‘‘۔

باب شانز دہم

صلیب اَور ڈِسپلن ( ضابطہ زندگی )

میتھلڈیؔ ریڈ فن لینڈ کے صوبائی گورنر کی بیٹی تھی۔ وہ بڑی باوقار خاتون بھی تھی ۔ وہ تعلیم یا فتہ ، شائستہ اور اعلیٰ پایہ کی مغنیہ (گانے والی عورت)بھی تھی۔ سن بلو غ میں ہی صلیب کی شیدائی ہو گئی ۔ اور خداوند مسیح کی غلام بن گئی ۔ اس نے اپنی زندگی فن لینڈ کے قیدیوں کے لئے وقف کر دی ۔ وہ اپنے گھر میں اسی طرح کا کھانا کھایا کرتی تھی۔جو قید خانہ میں قیدیوں کو میسر تھا۔ اور قیدی اس حقیقت سے آگاہ تھے۔ اس نازو نعم (اچھی چیزیں)میں پلی ہوئی خاتو ن کی زندگی میں عجیب انقلاب پیدا ہو گیا تھا۔ ڈاکٹر ارنسٹ گارڈؔن کہتا ہے۔ کہ فن لینڈ کے قیدی اُس پر جان چھڑکتے تھے۔ اور یہ کہنا کہ وہ اس کی پرستش کرتے تھے مبالغہ نہ ہو گا۔ ایک مرتبہ قید سے چھوٹے ہوئے ایک قیدی نے اُسے اپنے گھر میں دعوت دی ۔ جب میتھلڈی ریڈ سونے لگی تو یہ قیدی اس کے کمرے کے دروازے کے پاس رکھوالی کے لئے ایسے لپٹ گیا جیسے کوئی وفا دار کتالیٹ جا تا ہے۔ تا کہ اُس کی نیند میں خلل نہ ہو۔ ڈاکٹر گارڈؔن اُس کی خدمت اور تنظیم اور ضبط زندگی کے متعلق رقمطراز ہے کہ

’’ایک رات وہ بے خوابی کے مرض میں مبتلا تھی۔ اسے اپنا کام کرنے میں تساہل ہوا۔ اس نے اپنے آپ سے کہا ، آج مجھے اپنے والد محترم کا کام کرنے کی سعادت نصیب ہوئی ہے۔ سیڑھیوں کی طرف جاتے ہوئے اس نے کہا۔ اے میرے ناچیز جسم تو کتنا تھکا ہوا ہے۔ ہم پھر اپنا کام شروع کرنے کو ہیں۔ آج تک تم نے فرمانبرداری اور صبر کا ثبوت دیا ہے۔ جب محبت نے تمہیں کام کرنے کو کہا تو تم نے لبیک کہا ۔ مَیں تمہاری شکر گزار ہوں۔ میں جانتی ہوں کہ آج تم میرا ساتھ نہیں چھوڑو گے‘‘۔

یہ کیسی آزادی تھی۔ اور یہ کس قسم کی مخلصی تھی !ہم نے اور کس چیز کو مخلصی دلا نا ہے۔ جب ہم ایک ادنیٰ اور حقیر سی شے یعنی نفسانی خواہش سے آزاد نہیں ہوئے ؟ اگر ہماری مسیحی فتح ہمین ہمارے جسم کی رغبتوں سے بہتر نہیں بنا سکتی تو پھر خدا ہی ہمار ا نگہبان ہے۔ اُن مخلصی یا فتہ لوگوں کی خوشی کاکوئی ٹھکانا نہیں ہے۔ جن کے دل صاف ہیں اور وہ تمام تفکرات سے آزاد ہیں۔ وہ اپنے کمزور جسم کو میتھلڈی ریڈ کی طرح کام کی طرف راغب کرنےکے لئے حوصلہ افزائی کرتےرہتے ہیں۔ اس قسم کا مسرور(خوش)دل ایک دوائی کی طرح شفاء بخشنے والا دل ہوتا ہے۔


یا اس کتاب کے پڑھنے والے کا دل جسمانی خواہشات کی طرف مائل ہے اور نفس کا غلام ہے؟ اور کیا یہی دل آپ کی بے عزتی کاباعث ہوا ہے؟ یہ سب کچھ اسی وجہ سے ہے کہ آپ ضبطِ نفس کا چھپا ہو اخزانہ حاصل کر سکیں آپ اس ضبط نفس کی اسی طرح سے تلاش کریں جیسے چھپے ہوئے خزانہ کی تلاش کی جاتی ہے۔

ایسے لوگ بھی ہیں جو اس قسم کے معیا ر پر حیرا ن ہوتے اور آہیں بھرتےہیں۔ آپ کے نزدیک ضبط ِنفس غیر واضح اور ناقابل حصول ہے۔ یہ سچ ہےکہ جب تک جسم کی تمام خواہشات اور رغبتوں کا خاتمہ نہیں ہو جاتا ضبطِ نفس کے حصول کی ہر کوشش ہماری ذاتی راستبازی کو محفوظ کرنے یا ہمیں دَلدَل میں پھنسانے کا باعث ہو گی ۔ جیسا پولُس رسول نےفرمایا ہے’’ جس کا مَیں ارادہ کرتا ہوں وہ نہیں کرتا ‘‘ ( رومیوں ۷ باب )۔ سب سےپہلے جسم کو صلیب پر کھینچنا چاہیے ۔ اس سے نپٹنے کا یہی طریقہ ہے ۔اِس کی وضاحت کئے دیتا ہوں۔ انڈریو مرے نے بڑی دلسوزی سے دُعا کے متعلق وعظ کیا۔ اس کے بعد ایک مشہور و مخلص پادری نے انہیں یوں خط لکھا ’’ جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے ۔مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دُعا کی اِس سخت ریا ضت کی زندگی کے متعلق آپ کے وعظ سے مجھے کوئی امدا د نہیں ملتی۔ اس سے مجھے بہت زیادہ تگ و دو کرنی پڑے گی۔ اور بڑی مصیبتوں کا سامنا بھی کر نا پڑے گا ۔ یہ چیزیں میری حوصلہ شکنی کرتی ہیں۔ میں نے کئی مرتبہ ان باتوں کی آزمائش کی ہے۔ اور اس کا نتیجہ ہمیشہ مایوسی ہی نکلا ہے‘‘۔

مسٹر مؔرے نے اس کا یہ جواب دیا میرا نے سُناہے کہ میں نے تگ ودو کا ذکر تک نہیں کیا۔ کیونکہ مجھے پورا پورا یقین ہے کہ جب تک ہم سادہ ایما ن کے ذریعہ خداوند مسیح میں قائم رہوں ۔ ہماری کوششیں بالکل بے سود ہیں۔ اس پادری نے یہ بھی لکھا تھا۔ کہ ’’مجھے صرف اس پیغام کی ضرورت ہے کہ ہمارا زندہ منجی کے ساتھ وہی تعلق ہونا چاہیے جو لازمی ہے۔ہمیں چاہیے کہ ہم اس کی حضوری میں رہیں اس کی محبت میں خوش رہیں۔ اور ا س میں اطمینان حاصل کریں۔ مسٹر مؔرے نے اس پادری کو یقین دلا یا کہ وہ بالکل درست کہتا ہے۔ لیکن اگر اس کا مُنجی کے ساتھ وہی تعلق ہے ۔ جس کی ضرورت ہے تو یقیناً اِس سے دُعا کی کامیاب زندگی ممکن ہے۔ لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم جسم کے موافق زندگی بسر کریں اور رُوح سے دُعا ما نگیں دُعا کے بغیر زندگی اس زندگی کو ظاہر کرتی ہے۔ جو جسم کے موافق گزاری جاتی ہے۔ یہ زندگی رُوح کے موافق نہیں ہوتی ۔جسم کی مضمحل(محوہونے والا، کم زور) زندگی کی جگہ صلیبی زندگی کی ضرورت ہے۔ اس کتاب کے لکھنے کا صرف یہی مقصد ہے کہ ہم میں قوت اور قابلیت اور تمنا پیدا ہو کہ ہم خُدا کی مُبارک مرضی کے مطابق زندہ رہیں۔ دُعا کریں اور اس کی خوشخبری کا پیغام سناتےرہیں۔

جو لوگ صلیب سے حاسل ہونے والی آزادی کو سمجھ سکتے ہیں صرف ان ہی لوگوں میں صلیب اور ضابطہ ِزندگی جیسے مضامین کے سننے کا شوق ہوتا ہے۔ لیکن خدا کے ممسوح جنہیں روحانی قیادت کے لئے منتخب کیا گیا ہے۔ وہ اُسی طرح ضابطہ کی تلوار سے نہیں بچ سکتے جیسے کوئی کھیت ہل سے نہیں بچ سکتا یا ایک انگور کا درخت کانٹ چھانٹ سے نہیں بچ سکتا ۔ ہر برٹ سؔپنیسر کا قول ہے کہ

’’ہم اپنے رگ و پا (پٹھا)میں ایک سخت قسم کے ضابطہ کو کام کرتا ہوا دیکھتے ہیں۔ یہ ضابطہ بھی قدرے سخت ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ وہ بڑا مہربان ہو۔


جب کوئی ضبط و نظم کا پابند سپہ سالا ر اپنے دستے کو میدان کا رزار(میدانِ جنگ) کی طرف لے جاتا ہے تو اس سے بڑھ کر کوئی جو ش پیدا کرنے والا نظارہ نہیں ہوتا ۔ وُہ سپہ ِسالار اُ ن کو اپنی قیادت میں اُس جگہ لے جاتا ہے۔ جہاں وہ انہیں کبھی نہیں لے جا سکتا ۔ وہ لوگ جو دوسروں کی قیادت کرتے ہیں۔ انہیں کسی ضبط و نظم کے ماتحت رہنا چاہیے ۔ کہا جاتا ہے کہ پہلی جنگِ عظیم میں ایک مقتدار افسر نے عرب کے مشہور رہنما امیر فیصل کو ترغیب دینے کی کوشش کی کہ وہ ایک ناممکن کام کرنے کا بیڑا اُٹھائے وہ کام یہ تھا کہ اگر امیر فیصل کے آدمی بکر یوں کی طرح عمودی چٹانوں کو عبور کر کے ملک کے دوسر ے حصہ میں پہنچ جائیں اور ریلوے لائن کو تباہ کر دیں تو فوراً جنگ کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ امیر فیصل نے اس چھ(۶) فٹ لمبے خوبصورت جوان کو دیکھا اور کہا کہ کیا اس نے کبھی خود بکری بننے کی کوشش کی ہے۔ وہ شخص جو سنڈے سکول کا استاد خادم الدین یا مشنری ہو کر خدا کے لشکر کی رہنمائی فرماتے ہیں۔ اُنہیں سب سے پہلے یا مشنری ہو کر خدا کے لشکر کی رہنمائی فرماتے ہیں اُنہیں سب سے پہلے اپنے آپ کو بکر ی کی طرح بنا لینا چاہیے ، تا کہ وہ پولس کے ساتھ کہہ سکیں اور تُم کلام کو بڑی مصیبت میں رُوح القدس کی خوشی کے ساتھ قبول کر کے ہماری اور خداوند کی مانند بنو۔

ہم اپنے اتحاد ی قائدین کی فکر و تردد کا انداز ہ نہیں لگا سکتے جن کے ذمہ لاکھوں نوجوانوں کی تربیت کرنے کا فوق الفطرت کام ہے۔ جنگ عظیم دوم کے ابتدائی ایا م میں ایک مشہور لا مذہب ادیب نے یوں کہا تھا ۔ ’’میری رائے میں جمہوریت زندہ رہ سکے گی جب تک وہ اپنے آپ پر نظم و ضبط کی وہی سخت پابند یاں عائد نہیں کر یں گی ۔ جو آمِر ( ڈکیٹٹر) کسی اشتراکی (اشتراکیت کا حامی، شرکت،ساجھا)ریاست پر عائد کرتا ہے۔ ہمارے فوجی نوجوا ن اِس حقیقت سے آگاہ ہیں کی غیر تربیت یا فتہ اور نظم و ضبط سے عاری سپاہیوں کی ڈکٹیٹرو ں کی ریاستوں کی تربیت یا فتہ اور منظم فوجوں کے مقابلہ میں کچھ وقعت نہیں ہے۔ جمہوریت صرف اُسی وقت ہی اشتراکی ممالک کی تربیت یا فتہ فوجوں کا مقابلہ کر سکتی ہے ۔ جب اس کے پاس بھی اپنے لاکھوں تربیت یا فتہ نوجوان موجود ہوں۔ خدا کا شکر ہےکہ وہ موقع ہمیں بھی میسر ہوا کہ ہم اپنے جنگی سپاہیوں کی مناسب تربیت دے سکیں۔ اکثر اوقات چند لیڈروں نے ہمارے موجود ہ نظام تعلیم کے کمزور فلسفہ کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کا ایک مشہور و معروف جرنیل جس کا کام عام شہریوں کو جنگی تربیت دینا تھا کہتا ہے:۔

’’ گذشتہ ایک پشت سے ہمارے پاس زندگی بسر کرنے کے نام نہاد اعلیٰ معیار ہیں۔ اور ہمارے ایک تہائی سپاہی فوجی ملازمت کے بالکل ناقابل ہیں۔ اور وہ نوجوان جو ہمارے جسمانی معائنوں میں فوج میں بھرتی ہونے کے لئے پورے اُترتے ہیں ۔ اُنہیں جسمانی طور پر سختیاں برداشت کرنے کے لئے بہت مدت اور صبر کی ضرورت ہے۔ اخلاقی طور پر مضبوط ہونے کے لئے اُنہیں اس سے بھی زیادہ سخت ریاضت درکار ہے۔

فوج میں سب سے بڑا کام یہ ہوتا ہے کہ نوجوان افسروں اور سپاہیوں میں سے آسودہ خاطری کو نکال دیا جائے تا کہ وہ یہ محسوس کر سکیں کہ وہ انتہائی جدوجہد ، بے لوث خدمت ، تکلیفات برداشت کرنے اور قربانی دینے سے فتح حاصل کر سکتے ہیں۔ ہمیں سپاہیوں میں جارحانہ حملہ کی روح پھونکنی چاہیے۔


کیا آپ ان الفاظ کا صحیح مطلب جانتے ہیں؟ ہمارے بہت سے نوجوا ن جو سکولوں اور یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہو کر آتے ہیں۔ انہیں انتہائی جدوجد ، بے لو ث خدمت ، تکلیفات برداشت کرنے اور قربانی کے متعلق قطعا ً علم نہیں ہوتا جب تک کہ وہ فوج میں بھرتی ہو کر لڑاکا دستوں کے ساتھ جنگ کی صعوبتیں نہیں جھیلتے۔

اس جنگ عظیم کی سب سے بڑی برکت تب ہو گی ۔ اگر فوجی نظم و ضبط ہم میں سے ’’آسود ہ خاطری‘‘ کو نکال دے اور ہم محسوس کریں کہ خداوند مسیح کی خاطر انتہائی جدوجہد بے لوث خدمت ، تکلیفات برداشت کرنا اور قربانی کا کیا مطلب ہے۔

سپاؔرٹا میں مختلف طریقوں سے سپاہیوں کو تربیت دی جاتی تھی۔ نظم و ضبط کے معاملہ میں یونانی لو گ ایسے سخت تھے کہ ہم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے ۔ وہ لڑکے جنہیں سات (۷)برس کی عمر میں اپنی ماں سے جدا کر دیا جاتا تھا۔ وہ اس کے بعد کبھی بھی اپنی ماں کی آغوش محبت کا خیال نہیں کرتے تھے۔ اُنہیں اپنا کھا نا خود تیار کرنا پڑتا تھا ۔ وہ گرمی اور سردی میں ایک ہی لباس پہنتے تھے۔ وہ سنیٹھے کے بستر پر سویا کرتے تھے ۔کسی مذہبی تہوار کے موقع پر اُنہیں شاہراہ عام پر کوڑوں سے ماراجاتا تھا تا کہ اُن کی قوت برداشت کا امتحان کیا جا سکے۔ کچھ سپاہی کوڑوں سے مر جاتے تھے۔ لیکن اُن کی زبان سے اُف تک نہ نکلتی تھی ۔اس سے مقصد ایسی چیز پیدا کرنا تھا۔ جسے یونانی بڑی تعظیم کی نگاہوں سے دیکھا کرتے تھے۔ یعنی ایک مکمل انسانی نمونہ ۔ گوڈؔیٹ نے لکھا ہے

’’ یونان کے کھلاڑی نہ صرف مجرمانہ عیاشیوں سے پرہیز کرتے تھے بلکہ وہ دوسرے جائز سامان تسکین سے بھی پر ہیز کیا کرتے تھے۔ بعینہ ہر ایک مسیحی نہ صرف گُناہ آلود خوشیوں سے پرہیز کرے بلکہ ضرور ی ہے کہ وُہ ہر ایک عادت اور خوشی سے گریز کرےجس میں توضیح اوقات ہو یا اخلاقی قوت میں کمی واقع ہو‘‘۔

کسی کا قول ہے کہ ’’ہماری اپنی ہی خواہشات نے ہمیں کیسا اُلو بنا رکھا ہے ! تقدیر ہمیں دو طرح سے کچلتی ہے۔ اوّل ہماری آرزوؤں کو پُورا نہ کر نے سے اَور دوم اُنہیں پورا کرنے سے۔ لیکن جس کی مرضی خُدا کی مرضی ہے وہ ان دونو ں تباہیوں سے بچا رہے گا ۔ تمام چیزیں اُس کےلئے بھلائی پیدا کر تی ہیں‘‘۔

ایڈؔورڈولسن نے قطب جنوبی کو سر کرنے کی مہم کا اہتمام کیا لیکن صلیب پر جان دینے والے خُداوند مسیح کی شان ایڈ ور ڈوِلسن سے کہیں بلند ترہے۔ اُس کی قوت کا راز ضبط نفس اور عقل و خرد کی تہذیب میں تھا ۔ اس کی مرضی خدا کی مرضی کے تابع تھی۔ وہ نہ تو اپنے آپ سے بے وفائی کر سکتا تھا اور نہ بنی نوع انسان سے ۔ ہم ضابطہ حیات پر کیوں اتنا زور دیتے ہیں؟ کیونکہ اسے شاگردی سےجدا نہیں کیا جا سکتا ۔ ہماری نجات کے بانی نے خود انکاری کی زندگی بسر کی اور وہ شہید ہوا۔ اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے کہ نئے عہد نامہ کی شاگردی کانشان اچھا سپاہی ہونا ہے۔ ہر ایک جگہ سپاہیانہ زندگی کا ذکر کیا گیا ہے۔ مقدس پولُس رسول بھاگنے، دوڑنے ، کشتی لڑنے ، سپاہی بننے اور لڑائی لڑنے کا ذکر کرتا ہے۔ رسُول کہتا ہے کہ زندگی متواتر جدوجہد ، مساعی اور کشمکش کا نام ہے۔ بہت سے لوگ خدا کے فضل کو آرام و تسکین کے معنی میں استعمال کرتے ہیں۔

لیکن خدا کا و ہ فضل جو پر ہیز گاری ، راستبازی اور دین داری سکھاتا ہے ۔ ہم اس سے گریز کرتے ہیں۔ (طیطس ۲ :۱۱۔ ۱۲) ۔مقدس پولُس رسول فرماتا ہے’’ اے میرے فرزند ! تو اُس فضل سے جو مسیح یسوع میں ہے مضبوط بن ‘‘ ( ۲۔ تیمتھیس ۲: ۱) ۔ اور’’ مسیح یسوع کے اچھے سپاہی کی طرح میرے ساتھ دُکھ اُٹھا ‘‘۔ رسول چاہتا تھا کہ کمزور دل تیمتھیس ’’ خدا کی اُس نعمت کو چمکا دے‘‘۔ لہٰذا اس نے اس کو کہا ، خُدانے ہمیں دہشت کی روح نہیں بلکہ قدرت اور محبت اور محبت اور تربیت کی روح دی ہے‘‘ ( ۲۔ تیمتھیس ۱: ۷ ) ضابطہ ڈسپلن ! یہ کیسا خوفناک لفظ ہے۔ ہماری موجودہ نسل کے لئے ڈسپلن کا خیال بڑا ہی سوہان روح(جان کو تکلیف دینے والا،ناگوارِ خاطر) ہے۔ لیکن ایک سچا مسیحی ڈسپلن اور جھوٹے خوف سے مجر ا ہوتا ہے۔ لیکن یہ سچا مسیحی ڈسپلن جسم کے لئے آسا ن نہیں ہوتا ۔ کیونکہ ’’صلیب کوئی مخمل کی نہیں ہوا کرتی‘‘ ۔ ڈسپلن کا مطلب ہے کہ ہم ایک سخت لڑائی کے لئے تیار رہیں۔ ہم میں ضبطِ نفس پیدا ہو ۔ اور ہم اپنی مرضی کو ایسا سدھا ر یں کہ وہ الہٰی اصولوں کے موافق عمل کرے ۔ سچا ڈسپلن ہمیں سخت کا م چننے کے قابل بنا تا ہے تاکہ ہم مسیح کے اچھے سپاہی بن سکیں۔

اسرائیل کی قومی جنگوں میں ایک رات جدعون نے نرسنگا پھونکا ۔ بتیس ہزار نوجوان نرسنگے کی آواز سن کر اکٹھے ہوئے لیکن ان ۳۲۰۰۰ میں سے ۲۲۰۰۰ ، ’’ترساں اور ہر اساں ‘‘تھے۔ وہ چپکے چپکے اپنے گھیروں کو لوٹ گئے ۔ اور صرف دس ہزار سور مارہ گئے ۔جو بڑے دلیرتھے۔ لیکن دلیر ہی کافی نہیں ہوتی ۔ سپاہیوں کا انتخاب کرتےوقت خداسامنے ایک خاص معیار تھا ۔ خدا کے لوگ چاق و چوبند ہونے چاہیں ۔ ایک دفعہ کینیڈا میں ایک پُل گر پڑا ۔ اور بہت سے کاریگر مر گئے۔ لوہے کےگارڈر اتنا بوجھ سہارنے کے قابل نہ تھے۔ خدا خود جدعون کے لشکر کا انتخاب کرتا ہے۔ یہ امتحان بڑا سادہ تھا۔ لیکن بڑا مشہور تھا ۔ جدعون اُن دس ہزار کو چشمہ پر پانی پینے کےلئے لے گیا۔ ان میں سے( ۹۷۰۰ )آدمی چپڑ چپڑ کر پانی نہیں پیتے ۔ وہ خوب سیر ہو کر پانی پیتے ہیں ۔ وہ میدان کا رزار میں بھی آرام کے طالب ہو ں گے۔ اپنی ساری زندگی میں وہ بڑے آزاد رہے۔ وُہ ایک ہی رات میں کس طرح سے اچھے سپاہی بن سکتے تھے۔ اُنہوں نے فرما نبرداری نہیں سیکھی تھی۔ وہ اپنی ہی من مانی کرنے کے عادی تھے۔ اگر چہ قدرتی طور پر وہ دلیر نا موروں بنا دیا تھا۔ اُن کے جذبات نے انہیں اِس جنگ کے قابل نہ رہنے دیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ جنگ بوئر کے زمانہ میں جب انگلستان پر مصیبت کی گھٹائیں چھائی ہوئی تھیں تو سرکار انگلشیہ نے لاڑد رابرٹس کو صورت حالات سے آگاہ کیا اور کہا کہ وہ خود فوجوں کی کمان سنبھال لے ۔ لاؔرڈ موصوف نے جواب دیا بہت اچھا ۔ صدر نے یہ خیال کیاکہ غالباً لارڈؔ رابر ٹس محاذ جنگ کی صورت حالات کا اندازہ نہیں لگا سکا اس لئے اُس نےدوبارہ لاؔرڈ موصوف سے وہی درخواست کی۔ لیکن فیلڈ مارشل لاؔرڈ رابرٹس نےجواب دیا’’ مَیں پچھلے بیس سالوں سے اسی لمحہ کے لئے تربیت حاصل کرتا رہا ہوں۔ کوئی سپاہی خواہ وہ کسی بادشاہ کا ہو یا بادشاہوں کے بادشاہ کا ایک ہی دن میں نہیں بن سکتا۔

لیکن جدعؔون کےوہ تین سو سورما کتنے مختلف تھے۔ وہ ضبط کے ماتحت تھے ۔ وہ لڑائی لئے تیار تھے ۔ وہ لڑائی کو دجیتنا چاہتے تھے۔ اُنہوں نے اپنے ہاتھوں میں چشمہ سے پانی پیا اور چپڑ چپڑ کرنے لگے ۔ جدعؔون کی فوج تیا ر تھی۔ یہ فوج لڑائی کے قابل تھی۔ وہ ضبط و نظم کے ماتحت بھی تھی۔ اور دلیر بھی تھی۔ اُن میں جُرات بھی تھی۔ اور اُن کی زندگیوں میں ڈسپلن بھی تھا۔ وہ نرم و گرم چشیدہ (تجربہ کار،چکھاہوا)تھے۔ اُنہیں جنگ کی سختیاں برداشت کرنا تھیں۔ انہیں تضحیک کا مقابلہ کرنا تھا۔ آپ ان تین سو جوانوں پر غور کریں جن کے پاس گھڑے ، مشعلیں اور نرسنگے ہیں۔ انہیں اُس ٹڈی دَل فوج کا مقابلہ کرنا تھا۔ جس کی تعداد ایک لاکھ پنتیس ہزار تھی ۔


خدا اُس وقت اپنے سپاہیوں کی آزمائش کرتا ہے۔ جب اُنہیں عِلم نہیں ہوتا ۔ ہمارے کردار کا امتحان بھی اسی طرح ہوتا ہے۔ سختیاں برداشت کرنے کے لئے ہمیں کیر یکٹر(کردار) کی ضرورت ہے۔ خداوند مسیح کے سپاہی اس قسم کے ہونے چاہیں جو چاق و چوبند(ہوشیار) ہوں۔ ضرو ری ہے کہ وہ ہر ایک سختی اور موجودہ سماجی تکلالیف کے بار ِگراں کو سہنے کے قابل ہوں ۔ ڈی ۔ ایم۔ ٹپؔٹن نے کہا ہے۔

’’ ہمارا جدعؔون مسیح ہے۔ وہ کلیسیاؤں میں اِدھر اُدھر پھر تا رہتا ہے تا کہ ہمیں دیکھ سکے کہ ہم اپنے آپ کو چن لیں ‘‘۔

کیا جس نے ہمیں اچھے سپاہی ہونے کے لئے چُنا ہے ہم اُس کو خوش کریں؟ جب ہماری آزمائش ہو تو ہمیں گھبرانا نہیں چاہیے ۔ بہت سے لوگ بُلائے جاتے ہیں۔ لیکن بہت تھوڑے لوگ چُنے جاتے ہیں۔ کیونکہ سب برگزید ہ نہیں ہوتے ۔

ہم جدعؔون کی طرح شنجون مارنے کے لئے تیار ہیں۔ تاریکی گہر ی ہوتی جا رہی ہے۔ یہ خیال نہ کرو کہ یہ دن ہے۔ ڈسپلن کا مسئلہ بڑا ہی سخت بن جاتا ہے۔ سوال اب ردِ عمل کا ہے۔ ہمیں الہٰی فرمان کے سامنے کیا جواب دینا چاہیے ؟ ترجیحات ، پسند و ناپسند ، مذاق جذبات اور خُوشیا ں ایک سپاہی کی ڈرل میں کس طرح داخل ہو سکتی ہیں۔ بیوقوفوں کی ’’ پرل ہاربر ‘‘ کے خواب کیوں دیکھتے ہو؟ ہماری نئی روشنی کی سوسائٹی اس قسم کی ہے۔ رات تاریک ہے لیکن ممکن ہے کہ ہم گھر سے بہت دور نہ ہوں ۔یہ بھی یاد رکھیں کہ ایک سپاہی دن کو بھی سفر کر سکتا ہے خواہ وہ مجاذِ جنگ کی طر ف روانہ ہو رہا ہو۔ بہت سے مسیحی اِس فریب میں مبتلا ہیں کہ وہ پھولوں کی سیج پر بیٹھ کر آسمان کی طرف پر واز کریں گے۔ جب کہ دوسرے لوگ اپنا انعام حاصل کر نے کی غرض سے لڑیں گے اور انہیں خونی سمندر عبور کرنے لڑیں گے۔

پائیڈ مؔنٹ کی مہم میں نیپو لؔین نے اپنی فوج سے یوں خطاب کیا

’’ تم نے توپُلوں کے بغیر میدان مارے ہیں۔ اور پُلوں کے بغیر دریاؤں کو عبور کیا ہے۔ تم ننگے پاؤں چلے ہو۔ تمہیں گرم رکھنے کے لئے شراب بھی درکار نہ تھی۔ لیکن تم سردی میں باہر خیمہ زن ہو تے رہے ہو۔ تم اکثر کھانے سے محروم رہے ہو۔ میں تمہاری مستقل مزاجی کے لئے شکر گزار ہوں۔ لیکن سپاہیو ! تم نے کچھ نہیں کیا کیونکہ ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے‘‘۔

کلوری پر بہائے ہوئے خون مقدس اور لاکھوں حاجت مندوں کی روحوں کی خاطر اور اس جلال کی خاطر جس سے یہ روحیں محروم رہیں گی ۔ آیئے ہم اپنی شکر رنجیوں (معمولی سی رنجش)، چھوٹی موٹی قربانیوں اور مجرمانہ تغافل (بے پروائی)کو بھول جائیں ۔ ہمارے نیپو لؔین کو اپنے آپ پر قابو پانے والے قربانی کے لئے تیار اور ایسے آدمیوں کی ضرورت ہے جن میں ایمان کا جذبہ ہو کیونکہ’’ بہت کچھ کرنا باقی ہے‘‘۔


باب ہفدہم

صلیب اور ڈسپلن ( گذشتہ سے پیوستہ )

جسمانی دُنیا کلیسیا کو کس قدر کو ستی ہے! کلیسیا سب قسم کی عُسرت اور مصائب کو سہتی ہے۔ اور ایسے خطرات میں سے گُزرتی ہے جن کو دیکھ کر ہمارے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ کیایہ سب کچھ اس لئے کر تی ہے تا کہ وہ اپنے نصب العین (اصلی مقصد)تک پہنچے ۔ ماؤنٹ ایؔورسٹ کی بلند چوٹی کو سر کرنے کے لئے چند بہادروں نے ایک پارٹی منظم کی۔ وہ سب جسمانی طور سے اس کام کےلئے ہر لحاظ سے موزوں تھے۔ اُنہوں نے اس چوٹی کو سر کر لیا اور ۲۷۰۰۰ فٹ کی بلند ی پر قیام کیا۔ اُن کوہ پیماؤں (پہاڑوں چڑھنے والے)نے کہا کہ بہت سے دوسرے لوگ بھی اس چوٹی کو سر کر سکتے تھے۔ بشرطیکہ وہ سر کرنے کا صرف مصمم ارادہ (پختہ ارادہ،مضبوط ارادہ)کرتے ۔ لیکن دوسرے لوگوں نے اسے سر کرنا نہ چاہا ۔ کہانی بیان کرنے والا کہتا ہے کہ ان باقی کوہ پیماؤں میں سر کرنے کی ہمت موجود نہ تھی۔ ان میں سے ایک کوہ پیما کے متعلق یوں بیان ہو ا ہے۔

جسمانی لحاظ سے بہت سے کوہ پیما اس سے مضبوط تھے۔ لیکن ہمت و سر گرمی کے لحاظ سے وہ سب کو مات کر تا تھا ۔ اس کی ہمت نے اُسے انتہائی بلندی پر پہنچا دیا ۔ اس کی ہمت و سر گرمی اُسے اجازت نہیں دیتی تھی کہ وہ ہمت ہار کر بیٹھ جائے۔ اُسے ایک آخر ی بے خوف کوشش کرنا تھا۔ روح جسم کو آگے ہی آگے لئے جاتی ہے اور جسم روح کے فرمان کی تعمیل کرتا ہے۔ ان کو ہ پیماؤں نے بے شمار مصیبتیں برداشت کیں۔ ان میں سے بہت سے مر گئے ۔ بعض کی ٹانگیں ٹو ٹ گئیں ۔ بعض کا دما غ بیکا ر ہو گیا ۔ بعض کے پاؤں شل ہو(ہاتھ پاؤں کا سُن ہوجانا،جسم کے کسی عضوکا بیکارہوجانا) گئے اور بعض نمونیہ کا شکار ہوئے ۔

میرے دوست ! کیا آپ نے بلند ی پر چڑھنے کی کوشش کی ہے؟ کیا آپ صف بستہ لوگوں شامل ہو گئے ہیں؟ کیا آپ نے اپنے نفس کو اپنے قابو میں کر لیا ہے؟ کیا آپ روح القدس کے وسیلے اُس کانپتے ہوئے سپاہی کی طرح مخاطب ہو کر کہہ سکتے ہیں۔ جس طرح بلند ی پر چڑھتے ہوئے اُس نے کہا تھا۔’’ میرے پُرانے بدن ، اگر تمہیں معلوم ہوتا کہ تمہیں کہا ں لئے جارہا ہوں۔ تو تم اس سے بھی زیادہ کانپ اُٹھو گے ‘‘۔

کلیسیا ؤں میں ہر ایک جگہ یہ خیال پایا جاتا ہے کہ ایمان دار خواہ بوڑھے ہوں خواہ جوان بجائے اس کے کہ وہ مسیح کی فوج میں بھرتی ہوں اُن کے چاؤ چونچلے (چالاکی)دیکھے جائیں ، اور انہیں بچوں کی ہاتھ گاڑی میں بیٹھا کہ اُنہیں مادر کلیسیاء محبت بھری نگاہوں سے آسمان کی طرف لے جائے لیکن حقیقت یہ ہے۔ کہ جونہی خدا کسی روح کو بچا تا ہے۔ وہ نرسنگے کی آواز سے اُسے بلا تا ہے۔ تا کہ وہ مسیح یسوع کا اچھا سپاہی ہونے کی حیثیت سے دُکھ اُٹھائے ۔ ( نپٹن )


ضبط نفس کے مضمون پر خیال آرائی سے اس بات کا احتما ل ہے کہ کوئی مجھے تارک الدنیا یاراہب کہہ کر رُسوا کر نا شروع کر دے۔ تارک الدنیا ہونے کی سر گوشی اُس آدمی کو ڈراتی ہے جو آسانی سے ڈر جائے ۔ لیکن اگر چہ پولُس رسول نہ ہی تا رک الدنیا تھا اور نہ ہی راہب پھر بھی اُسے معلوم تھا کہ بدن اپنی رغبتوں اور خواہشوں سمیت ، اُس کا خطرناک دشمن ہے۔ اُس نے کہا ’’مَیں اُسی طرح مکوں سے لڑتا ہوں یعنی اُس کی مانند نہیں جو ہوا کو مارتا ہے بلکہ میں اپنے بدن کو مارتا ، کوٹتا اور اُسے قابو میں رکھتا ہوں ‘‘۔ مَیں اُسے بُر ی طرح سے مارتاہوں۔ اور اُسے اپنا اپنا غلام بنا تا ہوں ۔ پولُس رسول اپنے خطروں سے اچھی طرح آگاہ تھا۔ وہ ہمیشہ بدن سے ڈرتا رہا ۔ وہ ہمیشہ چوکنا رہا اور خوش رہا۔ لیکن وہ کانپتا بھی رہا ۔ ایک مسیحی کا رندے نے ایک مرتبہ اپنی رخصت کے دوران میں یوں لکھا اس جگہ فضا ایسی دلربا اور خوبصورت ہے کہ مجھے ڈرہے کہ کہیں سپاہیانہ روح مضبوط ہونے کی بجائے کمزور ہی نہ ہو جائے ۔ ہر ایک چیز بڑی آرام دہ اور پیاری ہے۔ میں پہلے سے بھی زیادہ باطنی ڈسپلن کی ضرورت محسوس کرتا ہوں ۔ کیونکہ ضبط ِنفس ہی روح کو تساہل اور کاہل سے بچا سکتا ہے۔

راحت کی زندگی میں تسکین روح نہیں ہے

عشرت پرستیوں میں آرام جاں کہیں ہے؟

میرے لیے مسیحا مصلوب ہوگیاہے

ہرایک بات اس کی دلکش ودل نشین ہے

شہیدو ں کے خون میں کلیسیا ء کی زندگی ہے ۔ جب کلیسیا ء میں شوق شہادت ختم ہو جاتا ہے۔ تو وہ برکت کا سر چشمہ بھی نہیں رہتی ۔ کلیسیاء ایذا رسانی کے زمانے میں میں دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرتی ہے۔ لیکن امن و راحت کے زمانہ میں وہ کوئی ترقی نہیں کرتی ۔ خداوند مسیح صلح کرانے نہیں بلکہ تلوار چلانے آیا تھا۔ ہم بڑے سہل انگار بن چکے ہیں۔ اب ہم سپاہی نہیں رہے ۔ اب ہم قلعوں کو مسمار نہیں کرتے اور ہم میں قربانی کی روح مر چکی ہے۔ ہم روحانی سو سائٹی چاہتے ہیں۔ ہمیں سپا ہیا نہ زندگی کی ضرورت نہیں ۔ ہم عیش و عشرت کے متوالے ہیں۔ اب مجھ میں وہ گس بل نہیں رہا۔ اب میں آرام طلبی کی زندگی بسر کرتا ہوں۔ ایک مرتبہ ہم نے مذہبی اجلاس منعقد کئے ۔ اُن اجلاس کے ہادی ایک پُرانے مناد تھے۔ وہ گھوڑے پر سوا ر ہو کر اپنے علاقے جا یا کرتے تھے۔ اور اُس جسم پر نشان سے پڑ گئے تھے۔ وہ کہہ سکتا تھا ۔’’ مَیں اپنے جسم پر مسیح کے داغ لئے پھرتا ہوں‘‘۔ لیکن تھوڑی دیر کے بعد اُن کی مرغن کھانوں سے تو اضع کی گئی ۔ انہوں نے خوب سیر ہو کر قسم قسم کے کھانے کھانے اور پیٹ پر ہاتھ پھیر کر کہنے لگے’’ کھانا کتنا لذیذ اور پُر لطف تھا۔ میں آج بڑاہی مسرور ہو ا ہوں‘‘۔ لیکن اُس غریب واعظ کے وعظ بڑے ہی پھسپھُستے اور بے جان ہواگرتے تھے۔ اُس نےکبھی بائبل کو اُٹھا کر نہیں دیکھا تھا۔ وہ کسی زمانہ میں سپاہی تھا۔ لیکن بڑا ہی آرام طلب تھا۔ اُس نے کبھی مُشقّت کی ذلت نہیں اُٹھائی تھی ۔ اس بات س ہمیں رابرٹ مؔرے کے الفاظ یاد آتے ہیں کہ ’’اگر شیطان کسی حریص (لالچی)خادم الدین کو اپنی ستائش کروانے والا عیش و عشرت کا شیدائی اور لذیذ کھانوں کا رسیا بنا دے۔


تو بشارت کی خدمت کو تباہ و برباد کر دے گا ۔ لیکن رابرٹ مؔرے خود سپاہی تھا ۔ وہ اُس حقیقت کو جانتا تھا کہ مسیحی زندگی کوہ پیما ئی ہے۔ ایک مستقل جدوجہد یعنی لڑائی کی زندگی ہے ۔اور ہماری بشارت کی اس مہم کا کسی مشن کے ساتھ کوی تعلق نہیں ہے۔

اگر عیش دُنیا سے ہم پھول جائیں مصائب اگر گھیر لیں سٹ پٹائیں
نگلنے کو ہوں بےکسی کی بائیں تساہل کی چھائی ہوئی ہو ں گھٹائیں

تو کندن کی مانند دمکتے رہیں گے

ستاروں کی طرح چمکتے رہیں گے

ترے سر یہ کانٹوں کا تاج اُف خدا یا

تجھے ظالموں نے ہے سرکہ پلا یا

عدو نے تجھے مارا ، پیٹا ، ستایا

مصیبت سہی تو نے اور دُکھ اُٹھایا

تو مر کے ہمارا کفارہ ہوا ہے

گنہگار کا تو سہارا ہوا ہے

لیکن اس کتاب کے بہت سے پڑھنے والے مشنری خادم دین یا مبشر نہیں ہیں۔ وہ گھر یلو کام کاج میں لگے رہتے ہیں۔ ان پر ان مندرجہ با لا اشعار کا کس طرح سے اطلاق ہو سکتا ہے۔ مندرجہ ذیل چند ایک طریقوں سے ڈِسپلن کا اطلاق ہو سکتا ہے۔

ہمار ے بڑ ے بڑے شہر وں میں گئی رات تک ہو ٹلوں کی زینت بننے ، رت جگا کرنے اور عیش و طرب کی محفلیں منعقد کر نے کا روا ج ہے۔ ان چیزوں کا بادشاہ کے کام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اِس خاص نقطہ کے متعلق ہم لوگوں کوسر زنش کرنے کی جرات کرتے ہیں ۔چونکہ لوگ ساری ساری رات محفلوں میں گزار دیتے ہیں۔ لہٰذا اگلی صبح خدا کے کلام اور دُعا کے لئے ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں ہوتا ۔ صلیب کو اس قسم کی عادتو ں کا خاتمہ کر نے دو ۔ پھر صبح سویر ے اُٹھنے سے پیشتر یہ دُعا نہ کر و کہ خدا وند ! مَیں اُٹھ بیٹھوں بلکہ تم اُٹھ بیٹھو۔

بعض لوگوں کے لئے ناپاک رغبتوں اور جسمانی خواہشات کو تر ک کرنا بڑا ہی مشکل ہو گا ۔ کیا آپ نے کبھی کسی آدمی کو کچلنے کی کوشش کی ہے؟ خدا کو اس چیز سے کر اہت ہے۔ آپ اس چیز سے مُکر رہے ہیں۔ آپ کو اس کی بجائے خود انکاری کرنی چاہیے ۔ یہی ڈِسپلن ہے ۔


بعض لوگ بڑے زبان دارز ہوتےہیں۔ اس قسم کے لوگوں کو بڑی احتیا ط کرنی چاہیے۔ انہیں خدا سے متواتر فریا د کر نی چاہیے ۔ ’’اے خداوند ! میرے منہ پر پہر ہ بٹھا ‘‘۔

کئی لوگ ایسے بھی ہیں جو اس وقت کسی چیز کی برداشت کرتے ہیں ۔ جب کوئی ان کا حریف ہوتا کہ کسی اپنے دوست کے ہاں اُن کی توہین نہ ہو ۔ آدمی کی زبان ہی اُس کے لئے آگ کی بھٹّی ہے۔ وہ اُسی میں جلتے رہتے ہیں۔ وہ اس سے نہیں بچ سکتے ۔ ضبط نفس کے سونے کو حاصل کرنے کا کیسا اچھا موقع ہے۔

کئی لوگ قسم کے ضبط نفس کی مشق کرتےہیں۔ تا کہ وہ اپنی شکست ، ناکامی ،غلط فہمی اور اپنی جدوجہد کے بے ثمر (پھل کے بغیر، لاحاصل)رہنے صبر سے برداشت کر سکیں ۔ کیا خدا نے آپ کو کسی جگہ مقر ر کر دیا ہے؟ اُس جگہ وفاداری سے رہنا سیکھو ۔ قانع (قناعت کرنے والا، جومل جائے اس پر راضی رہنے والا)رہو۔ کسی اور جگہ ہونے کی خواہش نہ کر و۔

کیا وہ لوگ فطر ی طور پر جلد باز ، جو شیلےاو ر غیور ہیں؟ ہمیں ایک آدمی کے متعلق معلو م ہے۔ جس نے اپنے نفس پر قابو نہ پایا اور وہ کبھی خاموش نہ بیٹھ سکا ۔ اس کی زندگی بڑی تلخ ہو گئی۔ وہ جلنے سے بیزارر ہنے لگا ، اور آخر کار وہ مر گیا ۔

بنی اسرائیل میں ایک بڑی بزرگ ماں تھی۔ اُس نے کہا ’’ دُنیا میں کچھ ایسی عورتیں بھی ہیں ۔ جو کسی چیز سے بھی سُد ھر نہیں سکتیں ۔اُن کے بارے میں کو ئی آدمی نہیں پوچھے گا ‘‘۔

کئی والدین اپنے بچوں کو ضبط نفس سکھانے میں باطنی طور پر ایک درد بھری صلیب اُٹھائیں گے۔ وہ والدین جنہیں خود نفس پر ضبط نہیں ہے۔ وہ اپنے بچوں کو کس طرح ضبط نفس سِکھا سکتے ہیں۔ آج کل بچوں کو صحیح اور خدا کی ضبط نفس کی تعلیم نہیں دی جاتی کیونکہ والدین نے اپنی نفسانی خواہشات سے نفرت کرنا نہیں سیکھا ہے۔ چونکہ ماں یا باپ نے اپنی کسی خواہش کو صلیب پر نہیں کھینچا لہٰذ ا وہ بچو ں کو بھی یہ صلیب اُٹھانے سےمنع کرتے ہیں ۔’’ وہ جو اپنی چھڑی کو باز رکھتا ہے اپنے بیٹے سے کینہ رکھتا ہے‘‘۔

کئی لوگ ایسے بھی ہیں۔ جو بڑے کمزور اور حسا س ہیں ۔ ایک شخص نے کہا ہے’’ کوئی وقت ایسا بھی ہوتا ہے۔ جب تھوڑی سی شکر رنجی ،تھوڑا سا شور ، لوگوں کی کھُسر پُھسر یا کسی آدمی کاکسی میز یا چار پائی کے بازو پر طبلہ بجانا ، یا چار پائی کو گرانا ، یا چیزوں کو زمین سر گرانا ، کوئی ٹیڑ ھی سی تصویر ، رنگوں کا امتزاج (ملاوٹ، ہم آہنگی)نہ ہو نا ، کوئی اُلٹی پڑی ہوئی کتاب یا کوئی کتاب جو کپڑوں میں ہی ادھر اُدھر پڑی ہوئی ہو تو ہم اس سے سیخ پا (غصہ ہونا)ہوں۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ عام نیک مزاج کے لئے بھی دُعا کی ضرورت ہے۔ نیک مزاجی خود بخود پیدا نہیں ہو گی‘‘۔

تو پھر ڈسپلن کیا ہے؟ ایمی کار میؔخیل جس سے مندرجہ بالا اقتباس لیا گیا ہے۔ اُس کا کہنا ہے’’ جب میں اپنے پیار ےخدا کی محبت کی خاطر کسی آسان بات سے انکار کردُوں اور اپنے پیارے خدا کی خاطر اُس کی جگہ کسی مشکل کام کو اپنا لُوں اور کسی قسم کی گڑ بڑ پیدا نہ کروں اور نہ ہی بُڑ بڑاؤں تو یہ ڈِ سپلن ہے۔ جب ہر ایک کام بگڑتا ہو ا معلوم ہو اور پھر بھی میں حر ف شکایت زبان پر نہ لاؤں ۔ جب گرمی کی شدت ہو اور میں تھک کر چور ہو چکا ہو ں اور میں گلہ نہ کروں لیکن کوئی گیت گاؤں اور سکو ل اور گھر میں خوشی خوشی کام کروں تو یہ ڈِسپلن ہے ۔


جب شیطان میرے کان میں کہےکہ دل لگا کر اپنا کام نہ کر و تو میں اس سےکہوں میں تمہاری بات نہیں مانوں گا ۔ جب شیطان کہے کہ سہل انگار بن جاؤ تو اُس سے کہوں کہ مَیں ایسا نہیں کرو ُں گا۔ اپنے آپ کو قابو میں رکھنے اور دوسروں کے کام آنے کا نام ڈِسپلن ہے ۔

جب میں اپنی نظریں اُوپر اُٹھاؤں ، اور ہر ایک گناہ پر فتح حاصل کروں یعنی بزدلی اور لالچ کی چیزوں ( جن کے بارے میں مَیں کچھ نہیں جانتا ) پر کامیابی حاصل کروُں ۔ اور جب دل و جان سے میں اپنے جلالی بادشاہ کو خوش کرنے کی کوشش کرتا ہو ں تویہ ڈِسپلن ہے۔

مَیں اپنے میں ’’ مَیں ‘‘ کو کچل دُوں ۔ مجھ میں یہ بڑی عجیب و غریب چیز ہے ۔ میں دوسروں کا بھی خیال رکھوں اور اپنی ذات کا کبھی اتنا خیا ل نہ کروں۔ میں اپنے منجی کے اس حکم پر عمل کروں کہ’’ اپنی خودی سے انکار کرو‘‘ ۔ یہی ڈ سپلن ہے۔

ایک مرتبہ حضرت داؤد نے اپنے دشمنوں کے متعلق خدا سے دُعا کی۔’’ اُن کو قتل نہ کر مبادا میرے لوگ بھول جائیں ‘‘ کہا جاتا ہے کہ سپاؔرٹا کے رہنے والوں نے اپنے ایک ہمسایہ شہر کو تباہ کرنے سے انکار کر دیا جس نے اکثر اوقات اُن کے خلاف فوج کشی کی تھی ۔ اُنہوں نے یوں کہا ’’اِس شہر کو تبا ہ نہ کرو ۔ کیونکہ اسی سے تو ہمارے جوانوں میں دلیر ی اور بلند حوصلہ کی آگ تیز ہوتی ہے‘‘۔ زندگی کی تمام مشکلات ہمیں ڈسپلن سکھاتی ہیں۔

لیکن کلیسیا میں جو ڈسپلن کا فقدان ہے اس کے متعلق ہم کیا کہیں ؟ اس ڈسپلن کے فقدان کی وجہ معلوم کرنے کی کوشش کریں تو آپ کو معلوم ہو گا ۔ کہ کئی نرم دِل مسیحی نا راستوں سے اپنے آپ کو علیحدہ نہیں کرتے ۔ وہ گناہ کا مقابلہ کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ اور یہ صریحاً خُدا کے حکم کے خلاف ہے ۔ جس نے فرمایا ’’ تو اس پر اس کے ساتھ رضا مند نہ ہونا ،ا ور نہ اس کی بات سننا ۔ تُو اُس پر ترس بھی نہ کھا نا ، اور نہ اس کی رعایت کرنا اور نہ اُسے چھپا نا ‘‘۔

ہم خدا کا شکر کرتے ہیں کہ خدا نے ایسے گھرانے بخشے ہیں۔ جہاں والدین عیش و طرب کے اس دور میں تمام قسم کے خطروں اور آزمائشوں سے بخوبی واقف ہیں۔ ہرسا ل تعلیمی سال کے اختتام پر کئی والدین اپنے بچوں کو بائبل سکولوں میں ٹر نینگ کے لئے بھیجتے ہیں۔ والدین اپنے بچوں کے لئے دُعا کرتے ہیں۔ انہیں اُن کی روحوں ک بہت فکر ہوتی ہے ۔ وہ اپنے جوان بچوں کو صلیب کے سپاہی دیکھنا چاہتے ہیں کہ اُن کے بچے نئی روشنی کے مدرسوں اور نئی روشنی کی تعلیم سےنجات حاصل کریں جس میں زیادہ تر فنون لطیفہ (عجیب ہنر)کی تعلیم دی جاتی ہے۔ ہماری آنکھو ں کے سامنے ایسے گھر انے آرہے ہیں۔ اس قسم کے گھر و ں سے اس موجودہ زمانے میں بھی صلیب کے سپاہی پیدا ہو رہےہیں۔ جو ہر خطر ے کا مقابلہ کرنےکےلئے کمر بستہ ہیں۔ وہ ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے تیار ہیں۔ وہ اپنا سب کچھ قربان کر رہے ہیں۔ وہ سختیاں جھیل رہے ہیں ، اور جو انی میں بوڑھے نظر آتے ہیں۔ لیکن بّرے کی خاطر اُس کے مصائب کا انعام جیت رہےہیں۔ یعنی نئی کلیسیا ء معرض وجود میں آرہی ہے۔


ہمیں یہ معلوم نہیں ہے کہ ڈاکٹر جے ۔ ہڈؔسن ٹیلر کے باب یہ عِلم تھا کہ خدا کے حکم کے ماتحت وہ کیا کچھ کر دکھا ئے گا ۔ چائنا اِن لؔینڈ مشن کے بانی کو ضبط و نظم والی زندگی کی حقیقت اور قیادت کے متعلق معلو م ہوا ۔ اس کا باپ خود ڈسپلن کا بڑا پابند تھا ۔ اس لئے وہ بھی اس قیادت کے ماتحت ہوا۔ ایک کتاب موسومہ روح کی نشوونما سے اُن کے باپ کے بارے میں ایک اقتباس نقل کر تے ہیں۔

جیمس ٹؔیلر اگر چہ بڑا سخت اور زود رنج تھا لیکن اُس کے بیٹے کی زندگی پر اُس کا بہت اثر ہوا۔ وہ ڈِسپلن کا سخت پابند تھا۔ لیکن اگر اُس کی ابتدائی زندگی میں تربیت نہ کی جاتی تو خدا کے فضل سے ہڈسؔن کس طرح سے اس قسم کا آدمی ہو سکتا تھا؟ کیا آج کل ہم میں تساہل پسند ی اور سہل انگاری کا رُحجان نہیں ہے؟

یہاں تک کہ مسیحی والدین بھی اپنے اپنے بچوں کو ایک حد تک خوش دیکھ کر مطمئن رہتے ہیں۔ لیکن جیمس ٹؔیلر کے سامنے پر نقطہ نہیں تھا۔ زندگی بسر کرنا ہی تھی۔ کام کو ختم کرنا تھا۔ ممکن ہے کہ کئی لوگوں کی تقدیس بھی کی جائے۔ اُنہیں خدا کی نعمتیں بھی میسر ہوں ، اور انہوں نے خدا کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دیا ہو لیکن چونکہ اُن میں ڈسپلن نہیں ہو تا سب کچھ بیکار اور بے سود ہے۔ اُس انسان میں اپنے فرض کا بڑا بلند احساس تھا۔ و ہ کام جو کرنا لازمی تھا وہ ہمیشہ اُسے پہلے کیا کرتا تھا۔ آرام ، عیش اور اپنی بہتری کو وہ اس کے بعد سمجھتا تھا۔ وہ ایمان دار تھا۔ لیکن اس ایمان اور عمل میں چولی دامن کا ساتھ تھا۔ وہ اسی چیز کو کافی نہیں سمجھتا تھا کہ اس کے بچے خوش ہیں اور اُن کی اچھی طرح سے نگہداشت کی جاتی ہے۔ اور اگر بچے فرمانبردار ہوں تو بھی وہ اِسے بڑی اہمیت نہیں دیا کرتا تھا۔ بچوں کو اپنا فرض ادا کر نا چاہیے وہ اپنے روز مرہ کے کام کرتے رہیں۔ اور وہ اپنے آپ میں ایسی عادا ت پیدا کریں جس سے وہ آئندہ زندگی میں قابل ِاعتماد انسان بن سکیں۔


باب ہژدہم

صلیب اور ثمر باری

ہندوستان کی دو ہنا در فیلو شؔپ سے درج ذیل کہانی منسوب ہے۔ ایک ہسپتال کی بہت سی نرسیں ایک عورت کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کرنا چاہتی تھیں۔ لیکن وہ ہمیشہ بے تو جہی کا اظہار کیا کرتی تھی۔ اس عورت کا خیال تھا کہ یہ نرسیں محض باتیں کیا کرتی ہیں اور اس لئے اس نے اُن کی کسی بات کو درخوراحتنانہ سمجھا ۔ ایک دن اُس نے کو ہیلؔا نرس کو ایک ننھے بچے کی تیمارداری کرتے ہوئے دیکھا۔ کچھ عرصہ وہ عورت خاموش رہی ، لیکن ایک دن وہ نرس سے یوں کہنے لگی ’’ تم یہ کیوں کرتی ہو‘‘؟ کو ہیلؔا نرس نے جواب دیا ’’ میں اپنے آپ سے یہ نہیں کرتی ہوں، بلکہ خداوند یسوع کی محبت مجھ سے ایسا کر واتی ہے۔ اس نے مجھے اس بچے سے محبت کرنا سکھا یا ہے‘‘۔ اس عورت نے جواب دیا ’’ مَیں نے خداوند مسیح کے بارے میں لوگوں کو باتیں کرتےسنا ہے ۔لیکن میرا خیال تھا کہ یہ محض باتیں ہی ہیں۔ لیکن اب مَیں نے اس کو دیکھ لیا ہے اور میں یہ جانتی ہوں کہ یہ محض باتیں ہی نہیں ہیں‘‘ ۔ اس نے بغور سنا اور دل سے خداوند مسیح کو قبول کر لیا اور اُسے معلوم تھا کہ اُسے اس کی کیا قیمت ادا کرنی پڑے گی ۔ وہ بڑی دلیر عورت تھی ۔ لیکن دو مہینے کے عرصے میں اُس کی پُرانی انسانیت مر گئی ۔ اُس مو ت کا مطلب یہ تھا کہ جو کچھ اُسے اس سے پیشتر معلوم تھا وہ سب ختم ہو جائے گا۔ اور اَب ا ُسے اپنے خداوند کی خاطر بڑا دُکھ اُٹھا نا پڑے گا ۔ یعنی خداوند صلح کرانے نہیں بلکہ تلوار چلانے آیا ہے۔ اُس نے دیکھا کہ اب اس کی آنکھوں کے سامنے کو ہیلؔا نرس کی زندگی میں مسیح مصلوب ہو چکا ہے۔ جب ہم صلیب سے ہم آغوش ہوتے ہیں اور صلیب کے مطابق زندگی گزارتے ہیں تو دُنیا مسیح مصلوب کو دیکھ سکتی ہے۔ مسیح کو جسم اور خون کے ساتھ دُنیا کے سامنے ’’اونچے پر چڑھا یا‘‘ جانا چاہیے ۔ پس اسی طرح سے وہ آدمیوں کو اپنے پاس کھینچ لے گا ۔

مقدس پولُس رسول نے گلیتوں کو انجیل مقدس کی تعلیم دیتے ہوئے کہا’’اے نادان گلتیو ! کس نے تم پر افسوس کر لیا ؟ تمہاری تو گویا آنکھوں کے سامنے یسوع مسیح صلیب پر چڑھا یا گیا ‘‘۔ ایک دفعہ راقم الحروف کے روحانی باپ کو چند نوجوانوں نے بُری طرح سے طعن و تشنیع (بُرابھلا کہنا)کی ۔ یہ نوجوان ادب و اخلاق سے بالکل کو رے (خالی)تھے۔ میرے اس روحانی باپ نے خداوند مسیح کے بّر ے ہونے کاایسا مظاہر ہ کیا کہ چند تماشائیوں نے دیکھ کر یہ کہا کہ دشمن بہت ہی گندی چال چل رہے ہیں۔ اور خدا نے اس مرد خدا کو اُن ہی دشمنوں کے سامنے راستباز ٹھہرایا ۔ اس وقت اس مردِ حق نے کہا ’’ اچھا تو ان ہی آدمیوں کی آنکھوں کے سامنے یسوع مسیح مصلوب کو دکھا یا گیا ‘‘۔ وہ لوگ جنہوں نےاپنی آنکھو ں سے یہ تما شا دیکھا کہ اس نیک مرد پر طعن و تشیع کی بوچھا ڑکی گئی ہے۔ او ر اس سے صریحاً بے انصافی اور زیادتی ہو رہی ہے۔ وہ نئے سرے سے خداوند مسیح مصلوب منجی عالمین کے قدموں کے پاس آگئے ۔ رابرٹ مؔرے نے کہاہے


’’ دُنیا کے لو گ بار بار اُن آدمیوں کے پاس آتےہیں ۔ جنہوں نے روحانی بھیدوں پر عبور حاصل کر لیا ہے ۔ ان لوگوں کی زندگی مسیح کے ساتھ خدا میں پوشیدہ ہے۔ یہ لوگ پُرانے وقتو ں کے مذہب کے پیرو کار ہیں۔ وہ بھی خداوند کی صلیب کے ساتھ میخوں سے جڑے ہوئے ہیں‘‘۔

ایک معزز خاتون مؔیری کو شمالی سائے بیریا میں جلا وطن کر کے بھیج دیا گیا ۔ وہ طرح طرح کی صعوبتیں جھیل رہی تھی۔ اس نے اِس جگہ سے تحریر فرمایا ’’یہاں ایسی سوسائٹی ہےجس میں خدا نہیں ہے۔ ایک ممبر کو مجھ سے ہمدرد ی پیدا ہو گئی۔ تو مَیں نے اُس سے کہا کہ مجھے سمجھ آتی کہ تم کس قسم کی خاتون ہو ۔ تمہاری بے عزتی کی جاتی ہے اور تمہیں گالیا ں دی جاتی ہیں۔ آپ پھر بھی ان سب سے محبت کرتی ہیں۔ اُس نے مجھے بڑا دُکھ دیا لیکن میں اس کے لئے دُعا کرتی رہی۔ تھوڑے عرصہ کے بعد اُس نے مجھ سے کہا کہ کیا مَیں اُس کو پیار کر سکتی ہوں۔ مَیں نے اپنے ہاتھ اس کی طرف بڑھائے ۔ہم ایک دوسرے سے بغل گیر ہوئیں اور رونے لگیں ۔ اب ہم دونوں اکٹھی دُعا کرتی ہیں ۔ اُس کا نام باؔر برا ہے‘‘۔

چند مہینوں کے بعد مؔیری کی طرف سے ایک اور خط موصول ہو ا جس میں اُس نے ذکر کیا تھا کہ باؔر برا نے بڑی دلیری کے ساتھ اس لا مذہب معاشرے میں اپنے ایمان کا اقرار کیا ہے۔ اور اسی لئے اُسے جیل میں بھیج دیا گیا ہے۔ مؔیری لکھتی ہیں۔’’ کل مَیں پہلی مرتبہ اپنی پیاری باؔر برا کو جیل میں ملنے کے لئے گئی۔ وہ بڑی کمزور اور پیلی دکھائی دیتی تھی۔ اس کے جسم پر لاسوں کے نشان تھے۔ لیکن اُس کی آنکھوں میں چمک باقی تھی۔ وہ آسمانی اطمینان اور خوشی سے لبریز نظر آتی تھیں ۔ وہ لوگ کتنے خوش نصیب ہیں جنہیں یہ اطمینان میسر ہے ۔ یہ چیز دُکھ سہہ کر ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ اس لئے ہمیں کسی طرح کے دُکھ یا تکلیف سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ مَیں نے جیل کی سلاخوں میں سے اُس سے کہا ’’ بار برا ! کیا تم اپنے کئے پر نادم (شرمندہ)تو نہیں ہو‘‘؟ اُس نے اطمینان سے جواب دیا ۔’’ نہیں ۔ اگر وہ آج مجھے جیل سے رہا کر دیں تو میں اپنے ساتھیوں کے پاس جا کر انہیں بتاؤں گی کہ میرے لئے خداوند مسیح یسوع نے کیسے عجیب کام کئے ہیں۔ میں اُنہیں خداوند مسیح کی محبت کے متعلق خبر دُوں گی ۔ مجھے اس بات کی بڑی خوشی ہے کہ خُداوند مجھے اتنا پیا ر کرتا ہے اور مجھے اس قابل سمجھتا ہے کہ مَیں اُس کی خاطر دُکھ اُٹھا ؤں‘‘ ۔ آپ یہ غور کریں کہ خد ا کا بّرہ مؔیری میں اس طر ح سے زندہ تھا ۔ کہ باؔر برا نے ایک ہی نظر میں مافوق الفطرت منجی کو اس میں دیکھ لیا ، اور وہ اس کی طرح کھنچی آئی ۔ وہ سمجھ تو نہیں سکتی تھی۔ لیکن اُسے یہ محسوس ہو ا کہ مؔیری اس روحانی راز سے واقف ہے۔ مؔیری صلیب سے ہم آغوش ہو چکی تھی ۔ اُن کا مسیح دیکھا جا چکا تھا۔ مؔیری کی محبت اپنے دشمنوں کے لئے کنجی تھی جس سے باؔر برا کا دل کھو لا گیا ۔

سمجھتا ہے اپنے نفع کو خسارا مسیحا ترا جلوہ دیکھا ہے جس نے
تو ہی بحرِاُمید کا ہے کنارا اگر مل گیا تُو،تو ہے ہیچ سب کچھ
گنہگار کو شادمانی ملی ہے تیرے سایہ عاطفت میں ہمیشہ
انہیں پھر نئی زندگانی مِلی ہے جو تھے غرق بحر ِفنا اے مسیحا

تو ہی مشکلوں میں ہے اپنا سہار ا گناہوں کا بار گراں سر پہ ہو گر
ہمارے گناہوں کا تو ہے کفارا تیرے در پہ سجدے میں ہے سر جُھکا یا

لوگوں کو خداوند مسیح کے پاس لانا کیسا بڑا کا م ہے ! ہمیں خداوند مسیح کو لوگوں کے سامنے پیش کر نا ہے۔ کسی نہ کسی طرح سے ہمیں لوگوں کو خدا وند مسیح دینا چاہیے ۔ محض اُس کے نام کی بشارت دینا ہی کافی نہیں ہے۔ بلکہ ہمیں خداوند مسیح کو دوسروں کے سامنے پیش بھی کرنا چاہیے ۔ ہماری خداوند مسیح کے ساتھ ایسی مشابہت ہونی چاہیے کہ ایک معنی میں یہ سچ ہو ’’ مَیں جو تجھ سے بول رہا ہوا وہی ہوں‘‘۔ اور خداوند مسیح کو اُس کے ساتھ مرنے سے ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ صلیب میں ہی سب سے بڑی جاذبیت(پُرکشش) ہے۔ سی ۔ ایم ۔ کلؔو نے کہا ہے’’ مسیحی کلیسیا ء کا نشان جلتی ہوئی جھاڑی ، کبوتری کھلی ہوئی کتاب ، کسی کے مقدس سر پرہا لہ ، یا شاندار تاج نہیں ہے ، بلکہ مسیحی کلیسیاء کا نشان صلیب ہے‘‘۔ بہت سے لوگ یونہی بغیر سوچے سمجھے یہ گیت گاتے ہیں۔

اُس کا جو ش محبت ملے مجھ کو کاشکہ یسوع کی سیرت مجھ میں ہو
کا شکہ یسوع کی سیر ت مجھ میں ہو روح الہٰی تو آ اور مجھ کو جِلا

لیکن ممکن ہے کہ خوشی کے اظہار سے ہم یسوع کو دوسرے لوگوں کو دکھا نہ سکیں۔ پولُس رسول نے کہا ہے ’’پس موت تو ہم میں اثر کرتی ہے اور زندگی تم میں ‘‘۔ پولُس نے کبھی یہ خیال نہ کیا خوشی کی زندگی لوگوں کے لئے کشش کا باعث ہو سکتی ہے۔ خدا کو اس سے بھی زیادہ خوش لوگوں کی ضرورت ہے۔ لیکن وہ لوگ کلام کو’’ بڑی مصیبت میں روح القدس کی خوشی کے ساتھ ‘‘قبول کرنے والے ہوں۔ یہ چیز خوشی اور شادمانی سے کہیں زیادہ گہری ہے۔ صرف ایک ہی طریقے سے ہم روحوں کو مسیح کی طرف لا سکتے ہیں۔ اور یہ طریقہ صلیب ،قربانی اور موت کا ہے۔ ایک مبشر روح سے معمور تھا ۔ وہ بڑی مدت سے انجیل کا پیغام سنا رہا تھا۔ اُس نے لوگوں کی گالی گلوچ کی برداشت کی تھی ۔ اس نے اپنی بار آور خدمت کے متعلق کہا ہے۔ ہم ایک چیز کو مشخص (تجویز کیاگیا)کر لیا اور وہی چیز کشش کا باعث تھی ۔ میں اس فریب میں مبتلا نہیں ہونا چاہتا کہ مجھ میں کوئی ایسی چیز تھی جس کی وجہ سے لوگ میری طرف کھنچے چلے آتے تھے۔ مَیں نے خداوند مسیح سے کہا ۔ ’’اے خداوند ! اگر تو مجھے کنجیا ں عطا فرمائے تو میں ہر چیز کی برداشت کروں گا ‘‘۔

اور اگر مجھ سے پوچھا جائے کہ ہماری قوت کا راز کیا تھا ۔ تو مَیں جواب دُوں گا ۔’’ پہلی بات محبت ،دوسری بات محبت اور تیسری بات محبت‘‘ ۔ اور اگر آپ کہیں کہ محبت کیسے حاصل ہو سکتی ہے تو میں کہوں گا ’’ پہلے قربانی سے، دوسرے قربانی سے اور تیسرے قربانی سے‘‘ ۔ صلیب کا اصول ہی ہماری زندگی کا اصول ہونا چاہیے ۔ ہمیں اس کے لئے ایسے ہی پیاسا ہونا چاہیے جیسے ہم زندگی کے پانی کےپیاسے ہیں۔ خداوند مسیح ہمارا شریعت دینے والا ہو اور وہی برّہ بھی ہو، اور قربانی ہماری روز مرہ کی زندگی کا اصول ہونا چاہیے ۔


مجھے علا یق دُنیا سے بے نیاز کیا مجھے صلیب کی نعمت سے سر فراز کیا
مَیں مر چکا تھا مگر تو نے سر فراز کیا مَیں کس طرح تیری رحمت سے دُور ہو جاؤں

یقینا ہماری بہت سی راسخ الا عتقاد کلیسیاؤں میں یہ خامی ہے۔ کہ وہ گندم کے بڑے بڑے ذخیرہ خانوں کی طرح ہیں۔ ان میں ایسی گندم بھری ہوئی ہے۔ جو پھل نہیں لا سکتی ۔ وہ گندم گل سڑ گئی ہے۔ اور حسد اور لا لچ کے چوہوں نے اُسے خراب کر دیا ہے۔ اگر اس گندم کے ہر ایک دانے کو خوشوں سے علیٰحدہ کر کے زرخیز اور نمی والی زمین میں بویا جائے اور وہ دانہ زمین میں مر جائے تو ہمیں لہلہاتی ہر ی بھری کھیتیاں نظر آئیں گی ۔

پچھلے چند سالوں سے نوجوانوں کے گاسپل گروپوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ بڑی خوشی کا مقام ہے لیکن اس میں بہت بڑا خطرہ بھی ہے ۔ اپنے اپنے گروپ کے رنگ میں ہم رنگے جاتے ہیں، یعنی جسم کی تمام رغبتیں بیدار ہو جاتی ہیں ۔ یہ رغبتیں احساساتی اور فطری ہوتی ہیں۔ اور ہمیں خدا کی ’’ گندم ‘‘ بننے کے راستے میں حائل ہوتی ہیں۔ حضرت یوسف جس نے اپنی قوم کی امداد فرمائی اور مصر میں تمام مشکلات پر غالب آیا اُس نے اپنے بھائیوں سے علیحدہ ہو کر ہی اتنا بڑا مرتبہ حاصل کیا ۔ اُسے شاہی مرتبہ عطا ہو ا ۔ وہ تیرہ (۱۳)برس تک اپنے بھائیوں سے جُدا رہا ۔ وہ گویا غلام تھا۔ اُس پر شبہ بھی کیا گیا اور اُس کی توہین بھی کی گئی ۔ ہر ایک مسیحی کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا چاہیے ۔ اپنی مشکلات خود ہی برداشت کرنی چاہییں۔ اور اپنی زندگی کے کوہ موؔریاہ پر خود چڑھنا چاہیے ۔ شہیدوں نے اکیلے ہی جام شہادت نو ش کیا تھا اور اسی طرح سے ہمیں بھی سب کچھ اپنی ذات پر برداشت کرنا چاہیے ۔

صلیب ہی حیات ہے صلیب ہی نجات ہے

صلیب راز منفعت صلیب کی کیا بات ہے

زمین میں بیج مر گیا تو اُس کو زندگی ملی

جو مر کے جی سکے نہ اُس کس طرح ثبات ہے

ہری بھر ی یہ کھیتیاں یہ سبزہ زار ر فشا ں

ہزاروں بیج ، مر گئےتو تب ہی یہ بات ہے

مسیح دو جہاں مرے لئے ہے غم کا آشنا

بلند اُس کی شان اور پاک اُس کی ذات ہے

اُسی کا نام صبح و شام ل کے جی رہا ہو ں مَیں

اسی کی مہربانیوں کا جام پی رہا ہوں مَیں


وہ لوگ جن پر مُردنی چھائی ہوئی ہے ۔ اور اُس کے تمام کام مردہ ہیں، اُن کی زندگی بے ثمر ہے اور وہ ایسی زندگی سے بیزار ہیں۔ ہم ایسے ہی لوگوں سے اپیل کر رہے ہیں۔ اَے بنجر اور بے گیاہ روح خدا کا کلام سُن ۔’’ تو خود جو کچھ بوتا ہے جب تک وہ نہ مرے زندہ نہیں کیا جاتا ‘‘۔ کیا اس کتاب کا پڑھنے والا مسیحی زندگی بسر کرنے کی کوشش کر رہا ہے؟ کیا وہ مسیح کے لئے کام کر رہا ہے ؟ کیا وہ پھل لا رہا ہے ؟ جب تک آپ نہ مریں آپ زندہ نہیں رہ سکتے ۔موت زندگی سے پہلے آتی ہے۔’’ جب تک گیہوں کا دانہ زمین میں گر کر مر نہیں جاتا اکیلا رہتا ہے لیکن جب مر جاتا ہے تو بہت سا پھل لا تا ہے ‘‘۔ چائنا ان لینڈ مؔشن کے بانی جے ۔ ہڈسؔن ٹیلر نے ایک مرتبہ کہا ’’ہم جانتے ہیں کہ کس طرح خداوند یسوع مسیح پھل لا یا ۔ وہ محض اپنی صلیب اُٹھانے سےہی اس مرتبہ کو نہ پہنچا بلکہ وہ صلیب پر مر گیا ۔ کیا اس معاملہ میں ہماری اُس کے ساتھ مشابہت ہے؟ دو مسیح نہیں ہیں کہ ایک توآرام طلب اور سہل انگار مسیحیوں کے لئے ہو او ر دوسرا مسیح دُکھ اُٹھانے والا اور تکا لیف برداشت کر نے والا جوخاص ایمان داروں کے لئے ہو ۔ صرف ایک ہی مسیح ہے۔ کیا آپ اُس میں قائم رہیں گے ۔ اور اس طرح سے بہت سا پھل لائیں گے ؟ موت ہی زندگی کا دروازہ ہے۔ یہی وہ زندگی ہے جو مر کر حاصل ہوتی ہے اور یہ کئی گُنا پھل لانے والی زندگی ہے ۔ اپنی خود ی کا انکاری کر نے سے ہی ہم اپنی زندگی کو بچا سکتے ہیں۔ اور اپنی جان کو بچانا اپنی جا ن کو کھونا ہے ۔ اور اپنی جان کھونے سے ہی جان بچ سکتی ہے ۔ ہم ابدی اور اٹل شریعت سے کس طرح سے بچ سکتے ہیں ۔ جس میں اپنے آپ کی قربانی سے ہی پھل لانے والی زندگی حاصل ہو سکتی ہے ۔

نظر آرہی ہے بہار جوانی زمین پر سمندر میں اور آسمان پر
پیام وصال نگار جوانی مگر زندگی موت کو دے رہی ہے
مہکتا ہے پھر لالہ زار جوانی اگر بیج مٹی میں مل کر فنا ہو
اسی موت میں ہے نئی زندگانی یہی موت ہے زندگی کی نشانی

مسز پین لؔوئیس کی تحریروں سے بہت سے لوگوں نے استفادہ حاصل کیا ہے ۔ گُناہ کی محکو میت سے چھٹکار ا حاصل کرنے کے بعد وہ اپنی زندگی میں ایک بحران کا ذکر کرتی ہیں۔ انہیں خداوند مسیح کا تجربہ ہو ا ۔ تو اُن کی زندگی خوشی سے معمور ہو گئی۔ انہوں نے خداوند مسیح کی صلیب کے متعلق ایک کتاب کا مطالعہ کرنا شروع کر دیا ۔ وہ کہتی ہیں ’’ مطالعہ کے دوران میں مَیں نے صلیب کا راستہ اور جو کچھ اس سے مُراد ہے معلوم کیا ۔ پہلے تو مَیں نے وہ کتاب پر ے رکھ دی اور کہنے لگی۔ مَیں صلیب کا راستہ اختیار نہیں کرو ں گی ۔ مجھے اب تک جو اس کی تجلی کا تجربہ ہوا ہے میں اُسے کھو دُوں گی ۔ لیکن اگلے دن مَیں نے پھر اس کتاب کو اُٹھا یا اور خداوند نے مجھے بڑی نرمی سے فرمایا اگر تم گہری زندگی اور خدا کے ساتھ رفاقت چاہتی ہو تو بس یہی راستہ ہے۔ مَیں نے خیال کیا کہ کیا مَیں یہ راستہ اختیار کروں۔ لیکن پھر میں نے یہ راستہ اختیار نہ کرنا چاہا۔ مَیں نے پھر کتاب کو پرے رکھ دیا ۔ تیسرے دن میں نے پھر کتاب کو اُٹھا یا ۔ خداوند نے مجھ سے کہا ۔’’ اگر تم پھل کی تمنارکھتی ہو تو یہی راستہ ہے۔ مَیں تم سے تمہاری شعوری خُوشی چھین نہیں لُوں گا ۔ تم اگر چاہو تو اُس خوشی کو بھی اپنے پاس رکھو ۔ لیکن یا تو یہ خوشی اپنے پاس رکھو ۔۔۔۔۔۔یا صلیب ۔ تُم کون سی چیز لینا چاہتی ہو‘‘ ؟ تب مَیں نے اُس کے فضل سے کہا ’’ مَیں ثمر باری کا راستہ انتخاب کرتی ہو ں، اور ہر وہ تجربہ جس کا مجھے علم تھا ختم ہو گیا ۔ تھوڑے عرصہ تک تو میں بڑی تاریکی میں اِدھر اُدھر بھٹکتی رہی ۔


اسے ایمان کی تاریکی کہہ لیجئے ۔ مجھے ایسا معلوم ہونے لگا ۔ جیسے خُدا خد ا کا وجود ہی نہیں ہے۔ اَور پھر اُس کے فضل سے مَیں نے کہا ’’ مجھے وہی کچھ ملا ہے جس پر مَیں رضا مند ہو ئی تھی۔ مجھے یہ معلو م نہیں تھا کہ اُس کا کیا نتیجہ ہو گا ۔ اس کے بعد میں دُعائیہ اجلاس میں شریک ہوئی ۔ اُس وقت مُجھے رُوح کے پھل کا علم ہو ا۔ مجھ پر یہ بھید کھلا ۔ عمل سے نہیں بلکہ اُس کے ساتھ مرنے میں روحانی پھل پیدا ہو سکتا ہے۔ پھلدا ر زندگی کا مختصر راز یہ ہے کہ جہاں تک ہو سکے ۔ دُوسرو ں کی خدمت کرو اور اپنی فکر نہ کرو ۔ اپنے آپ کو اس کے ہاتھو ں میں سپرد کر دو۔ اور اس بات کی فکر نہ کرو ۔ کہ تمہارے ساتھ کیا بنے گا۔

باب نو زدہم

صلیب اور روز مّرہ کی زندگی

مسیحی زندگی کے حقائق کا تجربہ شاہد ہے کہ بہت سے ایمان دار تھوڑے عرصہ کے لئے (رومیوں باب ۷ )کے بیابان میں بھٹکتے پھرتے ہیں یعنی وہ ملی جُلی اور بٹی ہوئی رغبتوں کی سر زمین میں رہتے ہیں۔ اس کے بعد وُہ خُدا وند مسیح یعنی فتح مند زندگی میں داخل ہوتےہیں۔ رسول عظیم پولُس اپنی تبدیلی کے بعد اپنی باطنی زندگی کی تباہی کا المیہ بیان کر تا ہے ۔ وہ مایوس ہو کر یوں چلا اُٹھتا ہے۔’’ ہائے میں کیسا کم بخت آدمی ہوں مجھے اس مو ت کے بد ن سے کون چھڑائے گا‘‘( رومیوں ۷: ۲۴)۔ تب اس کو اس کا علم ہوا اور اس نے (رومیوں ۶: ۱۱)۔ میں لکھا ’’ اسی طرح تُم بھی اپنے آپ کو گناہ کے اعتبار سے مُردہ مگر خدا کے اعتبار سے خداوند مسیح یسوع میں زندہ سمجھو ‘‘۔ اُسے معلوم ہوا کہ اس نفرت انگیز زندگی کی غلامی سے ارادے کے ذریعہ سے نہیں بلکہ مسیح کے ساتھ مصلوب ہونے سے چھٹکارا مل سکتا ہے ۔

زیر یا سویر ہم میں سے کئی ایمان لانے والے اپنی گنہگار زندگی سے آگاہ ہو جاتے ہیں۔ ہمیں بھی خدا وند مسیح کے لئے زندہ رہنا چاہیے ۔ ہم راستبازی کے بھوکے اور پیا سے ہیں۔ لیکن افسوس کیسے المناک طریقے سے ہماری جسمانی مرضی زندگی کے چشموں کے راستے میں حائل ہوتی ہے ۔ ہماری زندگی کی ندی صاف ستھری نہیں بلکہ اُس میں گدلا پانی بہتاہے ۔ ہم لڑتے ہیں ،دُعا کرتے اور جدوجہد میں لگے رہتے ہیں۔ ہم اپنے ارادوں کو اور زیادہ بڑھا دیتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں باطنی صلیب کا تجربہ ہونا چاہیے اور صلیب ہر ایک مسیحی کی زندگی کا مرکز چاہیے ۔ ہم اپنے آپ کو مصلوب کرتے ہیں لیکن اس سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔ نفس نفس کو نہ ہی صلیب پر چڑھا سکتا ہے اور نہ ہی صلیب پر چڑھا ئے گا۔اس مایوسی کی حالت میں ہم اپنی ہی موت کے حکم پر دستخط ثبت کرتے ہیں۔ ہم موت کے ذریعہ مسیح کے ساتھ شریک ہو جاتے ہیں۔ ۔۔۔۔ہم اپنی نفساتی خواہشات کو چھوڑ کر خد ا کے ہو جاتے ہیں۔ ہم اُسی کے سامنے سر جھکاتے ہیں ۔ ہم ہمیشہ کے ایمان کے ساتھ وہی صورت قبول کر لیتے ہیں جو خدا ہمیں عطا کرتا ہے ۔ یعنی مسیح کی موت اور اُس کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے میں ہم شریک ہوتے ہیں ۔


فتحمند مسیحی زندگی کا یہی آغاز ہے۔ لیکن یہ حرفِ آغاز ہی ہے ۔ یہ موت کی صور ت جب قبول کر لی جاتی ہے ۔ تو پھر اُسے سیکھا جاتا ہے ۔ مصلوب کی زندگی کو لمحہ بہ لمحہ حاصل کیا جاتا ہے ۔ یہ صلیب ہمیشہ کے لئے ہے اور یہی صلیب’’ ہر روز ‘‘اُٹھائی جاتی ہے۔ یہ عمل تا زندگی کرنا پڑتا ہے۔ ’’اگر کوئی میرے پیچھے آنا چاہے تو اپنی خودی سے انکار کرے اور ہر روز اپنی صلیب اُٹھائے اور میرے پیچھے ہو لے ‘‘( لو قا ۹ : ۲۳)۔ اُس زمانہ کے شاگردوں نے قاتلوں اور مجرموں کا جلوس دیکھا ہو گا ۔ جو اپنی صلیبیں اُٹھائے ہوئے مصلوب ہونے کے لئے جاتے ہوں گے۔

یہ ہمیشہ کے لئے صلیب اُٹھا نا اور ہرروز صلیب اُٹھانے کا معاملہ ایسا ہے جس کے متعلق بشپ مو لؔے نے کہا ہے کہ

’’صلیب میں اتنا ہے محال مجسم ہوتا ہے ۔ ایک طرف تو مکمل اور صحیح خود انکاری لازمی ہے اور دوسری طرف ہر روز اپنے آپ کو صلیب پر چڑھانے کی ضرورت ہے ہم مسیح مصلوب کے پیرو کار ہیں۔ ہمیں ہمیشہ کے لئے اُس کے سامنے سر تسلیم خم کر دینا چاہیے ۔ اُسی کو مکمل سر تسلیم خم کرنا کہا گیا ہے یعنی ہمارے تمام اعمال پر حادی ہے اور ہما ری ساری زندگی میں ہمارا ساتھ دیتی ہے‘‘۔

صلیب کی زندگی کوئی جو ہر یا ہنر نہیں ہے بلکہ زندگی کو شیوہ ہے یہ منزل مقصود نہیں بلکہ شاہراہ ہے ۔کوئی ایسی بنی بنائی پاکیزگی نہیں جسے لباس کی طرح زیب تن کیا جا سکتا ہے۔ خدا یک ہی مرتبہ ہمیں سب کچھ نہیں دکھا دیتا ۔ وہ لوگ جو فتح مند مسیحی زندگی میں داخل ہو چکے ہیں اُن کو اپنی ساری زندگی کی گہرائیوں کا گہرا مکا شفہ ہوتا رہے گا ۔ اس کے متعلق کتاب مقدس یوں کہتی ہے ۔’’یہ غرض کہ میں پا چکا یا کامل ہو چکا ہو ں‘‘۔

’’ہر روز ‘‘ صلیب اُٹھانے کے متعلق بشپ مولؔے فرماتے ہی کہ صلیب اُٹھانے میں نہ ہی کسی قسم کی کوتاہی ہو سکتی ہے ۔ اور نہ ہی کوئی چھٹی منائی جا سکتی ہے ۔ صلیب ہر وقت، ہر لمحہ ، ابھی آج اور کل اُٹھانی چاہیے اور یہ ہر روز کی صلیب ذِلت اور اذیت کا سبب ہے اور یہ اذیت کیا ہے ؟ ہر وہ چیز جس کے ذریعہ خدا کو اپنے آپ کو دے دینے کا امتحان ہو سکتا ہے یا وہ چیز جو پُرا نے مقاصد ، تجاویز، ارادوں اور جسم کی پُرانی روح اور زندگی شرمند ہ کرتی اور اُنہیں فنا کر دیتی ہے۔

نئے مواقع ، تازہ آزمائشیں اور مشکل حالات ہمیں خدا کی نفس کی مرضی کے سامنے لے آتے ہیں ۔ اگر ہمارے دِل میں خدا کے ساتھ ساتھ چلنے کی بھوک ہے اور آپ ہر قیمت پر سچائی معلوم کرنا چاہتے ہیں تو ہم صلیب کی طرف متوجہ ہو ں گے ۔ ہم میں سے ہر ایک کے راستہ میں ہر روز صلیب ہوتی ہے ۔ وہ صلیب ہمارے انتظار میں رہتی ہے ۔قدرتی حالات ہمیں ایسے مواقع بہم پہنچاتے ہیں جو نفس کو صلیب پر کھینچ دیتے ہیں۔ اس سے ہماری اپنی مرضی کی موت واقع ہو گی ۔

بشپ ڈرہؔم ہر روز صلیب کو یوں پیش کرتا ہے ۔ روز مرہ کی زندگی کے معمولی واقعات ، چھوٹی چھوٹی باتوں میں رنجش ، فرائض کا اجتماع ، غیر متوقع دخل در معقولات اور نا پسند ید ہ چیزیں جو توجہ کو اپنی طرف کھینچتی ہیں ۔ کل ان ہی چیزوں نے آپ کو خوف زدہ کیا تھا۔ اور اندرونی طور پر آپ کو پریشان کر رکھا تھا ۔


ٓج اس کے برعکس آپ ان چیزوں کے خلاف اپنا ہاتھ اُٹھاتے ہیں اور ان چیزوں کو نفس کی پُرانی روح کے خلاف توہین و تذلیل اور موت کا ذریعہ ٹھہراتے ہیں ۔ آپ نے انہیں ایسے قبول کیا تھا ۔ جیسے آپ اُن کی پرستش کریں گے۔ لیکن اب آپ بڑی شکر گزاری کے ساتھ اُنہیں کلوری پر مصلوب کرنے کے لئے لے جارہے ہیں۔ اور کل بھی آپ ایسا ہی کریں گے ۔

بعض اوقات آپ یوں کہتے ہیں ’’ خداوند یہ نہیں بلکہ کوئی اور چیز‘‘ آپ ڈرتے ہیں کہ کہیں آپ کا اس سے سامنا نہ ہو اور پھر یہ چیز آپ پر آن پڑتی ہے۔ خد اکی فرمانبرداری سے نئی تکلیفات اور رنج و غم کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ لیکن خدا کی حکمت کے ذریعہ سے نفس کو کلوری پر چڑھا یا جائے گا ۔ اس لئے اِسے لے لو ۔ اس کی طرف اپنے ہاتھ بڑھاؤ اور نفس سے از سر نو قطع تعلق کر لو ۔ اس کی طرف اپنے ہاتھ بڑھاؤ اور نفس سے از سر نو قطع تعلق کر لو ۔ جب خدا وند مسیح نے صلیب کو کندھوں پر اُٹھا یا تو وہ اپنی جان قربان کر نے کے لئے آگے بڑھا ۔ اس کے شاگرد ہونے کی حیثیت سے تم بھی یہی کرو گے ۔ خدا وندمسیح کا یہ مقصد ہے کہ تم اس امتحان میں پور ے اُترو ۔ اسی جگہ تم اپنے نفس چھوڑ کر مسیح کو یاد رکھو گے ۔ جب آپ کے سامنے اس قسم کا موقع آئے تو یہی آپ کو صلیب ہو گی ۔ ہمیں یہ نہیں خیال کرنا چاہیے کہ صلیب نہایت ہی ضرور ی ہے۔ اس سے گریز نہیں کیا جا سکتا جس طرح بد نصیبی جسمانی روگ اور آفات سے مفر (بھاگنے کی جگہ، جائےفرار)ممکن نہیں ہوتا ، ہماری صلیب یہ ہے کہ ہم رضا کارانہ طور پر ایسا راستہ اختیار کرتے ہیں ۔ جس سے ہمارے نفس کو خود انکاری توہین اور موت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اور ہمیں حقیقت میں اپنی جان بھی دینی پڑتی ہے۔ جب ہم صلیب سے ہم کنار ہو تے ہیں تو گلگتا ہماری منزل مقصود ہوتی ہے۔

کیا اس کتاب کا قاری کبھی شک و شبہ ذلت اور بے عزتی کے جال میں پھنسا ہے ؟ دِل برداشتہ نہ ہو ۔ اپنے آپ کو اُس کے سامنے پیش کر دو ۔ تما م چیز یں خداوند مسیح کے تابع ہیں اور لوگ جو خُدا سے محبت کرتے ہیں ۔ تمام چیزیں مل کر اُن کے لئے بھلائی پیدا کرتی ہیں۔ اِس موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دو ۔ اسے اپنی صلیب سمجھو اور اپنی جان کھونے کے لئے آگے بڑھو ۔ دُنیا اسے محض معمولی چیز خیال کرتی ہے ۔ مگر ہم اس سے ہمکنار ہوتے ہیں کہ یہ ہماری صلیب ہے ۔ اس کی طرف اپنے ہاتھ بڑھاتے ہیں اور جان قربان کر دیتے ہیں۔ اِسی طرح سے ہم بے عزتی کا وہ لباس پہنتے ہیں جو خداوند مسیح نے پہنا تھا ۔

ممکن ہے کہ آپ کی صحت خراب ہو ۔ اس ہو آپ کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ اب اسی کمزوری کے ساتھ یوں نباہ کرو اور یوں سمجھو کہ اس کے ذریعہ سے آپ کی پُرانی تمناؤں اور فخر کا خاتمہ ہو گا ۔ پولس نے اُس ’’کانٹے ‘‘ کو قبول کر لیا اگر چہ وہ کانٹا شیطان کا ایلچی تھا تا کہ اُسے تکلیف میں مُبتلا کرے ۔ پولُس رسول نے اس سے یہ بات سیکھی ۔’’ جب مَیں کمزور ہوتا ہوں ۔ اُسی وقت زور آور ہوتا ہوں‘‘۔

کیا آپ کی نمائندگی اچھی طرح سے نہیں ہوئی ، اور آپ کی بھلائی کو بُرائی سمجھا گیا ہے؟ ہمارا منجی کہتا ہے ’’ خوشی کرنا اور نہایت شادمان ہونا ‘‘ لیکن اس سے پیشتر کہ آپ شادمان ہوں آپ کے لئے ضروری ہےکہ آپ اپنے ہاتھ بڑھائیں تا کہ اُن میں کیل ٹھونکے جائیں جیسا کہ خداوند مسیح کے ساتھ ہوا تھا۔ ایک نیک مر د تھا ۔ اس نے مسیح کی خاطر صلیب کا ذلّت آمیز راستہ اختیار کیا ۔ اُس نے نئی روشنی کی ایک کلیسیا ء سے قطع تعلق کر لیا اور وہ اُس گلہ سے باہر چلا گیا ۔ لوگوں نے اُس پر طعن و تشنیع (گالی گلوچ)کی بو چھاڑ کی ۔ اُس پر جھوٹے الزام لگائے گئے ۔ کہ وہ’’ ہمچو ماد یگر ے نیست ‘‘ قسم کا مسیحی ہے۔ اور اپنے آپ کو دوسروں سے زیادہ نیک سمجھتا ہے۔ اُس نے اپنی پہلی کلیسیا ء سے رشتہ تو ڑ لیا اور صلیبی ذلتیں برداشت کر تا رہا ۔


اُس نے اُن کی نکتہ چینی کا جواب تک نہ دیا ۔ خد اکے جلال کی رُوح نے اُس پر حقیقت ظاہر کی ’’ جب میرے سبب سے لوگ تم کو لعن طعن کر یں گے اور ستائیں گے اور ہر طرح کی بُری باتیں تمہاری نسبت ناحق کہیں گے ۔ تو تُم مبارک ہو گے ۔ خوشی کرنا اور نہایت شادمان ہونا کیونکہ آسمان پر تمہارا اجر بڑا ہے ‘‘۔ اُس شخص کی خوشی کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا ۔

ہم اِسی طرح سے ہر روز مرنا سیکھتے ہیں ’’ہم ہر وقت اپنے بدن میں یسوع کی موت لئے پھرتے ہیں تاکہ یسوع کی زندگی بھی ہمارے بدن میں ظاہر ہو‘‘ (۲۔کرنتھیوں ۴: ۱۰)۔

ہمیں اپنی زندگیاں بار با ر صلیب کے قالب میں اُنڈیل دینی چاہئیں جو اُس کی موت کے اعتبار سے پُرسکون بن جائیں ۔ میڈم گائی اؔون جو ایک خُدا پرست خاتون تھیں انہوں نے کہا ’’ اے زندگی جو تو کئی موتو ں کے بغیر کھوئی نہیں جاسکتی اور اے موت جو کئی زندگیاں کھودینے سے حاصل ہوتی ہے‘‘۔

اپنی کتاب بنام مسیح کی صلیب میں ایف جے ۔ ہیوگؔل نے سنڈے سکول ٹائمز کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے۔

’’ ڈاکٹر جے ۔ جی ۔ فلیمنگ کہتےہیں کہ چین میں ’’باکسر ‘‘ کی بغاوت کے زمانہ میں ’’باکسر ز ‘‘ نے ایک مشن سکو ل پر قبضہ کر لیا ۔ انہوں نے تمام دروازے بند کر لئے اور صرف ایک کھلا رہنے دیا ۔ اُس کھلے دروازے کے سامنے ایک صلیب رکھ دی اور سکول والوں کو یہ پیغام بھیجا کہ وہ جو اس صلیب کو پائمال کرتےہوئے گزر جائیں گے ۔ انہیں آزاد کر دیا جائے گا ۔ لیکن وہ جو صلیب کے پاس کھڑے رہیں انہیں گولی کا نشانہ بنا دیا جائے گا ۔ پہلے ساتے آدمیوں نے صلیب کو پائمال کیا۔ آٹھویں ایک لڑکی تھی۔ وہ صلیب کے پاس آئی اور گھٹنے ٹیک کر بیٹھ گئی ۔ اُسے گولی کا نشانہ بنا دیا گیا ۔ باقی سکوں میں ایک سو طالب علم تھے۔ انہوں نے اس لڑکی کی تقلید(پیروی) کی۔ ذلت رسوائی اور رنج اور موت سے بچنے کی خاطر ہم بھی اپنی صلیب کو پائمال کر سکتے ہیں اور جھوٹی آزادی حاصل کر سکتے ہیں ۔ یا ہم صلیب کے سامنے سجدہ میں سر جھکا سکتے ہیں، اور بڑی شُکر گزاری کے ساتھ اپنی صلیب کو کلوری تک لے جا سکتے ہیں۔ وہاں ہمیں وہ مخلصی حاصل ہو گی اور خداوند مسیح ہمیں آزاد کر دےگا۔ وہ ہمیں وہ زندگی عطا فر مائے گا’’ جو مسیح کے ساتھ خدا میں پوشیدہ ہے‘‘۔ ہمیں وہ خوشی حاصل ہو گی جو بیا ن سے باہر ہے۔

میرے واسطے ہے صلیبی اذیت خُدا نے عطا کی مسیحی طبیعت
ہو دل سے پیار ی خدا کی شریعت مسیحی جوانوں کی ہو نیک نیت
مسیحا کی اُلفت میں تم بڑھتے جاؤ رہِ حق میں معصوم گردن کٹاؤ

کیا اس کتاب کے پڑھنے والے نے آج صلیب کو اپنی آغوش میں لے لیا ہے ؟ اور کیا کل بھی آپ ایسا ہی کریں گے ؟



اب بیستم

صلیب اور جو ہرِ ذاتی

سمتھ فیلؔڈ میں شہیدوں کو جلتے ہوئے دیکھ کر ایک لڑکا گھر آیا ۔ ایک آدمی نے اُس سے پوچھا ۔ ’’میرے بیٹے! تم وہاں کیوں گئے تھے‘‘؟ بّرے کے سچے پیرو کاروں کی طرح اس نے جواب دیا ’’مَیں راہ ِحق کو سیکھنا چاہتا ہو ں جب ’’خونی مؔیری ‘‘ نے انجیل کو منادی کو ممنوع قرار دے دیا تو لاؔرنس سینڈرز کو خدا کے احکام کی بجا آوری سے روک دیا گیا ۔ جب لارڈ چانسلر کے سامنے سینڈر ز کو موت کی سزا سنائی گئی تو اُس نے کہا ’’خواہ موت ہو یا زندگی مَیں خدا کی مرضی کے سامنے سر جھکاتا ہوں میں آپ سے سچ کہتا ہوں کہ میں نے مرنا سیکھ لیا ہے ‘‘۔ اُس نے اُس لوہے کی سلاخ کو اپنے ہاتھ میں لیا جس کے ساتھ باند ھ کر اُسے جلا یا جانا تھا۔ اُس نےاُسے چوما اور کہا’’ اے مسیح کی صلیب میں تجھے خوش آمد ید کہتا ہوں ۔ اے حیات جاوداں میں تیرا خیر مقدم کرتا ہوں‘‘ ۔ کیا شہیدوں کی یہ کہانیا ں کسی اور دُنیا یا کسی اور طرح کی زندگی سے تعلق رکھتی ہیں؟ ہماری لئے شرم کا مقام کہ ہم اس قسم کا خیال اپنے دل میں لاتے ہیں ۔ا ب اگر یہ ازل سے ہمارے دل میں ہے کہ ہم خداوند مسیح کو جاننا چاہتے ہیں تو ہمیں جلدی ہی معلوم ہو جائے گا کہ خداوند مسیح مصلوب کے لئے مصلوب شاگردوں کی ضرورت ہے ۔جس طرح ہم نجات کے لئے صلیب پر فخر کرتے ہیں۔ اُسی طرح ہمیں چاہیے کہ اپنے جسم صلیب پر چڑھانے کےلئے صلیب سے ہمکنار ہوں۔ ہم باطنی صلیب سے خارجی صلیب کو جُد ا نہیں کر سکتے ۔میرےلئے یہ شرم کی بات ہے کہ مسیح کے لئے تو صلیب ہو اور میرے لئے صلیب نہ ہو۔ مجھے صلیب کا راستہ اختیار کرنا چاہیے اور مرنا سیکھنا چاہیے ۔

جب ہم پہلے پہل خُداوند مسیح کے پاس آئے تھے۔ تو مسیح کی صلیب ہی ہماری دل کشی کا باعث تھی۔ اُس کے خون کے وسیلہ سےہی خدا کے ساتھ ہمارا ملاپ ہو سکتا تھا۔ اس کے بعد شاید ہمیں اس کی موت کے گہرے معنی معلوم ہوئے یعنی جب وہ ہمارے لئے مر گیا تو ہم بھی کے ساتھ مر گئے۔ ہمیں یہ معلوم ہوا کہ ’’ہم بھی مسیح کے ساتھ مصلوب ہوئے ہیں ‘‘۔ ہم نے اُس کے ساتھ اُس کی موت اور اُس کے مُردو ں میں سے جی اُٹھنے میں مشابہت پیدا کی ہے۔ اور یہی گناہ پر فتح پانے کا الہٰی طریقہ ہے پولس رسول کہتا ہے کہ ہم نے شریعت کے اُس نمونے یا عکس کو دل سے مان لیا ہے۔ جس سے خداوند مسیح کے ساتھ ہم گناہ کی غلامی سے آزاد ہوئے۔ ہماری رہائی کا باعث یہی صلیب ہے۔ ہم اس سچائی سے جکڑے ہوئے ہیں۔ اب ہمارا نیا مالک مسیح مصلوب ہے۔ لیکن یہی وہ مقام ہے جہاں بہت سے دیانت دار ایمان دار گر جاتےہیں ۔ وہ اپنے آ پ کو’’ گناہ کے اعتبار سے مُردہ مگر خدا کےاعتبار سے مسیح یسوع میں زندہ ‘‘سمجھنے کے بعد یہ محسوس کرتے ہیں کہ انہوں نے وہ چیز حاصل کر لی ہے۔ وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ صلیب اُن کے لئے ختم ہو چکی ہے۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اُن کی ساری زندگی کی شراکت کایہ مطلب ہے کہ وہ مسیح مصلوب کے ساتھ رہیں۔ اور اگر مصلوب کو اُن میں قائم رہنا ہے تو انہیں اُس کے دُکھو ں کا تجربہ ہونا چاہیے ۔


ہم کس طرح سے ہر روز مسیحی مصلوب میں قائم رہ سکتے ہیں؟ اگر ہماری زندگیاں ہر روز با ر بار صلیب کے قالب (سانچا)میں نہ ڈھالی جائیں تو صلیب کا الزام کبھی ختم نہیں ہوتا سوائے اُن لوگوں کے جو صلیبی زندگی سے گریز کرتے ہیں ۔’’ جتنے مسیح یسوع میں دینداری کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتے ہیں وہ سب ستائے جائیں گے‘‘۔ جونہی ہم مسیح کی طرح زندگی گزارنے لگتے ہیں تو ہم رسول کو یہ کہتے ہوئے سنتے ہیں کہ’’ ویسا ہی مزاج رکھو جیسا مسیح یسوع کا بھی تھا ‘‘۔ اور وہ مزاج کیا تھا؟ جب وہ خدا کی صور ت پر تھا تو اُس نے اپنے آپ کو خالی کر دیا ۔ اُس نے انسانی شکل اختیا ر کی ۔ وہ خادم بن گیا ۔ اُس نے اپنے آپ کو فروتن کیا ۔ وہ موت تک وفادار رہا ۔ یہاں تک کہ اُس نے صلیبی موت بھی گوارا کی۔ کیا میں بّرے کا پیروکار ہوں؟ اُس کا شعار اپنے آپ کو خالی کرنا اور جن چیزوں سے اُس نے دُکھ اُٹھایا اُنہیں سے فرمانبرداری سیکھنا تھا۔ اُستاد کا اصول ہی شاگردوں کا اُصول ہے۔

اگر چہ اُسے ظالموں نےستایا مسیح نے میرے واسطے دُکھ اُٹھایا
مجھے اُس نے جام محبت پلا یا مجھے اطمینان اور آرام بخشا
اُسی کی محبت کا مَیں دم بھروں گا اُسی کی مَیں نقش قدم پر چلو ں گا
میرے دل پہ اُلفت کا سکہ بٹھادے خداوند ! راہِ حق پہ چلنا سکھا دے
مجھے اپنی رحمت سے فکر رسا دے صلیبی اذیت کو مَیں بھی اُٹھاؤں
تیری یاد کرتی رہے شاد مجھ کو تیری موت ہر دم رہے مجھ کو

کیمبرؔج کے مشہور واعظ چارلسؔ سائمن کو بار بار صلیب کے قالب میں ڈھلنا پڑا ۔ وہ دُکھ اور مصیبت میں مبتلا ہوا ۔ اُس کی ایذارسانی کی داستان سُنیے ۔ وہ لکھتے ہیں:۔

ایک دن میں باہر مٹر گشتی (آوارہ گھومنا)کے لئے نکلا ۔ میرے ہاتھ میں کلام پاک تھا۔ میں بے حد آزردہ خاطر اور ملول تھا ۔ میں نے بڑے خلوص سے خدا سے دُعا کی کہ جب میں پڑھنے کے لئے کتاب مقدس کھولوں تو وہ مقام ملے جس کے پڑھنے سے مجھے قرار نصیب ہو ۔ کتاب مقدس کا پہلا حوالہ یہ تھا۔’’ اُنہوں نے شمعون نام ایک کرینی آدمی کو پاکر اُسے بیگار میں پکڑا کہ اُس کی صلیب اُٹھائے‘‘۔ آپ جانتے ہیں کہ شمعون اور سائمن میں کچھ فرق نہیں ۔ میری تسلی و تشفی کا اس آیت میں پیغام موجو د تھا کہ مَیں صلیب اُٹھا کر مسیح کے پیچھے پیچھے چلو ں ۔ میرے لئے یہ بڑی ہی سعادت کی بات تھی۔ میر ے لئے بس اتنا ہی کافی تھا ۔ اب میں خوشی سے اُچھل کُود سکتا تھا۔ کیونکہ اب مسیح نے مجھے اپنے دُکھو ں میں شریک ہونے کے ذریعہ سے میری عزت افزائی فرمائی تھی۔ اور جب میں نے اس آیت کو پڑھا تو میں نے کہا ’’ اے خداوند ! وہ صلیب مجھے پر رکھ دے ۔ وہ صلیب مجھ پر رکھ دے مَیں تیری خا طر بڑی خوشی سے وہ صلیب اُٹھاؤں گا ۔ اس لئے مَیں نے اُس اذیت کو عزت کے سہرے کی طرح اپنے سر پر باندھ لیا‘‘ ۔


یہ ہے صلیب کی شاہراہ ۔ یہ فتح ہے ۔ہا ں یہ صلیب کا جلال اور شان ہے۔ ہمیں بار بار اپنی خودی کا خاتمہ کر نا چاہیے ۔ صلیب کا یہی کام ہے۔ کلوری پر مسیح نے اپنی جان دے دی ۔ہمیں بھی مسیح کی خاطر بخوشی اپنی جان کو قربان کرنا سیکھنا چاہیے ۔ ہمیں اپنی زندگی کے ہر ایک موقع کو فتح کا سہرا سمجھنا چاہئے جس سے ہمیں ا ز سر نو اپنا جائزہ لینا پڑتا ہے۔ ہم تکا لیف برداشت کرتےہیں ۔ اُس کے سامنے سر جھکاتے اور ہر بُری عادت کو اپنے میں سے دُور کر دیتے ہیں۔ جب ہم اپنی صلیب اُٹھائیں تو ہمیں دلیر ہونا چاہیے ۔ ہمیں موت کاکوئی خوف نہیں ہونا چاہیے۔ ہم بدی کے ساتھ کسی قسم کا سمجھو تہ نہ کریں۔ ہم شکایت نہ کریں ۔ اور ہمیں پھر ایما ن سے مسیح مصلوب کی طرف تکنا چاہیے تا کہ وہ ہمیں بڑی قوت اور قدرت سے اپنے ساتھ زندہ کرے ۔ اس کے باوجود جب دُکھ اُٹھانے والے پولُس رسول نے دمشق کی راہ پر خداوند مسیح کو دیکھا تو اُس نے کہا ’’اور مَیں اُس کو اور اس کے جی اُٹھنے کی قدرت کو اور اُس کے ساتھ دُکھو ں میں شریک ہونے کو معلوم کروں اور اس کی موت سے مشابہت پیدا کروں ‘‘( فلپیوں ۳: ۱۰)۔

مسٹر گارڈؔن واٹ کہتے ہیں

’’ہمیں خداوند مسیح کے متعلق منادی کرنے میں احتیاط کی ضرورت ہے۔ خداوند مسیح کی موت اور اُس کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے کی منادی میں صحیح نسبت ہونی چاہیے ۔ ہم صلیبی موت کے پہلو کو کہیں اس طرح سے پیش نہ کریں کہ ہم صلیبی زندگی کے پہلُو کو بھول جائیں۔ شائد کئی لوگ یہی کر رہے ہیں۔وہ یہ بھول رہے ہیں نفس کی زندگی صرف صلیب کے ذریعہ سے درست ہو سکتی ہے اور جس قد ر ہم مسیح کی موت میں شریک ہوں گے۔ اتنا ہی ہمیں مسیح کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے کا علم ہو گا‘‘۔

بہت سے مسیحی صلیب کے گہرے معانی سمجھنے میں پولُس رسول کی پیروی نہیں کرتے ۔ مقدس رسول خداوند مسیح اور اُس کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے کی قوت کو جانتا تھا ۔ لیکن جب ہم دیکھتے ہیں کہ پولُس روحانی زندگی میں مکمل سن بلو غت کا متمنی ہے اور کہتا ہے کہ ’’یہ غرض نہیں کہ مَیں پا چکا یا کامل ہو چکا ہوں‘‘۔ تو وہ دُکھ اُٹھانے کے ذریعہ مسیح کے ساتھ گہری شراکت چاہتا ہے۔ پولس کا منتہائے (اعلیٰ)مقصود یہ ہے کہ وہ اپنے میں اُس کی موت کی مشابہت پیدا کر نا چاہتا ہے۔ سی ۔ اے فاکؔس نے یوں بیان کیا ہے’’ مُردوں میں سے جی اُٹھنے والی زندگی کا کمال یہ ہے کہ وہ پھر صلیب کی طرف رجوع کرتی ہے‘‘۔ ہمیں ڈر ہے کہ بہت سے مسیحی اپنے ارادے اور تصور میں خداوند مسیح کے ساتھ موت کی شراکت کے بغیر ہی آسمانی مقاموں میں جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اُس کی موت میں مشابہت کا تجربہ تو عملی صورت میں ہی کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً خداوند مسیح ’’کمزوری کے سبب سے مصلوب کیا گیا ‘‘۔ کیا مَیں اس کے ساتھ’’ کمزور ہوں‘‘ ۔ یا کیا مَیں صلیب کا دامن تھامے ہوئے ہوں اور قوت کا بپتسمہ پانے کی التجا کر رہا ہوں؟ صرف مسیح مصلوب ہی اپنے روح میں سے ہم پر اُنڈیل سکتا ہے ۔

مسیح نے اپنے آپ کو خالی کر دیا ۔ وہ بے حد غریب ہو گیا ۔ کیا مَیں اس بات میں اس کے ہم شکل نہ بنو ں؟ کیا مَیں فضول خر چ ہو ں ؟ خداوند مسیح تمام باتوں میں اپنے بھائیوں کی طرح ہو گیا ۔ کیا مَیں کبھی اپنے بھائی کے دُکھ میں شریک ہوا ہوں؟ یہی میری صلیب ہو سکتی ہے ۔ خ


خداوند مسیح کی توہین کی گئی ۔ کیا کسی نے میری بے عزتی ہے جس سے میری عزت خاک میں مل گئی ہو ۔ لیکن پھر بھی میں نے شکایت میں زبان کھول ہو ؟ خداوند مسیح کو بدکاروں میں شمار کیا گیا ۔ کیا مَیں بڑے لوگوں کی سوسائٹی کی تلاش میں ہوں؟ بڑے لوگ جھوٹے ہیں ۔ مسیح نے کبھی اپنی عزت افزائی نہیں کی ۔ کیا مَیں کسی طرح سے اپنی عزت افزائی کر رہا ہوں؟ مسیح اور اُس کے شاگرد ’’دُنیا اورفرشتوں اور آدمیوں کے لئے ایک تماشہ ٹھہرے ‘‘۔ کیا میں اپنی تضحیک(بے عزتی) سے گریز کرتا ہوں؟ کیا مَیں’’ مسیح کے لئے لعن طعن اُٹھانے کو مصر کے خزانوں سے بڑی دولت ‘‘ سمجھتا ہوں ۔ کیا مَیں خیمہ گاہ سے باہر ہوں یا میں اُن لوگوں شمار ہوں ۔ جو باعزت گنے جاتے ہیں؟

خُداوند مسیح آگے بڑھا اور اپنے منہ کے بل گِرا ۔ کیا مَیں نے بھی اپنے لئے حدود مقر ر کر رکھی ہیں۔ اور مَیں یہ کہتا ہوں کہ مَیں یہیں تک مسیح مصلوب کی پیروی کروں گا ۔ اور آگے نہیں جاؤں گا ‘‘۔

خداوند مسیح ساری زندگی صلیب کے دُکھ اور درد میں مبتلا رہا کیا ہم صلیب پر فخر کر تے ہیں یا ہم محض اُس کے متعلق باتیں اور وعظ ہی کیا کرتے ہیں؟ ایک بد زبان کمیو نسٹ لیڈر نے جب ایک وزیر پر زبان طعن دراز کی تو اُس کچھ وجوہات تھیں۔ اس نے کہا’’ اے وزیر و ! مسیح تو صلیب پر مر گیا تم اُس کی صلیب پر بسر اوقات(گُزار اکرنا) کرے ہو‘‘۔

خُداہمیں معاف کر ے کہ ہم ایسی زندگی بسر کر رہے ہیں جو صلیب سے مشابہت نہیں رکھتی ۔ اور لوگ ہم میں سے مسیح کو نہیں دیکھ سکتے کیونکہ جو نہی ہم صلیب سے ہمکنار ہوتے ہیں تو صرف اُسی وقت ہی لوگ مسیح مصلوب کو دیکھ سکتے ہیں۔ ایمی کار میؔخیل سوال کرتی ہیں کہ کون دُنیا اور اس کی شان و شوکت کے اعتبار سے مر سکتا ہے؟ کون ہے جو دُنیا کے رسم و رواج اور قوانین کی پروا نہیں کرے گا؟ وہ کون ہے جو ایسے لوگو ں کو خاطر میں نہیں لا تا جو صلیب کی تحقیر کرتے ہیں ؟

لیکن اگر مَیں خداوند مسیح کے مشابہ ہونا چاہتا ہوں تو مجھے یہ سب کچھ برداشت کرنا چاہیے ۔



باب بست ویکم

صلیب اور جو ہر ذاتی

گذشتہ سے پیوستہ

مسیحی فتح کی زندگی میں ایک طرح کا الہٰی اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ اور ممکن ہے کہ اسے درخورا عتنا(ہمدردی کرنا)نہ سمجھا جائے ۔ ہم کسی شکایت بُڑبڑاہٹ یا کسی با طنی تحریک یا خاص حالات کے ماتحت صلیب کا انکار کر سکتے ہیں۔ میڈم گائی اؔون کی فتح مند مسیحی زندگی کئی دُکھ اُٹھانے والے مقدسین کے لئے مشعل راہ ثابت ہوئی ہے۔ ایک مرتبہ سخت بیمار ہونے کے بعد انہوں نے محسوس کیا کہ وہ اپنی جائے رہائش تبدیل کرے۔ اور ایک خوبصورت جھیل کے کنارے سے کسی دُور افتادہ (ناکارہ زمین)مقام پر چلی جائے ۔ میڈم گائی اؔون فرانسیسی طرز تمدن میں پل کر جوان ہوئی تھیں ۔ اُس گھر کے متعلق جو اُنہیں اس جگہ میسر ہوا انہوں نے یہ لکھا ہے۔

یہ گھر غربت اور افلاس کی تصویر مجسم تھا۔ باورچی خانہ میں ہے ایک چمنی تھی۔ اسی باورچی خانہ سے ہو کر دوسرے کمرے میں جانا پڑتا تھا۔ میں نے سب سے بڑا کمرہ اپنی بیٹی اور خادمہ کو دے رکھا تھا۔ میرا اپنا کمرہ بہت ہی چھوٹا تھا۔ میں ایک سیڑھی لگا کر اُس میں پہنچتی تھی۔ اس کمر ے میں کسی قسم کا کوئی فرنیچر نہیں تھا۔ سونے کی چار پائیاں معمولی تھیں ۔ مَیں نے چند ایک سستی کر سیا ں اور ضرور ت کے مٹی اور لکڑی کے چند برتن خریدے ۔ مَیں لکڑی کے برتن میں کھانا کھانے کوترجیح دیتی تھی۔ کسی پلیٹ میں کھانے میں مجھے کوئی لطف نہیں آتا تھا۔ یہ سادہ سی زندگی مجھے بڑی آرام دہ معلوم ہوتی تھی۔ اس میں وہ سادگی موجود تھی جو حقیقی مسیحی زندگی کا طرہ امتیاز ہے۔

ہم اپنے ایک پُرانے طالب علم کاایک خط نقل کرتے ہیں۔ جسے گناہ اور عیش و عشرت کی دلدادہ سو سائٹی کی رسوم و قیود سے مخلصی نصیب ہوئی ۔ اس نے یہ چِٹھی اپنی ایک ہم جماعت سہیلی کو ایک TORIUM SANI صحت افزا مقام سے لکھی ہے ۔ اُسے تحصیل علم سے فارغ ہونے سے ایک سال پیشتر اس مقام پر بھیجا گیا تھا۔ اس چِٹھی میں صلیب کے اصولوں کے متعلق بڑی روشنی پڑتی ہے۔ ہم اس خط کے بعض حصے پیش کرتے ہیں۔

آج مَیں ’’اپنی صلیب اُٹھانے‘‘ ’’جسم کے کانٹے‘‘ اور ’’اُس کی خاطر لعن طعن اُٹھانے‘‘ کے موضوع پر دھیان دے رہی ہوں۔ مسیحی زندگی کے یہ تین پہلو ایسے ہیں جنہیں اکثر اوقات ایک دوسرے سے خلط ملط کر د یا جاتا ہے۔ یہ بات مجھے کچھ اس طرح سے معلوم ہوئی ۔میرے قریبی دوست جو مجھے ملنے آیا کرتے تھے یا مجھ سے خط و کتابت کیا کرتے تھے۔ وہ خود بھی میری حالت کو دیکھ کر مغموم (غم زدہ)ہو جایا کرتےتھے۔ یوں کہا کرتے تھے۔

’’آہ !بیچاری لڑکی۔ تمہاری صلیب کو اُٹھانا مشکل کام ہے‘‘۔ کچھ اور دوست کہا کرتے تھے۔’’ اے عزیز لڑکی ! خُوشی منا اور نہایت شادمان ہو کیونکہ ہمیں اُس کے نام کی خاطر ستائے جانے کے قابل سمجھا گیا‘‘۔ لیکن یہ ساری باتیں مجھے بے ہودہ سی لگتی تھیں اور مَیں بے حد مایوس ہو جایا کرتی تھی۔


مَیں اس بیماری کو جسم کا کانٹا بھی نہیں کہتی کیونکہ یہ کانٹا ہوتا تو بڑا ہی جان لیوا ہوتا۔ لیکن یہ جسم کا کانٹا مہلک ثابت نہیں ہوا۔ اسے مبارک کہا گیا ہے۔ صلیب کو اپنے کندھے پر لئے پھر نا صلیب اُٹھانا نہیں ہے ۔ مسیحی صلیب اُٹھائے پھرتے ہیں۔ مَیں یہاں اپنے آپ نہیں آئی۔ اور نہ ہی بیمار رہنے کے لئے یہا ں آئی ہوں ۔ اورنہ ہی مَیں اُس کی خاطر دُکھ اُٹھانے کے لئے آئی ہوں۔ کیونکہ اس کا یہ مطلب ہو گا کہ مَیں اس کے نام کی خاطر ستائی جارہی ہوں۔ اور اس کا میری بیماری کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے ۔ اگر چہ کئی مرتبہ میں نے بیماری کی تکلیفیں اُٹھا اُٹھا کر روحانی تجربہ حاصل کیا ہے۔

کیا مسیحی لوگ بعض اوقات بائبل کی کسی آیت کا صورت حالات سے تعلق پیدا کرنے میں غلطی کے مرتکب نہیں ہوتے ؟ بعض اوقات اس قسم کے فعل سے بڑی کوفت ہوتی ہے۔ اور وہ آخر ی تنکا جس نے اونٹ کی کمر تو ڑدی وہ ایک گادیلی خط تھا۔ جو مجھے ایک معزز خاتون نے چند دن ہوئے ارسال فرما یا تھا ۔ اسے میری حالت پر رحم آتا ہے۔ کہ میں اپنی سخت اور ظا لمانہ صلیب ان تنہایوں میں اکیلے ہی اُٹھا رہی ہوں۔ مَیں اپنی پوری قوت سے چلا کر اُسے بتا دینا فرض سمجھتی ہوں۔ مَیں بیمار ہونے کی وجہ سے کوئی صلیب نہیں اُٹھا رہی اور نہ ہی میں اکیلی ہوں۔

اِن باتوں نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا ۔ اگر ہم کانٹے کی چبھن محسوس کرتے ہیں تو ہمیں اپنا سر اُٹھا کر قربانی کی روح کے لئے دُعا کرنی چاہیے ۔ ورنہ ہم ٹھنڈی آہیں بھرتے رہیں گے اور یوں کہنا شروع کریں گے ۔ ’’میری صلیب بہت بھاری ہے لیکن میں اُسے اُٹھاؤں گا‘‘ ۔ لیکن ’’ہماری صلیب کا نٹا‘‘ نہیں ہے۔ صلیب ایک مختلف حقیقت ہے۔یہ ایسی چیز ہے ۔ جسے بڑی آسانی سے اپنے سے دُور کیا جا سکتا ہے۔ لیکن خدا ہمیں ایک کانٹا ضرور عطا فرماتا ہے اس سے ہم بچ نہیں سکتے ۔ بعض اوقات اِس کانٹے کا تعلق انسانی تندرستی سے ہے۔ مشہور شاعر ملٹؔن کا کانٹا اُس کا نابینا پن تھا۔ میرا خیال ہے کہ اس سینی ٹوریم سے چُھٹّی کے بعد بھی میں زیادہ کام کرنے کے قابل نہ رہوں گی ۔ اس صورت میں میرا کانٹا یہ ہے کہ مَیں خدا کاکام سر انجام دینے سے معذور ہوں۔ اور یہ کانٹا آپ کے لئے بھی ہے ۔ کیا یہ خیال درست نہیں ۔ لیکن ہم اس قسم کی معذور ی اور خامی کو صلیب خیال نہیں کریں گے۔ روح سے معمور خُداوند مسیح کے شاگرد کے لئے صلیب بڑی ضروری ہے۔ لیکن یہ ایسی حقیقت ہے جسے ہم دل سے چاہتے ہیں اور اُسے اُٹھانے میں خوشی محسوس کرتے ہیں ۔ ہم اپنی اس صلیب سے ہمکنار ہوتے ہیں اور صلیب ہمارے لئے خوشی و انبساط (شادمانی)کا باعث بنتی ہے۔ اور اگر ہمیں تلخ پانیوں سے گزرنا پڑے تو وہ ہمارے لئے میٹھے پانی کے چشمے بن جاتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ صلیب اُٹھانے کے بعد اُس کے نام کی خاطر شرمندگی اور ذلت اُٹھانا برکت کا باعث ہے۔ ہر ایک شخص خُداوند مسیح کے نام کی خاطر ذِلت اُٹھانے کے قابل خیال نہیں کیا جا سکتا ہے ‘‘۔

مندرجہ بالا چٹھی کئی لوگوں کے لئے برکت کا باعث ثابت ہوئی ہے۔ میڈ م گائی اؔون بے حد بیمار تھی ۔وہ بڑے مہلک مرض میں گر فتار تھی۔ اُسے ہر وقت موت کا خطر ہ تھا۔ لیکن اُس نے اپنی صحت کی اس کمی کو مردانہ واربرداشت کیا ۔ اُسے اپنی ذات سے کوئی محبت نہ رہی اور وہ بخوشی صلیب اُٹھاتی رہی ۔ صلیب کا مفہوم اُس کے لئے وہی تھا جو سموائیل رتھر فؔورڈ کے لئے تھا جس نے یوں کہا تھا’’ مسیح کی صلیب میرے لئے بے حد خوبصورت بوجھ ہے ۔ جس طرح پرندوں کے لئے پر ہوتے ہیں یا جس طرح جہازوں کے بادبان ہوتے ہیں۔اُسی طرح میرے لئے صلیب ہے میں اپنی اپنی بندر گاہ کی طرف جار ہا ہوں‘‘۔


مبادا اِس کتاب کے پڑھنے والا کوئی شخص کہیں یہ خیال نہ کرے کہ اس نوجوان خاتون نے روحانی کمال حاصل کر لیا تھا۔ جس سے اُس کی کامیابی یقینی تھی۔ ہم ایسے لوگوں کو متنبہ کرتے ہیں کہ ’’جب یہ خاتون صحت مند تھی تو وہ بڑی دُنیا دار عورت تھی ۔ وہ صلیب اُٹھانے میں کوتاہی کر رہی تھی ‘‘۔ اگر آپ نے ایک مرتبہ ہمیشہ کے لئے صلیب اُٹھانا منظور کر لیا ہے۔ تو آپ کو ہر روز صلیب اُٹھانا چاہیے ۔ ہمیں اُس کے دُکھوں میں شریک ہونے کی تگ ودو کرنی چاہیے۔ ہمیں اُس کےساتھ موت کی مشابہت رکھنا ہماری منزل مقصود ہونی چاہیے ۔ میری زندگی کا طرز عمل یہی ہونا چاہیے ۔

اِس کتاب کے پڑھنے والے مندرجہ ذیل باتوں کے لئے معاف فرمائیں ۔ ان باتوں کا اس باب سے گہر ا تعلق ہے ۔ ایک مشنری لیڈر ایک نوجوان مبشر کو بشارت کے لئے بھیجنے والا تھا ۔ اس مبشر نے حال ہی میں صلیب کی زندگی بسر کرنے کاارادہ ظاہر کیا تھا۔ میرے ایک عزیز دوست نے اس مشنری لیڈر کو یہ خط لکھا ’’کیاآپ اس امر سے آگاہ نہیں ہیں ۔ کہ فلاں شخص کی موت کی سختیاں جھیلنے کی قوت کا امتحان لئے بغیر اُسے بشارت کے لئے بھیجنا ایسے ہی ہے ۔ جیسے کسی لاش کو قبر میں دفنا نے کے لئے لے جا رہے ہوں اور اُسے راستہ میں چھین لیا جائے؟راکھ کو راکھ اور مٹی کو مٹی کے سپر د کرنا چاہیے ۔ قبر کے بغیر مُردوں میں سے جی اُٹھنا ممکن نہیں ۔ یہ تو محض ازسر ِنو زندگی بخشنا ہے ۔ یہ تو محض کر یپ کا کپڑا ہے یہ کوئی جنازہ نہیں ہے‘‘۔

تھوڑے عرصہ کے بعد اِس نوجوان مبشر کو اپنے کام میں نما یا ں کامیابی ہوئی تو اُس نے اپنے مشنری لیڈر کو یوں لکھا ’’ مجھے یقین ہے کہ میری موت اور سختیاں جھیلنے والی قو ت کا امتحان لیا جا چکا ہے‘‘۔ پھر میرے دوست نے ایک اور خط لکھا ۔’’ فلاں محترم کو میرا سلام شوق دیجئے اور یوں کہئے کہ جنازہ کے وقت لا ش ہی ایسی چیز ہے جسے معلوم نہیں ہوتا کہ وہ بے جان ہے یہ قانون لا مُبدّ ل ہے ۔ آثار قدیمہ کا کوئی ماہر آپ کو بتائے گا ۔ کہ پانچ ہزار سال پُرانی ممؔی کو بھی یہ علم نہیں ہے ۔ کہ وہ مُردہ ہے ۔ اگر کوئی لاش یہ کہہ دے کہ میں مُردہ ہوں تو وہ لاش نہیں ہے۔ آپ کو اس کی نبض دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ وہ تو باتیں کر رہی ہے۔

محض مسیح مصلوب کے ساتھ یگانگت رکھنے کے وسیلے اور اس کے ساتھ اپنی موت پر نگاہ رکھنے کی وجہ سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم حقیقت میں گُناہ کے اعتبا ر سے مُردہ ہیں۔ یہ چیز تجربہ سے نہیں بلکہ اُس کے ساتھ اُس کی موت میں شریک ہونے سے حاصل ہوتی ہے۔ وہ انسان جو حقیقت میں اور گناہ کے اعتبار سے مر چکا ہے۔ وہ آدمی نہیں ہے جو شعوری طور پر مر چکا ہے۔ یہ تضاد تجربہ اور فطرت میں بھی ہے ۔ بلکہ وہ انسان جو خُد اکے اعتبار سے زندہ ہے ۔ یعنی اُسے مسیح کا شعور ہے۔ پولُس رسول نے کہا ’’ زندہ رہنا میرے لئے مسیح ہے‘‘ وہ فرشتے جو آسمان سے نیچے گرائے گئے اُن کے متعلق اینڈ ریؔو مرے نے ایک مرتبہ کہا تھا ’’ جب وہ آسودہ خاطر ہوئے تو وہ نافرمان ہو گئے ‘‘۔ میر ے عزیزو! آگے بڑھئے ۔ وہ چیز جو حاصل کرنے کی ہے یہ ہے کہ ہم میں اور اس کی موت میں مشابہت ہو۔



باب بیست و دوم

صلیب اور شیطان

راقم الحروف کا ایک قلمی (قلم کارتحریری)دوست ہے۔ وہ مشنری ہے ۔ اُس کا تجربہ اس پر بڑی روشنی ڈالے گا ۔ مصلحتاً اس مشنری کا نام اور مقام مخفی(پوشیدہ) رکھا جاتا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ایک وقت وہ بھی تھا جب وہ شیطان جس کا ذکر بائبل مقدس میں ہے میرے نزدیک محض مذاق تھا۔ خدا نے اپنی بڑی رحمت سے اس آدمی کو ایک بہت ہی بڑی آزمائش میں مبتلا کیا ۔ وہ ایک مدت سے مسیحی خادم تھے اور انہوں نے اپنی خدمت کا تمر بھی دیکھا تھا۔ لیکن وہ لوگ جن کے درمیان وہ بشارت کی خدمت سر انجام دیا کرتے تھے۔ اُن کے دشمن ہو گئے۔ اور انہوں نے اُس کے ننھے بچے کو زہر دے دیا ۔ اب اُسے گویا ہزاروں بد روحوں نے ڈرانا شروع کر دیا۔ اگرچہ اُس کی روح بچ چکی تھی ۔ مگر اس کی دو دلی کے باعث اُسے پے در پے (مسلسل)شکستیں ہوئیں ۔ اور وہ اپنے دشمنوں کا مقابلہ کرنے سے قاصر تھا۔ اُس کی دنیا تباہ ہو چکی تھی ۔ اُس نے بڑ ی دلیری سے اُن کا مقابلہ تو کیا لیکن اُسے شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ وہ جسم کے مطابق زندگی بسر کر رہا تھا۔ اب وہ اپنے دشمن سے پیار کرنےکے لئے ایک اور کو س بیگار میں جانے کے لئے تیار تھا ۔ اور وہ اُن تمام چیزوں کے لئے شکر گزار تھا جو اُسے موت سے بھی زیادہ تکلیف پہنچاتی تھیں ۔ لیکن وہ ہمیشہ یہی کہا کرتا تھا’’ جس کا مَیں ارادہ کرتا ہوں وہ نہیں کر تا ‘‘۔ وہ کہتا ہے ’’ خدا میرے آنسوؤں کو جانتا ہے۔ میرے دل میں ایسی اُمید تھی جو کبھی مٹ نہیں سکتی ۔ میرے دل میں یقین تھا کہ میرا چھڑانے والا کسی نہ کسی طرح سے مجھے اس سے رہائی بخشے گا ۔ وہ مجھے مایوسی اور خود کشی سے بچائے گا اور شیطان نے تو کئی مرتبہ میرے کا ن میں خود کشی کے متعلق کہہ بھی دیا ہے۔ لیکن یہ سب کچھ میری بھلائی کے لئے تھا۔ خدا مجھے کلوری کے مکمل مشاہدے کے لئے تیار کر رہا تھا۔ مجھے دیا ہے کہ یہی ظالم شیطان رسولوں کی باتوں کی بھی اچھی طرح سے چھان پھٹک کیا کر تا تھا۔ ان بدروحوں کے مقابلے میں رُوحانی ہتھیار ایسے ہی تھے کہ ایک جنگی جہاز کا مقابلہ بچوں کے کھیلنے والے پستول سے کیا جائے ۔ اس کے بعد مَیں نے یہ بھی دیکھا کہ میری نفسسانی خواہشات اور میرے لالچ کے قبضہ میں جو مقامات تھے ۔ اب وہ ان روحوں کے تصرف میں تھے۔ میں نے ان بد روحوں کو دعوت دی تھی ۔ یہ بات اظہر من الشمس(روزروشن کی طرح عیاں) تھی کہ مجھے نفس سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہیے ۔ اس کے بغیر فتح کی کوئی اُمید نہیں ہے۔ یہ بد روحیں جو تاریکی کی قوتیں ہیں( اب میرے نزدیک بد روحوں کا بھی اسی طرح سے وجود ہے جیسے خدا کا) ۔ اور جنہوں نے مجھے بالکل مایوس کر دیا تھا۔ اب وہ اسی مقام پر تھیں جو نفس نے اُن کے لئے خالی کر دیا تھا۔ مَیں اس نفس کی زندگی سے کس طرح سے خلاصی حاصل کر سکتا تھا۔ جو ایک مدت سے مسیح کے خلاف صف آرا تھی ۔ اور دشمن کے لئے راستہ صاف کر رہی تھی تا کہ دشمن سیلاب کی طرح آئے اور اپنا قبضہ جما لے ۔ اب میری تمام توجہ صلیب کی طرف تھی ۔ اور خُدا نے مجھے اس کے معانی سے آگاہ کر دیا ۔ اَب مَیں نے وہ مقام قبول کر لیا جو خُدا مجھے دینا چاہتا تھا یعنی مَیں خداوند مسیح کے ساتھ مرنے کے لئے رضا مند ہو گیا تھا ۔ اور مَیں اپنے منجی کی قبر میں اپنی پُرانی انسانیت دفن کرنے کے لئے آمادہ ہوا۔ میری حیاتِ نو میں ایک نیا دن طلوع ہوا۔ اس وقت ان ارواح خبیثہ کی فوجوں کو میدا ن کا رزار سے شکست ہوئی ۔


اس آدمی کے تجربہ سے یہ بات صاف ہے کہ ایمان دار شیطان اوراُس کے کاموں کے متعلق کچھ نہیں جانتا ۔ وہ اپنے طاقتور دشمن کی چالوں کو نہیں سمجھ سکتا ۔ جب تک کہ نفس کے خلاف خانہ جنگی میں اُسے فتح حاصل نہیں ہوتی ۔ افسیوں کے خط کے چھٹے باب میں پولس رسول ایماندار کی جنگ کا ذکر کرتا ہے جو وہ حکومت والوں ، اختیار والو ں اور اس دنیا کی تاریکی کے حاکموں اور شرارت کی ا ن روحانی فوجوں سے جو آسمانی مقاموں میں ہیں لڑتا ہے۔

ایک بڑی زبردست قوت کے خلاف جار حانہ جنگ جاری ہے۔ یہ قوت نظر نہیں آتی ۔ وہ دشمن آسمانی مقاموں میں ہے ۔ اس قسم کی جنگ میں دُنیاوی اور نفسانی آدمی حصہ نہیں لے سکتا ۔ لیکن افسیوں کے پہلے اور دوسرے باب میں پولس رسول اِس قسم کی جنگ کے واسطے ایمان دار کو تیار کرتا ہے۔ افسیوں کے پہلے باب میں پولُس رسول ہمیں یہ دکھا تا ہے کہ ہم خداوند مسیح کے ساتھ آسمانی مقام میں ہیں۔ ہم اِس گنہگار دُنیا سے بہت اونچے ہیں۔ افسیوں کے تیسرے باب میں پولس رسول ہمیں بتا تا ہے کہ خدا کے روح کے وسیلے ہم کس طرح اپنی باطنی انسانیت میں بہت ہی زور آور ہو سکتے ہیں تا کہ ایمان کے وسیلہ سے خداوند مسیح ہمارے دلوں میں سکونت کرے ۔ آپ اس خیال پر غور فرمائیں کہ آسمانی مقاموں اور زمین پر بھی مسیح ہے ۔ جب خُدا وند مسیح اس طرح سے نفس کو نکال باہر کرتا ہے تو خانہ جنگی ختم ہو جاتی ہے۔ اور ہم یہ کہنے کے قابل ہو جاتے ہیں’’ مَیں مسیح کے ساتھ مصلوب ہوا ہوں۔ اور اَب میں زندہ نہ رہا بلکہ مسیح مجھ میں زندہ ہے‘‘ (گلتیوں ۲: ۲۰)۔ تب ہم دشمن کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ اور ایک مسیحی سپاہی کی طرح روحوں گو ’’ شیر کے منہ سے چھڑاتے ہیں۔ لیکن سب سے پہلے ایمان دار کو اس دُنیا سے چھڑا کر آسمانی مقاموں میں داخل کرنا ہے۔ اور پھر اُسے جسم کی غلامی سے آزاد کرنا ہے ۔ خداوند اُس کے دل میں سکونت کرے گا ۔ اب وہ کھلم کھلا شیطان کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہے ۔جب تک ایک ایماندار دُنیا یا جسم کی خاطر زندگی بسر کرتا ہے وہ شیطان کو کوئی ضرر نہیں پہنچا سکتا ۔ جب تک ایماندار مسیح کا سپاہی نہ بن جائے شیطان اُسے بڑی آسمانی سے نِگل سکتا ہے۔

ذکر ہے کہ بائبل مقدس کایک زبردست عالم جو دماغی طور سے کمزور ہو گیا تھا چند مبشروں کے لئے میٹھی میٹھی ہمدردی کا اظہار کرنے لگا کہ شیطان اُنہیں بُری طرح سے ستا رہا ہے۔ جب یہ عالم اس طرح پورے طو ر سے اظہار ہمدردی کر چکا تو ہم یہ کہے بغیر نہ رہ سکے ’’لیکن بھائی صاحب آپ شیطان کو موقع ہی کیوں دیتے ہیں‘‘ ۔لیکن وہ اسی بات پر ڈٹا رہا کہ شیطان ہی ساری شرارت کی جڑ ہے ۔ اُس دن سے ہم ہمیشہ اس سے پوچھتے رہتے ہیں ’’آپ کی مُراد کس شیطان سے ہے‘‘؟ ولیم لؔانے کہا ہے

’’ نفس نہ ہی صرف گناہ کی جائے پیدائش اور جائے سکونت ہے بلکہ یہ گناہ کی زندگی ہے۔ شیطان کے تمام کام نفس میں ہی جنم لیتے ہیں ۔ نفس ہی شیطان کا ایک عجیب کار خانہ ہے‘‘۔

نفس کی ایک پیچیدہ صورتوں میں سے ایک صورت یہ ہے کہ شیطان پر الزام لگا نا شروع کر دیں۔ لیکن جب آپ اسے جگہ دیتے ہیں تو پھر اس پر الزام کیوں دھرتے ہیں؟ نفس کی زندگی ہی اُس کی پناہ گاہ ہے۔ جب نفس، نفس کو نہیں نکال سکتا تو وہ شیطان کو کس طرح سے نکال سکتا ہے۔ پولس رسول کہتا ہے ۔ ’’ابلیس کو موقع نہ دو‘‘ ۔ خداوند مسیح نے شیطان کے بارے میں فرمایا ’’ دُنیا کا سردار آتا ہے اور مجھ میں اس کا کچھ نہیں‘‘۔ خداوند مسیح بے گناہ اور بے غر ض تھا ۔ شیطان کا اُس پر کوئی اختیار نہ تھا۔ اس لئے خداوند مسیح یہ کہہ سکتا تھا۔ ’’اے شیطان دُور ہو ‘‘۔


اُس نے شیطان کا مقابلہ کیا اور وہ ہمیں بھی ایسا ہی کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ لیکن اگر زندگی میں نفس کو کوئی جگہ مل جائے تو پھر ہم دوزخ کے وارث ہیں۔ نفس کا صلیب پر چڑھا یا جانا ضروری ہے اس سے قبل کہ ہم شیطان کو اپنے پاؤں کے نیچے کچلیں ۔

یعقوب رسول نے کیا ہی خوب لکھا ہے ’’پس خدا کے تابع ہو جاؤ اور ابلیس کا مقابلہ کرو تو وہ تم سے بھاگ جائے گا ‘‘( یعقوب ۴: ۷) ۔ آپ اس میں خُدا کے حکم پر غور کریں۔ جب کوئی شخص مکمل طور پر اپنے آپ کو خدا کے تابع کر دیتا ہے تو وہ کامیابی سے شیطان کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ جب تک نفس اپنی من مانی کرتا رہتا ہے شیطان سے مقابلہ کرنا محض بیوقوفی ہے۔ شیطان صر ف یہ کہتا ہے ’’یسوع کو تو مَیں جانتا ہوں اور پولس سے بھی وقف ہوں مگر تم کون ہو ‘‘؟ اگر ہم کامیابی سے شیطان کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ایسے فاتح بننا چاہیے جن پر حملہ کیا گیا ہو ۔ محض جب ہم مسیح کے غلام ہوتے ہیں۔ تو ہم اس کے ساتھ کھڑے ہو کر شیطان کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔

اِس خیال سے ہم اس بات پر غور کر سکتے ہیں کہ شیطان کا سر کس طرح سے کچلا گیا تھا۔ کیا خداوند یسوع مسیح حقیقت میں یہوداہ کا شیر ببر ہے؟ خداوند مسیح صاف طور پر شیطان پر فتح پانے کا اصل سبب صلیب سے منسوب کرتا ہے۔ ا ُس کے اوپر اُٹھا ئے جانے سے دُنیا کےسردار کی عدالت ہوتی ہے۔ لیکن یہ کام کس طر ح ہوتا ہے ؟ کیا وہ کمزور کی وجہ سے صلیب پر نہیں چڑھا یا گیا ؟ وہ بّر ے کی طرح ذبح ہونے کے لئے لے جا یا گیا ۔ کیا اس کتاب کے پڑھنے والے نے سوچا ہے ۔ کہ یہ ’’ المیہ ‘‘ کس طرح سے ، فتح ، کہلا سکتا ہے ؟ راقم الحروف اس بات پر غور کر کے خود حیرت میں گم ہو گیا ۔ اُس نے اس کو قبول کیا کیونکہ یہ بائبل مقدس میں مرقوم ہے ۔ا ور یہ دلیل کافی وزنی ہے ۔ لیکن یہ غیر منطقیانہ (عقل پر پورا نہ اُترنے والی)بات ہے۔ کیا اُس قاتل اور جھوٹ کے باپ یعنی شیطان نے کلوری پر اپنی مرضی کو پورا کیا ۔ خداوند مسیح نے فرمایا ’’یہ تمہاری گھڑی اور تاریکی کا اختیار ہے ‘‘۔ خداوند مسیح نے بارہ تمن فرشتوں کی امداد سے انکار کر دیا ۔ لیکن خُداوند مسیح نے اپنے آپ کو شیطان کے غریب خورد ہ لوگوں کے حوالے کر دیا؟ قادر مطلق خدا کو اپنی قدرت ظاہر کرنے دو۔ شیطان کو اپنے مقام پر بھیجو ۔ عقل یہی پکارتی ہے۔

لیکن خُدا کے وسائل ہمارے سے اعلیٰ ہیں۔ اخلاقی عالم کی فتوحات کو مجرد (اکیلا)مادی چیزوں کے ترازوؤں سے نہیں تو لا جا سکتا ۔ اخلاقی اصو ل اور زور ایک ہی چیز نہیں ہیں۔ ایک بیچارہ بت پرست وکیل کہتا ہے ۔’’ اگر آپ کا خدا قادر مطلق ہے تو اُس نے شیطان کو دُنیا میں کیوں اتنی ڈھیل دے رکھی ہے ؟ یہ بات چاہے بڑی ہی وزنی معلوم ہو تاہم دس ہزار مقدسین بھی اس پیچیدہ مسئلہ سے حیران و پریشان نہیں ہو ئے ۔ہم خدا کی راہوں کو نا قص عقل سے سمجھ نہیں سکتے ۔ ایک ہزار سال تک شیطان کو قید کر دیا جائے گا ۔ اور پھر اُسے خدا کی مرضی کے مطابق آزاد کر دیا جائے گا۔ لیکن شیطان کا انجام آگ کی جھیل ہے ۔ خدا نے کیوں نہ پہلے ہی دن شیطان کو قید کر دیا ؟ لیکن ان سوالات کو کیوں کیا جائے ؟ شیطان ’’ اگر ‘‘ اور ’’ کیوں ‘‘ میں’’ اُستاد ‘‘ کامل ہے ۔ مقدسین خدا پر جو عقل کل ہے بھروسہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے معلوم کیا ہے کہ خدا واقعی عقل کل ہے۔ صلیب نے یہ ثابت کر دیا ہے۔ کہ یہ ’’خدا کی قدرت اور خدا کی حکمت ہے‘‘۔ صلیب نے اُن کے لئے گناہ کا علاج کر دیا ہے ۔ا ور اب شیطان کا اُن کی زندگیوں پر کوئی اختیار نہیں رہا ۔ انہوں نے معلوم کیا ہے ۔ کہ شیطان خادم ہے اور خداوند یسوع آقا ہے۔ وہ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ شیطان کے ستم رسیدہ لوگ اب اس سے چھڑائے جار ہے ہیں۔ اور یہ سب کچھ اس کے سامنے صلیب کی قدرت سے ہو رہا ہے۔ لیکن یہ عمل کس طرح سے ہو تا ہے ؟ ایک اہم سوال ہے۔


مقدس پولس رسول صلیب کے متعلق کہتا ہے’’ اُس نے حکومتوں اوراختیار وں کو اپنے اُوپر سے اُتار کر اُن کابر ملا (سرعام)تما شا بنایا اور صلیب کے سبب سے اُن پر فتح یابی کا شادیانہ بجا یا ‘‘( کلسیوں ۲: ۱۵ )۔ جو نہی ہم اس فتح یابی کے راز سے آگاہ ہوتےہیں۔ تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس معاملہ میں زور کو کوئی دخل نہیں ہے ۔ اس بّرے کی طرف دیکھو جو گلگتا کی چوٹی پر چڑھ رہا ہے۔ وہ اپنی حفاظت کئے بغیر صلیب پر چڑھے گا ۔ وہ اپنے باپ کی پوری طرح سے فرمانبرداری کرے گا۔ وہ کامل بے غرض انسان ہونے کی حیثیت سے اپنے دشمن کا آخری د م تک مقابلہ کرے گا ۔ دشمن کو جو کچھ وہ کرنا چاہتا ہے کرنے دو ۔ دشمن کو اپنا آخری ہتھیار استعمال کرنے دو ۔ لیکن آدم ثانی اپنے خداوند خدا سے اپنے سارے دل سے محبت کرتا رہے گا ۔ اور اپنے پڑوسی سے اپنی مانند محبت کرے گا۔ وہ اپنے آپ کو پریم کر نے سے انکار کر ےگا ۔ اور اپنے آپ کو بچانے کے لئے صلیب سے اُترنے سے انکار کرے گا۔ جب خدا اپنے پیارے بیٹے کو منہ پھیر کر عذاب میں مبتلا کرے گا۔ جب وہ جہان کے گناہ لئے جاتا ہے ۔ تو اس خوفناک لمحہ کے وقت وہ کہے گا ’’ اے میرے خدا‘‘! وہ موت تک وفا دار رہا ، اور اس نے صلیبی موت بھی برداشت کی ۔ وہ فتح مندی کے سبب جہان کے تخت کا مالک ہے۔ اب شیطان کس طرح سے دم مار سکتا ہے۔ کلوری پر اُ س کا پول ظاہر ہو چکا ہے۔ وہ جھوٹ کا باپ ہے ۔ وہ روحوں کا قاتل ہے ۔ وہ چراتا ہے اور تباہی مچاتا ہے۔ وہ جھوٹا اور دھوکا دینے والا سانپ ہے ۔ اس جہان کے سرداروں کے ساتھ اُس نے پاک بے ضرر اور بے قصور کو قتل کر دیا ہے۔ اب اِس دُنیا کی عدالت ہوتی ہے ۔ اس جہا ن کے سردار کو نکال دیا گیا ہے ۔ مسیح فاتح ہے۔ اس نے شیطان کی طاقت کو ہر ا دیا ہے۔ اس نے ان طاقتو ں کو مغلوب کر لیا ہے۔ اُس نے ہی طاقتوں پر حملہ کیا ہے۔ اُس نے یہ فتح اپنی جان دے کر حاصل کی ۔ وہ اس دُنیا کی آخر ی عدالت کرے گا ۔ مسیح کے نظریہ کے مطابق صلیب آخر ی معیار اور آخری عدالت ہے۔ جس کے سامنے تمام اخلاقی اور رُوحانی اصُولات لائے جائیں گے تا کہ انہیں ب نقاب کیا جا سکے ۔ فتح اُسی کی ہے۔

آیئے ہم اُس پر ایمان لائیں اور اس کے سامنے جھکیں اور تاریکی کے حاکم پر فتح یابی میں ہم اُس کے شریک ہوں۔ خُداوند مسیح نے اپنی موت کے ذریعہ شیطان کو تباہ کر دیا ہے۔ جس کے اختیار میں موت تھی ۔ اوروہ اُن لوگوں کو آج بھی گناہ کی غلامی سے چھڑاتا ہے ۔ جن پر موت کا خوف طاری ہے۔ اور اگر خُدا شیطان کو اجازت دے دے کہ وہ ہمارے کھیت کی باڑ کو تباہ کر دے ۔ اور ایوب کی طرح ہماری دُنیا ٹکڑے ٹکڑے کر دے تو اس میں کیا فرق پڑتا ہے۔ صلیب ہمارے دشمن اور ہمارے درمیان کھڑی ہو جاتی ہے۔ اور جب ہم مسیح کے ساتھ مصلوب ہوتے ہیں۔ اور منجی کے زخموں میں چھپ جاتے ہیں۔ تو ہم اپنے پاؤں تلے شیطان کو کچل دیتے ہیں۔ اب شیطان کا ہماری کسی چیز پر اختیار نہیں رہتا ۔ اس صورت میں ہم بڑے ادب سے کہہ سکتے ہیں۔’’ مجھ میں اس کا کچھ نہیں‘‘۔

ایف ۔ جے ہیوگؔل اپنی پُرانی اور نئی خدمت کا مقابلہ کرتے ہوئے کہتا ہے ’’ مَیں اُس زمانے کے مشنری کام پر نگاہ ڈالتا ہوں جب خدانے مجھ پر اپنے حقائق واضح نہیں کئے تھے یعنی تاریکی کے خوفناک دشمنوں کے متعلق مَیں کچھ نہیں جانتا تھا۔ مَیں اس زمانے کو یاد کر کے شرم سے اپنا سر جھکا لیتا ہوں۔ مَیں جانتا ہوں کہ میری وہ زندگی بڑی بد مزہ تھی۔ مَیں ہو ا کو گویا مُکے مارنے والا تھا ۔ اور میری محنتیں ثمر بار نہ ہوئیں۔ ہاں مسیح کی منادی کی جاتی تھی۔ اس مخالفت کی اصلی ماہیت اور دشمن کی قوت کا مجھے کوئی اندازہ نہ تھا ۔ میں اکثر سوچا کرتا تھا کہ وہ کلام کا بیج جو بویا جاتا ہے۔ اس میں سے سارا کیوں نہیں اُگتا ۔


میں نے اپنے منجی کے الفاظ کے معانی پر کبھی غور نہیں کیا تھا۔ کہ جب کوئی بادشاہی کا کلام سنتا اور سمجھتا نہیں تو جو اس کے دل میں بویا گیا اُسے وہ شریر آخر چھین لے جاتا ہے‘‘۔ میں اس بات پر غور کیا کرتا تھا کہ کئی سالوں کی منادی کے بعد بھی پر اُسی طرح کی موت کی حالت طاری ہے۔ اس مشکل زمانہ کے بعد اس مردِ خدا نے میکسیکو کے بے آب و گیاہ (جہاں نہ پانی ہواور نہ درخت)بیابانوں میں اس کی قدرت کی زندگی کی ندیاں بہتی دیکھی ہیں ۔ہزاروں سپاہیوں نے خُدا وند مسیح کو قبول کر لیا ہے۔ جنگ کا نقارہ بج چکا ہے۔ شیطان کی طاقت بڑی خوفناک ہے۔ لیکن خدا کی سچائی آگے ہی بڑھتی جاتی ہے۔’’ کیا زبردست سے شکار چھین لیا جائے گا؟ اور کیا راستباز کے قیدی چھڑا لئے جائیں گے ؟ خداوند یوں فرماتا ہے کہ زور آور کے اسیر بھی لے لئے جائیں گے ۔او ر مہیب کا شکار چھڑا لیا جائے گا ۔ کیونکہ میں اس سے جوتیرے ساتھ جھگڑتا ہے ۔ جھگڑا کر وں گا اور تیرے فرزندوں کو بچا لُوں گا ‘‘( یسعیا ہ ۴۹: ۲۴، ۲۵ )اس مشنری نے دیکھا کہ ہزاروں روحیں برباد ہو رہی ہیں۔ ہمارا نجات کا بانی ہماری کم ہمتی اور خود غرضی کو جانتا ہے۔ اس لئے یہ مشنری مقدسین سے جنگ کا نظارہ دیکھ کر اس بات کا متمنی ہے کہ خدا کی کلیسیا ء اس طرح سے کیل کانٹے سے لیس ہو جیسے کوئی لشکر جنگ کے لئے تیار ہوتا ہے۔ وہ طفو لیت کے درجہ سے نکل کر مسیحی زندگی کے شباب میں داخل ہوتا ہے۔

مسیحی کلیسیاء میں سب سے اہم چیز اچھا سپاہی بننا ہے۔ پولُس رسو ل نے مسیحی کلیسیاء کوعمل کی تعلیم دینے کے لئے اسی استعمارہ (کسی مقام پر قابض ہوکر اس کی آبادی بڑھانا)کا استعمال کیا ۔ ایک مسیحی اوّل اور آخر سپاہی ہے۔ اُسے اس دُنیا کی غیر سپا ہیانہ زندگی کو چھوڑ دینا چاہیے ۔’’ کوئی سپاہی جب لڑائی کو جاتا ہے ۔ تو اپنے آپ کو دُنیا کے معاملوں میں نہیں پھنسا تا تا کہ اپنے بھرتی کرنے والے کو خوش کرے ‘‘ وہ ایک جار حانہ لڑائی میں مشغول ہے۔ وہ موت سے کھیلنے کے لئے تیار ہے۔ عیش و عشرت کی زندگی کے متوالے لوگ مسیحی جنگ کے متعلق سننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ لیکن پولس رسول نےجنگی اصطلاحات کو استعمال کیا ہے۔ اس کے خطوط میں میدان جنگ کی تصاویر کس خوبصورتی سے کھینچی ہوئی ہیں۔ ہم پھر مسٹر ہؔیوگل کا ایک اقتباس درج کرتے ہیں:۔

جس وقت صلیب آپ کو قربانی دُکھ اور سختیاں جھیلنے کی دعوت دے رہی ہو تو اُس وقت خدا کی محبت کے گیت گا نا کو کیسا بھلا معلوم ہوتا ہے۔ اگر اس زمانہ میں بہت سے مسیحی ایمان کے گہوارہ ہیں لوریا ں نہ لیتے اور اپنی شخصی نجات سے قانع (قناعت کرنے والا)نہ ہوتے اور روحانی طور پر بچوں کی سی زندگی بسر نہ کرتے تو یہ دُنیا ایک بد مست شرابی کی طرح ایک بین الا قوامی طوفان کی طرف نہ کھینچی جاتی ۔ کیا آپ (یوحنا ۱۴ باب) کو بے حد پسند کرتے ہیں ؟ کیا آپ نے کبھی یہ بھی خیال کیا ہے کہ شیطان بھی یہی پسند کرتا ہے؟ ان بچوں کے سے کپڑوں کو اُتار پھینکئے اور (رومیوں ۶باب متی ۲۸: ۱۸۔ ۲۰ ؛ کلیسوں ۱: ۲۴ )اور اسی قسم کے بے شمار حوالے ہماری بیو قوف نفسانی زندگی کے لئے نشتر (زخم چیرنے کا اوزار)کا کا م دیتے ہیں۔

آہ !یہ کیسی شرمناک زندگی ہے۔ یہ ایک خوفناک المیہ ہے و ہ لوگ جنہیں آزادی حاصل ہو چکی ہے۔ اور خون سے خریدے گئے ہیں ابھی تک وہ اس دُنیا کی غلامی اور شیطان کی قید میں ہیں ۔ وہ شکست خوردہ ہیں۔ اَے خُداوند ! یہ صورت حال کب تک رہے گی ؟

خُداوند مسیح کے سپاہیو ! ٹھہرو ۔ میری طرف متوجہ ہو ۔ اپنی آزادی کا مطالبہ کرو۔ دُنیا اور جسم کے اعتبار سے مصلوب ہو جاؤ۔ عین اس جگہ مصلوب ہو جہاں سانپ کا سر کچلا گیا تھا۔ یہ تین قسم کی جلالی آزادیاں ہیں۔ اَب ہم اچھی لڑائی لڑنے کے لئے تیار ہیں۔


’’ اور وہ برّہ کے خون اور اپنی گواہی کے کلام کے باعث اس پر غالب آئے۔ اور انہوں نے اپنی جان کو عزیز نہ سمجھا یہاں تک کہ موت بھی گوارا کی ‘‘( مکا شفہ ۱۲: ۱۱)۔ یہ تینوں مکمل ہتھیار ہیں۔

ہم خداوند مسیح کے خون سے التجا کرتے ہیں۔ کہ وہ دشمن کے تمام منصوبوں کو خاک میں ملا دے اور اس کے آگ کے تیروں کو ٹھنڈ ا کر دے ۔ دشمن خداوند مسیح کے خون کے سامنے نہیں کھڑا رہ سکتا ۔ ہم کھلم کھلا اپنی گواہی کے کلام کا اعلان کرتے ہیں۔ صرف وہی لوگ سانپ کا سر کچل سکتے ہیں۔ جو اس کی گواہی دیتےہیں۔

ہم مرتے دم تک اپنی جان سے پیار نہیں کر یں گے ۔ شیطان ہمارے ساتھ جو کچھ چاہے کر ے ۔ ہم تو موت کے مقام پر ہیں ۔ اسی جگہ موت کو ختم کر دیا گیا اور شیطان کو تباہ کر دیا گیا تھا۔ ہم فتح مند ہیں ۔

آپ سب چیزوں پر غالب آ کرایمان پر قائم رہیں۔


باب بیست و سوم

صلیب اور بادشاہی

ایک شخص کے بھائی کو زہر دے دیا گیا کیونکہ وہ ایک مسیحی سردار تھا ۔اس بُت پرست قبیلہ نے اپنے تجربہ سے معلوم کیا تھا کہ مسیحی سرداروں سے اچھا کوئی نہیں ہوتا ۔ اس قبیلہ میں صرف ایک درجن مسیحی تھے ۔ ایک مشنری نے اس شخص سے پوچھا ۔ کیا آپ نے اس قبیلہ کا سردار ہونے کے متعلق سب کچھ سو چ سمجھ لیا ہے؟

اس آدمی نے جواب دیا ۔ ہاں میں نے اس کے متعلق خُدا سے دُعا کی اور میرا خیال ہے کہ مَیں اس عہد ہ کو قبول کرؤں ۔

’’لیکن کیا آپ اس عہد ہ کے قبو ل کرنے میں جو خطرات ہیں اُن سے آگا ہ ہیں؟ آپ کے بھائی کو مسیحی ہونے کی وجہ سے زہر دیا گیا تھا ‘‘۔

’’ہا ں ۔ مجھے علم ہے ۔ مجھے معلوم نہیں کہ مجھے کس دن زہر دے دیا جائے گا ۔ تاہم ان لوگوں کی خدمت کرنا بڑی سعاد ت ہے‘‘۔

اَس شخص نے اپنے نفع کی تمام باتوں کو چھوڑ کر اس قبیلہ کا سردار ہونا قبول کیا ۔ خداوند مسیح نے فرمایا ’’ جو تم میں بڑاہونا چاہیے وہ تمہارا خادم بنے‘‘۔ بادشاہی کے لئے خدمت لازمی شرط ہے ۔ قربانی کی ضرورت ہے۔ بادشاہی کا سر چشمہ دُوسروں کی خدمت ہے۔

یونانی شاعر ہو مؔر نے کہا ہے۔’’ تمام بادشاہ اپنی رعا یا کے چرواہے ہوتے ہیں‘‘۔کیا خوب ! حقیقی چرواہا ہی بادشاہ ہوتا ہے ۔ اور کوئی بادشاہ حقیقی بادشاہ نہیں ہوتا جب تک وہ پہلے چرواہانہ نہ ہو ۔ اس کے بادشاہی کرنے کے اختیا ر کا انحصار اسی بات پر ہے کہ وہ اپنی بھیڑوں کی نگہبانی کرے ۔ اس کی بادشاہی کی یہی شر ط ہے کہ وہ اپنی بھیڑوں کے لئے اپھی جان دے دے ۔آدم اوّل کو اسی لئے پیدا کیا گیا کہ وہ دوسروں پر اختیار رکھے۔ اُسے ایک بادشاہ مقرر کای گیا ۔ ایک ممانعت قائم کرکے کہ وہ شجر ممنوعہ کا پھل نہ کھائےاس پر اس کی بادشاہی کی محدودیت کو یا د دلا یا گیا کہ بادشاہی دراصل خدا کے ماتحت ہے۔ لیکن آدم اپنی شاہانہ قوت کو کھو بیٹھا ۔ جب اُس نے خدا کو اپنے دل کے تخت سے اُتار دیا اور اپنی نفسانی خواہشات کو دل کےتحت پربٹھا دیا تو وہ گناہ کے ہاتھ بک گیا ۔ چونکہ آدم غُلام بن گیا اس لئے وہ بادشاہی کے قابل نہ رہا۔ ہر ایک انسان اپنی من مانی کرنا پسند کرتا ہے۔ یہی نفس کا اقتدار ہے ۔ کیا وہ اس تخت سے دست بردار ہونا پسند کرتا ہے؟ ہر گز نہیں۔ جب تک اس نفس سے زیادہ طاقتور اسے تخت سے اتار کر خود تخت نشین نہ ہو۔ ہر انسان حرص و ہوا کہ لا علاج مرضی میں گرفتا ر ہو کر رہ گیا ہے ۔ اس پر نفس کا قبضہ ہے ۔

میرا نفس مجھ کو دغا دے رہا ہے

میرا دشمن جاں خدائی کا دشمن


ہم فرما ن الہٰی کو کس طرح سے بحال کر سکتے ہیں؟ انسان کو کس طرح نفس کی قید اور غلامی سے آزاد کیا جا سکتا ہے؟ انسان کو کس طرح سے مجبور کیا جا سکتا ہے کہ وہ غاصب نفس سے اپنے تما م تعلقات منقطع کر دے ؟ مختصر یہ کہ آدمی کس طرح سے مجبور کیا جاسکتا ہے۔ کہ جسم کے اعتبار سے مر جائے ؟ جتنا ہی کوئی شخص خدا کے فضل میں بڑھتا جاتا ہے اتنا ہی اُسے معلوم ہو تا ہے کہ محض زو ر اور وحشیانہ قوت خدا کے نزدیک کوئی وقعت نہیں رکھتی ۔’’ وہ جزیروں کو ایک ذرہ کی مانند اُٹھا لیتا ہے۔ خدا کا کلام کرتا ہے۔ اور عالم درہم برہم ہو جاتے ہیں‘‘۔ لیکن انسان پر فتح کس طرح سے حاصل کی جا سکتی ہے۔ جو اس کے گناہوں کا حساب چکا دے ۔ اور اُسے ابدی ذلت سے بچا لے ؟ انسان کو آزاد چھوڑ دینا چاہیے ۔ کیا خالق کی اخلاقی شان اس میں ہے کہ قادر مطلق خدا انسان کو ایمان لانے اور احکام خدواندی کی بجا آوری پر مجبور کرے؟

بیان سے باہر ہے اُس کی حکمت

غریب بندوں پہ اُس کی شفقت

جہاں میں بھیجا ہے اپنا بیٹا

بچائے عاصی کو اُس کی رحمت

یہ نیا آدم آیا ۔وہ نئی نسل کا نیا سر ہے ۔ وہ ’’اس لئے نہیں آیا کہ خدمت لے ،بلکہ اس لئے کہ خدمت کرے اور اپنی جان بہتیروں کے بدلے فدیہ میں دے۔ وہ اس دُنیا میں موت کا مزا چکھنے کے لئے اور نا فرمانوں کا خدا سے ملاپ کرنے کی خاطر آیا ۔ وہ اس لئے آیا کہ آدمی کو اس کے اپنے ہی نفس سے علیحدہ کرے اور خدا سے اُس کا رشتہ جوڑ دے۔ اُس نے اپنے جلالی تخت کی شان و شوکت اور صلیب کی ذلت سے یہ ثابت کر دیا کہ خدا کے احکام کی بجا آور ی کتنی پیاری بات ہے ۔ اپنی بے لوث انسانیت اور اپنی رضا کارانہ انتہائی دُکھ کی موت سے اُس نے تکبر اور غرور کی بادشاہت کا خاتمہ کرد یا ۔ جب اُس نے یروشلیم کی طرف جانے کے لئے اپنا مصمم ارادہ باندھا تو وہ اپنی صلیب کی طرف جا رہا تھا۔ وہ صلیب کو تاج سمجھتا تھا۔ وہ اپنے باپ کی مرضی کو پورا کرنے آیا تھا اور وہ مرضی موت تھی۔ اُس نے خدا کی مرضی پوری کی اور اپنی جان دے دی ۔ اُس نےموت گوارا کی لیکن گناہ نہ کیا ۔ وہ گناہ کی خاطر مر گیا ۔ وہ گناہ کے اعتبار سے مر گیا ۔ اس قسم کی فرمانبردار اور فتح مندزندگی اُس کلوری کی مقدس آگ سے حاصل کی اور اسی سے دُنیا کی عدالت ہو گی ۔ نفس کی زندگی پر خواہ وہ آدمیو ں کی ہو یا شیطا ن کی یا ارواح خبیثہ (بدارواح)کی ہو ۔ اس کو ہمیشہ کےلئے سزا کا حکم دیا گیا ہے۔

اسی صلیب کی بنا پر خدا اب انسانوں کے ساتھ سلوک کرتا ہے۔ یہ کام خداوند مسیح کی صلیب کے وسیلے بغیر کسی دباؤ کے سر انجام پاتا ہے۔ اگر کوئی آدمی صلیب کےپاس آئے لیکن اپنی خودی اور غرور کو اپنے آپ میں سے دُور نہ کرے اور اپنے خداوند کے ساتھ مرنے سے انکار کرے تو اس صورت میں کوئی چارہ کا ر نہیں ہے۔ اس کے لئے اُمید کا چراغ گُل ہو چکا ہے۔ اس قسم کے آدمیو ں کے لئے لوہے کا عصا ہی آسمانی قانون ہے۔ خداوند مسیح کے سامنے ہر ایک گھٹنا جھکنا چاہیے تب اس کے دشمن خا ک چاٹیں گے ۔


خداوند مسیح نے صلیب پر سب کو اپنا غلام بنا لیا ۔ کلوری تمام دُنیا کی حکومتوں کی طاقت کچل دیتی ہے ۔ وہ کونسی طاقت ہے جو نفس کو تخت سے دست بردار ہونے پر مجبور کرتی اور آدمی کو ہر ایک دُنیاوی خواہش کے تخت سے اُتار سکتی ہے ؟ خداوند مسیح اپنی صلیب کی وجہ سے بادشاہوں کا بادشاہ ہے۔ ایک بادشاہ کا ذکر ہے کہ وہ ایک نظردیکھ لینے سے اپنی رعایا کو قتل کر وا دیا کر تا تھا۔ خداوند مسیح بھی انسانوں کو قتل کرتا ہے۔ لیکن وہ طاقت اور خوف سے نہیں بلکہ وہ مقتول ہو کر ایسا کرتا تھا۔ وہ انسان کو اُس کے غرور اور خواہش کے اعتبار سے قتل کر دیتا ہے۔ جس طرح صلیب ایک مقدس کی زندگی میں اپنا اثر کرتی ہے اس طرح سے کوئی بادشاہ اپنی رعا یا کے دل پر قابو نہیں پا سکتا ۔

محبت خواہ وطن کی ہو یا اپنے خویش و اقارب (رشتہ دار)کی یا اپنے آپ کی وہ ایسے جادو کی طرح ہے جس کی قوت ختم ہوچکی ہے۔ لیکن صلیب میں اس لافانی محبت کا سر چشمہ ہے، جو موت سے بھی زیادہ طاقتور ہے۔

کہتے ہیں ایک فرانسیسی سپاہی گولی لگنے سے زخمی ہوا ۔ اس کی پسلیاں ٹوٹ گئیں ۔ ڈاکٹر اُس کی ٹو ٹی ہوئی پسلیوں میں وہ مہلک گو لی تلا ش کر رہے تھے ۔ تو اُس سپاہی نے کہا ’’ذرا گہر ا جائیے تو آپ کو شہنشاہ ملے گا‘‘۔ اپنے دل کی گہرائیوں سے وہ اپنے بادشاہ سے محبت کرتا تھا۔ حالات اور شرائط ہمیں آزماتے ہیں۔ ممکن کہ ہمارے لئے کانٹوں کا تاج ہو لیکن خداوند مسیح کی صلیب ہمیں فاتحین سے بھی زیادہ بنا دیتی ہے ۔ کلوری دوبارہ بادشاہ پیدا کرتی ہے ،یعنی خداوند مسیح میں بادشاہ بناتی ہے۔ ستفؔنس کو ظالموں نے شہید کر دیا لیکن وہ بادشاہ کی طرح حکومت کا وارث ہوا ۔ ہر ایک پتھر جس سے وہ سنگسار کیا جارہا تھا۔ بادشاہ کو لگ رہا تھا ۔ ساؤل قاتل نے سب سےپہلی مرتبہ خداوند مسیح مصلوب کا سؔتنفس میں ہی نظارہ کیا۔ سؔتفنس کا چہر ہ فرشتہ کی طرح روشن تھا ۔’’کون ہمیں مسیح کی محبت سےجُدا کرےگا‘‘؟ جب مصیبت یا تنگی یا ظلم یاکال یاننگا پن یا خطرہ یا تلوار ہماری ٹوٹی پھوٹی زندگی میں گہرا پن تلا ش کرتی ہیں۔ تو کیا وہ دیکھتی ہیں کہ نفس کی جگہ اب وہاں بادشاہ یعنی خداوند مسیح تخت نشین ہے؟ کیا صلیب نے میری اندرونی زندگی کو اس طرح سے مسخر کر لیا ہے کہ مسیح ہی میرا بادشاہ ہے؟


بندے گردوں مقام ہوتےہیں جو مسیح کے غلام ہوتےہیں
رشک ماہ تمام ہوتے ہیں اُن کے سینوں میں نُور ایمانی
سُر خرو لا لہ فا م ہوتےہیں ظلم سہتے ہیں اُف نہیں کرتے
جلوے محو خرام ہوتے ہیں اُن کی فطرت کی بارگاہوں میں

اُن کی رحمت خلیل کیا کہیئے

مقتدی بھی امام ہوتے ہیں



باب بیست و چہارم

صلیب او رتاج

کوریا کے باشندوں کی ابتدائی اذیت و مظالم کے متعلق جو جاپان نے اُن پر کئے ایک مشنری نے کہا ہے ’’کوریا کے مسیحیوں کے بارے میں جاپان اس سے بہتر کوئی سز ا تجویز نہیں کر سکتا تھا‘‘ ۔ بعض اوقات خرابیوں میں ہماری بہتری کے سامان پوشیدہ ہوتے ہیں۔ اور انجام کار یہ بات سچ ثابت ہوئی کہ آگ کی بھٹیو ں میں جہاں آگ کو سات گنا زیادہ تیز کر دیا گیا اور مقدسین کو اس میں ڈال کر ایذا پہنچائی گئی، زندان میں اور جنگی قیدیوں کے کمپوں میں ، شیر کی ماندوں میں ، گولی کا نشانہ بنانے والے فوجی دستوں کے سامنے اور لکٹینوں میں باندھےجانے میں ہی مقدسین کو تخت نصیب ہو ا ۔

کہتے ہیں کہ بو ہیمؔیا کے ایک امیر آدمی کو پرو ٹسٹنٹ ہونے کی بنا پرقتل کی سزا ہوئی ۔ اس سے پیشتر کہ جلّا اور اُس کا سر تن سے جدا کر دیتا جیؔزوئیٹ لوگوں نےاُسے آخر ی موقع دیا کہ وہ اپنے عقیدے کو چھوڑ دے ۔ ’’ہرگز نہیں اچھی کشتی لڑ چکا ۔ مَیں نے دوڑا کو ختم کرلیا ۔ مَیں نے ایمان کو محفوظ رکھا ۔ آئندہ کے لئے میری واسطے راستباز ی کا وہ تاج رکھا ہو ا ہے جو عادل منصف یعنی خداوند مجھے اُس دن دے گا‘‘ ۔ جیزوؔیٹ لوگوں نے اُس سے بے پروا یانہ انداز سے کہا ’’یہ الفاظ پولس رسول کے لئے تو درست تھے لیکن ان کا اطلاق تم پر نہیں ہو سکتا ‘‘۔ لیکن اُس وفادار مرد ِخدا نے کہا ’’نہیں آپ اس آیت کو آخر تک پڑھیئے ۔ اس میں یوں لکھا ہے’’ اور صرف مجھے ہی نہیں بلکہ اُن کو بھی جو اُ س کے ظہور کے آرزو مند ہیں‘‘۔

گنہگار ہونے کے ایک باعث ہمیں نجات کی بلا ہٹ ہے ۔مقدسین ہونے کی حیثیت سے ہمیں دُکھ اُٹھانے کی دعوت ہے ۔خداوند مسیح کے لئے صلیب ہے اور ایمان دار کے لئے بھی صلیب ہے۔ کفارہ دینے کے کام میں خداوند مسیح بے مثال ہے ۔’’ اپنی جان دینے میں خداوند مسیح سب سے اعلیٰ اور افضل ہے ۔ اوراُن تمام شہیدوں کے لئے ایک کامل نمونہ ہے جنہوں نے اپنی جان کو عزیز نہ سمجھا ‘‘۔ خداوند مسیح کا ہر ایک شاگرد پیدائشی مصلوب ہے۔ اس لئے وہ قوت والا شہید ہے۔ خداوند مسیح نے اپنے دُکھ اور اپنے جلال کو لازم و ملز وم قرار دیا ے۔ صلیب کے بغیر تاج نہیں مل سکتا ۔ منجی کے تصور میں گلگتا اور جلال باہم وابستہ ہیں، کیونکہ وہ لوگ جو کلوری کی گہرائیوں میں کھو جاتےہیں ۔ انہیں جلا ل کی بلندیاں حاصل ہوتی ہیں۔ دُکھوں کا انعام ضرور ملتا ہے۔ خداوند مسیح کے ساتھ مصلو ب ہونے سے گویا جلال آپ کا مقدر بن جاتا ہے۔ اور اس میں زندگی اور زندگی کا تاج ہے۔ اس میں راست بازی ہے اور راست بازی کا تاج بھی ہے۔ بادشاہت کا فرزند ہونے اور بادشاہت کا تاج حاصل کرنے میں فرق ہے ۔ تاج صرف اُن کے لئے ہے جو اپنی صلیب اُٹھاتے ہیں۔ یہ قانون ایسا اٹل ہے کہ جن کو صلیب اُٹھانے کی بلاہٹ ہوتی ہے۔ اُنہیں کو تاج پیش کیا جاتا ہے ۔ قدیم یونانی نسخہ و لگیٹ کے مطابق (زبور ۹۶: ۱۰ )کے الفاظ اس طرح پڑھنے چاہئیں ۔

’’قوموں میں اعلان کروکہ خداوند صلیب سے سلطنت کرتا ہے‘‘۔


جسٹؔن شہید یہودیوں پر الزام لگاتا ہے کہ ’’انہوں نے جان بوجھ کر الفاظ (ALIGNO)کو مٹا دیا ہے تا کہ اُن سے کہیں مسیح مصلوب کی صلیبی بادشاہی قائم نہ ہوجائے ‘‘۔ لیکن ہم نجات یافتہ لوگوں کے لئے خداوند مسیح اُس ذلت اور دُکھ کےمقام سے حکومت کرتا ہے ۔ ہمارے لئے صلیب ’’خدا کی قدرت اور خدا کی حکمت ہے‘‘۔ اسی صلیب پر بادشاہ نے ( لعنت کے بادشاہ نے )ہمیں اسیر کر لیا ہے ۔ اور اپنے رتھ کےپہیوں سے باندھ رکھا ہے ۔ خداوند مسیح کواس لئے لعنت کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔ کیونکہ کتاب مقدس میں لکھا ہے ’’جو کوئی لکڑ ی پر لٹکا یا گیا وہ لعنتی ہے‘‘۔خُداوند مسیح اپنی کمزوری اور نقصان کی حالت میں ہمارے غرور تکبر کا خاتمہ کر دیتا ہے ۔ وہ ہماری نفسانی خواہشات کو نکال دُور کرتا ہے اور بادشاہ کی طرح حکومت کرتا ہے ۔ یہوداہ کے قبیلہ کا شیر ببر ہی ازل سے ذبح کیا ہوا بّرہ ہے ۔ وہ صلیب سے سلطنت کرتاہے۔ یودیوں نے جب خداوند مسیح کو دیکھا تو وہ بڑے حیران ہوئے کیونکہ جس قسم کے مسیح کا وہ انتظار کر رہے تھے۔ یہ مسیح اس قسم کا نہ تھا۔ یہ مسیح موت اور دُکھ اُٹھانے والا تھا مگروہ حکمران اور بادشاہی کرنے والے مسیح کے ہی منتظر تھے۔ وہ شش وپنج میں مبتلا تھے کہ کیا دو مسیح ہیں؟ لیکن خداوند مسیح کا مُردوں میں سے جی اُٹھنا اس راز سے پردہ اُٹھاتا ہے ۔ قادر مطلق کو صلیب پر ہی تاج پہنا دیا گیا ہے۔ لیکن ہم اس بات پر زور دیتے ہیں کہ صلیب نہ صرف کفارے کا باعث ہے بلکہ یہ دوسرو ں کے لئے ایک اچھا نمونہ پیش کرتی ہے۔ مسیح مصلوب تو وہی ہو سکتا ہے جو اپنے شاگردوں کو بھی مصلوب کر دے ۔کُنبہ کے رُکن اعلیٰ اور دوسرے افراد میں ہم آہنگی ہونی چاہیے ۔ خُدا نہ کر ے کہ ہم تصلیب کے ریلے سے بچ جائیں اور پھر بھی صلیبی دُکھوں میں حصہ نہ لیں۔ شاگرد اُستاد سے بڑا نہیں ہوتا ۔ اُسے خداوند مسیح کی طرح دُکھ اُٹھا نا چاہیے ۔

بشپ پیؔرسن نے ایک مرتبہ مسیحیت کا الہٰی چشمہ ثابت کرنے کے لئے یہ بتایا کہ اس کے عقائد ایسے ہیں کہ وہ عوام الناس کی تفہیم (عقل وفہم)سے بالا ہیں ۔مثلاً

۱۔ مسیحیت تمام دوسرے مذاہب کو رد کرتی ہے

۲۔ مسیحیت آدمیوں کو ایسے کام سکھاتی ہے جو جسم کے خلاف ہیں ۔ مثلاً مسیحیت دُشمنوں سے محبت کرنے اور صلیب اُٹھانے کا حکم دیتی ہے ۔

۳ ۔ مسیحیت نا قابل یقین وعدے کرتی ہے۔ یہ وعدے اس زندگی کے بعد ہی پورے ہو سکتےہیں۔ ان وعدوں کی بنیاد مسیح کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے پر ہے۔

۴۔ فتح کے حصول کے لئے ایمان کی مُہر لگا ئی ہے اور اذیتو ں کا وعدہ کرتی ہے۔

یہ دلیل بڑی معقول ہے تاہم اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ مسیحی مذہب محض اِن باتوں کی وجہ سے ہی کامیاب ہوا ۔ خُدا وند مسیح کی صلیب میں ہی خدا کی قدرت اور حکمت کا ظہور ہے ۔ مسیحی ایمان اور مسیحی زندگی کے اصُولوں کا مظاہرہ صلیب پر ہوا ۔


مسیح کی صلیب میں ( اور ہماری صلیب میں بھی ) اس دُنیا کی تمام ظاہر ی خوبصورتیاں بے معنی ہو جاتی ہے اور صرف خدا ہی ہمارے ساتھ رہ جاتا ہے۔ دُنیا کی خوشیاں وقتی ہیں ۔ ایک مسیحی زمانہ حال سے دست بردار ہو کر تھوڑی دیر کے لئے دُکھوں کو برداشت کرتا ہے۔

۱۰۰ء کے ایک بُت پرست لوسیؔن سامو سٹا نے کہا ہے

’’ ابھی تک مسیحی اُس عظیم انسا ن کی پر ستش کرتے ہیں جو مصلوب ہواتھا ۔ یہ بد نصیب لوگ یہ یقین رکھتے ہیں کہ وہ کبھی نہیں مریں گے ۔ اورابد تک زندہ رہیں گے یہی وجہ ہے کہ وہ موت کی پرواہ نہیں کرتے ۔ اور بہت سے مسیحی موت کو بڑی خوشی سے قبول کرتےہیں‘‘۔

اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں ہےکہ بُت پرست اقوام صلیب سے بہت ہی ڈرتی تھیں ۔ صلیب نے انسانوں کو کچھ اس طرح سے مسخر کیا کہ وہ خوشی خوشی اپنی جان قربان کرنے کے لئے تیار رہتے تھے۔ یہ مقدس لوگ آسمان کے ایسے آزاد شہری بن گئے کہ وہ اپنے زمانہ کی گندی سو سائٹی کی رسومات میں گرفتار نہ ہوئے۔ یہ لوگ جنہیں رومی شہنشاہ ’’تیسرے درجے کی نسل ‘‘کہا کرتے تھے۔ داناؤں کے لئے حیرانی کا باعث بن گئے ۔ اُنہوں نے ذلت اور رسوائی کا جامہ زیب تن کیا ۔ انہوں نے اپنے زمانہ کےمصائب کو در خور اعتنانہ سمجھا اورابدی زندگی بسر کی ۔ بت پر ستو ں کے نزدیک صلیب کی شریعت اپنی نظر نہ آنے والی طاقتوں کے باوجود ایک خوفناک بلا اور ایک لا علاج وبا تھی۔ جب کبھی کسی سادہ لوح پر صلیب کااثر ہوتا تھا۔ تو وہ کسی بھی مصیبت کی پرداہ نہیں کیا کرتا تھا ۔ اُس زمانہ میں شاگردوں کے نام سے لوگ مصلوب کو جانتے تھے۔ وہ صلیب سے ہمکنار ہوتے تھے۔ کیونکہ اُنہیں یقین تھا کہ وہ زندگی کا تاج حاصل کریں گے ۔ انہوں نے موت کاراستہ اختیار کیا کیونکہ یہ زندگی کی شاہراہ ہے۔ ایک مرتبہ خداوند مسیح کے ایک شاگرد سے کسی نے پوچھا کہ ’’تم کیوں موت کے اس قدر دلدادہ ہو‘‘ ؟ اُس شاگرد نے بڑی ٹھاٹھ سے یہ جواب دیا ’’ جناب عالی ۔ موت کے نہیں بلکہ زندگی کے دلدادہ ہیں‘‘۔

ہم مسیحیوں کے یہ حکم ہے’’ ویسا ہی مزاج رکھو جیسا مسیح یسوع کا بھی تھا ‘‘ ( فلپیوں ۲: ۵) ۔اُس نے اپنے آپ کو خالی کر دیا اور خادم کی صورت اختیار کی ۔ خداوند مسیح اپنی تعلیم کا عمل مجسم ہے۔ اُس نے یو ں تعلیم دی ’’ جو کوئی اپنے آپ کو بڑا بنائے گا ۔ وہ چھوٹا کیا جائے گا ۔ اور جو اپنے آپ کو چھوٹا بنائے گا ۔ وہ بڑا کیا جائے گا ‘‘۔ خدواند مسیح نے اپنی زندگی سےہی اس کی مثال دی ۔ خداوند مسیح اپنے جلال کی بلندیوں سے نیچے اُتر آیا ۔ وہ خُدا تھا لیکن وہ انسان کی صورت میں مجسم ہوا۔ انسان سے اس نے خادم کی صورت اختیار کی۔ زندگی سے اُس نے موت اختیار کی ۔ وہ عام موت نہیں مرا بلکہ اس نے بدکاروں کی موت مرنے کو ترجیح دی۔ وہ انتہائی گہرائیوں میں اتر گیا ۔ اس لئے خدا نے اُسے سر بلند کیا اور اُسے وہ نام بخشا جو سب ناموں سے اعلیٰ ہے۔ اُس کی سر بلند ی کا اندازہ اُس کی ذِلّت سے لگا یا جا سکتا ہے۔ اُس کی سربلند ی حقیقت میں اُس کا انتہائی پستیوں میں گرنا تھا ۔ اور ہماری بھی یہی حالت ہو گئی ۔ یہ خوف ناک حقائق ہم پر اس طرح سے قبضہ جما لیں گے کہ ہم معاوضے کے ا س اٹل قانون کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھال لیں گے ۔کیا ہم وہ چیز کا ٹیں گے ۔ جسے ہم نے نہیں بو یا ؟ کیا ہم خدا کی بادشاہی میں اُس کے دائیں ہاتھ بیٹھنا چاہتے ہیں؟


خدایسی سہل انگاری پڑنے پر رحم فرمائے جسے اپنی عاقبت کی فکر نہیں ہے۔ خداوند مسیح نے کبھی کسی آدمی کو بلندی خیال کی وجہ سے نہیں جھڑکا تھا۔’’ تم بڑی سے بڑی نعمتوں کی آرزو رکھو‘‘ ۔ ہم تو بس سب سے بڑی نعمت ہی انتخاب کریں گے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے:۔ ’’خدا کی نعمتیں اُن لوگوں کے لئے ہیں جو اپنی آزمائشوں میں پورے اُترتے ۔ اور خدا دوسرے درجے کی نعمتیں انہیں عطا فرما تا ہے۔ جو بڑی نعمتوں کو حاصل کرنے میں ناکام رہتےہیں‘‘۔

جہاں تک پہلے حصے کا تعلق ہے ہم اس سے متفق ہیں لیکن دوسرے حصے سے ہم متفق نہیں ہو سکتے ۔ کیونکہ وہ آدمی جو کسی چیز کو ہاتھ میں پکڑ کر اس چیز کا انتخاب کرتا ہے۔ وہ اُسے لینے سے انکار کر تا ہے۔ لیکن صلیب کے سامنے کوئی چارہ کا ر نہیں ہے۔ ہمیں انتہائی ذلت کی گہرائیوں میں اُتر جانا چاہیے ۔ لیکن یہ بات کسی فریب سے نہیں ہوتی ۔ انتخاب کرنا ہمارا کام ہے۔ہم سب سے بلند چیز کا انتخاب کریں گے۔ اور یہ انتخاب ہمیشہ رضا کار نہ ہوتا ہے۔ ہم اسی صورت میں تاج کے حقدار ہو سکتے ہیں۔ جب ہم صلیب کا انتخاب کریں ۔ اسی لئے کسی آدمی نےکیا خوب کہا ہے ۔’’ اگر مَیں صلیب کے نیچے کی خاک کےسوا اس فانی دُنیا کے کسی منصب کے لئے آرزو رکھو ں تو ایسی صورت میں مَیں کلوری کی محبت سے بالکل نا آشنا ہوں‘‘۔

کیا یہ محض کر سمس کے ایام کا ہی جذبہ ہے کہ جلال کا بادشاہ مسیح ایک غریب کنواری مریم کے ہاں پیدا ہوا ۔ اور ایک معمولی سرائے میں پیدا ہو کر اس دُنیا میں آیا اور ناصرت میں جسے حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ۔ شیطان کس طرح ا ن رازو ں پر پردہ ڈالتا ہے۔ ایک لمحہ کے لئے خیال فرمائیے کہ خداوند مسیح نے اپنی ماں کے پیٹ میں پڑنے سےپہلے کنواری مریم کا انتخاب کیا ۔ اُسی نے اپنی جائے پیدا ئش کو چُنا اور اپنی مرضی سے ہی اس مقام پر رہنے لگا ۔ اُس نے ایک خا ص مقصد کی خاطر خدا کےجلال کو چھوڑ دیا کہ وہ انسان کے غرور کو ملیا میٹ کر دے ۔ وہ جب پیدا ہو ا تو جو کچھ وہ تعلیم دینے والا تھا ۔ وہ سب کچھ اس میں جسم ہوا۔ ایوب پر افتاد پڑی مگر یہ سب کچھ اُس کی اپنی رضا مندی سے نہیں ہوا ۔لیکن خداوند مسیح نے خود دُکھ اُٹھا یا ۔ اُس نے صلیبی موت گوارا کی۔ کیا وہ بہت سے فرزندوں کو جلالی بنا لے گا ؟ خدا کے کلام کا بیج زمین میں گرا اور مر گیا ۔ آپ غور فرمائیں کہ خدا کس طرح اس کے نیچے اُترے کو اوپر چڑھنے میں بدلتاہے۔ اور اسی واسطے خدا نے اُسے سر بلند کیا اور اُسے وہ نام بخشا جو تمام ناموں سےاعلیٰ اور افضل ہے ۔ اُس نے یہ سب کچھ اپنے ابدی جلال کی وجہ سے حاصل نہیں کیا ۔بلکہ اُسے یہ اس لئے دیا گیا کہ اُس نے اپنے آپ کو خادم بنا دیا۔ مسٹر گریؔسی نے اس کے متعلق یوں لکھاہے۔

’’وہ ایسی زندگی ہے جو زمین کی گہرائیوں میں اُتر گئی اور وہی بلند تریں آسمان پر بھی چھا ئی ہوئی ہے۔ اس طرح سے اُس نے ہماری گری ہوئی فطرت کو سر بلند کیا اور اُسے اپنے ساتھ جلالی تاج پہنا دیا ۔ اسی لئے خدا وند مسیح کے جلا ل کااندازہ اس کی گہرائیو ں اور سر بلندیوں کے لحاظ سےہی لگا نا چاہیے، کیونکہ اس گہرائی نے سر بلندی میں اضافہ کر دیا ہے۔ ہماری انسانیت ابدی تخت تک بلند ہوتی ہے۔ لیکن اُسی تخت کی شان و شوکت کے درمیان ہی حقیقی انسانیت پائی جاتی ہے‘‘۔

خدا وند مسیح ازل سے اس تخت پر جلوہ گر ہے۔ لیکن اب اس کا جلا ل بیان سے باہر ہے۔ اس کے سامنے ہر اک گھٹنا جھکے گا ۔


وہ جو خداوند میں شامل ہیں اس کے ساتھ ایک روح ہیں۔ ایمان دار ساتھیو ! سنو ۔۔۔۔۔ اُس بادشاہ کے ساتھ مل کر ہم خونی رشتہ رکھتے ہوئے بھائی بھائی ہیں۔ وہ ہمارا قریبی رشتہ دار ہے۔ ہم مسیح کے ہم میراث ہیں ۔وہ آپ سے اور مجھ سے کہتا ہے۔

’’میرا اور تمہارا باپ ۔ میرا اور تمہار ا خدا ایک ہی ہے‘‘۔

’’ہم ازلی اور ابدی خدا کے بیٹے ہیں اور ازلی بیٹے کی دُلہن ہیں ۔ ہم خدا کے روح کا مسکن ہیں۔ اسی طرح سے ہم مسیح کے ساتھ ہم میراث ہیں ۔ہمیں وہ خوشی عطا ہوئی ہے۔ جو بیان سے باہر ہے ۔ اس قسم کی خوشی تو فرشتو ں کو بھی میسر نہیں ہے۔ جو خدا کے تخت کے قریب ہیں ۔ اور اس کے خادم ہیں۔ اس نے میری تمام اُمیدوں کو پورا کیا ہے۔ اس نے مجھے سب کچھ عطا فرما دیا ہے۔ ارواح خبیثہ مجھ سے ڈرتی ہیں کیونکہ میرے دل میں صرف خدا کا ڈر ہے۔ مَیں خدا کے ساتھ اس کے جلال میں چلتا ہوں ۔کلیسیا ء اس کی ملکہ ہے اور وہ شاہی محلوں میں رہتی ہے ۔ اے دُنیا کیا کبھی ایسا ہو سکتا ہے کہ میرے دل میں تیری کسی بات کے لئے رشک پیدا ہو‘‘ ؟ ٹر سٹیجؔن

جب کیمرؔج کے سائمن نے ا ن الفاظ کو پڑھا ۔’’ انہوں نے شمعون نام ایک کرینی آدمی کو پاکر اُسے بیگار میں پکڑا کہ اس کی صلیب اُٹھائے ‘‘۔ تو اس نے کہا’’ اے خداوند ! یہ صلیب مجھ پر رکھ دے ‘‘۔ اس کے بعد اس نے بڑی خندہ پیشا نی سے مصائب کو برداشت کیا ۔

ہمارے منجی نے وعدہ کیا تھا ۔ ’’جو غالب آئے میں اُسے اپنے ساتھ اپنے تخت پر بٹھا ؤں گا ۔ جس طرح مَیں غالب آکر اپنے باپ کے ساتھ اس کے تخت پر بیٹھ گیا ‘‘۔ یوسف اسی طرح سے غالب آیا تھا۔ اس نے سختیاں برداشت کیں۔ آ ج ہر یاک شاگرد کو اس قسم کی سختیاں برداشت کرنی پڑتی ہیں ۔ یو سف پر جھوٹے الزام لگا ئے گے اور اسے قید میں ڈالا گیا ۔ اس نے راست بازی کی خاطر دُکھ اُٹھا یا حالانکہ وہ بے قصور تھا ۔ پورے تیر ہ (۱۳)سال تک وہ قید و بند کی مصیبتیں اُٹھا تا رہا ۔ آخر اُ ن مصائب نے اسے بادشاہ بنا دیا ۔ اس نے کہا ’’خدا نے مجھے میری مصیبت کے ملک میں پھلدار کیا ‘‘۔ اور جب ہم دیکھتے ہیں کہ یوسف فرعو ن کے ساتھ تخت پر جلوہ فگن ہے اور وہ اپنے اُ ن بھائیوں کی غلہ سے امدا د کررہا ہے ۔ جنہوں نے اسے بیچ دیا تھا ۔ تو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس میں کوئی لا لچ نہیں تھا اور خدا نے اسے بے حد طاقت عطا فرمائی۔ خدا اُن لوگوں کو راستبازی کے تا ج دیتا ہے جن کا ایسا مزاج تھا جیسا مسیح یسوع کا تھا۔

ہمارے منجی نے فرما یا ’’مبارک ہیں وہ جو حلیم ہیں کیونکہ وہ زمین کے وارث ہو ں گے ‘‘( متی ۵:۵) ۔ امریکہ کی خانہ جنگی کے ختم ہونے کے تھوڑی دیر پیشتر جنرل ہاؔورڈ کو ایک دوسرے افسر کی جگہ متعین کیا گیا ۔ وہ ایک خاص فو جی ڈویژ ن کا سالا ر تھا۔ جنرل شیرمؔین کما نڈنگ آفیسر تھے۔ واشنگٹن میں وہ ایک فوجی مظاہر ہ کرنا چاہتے تھے۔ انہو ں نے جنرل ہاؔورڈ کو بلا بھیجا ،اور اُس سے کہا کہ دوسرے افسر کے چند دوست اس بات پر اصرا ر کر رہے ہیں کہ وہ دوسرا افسر فوجی دستہ کے آگے آگے گھوڑے پر سوار ہو کر چلے ۔ جنرل ہاؔوڑد نے یہ سن کر جواب دیا ’’یہ فوج میری کمان میں ہے ۔ میں اپنی جگہ پر ہی رہنے کا مستحق ہوں‘‘۔ جنرل شیرمؔین نے جواب دیا ۔’’ یہ درست ہے کہ یہ فوج آپ کی کمان میں ہے ۔ آپ نے جا رجیا اور کیرو لؔینا زمیں فوج کی کمان کی تھی۔ آپ مسیحی ہیں۔ اور نا امید ی کا مقابلہ کر سکتے ہیں‘‘۔ جنرل ہاؔورڈ نےجواب دیا ۔ ’’اگر یہ بات ہے تو اس آ فسر کو دستہ کے آگے آگے گھوڑے پر جانے دیجئے ‘‘۔ جنرل شیرمؔین نے جواب دیا ۔’’ اس افسر کو یہ اعزاز دو ۔


لیکن کل نو بجے آپ میر ے پاس آیئے اور میرے پلو یہ پہلو فوج کے آگے آگے سوار ہو کر چلئے‘‘۔ یہی حال اُن مقدسین کا ہے جو اپنےآپ کو حلیم بنا تے ہیں ۔ خدا کا وعدہ ہے کہ وہ وقت پر انہیں عزت بخشے گا ۔ا گر ہمیں ذلت کی گہرائیوں میں اُترنا پڑے یاہم اپنی خواہشات کے اعتبار سے مر جائیں یا ہم صلیب سے ہمکنار ہوں اور اس کی یہ صورت ہے کہ ہم اپنی خودی سے انکار کر یں ۔ دُکھ اُٹھائیں یا ہم پر جھوٹے الزام لگائے جائیں تو ہماری یہ تو ہین اور بے عزتی ہماری عزت کا باعث ہو گی ۔ اگر ہمیں صلیب سے ہمکنار ہونے کی دعوت دی جاتی ہے ۔ تو یہ دعوت خداوند مسیح کے ساتھ سلطنت کرنےکی دعوت ہے۔

میرے عزیزو ! خدا وند مسیح کی آمد نزدیک ہے۔ وہ فرماتا ہے’’ دیکھ میں جلد آنے والا ہوں اور ہر ایک کےکام کے موافق دینے کے لئے اجر میرے پاس ہے‘‘( مکا شفہ ۲۲: ۱۲ )۔ جو لوگ خداوند مسیح کی آمد کا شوق رکھتے ہیں ان کے لئے راست بازی کے تاج ہیں ۔ لیکن کیا ہم پورے دل کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں ’’آمین‘‘۔ تیری بادشاہیت آئے ۔ اور اپنی دُعا میں یہی کہنا چاہیے کہ ہمیں صلیب بنانے کے لئے ہی لکڑی مل جائے ۔ اے خداوند تو گہرائیوں میں اُتر آ ۔ تو وہ تاج پہن لے۔ تیرا سرلہو لہان ہے۔ اپنے زخمی ہاتھ میں حکومت کا عصا لے ۔اپنے زخمی پاؤں سے تخت پر جلوہ گر ہو ۔ بادشاہت تیری ہے۔ ہم اس ساعت(لمحہ،پل، گھڑی) کا انتظا ر کرتے ہیں۔ جب وہ دیکھے کہ ہم پیدائشی مصلوب ہیں۔ اس وقت وہ یہ دیکھے گا کہ ہم پر خداوند یسوع مسیح کی مہرلگی ہوئی ہے ۔

کیا تمہارے جسم پرکوئی زخم کا نشان نہیں ہے؟ کیا تمہارے پاؤں ، ہاتھوں یا تمہارے پہلو میں کوئی زخم کا نشان نہیں ہے؟

مَیں اس سر زمین میں تمہارے میٹھے میٹھے نغمے سن رہا ہوں۔ یہ نغمے خوشی کے ہیں۔ مَیں یہ سن رہا ہوں کہ لوگ تمہیں بڑی خوشی سے خوش آمدید کہتے ہیں ۔ کیا تمہارے جسم پر کوئی زخم کانشان نہیں ہے؟

کیا تمہارے جسم پر کوئی زخم نہیں ہے؟ لیکن مجھے بھالے سے چھید ا گیا ۔ مجھے صلیب پر کھینچا گیا اور حیوانوں نے مجھے نو چ ڈالا ۔ میں بے ہو ش ہو گیا ۔ کیا تمہارے جسم پر کوئی زخم نہیں ہے؟

کیا تمہارے جسم پر کوئی زخم نہیں ہے؟ کیا تمہارے جسم پر کسی زخم کا نشان نہیں ہے؟ ہاں نوکر اپنے آقا کی مانند ہو گا اور وہ پاؤ ں جو میری پیروی کرتے ہیں چھید ے جائیں گے ۔ لیکن تمہارے پاؤں تو بالکل بھلے چنگے ہیں ، اور وہ جس کے جسم پر نہ ہی زخم ہیں اور نہ ہی زخموں کے نشان ہیں کیا وہ میرے پیچھے چل سکتا ہے؟



باب بیست و پنجم

صلیب اور طریقِ کار

میرے ایک دوست راوی ہیں کہ ’’ایک مقتدر ریٹائرڈ مشنری ایک علاقے میں بشارت کی خدمت پر مامور تھے۔ اس سرزمین میں طریقِ کا ر یہ تھا کہ بت پرستو ں میں تعلیم عام کی جائے اور اس طرح سے انہیں خداوند مسیح کے لئے جیتا جائے ۔ابتدائی ایام میں اس بات پر بحث ہوا کرتی تھی کہ کیا مشکلات کے ہوتے ہوئے بھی خوش خبری کی منادی کی جائے یا سکول کھولے جائیں ۔ اور اس طریقے سے آنے والی نسل کو طلبہ کے ذریعہ سے خداوند مسیح کی خاطر جیتا جائے ۔ اس طریقہ سے ساری قوم مسیحی بن جائے گی ۔ ہم نے ملک میں سکول کھولنے کا فیصلہ کیااور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم اپنے مقصد میں ناکام ہوئے کیونکہ اس ملک میں بشارت کا کام مقید ہو گیا ہے۔ اگر ہم دوسرے فیصلے پر عمل کرتےتو ممکن ہے کہ ہمیں مصیبتیں اُٹھانی پڑتیں ۔ شاید ہم موت کے گھاٹ اُتارے جاتے ۔ لیکن اس سے فضا صاف ہو جاتی اور آج اس سر زمین میں بشارت آزاد ہوتی‘‘ ۔

اس سے یہ حقیقت صاف ہو جاتی ہے کہ ہمارے طریق کار اور پیغام میں صلیب کو مرکزی حیثیت حاصل ہونی چاہیے ۔ یہ بڑی آسان بات ہے کہ ہم اپنے پیغام میں بڑے راسخ الاعتقاد ہیں، لیکن اپنے طریقوں کےذریعہ ہم صلیب کا انکار کرتے ہیں۔ اپنے تصورات میں ہم کسی ہانپتے ہوئے مشنری کے پہلو بہ پہلو کسی ہیرو کی قبر کے پاس کھڑے ہو کر کہہ سکتے ہیں’’ وہی طریقے کا میاب ہو سکتے ہیں جو خداوند مسیح کے اپنے طریقے ہیں یعنی گندم کے دانے کی طرح زمین میں گر کر مر جانا ‘‘۔ اور ہم نئے سرے سے دُعا کر سکتے ہیں۔ اے خدا ہمیں گندم کے دانے کے مشابہ بنا دے۔ تا کہ ہم دوسروں کے سامنے خداوند مسیح کو پیش کرتے وقت اور اس کا پیغام سناتے وقت مسیح مصلوب کو لوگوں کے سامنے پیش کریں۔

پولس رسول کرنتھیوں کو لکھتا ہے’’ ہم اپنی نہیں بلکہ مسیح یسوع کی منادی کرتے ہیں ‘‘۔ مسیح کی منادی کرنے والوں کے سامنے بڑا ہی مشکل کام ہوتا ہے۔ اس کی گواہی دینا آسان نہیں ہے۔ ایک پُرانے سکاچ دینیات کے عالم نے کہا ہے’’ کوئی آدمی بیک وقت مسیح کی اور اپنی منادی نہیں کر سکتا ‘‘۔ کوئی آدمی اس قسم کا تاثر نہیں پیدا کر سکتا کہ وہ خود بڑا ہی ہوشیار آدمی ہے اور خداوند مسیح نجات بخشنے میں قادر ہمارا سب سے بڑا کام یہ ہے کہ ہم لوگوں میں یہ تاثر پیدا کریں کہ مسیح ہم سے پوری پوری وفاداری کا مطالبہ کرتا ہے۔ اس لئے ہم ایک مختصر بات کہتے ہیں۔ اس قسم کے لوگوں کو زندگی اور موت بہشت اور دوزخ کا سامنا کرنا چاہیے۔ ان کا جواب ہاں، ہاں یا نہیں نہیں ہونا چاہیے۔ او ر یہ جواب ابھی دینا چاہیے ۔ انہیں گو مگو (دھوکا میں رکھنا،پوشیدہ رکھنا)کے عالم میں نہیں رہنا چاہیے۔

ہماری نجات کے بانی نے اپنے شاگردوں کوجب خوش خبری کی منادی کی خاطر بھیجا تو اس نے کہا’’ تم جا کر سب قوموں کو شاگرد بناؤں ‘‘۔ اور مزید یہ فرمایا’’ آسمان اور زمین کا کل اختیار مجھے دیا گیا ہے‘‘۔ ایسا م


اس کا حل یہ ہے کہ ہمیں وہ زخمی ہاتھ حکم دے رہا ہے۔ سفیر ہونے کی حیثیت سے ہمیں اپنے اختیار کا علم ہونا چاہیے ۔ ہمارے پیغام کا دوسرے لوگوں کےدلوں پر کچھ اثر نہیں ہوتا کیونکہ ہم سمجھوتے کی زبان استعمال کرتے ہیں۔ خُداوند مسیح کی روح صرف ان کو مسح کرتی ہے۔ جو بدی کے ساتھ سمجھوتا نہیں کرتے ۔ ایک مرتبہ ایک سپاہی نے یوں کہا ’’مَیں ایسے لوگوں کو پسند نہیں کر تا جو کوئی خاص مراعات حاصل کرنے کی غرض سے بھرتی ہوتے ہیں۔ میدان جنگ میں نڈر سپاہیوں کی ضرورت ہوتی ہے‘‘۔

پولُس رسول کے دل میں منادی کا بے حد شوق تھا ۔ اُس نے کہا ’’پس ہم خداوند کے خوف کو جان کر آدمیوں کو سمجھا تے ہیں اور خدا پر ہمارا حال ظاہر ہے اور مجھے اُمید ہے کہ تمہارے دلوں پر بھی ظاہر ہوا ہو گا ۔ ہم پھر اپنی نیک نامی تم پرنہیں جتاتے بلکہ ہم اپنے سبب سے تم کو فخر کرنے کا موقع دیتےہیں تا کہ ہم اُن کو جواب دے سکو ۔جو ظاہر پر فخر کرتے ہیں اور باطن پر نہیں ۔اگر ہم بے خود ہیں تو خدا کے واسطے ہیں اور اگر ہوش میں ہیں۔ تو تمہارے واسطے ۔ کیونکہ مسیح کی محبت ہم کو مجبور کر دیتی ہے‘‘( ۲۔ کرنتھیوں ۵: ۱۱ ۔۱۴ )۔یہی الہٰی فرمان ہے اور پولُس رسول نے بھی یہی کہا ہے۔ اس کے دل میں خدا کا خو ف تھا۔ اس نے آنسو بہابہا کر مرتے ہوئے لوگوں کو بچانے کی کوشش کی۔ آج ضرورت ہے کہ یہ فرمان خداوندی نئے سرے سے جاری ہواور اس پر عمل کیا جائے۔ ہماری منادی بڑی پیاری ہے۔ یہ منادی اس نہ ڈرنے والی نسل کے دل کی اوپر والی سطح پرہی اثر کرتی ہے۔حضرت نو ح کے زمانے کی طرح آج بھی لوگ خوف نہیں کرتے ۔نوح کے دل میں ڈر تھا۔ اسی لئے اس نے اپنے خاندان کو بچانے کی غرض سے کشتی تعمیر کی۔ امریکہ میں دینیات سکول کے سال اوّل کے طلبا ءکا جائزہ لیا گیا ۔ اس سےیہ ظاہر ہوا کہ ساٹھ (۶۰)سے پچھتر (۷۵)فیصدی طلباء خوف کی وجہ سے کام کرتےہیں۔ دوسرے خوشی ،امن اور راحت کی غرض سےکام کرتےہیں۔ پانچ اور دس فیصدی کے درمیان محبت کی وجہ سے کام کرتےہیں۔ پچھلے سال ہم نے یہ معلوم کیاکہ سو میں سے ایک لڑکا بھی محبت کی وجہ سے متاثر نہیں ہواتھا۔ ساٹھ (۶۰)فیصدی طلبہ خوف کی وجہ سے نجات یافتہ ہوئے تھے۔ وہ لوگ جو روحوں کو بچانا چاہتے ہیں۔ انہیں اس بیسویں صدی کےجذبات سے قوت حاصل کرنے کی بجائے خدا کے کلام سےطاقت حاصل کرنی چاہیے ۔

پولُس رسول نے کہا ہے ’’محبت کے ساتھ سچائی پر قائم رہ کر اور اس کے ساتھ جو سر ہے یعنی مسیح کے ساتھ پیوستہ ہو کر ہر طرح سے بڑھتے جائیں‘‘ (افسیوں ۴: ۱۵ )۔ یہی فرمان الہٰی ہے۔ ہمارا سب سے پہلا فرض یہ نہیں ہے کہ بڑے پیا ر سے بات کریں بلکہ ہمیں سچ بولنا چاہیے۔ کس طرح سے ؟ ہمیں’’ محبت کے ساتھ سچائی ‘‘میں قائم رہنا چاہیے۔ شیطان یہ چاہتا ہےکہ ہم اس آیت کی ترتیب کو اُلٹ دیں۔ اس سلسلے میں ہم یہ بات بھول جاتے ہیں۔ کہ ہمیں سب سے پہلے خداوند اپنے خدا سے محبت کرنی چاہیے اور اس کے بعد اپنے پڑوسی سے پیار کرنا چاہیے ۔ اگر ہم خدا سے محبت کرتے ہیں۔ تو ہم دوسروں سے سچ بولیں گے،اور دوسرے حکم پر چلتے ہوئے ہم ان سے محبت سے گفتگو کریں گے ۔ اپنے پڑوسی سے محبت کر کےہمیں اپنے خدا کو ناراض نہیں کرنا چاہیے۔

کلیسیاء کی تاریخ کے آغاز میں خدا کے خوف کی وجہ سے مبشروں نے لوگوں کو مسیح مصلوب کی خاطر جیت لیا۔ ان کے دِل میں انسانیت کا درد تھا۔ و ہ خُداوند مسیح کے اس وعدے کے معنی جانتے تھے’’ چونکہ میں جیتا ہوں تم بھی جیتے رہو گے ‘‘۔ وہ جانتے تھے کہ روح کس طرح نازل ہوا تھا۔


ان لوگوں میں خوف کی روح نہ تھی۔ بلکہ قوت ، محبت اور نظم و ضبط کی روح تھی۔ ان میں قوت کی روح تھی تاکہ وہ بلا خوف سچ بولیں ۔اُن میں محبت کی روح تھی جس نے خوف کو دُور کر دیا۔ وہ کسی چیز سے نہیں ڈرتے تھے۔ اور رومی سلطنت کی تمام مصیبتوں کا مقابلہ کیا کرتےتھے۔خداوند مسیح کے ایسے سپاہیوں کو کون تسخیر کر سکتا ہے۔ وہ لوگ مسیح مصلوب کو کس خوبی سےپیش کیا کرتے تھے۔ اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں ہے۔ اور اُنہوں نے رومیوں کی سلطنت کو درہم برہم کر دیا ۔ اور تاریخ کے دھارے کو تبدیل کر دیا۔

خداوند مسیح کے ان جان باز سپاہیوں کے متعلق ڈاکٹر اے جے گاڑدن نے کہا ہے۔ ’’خداوند مسیح کے اُن سپاہیوں نے دُنیا کی امداد ، حکمرانوں کی سرپرستی اور ان کے ذرائع کے استعمال اور ان کے طریقے استعمال کرنے سے بالکل انکار کر دیا تا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس طرح وہ اس دُنیا کے بادشاہ کے ساتھ سمجھو تہ کرلیں‘‘۔ یہ ایسی فو ج تھی ۔ جو ایسے محاذ پر تھی۔ جو نظر نہیں آتا تھا۔ وہ ان دیکھے سپہ سالار پر ہی اعتماد کرتے تھے۔ اسی وجہ سے تو بت پرست غصے سے بھر جا یا کرتے تھے۔ کیونکہ یہ بت پرست چاہتےتھے کہ کسی نہ کسی طرح مسیحیوں سے بھی سمجھو تہ ہو جائے اور انہیں اپنے بتوں کو بھی چھوڑنا نہ پڑ ے ۔

لیکن خداوند مسیح کو دوسروں کے سامنے پیش کر نے سے پیشتر ہمیں اپنا جائزہ لے کر اپنے آپ کو خُدا کے سامنے حلیم بنا نا چاہیے تا کہ ہم کسی سمجھو تے اور شکایت کے بغیر صلیب سے ہمکنار(بغل گیر) ہوں اور اپنےنفس کےبت کو بڑی دلیر ی سے رد کریں ۔ ہم اپنے آپ کو بچا نہیں سکتے ۔ اس کتاب کے پڑھنے والوں کو مَیں آگاہ کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ اُنہیں بہت سے دُکھ اُٹھانے پڑیں گے ۔ اُنہیں نفس کے طریقوں کو بھولنے کے لئے طرح طرح کی مصیبتوں میں سے گزرنا پڑے گا ۔ آپ نےکبھی خیال نہیں کیا کہ آپ وسائل اور ذرائع والی کمیٹیوں پر اعتماد کرتےہیں ۔ یہ ممکن ہے کہ آپ کو بتایا جائے کہ صلیب کی خاطر آ پ کو اپنی جان جو کھوں میں ڈالنی پڑے ۔ لیکن اس سے پیشتر کہ آپ اپنے خویش و اقار ب کے سامنے صلیب کو پیش کریں سب سےپہلے آپ کو اپنی نفسانی خواہشات کو چھوڑدینا چاہیے اور جسم پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے۔

لیکن مَیں اس معاملہ میں آپ کی حوصلہ افزائی کرنا چاہتا ہوں۔ مجھےیہ دیکھ کر بڑا ہی دُکھ ہوتا ہے کہ خدام الدین کوبے حد تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ دونوں طرف پھنسے ہوئے ہیں۔ وہ سب آدمیوں سے زیادہ مصیبت میں ہیں۔ کسی آدمی نے کہا ہے۔ ہم بڑادکھ اُٹھاتے ہیں لیکن مسیح کے ساتھ کبھی دُکھ نہیں اُٹھاتے ۔ ہم نے بہت کچھ کیا ہے۔ لیکن بہت کم باقی رہے گا۔ ہم نے خداوند مسیح کو معلوم کر لیا ہے لیکن اس کی عظیم موت کی طرف سے اپنے دل کو بند کر دیا ہے۔ وہ اس محبت کا اظہار اپنےشاگردوں سے کرے گا۔ ’’ان باتوں سے آپ پر غم اور مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑےہیں‘‘ ۔ آپ ساؤ ل کی طرح اپنی سلطنت کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن آپ نے در حقیقت اس خادم الدین سے زیادہ دُکھ اُٹھایا ہے جو صلیب سےہمکنار ہوا ہے۔ ممکن ہے کہ آپ نے اپنی جان کو بچا لیا ہے۔لیکن آپ نے اِسی دنیا میں اپنی جان کو کھودیا ہے۔ جسم کی طاقت نہ صرف خدا کے کام کو تباہ کر دیتی ہے بلکہ یہ تمہاری زندگی اور آرام کو بھی بر باد کر دیتی ہے۔


ممکن ہے کہ آپ کی مصیبت یہ ہو کہ آپ کو کسی کام کے کرنے کی دُھن ہے۔ اور آپ صلیب سےاپنی قوت حاصل نہیں کرتے کیونکہ صلیب ہی کشش اور دل کشی کا باعث ہے ۔ آپ کے دل میں تمنا ہے کہ آپ اپنے کام کو پایہ تکمیل تک پہنچا ئیں ۔آپ نے بڑی شرم ساری سے خداوند مسیح کو استعمال کیا ہے۔ لیکن جب آپ جسم کی ان رُکاوٹوں کو دُور کرنا چاہتے ہیں تو آپ خوف سے اپنے ہوش و حواس گم کر دیتےہیں۔ آپ خیال کرتےہیں کہ آپ پہلےسے بالکل مختلف بن جائیں گے۔ لوگ آپ کو دیوانہ اور بے وقوف شمار کریں گے ۔ آپ کو اپنے پیرش ، اپنے سنڈے سکول اور اپنی جماعت کے سامنے شرمندگی اُٹھانی پڑے گی۔ آپ یہ خیال کریں کہ آپ کو اپنےرفقائےکار(دوست) اور خدام الدین کی نگاہوں میں ذلیل ہونا پڑے گا۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ کے ساتھ کس طر ح سے ہمدردی کرنی چاہیے ۔ جب ایک مرتبہ آپ خدا کی آگ کی بھٹی میں بھسم ہو جائیں گے۔ تو آپ اس میں سے جب نکلیں گے ۔ تو آپ میں مذہب کی کوئی بو نہ ہو گی ۔ آپ رسومات کے دُھوئیں اور جسمانی غرور میں زندگی نہ گزاریں گے ۔ ہاں آپ کے چمڑ ے کی مشکوں میں نئی شراب بھرنا خدا کے لئے مشکل ہو گا ۔ روحانی جوش سے بھرے رہو ۔ اپنے دل میں کسی قسم کا خوف نہ رکھو آپ کا ہر ایک کام پُرتا ثیر ہو ۔ آپ عام نہیں خاص ہیں ۔ آپ کی یہ نیم دِل اور مسیح کے لئے محبت میں کمی کلیسیاء کےلئے شرم کا باعث ہے۔ آپ آسمان کے لئے رنج کا سبب ہیں اور دوزخ کا تختہ مشق ہیں۔ اِس قسم کے آدمیوں کو خُدا قبول نہیں کرتا ۔ وہ فرماتا ہے’’ مَیں تجھے اپنے منہ سے نکال پھینکنے کو ہوں‘‘۔

لیکن اگر آپ دل کے مضبوط رہنا چاہتے ہیں۔ اور آپ ضدی ہیں تو میں آپ کو پروفیسر ٹی ۔سی ۔اُؔپھم کا مشور ہ دیتا ہوں۔ پر وفیسر موصوف ایک صدی پہلے کے مشہور خادم الدین اور عالم دینیات تھے ۔

لوگ بات کو سمجھنے میں سست ہیں۔ اور وہ یہ نہیں چاہتے کہ کام کیا جائے ۔خدا یہ چاہتا ہے کہ وہ لوگ اس کے بن جائیں لیکن ابھی ان کی نجات کا وقت نہیں آیا ۔ وہ ابھی تک دُنیا سےمحبت کرتے ہیں۔ کبھی تو وہ ایک چیز سے محبت کرتے ہیں۔ اور کبھی دوسری سےوہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ خُدا بھی ان کے حصے میں آئے۔ اور خُدا کے علاوہ بھی وہ کسی دوسری چیز کو حاسل کرنا چاہتے ہیں۔دوسرے لفظوں میں بات یوں ہے کہ وہ خُدا کو اور اپنے بُتوں کو بھی رکھنا چاہتے ہیں۔ اور یوں وہ کچھ عرصہ تک اسی حالت میں رہتے ہیں۔ وہ بڑے ہی ہٹ دھرم (ضدی)ہوتےہیں۔ لیکن خدا ان سے محبت کر تا ہے۔ اور چونکہ و ہ مہربانی اور محبت سےکسی بات کو نہیں سیکھتے و ہ خوف سےضرور سیکھیں گے۔ خدا اور روح کی تلوار ان تمام بندھنو ں کو کاٹ دیتی ہے۔ جنہوں نے اُنہیں دُنیا سے جکڑا رکھا ہے۔ اس تلوار کے سامنے تمام دولت ،صحت اور خویش و اقارب ختم ہو جاتے ہیں۔ اُمید اور خوشی کا و ہ تانا بانا جہاں جسم کی محبت پروان چڑھتی تھی۔ اور غرور نے اپنے جال پھیلا رکھے تھے۔ وہ پیوند زمین ہو جاتا ہے۔ اُنہیں اندر اور باہر سے فنا کر دیا جاتا ہے۔ اُنہیں آگ سے جلا دیا جاتا ہے۔ وہ غر ق آ ب ہو جاتے ہیں۔ ان کا چمڑا اُدھیڑ دیا جاتاہے۔ اُنہیں سب کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ انہیں یہ خوفناک بپتسمہ دیا جاتا ہے۔ اور وہ اس بپتسمہ میں معلوم کرتے ہیں کہ ایک ہی وقت میں خُدا اور دُنیا کی محبت اور عبادت میں کیا فرق ہے۔ اور اُنہیں معلو م ہو جاتا ہے۔ کہ خُدا سچا اور عادل بادشاہ ہے۔

اسی وجہ سے خدارُوحانی رہنماؤں کو مصیبت کی خوفناک آگ کے ذریعہ چُنتا ہے۔ اس قسم کے روحانی رہنما انسان افرادی یا مجموعی طور سے نہیں بنا سکتا ۔ اُنہیں نہ ہی کونسلیں نہ ہی سنڈیں نہ ہی سکول بنا سکتےہیں ۔ انہیں صرف خُدا بنا سکتا ہے۔ اس عمل کا اطلاق مساوی طور سے گرجے میں حاضر ہونے والوں پر ہوتا ہے۔ خُدا کو معلوم ہے کہ ہم سب کو سچائی کی فتح کے لئے روحانی رہنما بننا چاہیے۔ ہم سادہ لوح ،سر گرم ،قلبی طور سے بھوکی روحوں کی درخواست کرتے ہیں ۔


سپاہیو ں کی طرح روحانی آزادی حاصل کرو ۔ محاصرہ یاجنگ کےوقت فتح حاصل کرو ۔ اپنے دل میں ایمان رکھو کہ روح کی قوت تمہیں حاصل ہو گی ۔ بیٹھ کر ذرا اس کی قیمت کا جائز ہ لو ۔ یقین رکھو کہ تم اپنی زندگی میں صلیب کا تیز دھا را محسوس کر و گے ۔ اور یہی چیز وہ لوگ بھی محسوس کریں گے ۔ جن کے سامنے تم گواہی دو گے۔ ہم اس بات پر زور دیتے ہیں کہ زمانہ حال میں اس بات کی زبردست کمی ہے کہ اس زبردست آزادی کا مظاہرہ بوسیلہ باطنی تصلیب ہو جس سےہمیں پاک طور سے بے فکری ہو جائے۔ نفسانی خواہشات اور غیر سنجیدہ حرکات ہیں ۔ یہ چیزیں تو کثرت سے پائی جاتی ہیں۔ اور اسی طرح سے ہم بغیر روکاوٹ کےہر چھوٹے بڑے کے سامنے گواہی دینے کے قابل ہو جائیں گے ۔ جب کاہن اور ہیکل کے سردار مسیحی کلیسیا کی ایذار سانی کے پہلے دور میں مسیحی کلیسیا کے خلاف متحد ہوئے ، تو وہ یُوحنا اورپطرس کی دلیری دیکھ کر حیران ہو گئے( اعمال ۴ باب )۔ اب روحانی دلیری یہ ہے کہ ہم بلاخوف و خطر اس کی منادی کریں۔ جہاں خدا کا روح ہے۔ وہاں آزادی بھی ہے۔ ان ماہی گیرو ں کے نزدیک صلیب ایک زندگی بخش حقیقت تھی۔ وہ ماہی گیر خدا وند مسیح کے مشابہ ہوئے۔ وہ اس کے ساتھ مصلوب ہو کر آزاد ہوئے ۔ وہ آزادی سے بلا جھجک بات کر سکتے تھے۔ سردار کاہنو ں اور فقیہان قوم کو چلانےدو ۔ مسیح کے غلام آزاد تھے۔ و ہ رُوئے زمین پر نہ کسی انسان سے ڈرے اور نہ کسی کی خوشامد کی۔ شروع شروع میں کلیسیاء پراگندہ ہوئی لیکن اُنہوں نے دُعا کرنا نہ چھوڑا ۔ اُنہوں نے نہ ہی اُن ریا کاروں کی دِل کی تبدیلی کی دُعا کی اور نہ ہی یہ دُعا کی کہ اُنہیں احتیاط سےبولنے کی توفیق ہو۔ ا ن شاگردوں نے اپنے لئے کسی چیز کی التجا نہ کی۔انہوں نے یہ التجا کی کہ انہیں قوت میسر ہو جائے جس سے وہ دلیر ی کے ساتھ دوسروں کے سامنے خداوند مسیح کو پیش کر سکیں۔ اور یوں اُنہوں نے اپنی جانیں خطرے میں ڈالیں۔ اور خُدا کی دلیری اور خلوص سے اتنا خوش ہوا کہ وہ گھر جس میں وہ جمع تھے ہل گیا ۔یہ لوگ اپنی جان بچا نا نہیں چاہتے تھے۔ وہ کسی چیز کی حفاظت نہیں کرتےتھے۔ مسیح کلیسیا کا زندہ سر تھا۔ وہ بڑی کمزوری کی حالت میں مر گیا تھا۔ اور شاگرد بھی اس سے کے ساتھ مر گئے تھے۔ خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہوتا وہ آدمیوں کا کہا ماننے کی نسبت خُدا کا حکم بجا لا نے کو تر جیح دیتے تھے۔ اُن کو کامیابی اور ناکامی کی پر واہ نہیں تھی۔ وہ یہودی طاقت سے ٹکر لینے سے نہیں ڈرتے تھے۔ اُنہوں نے خُدا کی مرضی پر سب کچھ ڈال رکھا تھا۔ اور جب اُنہوں نے مسیح یسوع کے خُداوند ہونے کی منادی کی تو ان کے دِل پر چوٹ لگی ۔ کیونکہ صلیب کا پیغام ایسا تھا۔ جیسے دو دھاری تلوار ہوتی ہے۔ وہ تلوار بڑی تیز تھی۔ اور اس تلوار کا زخم بڑا ہی کاری تھا۔ یہ تلوار گناہ کے اعتبار سے موت تھی اور وہ لوگ جو گناہ کی وجہ سے ماتم کرتے تھے ا ن کے لئے زندگی تھی۔ اس نے سینوں میں ایک آگ لگادی اور لڑائی کا خاتمہ کر دیا ۔ دلوں میں جنگ کی آگ بھڑک اُٹھی اور پھر امن و امان ہو گیا ۔

نسل جو جسم پر فخر کرتی اور حکومت کی پجاری ہے۔ ا ن کے لئے خدا کا ہتھیار ظاہر ی طور سے شخصی بے وقوفی ہے ۔ لیکن’’ خُدا کی بے وقوفی آدمیوں کی حکمت سے زیادہ حکمت والی ہے ۔


اور خدا کی کمزوری آدمیوں کے زور سے زیادہ زور آور ہے‘‘۔ پولس رسول کہتا ہےخُدا نے دُنیا کے بے وقوفوں کو چُن لیا کہ حکیموں کو شرمند ہ کرے اور خدا نےدُنیا کے کمزور کو چُن لیا کہ زور آوروں کو شرمندہ کرے اور خُد انے دُنیا کے کمینوں اور حقیروں کو بلکہ بے وجودوں کوچُن لیا کہ موجودوں کو نیست کرے تا کہ کوئی بشر خدا کے سامنے فخر نہ کر ے‘‘ ( ۱۔کرنتھیوں۱: ۲۷۔۲۹) ۔مسٹر چارلس فاکؔس ان چیزوں کو’’ خدا کی صف بستہ فوج جو انسانی کمزوریوں کو کم کرتی ہے‘‘ کے الفاظ سےمو سوم کرتا ہے۔ اس فوج میں وہی لوگ بھرتی ہو سکتے ہیں:۔

جو اتنے بے وقوف ہیں کہ خُدا پر حکمت کے لئے بھروسہ کرتے ہیں۔

جو اتنے کمزور ہیں کہ خُدا کی طاقت ہی سے طاقت ور ہو سکتے ہیں ۔

جو اتنے پست ہیں کہ انہیں خُدا کی عزت کے سوا کسی اور عزت کی ضرورت نہیں۔

جو اتنے حقیر ہیں کہ اس کے پاؤں کے پاس خاک میں بیٹھ سکتے ہیں۔

جو اتنے بے وقوف ہیں کہ خُدا ہی ان کے لئے سب کچھ ہے۔

یہ چیز خُدا کے لوگوں کے لئے دل جوئی (تسلی)کا باعث ہے ہمارا شمار ان غریبوں میں ہوتا ہے۔ جنہیں کلام کی خوش خبری سنائی جاتی ہے۔ پولُس رسول کہتا ہے’’ اےبھائیو ! اپنے بُلائے جانے پر تو نگاہ کرو کہ جسم کےلحاظ سے بہت سےحکیم بہت سے اختیار والے بہت سے اشراف نہیں بلائے گئے‘‘۔ خُدا کمینوں حقیروں اور بے وجودوں کو چنتا ہے۔ اس لئے ہمیں یہ احتیاط کرنی چاہیے کہ اپنی غربت، بے وقوفی اور نااہلی کو حقیر نہ سمجھیں۔ اگر چہ یہ روکاوٹیں ہیں لیکن خُدا ان روکاوٹوں کو ہی چنتا ہے۔ آیئے ہم اس موقع سے فائدہ اُٹھائیں اور اپنے بے وجود ہونے کو خُدا کو پوشیدہ طاقت کے سامنے سرنگوں کردیں۔ بائبل مقدس ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ جب بہت چھوٹے اسباب سے بھی بہت بڑے بڑے کام ہوئے ہیں۔ خدا کی حقیر مخلوق جوئیں ، مکڑیاں ا ور مکھیاں تھیں۔ اُنہوں نے مصر میں تباہی مچا دی۔ اُس ننھی دو شیزہ کا خیال کرو ۔ جس نے شاہ ارام کے لشکر کےسپہ سالار نعمان کو صحت کی خوش خبری سنائی۔ ایک لڑکا جو ایک گوپھیااور ایک پتھر سے مسلح تھا اپنی قو م کو آزاد کرانے کا باعث ہوا ۔ بادل کا ایک ننھا سا ٹکڑا جو آدمی کے ہاتھ کے برابر تھا بڑی بارش کا سبب بنا۔ یریحو کی دیوار ایمان کے نعروں اور نرسنگے کی آواز سےٹوٹ گئی۔ خد ائے مجسم ایک ننھے بچے کی صورت میں دُنیا میں آیا۔اُس میں خُدا کی تمام قدرت اور حکمت تھی۔پانچ روٹیوں اور دو مچھلیوں سے ہزار وں آدمیوں کی بھیڑ سیر ہو گئی ۔ جدعون کےتین سو(۳۰۰)آدمی جو نرسنگوں ، مشعلوں اور گھڑوں سے مسلح تھے۔ ۱۳۵۰۰۰ آدمیوں کی فوج پر غالب آئے اور یہ اسی لئے ہے’’ تا کہ کوئی بشر خدا کے سامنے فخر نہ کرے‘‘۔

خُدا کی مشعلوں کےلئے گھڑے ہیں۔ سنئے نعروں کی آواز سنائی دے رہی ہے۔ وہ گھڑے خوبصورت تو نہیں ہیں لیکن خُدا کے یہ برتن ٹوٹنے کو تیار رہتے ہیں۔ اور وہ روشن کلام کو اُٹھانے کے قابل ہیں۔

مارٹن لوؔتھر ا ُن ٹوٹے ہوئے برتنوں میں سے ایک تھاجو روشن کلام کو اُٹھانے کے قابل تھے۔ اس نے یہ معلوم کیا کہ خدا کی وہ طاقت جس کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا ۔ ’’صلیب کےکلام میں پوشیدہ ہے‘‘۔ اس نے بلا خوف سچائی کا اعلان کیا جس سے روما کے نخوت پسند مذہب کے علما اور سردار گھبراگئے۔ اس نے آزادی اور زندگی کی ایک نئی جوت لگائی جس سے آج تک ہر ایک پوپ لرزاں و ترساں ہے۔ ل

لیکن اس حقیر راہب نے خدا کی فتح کے متعلق جو کچھ لکھا ہے وہ سن لیجئے ’’میرا مقصد تو بلند تھاہی لیکن اس کے دوسرے درجے پر میری حقیر شہرت اور ننگ و ناموس تھا جس نے پوپ کے وقار کو کاری ضرب لگائی کیونکہ پوپ کا خیال تھا۔ یہ ایک حقیر راہب ہے۔ وہ میرے خلاف کیا کر سکتا ہے‘‘؟

اس بات کے اختتام پر میں ہر ایک خادم الدین ،مشنری ،سنڈے سکول کے استاد ، خُداوند مسیح کے ہر ایک گواہ اور ہر اس آدمی سے جو خُداوند مسیح کا گواہ بھی نہیں ہے۔ اپیل کرتا ہوں کہ آیئے ہم اپنے آپ کو ازسر نو صلیب کی اتھاہ گہرائیوں میں غرق کردیں اور بے وجودوں ، اور بے یار و مددگار لوگوں کو قبول کریں یہاں تک کہ اس بُت پرست اور بے یقینی کی دُنیا میں اُن کے وسیلے خُدا کے لئے ایک زبردست فوج بنا دیں۔

تما م شُد

-------------