#


ASPECTS OF THE
REDEMPTIVE ACT OF
CHRIST
By
W.H.T. GAIRDNER

مسیح کی موت کے مختلف پہلو


مصنف
علامہ ڈبلیو، ایچ، ٹی۔ گیر ڈنر

1916

April.26.2005

مسیح کی موت کے

مختلف پہلو

ڈبلیو، ایچ ، ٹی ، گیرڈنر

ناشر

ہنری مارٹن انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک سٹیڈیز، لکھنو





دیباچہ

ہم مسیحیوں کا ایک عجیب اورحیرت انگيز عقیدہ ہے کہ ایک خاص فعل جو ایک خاص شخص کے ذریعہ سے ایک خاص وقت پر وقوع میں آیا ہر زمانہ کے کل آدم زاد کےلئے نہایت اہم تھا اوراس وقت بھی ہے اس سےہمارا اشاہ سیدنا مسیح کی زندگی موت اور پھر جی اٹھنے کی طرف ہے قریباً دوہزار سال کا عرصہ گزرا یہ واقعہ معرضِ ظہور میں آیا۔

یہ بات بخوبی عیاں ہے کہ جس فعل کا مرکزی اوراعلیٰ نقطہ خیال موت ہو اورجس کا اثر ایسا عالمگیر ہواس کو ہم سرسری قرار دے نہیں سکتے بلکہ اس کے برعکس اس کے مختلف پہلو ہیں جن پر الگ الگ غور کرنا ضروری ہوگا اس سے فائدہ ہوگا سرسری نظر ڈالنے سے توہم اس کے فوائد سے محروم رہ جائیں گے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ اس سلسلہ میں مسیحی علماء نے مسیح کفارہ بخش موت کی تفسیر کرنے میں اکثر غلطی کی ہے گہرے گہرے معانی دریافت کرنے کے شوق میں دوسرے اور پہلوؤں کے فوائد کو نظر انداز کردیا گیا اوربعض اوقات تو اس کو محض ایک گربنا ڈالا یہ عمل اس لئے بھی غلط ہے کہ ان پہلوؤں کی مدد کے بغیر اس کے گہرے معانی کا سمجھنا بھی دشوار ہے ہمیں یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ خدا کے کسی فعل میں صرف ایک ہی پہلو لازمی ہے اوردوسرے پہلو بیکار، فضول اوربطور ضمیمہ اورتتمہ کے ہوتے ہیں۔ یہ بات نہیں ہے بلکہ سارے پہلو ایک دوسرے سے وابستہ ہوتے ہیں اور ان میں جو سب سے گہرا ہے اس کا بھی دوسروں سے رشتہ ہوتاہے۔

اس لئے ہم ان اوراق میں ہر ایک پہلو پر الگ الگ غور کریں گے۔ ہم آسان سے آسان پہلو کو شروع کرتے ہوئے بتدریج زيادہ مشکل اورگہرے پہلوؤں کی طرف بڑھیں گے تب جو ایک مجموعی شکل سامنے آئے گی وہ اس فعل کے پورے معنی کو صحیح طورے اجاگر کرے گی۔ اس عمل سے ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ جن لوگوں کی تربیت ناقص طورپر ہوتی ہے یا روحانی خامی اور ناتجربہ کاری کے باعث زيادہ گہرے پہلوؤں اورباتوں کو سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتے وہ بھی ان پہلوؤں کو بآسانی سمجھ سکیں گے اس کا ایک اثریہ بھی ہوگاکہ ان کے خیالات میں تبدیلی واقع ہوگی۔ ایمان وزندگی پر ایک اثر یہ ہوگا کہ رفتہ رفتہ وہ کمال کی طرف بڑھتے چلے جائیں گے ۔

پہلا پہلو

مسیح کی موت میں شریعت کی تکمیل تھی

موت زندگی کا دروازہ بن گئی

حضرت مسیح کے پر فضل اورگہرے معانی رکھنے والے اقوال تو بہت سے ہیں ان میں سے ایک قول جو کو ہم یہاں بیان کررہے ہیں بڑاگہرا ہے اوراس کے معنی بہت وسیع ہیں۔ "جو کوئي اپنی جان بچانے کی کوشش کرے وہ اسے کھوئے گا اورجو کوئي اسے کھوئے گا وہ اس کو محفوظ رکھے گا"۔

اس قول کی اہمیت کا اندازہ آپ محض اس بات سے لگائیے کہ یہی ایک قول ہے جو کہ چاروں انجیلوں میں قلمبند ملتاہے یعنی چاروں انجیلوں کا اس پر اتفاق ہے پھر یہ بھی ہے کہ چار الگ الگ جگہوں پر مستعمل ہواہے ۔ چونکہ سیدنا مسیح نے اس قول کو ایک لاتبدیل اصول اورایک فارمولے کے طورپر نہیں استعمال کیا بلکہ الگ الگ موقعوں میں الگ الگ الفاظ آتے ہیں اور سبق آموز ہیں اس لئے ہم ان موقعوں کا ذکر کرتے ہیں:

مذکورہ بالا قول انجیل لوقا کا ہے (۱۸: ۳۳) اور اس تقریر میں آتاہے جس میں دنیا کے انجام کا ذکر ہے کہ کس طرح اچانک ہی وہ نوع انسان پر آپڑےگا۔ اس کوہم نے اس لئے پہلے رکھاہے کہ اس میں اصول کاذکر بڑے عام الفاظ میں ہوا" موت زندگی کا دروازہ ہے"۔ اس قول کے استعمال کادوسرا محل نصحیت کا وہ موقع ہے جب حضرت مسیح نے اپنے بارہ رسولوں کو پہلی بار رسالت ومشن پر بھیجا تھا(دیکھئے متی ۱۰: ۲۹)۔ اس وقت آپ نےفرمایا تھا"جو کوئی اپنی جان بچاتاہے اسے کھوئے گا اورجو کوئی میر خاطر اپنی جان کھوتاہے اسےبچائے گا"۔

پھر جب اس نے اپنے شاگردوں کو پہلی مرتبہ اپنی کی خبر دی اورپطرس نے اس کو ایسی موت کی راہ سے ہٹانے کی کوشش کی تو وہاں یہ قول اس طرح آیا ہے" جو کوئی اپنے جان بچانا چاہے اسے کھوئے گا اورجو کوئی میری خاطر اپنی جان کھوئے گا اسے پائيگا"(متی ۱۶: ۲۵)۔

آخری مرتبہ یہ قول اس وقت دہرایا گیا جب مسیح کی اٹل اور جلد ہی واقع ہونے والی موت اور قربانی کا سایہ آپ کی روح پر پڑرہا تھا یعنی اپنے پکڑوائے جانے سے بہ مشکل وہ ایک روز پہلے "جو اپنی جان کو عزیر رکھتاہے وہ اسے کھودیتاہے اورجو دنیا میں اپنی جان سے عداوت رکھتاہے وہ اسے ہمیشہ کی زندگی کے لئے محفوظ رکھے گا"(یوحنا۱۲: ۲۵)۔

دوسرے اورتیسرے موقعوں پر یہ الفاظ" میری خاطر" استعمال کئے جانے کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں سے خود نثاری کا مطالبہ کررہا تھا اورساتھ ہی ساتھ اس اصول کی عالمگیری بھی مراد تھی خاص کو چوتھے یعنی آخری آیت کے قرینہ سے تویہ صاف عیاں ہے سیدنا مسیح نے خاص طورپر یہ اعلان کیاکہ سب سے پہلے یہ اصول خود ان پر ہی عائد ہوتاہے اور اس کے بعد اس کے تحت اس کے شاگرد آتے ہیں۔ اس لئے ہم ان چاروں عبارتوں کو عام مفہوم میں لیں اورالفاظ" میری خاطر" کو جن سے اس اصول پر ایک حد بندی قائم ہوتی ہے نظر انداز کریں یا اس کے معنی یوں وسیع کردیں "سارے عالم میں سب سے اعلیٰ اور افضل شے کی خاطر"۔

ان چاروں اقوال میں بظاہر دو خلاف عقل باتیں نظر آتی ہیں اور ان میں سے ہر ایک دو مجلوں میں منقسم ہیں ہماری خاص غرض دوسری خلاف عقل بات سے ہے لیکن اس کے ٹھیک معنی سمجھنے کے لئے پہلی بات کو پرکھنا ضروری ہے پہلی یہ ہے:

جو کوئی اپنی جان بچانے کی کوشش کرے (اسے کھوئیگا)

جو کوئی اپنی جان بچاتا ہے۔(اسے کھوئیگا)

جو کوئی اپنی جان بچانا چاہے(اسے کھوئیگا)۔

جو کوئی اپنی جان عزیر رکھتاہے (اسے کھوئيگا)۔

گویا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ آدمی کی زندگی جو اس کے پاس ہے دنیا کی سب سے قیمتی چیز ہے اور وہ بھی ایسی کہ صرف ایک ہی ہے ۔پھرایسی چیز کی حفاظت تو ہر ممکن طریقہ سے فرض ہے انسان سے اسی بات کی توقع ہوسکتی ہے کہ اس کے بچانے کے لئے اپناسب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہوگا اس کو پانے کی کوشش کریگا، بچانا چاہے گا۔اورعزیز رکھےگا لیکن جب یہ سنتے ہیں کہ ایسا کرنے والے اپنا مقصد کھودیتے ہیں اور اس زندگی کے کھونے والے ہی کا میاب ہوتے ہیں تو یہ سن کر تعجب ہوتاہے کہ آخر ایسا کیوں کہا گیا، ان اقوال کے مختلف الفاظ میں ہی اس سوال کاجواب ملتاہے زندگی کی قدروقیمت کا انحصار اس بات پر ہے کہ آخر زندگی کا حاصل کیا ہے ؟ وہ کیسے گزتی اور کس مقصد کے حاصل کرنے میں کوشاں ہے؟ آدمی کی واحد زندگی (زبور ۲۲: ۲۰) انہی باتوں کی وجہ سے قیمتی بنتی ہے چنانچہ اگر کوئی شخص محض زندگی ہی کی خاطر اسے " عزیز رکھنا" اورمحض اسی کی خاطر اسے بچانا چاہتاہے" اوران امور کا خیال نہیں کرتا اوراس سے محروم ہوکر اسے پابھی لیتاہے تو وہ اسے کھوتاہے کیونکہ اسے اس بات کا اندازہ ہوجاتاہے کہ اس نے ایسی چیز پالی ہے جو پانے کے قابل نہ تھی ایسی شے کو بچالیا ہے جو بچائے جانے کے قابل نہ تھی اور ایسی چیز کو عزیز رکھا ہے جو عزیز رکھنے کےقابل نہ تھی۔ صحیح طور سے دیکھا جائے توہماری زندگی بھی اس قابل نہیں ہے کہ اسے سب کچھ کھوکر حاصل کیاجائے۔

سپارٹا کے ایک سپاہی نے بھی زندگی کو ایسی قیمتی چیز سمجھا تھا اورفارس کی فوج سے اپنی جان بچاکر تھرماپولی کے درے کو چھوڑ کر بھاگ گیا تھا اس نے اپنی جان کو عزیز رکھا اوراس کے بچانے کی کوشش کی حتیٰ کہ اے بچا بھی لیا لیکن جن باتوں کی وجہ سے زندگی قیمتی سمجھی جاتی ہے ۔ یعنی وطن کی محبت اوردوسروں کی نگاہ میں عزت یہ سب کچھ تو اس نے کھودیا تھا۔ گھر واپس آتے ہی فوراً اسے اس بات کا اندازہ ہوگیا سب اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ جس زندگی کو اس نے بچایا وہ تو اس کے کھوئے جانے سے بھی بدتر ہوگئی تھی اس کی زندگی اتنی نکمی ثابت ہورہی تھی کہ اسے آخر کارخودکشی کرلینی پڑی۔

جب یہ بات ہمارے سمجھ میں آگئی تو دوسرا خلاف عقل نظر آنے والا جملہ بھی سمجھ میں آجاتاہے یعنی۔

جو کوئی اپنی جان کھوئے (اسے بچائے گا)

جو کوئی اپنی جان کھونا چاہے(اسے پائے گا)

جو کوئی اپنی جان سے عداوت رکھتاہے (اسے محفوظ رکھے گا)

بظاہر تو خلاف عقل نظر آنے والے اس جملہ کےالفاظ پہلے سے بھی زیادہ ناگوار نظر آتے ہیں لیکن جو سراغ ہم کو مل گیا ہے اسکے ذریعہ اس کا مطلب خوب واضح ہوجاتاہے یعنی جو کوئی زندگی پر اصول کو ترجیح دیتاہے وہ اس اصول کو بچاتاہے۔ جو زندگی کے ایسے مقاصد پر جن کی خاطر اس کو یہ ہستی حاصل ہے اپنی نظر جماتاہے اوراپنی جان کو خطروں میں ڈال کر بھی اس سے قطع تعلق نہیں کرتا ایسا شخص اس کھونے ہی میں زندگی پاتا، اسے بچاتا اور محفوظ رکھتاہے۔ پھر ماپولی کے ان بہادروں کی طرح جنہوں نے سپارٹا کی خاطر اپنی جانیں نثار کردیں اس بات سے ان کی ضمیر نے ان کی تعریف کی اورانجام کار ان کا نام امر ہوگیا۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ خود سیدنا مسیح نے اس اصول کو کس طرح استعمال کیا ہے۔ یہ سچ ہے کہ اس اصول کے استعمال کی کوئی حد نہیں کہ ہمیشہ جسمانی موت ہی کے لئے استعمال ہو مثلاً ایک آدمی کسی اچھے عہدہ کو قبول کرنے سے اس لئے انکار کردیتاہے کہ اسکے ساتھ کوئی ذلیل شرط لگی ہوئی تھی اوپر سے تو یہی معلوم ہوتاہے کہ اس نے اپنا نقصان کیا اورایک نفع بخش منصب کے انکار سے اپنی زندگی سے دشمنی کی لیکن حقیقت میں ایسا ہے نہیں بلکہ اس نے اپنی زندگی کو محفوظ رکھا اوربچالیا کیونکہ اس آزمائش کے بعد اس کی زندگی اور روح میں دس گنا زیادہ مضبوط اور دولت مند ہوجاتی ہے اس کے برخلاف اگر وہ اس عہدہ کو قبول کرلیتا تو اس کی زندگی اورا سکی روح جس کے لئے وہ یہ کرتا مفلس ہوجاتی اوراس پر ایک کاری ضرب لگ جاتی۔ اسی طرح جو مبشر دلی خلوص اور دیانت داری پر شہرت کو ، جو فاتح انصاف پر فتح کو ، اورجو سوداگر انسانیت پر روپے کو ترجیح دیتاہے اس کی زندگی آخرکار ہیچ ہوجاتی ہے ایسے لوگ ساری دنیا تو پالیتے ہیں لیکن اپنی جان ضائع کردیتےہیں اس پیاری جان کو جس کی خاطر اپنے اعلیٰ مقاصد انہوں نے خون کئے تھے۔

چنانچہ معلوم ہوا کہ اس عالمگیر اصو ل کا ضروری نتیجہ جسمانی موت نہیں ہے ہاں اس کے اعلیٰ استعمال میں یہ موت داخل ضرور ہے اس اصول کا مقصد ہی یہ ہے کہ آدمی نہ صرف زندگی کے لوازمات کو کھونے کے لئے تیار ہوجائے بلکہ اصول کی خاطر عین اس زندگی کو بھی کھولنے کے لئے آمادہ ہوا اوراس اعلیٰ صداقت یعنی خدا کو اس جسمانی زندگی پر فوقیت دے۔

اگر سیدنا مسیح کوئی اعلیٰ نمونہ ہے اوراگر اس نے اپنی ہی مقرر کئےہوئے اصول کا اعلیٰ نمونہ پیش کرنا چاہا تو یہ نمونہ مجازی نہ ہوگا بلکہ حقیقی ہوگا اس نے اعلیٰ نمونہ پیش کیا تواس پر یہ بھی لازم آیا کہ اپنے اعلیٰ مقصد کو ہاتھ سے نہ جانے دے چاہے اسےقدرتی موت قبول کرنی پڑے۔اس ترجیح کی صرف اسے آرزو ہی نہ ہو بلکہ تہہ دل سے مرنے پر آمادہ ہو اوریہ ہی نہیں بلکہ مربھی جائے اگرایسا نہ ہوتا تو اوپر بیان کی ہوئی خلاف عقل اعلیٰ صداقت ہم پر کیسے ثابت کرتا یعنی" جو خدا کی خاطر فی الواقع مرتا اوراپنی جان کھوتاہے وہ فی الواقع اسے بچاتا ہے جی اٹھنے سے پہلے اس کے لئے مرنا ضرور ی تھا اس کی موت اورپر جلالی قیامت کے ذریعہ سے ہی اس سچائی کی تصدیق دنیا کے سامنے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہوگی۔

چنانچہ اس کے لئے تو یہ آیات موت بظاہر ناکامی اور ذلت کی موت ہی کے معنی رکھتی تھیں اگرایسا نہ ہوتا تو وہ ہمارے لئے ایک کامل اوراعلیٰ نمونہ بن سکتا اب ایسی صورت میں مسیح کی موت پر یہ اعتراض کرنا کہ اس کے اعلیٰ مرتبہ کے لحاظ سے اس کو ایسی موت شایاں شاں نہیں ، کتنا غیر مناسب ہے بلکہ معاملہ اس کے برعکس ہے ہمارے اس معنی کی تائید خود ان آیات کے قرینہ سے ہوتی ہے۔

دوسرا پہلو

مسیح کی موت آخری دم تک محبت کرنے کی تکمیل ہے

ہمیں یہ بات ثابت کرنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے کہ دوسروں کے لئے جاں نثار کرنا اخلاقی طورپر دنیا میں سب سے افضل سمجھا جاتا ہے لیکن موت کے آخری لمحہ تک محبت کرنا ہی اعلیٰ ترین صفت، انسانیت کا خاصہ اورطرہ امتیاز ہے۔

جب ایسا ہے تو یہ بھی ضروری ہوا کہ ابن آدم بھی جو انسان کامل اورپاک تھا،اس صفت کا مظاہرہ کرے پچھلے صفحوں میں جو بات کہی گئی اسی طرح یہ بھی ایک بات ہے یعنی یہ کہ مکمل نمونہ دکھانے والے شخص کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ نیکی کے تمام بلندو بالا پہلوں کو اپنی ذات سے ظاہر کرے ورنہ تمام ملکوں اورہر زمانہ کے لئے وہ کیسے نمونہ بن سکتاہے یہ جان کر افسوس بھی ہوتاہے اور تعجب بھی کہ اس کامل انسان یعنی مسیح میں کچھ لوگ اسی صفت کا انکار کرتے ہیں اوراپنے کو بڑا غیرتمند ثابت کرنے والے اورمسیح کی عزت اوراس کے احترام کا دعویٰ کرنے والوں کے منہ سے ایسی بات سن کر اوربھی تعجب ہوتاہے۔

پھر یہ کہ محبت دنیا میں سب سے بڑی چیز ہے اوراس کا اعلیٰ ترین درجہ اوراظہارزندگی کی آخری سانسوں یعنی موت تک محبت کئے جانا ہے لہذا یہ نہ صرف ممکن بلکہ متوقع امر ہے کہ مثالی انسان سے ایسی ہی شایان شان محبت کے ظہور کی امید کی جائے جو کہ موت تک جاکر منتہی ہو۔اب جبکہ ایک ممکن امر فی الواقع ہو بھی گیا توہمارے لئے سوائے اس کے سامنے سرتسلیم وعظمت خم کردینے کے اور کوئی چارہ نہیں رہ جاتا۔ مسیح نے اس حقیقت کا اظہار اور تصدیق یہ کہہ کر اپنے ایک قول میں کردی ہے"اس سے زیادہ محبت کوئی شخص نہیں کرتا کہ اپنی جان اپنے دوستوں کے لئے دے دے (یوحنا ۱۵: ۱۳) دوسری جگہ وہ فرماتے ہیں" اچھا چرواہا ہوں۔ اچھا چرواہا بھیڑوں کےلئے اپنی جان دیتاہے۔ مزدور جو نہ چرواہا ہے ، نہ بھیڑوں کا مالک بھیڑئيے کو آتے دیکھ کر بھیڑوں کو چھوڑ کر بھاگ جاتاہے اوربھیڑیا ان کو پکڑتا اورپراگندہ کرتاہے۔ وہ اس لئے بھاگ جاتا ہے کہ مزدور ہے اوراس کو بھیڑوں کی فکر نہیں ۔ اچھا چرواہا میں ہوں۔ جس طرح باپ مجھے جانتاہے اور میں باپ کو جانتا ہوں اسی طرح میں اپنی بھيڑوں کو جانتا ہوں اورمیری بھیڑیں مجھے جانتی ہیں اورمیں بھیڑوں کے لئے اپنی جان دیتا ہوں"(یوحنا ۱۰: ۱۱تا ۱۵)۔

یہ الفاظ ہمیں یاد دلاتے ہیں گزرے ہوئے زمانوں کے سورماؤں کی اوران کے کارہائے نمایاں کی ۔ مثلاً ایک باپ جو اپنے بچے کو بچانے کےلئے ایک جلتے ہوئے گھر میں داخل ہوگیا، یا کسی قبیلہ کے اس فرد کی یا د دلاتے ہیں جس نےاپنے سرداروں کو بچانے کی خاطر اپنی جاں کی پرواہ نہ کی یا وہ جوان جو ڈوبتے ہوئے بچہ کو بچانے کے لئے سمندر کی لہروں میں جاکودا، سپاہی جواپنےدستے کو بچانے کےلئء تنہا ہی اپنی جگہ پر ڈٹا رہا جیسے ہزار ہا کارنامے ، ہیں جو انسان کی اعلیٰ سے اعلیٰ خوبیوں اورخصوصیتوں کو جن کا وہ مظاہرہ کرسکتا ہے نمونہ پیش کرتے ہیں۔پھر رضامندی کی موت جس قدر ہولناک ہوگی اتنی ہی پرُرعب ہوگی اور اگر برضا ورغبت رضا کارانہ ہونے کے ساتھ ہی یہ موت طویل بھی ہو تو اور پرُحشمت ہوگی۔ اوراگر اس سے پیچھا چھڑانا بھی کسی وقت ممکن ہوجائے تو کیا یہ محبت کاکمال نہیں ہےکیا ہم ایسے سورما کو عظمتوں کے اعلیٰ سے اعلیٰ تارج نہ نذر کریں گے۔

یہی سب تو ہے کہ جس کے باعث ہم مسیح کی موت کو پرعظمت موت کہتے ہیں یہ ایک ایسی چیز ہے جس سے انکار وہی کرسکتاہے جو عظمت وجلال کے معنی کا ادراک نہ کرسکتا ہو۔ اسی لئے بائبل کہتی ہے ، یسوع(سیدنا عیسیٰ) کو جلال وعزت کا تاج پہنایا گیا ہے تاکہ خدا کے فضل سے وہ ہرایک آدمی کے لئے موت کا مزہ چھکے"(عبرانیوں ۲: ۹)۔ بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ سیدنا مسیح کو ایسے تاج سے مزین دیکھ کر ہی دنیا کو لفظ محبت کے معنی سمجھ میں آئے ہیں، ہم نے محبت کو اسی سے جانا ہے کہ اس نے ہمارے واسطے اپنی جان دی اورہم پر بھی بھائيوں کے واسطے جان دینی فرض ہے(يوحنا ۳: ۱۶)۔ سیدنا مسیح کی اس محبت کے بارے میں ایک اوربے نظیر بات ملتی ہے جس سے ہر شخص کے دل میں یہ خیال گزرتا ہے کہ یہ محبت شخصی تھی اوریہ کہ آپ نے اپنی ذات کو میرے ہی لئے شخصی طورپر قربان کردیا تھا۔ مقدس پولوس نے بھی اس طرح بیان فرمایاہے کہ" میں مسیح کے ساتھ مصلوب ہوا ہوں اور اب میں زندہ نہیں رہا بلکہ مسیح مجھ میں زندہ ہے اور میں جواب جسم میں زندگی گزارتا ہوں تو خدا کے بیٹے پر ایمان لانے سے گزارتا ہوں جس نے مجھ سے محبت رکھی اوراپنے آپ کو میرے لئے موت کے حوالے کردیا'(گلتیوں ۲: ۲۰)۔

اب دیکھئے کہ اپنے دوستوں یا عزیزوں کےلئے اپنے آپ کو قربان کردینا اگر محبت کا کمال سمجھا جاسکتا ہے تو اگر یہ قربانی اپنے دشمنوں کےلئے دی جائے تو اس محبت کی بلندی کا کیا کہنا حقیقت تویہ ہے کہ ایسی قربانی انسانی قدرت وطاقت سے توباہرہی ہے ہم رومیوں (۵: ۷تا ۸)۔ میں یہ پڑھتے بھی ہیں کہ" کسی راستباز کی خاطر بھی مشکل سے کوئی اپنی جان دے گا مگر شاید کسی نیک آدمی کے لئے کوئی اپنی جان تک دینے کی جرات کرے۔ لیکن خدا اپنی محبت کی خوبی ہم پر یوں ظاہر کرتاہے کہ جب ہم گنہگارہی تھے تو مسیح ہماری خاطر موا"۔ ان آیات میں وہ باتیں قابلِ لحاظ ہیں پہلی تو یہ کہ دشمنوں کے لئے جان دے دینے کا اقرار دوسری یہ کہ دشمنوں اوربدکاروں کےلئے مسیح کی اپنی یہ قربانی خدا کی محبت کا مکاشفہ وظہور تھا۔ لیکن یہ کیسے ممکن ہے؟ کیا ان لفظوں کے معنی یہ تونہیں کہ خدا اورمسیح کسی نہ کسی طرح بالذات ایک ہی ہوں۔کیا ایسا تو نہیں کہ خدا مسیح میں ہو کر دنیا کو اپنے ساتھ ملارہا ہے(۲کرنتھیوں ۵: ۱۹)۔ سچ مچ کی خود نثاری خدا کی محبت کا ہی ایک فعل تھا اوردنیا میں یہ سب سے زیادہ عجیب شے ہے۔ خدا کی محبت اورمسیح کی محبت ایک ہی چیز اورایک ہی بات ہے۔ اورمسیح کی وہ محبت جو موت تک قائم رہی اورگنہگاروں کی خاطرتھی خدا کی محبت کا معیار ہے۔

چنانچہ خدا کے ہاں خود کو نثار کردینا ممکن ہے اورمسیح کے نجات بخش فعل کے ذریعہ یہ جان نثاری درجہ کمال تک پہنچتی ہے اگریہ کمال نہ ہوتا تو اخلاق کی ترازو میں خدا انسان سے نیچا ٹھہرتا اس لئے کہ دنیا میں محبت ہی سب سے اعلیٰ وافضل شے ہے کاش ہم لوگوں کی سمجھ میں آئے!

توہمارا عنوان بحث یہ تھاکہ زندگی کی آخری سانسوں تک محبت کرتے رہنا انسانی زندگی میں سب سے بڑا قدرتی ظہور ہے خصوصاً اس وقت جبکہ ایسے شخص کے لئے ہو جو اس کا کسی طرح نہ اہل ہو نہ مستحق ۔پھر جب یہ سچ ہے تویہ بھی ناگزیر ہوا کہ سب سےبڑا ابن آدم اورمثالی انسان اورسب سےبڑا نبی جس نے اپنی زندگی اور اپنے اعمال سے بھی وہی ثابت کردیا ہے جسے اپنے منہ سے کہا کرتا تھا ایسے شخص کو عظمت کا درخشاں تاج جان کی بازی لگا کر ہی حاصل کرنا ضروری تھا اس خیال کی وضاحت کے بعد یہ بات بھی صاف ہوجاتی ہے کہ اگرمسیح کے انجام کے بارے میں اسلامی تعبیر درست مان لی جائے تو مسیح کی زندگی کیسی ناقص ثابت ہوگی، جو شخص محض اس بنیاد پر مسیح کی موت کا منکر ہے کہ ایسا ماننے سے اس کی شان پر حرف آتاہے تو وہ مکمل صداقت کو سمجھ ہی نہیں پایا یعنی صداقت الہیٰہ کو ۔ آئيے ہم بھی رسول کی طرح اقرار کریں کہ یہ ایک سچی اورناقابل ادراک محبت ہے کہ جس کے آگے سرنگوں ہونا فرض عین ہے۔

تیسرا پہلو

مسیح کی موت ایک بہادرانہ رہنمائی تھی

عمدہ افسر ہونے کی یہ اولین شرط ہے کہ جنگ میں اسے ہر طرح کے خطروں مصیبتوں اور دقتوں میں اپنے سپاہیوں کا ساتھ دینا اور آگے آگے رہنا ہے۔ ۱۹۱۴ء و۱۹۱۵ء کی جنگِ عظیم میں برطانوری محاذ اور خندقوں میں افسر وفوجی دونوں ایک دل اورایک جان تھے ہربات میں افسر اپنے سپاہیوں اورماتحتوں کے شریک تھے بلکہ ماتحتوں سے بڑھ کر خطروں اورموت کا مقابلہ کرنے میں وہ آگے آگے تھے ۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ جن سپاہ کی کمان ان کے سپرد تھی وہ اپنے افسروں کو حد سے زیادہ پیار کرنے لگے اور ہر طرح کے خطروں میں گھسنے اورہر جگہ ان کے ساتھ جانے کو راضی رہتے تھے اس کے برخلاف پرزمسل کی شکست کے بعد وہاں جو نظارہ تھا وہ یہ تھا کہ قلعہ بندفوج توخستہ بے حال اور مصیبت زدہ نظر آتی تھی لیکن افسر ہٹے کٹے اور تروتازہ تھے۔ فوجی بیچاروں کو جب چوہوں چوہیوں پر اپنی گزران کرني پڑرہی تھی تو اس وقت افسر لوگ بڑے بڑے ہوٹلوں میں گلچھڑے اڑارہے تھے جب صورت حال یہ تو اگر فوج کوئی قابل فخر کارنامے نہ انجام دے پائے اپنے بچاؤ کے سلسلہ میں یا دشمنوں پر حملے کرنے کے سلسلہ میں تو اس میں چنداں تعجب نہ ہونا چاہیے ہر کامیاب افسر کے لئے ضروری ہے کہ اپنے ماتحوں میں یہ احساس جگائے کہ جن مصائب کے وہ شکار ہیں ان سے کہیں زیادہ وہ خود ہے۔ سکندرِ اعظم جب ہندوستان سے بابل کی طرف واپس لوٹ رہا تھا تواسے بلوچستان کے ریگستان سے گزرنا پڑا وہاں اسے پانی کی سخت قلت کا سامنا کرنا پڑا ساری فوج پیاس کے مارے جاں بلب ہورہی تھی ۔ ایسی حالت میں انہیں بیکار سا چشمہ ملا بڑی مشکل ایک پیالہ پانی دستیاب ہوسکا لوگ اسے سپہ سالا کے پاس لائے جب اس نے اس پیالہ کو منہ لگایا توبھوکے پیاسے جاں بلب سپاہیوں کی نگاہیں اس پر لگ گئیں سپہ سالار نے وہ پیالہ زمین پر انڈیل دیا اورکہنے لگا میری فوج جو تکلیف اٹھارہی ہے میں اس سے بچ کر نکل جانانہیں چاہتا۔ اب دیکھئے کہ جس لشکر کا سالار ایسا ہو اس فوج کو کیا کہیں جانے سے انکار ہوسکتاہے ۔ بالکل اسی طرح حضرت داؤد نے بھی پانی کا پیالہ خدا کے حضور انڈیل دیا تھا۔ نپولین کی جنگوں میں بھی ایک مرتبہ ایک برطانوی سردار کو ایک زخم کاری آیا تھا اس کے آخری لمحوں میں لوگ اس کی پیاس بجھانے کےلئے ٹھنڈے پانی کا ایک پیالہ لائے لیکن اس نے اس پیالہ کو لینے سے یہ کہہ کر انکار کردیاکہ فلاں سپاہی کو دے دو جو قریب کی زخمی پڑا ہواہے۔

اب سیدنا مسیح کی مہم بھی ایسی ہے وہ بھی کسی سالا لشکر سے کم نہیں اس کی مہم بھی محنت مشقت دکھ وخطرات موت سے بھری ہوئی تھی یہ ایسی مہم تھی جو شیطان ، دینوی ابلیسی ارواح گناہ حتی کہ موت تک کے برخلاف لڑی جارہی تھی۔ اور سیدنا مسیح ہی اس کے سپہ سالار رہنما تھے اس لحاظ سے بھی کہ نجات کا ابتدائی کام صرف وہی کرسکتے تھے اورکچھ اس لحاظ سے بھی کہ اس کا م کو جاری رکھنے کےلئے اس کے ماننے والوں کی ایک فوج بھی ہو یہ بھی خدا کی مرضی تھی۔ اب یہ دیکھئے کہ اخلاقی طورپر بھی اورمناسبت کے لحاظ سے بھی یہ کتنا ضروری تھاکہ انہیں بھی ان دکھوں اور مرحلوں سے گزرنا پڑے جس کی توقع وہ اپنے ماننے والوں سے کرتے ہیں ورنہ وہ اس بات کی توقع کیسے کرسکتے تھے کہ ان کے ماننے والے اس مصائب کی برداشت کے لئے تیار ہوں۔ کتابِ مقدس کا نوشتہ بھی یوں ہے" کیوں کہ جس کے لئے سب چیزیں ہیں اورجس کے وسیلہ سے سب چیزيں ہیں اس کو یہی مناسب تھاکہ جب بہت سے بیٹوں کو جلال میں داخل کرے تو ان کی نجات کے بانی کو دکھوں کے ذریعہ سے کامل کرے"(عبرانیوں ۲: ۱۰)۔ یہاں کامل سے مراد ہے پورے طور سے اس کام کے قابل۔ اس سردار کی سب سے بڑی خوبی اس بات میں تھی کہ اس کے بے نظیر واعلیٰ مہم میں وہ اس کے شایان شان عظیم تکلیف بھی سہے۔

ہمارے وہ بھائی جو اناجیل کے آخری بابوں کے واقعات پر اعتراض کیا کرتے ہیں انہیں اس معاملہ کو اس نقطہ نظر سے دیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ اگر وہ ایسا کریں تو ان کے ناقابلِ بیان دکھوں کو خلاف عظمت ذلت وشرم کی نگاہ سے نہ دیکھیں گے بلکہ ان کو اس بات سے اتفاق جو یہاں مذکور ہیں کرنا پڑے گا کہ عین ان میں ہی اوران کے وسیلہ سے ہی " یسوع کو جلال وعزت کا تاج پہنایا گیا"(عبرانیوں ۲: ۹)۔ کیونکہ یہ دیکھ مصائب ہی اس مہلک فہم میں اس ایک اعلیٰ وقابل رہنما بناتے ہیں۔ اب اگر ایسا ہے تو کیا یہ دکھ موت کی صورت میں کمال نہیں حاصل کرتی کیوں کہ موت تو دکھ کی انتہا اور معراج ، جان نثاری ہے جس کی توقع ایک سپاہی سے کی جاسکتی ہے۔ ایسے ہی وفاداروں کی کہانیاں تو ہیں جن سے ہمارے دل دھڑکنے لگتے ہیں۔ اگر ہوریس شاعر یہ گاسکتا ہے کہ " اپنے ملک کے لئے جان دینا کیسا باعظمت وشیریں فعل ہے"۔ تو لفظ ملک کی جگہ ہم " خدا کی بادشاہی" رکھ دیں تو یہ خیال اس سے کہیں زیادہ سچ ثابت ہوتاہے۔

ایسے معترضین کو توجب وہ یہ جان لیں کہ اعلیٰ ترین انسان اور اعلیٰ ترین رہنما ایک بہادر کی موت مرگیا بجائے اعتراض کرنے کے یہ کہنا چاہیے کہ ہاں! میری رائے میں تو اخلاقاً اس کی موت نہایت ضروری تھی اوریہی کتاب مقدس بھی کہتی ہے کہ" یسوع کو موت کا دکھ سہنے کے سبب فرشتوں سے کچھ ہی کم کیا گیا'(عبرانیوں ۲: ۱۹)۔ کیونکہ فرشتے ایسا دکھ سہنے کے قابل تھے کہاں؟اس لئے اگر کسی اور وجہ سے نہیں تو جسمانی وجوہ کی بنا پر کلام کو مجسم ہونا پڑا اورموت کے قابل بن گیا۔ پھر چودھویں آیت یوں بتاتی ہے " پس جس صورت میں کہ لڑکے خون اور گوشت میں شریک ہیں تو وہ خود بھی ان کی طرح ان میں شریک ہوا"۔ (یہ یاد رکھئيے کہ بہت سی فوجوں میں یہ دستور ہے کہ سرادار اپنے لوگوں کو بچے کہہ کر مخاطب کرتاہے) اسی طریقہ کو وہ بھی اپناتاہے کیوں؟ اس لئے کہ " موت کے وسیلہ سے اس کو جسے موت پر قدرت حاصل تھی یعنی (ابلیس کوتباہ کردے اور جو عمر بھر موت کےڈر سے غلامی میں گرفتار رہے انہیں چھڑائے بے شک ایسی مہم کے سپہ سالا کو یہی لازم تھاکہ موت میں اورموت کے ذریعہ سے ہی اپنے لوگوں کی رہنمائی کرے۔ پھر کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ ایک بڑے جرنیل کو اس طرح اپنے آپ کو جوکھوں میں نہیں ڈالنا چاہیے بلکہ ضرورت تو ایسے زندہ جرنیل کی ہوتی ہے جو مہم کو اپنے انجام تک پہنچا کر چھوڑے۔

ایسا ہی ایک زندہ سپہ سالا توہمارے پاس ہے خصوصاً شیطان اورشیطانی کاموں اوربرائیوں کی اس جنگ میں۔ مسیحی مذہب توہمیسہ انہوںی اور متضاد باتوں کو جمع کرتارہاہے،ایک طرف توہمارا ایک ایسا رہنما ہے کہ جس نے موت کو گلےلگانے کے لئے اپنی جان تک نثار کردی اس کی مثال ہمارے پاس ہے دوسری طرف وہ رہنما ایسا ہے جسے موت انگلی بھی نہیں لگاسکتی کیونکہ وہ خود فرماتاہے کہ " خوف نہ کر میں اوّل اورآخرزندہ ہوں ۔ میں مرگیا تھا اوردیکھو ابد الاآباد زندہ رہوں گا ، آمین! اور موت اورعالم ارواح کی کنجیاں میرے پاس ہیں ۔

توہمارے اس رہبر نے موت سے مغلوب ہوکر موت پر فتح پائی اور موت کی یہ درگت نبی کہ بظاہر ایک گھڑی کے لئے تو وہ غالب آئی لیکن ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اسے اپنی طاقت کھو بیٹھنا پڑی۔

چوتھا پہلو

موت کا مقابلہ کرتے ہوئے اس پر غالب

آنے والی مسیح کی موت

پچھلی فصل میں مسیح کی موت کی عام خصوصیت وخوبی کو اس نظریہ سے دیکھا گیا تھا کہ ایک رہبر اورسالالشکر ہونے کی حیثیت سے آپ نے اپنی ذات پروہ سب کچھ حتی کہ موت بھی برداشت کی جس کی وہ اپنے ماننے والوں سے توقع کرتے وقت یہی مناسب بھی تھا کہ جیسا کہ خود کلام مقدس کہتاہے " اس کو یہی مناسب تھا کہ ہمارے نجات کے بانی کو دکھوں کے ذریعہ سے کامل کرے" اس میں موت بھی شامل ہے جیسا کہ بقیہ عبارت سے ظاہر ہے(عبرانیوں ۲: ۱۰)۔

اب ہمارے اس بات سے بحث کرنی ہے کہ وہ مہم کیا تھی اور وہ دشمن کو ن تھا کہ جس کے ساتھ اس سالار لشکر کو اس کے ہمراہیوں کو لڑنا تھا۔ اس بحث سے اس کی موت اوراس کا تقاضا دونوں ہی اوربھی زیادہ واضح ہوجائیں گے۔

ہاں! تو یہ مہم تھی سلطان موت وگناہ یعنی شیطان کے خلاف اوران انسانوں کی حمایت میں جو گناہ وموت کی قید میں تھے، اس بات پر غور کیجئے" البتہ اس کودیکھتے ہیں جو فرشتوں سے کچھ ہی کم کیا گیا یعنی سیدنا مسیح کو کہ موت کا دکھ سہنے کے سبب جلال وعزت کا تاج اسے پہنایا گیا تاکہ خدا کے فضل سے وہ ایک آدمی کے لئے موت کا مزہ چکھے(عبرانیوں ۲: ۹)۔

انسانیت نے یہ مزہ چکھا بلکہ اس کے پیالہ کو تہہ تک چٹ کر گئی۔ بائبل کی تعلیم تو یہ ہے کہ یہ موت واقع ہوئی تھی گناہ کے نتیجہ کے طورپر ۔ اورگناہ کی آمد ہوئی دنیا میں تاریکی وظلمت کی طاقتوں کے ذریعہ۔ گناہ کی مزدوری موت ہے (رومیوں ۶: ۲۳)۔ موت انسان کی آخری اوربدترین دشمن ہے۔ لیکن اب ایک سپہ سالا ۔ ایک نجات دہندہ کا ظہور ہوتاہے اقلیم حیات ونور سے تاکہ انسان یعنی اپنی اسیر قوم کو اس سے آزادی دلائے اسی باعث اسے ہر آدمی کے لئے اوران اسیروں کےلئے موت کا مزہ چکھنا لازمی تھا تاکہ موت پر غلبہ پانے کے بعد وہ انسانیت کو موت کی ہولناکی سے چھٹکارادلائے۔ اسی فعل میں اس بات کی تشریح بھی ہے کہ مسیح کو اس موت کا یہ تلخ جام کیوں پینا پڑا جو ہر طرح کی ہولناکی کو ہر طرح کے دکھ اور ہر قسم کی روحانی ظلمت حتیٰ کہ آسمانی باپ یعنی خدا سے جدائی کے احساس وشعور کے فقدان کو بھی اپنے دامن میں سمیٹے تھی۔انہیں وجوہ کی بناء پر اسے پورے جام کو پینا پڑا نہ صرف جسمانی اورطبعی موت کا جام بلکہ معہ اس کے دیگر لوازمات کے ساتھ جو انسان کے گناہ کا براہ راست نتیجہ تھے یعنی اس موت کا جام کہ جس کا مالک خدا نہیں بلکہ شیطان ہے۔

سوال اب یہ ہوتاہے کہ آخر انہوں نے ایسا کیوں ؟کیا وہ محض قدرت کے ایک اشارے سے ہی بچ نہ سکتے تھے۔ کیوں نہیں! لیکن اس بات کا دہرادینا یہاں ازبس ضروری ہے کہ یہ تقاضائے محبت ہوتاہے کہ بچانے والا بھی ان خطروں میں داخل ہو جن میں وہ شخص گھرا ہوا ہے جسے وہ بچانا چاہتاہے۔ یہی دنیا کی ریت ہے ۔ حتیٰ کہ اگرایسا شخص جسے بچانا ہے خاک میں پڑا ہے تو یہ نجات دہندہ خاک ودھول تک جھک جائے، اگر ڈوب رہا ہے تو یہ سمندر میں کودپڑے۔ اگرآگ میں ہے تو شعلوں میں جاکودے۔

شائد کوئي یہ سمجھے کہ اچھا یہ توٹھیک ہے لیکن مرنے کی کیا ضرورت پڑی تھی۔ سمجھداری کا تقاضا تویہ ہوتاہے کہ اپنی جان بچائی جائے تو جواب یہ ہے کہ ہمیشہ ایسا نہیں ہوسکتا۔ خطروں میں گھرے ہوؤں کو بچانے کی خاطر کبھی جان بھی دینی پڑتی ہے یہ جانتے ہوئے بھی اس بچانے کے فعل کے دوران اس کی جان قربان ہوجائیگی ایسی ہی مثالوں میں تو محبت کا کمال نظر آتاہے۔ہم توپھر بھی یہی کہیں کے کہ نجات وچھٹکارے کی اس جنگ میں سیدنا مسیح کومرنالازمی تھا۔

پھر ایک بات یہ بھی تو ہے کہ اخلاقی وروحانی نجات بالکل الگ ہوتی ہے جسمانی وطبعی مخلصی سے ۔ پہلی صورت کی خصوصیت تو یہ ہوتی ہے کہ چھٹکارا دینے اوربچانے والا ان سارے خطروں تکالیف ومصائب سے گزرتا ہے جن سے کہ وہ گرفتار بلا کو بچانا چاہتاہے کیونکہ ایسے موقع پر ، دشمن کی حقیقی شکست کا راز اسی بات میں پنہاں ہوتاہے کہ اسے دل کی بھڑاس نکال لینے دیا جائے اورمن مانی کرلینے کا پورا موقع دیا جائے تاکہ اس پر یہ ظاہر ہوجائے کہ اس کی حسرت پورے طورپر نکل گئی اوران تمام باتوں کے باوجود اس کو شکست نصیب ہوئي ورنہ دشمن یہی کہے گا کہ ابھی تو میرے پاس کچھ اور داؤں یا ہتھیار تھے جن کے ذریعہ میں بچانے والے کو ہراسکتا تھا دوسرے یہ کہ گرفتاران بلا بھی یہ کہہ سکتے ہیں کہ جو مصیبت وکرب ہم نے سہے وہ تو بچانے والے نے اٹھائے نہیں۔ اس طرح سے تو مصیبت کی کمر ٹوٹتی نہیں انہیں وجوہ کی بناء پر مسیح کو ہنسی خوشی موت کے سائے کی وادی ظلمات سے گزرنا پڑا اورہر روحانی جسمانی نوع کے اخلاقی دکھ ومصائب اورہولناکی کو اس نے ہنسی خوشی برداشت کیا اور پھر اسے اس تاریکی سے نکل کر روشنی میں آنا پڑا دشمن کی کامل شکست اسی بات میں پوشیدہ تھی کہ اسے گھڑی بھر کے لئے جیت لینے کا موقع دے دیا جاتا۔ لیکن ہوا یہ کہ تیسرے دن مسیح مردوں میں سے جی اٹھا۔ گوکہ یہ بات عجیب سی لگتی ہے۔ لیکن صاحبان فکر ونظر کے لئے اس میں کوئی مشکل نہیں۔

موت کے سلطان نے تو اس سپہ سالار کے ساتھ جو کچھ کرتے بنا کیالیکن کچھ نہ کرسکا ۔ موت نے خود اپنے آپ کو قتل کرلیا اور اب جورخنہ پیدا ہوگیا تھا اس میں ہوکراس کے ماننے والے اس میں سے گزرسکتے تھے۔ انسانیت کے نمائندہ نے موت کے ذائقہ کو تمام انسان کے لئے چکھا۔ اب ہر شخص اس پر ایمان لانے کے بعد موت پر فتح حاصل کرسکتاہے۔ جیساکہ اگلی عبارت سے ظاہرہے اس کو جسے موت پر قدرت حاصل تھی ابلیس کو تباہ کردے اور جو عمر بھر موت کے ڈر سے غلامی میں گرفتار ہے انہیں چھڑائے"(عبرانیوں ۱۱: ۱۴تا ۱۵)۔

اب یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ لڑکے گوشت اور خون میں والدین کو ملے ہوئے سارےورثہ اورامراض میں شریک ہیں اسی لئے سالار کو وہ ساری باتیں سہنی پڑیں اور موت میں ہوکر گزرنا پڑا۔ یہ ہے تو بڑی پیچیدہ اور متضاد سی بات لیکن اب سمجھ میں آجاتی ہے کہ اس طرح سے وہ اب موت کے سلطان کو آسانی سے خاک میں ملاسکتاہے اس کے زورواختیار کو توڑسکتاہےاوریہ بھی ثابت کرسکتاہے کہ اس کی اعلیٰ سے اعلیٰ طاقت خدا کی قوت وزور سے بڑی کمتر ہے حتیٰ کہ ایماندار انسانیت کی قوت کا ملہ سے بھی کم ہے۔ اس طرح وہ انہیں چھڑاسکتا ہے جو تاریکی وبدی کے اختیار والے شیطان کو دائمی غلامی میں پڑے کرارہے تھے۔ اب دیکھئے کہ محض اس وجہ سے کہ ایسی موت سے مسیح کی تحقیر ہوتی ہے اس کا انکار کردینا کیسی ناسمجھی ہوتی ۔ یہ تو ظاہر ہے کہ انکار کردینا بڑی بودی دلیل پر مبنی ہے اور ظاہر اذلت کو دیکھ کر اس طرح کا انکار محض اس لئے ہے کہ یہ لوگ روحانی واخلاقی شان وعظمت کے مفہوم کے سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے حالانکہ حقیقت یہ نہیں بلکہ اس کا مروانہ واران دکھوں کو برداشت کرلینا ہی جلال وعظمت کی تاج پوشی کا باعث ہے اوراسی وجہ سے اس کو ایسا نام دیا گیا ہے جوہر نام سے اعلی نام تھا۔(فلپیوں ۲: ۹)۔

پانچواں پہلو

مسیح کی موت گناہ سے جنگ تھی

پچھلے باب میں اس بات پر اظہار خیال کیا جاچکا ہے کہ موت اوراس کے سلطان(شیطان) سے جنگ کرنے میں اس اعلیٰ انسان کے لئے یہ بات لازم تھی کہ وہ خود مرجائے ۔ موت کی کڑواہٹ کا انصحار گناہ پر ہے " اے موت تیرا ڈنک کہا ہے اے موت تیرا ڈنک گناہ ہے"۔ ہم نے ابھی ابھی دیکھاکہ موت کے خلاف جو مہم تھی وہ دراصل گناہ، تمام ناراستی، ، اورخدا کی شریعت سے انحراف اوربغاوت کے خلاف ایک مہم تھی جس میں نجات دہندہ کی موت کئی وجوہات سے نہایت ضروری تھی۔

پہلا سبب راستباز انسان کے خلاف ہے

ہم تو یہ جانتے ہی ہیں کہ اس دنیا میں نیکی وراستبازی پر عمل کرنے والوں کا کیا انجام ہوتاہے وہ ہر طرح کے خطروں سے دوچار ہوتے ہیں، نفع کو قربان کرتے اور ہرطرح کا نقصان اٹھاتے ہیں۔ ان کی ہنسی اڑائی جاتی ہے، عوام ان سے کتراتے ہیں ایسے لوگوں کو ستایا بھی جاتاہے ، خاندان اورسماج سے بھی وہ نکال باہر کئے جاتے ہیں ہر طرح کے ستم وظلم کا ان کو نشانہ بنایا جاتاہے حتیٰ کہ کبھی کبھی توجان کی بازی بھی لگانی پڑجاتی ہے اوریہی آخری بات ہے جو تمام باتوں کا سرتاج ہے۔ کیونکہ اس سے سارے کرتوت اورکارروائي کا راز فاش ہوجاتاہے دنیا ایسی باتوں کا مقابلہ جان توڑکر کرتی ہے اورموت اس کا لازمی انجام ہوا کرتاہے۔نیکی اور سچائی کی خاطر جسے تھوڑی بھی قربانی کرنی پڑ جائے اس کو موت کے منہ سے گزرنا پڑتاہے ۔ لیکن جو شخص خودایک مثالی نمونہ کے طورپر ہو اس پر تویہ اوربھی ضروری ہوجاتاہے کہ اپنی ذات اور کارناموں سے یہ ظاہر کرے کہ اس کا مرجانا ہی اصل مقصود ہے۔ یہ توبڑی عجیب سی بات ہوگی کہ ایک شہید تواپنے ضمیر کی پاسداری میں جان دے اورایسا کامل ونیک شخص اعلیٰ شہید کا درجہ نہ پائے۔ یہ ناممکن ہے اس لئے ہم کو گھوم پھر کر اسی بات پر آنا ہوگا کہ مسیح کو اس نقطہ خیال سے مرنا ضروری تھا۔

یہ بات نہ صرف بائبل نے بلکہ انسانی تجربہ نے بھی ظاہر کردیاہے ۔ افلاطون نے اپنی ایک عبارت میں جو کہ بمنزلہ نبوت پیشن گوئی ثابت ہوئي ۔ یہ بیان کیاہے کہ جب ایک کامل ونیک شخص کی مڈ بھیڑ دنیا کے بدوں کے ساتھ ہوتی ہے اور وہ ان کے مقابلہ میں چٹان کی طرح ڈٹا رہتاہے اوردنیا سے کسی سمجھوتے پر راضی نہیں ہوتا توایک زبردست کشمکش ہوتی ہے اس جھڑپ میں فتح توراستباز کی ہوتی ہے اب یہ بات دوسری ہے کہ جسمانی فتح اس کے مخالفین کے گروہ کی ہو کیونکہ یہ لوگ اس وقت تک چین نہیں لیتے جب تک کہ نیک وراستباز آدمی کو ذلیل کرکے مار نہ ڈالیں۔سقراط نے اپنے ضمیر کی خاطر ایسی موت برداشت کی تھی افلاطون کو یہ خیال غالباً وہاں سے پیدا ہوا ہوگا لیکن دیکھا جائے تو اس پیشین گوئی کی پوری تکمیل مسیح نے کی ہے۔افلاطون کی اصل عبارت کا ترجمہ یہ ہے:

راستباز شخص ہو توبہترین شخص لیکن اسے بدترین سمجھا گیا ہے۔ (دوسری بات یہ دیکھنی ہے) کہ ایسے شخص کی نیکی اسے نادانی سے اورنادانی کے نتائج سے محفوظ رکھتی ہے یا نہیں۔ اب اگر ایسا شخص اپنی موت تک ویسا ہی عمل کرتا چلا گیا ہے توایسے راستباز اورنک شخص کے بارے میں کہ جیسے برااورناراست سمجھا گیا ہے لوگ یہ بھی بتائیں گے کہ اس پر کوڑے پڑے، شکنجہ میں کھینچا گیا،اس کے ہاتھ پاؤں باندھے گئے اس کی آنکھیں تپتی ہوئی سلاخوں سےپھوڑی گئیں اورآخر کار ہر طرح کا دکھ دینے کے بعد اسےسولی پر لٹکادیا گیا (اور اسے صلیب دی گئی ہے)"۔

اب ناظرین کو یہ بات بتانے کی ضرورت نہیں رہی کہ نیکی اور بدی کی جنگ میں اس سار ے مضمون کا نچوڑ یہ ہے کہ ایسا نیک آدمی صرف اپنی نیکی اور صداقت کے ہتھیارہی سے ہمیشہ لیس پایا جائے گا۔

جوں ہی اس نے اس ہتھیار کے علاوہ دوسرا ہتھیار سنبھالاسارا زور جاتا رہے گا اورپھر وہ جنگ ہارے گا اورپھر تو اخلاقی فتح اس سے دور بھاگے گی یعنی آکر اس نے جسمانی تشدد کو اپنایا یا کسی اعجازی قوت سے کام لیا تویہ سمجھ لو کہ وہ اخلاقی طبقے سے نکل گیا اورسارا روحانی پہلو اس کے ہاتھ سے جاتا رہا اور سارا مقصد فوت ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ سیدنا مسیح نے بدی کی اس جنگ میں کسی آسمانی لشکر کا سہارا نہیں لیا (حالانکہ آپ کے ایک شاگرد نے آپ کو اس پر باغ گتسمنی میں ایک مرتبہ ابھارا بھی)آپ نے کسی معجزہ کا سہارا نہیں لیا۔ حالانکہ یہودیوں نے صلیب کے وقت اورشیطان نے بیابان کی آزمائش کے وقت آپ کو اس بات پر ابھارنے کی کوشش کی لیکن آپ نے ایسا ہرگز نہیں کیا بلکہ اس کے برخلاف دنیا کی شدید نفرت وعداوت کا مقابلہ اپنی بے داغ زندگی اورصداقت پر مبنی کامل گواہی سے کیا۔ دنیا نے آپ کو قتل کردیا اور جسمانی طورپر قتل کرنے سے اورزیادہ کرسکتی تھی لیکن آپ دوبارہ جی اٹھے اوریہ ثابت کردیاکہ اخلاقی فتح ہی مکمل فتح کہلائی جانے کی مستحق ہے اوراس روح کو جس نے ایسی فتح پائی ہے کبھی فنا نہیں ۔ ان باتوں سے قارئین کرام پر یہ بخوبی واضح ہوگیا ہوگاکہ سیدنا مسیح جیسے مثالی راستباز کے لئے جسمانی موت کتنی ضروری اورناگریز تھی۔

دوم خود گناہ کی قلعی کھل گئی اور وہ اپنے ہی ہاتھوں قصور وار ٹھہرا

اس یہ نتیجہ نکلاکہ گناہ نے اپنے آپ کو بے پردہ بھی کردیا اوریہ بھی دکھادیا کہ اس قدوس سے اس مہلک کشمکش میں اس کی اپنی ذات پہچان لی گئی کیوں کہ گناہ اکثر پردہ کے پیچھے رہ کر اور بھیس بدل کر کام کرتاہے۔ کبھی چھپاتا ہے کبھی بدیوں پرائیوں کو حسین وجمیل روپ میں پیش کرتاہے لیکن مسیح کی صلیب پر اس کو برہنہ ہونا پڑا اور جو بے گناہ تھا اسےاس نے تباہ کرنے کی کوشش کی ، راستبازی کو ناراستی نے مٹانا چاہا اوربدترین سے بدترین قصور جو تصور میں آسکتے تھے ان کی ایک مجموعی شکل میں اس سلوک میں ظاہر ہوتی جو مسیح کے ساتھ کیا گیا۔اس طرح گناہ کی قلعی کھل گئی اور اس کی حقیقت وماہیت بے نقاب ہوگئی کہ کس قدر گھنا ونا، خونی اوردشمن خدا ہے۔ چنانچہ اس جنگ کے آخری مرحلے میں چھلانگ لگا نارہ گیا تھا مسیح نے فرمایا" اب دنیا کی عدالت کی جاتی ہے اب دنیا کا سردار نکال دیا جائے گا(یوحنا ۱۲: ۳۱)۔

کیا یہ ماجرا کھلے طورپر یہ نہیں بتاتا کہ خدا نے کیوں اسے اس سے چھٹکارا نہیں دلایا۔ اگر وہ بچایا جاتا تو کیا گناہ کی حقیقی گھناؤنی صورت سرعام دکھائی جاسکتی تھی؟ یوں گناہ نے خود اپنے آپ کو قصور وار ٹھہرایا" جو اس پر ایمان نہیں لاتا اس پر سزا کا حکم ہوچکا ۔۔ اور سزا کا حکم یہ ہے کہ نور دنیا میں آیا ہے لیکن آدمیوں نے تاریکی کونور سے زیادہ پسند کیا اس لئے کہ اُن کے کام بُرے تھے"(یوحنا۳: ۱۹)۔

کیا اس سے ہم پر یہ حقیقت نہیں منکشف ہوئی کہ مسیح کی موت کے ذریعہ گناہ پر خدا کا فیصلہ اور سزا کا حکم دیا گیا ہے، پیشتر اس کے کہ ہم تیسری وجہ پر غورکریں یہاں یہ بتانا ضروری ہےکہ خدا کا گناہ پر سزا کا حکم اس طورپر ہے کہ خود گناہ کو اپنے ہی ہاتھوں پر یہ حکم لگاتے ہی بن پڑی وہ اس طرح سے کہ جب اس نے اس قدوس پر اپنا سارا غضب انڈیل دیا تو خودہی اپنے آپ کو صلیب پر چڑھادیا۔ گناہ پر سزا کے حکم کا دوسرا اور کوئی طریقہ تھا ہی نہیں لہذا ایک مرتبہ ہم پھر اسی نتیجے پر پہنچ رہے ہیں کہ رہنمائے انسانیت اور خدا کے قدوس کے لئے مرناہی لازمی تھا۔

سوم : گناہ پر خدا کا حکم سزا

ہم نے اب تک یہ دیکھا کہ گناہ پر حکم وفتویٰ لگانے کا الہیٰ طریقہ یہی تھا کہ گناہ کو کلام مجسم پر اپنا انتہائی ظلم وغضب توڑلینے دے۔ اب ہم اس عظیم پہلو پر غور کریں گے کہ خدا نے مسیح میں گناہ پر سزا کا حکم لگایا اوراس طرح گنہگاروں سے بھری پوری اس دنیا کے لئے کفارہ کا انتظام کیا۔" خدا نے اپنے بیٹے کو گناہ آلودجسم کی صورت میں اورگناہ کی قربانی کے لئے بھیج کر جسم میں گناہ کی سزا کا حکم دیا"(رومیوں ۸: ۲)خود جسم انسانی نے گناہ کیا اور خود اس نے ہی گناہ پر سزا کا حکم لگادیا لیکن ہم ابھی بیان کر آئے ہیں کہ ایسی سزا کے حکم کا اظہار پاک انسان پر ہی ہوسکتا تھا یعنی ایسے شخص پر جس نے محبت وترس کے مارے عین اس مقصد کی خاطر اپنے اوپر جامہ انسانیت پہن لیتا ہے اور مسیح میں خدا کی محبت تھی ہی اس بات میں کہ اپنی بیگناہی وراستبازی اظہار کے لئے اورگناہ کی ناپاکی وقصورواری کے لئے مسیح خود برضا ورغبت ظاہر کرے۔" ہم نے محبت کو اسی سے جانا ہے کہ اس نے ہمارے لئے اپنی جان دی"۔(۱یوحنا۳: ۱۶)ہاں یہ کمال محبت ہی تو تھی جس نے قدوسیت کے اظہار کا تقاضا کیا اور خود اپنی ذات کو سپر بنایا۔خدا کی محبت وقدوسیت اس بات کی متقاضی تھی۔" خدا نے مسیح کو اس کے خون کے باعث ایک ایسا کفارہ ٹھہرایا جو ایمان لانے سے فائدہ مند ہوتا کہ جو گناہ پیشتر ہوچکے تھے اورجن سے خدا نے تحمل کرکے طرح دی تھی ان کے بارے میں وہ اپنی راستبازی ظاہر کرے بلکہ اسی وقت اس کی راستبازی ظاہر ہوتا کہ وہ خود بھی عادل رہے اور جو یسوع پر ایمان لائے اس کو بھی راستباز ٹھہرانے والا ہو (رومیوں ۲: ۲۵تا ۲۶)۔ دیکھئے کہ خدا کا بھی اس میں ہاتھ ہے ، یہ سب خدا کی طرف سے ہے جس نے مسیح میں ہوکر ہم سے میل ملاپ کرلیا (۲کرنتھیوں ۵: ۱۸)۔

مقصد کہنے کا یہ ہے کہ یہ وقوعہ اوراس کا سارا اظہار جیسا کہ مختلف پہلوؤں سے باربار ظاہر کیا جاچکا ہے موت تک ہی پہنچتا ہے کیونکہ " گناہ کی مزدوری موت ہے"۔ لہذا جس محبت نے اس امر کا اظہار اپنے ذمہ لیا اسے موت پر ہی منتہی ہونا تھا اسی میں خدا اورگنہگاروں کا میل ملاپ ہوا، گناہ دور ہوا، گنہگار راستباز ٹھہرایا گیا۔ جو شخص صلیب پر غور کرتاہے وہ اس فعل کے ذریعہ یہ جان لیتاہے کہ خدائے واحد کی ذات مقدس وپر محبت ہے، اے گناہ اور راست بازی کا معنی معلوم ہوجاتاہے اسے یہ بھی احساس ہوجاتاہے کہ اس گناہ میں اس کا بھی ہاتھ ہے اور خداکا انصاف اورانسان وگناہ پر فتویٰ اس پر بھی عائد ہوتاہے اس سے بھی بڑھ کریہ کہ اسے صلیب کے عمل سے خدا کی طرف سے گناہ کی معانی اورایک نئی زندگی ملتی ہے۔ اب ایمان کی پختگی سے وہ خدا کی طرف سے کئے وعدوں کے مفہوم کو خوب اچھی طرح سمجھ لیتاہے۔اب وہ گناہ کو کوئی ایسی ہلکی چیز نہ سمجھے گا جسے خدا یوں ہی نظر انداز کردیا کرتاہے اور نہ معافی کو گناہوں کے استحکام کا ذریعہ جانے گایا یہ کہنے کی جرات کرسکے گا کہ خدا نے توسب معاف ہی کردیا ہے اسلئے جتنا بنے گا کیاجاسکتا ہے اوراب خدا کو اس کی کوئی فکر نہیں ۔ کیونکہ صلیب پر اس کا تجربہ ہوتاہے ایک ایسی قدوسیت مطلقہ کا اور خدا کی محبت مطلقہ کا اورجسے وہ اب سے تلاش اور پرستش کرتاہے وہ مسیح کے ساتھ ہی زندگی کے نئے پن میں پھر سے اٹھ کھڑا ہو۔وہ گناہ کے لحاظ سے تومرجاتاہے اورمسیح میں زندہ ہوجاتا ہے اب اپنی پرستش عزت خوشی اور مرضی چھوڑ کر وہ اب خدا اور اپنے ہمسایوں کے لئے نئے تقدس وپیار میں زندگی گزارنے لگتا ہے جسے اس نے صلیب مسیح پر دریافت کیاہے۔

بڑے سے بڑا گنہگار بھی صلیب میں حقیقی اطمینان وشانتی پاسکتا ہے خواہ کتنی ہی کثرت اور سیاہی اس کے گناہوں کی ، کتنا ہی زخمی کردینے والا ہو اس کا بوجھ، مسیح نے جب خود گناہ کا اور اس کے سلطان کا سامنا کیا توان ہی باتوں کا سامنا اسے ہوا۔ اس لئے کوئی خواہ کتناہی بڑا گنہگار ہی کیوں نہ ہو وہ ایمان کے وسیلہ اس گناہ بردار کے ساتھ مشابہت حاصل کرتاہے اوراپنے گناہوں سے سدا کے لئے چھٹکارا پالیتاہے۔ لیکن جو ایسا کرنے میں ناکام رہا ہے اسے یہ خطرہ رہتاہے کہ واحد قدوس کے خلاف کرنے والے گناہ کی مشابہت کا مرتکب ہوتاہے ۔ جس نے اس قدوس اورپاکباز کو مصلوب کیا اورجس کو آخر کار وہ راستباز مغلوب کرے گا اورایک دن نیست ونابود کردیگا تو غافل شخص کے لئے خود بھی ہلاکت ونیستی کا خطرہ ہے۔