ZWEMER, SAMUEL MARINUS

(1867-1952)

APOSTLE TO ISLAM. ZWEMER ONE OF THE MOST CELEBRATED
PROTESTANT MISSIONARIES OF THE TWENTIETH CENTURY

A MUSLIM SEEKER AFTER GOD

SAMUEL M.ZWEMER

Showing Islam at its Best in the Life and Teaching of Al-Ghazali

Mystic and Theologian of the Eleventh Century

الغزالی

مصنف

پادری ایس ایم زوئمر صاحب ڈی ڈی

Approved by the C.L.M.C.

پنجاب رلیجس بک سوسائٹی

انارکلی لاہور

۱۹۲۴

جامع طوس الخرب و لعلہ بنی فی القرآن الرابع لاھجرۃ

قبر الغزالی المزعرم

الغزالی

باب اوّل

گیارہویں صدی

تاریخ کے سر کردہ اشخاص کو پہاڑوں کی چوٹیوں سے تشبیہ دے سکتے ہیں۔ یہ میدانوں سے اور زیرین پہاڑیوں سے بہت بلند ہوتی ہے اور چونکہ وہاں سے دور تک زمین کا نظارہ آتا ہے۔ اس لئے یہ بھی بہت دور سے دکھائی دیتی ہے۔ اسلام کا تاریخی مطالعہ کرتے وقت چار نام خاص طور پر نمایاں ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک تو خود محمد صاحب ہیں۔ دوسرے بخاری صاحب جنہوں نے احادیث کے جمع کرنے میں شہرت حاصل کی۔ تیسرے آل عشری صاحب جو منقول تھیالوجی کے عالم اور معقول تھیالوجی کے مخالف تھےاور چوتھے امام غزالی صاحب جو مصلح اور صوفی تھے۔ محمد صاحب کے بعد اسلام کی تاریخ پر جس نے بڑا نقشہ جمایا وہ غزالی صاحب ہی ہیں۔ سیوطی صاحب کا قول ہے کہ

’’محمد صاحب کے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو الغزالی ہوتا‘‘۔

اسلام کی اگر کوئی خوبی دیکھنی ہو تو غزالی صاحب کی زندگی اور خاص کر ان کی تصنیفات میں دیکھ سکتے ہیں۔ احادیث کے بوجھ اور رسمیات کے تقاضا سے بچنے کی مسلمانوں کے لئے اگر کوئی راہ ہے تو وہ تصوّف ہے۔ جنہوں نے قرآن کی تعلیم اور رسمیات کے طور مار میں کوئی گہرے روحانی معنی نکالے ان میں سے کوئی امام غزالی پر سبقت نہیں لے گیا۔ جمال الدین صاحب کا قول ہے کہ

’’وہ زندگی کے قطب اور سبھوں کے لیےتازہ پانیوں کے مشترکہ چشمہ تھے۔ اہل ایمان کے پاکیزہ گروہ کی جان اور رحیم خدا سے ملاپ حاصل کرنے کی راہ۔ مسلمان علماؤں میں سے وہ اپنے زمانے اور سارے زمانوں کے لئے لاثانی اور بے نظیر گزرے ہیں‘‘۔

ایک دوسرے مصنف کا یہ قول ہے۔ جو تقریباً ان کا ہم عصر(ہم عہد، ہم زمانہ، ایک وقت کا) تھا۔

’’یہ وہ امام ہیں۔جن کے نام سے سینہ پگھلتا اور روحیں تازہ دم ہوتی ہیں ۔ جن کی تصنیفات پر دوات کو فخر ہے اور کاغذ خوشی سے تھراتا ہے اور جس کا پیغام سنتے وقت عالم خاموشی چھا جاتی اور سرخم ہوجاتے ہیں‘‘۔

ایک مشہور فاضل احمد السید الیمنی الزبدی نامی نے جو امام غزالی کے ہم عصر تھے یہ فرمایا

’’میں ایک روز بیٹھا ہوا تھا کہ یک لخت مجھے یہ دکھائی دیا کہ آسمان کے دروازے کھل گئے اور مقدس فرشتوں کی ایک گروہ اتری۔ ان کے ساتھ ایک سبز لبادہ اور قیمتی گھوڑا تھا۔ وہ آن کر ایک خاص قبر کے پاس کھڑے ہوگئے اور مدفون کو قبر سے نکالا۔ وہ سبز لبادہ اسے پہنایا اور گھوڑے پر اسے سوار کیا اور ا آسمانوں سے گزرتے گئے۔ حتٰی کہ ساتوں آسمانوں سے عبور کرگئے اور ساٹھ حجاب پھاڑ کر نکل گئے اور مجھے معلوم نہیں کہ آخر کار وہ کہاں جاپہنچے۔ پھر میں نے اس کی بابت دریافت کیا۔تو یہ جواب ملا۔ یہ امام غزالی ہے۔ یہ اس کی وفات کے بعد ہوا۔ خدا تعالیٰ اس پر رحم کرے‘‘۔

اس کے بارہ(معاملہ، تعلق، نوبت، دفعہ) میں ایک یہ قصہ بھی آیا ہے۔

’’ہمارے زمانہ میں ایک شخص مصر میں تھا وہ امام غزالی کو ناپسند کرتا اسے برا بھلا کہتا اور اس کی ہجو کیا کرتا تھا۔ اس نے نبی کو خواب میں دیکھا (خدا اسے برکت دے اور اسے سلامتی عطا کرے) ابوبکر اور عمر(رضی اللہ عنہا) اسکے اس پاس تھے اور امام غزالی ان کے سامنے بیٹھےتھے اور یہ کہہ رہے تھے۔ اے رسول خدا یہ شخص میرے خلاف بکتا ہے۔ اس پر حضرت نے حکم دیا کہ چابک لاؤ۔ سو امام غزالی کی خاطر اس شخص کو چابکوں کی مار پڑی۔ جب یہ شخص خواب سے بیدا ہوا تو چابکوں کے نشان اس کی پیٹھ پر موجود تھے۔ وہ شخص رو رو کر یہ قصہ بیان کیا کرتا تھا‘‘۔

اگر کسی کو ایسی تعریف مشرقیانہ لفاظی اور مبالغہ آمیز معلوم ہو تو ایک مغربی عالم پروفیسر ڈنکن۔بی۔میکڈانلڈصاحب کے الفاظ سن لیجئے۔ صاحب موصوف نے غزالی صاحب کی زندگی اور تصنیفات کا مطالعہ جس قدر کیا اسلام کے کسی دوسرے مغربی عالم نے نہیں کیا۔ یہ کہنا تو مشکل ہےکہ اگر امام غزالی کی تایثراسلام پر نہ ہوتی تو اسلام کس قدر زیادہ جورو تعدی (ظلم،ستم) کا مرتکب ہوتا۔ لیکن اتنا تو کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے اسلام کو صرفی(علم صرف جاننے والاشخص) نحوی(علم نحو کا ماہر) جھمیلوں(جھگڑا، بکھیڑا،فساد) سے چھڑایا اور پکے مسلمانوں کے آگے ایسی زندگی کا امکان پیدا کر دیا جو خدا میں چھپی ہو۔ ان کو ایسی ایذا پہنچائی جیسے کسی بدعتی کو پہنچاتے ہیں اور اب وہ مسلمان جماعت کے فاضل اجل مانے جاتے ہیں۔

اگر ہم امام غزالی اور ان کی تعلیم کی وقعت سمجھنا چاہیں تو ایک لحظہ کے لئے اپنے آپ کو اس زمانہ میں لیجائیں۔ جس میں وہ زندہ تھے۔ ہم کسی آدمی کا حال بخوبی سمجھ نہیں سکتے جب تک کہ اس کے اردگرد کا حال معلوم نہ ہو۔ تاریخ کے وسیع جال کی ایک تار سوانح عمری ہوتی ہے۔ اس میں زمانہ فراخ اور طویل ہے ۔ان تاریک زمانوں میں امام غزالی کا تعلق مشعل برداروں کی چھوٹی گروہ سے تھا۔

طوس(علاقہ خراسان۔ ملک فارس) میں ۱۰۵۸ء میں وہ پیدا ہوئےاور ۱۱۱۱ء میں رحلت کرگئے۔ جب یہ پیدا ہوئے اس وقت کے قریب طغرل بیگؔ نے بغداد کو فتح کیا۔ ہنری چہارم شہنشاہ تھے۔ نکولس دوم پوپ تھا۔ مغرب میں نارمن فتوحات کا آغاز تھا اور مشرق قریبہ میں ترکوں نے ایشیا کو چک کو پامال کیا تھا۔مغرب میں امام غزالی کے دیگر ہم عصر یہ تھے۔ پوپ ہلڈربرانڈ ابی لارڈ۔ برنارڈ۔ ان سیلم اور پٹیر فقیر (Hermit)۔ جس وقت کے قریب امام غزالی نے اپنی مشہور کتاب تصنیف کی اس وقت گاڈ فرے بُواِیلان یروشلم کا بادشاہ تھا۔ غزالی صاحب اس وقت اس مسئلہ کے حل کرنے کی جدوجہد کر رہے تھے کہ جن لوگوں کا دل خدا کی پیاس میں تڑپ رہا ہے ان کے لئے اسلام کیا کرسکتا ہے۔ ان سے تقریباً دوسو برس پہلے الکندی نے مسیح دین کی حمایت کے لئے ہارونؔ رشید کے دربار میں معذرت نامہ لکھا تھا اور ان سے دو سو بربعد اے منڈلل صاحب شمالی افریقہ میں شہید ہوئے۔

جن دنوں میں بصرہ اور اس کا حریف شہر کوفؔہ عمؔر خلیفہ کے ظفریاب عربوں کے زیر حکومت آئے۔ اس وقت سے اسلامی دنیا کی حالت بالکل بدل گئی تھی۔ گیارہویں صدی کے عباسی خُلفا ماقبل زور و طاقت کے محض سایہ ہی کے طور پر تھے اور یہی حال مشرق کے سلاطین کا تھا۔صرف دینی فوقیت باقی رہ گئی تھی۔ طغرل بیگ سلجوق کے پوتے کو کم زور خلیفہ القاسمؔ با مر اللہ نے تاج پہنایا۔ اس نے فتح پر فتح حاصل کی عزت پر عزت اس کو ملی۔ سب لوگ اس کو مشرق و مغرب کا بادشاہ کہہ کر سلام کرتے تھے اور خلیفہ نے اپنی بیٹی کا نکاح اس سے کر دیا۔ اس کے بعد المقتدیؔ کے عہد سلطنت میں سلجوق ترکوں نے یروشلم کو تسخیر کیا۔

نولاکیؔ صاحب لکھتے ہیں کہ

’’۱۰۰۰ء کے قریب اسلام کی حالت بہت خراب تھی۔ خلفاے عباسیر دیر سے حالت ہیچمدانی(بے علمی،نادانی،بےہنری) میں پڑے تھے۔ عربوں کی طاقت مدت سے ٹوٹ چکی تھی۔ بہت سی چھوٹی بڑی اسلامی ریاستیں پیدا ہوگئی تھیں۔ ان سب ریاستوں میں زور آور فاطمہ خاندان کی ریاست تھی لیکن وہ شیعہ تھے۔ اس لئے وہ بھی سارے مسلمانوں کو رشتہ اتحاد سے نہ باندھ سکے‘‘۔

ان خانہ بدوش ترکوں نے سخت بربادی ڈھائی۔ وسیع ممالک کی سرسبز تہذیب کو پامال کیا اور نوع انسان کی تربیت و ترقی میں ایک شوشہ سے بھی مدد نہ کی۔ البتہ محمدی مذہب کو انہوں نے زبردست تقویت دی ان گنوار ترکوں نے دین اسلام کو سرگرمی سے قبول کرلیا کیونکہ یہ ان کی عقل کی رسائی کے اندرتھا اور غیر مسلم دنیا کے مقابلہ میں یہ اسلام کے بڑے بھاری حامی بن گئے۔ انہوں نے سلجوق سلطنت کے زوال کے بعد بھی یہ پرانے علاقوں میں برسر حکومت رہے۔ اگر اسلام کی جنگی طبیعت کو تُرک سرسبز نہ کرتے تو شاید صلیبی جنگ کی فوجوں کو زیادہ مستقل کامیابی کا موقع ملتا۔

طغؔرل بیگ کو شاہی شہر نیشاپور میں (۱۰۳۸ء) سلطان کا لقب ملا۔ بقول مورخ گبن

’’ طغؔرل بیگ اپنے سپاہیوں اور اپنی رعیت کا باپ تھا۔ مستقل اور عادلا نہ انتظام کے ذریعہ فارس غدر کی مصیبت سے بچ گیا۔ اور جن ہاتھوں سے خون ٹپک رہا تھا وہی عدل اور امن عامہ کے متولی بن گئے‘‘۔

زیادہ دہقان یا زیادہ دانا ترکمان اپنے آبا واجداد کے خیموں میں زندگی بسر کرتے رہے۔ دریائےآکسؔس سے لے کر دریائے فرات تک ان جنگجو قبیلوں کے محافظ ان کے اپنے اپنے سردار تھے لیکن جن ترکوں کا تعلق شاہی دربار سے تھا اور جو شہروں میں بود و باش کرنے لگ گئے تھے وہ تجارت وغیرہ کے ذریعہ زیادہ شائستہ بن گئے تھے اور عیش و عشرت کی وجہ سے نرم مزاج ہو گئے تھے۔ ان لوگوں نے فارسی لباس، زبان اور طور طریقے اختیار کرلئے اور نیشاپور اور رعے کے شاہی محلوں میں ایک سلطنت کی شان و شوکت پائی جاتی تھی۔ عربوں اور فارسیوں میں جو صاحب لیاقت تھے ان کو سرکاری عہدے ملتے اور عزت حاصل ہوتی اور ترکی قوم نے بحیثیت مجموعی سرگرمی اور خلوص قلبی سے دین محمدی کو قبول کرلیا۔

سلجوق سلاطین عظیم میں سے پہلے سلطان نے دین اسلام کی سرگرمی کے ساتھ اشاعت کرنے میں شہرت حاصل کی وہ نماز میں بہت وقت خرچ کرتا تھا اور جس جس شہر کو فتح کیا وہاں اس نے ایک نئی مسجد تعمیر کی۔ اس نے لشکر جرار کے ساتھ خلیفہ بغداد کی مدد کی اور موصل اور بغداد کے لوگوں کو اطاعت کا سبق سکھایا۔ جب خلیفہ نے اپنے دشمنوں سے نجات پائی تو طغؔرل بیگ کی ہمشیرہ سے شادی کر کے رشتہ اتحاد کو مضبوط کیا۔ ۱۰۶۳ء میں طغؔرل بیگ کا انتقال ہوگیا اور اس کا بھتیجا ارپ ؔارسلاناس کی جگہ تخت نشین ہوا۔ اس لئے مشرق قریبہ کے سارے مسلمان نمازعام میں خلیفہ کے بعد ارپؔ ارسلان کانام پڑھا کرتے تھے۔

مورخ گبن نے اس کے عہد حکومت کی حقیقت ایک جملہ میں بیان کردی ہے۔

’’ لکو کہا ترکی سوار کوہ طارسؔ سے لے کرارض رومؔ تک چھ سو میلوں تک پھیل گئے اور عربی نبی کے آگے۱۳۶۰۰۰مسیحیوں کی قربانی شکرگزاری کے لئے گزرانی‘‘۔

اس’’بہادر شیر‘‘ نے کیونکہ الپ ارسلاں نام کے یہی معنی ہیں۔ شدت کی سختی اور فیاضی دکھائی۔مسیحیوں کو سخت ایذائیں دی گئیں۔ اس نے دشمنوں کو تو قتل کیا لیکن عالموں اور دولت مندوں اور مقبولان ِنظر کو بڑے بڑے انعام و اکرام عطا کئے ارسلان دین اسلام کےلئے لڑائیاں لڑتا تھا اور میدان جنگ کا ویسا ہی مشتاق تھا جیسے وہ لوگ تھے جن کا ذکر مورؔ صاحب نے مفصلہ ذیل الفاظ میں کیا ہے۔

’’اس مقدس خونی نسل میں سے ایک جو خون ریزی اور قرآن کے گرویدہ تھے۔ جن کا یہ عقیدہ تھا کہ غیرمسلموں کا خون بہانے ہی کے ذریعہ وہ سیدھے بہشت کو جائیں گے۔ جو ٹھہر جاتے اور بے جوتی اتارے اپنے گھٹنے جھکاتے اور خون بھرے ہاتھوں کو دعا میں خدا کی طرف اٹھاتے اور کلام اللہ کی کسی آیت کو پڑھتے ہیں جو ان کی خون سے لبریز تلوار پرکندہ ہے‘‘۔

جب آرمینیہ کا صدر مقام ۶۔ جون ۱۰۶۴ءکو انہوں نے تسخیر کیا تو اس سارے علاقہ کو سخت بے رحمی کے ساتھ برباد کیا۔ کہتے ہیں کہ ’’خون کی ندیاں بہ گئیں اور اس قدر خون ریزی ہوئی کہ لاشوں سے گلی کوچے رک گئے اور مقتولوں کی لاشوں سے دریا کا پانی سرخ ہوگیا‘‘۔دولتمند باشندوں کو شکنجے میں کھینچا گرجاؤں کو لُوٹا اور پادریوں کی زندہ کھالیں اتاری گئیں۔ اس وقت امام غزالی چھ سال کے تھے۔

۱۰۷۲ء میں الؔپ ارسلاں قتل ہوا۔ اس کا بڑا بیٹا ملؔک شاہ اس کا جانشین ہوا۔ اس نے اپنے باپ کی فتوحات کو دریائے آکسس کے پاربخارا اور سمر قند تک توسیع دی۔ حتٰی کہ اس کے نام کا سکہ چل گیا اور ملک چین کی سرحدوں پر جوتا تاری سلطنت تھی وہاں دعاؤں میں اس کا نام لیا جانے لگا۔ ’’چین کی سرحدوں سے لے کر اس نے اپنی حکومت کو مغرب اور جنوب میں کوہستان جارجیا تک پھیلا دیا اور قسطنطنیہ کے قرب ق جوار تک جاپہنچا اور یروشلیم کے مقدس شہر اور عربی فیلکس کے مصالح پیدا کرنے والے جنگلوں تک اس کی رسائی ہوگئی۔ حرم کی عیاشی میں مبتلا ہونے کی بجائے یہ چوپان بادشاہ امن اور جنگ کے وقت ہمیشہ میدان کا رزارمیں تھا‘‘۔

نظام ؔالملک اس کا وزیر تھا اور اسی کے رسوخ کی وجہ سے علم وسائنس کی ترقی ایسے اعلٰی درجہ تک ہوئی۔ جنتری کی اصلاح کی گئی سکول اور کالج قائم ہوئے اور بادشاہ کے مقبول نظر ٹھہرنے کے لئے علمانے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر کوشش کی۔ تیس سال تک نظاؔم الملک خلیفہ کا مور دالطاف رہا اور دین و سائنس میں اس کیزبان الہام کی طرح سمجھی جاتی تھی۔ لیکن ترانوے سال کی عمر میں اس معزز مدبر ملک کو جس کے ذریعہ امام غزاؔلی کی خاص قدر ہوئی بادشاہ نے موقوف کردیا۔ اس کے دشمنوں نے اس پر الزام لگائے اور بعض جوشیلوں نے اسے تہ تیغ(تلوار سے قتل کرنا) کیا۔ نظام کے آخری الفاظ نے اس کی معصومیت ثابت کی۔ مالؔک کی زندگی کا آخری حصہ قلیل و ذلیل گزرا۔

عربی زبان کا ہر جگہ رواج ہوگیا اور مشرق قریبہ ساری زبانوں میں وہ سرایت کرگئی۔ جس قوم سے عربوں کو واسطہ پڑا اسے کم و پیش انہوں نے عربی بنا لیا۔چینری (Chenery)صاحب کا قول ہے کہ

’’اس رسوخ کی وسعت کا اندازہ اس طرح سے لگ سکتا ہے کہ فردوسی گیا رھویں صدی عیسوی کے ابتدائی حصہ میں زندہ تھا۔ اس کی فارسی عربی الفاظ و محاورات سے مبرا ہے۔ حالانکہ گلستان کی فارسی جو ڈھائی سو برس پیچھے لکھی گئی عربی الفاظ و محاورات سے پڑھے۔ یہ بھی قابل لحاظ ہے کہ سعدی نے بعض اوقات پے درپے عربی آیات اور عبارات کو درج کیا ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ مصنف کو معلوم تھا کہ اس کتاب کے پڑھنے والے عربی سے خوب واقف تھے‘‘۔

تجارتی سڑکیں ہر جگہ جاتی تھیں۔ مشرق میں ہندوستان اور چین کے ساتھ اور ادھر مصالح دار جزیروں یعنی ملیشیا کے ساتھ راہ و ربط تھا۔ قافلوں کے ذریعہ تجارت و سطی ایشیا اور شمالی عرب کے ایک سرے سے لے مغرب کی منڈیوں تک جاری تھی۔ ہسپانیہ کی آمد و رفت فارس کے ساتھ تھی۔ اَلحریری نےبصرہ کی تعریف ان الفاظ میں کی۔

’’یہ وہ جگہ ہے جہاں جہازاور اونٹ جمع ہوتے۔ سمندری مچھلی، چھپکلی، ساربان، ملاح، مچھوے اور ہل چلانے والے ایک دوسرے سے ملتے ہیں‘‘۔

الغرض ان سارے ممالک کے لئے جو دریائے دجلہ اور فرات سے سیراب ہوتےہیں۔ بندرگاہ بھی تھا اور منڈی بھی۔ مغرب میں اسکندریہ(یونانی لفظ الیگزندرس (بمعنی بنی نوع انسان کا محافظ) پریہی لفظ صادق آتے ہیں۔

ہمارے پاساس امر کی شہادت ہے کہ عرب اور چین کے درمیان دریائی بچھڑے اور ہاتھی دانت کی تجارت ہوتی تھی۔ چینی سیاح کی ایک بڑی کتاب موجود ہے جو بارھویں صدی میں عرب کے ساتھ تجارت کے بارے میں لکھی گئی۔ جس کا ترجمہ حال ہی میں بمقام پیٹرو گراڈ شائع ہوا ہے۔ یہ اور بھی قابل لحاظ امر ہے کہ سکنڈے نیویا میں ہزاروں کونی سکے ملے ہیں اور تقریباً ان سب کی تاریخ گیارہویں صدی سے ہے اس ظاہر ہوتا ہے کہ یورپ کے اس دور و دراز حصے سے بھی مشرق قریبہ کا تعلق تھا۔

اس زمانہ کے علم و ادب اور تاریخ سے ظاہر ہے کہ اس وقت اخلاقی حالت گری ہوئی تھی اور دین و اخلاق میں جدائی ہوچکی تھی۔ یہاں تک کہ زمانہ حال کی اسلامی حالت بھی اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ اَلہروی جیسے علما تھے۔جنہوں نے قرآن کے اعجاز پر تفسیریں لکھ ڈالیں لیکن خلوت میں مے نوشی، نشہ بازی اور یاوہ گوئی کے مزے اڑاتے تھے۔ شراب، معشوق و غزل کا ذکر نہ صرف عام علم و ادب اورنظم میں پایا جاتا تھا بلکہ فضلائے دین اور فلاسفران مذہب کی زبان پر چڑھا ہوا تھا۔ ہوآرٹ (Huart) صاحب نے اپنی کتاب’’راہب خانوں کی کتاب‘‘ (Book of the Monasteries)میں یہ بیان کیا ہے

’’ہم یہ فراموش نہ کریں کہ جب مسلمان مسیحیوں کے حجروں میں داخل ہوئے تو وہ مذہبی جذبات کی تلاش میں وہاں نہ گئے بلکہ محض اس تلاش میں کہ وہاں مے نوشی کا موقع ملے گا۔ کیونکہ محمدی شہروں میں شراب کا استعمال منع تھا۔ شعرا محض شکر گزاری سے ان مبارک جگہوں کی تعریفیں گایا کرتے تھے جہاں جام شراب کا حظ انہوں نے اٹھایا تھا۔ جن لوگوں نے اس بد اخلاقی عامہ کے خلاف زبان یا قلم اٹھائی ان کو طرح طرح کی ایذائیں اٹھانی پڑیں۔ چونکہ ریا کاروں کا دربار میں زور تھا۔ اس لئے مصلحوں کی کوئی نہ سنتا تھا‘‘۔

ابن ہمؔدون (۱۱۰۱ء سے ۱۱۶۷ء) کے بارہ میں لکھا ہے کہ بغداد کی خرابیوں کو دیکھ کر جب اس نے بر ملا حملہ کیا تو دبیر سلطنت کے سرکاری عہدہ سے وہ موقوف کیا گیا اور قید میں ڈالا گیا۔ جہاں سے اس نے جان دے کر رہائی پائی۔ سزائیں بھی سخت ملا کرتی تھیں۔ قرآنی شریعت کے مطابق چوری کی سزا میں اعضا کاٹے جاتے اور یہ سزائیں ایسی عام اور کثرت سے تھیں کہ ٹنڈے، لنگڑے اشخاص کی نسبت یہی گمان ہوتا تھا کہ ضرور اس نے کوئی جرم کیا ہوگا۔ جس کی پاداش میں اس کو یہ سزا ملی۔ کہتے ہیں کہ اَلزمحشری کا ایک پاؤں موسم سرما میں برف سے گل گیا تھا۔ اس لئے چلنے پھرنے کے لئے اس لکڑی کی ٹانگ استعمال کرنی پڑتی تھی لیکن ساتھ ہی وہ گواہوں کی تحریری شہادت کا سرٹیفکیٹ لئے پھرتے تھے تاکہ وہ ثابت کریں کہ وہ کسی حادثہ سے لنگڑے ہوگئے تھے نہ کہ کسی جرم کی پاداش میں۔

اَلبہقی جس نے بغداد کے دربار کی تاریخ لکھی۔ اس کابیان ہے کہ دینی سرگرمی کے ساتھ اکثر شراب کی ممانعت کےاسلامی قانون کو بری طرح سے نظر انداز کیا جاتا تھا۔ نہ صرف سپاہی اور ان کے افسر نشہ بازی میں مبتلا تھے۔ بلکہ سلطان مسعؔود مے سے مخمور رہتے اور اس کے رفیق متوالے ہوکر دستر خوان ہی پر لوٹ پوٹ ہوتے تھے۔ صوبہ خراسان کے صدر مقام غزنی کا ایک نظارہ یوں دکھایا گیا ہے۔ ’’پچاس پیالے اور شراب کی صراحیاں خیمے سے باغ میں لائی گئیں اور جام کی گردش چاروں طرف شروع ہوئی۔ امیر نے فرمایا درست اندازے سے یکساں پیالوں میں ہم درستی سے نوش کریں۔ وہ سرور میں آئے اور مطرب گانے بجانے میں مصروف ہوئے۔ درباریوں میں سے ایک نے پانچ پیالے ختم کئے۔ ہر ایک پیالے میں تقریباً آدھاسیر شراب آتی تھی۔لیکن پیالے نے اس کے دماغ کو پریشان کردیا اور ساتویں نے اس کے ہوش و حواس اڑا دئے اور جب آٹھویں کو ہاتھ لگایا تو نوکروں نے اس کو گٹھڑی باندھ کر الگ کر دیا۔ پانچویں پیالے کے بعد ڈاکٹر کو دور کر دیا۔ خلیؔل داؤد دس پیالے چڑھا گیا۔ سیاؔبی روز نے نو ختم کئے پھر ان کو اٹھا کر گھر لے گئے۔ ہر شخص فرش پر لڑھک رہا تھا یا اس کو لڑھکا رہے تھے۔ حتی کہ سلطان اور خواجہ عبدالرزاؔق باقی رہ گئے۔ خواجہ اٹھارہ پیالے چڑھا کر اٹھا اور کہنے لگا کہ اگر بندہ درگاہ نے ایک اور پیالہ پیا تو عقل بھی جاتی رہی گی اور آنحضرت کی عزت کا خیال بھی بھول جائے گا۔ اس کے بعد مسؔعودتن تنہا شراب پیتے رہے اور جب ستائیس بھرے پیالے نوش کر چکے تو وہ بھی اٹھے پانی اور مصلیٰ منگوایا وضوکیا اور ظہر کی نماز اور مغرب کی نماز اکٹھی کرکے ایسی سنجیدگی سے ادا کی کہ گویا ایک قطرہ شراب اس نے نہ پیا تھا۔ پھر اپنے ہاتھی پر سوار ہوکر اپنے محل کو روانہ ہوئے‘‘۔

مسعود ۱۰۴۰ء میں مارا گیا۔ اس کے بیٹوں اور اولاد نے اسلامی دنیا کے اس حصہ پر ایک صدی سے زیادہ سلطنت کی لیکن غزنی جو سلطنت کا دارالخلافہ تھا وہ ملؔک شاہ کی سلطنت کی ایک ماتحت ریاست کا صدر مقام بن گیا۔

گیارہویں صدی وہ زمانہ تھا جب مغربی یورپ کی قوموں نے اپنی حکومت اور تہذیب کو استحکام دینا شروع کیا۔ ان کا رسوخ وطن میں اور وطن سے باہر پھیلنے لگا۔ گوعوام الناس اب تک وحشی حالت میں تھے۔ خادمان دین اور رؤسائے ملک کےدرمیان کسی قدر ترتیب و تہذیب اور تمدنی ترقی نمایاں ہوئی لیکن ایک مورخ نے ذکر کیا۔ کہ شاید یہ اس زمانہ کا خاصہ تھا کہ وحشیانہ ظلم اور ابتری اور نفسانی جذبات کے جوش و خروش کے ساتھ ساتھ دینی زبردست احساس بھی پایا جاتا تھا۔اس احساس نے اکثر وہم ،جوش ثواب کے کاموں کے بجالائے اور خاص کر مسیح کی مقدس قبر کا حج کرنے کی صورت پکڑی۔ اس مقدس شہر تک پہنچنے کی کوشش میں ہزاروں نے اپنی جان، صحت اور دولت تلف کی۔ اسی قسم کی دینداری اور جان نثاری آج تک سرگرم روسی حاجیوں میں پائی جاتی ہے۔

جب ایشیا کو چک اور شام کو ترکوں نے فتح کر لیا تو یروشلیم کی آمد و رفت کی راہ منقطع ہوگئی۔ ۱۰۷۶ء میں (الغزالی کی عمر اٹھارہ سال تھی) ترکوں نے ان مسیحیوں میں سے تین ہزار کو تہ تیغ کیا اور مابعد حکومت نے اس بھی زیادہ جور و ظلم کو روا رکھا۔ یہ ذکر آیا ہے کہ معزز صدر اسقف کو بالوں سے پکڑ کر گلیوں میں گھسیٹتے پھرے اور پھر اسے زندان میں ڈال دیا۔ ہر فرقہ کے پادریوں کی بےعزتی کی اور کم بخت حاجیوں سے ہر طرح کی بدسلوکی عمل میں آئی۔

مسیحی حاجیوں کے ساتھ ایسی بدسلوکی کا حال سن کر سارے مغرب میں غیض د غضب بھڑک اٹھا۔ پیٹر فقیر (Hermit) خود یروشلیم کو گیا اور یورپ کو واپس جاکر قوموں میں آگ بھڑکا دی۔ اس کا نتیجہ پہلا صلیبی جنگ تھا۔ جس میں پوپ اُربنؔ دوم نے ہاتھ بٹایا۔ تین لاکھ ادھورے مسلح اور نیم لباس دہقان دریائے رائؔن اور ڈینیوؔب کو عبورکر کے یورپ سے روانہ ہوئے ان میں سے صرف تیسرا حصہ ایشیا کے ساحلوں تک پہنچا۔ وہاں وہ سب کے سب مر کھپ گئے صرف ان کی ہڈیوں کا مینار باقی رہا جو ان کے افسوس ناک قصہ کا بیان کرے۔

جوصلیبی جنگ گاڈؔ فرے آف بواِیلان (Godfrery of Bouillon) کی سرکردگی میں ہوئی وہ باقاعدہ جنگی مہم تھی جس میں یورپ کے جوانوں نے حصہ لیا۔ کہتے ہیں کہ بتونیہ کے میدانوں میں ایک لاکھ سوار سرسے پاؤں تک مسلح اور چھ لاکھ پیادے جمع ہوئے۔ اس شمار میں شاید کچھ مبالغہ ہو اور مری اور کال نے ان کی تعداد گھٹا دی ہو۔ تو بھی تین سال سے کم عرصہ میں اس کی اس مہم کا مقصد حاصل ہوگیا۔ ۱۰۹۷ء میں انہوں نے نقایا کا محاصرہ(گھیرا ڈالنا، راہ بندی) کیا اور اس کو تسخیر کر لیا۔ پھر انہوں نے انطاکیہ پر لشکر کشی کی اور سات مہینوں کی محنت کے بعد شہر کا محاصرہ کیا۔ ۱۰۹۹ء میں انہوں نے یروشلیم کا محاصرہ کیا اور چالیس دنوں کےمحاصرے کے بعد یہ مقدس شہر تسخیر ہوا۔ ’’بے رحم اہل فرنگ نے ان دکھوں اور مصیبتوں کا جو مسیحیوں نے ترکوں کے ہاتھ سے اٹھائے تھے سخت انتقام لینے سے دریغ نہ کیا۔ یہودیوں کو ان کے عبادت خانوں ہی میں جلا دیا اور ستر ہزار مسلمانوں کو تہ تیغ کیا۔ تین دن تک شہر میں لوٹ مار اور قتل عام ہوتا رہا حتٰی کہ مقتولوں کے سڑنے سے بیماری پھیل گئی‘‘۔

گاڈفرے اور اس کے جانشینوں نے اپنی حکومت کو دور تک توسیع دی حتٰی کہ صرف چار شہر شام میں مسلمانوں کے قبضے میں رہ گئے یعنی حلب، دمشق، حامات اور حمس۔ مسلمان ہر جگہ غم و شرم کھا رہے تھے اور بڑے آرزو مند تھے کہ اپنے دین پر سے یہ ذلت کا داغ دھو ڈالیں۔

۴۹۲ہجری میں بقول میور صاحب

یروشلیم کی تسخیر اور وہاں کے باشندوں کے ساتھ ظالمانہ سلوک کی وجہ سے سارے ملک میں پریشانی پھیل گئی۔ واعظ جابجا یہ افسوس ناک قصہ سناتے پھرتے تھے۔ انتقام کا جوش پھیلاتے اور لوگوں کو مشتعل کرتے کہ عمر کی مسجد اور رسول خدا کے معراج کی جگہ کو کافروں کے قبضے سے چھڑائیں‘‘۔

خواہ کسی دوسری جگہ اس میں ان کو کامیابی ہوئی ہو، لیکن مشرق میں تو یہ کوشش نا کام رہی کیونکہ وہ تواپنے جھمیلوں میں پھنسے ہوئے تھے ان کو مقدس زمین کی چنداں پروا نہ تھی ،کیونکہ ان دنوں میں خلفاے فاطمیؔہ بر سر حکومت تھے۔ جلا وطنوں کے گروہ جو بغداد میں پناہ لینے کے لئے بھاگے جارہے تھے وہ عوام الناس سے مل کر یہ چلا رہے تھے کہ اہل فرنگ کے ساتھ جنگ کرنی چاہئے لیکن نہ تو سلطان نے اور نہ خلیفہ نے اُن کی فریاد کی طرف توجہ کی۔ دو جمعوں تک باغی یہی چلاتے رہے۔ آخر کا اُنہوں نے اس مسجد کبریٰ پر حملہ کیا۔ ممبر کو اور خلیفہ کے تحت کو توڑ کر ٹکرے ٹکرے کر دیا اور ایسا شوروغل کیا کہ لوگ نماز نہ پڑھ سکے لیکن اس کا خاتمہ یہاں ہی ہوگیا اور کوئی فوج نہ نکلی ۔

خود مسلمانوں کے درمیان بحث وتکرار کا بھرمار تھا۔ اس وقت توچار صحیح الاعتقاد فرقے اکھٹے نماز پڑھتے اور اور امن و امان سے رہتے ہیں۔ لیکن اُن دنوں میں اکثر سخت بحث مباحثے ہوتے ایک دوسرے کے خلالف کتابیں اور رسالے لکھے جاتے اور مختلف فرقوں کے درمیان عداوت اور دشمنی شدّت کے ساتھ پائی جاتی تھی۔ فارسی مورخ میر خوندنامی نے ایک کا ذکر کیا ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خلافت کے آخر کے قریب دشمنی کہاں تک ترقی کر گئی۔ جب چنگیز خاں کا مغل لشکر شہر رعے کے سامنےنمود ار ہوا تو اُن کو پتہ لگا کہ شہر میں دو حریف فریق تھے۔ ایک فریق شافعی مذہب کا تھا۔ دوسرا حنفی مذہب کا شافعی فریق نے فوراً چنگیز خاں کے لشکر سے پوشیدہ خط و کتابت شروع کی اور یہ وعدہ کیا کہ اگر وہ حنفی فریق کو تہ تیغ کریں گے تو وہ شہر کو اُن کے حوالے کر دیں گے۔ مغلوں کو تو خونریزی سے کیا دریغ تھا انہوں نے خوشی سے اس شرط کو قبول کیا اور جب وہ شہر میں داخل ہوئے تو بے رحمی کے ساتھ حنفیوں کو قتل کیا۔

جب باہمی دُشمنی و عداوت کی گرم بازاری تھی اور جنگ و خونریزی کا زمانہ تھا اُن دنوں میں الغزالی کے آخری ایّام زندگی گزارے۔ اسی وجہ سے اُن کو بعض باتوں کے لئے ہم معذور رکھیں گے جو دوسری حالت میں ناقابلِ برداشت اور قابل نفریں ٹھہرتیں۔ کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ جنگ کا جوش انسانی عقل کو اندھا کر دیتا ہے اور حملہ آوروں میں کسی خوبی کو دیکھنا ناممکن ہوجاتا ہے۔

ہم ہرگز فراموش نہ کریں کہ ایام طفولیّت ہی سے الغزالی صاحب کو مشرقی مسیحیوں سے قریب تعلّق پڑا۔ مسلمانوں کی فتوحات کے وقت مسیحی دین فارس میں قائم ہوچکا تھا اورنستورین کلیسیا نے مسلمانوں کے سخت حملہ کا مقابلہ کیا۔ حالانکہ زردشتی دین اس حملہ کے سامنے تقریباًمعدُوم ہو گیا۔ عربوں کی آمد مسیحیوں کے لئے صرف اتنی ہی تھی کہ مغلوں کی جگہ عرب اُن کے حاکم بن گئے۔ نستورین مسیحی خلیفوں کے رعایا ہو گئے۔ اُن کی اس وقت یہ بُری حالت نہ ہوئی جو آج کل پائی جاتی ہے۔ وہ غیر ملکوں میں مسیحی دین کی اشاعت کرتے رہے۔ اور خلفائے عباسیؔہ کے عہدسلطنت میں مشرق میں تہذیب کی مشعل انہوں نے روشن رکھی۔ ان کو اجازت تھی کہ اپنے گرجاؤں کو بحال کریں۔ لیکن نئے گرجا نہ بنائیں۔ بلااشد ضرورت اُن کو اسلحہ لگانے اور گھوڑے پر سوار ہونے کی ممانعت تھی اگر راہ میں ان کو کوئی مسلمان مل جائے تو اُن کو حکم تھا کہ گھوڑے پر سے اُتر پڑیں اور حسبِ معمول جزیہ ادا کریں تو بھی جب تک خلفابغداد میں (۷۵۰ء سے ۱۲۵۸ء) برسرحکومت رہے۔ نستورین مسیحی فریق نہایت زبردست غیر مسلم گروہ تھا اور اپنے حاکموں کی نسبت اعلیٰ تہذیب شائستگی کے مالک تھے۔ دربار میں وہ طبابت۔ کتابت اور دبیر کا کام سرانجام دیا کرتے تھے۔اس وجہ سے اُن کو بہت رسوخ حاصل تھااور دینی امور میں اپنے خادمانِ دین اور بشپوں کے انتخاب و تقریر میں اُن کو پُوری آزادی تھی۔ عربی علم کا آغاز جو ہسپانیہ میں ہوا اور وسطی زمانوں میں جس نے بہت فروغ حاصل کیا بہت کچھ بغداد کے نستورین مسیحیوں سے ہوا۔ انہوں نے اپنے عرب حاکموں کو وہ یونانی تہذیب وتعلیم پہنچائی جو شامی ترجموں میں اُن کو میراث میں ملی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ خلفا اُن کو سارے مسیحی فرقوں میں سے اعلیٰ و افضل سمجھتے تھے اور بعض اوقات نستوری بشپوں کو سارے مسیحیوں پر حکومت عطا کی۔

گیارہویں صدی کے ابتدامیں اَ ل بیؔرونی نامی خیؔوا کے ایک مسلمان مصنف نے بیان کیا ہے کہ خلیفہ کے زیر حکومت مسیحی فرقوں میں سے نستوری فریق سب سے زیادہ مہذب تھا۔ اس نے لکھا کہ

’’مسیحیوں کے تین فرقے تھے ملکی۔ نستوری اور یعقوبی۔ ان میں سے شمار میں سب سے زیادہ ملکی اور نستوری تھے۔ کیونکہ یونان اور قریب و جوار کے سارے ممالک میں ملکی مسیحی آباد تھے اور شام عراق۔ مسوپتامیہ اور خراسان میں کثرت نستوری مسیحیوں کی تھی‘‘۔

الغزالی نے پہلے بیس سال خراسان میں گزارے۔ اب یہ سوال رہا کہ آیا انجیل کے مطالعہ کے ذریعہ مسیحی دین سے انہوں نے واقفیت حاصل کی؟ ہمیں معلوم ہے کہ گو فارسی ترجمے انجیل کے موجود تھے اسی وجہ سے اَلغزالی کی تصنیفات میں مسیح اور اس کی تعلیم کی طرف بہت اشارے ہیں اور معدودے چند ایسے مقام ہیں جن کو ہم ٹھیک طور پر اقتباس کہہ سکیں۔ جس کا بعد میں ذکر ہوگا۔ انہوں نے خود بیان کیا ’’میں نے انجیل میں پڑھا‘‘۔

یہ ظن(خیال) غالب ہے کہ الغزالی نے انجیل کا عربی ترجمہ پڑھا ہو گا۔ ڈاکٹر کِل گور (Kilgare) صاحب نے انجیل کی عربی نسخوں کا جو نویں صدی کے تھے اور عہد ِ عتیق کے ترجموں اور نئے عہد نامہ کے حصّوں کا ذکر کیا۔ جو فیوؔم زبان میں ۹۴۲ء سے پیشتر ہوئے۔ شامی زبان سے عہدعتیق کی بعض کتابوں کے ترجمے دسویں صدی سے علاقہ رکھتے ہیں۔ دوسرے ترجمے ستروں کے ترجمے سے اور قبطی ترجموں سے اور توریت کے بعض نئے ترجمے جنہوں نے سامری توریت اور مسوریٹ نسخوں کو استعمال کیا۔

شامی اور عربی زبانوں میں ڈِگلت (Diglot) نسخے بکثرت ہیں۔ چاروں اناجیل کا نسخہ جس کے چند اوراق برٹش عجائب گھر میں اب محفوظ ہیں وہ ایسے ڈِگلت نسخوں کا عمدہ نمونہ ہیں۔ نِت ری اَن صحرا کے شامی راہب خانے بنام مقدس میری ڈاے پرا (St. Mary Die Para) سے تشدرف صاحب اس نسخے کو یورپ لے گئے۔ گیارہویں صدی کے آغاز میں تطبیق اناجیل اربعہ (Fatiou’s Diotessaron) کا ترجمہ عربی زبان میں کیا گیا۔ یہ وہی شامی تطبیق اناجیل اربعہ ہے۔ جس نے مسیحی کلیسیا کی اس امر میں مدد کی کہ ہمارے نجات دہندہ کے بارے میں بڑے بڑے امور کو سمجھ لیں۔ اسی صدی کے وسط میں رومن کیتھالک یا ملکی یُونانیوں کی کلیسیائی عبادت کے استعمال کے لئے زبور کی کتاب کا ترجمہ ہوا۔ چونکہ اس کا ترجمہ یونانی ترجمہ سے ہوا تھا اور جس جگہ یہ طبع ہوا اس کی وجہ سے یا حلبیؔ زبور (Aleppo Psalter) کے نام سے ماسوم ہے۔ اب یہ دلچسپ سوال باقی رہا کہ آیا امام غزالی نے اپنی سیاحت کے وقت یا خراسان میں رہائش کے وقت نئے عہدنامے کی تحقیقات کی یا نہیں؟

یہ بیان کیا جاتا ہے کہ یہودیوں نے اپنی تورات کا ترجمہ ۸۶۷ء میں فارسی زبان میں کیا۔ اس لئے فارسی مسیحیوں کی اس غفلت کو ہم معذور نہیں رکھ سکتے۔ اُن کے بشپوں کو اس کے لئے کافی وقت ملا کہ فارسی عربی زبان میں بڑے بڑے علمی رسالے لکھیں بلکہ ارسطو کی تصنیفات کا ترجمہ بھی کریں لیکن مسلمانوں کی خاطر اپنی کتاب مقدس کا ترجمہ نہ کریں۔ البتہ الکندی اور اس جیسے دوسرے جن میں سے اکثروں کے نام اور تصنیفات کھو گئیں وہ خلفا کے دربار میں اپنے دین کی شہادت دینے سے نہیں شرمائے۔ بقول ڈبلیو۔ ٹی۔وائٹ لے صاحب

’’کلیسیا اپنی نواحی کے مسلمانوں پر اثر ڈالنے میں قاصر نہیں رہی۔ حالانکہ حکم یہ تھا کہ اگر کوئی مسیحی کسی مسلمان کو اپنے دین میں شامل کرے تو وہ جان سے مارا جائے۔ البتہ ایسے حکم پر اکثر اوقات عمل نہیں ہوا۔ تو بھی دمشق اور بغداد میں اسلام نے مسیحی کرہّ تاثیر میں نشونما پایا ‘‘۔

مگر اس زمانہ کی مسیحیت نہ تو خالص مسیح کا دین تھا نہ اس کی محبت اور بے تعصبی کے نمونہ پر تھا۔ باہمی عداوت اور بد گمانی کی وجہ سے دیندار مسیحیوں اور دیندار مسلمانوں میں راہ و ربط مسدود تھی۔ مسلمانوں سے لوگ ڈرتے تھے اور مسیحیوں کو حقیر جانتے تھے۔ مسلمانوں کی نگاہ میں مسیح کے پیرو اللہ کے دُشمن تھے۔

اس زمانہ کی شرعی کتابوں سے معلوم ہوسکتاہےکہ مسیحیوں کے ساتھ کیساسلوک ہوتا ہے۔ مسلمانی معنی میں وہ کافر سمجھے جاتے تھےاور محض جزیہ ادا کرنے کےذریعہ ہی اس کی جان بخشی ہوتی تھی۔ اس جزیہ کے دینے کے ذریعہ اُن کو چند حقوق مل جاتے تھے۔ شافعی فرقہ کا نہایت مشہور معلم شرع آل نواوی نامی ۱۶۲۷ء میں بمقام دمشق دیا کرتا تھا۔ اس نے یہ قانون ٹھہرایا تھا۔ ’’جو کافر جزیہ ادا کرے اسے محصول لینے والا نفرت کی نگاہ سے دیکھے۔ محصول لینے والا بیٹھا رہے اور کافر اس کے سامنے کھڑا رہے اور اس کا سر اوربدن جُھکا رہے۔ کافر اپنے ہاتھ سے روپیہ ترازو میں ڈالے اور محصول لینے والا اسے داڑھی سے پکڑے رکھے اور اس کی گالوں پر طمانچے مارتا جائے۔ کافر اپنے گھر اپنے قرب و جوار کے مسلمانوں کے گھروں سے اونچے بنانے نہ پائیں۔ بلکہ اُن کے برابر اُونچا بھی نہ بنائیں۔ لیکن یہ حکم اُن کافروں کے لئے نہیں جو الگ محلے میں رہتے ہوں۔ ہمارے سلطان کی کافر رعیت گھوڑے پر سوار نہ ہو۔ البتہ گدھے اور خچر پر سوار ہو سکتا تھا خواہ اُن کی قیمت کتنی ہی کیوں نہ ہو۔ وہ اعکاف اور لکڑی کی مہ میزاستعمال کرئے ۔لوہے کی مہ میز استعمال کرنا اسے منع تھا اور زین استعمال کرنا بھی۔ اگر راہ میں کوئی مسلمان جاتا ہوتو آپ سڑک کے کنارے ہوجائے اور مسلمان کو گزر جانے دے ۔ کوئی اسے عزت کی نگاہ سے نہ دیکھے نہ کسی مجلس میں وہ صدر نشین ہو۔ وہ اپنے لباس کے لئے رنگین کپڑا استعمال کرے اور کمر بند کپڑوں کے اوپر باندھے۔ اگر وہ کسی حمام میں داخل ہو جہاں مسلمان ہوں یا اگر اُن کی حاضری میں وہ اپنے کپڑے اتارے تو کافر اپنے گلے میں لوہے کا طوق ڈالے یا جست کایا غلامی کا کوئی دیگر نشان پہنے۔ وہ مسلمانوں کو ناراض نہ کرے نہ اپنی جھوٹی تعلیم سنا کر نہ عزراہ یا مسیح کا بلند آواز سے نام لے کر نہ بر ملا شراب پینے یا سؤر کا گوشت کھانے سے۔ کافروں کو منع تھا کہ گرجاؤں کے یا عبادت خانوں کے گھنٹے بجایئں یا اپنی بددینی کی رسوم برملا ادا کریں‘‘۔

پروفیسر مارگلوتھ صاحب لکھتے ہیں کہ

’’مسلمانوں کے عہد حکومت کے مسیحی جماعتوں کی ٹھیک ٹھیک تاریخ لکھنا مشکل ہے۔ کیونکہ ان جماعتوں کو اپنی حالت لکھنے کا موقعہ نہ تھا اور نہ ایسا کرنا خطرہ سے خالی تھا۔ اور مسلمانوں کو اس کی طرف توجہ کرنے کی پرواہ نہ تھی۔ عموماً ان کی حالت ویسی ہی تھی جیسی یونانی اور روسی عالموں نے عورتوں کی بیان کی ہے یعنی یہ کہ وہ لازمی زحمت تھی۔ چونکہ وہ بے اسلحہ ہوتے تھے۔ اس لئے اُن کا مال و دولت ہمیشہ معرض خطر میں تھا۔ گو یہ سچ ہے کہ مطلق العنان ریاستوں میں جہاں حاکم مختار مطلق تھا ساری رعیت کا یہی حال تھا تو بھی غیر مسلم رعایا نہ صرف بادشاہوں سے ظلم اٹھاتی تھی بلکہ انبوہ(گروہ) مردمان سے بھی۔ جہاں کہیں کوئی مصیبت آتی تو مسیحیوں پر الزام آتا اور جن ممالک کا انتظام باقاعدہ تھا وہاں بھی مصیبت کے ایام میں مسیحیوں پر الزام تھوپا گیا‘‘۔

اس زمانے میں مسیحیوں کے ساتھ جو بدسلوکیاں عمل میں آئیں اور جو بدحالت پائی گئی اس پر پردہ ڈالنا ہی بہتر ہوگا۔ لیکن امام غزالی کی کتاب ’’احیا‘‘ میں ایسی خوفناک حالت کا ذکر ہے جس کی طرف مارگلوتھ صاحب نے اشارہ کیا۔

’’ایک شہوت نفسانی جس کا نام نہیں بتا یا ایک وقت مسلمانوں میں ویسی ہی عام تھی جیسی قدیم یونانیوں میں اس شہوت کا شکار اکثر کمبخت مسیحی نوجوان ہوتے تھے۔ مورخ یا قوت نے اڈیسہ یا عرفہ کے ایک نوجوان راہب کا بیان کیا ہے جس پر ایک سعد نامی فقیبہ عاشق ہو گیا۔ اس مسلمان کا بار بار اس نوجوان کو ملنے جانا راہبوں کا ایسا برا لگا کہ انہوں نے اس کی آمدو رفت بند کردی۔ اس پر سعد کو ایسا رنج پہنچا کہ ایک روز وہ راہب خانے کی دیوار کے باہر مردہ پایا گیا۔ مسلمانوں نے یہ مشہور کیا کہ راہبوں نے اسے مار ڈالا اور حاکم نے یہ تجویز کی کہ وہ نوجوان راہب جس کی وجہ سے یہ حادثہ ہوا پھانسی دیا جائے اور جلا دیا جائے اور اس کے رفقیوں کو بند لگائیں لیکن راہبوں نے ایک لاکھ درہم ادا کرکے مخلصی حاصل کی‘‘۔

نہ صرف مسلمانوں کی اخلاقی حالت ایسی تھی بلکہ گیارہویں صدی میں مسیحیوں کی اخلاقی حالت بھی ویسی ہی خراب تھی۔ ایک رومن کیتھالک مورخ نے اس زمانہ کو لوہے کا زمانہ کہا ہے جو ہر طرح کی نیکیوں سے معرا تھا اور جست کا زمانہ جس میں ہر طرح کی بدی کی کثرت تھی۔ ’’معلوم ہوتا ہے کہ مسیح اس وقت سویا پڑا تھا جس وقت جہاز پر لہریں زور مار رہی تھیں سب سے بدتر امر یہ تھا کہ جس وقت مسیح سو رہاتھا کوئی شاگرد بھی ایسا نہ تھا جو فریاد کرکے اس کو جگائےکیونکہ وہ خود خواب غفلت میں سوئے پڑے تھے‘‘۔

پوپیت کے دشمنوں نے شاید اس صدی اور مقابل صدی کے پوپوں کی بدیوں اور خرابیوں کا بیان مبالغے سے کیا ہو۔ لیکن کلیسیا ہی کے مورخوں کا بیان ہے کہ کلیسیا کفر نفسانیت اور شہوت پرستی میں غرق تھی۔جب آتھوؔ اول قیصر جرمی روم میں آیا تو اس نے بزور شمشیر چند اخلاقی اصلاحیں جاری کیں لیکن بقول ملنر صاحب(Milner)

’’آتھو کے قوانین کا نتیجہ یہ ہوا کہ پوپوں نے شکنجہ اور شراب خوری کی بدیاں چھوڑکر لالچ اور مکاری کی بدیوں کو اختیار کرلیا۔ دور اندیشی کی روشن اور حکم کی اطاعت جو بدیوں کی کثرت کے باعث جاتی رہی تھی وہ بتدریج پھر بحال ہوگئی لیکن اس کا آغاز گیارہویں صدی کے آخری حصے میں ہوا‘‘۔

اس صدی میں مشزی سرگرمی ہنگری، ڈنمارک، پولینڈ اور پرشیا کے ان حصوں ہی میں محدود رہی جہاں پہلے انجیل کی بشارت نہ ہوئی تھی۔ بریمن کے آدم (Adam) صاحب نے ۱۰۸۰ء میں یہ لکھا

’’ڈنمارک کی تند خو قوم کی طرف دیکھو کہ وہ اب مدت سے خدا کی تعر یف ہلیلویاہ گاتے ہیں۔ ان دریائی چوروں کی طرف نگاہ کرو۔ اب وہ اپنے ملک کے پھلوں ہی پر گزران کرتے ہیں۔ اس دہشت ناک علاقہ کو دیکھو جہاں سراسر بت پرستی ہوتی تھی اب وہ مبشران انجیل کو خوشی سے قبول کرتے ہیں‘‘۔

اہل پرشیا اس ساری صدی میں برابر بت پرست رہے۔ یہ ذکرآتا ہے کہ جو اٹھارہ مشنری ان میں خدمت کرنے کے لئے بھیجے گئے تھے وہ مقتول ہوئے۔ یورپین قوموں میں سے غالباً یہ آخری قوم تھی جنہوں نے سب سے پیچھے مسیحی دین کو قبول کیا۔

مسیحیوں کی تاریخ میں مغرب میں اس صدی کا سب سےافضل شخص ان سلم(Anselm) تھا۔ یہ تقریباً اس وقت پیدا ہوا جس وقت کہ الغزالی پیدا ہوا تھا اور اس نے ۱۱۰۹ء میں وفات پائی۔اس کی زندگی بہت باتوں میں اس کے ہم عصر کی مانند تھی۔ دونوں عالمان الہیات اور دونوں صوفی تھے اور دونوں نے اپنی روحوں کے لئے اطمینان حاصل کرنے کی خاطر دنیا اور اس کی تحریصوں کو ترک کیا۔ ددنوں بے دینی اور فلسفے کے دشمن تھے۔ ان دونوں نے اپنی تصنیفات اور وعظموں کے ذریعہ نہا یت تاثیر کی۔ الغزالی نے اسلامی دینی زندگی کی ترقی و تجدید کی کوشش اپنی کتاب احیا کے ذریعہ کی اور ان سلم نے اپنی مشہور کتاب(Curdeus Homo) لکھی اور دین کو استحکام دینے کی خاطر انہوں نے فلسفوں کی تردید کی۔

اس قرینے میں یہ یاد رکھنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ ان سلم صاحب کی مذکورہ بالا مشہور کتاب کا ترجمہ عربی زبان میں ہوگیا ہے اور جومشنری مسلمانوں کے درمیان کام کرتے ہیں وہ اسے استعمال کرتے ہیں اور الغزالی صاحب کی کتاب بنام ’’اقرارات‘‘ کاانگریزی میں ترجمہ ہوگیا اور یہ اس کی خلوص دلی اور دینداری کی شہادت ہے۔

ان سلم اور الغزالی دونوں کی زندگی اور تصنیفات میں آئندہ جہاں یوم عدالت کے خوف اور شریروں کے بدانجام کا گہرا احساس پایا جاتا ہے۔ یہ بھی اس زمانہ کی خاص خصوصیت تھی۔

جس زمانہ میں الغزالی زندہ تھا۔ اس کوسمجھنے کے لئے ہم کو یہ بھی یاد رکھناچاہئے کہ بغداد کے خلفا ے عباسیہ اور سلجوق سلاطین کے عہد سلطنت میں علوم دفنوں کو بہت فروغ حاصل تھا۔ یہ ذکر ہوچکا ہے کہ حکام نے علما کی کیسی قدر دانی کی۔ مدر سے قائم کئے اور تعلیم کو دینی طریقے پر ترقی دی۔ عربی علم ادب کے ہر صیغے میں مسلمان عالموں کے بیشمار نام پائے جاتے ہیں۔

امام غزالی کے مشہور ہم عصر عالموں میں سے ایک ابؔی دردی بامی شاعر تھا۔ (۱۱۱۳ء) ایک ابن خیؔاط جو بمقام دمشق ۱۰۵۸ءمیں پیدا ہوا اور فارس میں ۱۱۲۵ء میں مر گیا۔ الغؔازی (۱۰۴۹ء) جس نے نظامیہ کالج کے تعریف اور کیفیت نظم میں لکھی۔ وہ الغؔزالی کا ہم مکتب تھا اور اس نے خراسان میں وفات پائی۔ ایک طربؔلوسی نامی (۱۰۸۰ء میں پیدا ہوا) جو الغؔزالی سے عمر میں چھوٹا تھا لیکن ان سب میں مشہور شاعر الحریؔری تھا (۱۰۵۴ء سے۱۱۲۲ء تک) جس کی کتاب بنام ’’مقامات‘‘اس زمانہ کے طور طریقوں اور اخلاق پر بہت روشنی ڈالتی ہے۔ جو طلبا نظامیہ دارالعلوم میں تھے ان میں سے ایک شخص الخطیب نامی تھا (۱۰۳۰ء میں پیدا ہوا) جو علم زبان میں شہرہ آفاق تھا اور ابن عربی جو بمقام سیولے(Seville) ۱۰۷۶ء میں پیدا ہوا اور الغزالی کی تعلیم سننے کے لئے بغداد گیا۔ شافعی عالموں میں سے سب سے بڑاالرؔیانی نامی گزرا ہے۔ وہ بھی الغزالی کا ہم عصر تھا۔ یہ نیشاپور میں درس دیا کرتا تھا اور اس نے فقہ(واقفیت علم، احکام کی شریعت کی معلومات) کی مشہور کتاب ’’بحرالعلوم‘‘ نامی لکھی۔ ۱۱۰۸ء میں ایک روز جب اس نےاپنا درس ختم کیا تو قاتل (حشیشین) فرقہ کے ایک متعصب شخص نے اسے قتل کر ڈالا۔ ہم الغزالی کے ایک ہم جماعت اَلحرثی نامی (۱۰۵۸ء سے ۱۱۱۰ء) کا بھی ذکر کریں گے۔ اس نے بھی نیشاپور میں امام اَلحرمیؔن سے تعلیم پائی۔ پھر وہ بغداد کو گیا اور باقی عمر نظامیہ دارالعلوم میں علم الہیات پڑھا تا رہا۔ ہم اَل بیضاوی کو بھی فراموش نہ کریں جس نے قرآن کی مشہور تفسیر لکھی اور علم الہیات پر دیگر رسالے تحریر کئے (۱۱۲۲ء)۔ آل رغب، اَلاصفہانی جس نے ۱۱۰۸ء میں وفات پائی اور قرآن کی لغات حروف تہجی کے سلسلہ کے مطابق لکھی۔ اس کا نام ’’مفردات الفاظ القرآن‘‘ ہے۔ اس میں حدیثوں اور شاعروں کی کتابوں سے اقتباسات بھی دئے گئے ہیں۔ اس نے اخلاق پر بھی ایک رسالہ لکھا جسے اما م غزالی ہمیشہ اپنے ساتھ رکھاکرتے تھے یعنی ’’کتاب الذارعیہ‘‘ اور قرآن کی ایک تفسیر لکھی۔ الغزالی کے ابتدائی ہم عصروں میں سے ہم علی بن عثمانالجبی اَل حجوری کو نہ بھولیں جس نے تصوف پر فارسی میں ایک رسالہ لکھا جو اب تک موجود ہے۔ وہ بمقام غزنی واقع افغانستان پیدا ہوا اور ۱۰۶۲ء میں وفات پائی۔ جبکہ الغزالی کی عمر چودہ سال تھی۔ اَلحجوری نے دور و نزدیک محمدی ممالک میں سیاحت کی اور اس کی کتاب’’کشف الحجوب‘‘ میں بہت سے باتیں پائی جاتی ہیں جن کی الغزالی نے پیچھے تعلیم دی۔ اس سے ظاہر ہے کہ وہ اس کتاب سے واقف ہوں گے۔ ان شہرہ آفاق علما کی فہرست کو تکمیل دینے کی خاطر ہم نیشاپور کے آلمیدانی کا ذکر بھی کریں گے جس نے ۱۱۲۴ء میں وفات پائی اور ضرب الامثال کی ایک مشہور کتاب لکھی اور ال زمحشری کا جو ۱۰۷۴ء میں پیدا ہوا۔ اس نے قرآن کی مشہور تفسیر لکھی اور ابن تومرت مغرب کا مشہور فلاسفر جو نظامیہ دارالعلوم میں الغزالی کے لکچر سنتا رہا اور الشہرستانی جس نے مختلف مذاہب اور فرقوں کا بیان لکھا اور مقابلہ مذہب کے بارے میں سارے مسلمانوں کے درمیان یہ مستند کتاب ہے۔ بہت امور کے لحاظ سے یہ زمانہ اسلامی ادب کا سنہری زمانہ تھا اور بلا شک یہ اعلےٰ درجہ کی تعریف ہے کہ مسلمانوں اور مسیحیوں دونوں کی رائے میں الغزالی اپنے سب ہم عصر علما پر سبقت لے گیا۔ اگر طرز عبارت و فصاحت میں نہیں تو کم از کم اپنی تصنیفات کی و سعت اور خوبی میں توضرور اور سب سے بڑھ کر اس کی زندگی کی تاثیر زیادہ عالمیگر اور دیرپا تھی۔ اب ناظرین کی خاطر اس کی زندگی کا قصہ اور اس کے پیغام کی کیفیت بیان کرنے کی کوشش کریں گے۔

باب توصا بدمشق الشام

باب دوم

پیدائش اورتعلیم

جیسا مذکور ہوا الغزالی خراسان واقع فارس میں پیدا ہوا اور وہاں ہی اس نے تعلیم حاصل کی اور اپنی زندگی کے آخری ایام بھی وہاں ہی صرف کئے۔ جیسا کہ ہو آرٹ صاحب نے بیان کیا۔ فارس میں ایک غیر محسوس قوت تھی یعنی آریا ذہانت اور آریا یورپین خاندان کی زبردست متخیلہ اختراع کنندہ طبع۔ مصورانہ فلاسفرانہ دماغ جس نے زمانہ عباسیہ سے لے کر بہت عرصے تک عرب کے علم ادب پر ایسا زبردست سکّہ جمایا کہ خلفا کی سلطنت کے ہر حصے میں اس کے نشو و نما میں مدد کی اور بے شمار کتابیں پیدا کیں۔ اسی آریا ذیانت کے باعث الغزالی کی زبردست تاثیر مسلم خیال پر ہوئی اور جس کی وجہ سے اس تاثیر میں ہمارے زمانہ میں پھر جان پڑگئی جب کہ اسلامی طاقتوں کا شکنجہ ڈھیلا ہو رہاہے۔ الغزالی کے ایام میں فارس کا رسوخ سب سے زبردست تھا۔ یہ رسوخ ہر جگہ سرایت کرگیا تھا۔ عربوں نے تحریر کرنا چھوڑ دیا تھا۔ نظم ،علم الٰہی اور سائنس میں فارسی تصنیفات گوئےسبقت لے گئیں۔ سارے عہدے ملکی اور شرعی غیر عربوں کے ہاتھ میں تھے تو بھی جس زبان کا رواج تھا وہ قرآن کی زبان تھی اور خلفا کی وسیع سلطنت میں تحریر دتصنیف اسی زبان میں ہوئی تھی۔ ’’ساری قومیں فارسی شامی اور مغرب کے بربری اس زبردست دیگ میں پگھل کر ایک ہوگئیں‘‘۔

الغزالی پیدائش سے فارسی تھا۔ خیالات میں آریا ،مذہب میں سامی اور سیاحت و تعلیم کے ذریعہ وہ مخب عالم یعنی ہر ملک کا خیر خواہ ہوگیا ۔چونکہ وہ اپنے زمانہ کے اسلامی صدر مقاموں میں دیر دیر تک سکونت رکھتےاس لئے ہر طرح کے خیالات اور ہر قسم کےمذاہب و فلسفوں سے ان کا گہرا تعلق رہا۔ اس کے یاد رکھنے سے ہم کو ان کی وسیع علمی تصنیفات کا راز معلوم ہو جائے گا۔ ان کی نظر کا اُفق افغانستان سے ہپانیہ تک اور کردستان سے جنوبی عرب تک پھیلا ہوا تھا۔ دارالاسلام سے باہر کفرستان یورپ میں جو کچھ واقع ہو رہا تھا۔ اس کا حال صلیبی جنگوں کے ذریعہ معلوم ہوتا رہا۔

صاحب علم اشخاص کا راہ و رابطہ بذریعہ خط و کتابت اسلامی دنیا کے ہرحصے کے ساتھ تھا۔ ان خطوں کا ذکر آتا ہے جو الغزالی کوہسپانیہ، مراکو، مصر، شام اور فلسطین سےآتے رہے۔ فقہ، فلسفہ اور علم الٰہی کےسوالات سلاطین زمانہ مشہور مستند علما کےپاس جواب کے لئے بھیجا کرتے تھے۔ جو وسعت اس کی تصنیفات میں پائی جاتی ہے اس کی یہی وجہ ہوگی۔

مور(Moore) شاعر نے الغزالی کے وطن کا یہ ذکر کیا ہے۔

’’آفتاب کا خوشنما صوبہ، فارسی ممالک میں سے یہ پہلی سرزمین ہے جس پر سورج چمکتا ہے۔ جہاں اس کی شعاعوں کی خوبصورت شکلیں پیدا ہوتیں اور پھول اور پھل ہر ندی پر لہلہاتے ہیں اور ساری ندیوں میں سے خوبصورت ندی مرغا وہاں بہتی ہے۔ سرو کے درخشاں محلوں اور کنجوں میں‘‘۔

لفظ خراسان کے معنی ہی یہ ہیں ’’سرزمین آفتاب‘‘ اور ساسانی قدیم سلطنت جن چار حصوں میں منقسم تھی ان میں سے یہ ایک حصہ تھا۔ قطب نما کے بڑے بڑے نقطوں کے مطابق ان کے نام رکھے گئے تھے۔ عربی فتوخات کے بعد یہ نام ایک خاص صونہ کا بھی تھا اور عام طور پر فارس کے مشرقی علاقہ کا یہ نام تھا۔ اب تک اس صوبہ کی حد ود ٹھیک طور پر بیان نہیں ہوئیں۔ اس کا کل رقبہ ۱۵۰۰۰۰مربع میل ہے اور حال میں اس کی آبادی ۸۰۰۰۰۰ سے زیادہ نہیں بلاشک الغزالی کے زمانہ میں اس کی آبادی اس سے کہیں زیادہ ہوگی۔

شمال اور جنوب مغرب کی طرف خراسان پہاڑی ہےمشرق کی طرف کو ہستان ہے لیکن سلسلہ کوہ کے مابین وسیع ویران علاقہ ہے۔ ان ویرانوں میں سے سب سے زیادہ وسیع ’’دشت کبیر‘‘ ہے۔ سارے علاقہ میں خاص کرطوس کے نزدیک جو میدان اور سر سبز وادیاں ہیں وہ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے میں جدوجہد کرتی رہتی ہیں۔ پھسلتے ریگستانوں نے کئی قصبوں اور دیہات کو نکل لیا ہے۔ا س علاقہ میں مشکل سے کوئی دریا پایا جاتا ہے اور جو چند ندیاں نالے ہیں وہ مزے میں تلخ ہیں اور صحراے شور میں جذب ہوجاتے ہیں جونمک ان دریاؤں کے ذریعہ بہ آتا ہے وہ دلدلوں میں جمع ہو جاتا ہے۔ موسم گرما کی شدت تمازت (شدّت کی گرمی)ان کو خشک کر ڈالتی ہے حتی کہ موسم سرما کے سیلاب پھر رواں ہوجاتے ہیں چونکہ یہ عمل زمانوں سے جاری ہے اس لئے وہ سارا قطعہ زمین جہاں دلدل پھیلا ہوا ہے نمک کی تہ بن گیا ہے۔

سیاح اور موسم شناس اس امر پر متفق ہیں کہ یہ سارا ملک تمازت آفتاب سے اور قلت آب سے جُھلس گیا ہے۔ شہروں اور دیہات کے کھنڈرات بےشمار پائے جاتے ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کسی زمانہ میں یہاں آبادی کثرت سے ہوگی اور آب و ہوا بہت بہتر ہوگی اور آبپاشی کا بہتر انتظام ہوگا۔ یہ کہنا خلاف انصاف ہوگا کہ فارس کی یہ ساری تباہی جنگ و جدل اور سلامی بد انتظامی کا نتیجہ ہے۔بقول ہنٹنگٹن صاحب

’’خراسان، آذر بائجان، کرمان اور سیستان کے چاروں صوبوں کا مقابلہ کرنا خالی از دلچسپی نہیں‘‘۔

فارس کے باقی علاقوں کی نسبت خراسان نے جنگ و جدل سے زیادہ نقصان اٹھایا۔ اس کا شمالی حصہ جہاں بارش کثرت سے ہوتی ہے اور جہاں سب سے زیادہ لڑائیاں وقوع میں آئیں آج فارس کے سب زیادہ آباد حصوں میں ہے۔ اس میں بے شمار کھنڈرات ہیں لیکن وہ ایسے دلچسپ نہیں جیسے کہ جنوب کی طرف کے کھنڈرات ہیں۔ اس علاقہ کے جنوبی اور زیادہ خشک حصے میں کھنڈرات بکثرت پائے جائے ہیں اور وہاں کی آبادی بہت گھٹ گئی ہے۔ آذربائجان جس نے جنگ سے دوسرے علاقوں کی نسبت ماسواے خراسان کے زیادہ نقصان اٹھایا۔ وہ فارس کے علاقوں میں زیادہ آباد اور گنجان ہے چونکہ نسبتاًیہاں پانی کی کثرت ہے اس لئے اس کا مستقبل زیادہ پر امید ہے۔ سیستان نے بھی جنگوں سے نقصان اٹھایا لیکن ماقبل دو علاقوں کے برابر نہیں تو بھی یہاں کی آبادی بہت گھٹ گئی۔ یہ علاقہ ایسا بنجر ہوگیا ہے کہ اس کا بحال ہونا تقریباً ناممکن ہوگیا ہے۔ سوائے ہلمند کے قرب و جوار کے۔ کرمان نے صحرا اور کوہستان سے دور واقعہ ہونے کے باعث پہلے تین صوبوں کی نسبت لڑائیوں سے کم نقصان اٹھایا ۔تو بھی اس کے شہروں کے کھنڈرات اور آبادی میں ایسی شدت کی کمی تقریباً ویسی ہی نمودار ہے جیسے سیستان کے، اگر فارس کے تنزل (گراوٹ)کا باعث جنگ و بد انتظامی ہو تو یہ قابل لحاظ ہے کہ جن دو صوبوں نے جنگ سے زیادہ سرسبز اور پرآباد ہیں جن دو صوبوں نے لڑائی اور بد انتظامی سے کم نقصان اٹھایا وہ ایسے اجڑے ہیں کہ ان کا بحال کرنا تقریباً ناممکن نظر آتا ہے۔

آج کل خراسان کے صوبہ کی سرزمین سطح مرتفع ،شور صحرا اور پھل دار سیراب وادیوں پر مشتمل ہے۔ ان پھل دار علاقوں میں چاؤل، کپاس، زعفران لیکن خصوصاًخربوزے اور دیگر پھل بکثرت پیدا ہوتے ہیں۔ دیگر پیدا وار یہ ہیں گوند، من، فیروزہ وغیرہ جو ہندوستان کو بھیجے جاتے ہیں خاص دستکاریاں یہ ہیں تلواریں، مٹی کے برتن، قالین روئی اور کتانی اشیا۔

شہر مشہد (ایران کا ایک مشہور شہر جسے طوس بھی کہتے ہیں )نے جو آج کل خراسان کا صدر مقام ہے پرانے شہر اور علاقہ طوس کی جگہ چھین لی ہے جو قدیم زمانہ میں صدر مقام تھا۔ اس شہر کے کھنڈرات پندرہ میل شمال کی جانب پائے جاتے ہیں۔ دسویں صدی میں بھی الغزالی کے مولد(جائے ولادت) کا ذکر پایا جاتا ہے۔ مسعار مہلہیل (۹۴۱ء کے قریب) نے یہ رقم کیا۔

’’ یہ چار قصبوں کے اجتماع سے بنا ہے ان میں سے دونوں بڑے قصبے ہیں اور دو کم مشہور۔ اس کا رقبہ ایک مربع میل ہے اس میں خوبصورت یاد گاریں ہیں جو اسلام کے آغاز سے پائی جاتی ہیں۔مثلاً حمید ابن خطاب کا گھر، علی ابن موسیٰ اور رشد کا مقبرہ اس کے قرب و جوارہیں‘‘۔

استخری (۹۵۱ء) نے اس سے دس سال بعد تحریر کیا کہ طوس ایک ماتحت ریاست تھی جس میں چار شہر یا بستیاں تھیں۔ اس نے یہ بھی بیان کیا

’’طوس نیشاپور کی ماتحت ریاست تھا اور اس میں یہ چار شہر تھے۔ زرکان، طبرن، بضغور، نوکن اس آخری شہر میں علی ابن موسیٰ الرضا (رضی اللہ عنہ) کا مقبرہ تھا اور ہارون رشید کا مقرہ۔ الرضا کا مقبرہ سؔن بض نامے گاؤں سے تقریباً پونے فرسنگ کے فاصلہ پرتھا‘‘۔

طوس کی مختصر بہتر تاریخ اور اس کی موجودہ حالت کا بیان پروفیسر اے۔وی ولیم جیکسن(A.V. William Jackson) صاحب نے لکھا ہے۔ کتاب بنام ’’قسطنطنیہ سے عمر خیام کے گھر تک‘‘ وہ لکھتے ہیں کہ

’’طوس کا نام ویسا ہی قدیم ہے کہ اس بہادر طوس کانام اوؔستا میں آیا ہے کہ اس نے کورؔان سے جنگ کی تھی۔ اسکندر اعظم لسبوس آخری دارا کے قاتل کے تعاقب میں اس شہر میں گزرا‘‘۔

زرشتی عہد حکومت میں طوس کا شہر نیشاپور کی طرح نستوریں مسیح بشپ کا دارالقرار تھا جب عربوں نے فارس کو فتح کیا تو طوس نے حملہ آوروں کے سامنے سر تسلیم خم کیا اور اسلام کا بڑا مرکز بن گیا۔ اس کی شہرت خاص کر اس لئے بھی ہے کہ یہ فردوسی شاعر کا شہر تھا جو ۹۳۵ء کے قریب پیدا ہوا اور ۱۰۲۵ء میں مرگیا۔

پروفیسر جیکسن صاحب نے اس شہر کی موجودہ اجڑی حالت کا یہ بیان کیا ہے۔

’’اس مردہ شہر کی شکستہدیواریں ایک وقت بہت وسیع اور بلند فصیلیں تھیں۔ بہت کچھ انہیں کی مانند جو بستام اور رعے میں پائی جاتی ہیں لیکن امتداد زمانہ کی وجہ سے وہ بہت کچھ پھیل گئی ہیں۔ ان برجوں کے آثار اب تک پائے جاتے ہیں اور ان سے شہر کے نقشہ کا پتہ لگتا ہے کہ وہ ایک بے قاعدہ مربع صورت کا ہوگا۔ جس کی اطراف عموماً قطب نماکے مطابق ہوں گی‘‘۔

جو نظارہ ہم نے دیکھا وہ ایک ایسا عجیب تھا جس سے انسان کے ہاتھ کے تباہ کن نتیجوں اور فطرت کی سرسبز کرنے والی ابدی طاقت کا تماشا نظر آتا تھا۔ غوض جھنڈوں اور مغل لشکروں کے حملوں کے ساتھ زلزلوں نے مل کر طوس کے عالیشان شہر کو تباہ وبرباد کردیا۔ لیکن اس کی خاک میں پھولوں اور اناج کے زندگی بھرے بیج پائے جاتے ہیں۔ جو موت کے درمیان زندگی ازسر نو پیدا کرتے ہیں۔ چاروں طرف جؔو اور ایک خاص قسم کے پودے سرسبز کھیت پائے جاتے ہیں اور ساتھ ہی وہ بنجر قطعے ہیں جو گزشتہ زمانے کی تباہی کا قصہ سنا رہے ہیں۔ پروفیسر موصوف نے یہ بھی لکھا

’’یہ ظاہر ہے کہ طوس کے جن کھنڈرات کو ہم دیکھ رہے ہیں وہ معہ روض بار اور رضان پھاٹکوں کے طبرؔان کے قلعہ کا حصہ تھے۔ فردوسی کے ایام میں شہر کا یہ حصہ بہت مشہور تھا۔ اس وقت شہر کا رقبہ بہت وسیع تھا اور اس کے کئی چوک بہت گنجان آباد تھے۔ دسویں صدی کے مشرقی جغرافیہ نویسوں نے یا اس زمانہ کے مورخوں نے اس کا بیان کیا ہے جو اس شاعر کی زندگی کا بہترین زمانہ تھا‘‘۔

طبران ہی میں الغزالی مدفون ہوا اور غالباًاپنی زندگی کے آخری ایام اس نےوہاں ہی گزارے ہوں گے۔

طوس میں مذہبی بحث مباحثوں کی گرم بازاری تھی۔ مسیحیوں کی آبادی بھی وہاں کثرت سے تھی۔ شیعہ لوگوں کا زور بھی وہاں اتنا ہی تھا جتنا کہ حنفیوں کا تھا۔ ان کا بہایت مشہور مصنف اورعالم ابوجعفر محمد نامی طوس ہی میں پیداہوا اور ابن ابی حاتم جو حدیث کے علم جرح کا قدیم عالم تھا اس نے ۹۳۹ء میں طوس ہی میں وفات پائی۔ لیکن باوجود یہاں کے علما کے طوس کو بہت اعلیٰ شہرت حاصل نہ ہوئی جیسا کہ ابن جبریہ کی تحریر سے ظاہر ہے۔ نظام الملک کے ایک دشمن نے اس سے درخواست کی کہ اس حاکم کی ہجو(نظم میں کسی کی بُرائی کرنا) لکھے۔ اس پر اس نے جواب دیا کہ جس شخص کی مہربانی سے یہ ساری نعمتیں مجھے حاصل ہوئیں جومیرے گھر میں پائی جاتی ہیں۔ اس کی ہجو میں کیسے لکھوں ۔لیکن اس کو تاکید کی گئی تو اس نے جو شعر لکھا اس کا ترجمہ یہ ہے۔

’’کیا عجب کہ نظام الملک حکمرانی کرے

اور تقدیر اس کی حمایت پر ہو؟

اقبال رہٹ کی مثل ہے

جس سے پائی کنوئیں کی تہ سے اوپر آتا

لیکن بیل ہی اس کو چلاتے ہیں‘‘۔

جب وزیر کو خبر لگی کہ اس پر یہ حملہ ہوا تو اس صرف اتنا کہا کہ اس میں صرف اس کے وطن کی طرف اشارہ تھا کیونکہ میرا وطن طوس واقع خراسان ہے اور وہاں کی ضرب المثل ہے کہ طوس کے سب لوگ بیل ہیں۔ (آج کل کہیں گے گدھے ہیں)۔ چنیری (Chenery) صاحب لکھتے ہیں کہ

’’اہل خراسان اپنے بخل(لالچ، کنجوسی، تنگ دل) کے باعث بدنا م تھے اور یہ تعجب نہیں کہ اس صدر مقام کے باشندے بخل میں دنیا کے سب باشندوں پر سبقت لے گئے ہوں اگر میری یاد داشت میں غلطی نہ ہو تو شیخ سعدی نے گلستان میں مؔرو کے ایک سوداگر کا ذکر کیا ہے جس نے اپنے بیتے کو پنیر کھانے کی اجازت نہ دی بلکہ اسے کہا کہ جس بوتل میں وہ رکھا تھا اس پر اپنی روٹی رگڑ لے‘‘۔

زمانہ حال کے اہالیاں خراسان کی احمقی ثابت کرنے کے لئے میجر پی۔اے سائیکس نے ایک قصہ بیان کیا کہ

’’تین فارسی اشخاص ایک جگہ اکٹھے تھے ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے صوبہ کی تعریف کرنے لگا۔ کرمانی نے کہا کہ ’’میرے صوبے کرمان میں سات رنگوں کا پھل پیدا ہوتا ہے‘‘۔ شیرازی نے کہا کہ ’’رکناباد کے پانی عین چٹان میں سے نکلتے ہیں‘‘لیکن بیچارہ خراسانی یہی کہہ سکتا تھا کہ ’’خراسان سے میرے جیسے احمق ہی نکلتے ہیں‘‘۔

تو بھی بقول حجوری

’’خراسان کی سرزمین وہ خط تھا جہاں خدا کی عنایت کا سایہ پڑتا تھا‘‘۔

اس میں اس نے صوفیوں کی تعلیم کی طرف اشارہ کیا۔ اس نے تو مشہور صوفیوں کا ذکر کیا ہےجوخراسان کے علاقہ سے تھے اور وہ الغزالی کے زمانہ سے پیشتر وہاں تعلیم دیا کرتے تھے۔ یہ سب اپنی بلند خیال، اپنی تقریر کی فصاحت اور اپنی عقل کی جدت کے باعث مشہور تھے۔ اس نے یہ بھی بیان کیا کہ ’’خراسان کے سارے شیخوں کا بیان لکھنا دشوار ہوگا۔ صرف اسی ایک علاقے میں مجھے تین سو ایسے شخص ملے جو علم تصوف میں ایسے ماہر اور کامل تھے کہ ان میں سے ایک واحد شخص ساری دنیا کے لئے کافی ہوتا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ محبت کا آفتاب اور صوفی طریقت کا اقبال خراسان میں ہمیشہ سمت الراس پر تھا‘‘۔

ایسے بیانات سے یہ واضح ہے کہ الغزالی کی قابلیت کچھ تو ان مقامی حالات سے حاصل ہوئی اور کچھ اس کی اپنی ذہانت کا نتیجہ تھا۔ وہ تصوف کا بانی نہ تھا بلکہ جو کچھ اس کے مقابلاستادوں نے تعلیم دی تھی اس کو اس نے استعمال کیا۔ الغزالی نے تصوف پر جو کتابیں لکھی ہیں ان کے عنوان وہی ہیں جو’’ کشف المحجوب ‘‘کے ہیں۔

بقول مرتضیٰ (جوالسبقی کے بعد ہوا) الغزالی کا پورا نام ابوحمید محمد بن محمد الطوس الغزالی تھا۔ وہ ۴۵۰ھ (۱۰۵۸ء) میں بمقام طوس پیدا ہوا۔ اس کے نام کے بارے میں یہ بیان کیا جاتا ہے کہ اس سے پیشتر بعض دوسروں کے خاندانی نام بھی ایسے تہرے تھے۔ ابن قظیبہ کا بیان ہے کہ

’’ابوالبختاری کا نام و ہب بن وہب بن وہب تھا۔ یعنی ایک ہی نام تین دفعہ دہرایا گیا اسی کی مثل سلاطین فارسی کے ناموں میں بہرام بن بہرام بن بہرام تھا۔ ابوطالب کی اولاد میں سے ایک شخص کا نام حسن بن حسن بن حسن تھا اور غسان خاندان میں سے ایک شخص الحارث خورد بن الحارث بن الحارث کلاں تھا‘‘۔

اس کے نام کے بارے میں کہ آیاصرف زتشدید کے ساتھ پڑھا جائے یا بلاتشدید طویل بحث ہوئی۔ پروفیسر میکڈانلڈ صاحب کی رائے میں زتشدید کے ساتھ پڑھنی چاہئے اور اپنے ایک خاص رسالے میں اس کے دلائل دئے ہیں۔ ابن خلیقان نے اپنی نعات سوانح عمری(کسی شخص کی زندگی کے خالات، تذکرہ) میں اس کے ہجے تشدید کے ساتھ کئے ہیں (۱۲۸۲ء) لیکن بقول الؔسا معنی اس لفظ کا ماخذ غزل ہے طوس کے نزدیک ایک گاؤں تھا اور یہ تخلص نہیں جیسا کہ اکثر خاندانی ناموں میں پایا جاتا ہے۔ ابو سعدعبد الکریم السا معنی غزالی کی وفات کے دوسال کے بعد پیدا ہوا اور آٹھ جلدوں میں ان لقبوں اور تخلصوں پر ایک کتاب لکھی۔اس لئے وہ ناموں اور شجرہ نسبوں میں ماہر تھا۔ ہم اس بزرگ امام کےناموں کے ہجے کے بارہ میں اس کی سند قبول کرسکتے ہیں۔ یہ شخص اس کا ہم وطن بھی تھا۔ قاہرہ کے ازہر دارالعلوم کے سارے شیخوں نے اسی سند کومان کر الغزالی ہجے کئے بلاتشدید کے۔

بعضوں کا بیان ہے اس خاندان میں دوعالم پیشتر گزر چکے تھے۔ ایک الغزالی کلاں۔ طوس کے قبر ستان میں جس کی قبر پر دعا کا جواب ملا۔ یہ الغزالی کے والد کا چچا تھا۔دوسرا اس کا بیٹا تھا۔ خود غزالی ہی کی سند پر ایک قصہ بیان ہوا ہے کہ اس کے باپ کی وفات کے وقت اس نے اپنے دوبیٹوں کو یعنی محمد اور احمد کو تعلیم کے لئے ایک معتبر صوفی دوست کے سپرد کیا۔ اس کی اپنی خواہش اپنی تعلیم کے بارے میں پوری نہ ہوئی تھی۔ اس لئے اس نے مستقل ارادہ کیا کہ اس کے بیٹوں کو تعلیم کا بہتر موقعہ ملے۔ اس لئے جو کچھ نقد و مال تھا۔اس مقصد کے لئے اپنے اس دوست کے سپرد کیا۔ وہ دوست بڑا وفادار ثابت ہوا اور جب تک روپیہ باقی رہا ان لڑکوں کی تعلیم و تربیت کرتا رہا۔ بعدازاں اس نے انہیں یہ صلاح دی کہ ایک مدرسہ میں جائیں جہاں ان کو حسب ضرورت خوراک اور مکان ملے گا۔ اپنی زندگی کے آخر میں الغزالی نے اپنی زندگی کے اس حصے کے تجربہ کا بیان کیا اور یہ کہا ’’ہم خدا کے سوا کسی اور شے کے طالب بنے لیکن خداکی مرضی یہ نہ تھی کہ ہم اس کے سوا کسی دوسری شے کے طالب بنیں‘‘۔ اس مثال سے ظاہر ہے کہ اس کے مطالعہ اور ساری جدوجہددولت کا طالب تھا۔

طوس میں اس کی خاندانی زندگی اور پھر مابعد اس کے اپنے عیال ذاطفال کی زندگی کا حال بہت کم معلوم ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ اس کو یہ نام ابوحمید بہت دیر بعد دیاگیا۔ شاید اس میں یہ ایما ہو کہ اس نام کا اس کا کوئی بیٹا تھا۔ جس نے ایام طفولیت میں وفات پائی۔ بیس سال عمر سے پہلے ہی اس نے شادی کی اور اس کی وفات کے بعد اس کی کم از کم تین بیٹیا ں باقی تھیں، مگر اس کے چھوٹے بھائی کے بارے میں جس نے اس سے پندرہ سال بعد وفات پائی (۱۱۲۶ء) اور قزوین میں مدفون ہوا ہمیں یہ معلوم ہے کہ نظامیہ سکول میں الغزالی کی جگہ وہ معلم ہوا۔ اسی کی طرح وہ بھی صوفی تھا اور اپنے خیالات کو بڑی فصاحت سے بذریعہ تقریر و تحریر بیان کرتا تھا۔ کہتے ہیں کہ وہ بہت شکیل و وجیہہ شخص تھا اور شفا دینے کی کرامت اسے حاصل تھی۔ برملا وعظ کہنے کا وہ ایسا مشتاق تھا کہ اس نے اپنے شرعی اور قانونی مطالعہ کو بھی نظر انداز کر دیا۔ اس نے اپنے بھائی کی مشہور تصنیف کا خلاصہ لکھا اور تصوف پر ایک مشہور رسالہ بنام ’’منہاج ال الباب ‘‘(دلوں کے لئے راہ) تصنیف کیا۔ اِس کتاب میں اس نے افلاس کے فوائد کا بیان کیا اور اس امر کی تائید کی کہ درویش ایک خاص قسم کا لباس اختیار کریں۔ ایک اور کتاب اس نے علم موسیقی کی حمایت میں لکھی جس کا نام ’’بوارق امل المعلم ‘‘رکھا ۔لیکن پابند شرع مسلمان اس کتاب کو چھچھوری سمجھتے ہیں۔ گوصوفی لوگ حالت وجد کے طاری کرنے کے لئے موسیقی کو استعمال کرتے ہیں۔

الغزالی کی والدہ کی نسبت اس سے زیادہ ہمیں کچھ معلوم نہیں کہ وہ اپنے شوہر کے بعد زندہ رہی اور بغداد میں اپنے بیٹوں کی شہرت اور عزت دیکھنا اسے نصیب ہوا ۔لیکن یہ معلوم نہیں کہ وہ ان کے ہمراہ گئی تھی یا پیچھے ان کے پاس گئی۔ ایک دلچسپ قصہ بیان ہوا ہے کہ جب ابوحمید بغداد میں اپنے عروج کی حالت میں تھا تو اس کا بھائی احمد اس کی مناسب عزت نہ کیا کرتا تھا بلکہ ایسا سلوک کرتا جس سے لوگوں کی نظر میں اس کی خفت ہو۔ وہ پورا قصہ لکھنا خالی ازلطف نہ ہوگا۔

’’اس کا ایک بھائی احمد نامی تھا جس کا دوسرا نام جمال الدین یا بقول بعض اشخاص زین الدین تھا۔ اگرچہ اس کا بھائی اعلیٰ درجہ پر ممتاز تھا لیکن وہ اس کے پیچھے نماز نہ پڑھتا تھا یعنی اس کو امام تسلیم نہ کرتا تھا۔ حالانکہ عوام الناس اور امرا و وزرا میں سے ہزار ہاصف درصف اس کے پیچھے نماز پڑھا کرتے تھے۔اس لئے الغزالی نے اپنی ماں سے اپنے بھائی کے سلوک کی شکایت کی اور کہا کہ اس کے ایسے سلوک سے عوام کے دل میں اس کی طرف سےشبہ پڑ جائے گا کیونکہ اس کا بھائی نیک چلنی اور دینداری کی وجہ سے شہرت رکھتا تھا۔ اس لئے اس نے اپنی والدہ سے درخواست کی کہ احمد کو حکم دے تاکہ وہ اس سے ویسا ہی سلوک کرے جیسا دوسرے لوگ اس سے کرتے تھے۔ امام غزالی نے بار بار شکایت کی اور تاکید سے والد کو کہا۔ اس کی والد نے بار بار احمد کو سمجھایا کہ یہ صلاح مان لے۔ آخر احمد نے اس شرط پر اس صلاح کو مان لیا کہ وہ صف سے علحٰدہ کھڑا ہوا کرئے گا۔ امام نے یہ شرط منظور کرلی اور ایک روز جب نماز کا وقت پہنچا۔ امام نے نماز شروع کی اور جماعت بھی اس کے پیچھے پڑھنے لگی۔ جمال الدین کچھ فاصلہ سے اس کے پیچھے نماز پڑھنے لگا اور جب لوگ نماز پڑھ رہے تھے تو جمال الدین نے یک لخت دخل دیا۔ اس لئے یہ سلوک پہلے سے بدتر تھا اور جب اس سے اس کی وجہ دریافت کی تو اس نے جواب دیا کہ میرے لئے یہ ناممکن ہے کہ ایسے شخص کو نمونہ پکڑوں جس کا دل خون سے معمور تھا۔ اس سے اس کی مراد یہ تھی کہ جو شخص دنیا دار عالموں کے ساتھ شریک ہو اس کا دل کیسے درست ہوگا‘‘۔

الغزالی نے بہت اوائل عمر(ابتدائی عمر، چھوٹی عمر) میں تحصیل علم شروع کی ہوگی اور طوس میں اسے تعلیم میں ایسی کامیابی ہوئی کہ بیس سال کی عمر سے پیشتر ہی وہ جُرجاؔن کے بڑے تعلیمی مرکز میں تعلیم پانے گیا۔ یہ جگہ طوس سے ایک سو میل سے زیادہ فاصلہ پر تھی اور اس وقت کے لحاظ سے یہ سفر بہت دور دراز کا سمجھا جاتا تھا۔

الغزالی نے جو اپنی زندگی کی سرگزشت لکھی اس سے پتہ لگتا ہے کہ اس نے اس امر کو محسوس کیا کہ بچہ کیسے حکمت اور قد میں نشوو نما پاتا ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ ’’پہلی حس جو انسان پر منکشف ہوتی ہے وہ مس کی حس ہے جس کے ذریعہ سے وہ ایک خاص قسم کی صفات کو پہچانتے لگتا ہے مثلاً سردی، گرمی، تری، خشکی وغیرہ۔ مس کی حس رنگوں اور شکلوں کو محسوس نہیں کرسکتی۔ وہ تو اس کےنزدیک کا لعدم کا حکم رکھتی ہیں۔ اس کےبعد بصارت کی حس حاصل ہوتی ہے۔ جس کے ذریعہ انسان رنگوں اورشکلوں کو پہچاننے لگتا ہے۔ یعنی ان اشیا کو جو عالم احساس میں سب سے اعلیٰ درجہ رکھتی ہیں۔ بعد ازاں حس سامعہ حاصل ہوتی ہے اور بعد ازاں حس شامہ اور حس لامسہ۔ جب انسان عالم احساس سے آگے قدم رکھتا ہے یعنی سات سال کی عمر کو پہنچتا ہے تو اسے قوت تمیز حاصل ہوتی ہے۔ اس وقت وہ زندگی کے ایک نئے طبقے میں داخل ہوتا ہے اور اس قابلیت کی برکت سے حواس سے اعلیٰ تاثیرات کا تجربہ کرنے لگ جاتا ہے جو عالم احساس میں اسے حاصل نہ تھیں‘‘۔

الغزالی ایام طفولیت ہی سے علیٰ الصباح(بہت سویرے، تڑکے ہی) اٹھنے کا عادی معلوم ہوتا ہے۔ اس نے جو کتاب بنام ’’دین و اخلاق میں مبتدی کا رہنما‘‘ (البدایت) لکھی اس میں یہ ذکر کیا کہ ’’جب تم خواب سے بیدار ہو تو پوپھٹنے سے پہلے اٹھنے کی کوشش کرو اور سب سے پہلے جو خیال تمہارے دل میں اور جو الفاظ تمہاری زبان پر ہوں وہ خدائے تعالیٰ کی یاد ہو اور یہ کہو ’’خدا کا شکر ہو جس نے خواب کی موت کے بعد ہمیں زندگی عطا کی ہم اسی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ اس نے ہمیں اور ساری فطرت کو جگایا۔ عظمت اور قدرت خداہی کی ہے۔شوکت اور حکومت رب العالمین کی ہے۔ اس نے ہمیں دین اسلام کے لئے اور اس کی وحدت کی شہادت کے لئے بیدار کیا اور اپنے رسول محمد کے دین اور ہمارے باپ ابراہیم کی امت ہونے کےلئے جو حنیف اور مسلمان تھا اور مشرک نہ تھا۔ اے خدا میں تیری منت کرتا ہوں کہ تو مجھے آج ساری برکتیں عطا فرما اور ہر ایک برائی سے مجھے چھڑا۔ تیری ہی عنایت سے ہم خواب سے بیدار ہوتے ہیں اور تیری ہی مدد سےشام تک پہنچتے ہیں۔ تجھی میں ہم جیتے اور مرتے ہیں اور تیری طرف ہی ہم رجوع کرتے ہیں‘‘۔

اسی چھوٹے رسالے کے ایک دوسرے مقام میں علیٰالصباح اٹھنے کی اس نے یوں تلقین کی ’’یہ جان لو کہ دن اور رات میں چوبیس گھنٹے ہوتے ہیں اس لئے رات اوردن میں تمہاری نیند آٹھ گھنٹے سے زیادہ نہ ہو کہ جب تم ساٹھ سال کی عمر تک پہنچو تو یہ خیال تمہارے لئے کافی ہوگا کہ تم نے اپنی عمر کے بیس سال سراسر نیند میں ضائع کئے‘‘۔

شاید سات سال کی عمر سے پیشتر اس نے پڑھنا شروع کیا کیونکہ ہمیں یہ معلوم ہے کہ طوس میں اور بعدازاں جُرجؔان میں نہ صرف اس نے دینی سائنس کو حاصل کیا بلکہ فارسی اور عربی میں پوری مہارت حاصل کی۔ اس کے دینی مطالعہ کا ہم پیچھے ذکر کریں گے۔ اس نے خود ہمیں بتایا کہ جو علوم اس وقت سکھائے جاتے تھے ان میں علم ریاضی، منطق، علم طبعی، علم مابعدالطبیعت سیاست اور اخلاق داخل تھے۔اگرچہ اس نے اپنے ’’اقرارات‘‘ میں اپنی ابتدائی طالب علمی کا ذکر نہیں کیا لیکن علم ریاضی کے بارے میں جو بیان اس نے کیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اوائل عمر ہی میں جوبیان اس نے کیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اوائل عمرہی میں اسے کس قسم کے شک شکوک پیدا ہوئے۔ اس نے لکھا ہے کہ’’علم ریاضی میں علم حساب، علم اقلیدس اور علم کیفیت عالم داخل تھے‘‘۔ دینی علوم سے اس کا کچھ تعلق نہ تھا اور دین کی اس سے نہ تائید ہوتی ہے نہ تردید۔ یہ ایسے اثبات پر مبنی ہے جن کو آدمی اگر ایک دفعہ جان اور سمجھ لے تو ان کی تردید نہیں ہوسکتی لیکن علم ریاضی سے دو بُرے نتیجے نکلتے ہیں۔ پہلا نتیجہ یہ ہے کہ جو شخص اس علم کا مطالعہ کرتا ہے وہ اس کے ثبوتوں کی خوبی اور وضاحت کا مداح ہو جاتا ہے۔ فلسفہ کا اعتبار اس کے دل میں بڑھتا جاتا ہے اور وہ سمجھنے لگتا ہے کہ اس کے سارے صیغوں میں ایسے ہی پختہ اورواضح ثبوت ہونگے جیسے کہ علم ریاضی کے تھے لیکن جب وہ لوگوں کو یہ کہتے سنتا ہے کہ ریاضی دان بے اعتقاد اور بے دین ہوتے ہیں اور شریعت الہٰی کی طرف سے بالکل غافل اور یہ عام مشہور ہے۔ ان کے سُنے سنُائے وہ بھی یہ الزامات لگانے لگتا ہے لیکن ساتھ ہی اپنےدل میں یہ کہتا ہے کہ اگر دین میں کوئی صداقت ہوتی تو ان علما سے چھپی نہ رہتی جنہوں نے علم ریاضی کی تحصیل میں اپنی تیز فہمی اور عقل مندی کا ثبوت دیا۔

دوم جب وہ آگاہ ہوتا ہے کہ ان عالموں نے دین و مذہب کو رد کر دیا تو وہ یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ مذہب کو رد کرنا امر معقول ہے۔’’میں بہت ایسے شخصوں سے ملا ہوں جنہوں نے مذہب کو صرف اسی وجہ سے رد کر دیا تھا جس کا ذکر اوپر ہوا‘‘ (صفحہ ۲۸)۔

نہ صرف علم ریاضی بلکہ علم نجوم اور دیگر علوم بھی مکاشفہ کے عقائد کے خلاف نظر آتے تھے۔ الغزالی نے اسے بہت شدت سے محسوس کیا ہوگا اس نے یہ تحریر کیا ’’جاہل مسلمان خیال کرتے ہیں کہ دین کی حمایت کرنے کا سب سے افضل طریقہ یہ ہے کہ سارے صحیح علوم کو رد کریں اور ان کے معلموں پر گمراہی کا الزام لگائیں وہ سورج اور چاند گرہن کے مسائل کو رد کر دیتا ہے اور دین کے نام سے ان پر کفر کا فتویٰ لگاتا ہے یہ الزامات دور تک جاتے ہیں اور فیلسوفوں کے کانوں تک جاپہنچتے ہیں۔ وہ یہ جانتے ہیں کہ ان کا انحصار اٹل اثبات پر ہے۔ اس لئے ان علوم پر تو ان کو کچھ شک پیدا نہیں ہوتا۔ بلکہ برعکس اس کے وہ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ اسلام کی بنیاد جہالت اور علمی دلائل و اثبات کے انکار پر ہے۔ یوں فلسفہ کی محبت تو اس کے دل میں بڑھ جاتی ہے اور دین کی طرف سے نفرت ہو جاتی ہے۔ اس لئے ایسے قیاس سے دین کو سخت نقصان پہنچتا ہے کہ اسلام کی حمایت علوم صحیحہ کے انکار پر مبنی ہے۔ دین میں کوئی بات ایسی نہیں جس سے ان علوم کی تردید یا تائید ہو اور وہ علوم بھی دین پر کوئی حملہ نہیں کرتے۔ نبی کے یہ الفاظ کہ ’’آفتاب اور ماہتاب خدا کی قدرت کے دو نشان ہیں ان کا گرہن کسی کی پیدائش یا موت کا نشان نہیں جب تو ان نشانوں کو دیکھے تو آعوذباللہ پڑھ اور خدا کا نام لے۔ان الفاظ سے کسی طرح علم نجوم کے حساب کی تردید نہیں ہوتی کیونکہ ان کا انحصار ان دو اجرام کی گردش،اتفاق اور جدائی پر ہے جو خواص قوانین کے مطابق عمل میں آتے ہیں‘‘۔ اس قرینے میں ہم یہ یاد رکھیں کہ عمر خیام منجم شاعر نے ان دنوں بہتوں کو دین سے گمراہ کیا۔

عربی صرف و نحوکی تحصیل اور قرآن کو حفظ کرنے کے بعد اس شوقین طالب علم نے علم جرح کو سیکھنا شروع کیا۔ الغزالی کے استادوں نے اور خود الغزالی نے قرآن کی صحیح تلاوت پر بہت زور دیا۔ الغزالی نے اپنی کتاب ’’احیا ‘‘کے ایک فصیح مقام میں ان باتوں کا ذکر کیا۔ قرآن کو پڑھنے سے پیشتر آدمی بدنی طور پر پاک صاف ہو اور کتاب کی عزت وتعظیم برملا کر ے ایک خاص اندازے سے پڑھے۔ اس نے سعد اور عثمان کے نمونہ کو پسند کیا کہ وہ قرآن کو ہفتے میں ایک دفعہ ختم کیا کرتے تھے۔ قرآن کو ترتیل(قرآن شریف کے حروف کو مخارج سے ادا کرکے پڑھنا) سے کیونکہ اس سے قرآ ن کے حفظ کرنے میں مدد ملتی ہے اور آہستہ آہستہ پڑھے۔ جلد جلد پڑھنے کو ناپسند کیا بلکہ گر یہ وزاری سے پڑھے یعنی اپنے گناہوں پر غم کھاتے ہوئے۔ مناسب مقاموں پر مناسب دقفوں کے ساتھ پڑھے۔ دل میں اور بلند آواز دونوں طرح سے پڑھ سکتے ہیں لیکن بقول حدیث الحان سے پڑھے ’’جو شخص قرآن کو الحان سے نہیں پڑھتا وہ ہمارے دین کا نہیں۔ ایک دن جب محمد صاحب نے ابو موسیٰ کو قرآن پڑھتے سنا تو فرمایا کہ ’’فی الحقیقت اس قاری کو خدا نے حخبرہ داؤدی عطا کیا ہے جب انہوں نے مزامیر لکھے‘‘۔

یہ قرین قیاس ہے کہ یوسف نساج جو اس کا پہلا استاد تھا وہ صوفی تھا اور بعدازاں امام الحر مین مقرر ہوا مذکورہ بالا امور پر وہ تاکید اکید کیا کرتا تھا۔ الغرض جس کرہ میں الغزالی نے تعلیم حاصل کی وہ تصوف کا کرہ تھا۔

قرآن کے مطالعہ کے بعد اس نے احادیث کا مطالعہ شروع کیا۔ ان احادیث کے مستند مجموعہ اس وقت مروج تھے۔ اس کے بعد الغزالی کے ایام میں طالبعلم فقہ کا مطالعہ شروع کیا کرتے تھے۔ اس مضمون پر جو مستند کتابیں پائی جاتی ہیں۔ جو الغزالی کے زمانہ سے پیشتر لکھی گئیں اور جو پیچھے خود الغزالی نے لکھیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ طوس اور جرجؔان کے سکولوں میں ان کی طرف خاص توجہ دی جاتی تھی۔ پہلا سبق شرعی طہارت کے بارے میں تھا۔ بذریعہ وضو، غسل اور مسواک بعض حالتوں میں شرعی ناپاکی کے لئے سارے بدن کا غسل مقرر تھا۔ پھر عورتوں کے حیض و نفاس اور ایام حمل کے لئے ہدایات تھیں۔ پھر دوسرے حصہ میں نماز۔ اس کے اوقات و شرائط و مطالبات کا بیان تھا اور اس حصے میں ان چار باتوں کا ذکر بھی آیا ہے جن میں عورتوں کی نماز مردوں کی نماز سے متفرق تھی۔ پھر زکوٰۃ، روزہ اور حج کا بیان ہے۔ خرید و فروخت کے قوانین ہیں۔ قرض کے لئے اور میراث وو صیت کے لئے ہدایات ہیں۔ یہ آخری مضمون بہت مشکل اور پیچیدہ ہے بعد ازاں طالب علم نکاح و طلاق بیان پڑھتا۔ اس کے متعلق اسلامی فقہ کی کتابوں نے بہت تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ پھر جرائم تشدد، جہاد اور بقر عید کی قربانی کی رسومات کا ذکر آتا ہے۔ ان فقہ کی کتابوں کے آخری تین بابوں میں عموماً قسم کھانے، شہادت دینے اور غلاموں کی آزادگی کا ذکر آتا ہے۔

ایام طفولیت سے لے کر الغزالی شافعی مذہب رکھتا تھا جو چار بڑے مذاہب میں سے ایک تھا۔ امام شافعی نے جس کے مقبرہ کی زیارت کے لئے الغزالی قاہرہ گیا اور جہاں آج تک لوگ زیارت کے لئے جاتے ہیں۔۲۰۴ھ میں وفات پائی۔ اس نے احادیث کی غلامی اور علم منطق کی آزادگی کے بین بین اسلامی شرع کی تفسیر کی بقول میکڈانلڈ صاحب

’’تاریخ شرع میں لا کلام امام شافعی سب سے افضل و اعلیٰ گزرا ہے۔ شاید ابوحنیف کی طرح یہ معقول پسند اور تیز طبع نہ تھا لیکن عقل و مزاج و طبیعت میں اعتدال اور اسباب و نتائج کا صاف علم رکھتا تھا۔ جس کی وجہ سے اس کا جواب قاطع و ساطع ثابت ہوتا۔ اس کے بعد رد وکد کی کوششیں ہوئیں لیکن وہ سب ناکامیاب ٹھہریں اسلامی شرع کی عمارت بلا جنبش کھائے کھڑی رہی‘‘۔

امام شافعی کے مقلدوں (پیروی کرنے والا،شاگرد)کا شمار اب تقریباً چھ کروڑ ہے۔ ان میں سے تقریباً نصف تو نذر لنڈ انڈیز میں پائے جاتے ہیں اور باقی مصر، شام، حضرالموت، جنوبی ہندوستان اور ملیشیا میں۔ ان سب کے درمیان الغزالی شافعی کا رتبہ سب سے بڑا ہے۔

جن دنوں میں وہ امام ابونصرالاسماعیلیہ سے تعلیم پایا کرتا تھا ان دنوں کا ایک دلچسپ قصہ بیان ہوا ہے۔ اس مشہور معلم کی تعلیم کے اس نے بہت نوٹ(Notes) لکھے تھے لیکن جو کچھ لکھا تھا اس کے حفظ کرنے میں اس نےغفلت کی۔ بقول میکڈانلڈ صاحب

’’یہ اس کی عادت معلوم ہوتی ہے کیونکہ جو اقتباسات اس نے دئے ہیں وہ اکثر بہت لاپروائی پر دلالت کرتے ہیں اور اس کے مخالفوں میں سے ایک نےیہ بڑا الزام اس پر لگایا کہ اس نے حد یث کی تکذیب کی‘‘۔

لیکن جُرجان سے طوس کو واپس جاتے وقت اس کو اچھا سبق ملا۔ ڈاکوؤں نے راہ میں اس پر حملہ کیا اس کے اتار لئے اور جس جز دان میں اس کے تحریری کا غذات تھے وہ بھی لے گئے۔ اس کی وہ برداشت نہ کرسکا۔ وہ ان کے پیچھے بھاگا اگرچہ انہوں نے اس کو موت کا خوف دلایا لیکن اس نے ان کا پیچھا نہ چھوڑا بلکہ ان سے منت کی کہ وہ کاغذات اس کو واپس کر دیں کیونکہ وہ ان کے کسی کام کے نہ تھے۔ الغزالی کو کچھ ظرافت میں بھی دسترس اور اسے اس خیال سے ہنسی آتی تھی کہ یہ چور شریعت کا مطالعہ کریں گے۔ ڈاکوؤں کے سردار نے پوچھا کہ ان کاغذات میں اس کا کیا دھرا تھا۔ الغزالی نے بڑی سادگی سے جواب دیا’’اس جزدان میں میں وہ تحریریں ہیں جن کے سننے اور لکھنے کی خاطر اور ان کا علم حاصل کرنے کے لئےدور و دراز کا سفر کیا‘‘۔ اس پر ڈاکو سردار زور سے ہنسا اور کہنے لگا ’’تم کو کیسے معلوم ہے کہ ان میں علم مندرج ہے جب کہ ہم نے تم سے وہ کاغذ چھین لئے اور اس علم سے تم کو معرا(آزاد) کر دیا اور اب تم بغیر علم کے ہو‘‘ لیکن وہ کاغذات اس نے کوواپس دےدئے۔ الغزالی کابیان ہے کہ ’’خدا نے یہ آدمی مجھے سبق سکھانے کو بھیجا تھا‘‘ پھر الغزالی واپس طوس کو گیا اور تین سال وہاں رہ کر ان سارے نوٹوں کو حفظ کر لیا تا کہ آئندہ ان کی چوری کا خطرہ نہ رہے۔

تھوڑے عرصے کےبعد طوس سے دوسری دفعہ تحصیل علم کے لئے نیشاپور گیا جہاں علامہ عصر تعلیم دیا کرتا تھا۔ نیشاپورطوس سے اونچاس (۴۹) میل مغرب کی طرف واقع تھا اور عربوں نے اسے( ۳۱ ہجری )میں فتح کیا تھا۔ یا قوتؔ نے اپنی ’’لغات جغرافیہ‘‘ میں یہ بیان کیا ہے کہنے

’’ جو جو شہر اس نے دیکھے ان سب میں وہ خوبصورت تھا‘‘۔

اسی شہر میں ہمدانی نے اپنے چار سو مقامات لکھے اور اپنے حریف پر فتح پائی۔

جن دوسرے بزرگوں کو تعلق اس شہر سے رتھا ان میں سے ایک تو عمرخیام شاعر تھا۔ ایک مفسر قرآن احمدالثعلبی اور مؔیدانی جس نے عربی امثال کو جمع کرکے ایک مشہور جلد میں رکھا۔

اس شہر یا علاقہ کا قدیم نا اَبرؔا شہرتھا۔ ساسانیوں کے عہد حکومت میں اس جگہ کو علم دین کی وجہ سے شہرت حاصل تھی۔ تین مشہور مقدس آتش کدوں میں سے ایک اس جگہ تھا۔ مسلمانوں کے ایام میں بہت عرب یہاں رہتے تھے اور خراسان کا صدر مقام ہوا اور طاہر خاندان کے خود مختار سرواروں کے دنوں میں اس نے بہت عروج حاصل کیا (۸۲۰ اور ۸۷۳ء)۔ استحریؔ نے اسے حصین مضبوط شہر بیان کیا۔ وسعت میں یہ تین میل مربع تھا۔ روئی اور ریشم یہاں سے دوسرے شہروں کو جایا کرتی تھی۔ جب سلطنت کو زوال ہوا تو ترکمانوں کے ہاتھ سے اس شہر کو بھی بہت نقصان پہنچا۔ زمانہ حال میں انہیں ترکمانوں کی یورشوں سے وہ سارا علاقہ اجڑ گیا ہے۔ ۱۱۵۳ء میں غزترکمانوں نے اسے بالکل برباد کردیا ۔لیکن یہ پھر آباد ہوا کیونکہ بقول یا قوت یہ ایسے موقعہ پر واقع تھا جہاں سے تجارت کے سارے قافلے مشرتی ممالک کو جایا کرتے تھے۔ ۱۲۲۱ میں مغلوں نے اسے مسمار کرکے زمیں سے پیوست کردیا لیکن ایک صدی کے بعد ابن بطوط نے اسے پھر سرسبز شہر پایا۔ جہاں دارالعلوم تھے، بے شمار طالب علم اور ریشم وہاں سے ہندوستان کو بھیجا جاتا تھا۔ نیشاپور اپنے میوہ جات اور باغات کے باعث بھی مشہور تھا اور اسی وجہ سے اسے ’’دمشق خورو‘‘ کہا کرتے تھے۔

جن دنوں میں الغزالی نیشاپور میں تھا ان دنوں کے مشہور معلم کا دلچسپ خاکا دیا گیا ہے۔ اس معلم کا نام ابوالمعاؔلی عبدالؔملک الجویؔنسی امامؔ الحرمین تھا۔ وہ نیشاپور کے متصل(پاس، قریب برابر ملنے والا) بمقام بوشؔتی خاں پیدا ہوا۔ ۱۲ فروری ۱۰۲۸ء کو۔ وہ اپنے زمانہ میں شرع محمدی کا سب سے بڑا اور مشہور معلم تھا۔ اس کا باپ ابومحمد عبداللہ ابن یوسف موخرالذ کر قصہ میں معلم تھا۔ اس نے بیس سال کی عمر میں اپنے باپ کے مرنے کے بعد اس جگہ لی۔ لیکن یہ وہ زمانہ تھا جس میں فوق العاوت عالم پیدا ہوئے۔ جن کی قوت حافظہ بھی فوق العادت تھی۔ اپنی تعلم کی تکمیل اور حج کی خاطر وہ بغداد کو گیا اور وہاں سے مکہ و مدینہ کو وہاں اس نے چار سال تک تعلیم دی اسی لئے اس کو یہ لقب ’’امام الحرمین‘‘ ملا۔ جب وہ نیشاپور میں واپس آیا تو نظام الملک نے اس کے لئے ایک سکول تعمیر کیا اور اپنے مرنے تک وہاں تعلیم دیتا رہا۔ آخر ۲۰ اگست ۱۰۸۵ء میں جب وہ اپنے وطن کوگیا تو وہاں وفات پائی۔ وہاں وہ علالت طبع کے باعث گیا تھا اور اسے امید تھی کہ وہاں کی آب و ہوا سے اسے صحت حاصل ہوگی۔ اپنے تعلیم و تدریس کے منصبی فرائض کے علاوہ وہ وعظ و نصیحت کا کام بھی سرانجام دیتا رہا۔ ہر جمعہ کے دن وہ مجلس کیا کرتا تھا جس میں وہ وعظ کرتا اور شرعی بحث مباحثوں کے وقت ثالث کا فرض ادا کرتا۔ علاوہ ازیں وقف جائداد کا انتظام بھی اس کے سپرد تھا ایسی جائداد کی آمدنی دینی کا روبار میں صرف ہوتی تھی۔ تین سال تک برابر وہ ان فرائض کو ادا کرتا رہا۔ اس کے مرنے پر عام ماتم ہوا جس منبر پر سے وہ وعظ کیا کرتا تھا وہ توڑ دیا گیا اور اس کے شاگردوں نے جن کا شمار چار سو ایک(۴۰۱) تھا اپنے قلم دوات توڑ ڈالے اور سال بھر تک پڑھنا موقوف رکھا۔ یہ تحقیق امر ہے کہ ان دنوں میں الغزالی نیشاپور اور بغداد میں طالب علم تھا اور گمان غالب ہے کہ اس امام کی وفات پر ماتم میں اس نے بھی حصہ لیا ہوگا۔ اس امام کی اعلیٰ تصنیف کا نسخہ بنام نہایت المطلب اب تک بمقام قاہرہ سلطانیہ کتب خانے میں محفوظ ہے۔

نیشاپور میں الغزالی اس امام کے مقبول نظروں میں سے تھا اور یہاں اس کے مطالعہ کا دائرہ بھی بہت وسیع تھا یعنی علم الہٰی علم زبان، علم فلسفہ اور منطق۔ یہاں وہ طالب علم بھی تھا اور اور معلّم بھی کیونکہ بیان ہوا ہے کہ ’’وہ اپنے ہم مکتبوں کوپڑھ کر سنایا اور ان کو سکھایا کرتا تھا لیکن تھوڑے ہی عرصے میں وہ ناتواں اور کمزور ہوگیا‘‘۔ اس دہرے کام نے اس کی صحت کو نقصان پہنچایا لیکن اس نے اپنا مطالعہ نہ چھوڑا۔ امام نے اس کے بارے میں اور دوسرے طلبا کے بارے میں ایک دفعہ یہ کہا ’’الغزالی بحرغریق(بڑے سمندرمیں ڈوبا ہوا) ہے، الکیہ پھاڑنے والا شیر ببر ہے اور الخوافی بھسم کرنے والی آگ ہے‘‘۔

ان تینوں کے بارہ میں اس کا ایک قول یہ ہے’’جب وہ آپس میں بحث کرتے ہیں تو ثبوت دینا الخوافی کا کام ہے ،محاربانہ(جنگی) حملے الغزالی کا اور وضاحت الکیہ کا‘‘۔اس کی زندگی کے اس زمانہ کے بارے میں یہ بات بھی کسی گمنام شخص کی زبان سے کہی گئی’’یہ نوجوان الغزالی ظاہراتو شیخی باز معلوم ہوتا ہے لیکن زیر سطح کچھ ایسا مادہ چھپا ہے کہ جب وہ اظہار کا موقع پایا ہے تو اس میں بیان کی خوبی اشارہ کی نزاکت اور سالم توجہ اور سیرت کی پختگی ظاہر ہوتی ہے‘‘۔

الغزالی کی زندگی کے اس حصہ کا بیان کرتے وقت میکڈانلڈ صاحب یہ کہتے ہیں

’’شاید نیشاپور میں تعلیم پاتے وقت وہ شکوک و شبہات اس کو پیداہوئے جن کا ذکر اس نے اپنی کتاب منقدح میں کیا۔ وہ ضرور(۴۸۴ ہجری )سے پیشتر اس کے دل میں پیدا ہوئے ہوں گے اور اس کے نشوونما کے عرصہ دراز میں ظہور پذیر ہوئے لیکن غالباً جب تک وہ امام الحرمین دیندار صوفی کی شاگردی میں رہا کم و بیش اپنے پرانے عقیدہ پر قائم رہا‘‘۔

شک وشبہات کے زمانہ میں اس کی روح کی جدوجہد کا اور کہ کس طرح سے اسے ان سےمخلصی حاصل ہوئی۔ اگلے باب میں بیان ہوگا۔ 

باب سوم

تعلیم۔ تبدیلی دل اور ترک دنیا

۴۷۸ھ میں امام کی وفات کے بعد الغزالی کی زندگی میں بڑی تبدیلی وقوع میں آئی۔وہ اپنی قسمت آزمائی کے لئے نیشاپور سے نکلا اور وزیر نظام الملک کے کمپو دربار میں پہنچا یہاں اس کو اس کے علم کی وجہ سے بہت عروج حاصل ہوا اور عزت پر عزت ملی۔

یہ کمپو دربار سلجوق سلاطین کا سفری دارالخلافہ تھا۔ اس شاہی کمپو میں چوک اور دربار بنے ہوئے تھے جہاں یہ کمپو جا لگتا وہاں بیانان میں آناً فاناً گویا جادو کے زرو سے ایک شہر آباد ہو جاتا تھا۔ گونا گوں مکانات اور کھجور کی جھونپڑیاں ہوتی تھیں اس کمپو کا باقاعدہ حصہ دکانوں کا بازار تھا۔ ان میں سے ہر ایک مثل چھپروں کے تھی جیسے میلوں میں دکانیں لگائی جاتی ہیں۔ مور نے ان الفاظامیں اس کی تصویر کھینچی ہے۔

یہ چمکدار خیمے کن کے ہیں جن کا جمگھٹاراہ میں لگا ہوا ہے جہاں کل اجاڑ اور سنسان بیابان تھا؟

یہ جنگ کا شہر گویا جادو کے زرو سے چند گھنٹوں میں آباد ہوگیا جس نے ستارے کے جھلکنے کے قلیل عرصے میں خلمیتار کےستون دار کمرے بنادئے طرفیہ العین میں جادو کے زور سے خیموں، گنبد اور درخشاں اسلحہ کا جہاں پیدا کر دیا۔

شاہانہ چاندنی،قرمزی رنگ کی قناتیں، جن کی چوٹی پر سونے کے گنبد لگے ہوئے ہیں۔ گھوڑے جن کے جھول زر بفت(کمخواب،ایک کپڑا جو سونے اور ریشم کے تاروں سے بُنتےہیں) کے بنے ہیں اور اونٹ جن کے گلوں میں یمن کے گھونگوں کے ہار پڑے ہیں اور ہوا کے جھونکوں سے جن کی گھنٹیاں بجتی رہتی ہیں‘‘۔

نظام الملک نے اپنی سوانحعمری خود لکھی تا کہ آئندہ مدبراں ملک کے کام آئے۔ وہ لکھتا ہے کہ ’’خراسان کے سب سے بڑے داناؤں میں سے امام موافق نیشاپوری تھا ۔جس کی عزت و تعظیم اعلیٰ درجہ کی تھی۔ خدا اس کی روح کو خوشی بخشے۔ اس کی عمر پچاسی سال سے زیادہ تھی اور یہ عالمگیر یقین تھا کہ جس لڑکے نے اس کے سامنے قرآن پڑھایا احادیث کا مطالعہ کیا۔ وہ ضرور عزت و خوشحالی حاصل کرئے گا۔ اس وجہ سےمیرے والد نے مجھے طوس سے نیشاپور معلم شرع عبدالصمد کے ہمراہ بھیجا تا کہ میں اس مشہور معلم کے زیرنگرانی مطالعہ اور تحصیل علم میں مصروف ہوں۔ مجھے ہمیشہ وہ نظر الطاف اور عاطفت سے دیکھا کرتے تھے اور میں ان کی شاگردی کا دم بھر کے ان سے ازحدانس و الفت رکھتا تھا۔ یو ں میں نے ان کی خدمت میں چار سال گزارے جب میں وہاں پہلے گیا تو میری عمر کے دو اور نئے طالب علم وہاں گئے تھے۔ حکیم عمر خیام اور دوسرا بدبخت ابن صباح جو فرقہ آساسن (قاتل) کا بانی ہوا۔دونوں جدت طبع اور اعلیٰ فطرتی قواے سے مزین(آراستہ) تھے اور ہم تینوں گہرے دوست ہوگئے۔ امام اپنا درس ختم کرتے تو یہ دونوں میرے پاس چلے آتے اور جو درسہم نے سنا تھا وہ ایک دوسرے کو سناتے۔ عمر تو نیشاپور کا باشندہ تھا اور حسن ابن صباح کا والد ایک سخص علی نامی تھا جو ریاضت کش اور عالم باعمل تھا لیکن عقیدے اور تعلیم میں بدعتی تھا۔ ایک روز حسن نے مجھے اور خیام کو کہا یہ عالمگیر یقین ہے کہ امام موافق کے شاگرد عزت و حشمت حاصل کرتے ہیں اور اگر ہم سب ایسی عزت و حشمت حاصل نہ کریں ۔

مہحراب الجامع الاھوی المشہور بالشام

تو بھی ہم میں سے ایک تو ضرور صاحب رتبہ ہوگا۔ ہم آپس میں کیا عہدوپیمان کریں؟ ہم نے جواب دیا جیسا آپ چاہیں اس نے کہا ’’اچھا ہم عہد کریں جس کی قسمت یاوری کرے وہ دوسروں کے ساتھ مساوات برتے اور کوئی بڑائی چھٹائی کا لحاظ نہ ہو‘‘۔ ہم دونوں نے جواب دیا کہ ہم کو یہ منظور ہے اور اس شرط پرہم نے ایک دوسرے کے ساتھ عہدوپیمان کیا۔ اس کے بعد کئی سال گزر گئے اور میں خراسان سے نکل کر ٹرانس آکسی آنا (Trans Osciana) کو گیا اور وہاں سے غزنی اور کابل کو اور جب میں واپس آیا تو میں سرکاری عہد ے پر ممتاز ہوا اور ترقی کرتے کرتے سلطان الپ ارسلان کے عہد حکومت میں عہدہ وزارت پر مامور ہوا‘‘۔

نیشاپور میں تعلیم ختم کرنے کے بعد نظام الملک نے الپ ارسلان کی ملازمت اختیار کی جو طغرل بیگ کے بعد تخت پر بیٹھا اور بیس سال سے زیادہ تک سلجوتی سلطنت کا بوجھ اس کے کندھوں پر رہا۔ جب( ۴۶۵ہجری)میں الپ ارسلان نے وفات پائی تو ملک شاہ اس کی جگہ تخت نشین ہوا اور ۱۰ ماہ رمضان کو( ۴۸۵ہجری)میں مقتول ہوا۔ اس وقت تک نظام الملک سلطنت میں سب سے بڑا آدمی اور حقیقی حکمران تھا وہ علوم و فنون کا دوست تھا اور اس نے کئی شہروں میں دارالعلوم قائم کئے۔

(۴۸۴ہجری) میں الغزالی نے دربار میں اعلیٰ منصب حاصل کیااور نظام الملک نے اسے بغداد کے مدر سےمیں معلم مقرر کیا جوسارےمشرقی اسلام کا صدر مقام تھا۔

ربی بنیامین ساکن تُودلا (Tudela) الغزالی کی وفات (۱۱۶۰ء) سے چند سال بعد بغداد کو گیا۔ اس نے اس شہر کا دلچسپ حال لکھا ہے وہ بیان کرتا ہے۔

’’شہر بغداد کا محیط تین میل ہے۔ جس علاقہ میں یہ واقع ہے وہاں کھجور کے درخت باغ اور باغیچے بکثرت پائے جاتے ہیں کہ سارے مسوپتامیہ میں ان کی نظیر نہیں ملتی۔ سارے ممالک کے سودا گروں کی تجارت کی خاطر وہاں آمد و رفت رہتی ہے۔ وہاں بہت دانا فلاسفر بھی پائے جاتے ہیں جوعلوم و فنون میں ماہر اور جادوگر ہر طرح کی جا دو گری میں طاق(لاثانی) ملتے ہیں۔ بغداد میں خلیفہ کے محل رقبہ تین میل ہے اس کے ساتھ جو باغ ملحق ہے اس میں ہر قسم کے درخت لگے ہیں۔ جن میں سے بعض تو مفید ہیں اور بعض محض زیبائش کے لئے ہیں۔ سب طرح کے جنگلی جانور بھی وہاں ہیں اور پانی کا ایک تالاب ہے جس میں دریائے دجلہ سے پانی آتا ہے اور جب کبھی خلیفہ اپنا جی بہلانا اور شکار کرنا چاہتا ہے تو ہر طرح کے چرند پرند اور مچھلیاں وہاں لاکر جمع کر دیتے ہیں بادشاہ اپنے امرا وزرا کو ہمراہ لے کر وہاں جاتا ہے‘‘۔

اس نے کنایتاً ہم کو یہ بھی دکھا دیا کہ شاہی محل کی چار دیواری کے اندر کیا کچھ ہوتا ہے چنانچہ وہ لکھتا ہے کہ

’’بادشاہ کے بھائی بند اور رشتہ دار اس کے لباس کو بوسہ دیتے ہیں اور خلیفہ کے محل کے احاطہ میں ان کے محل بھی ہیں لیکن ان سب کو لوہے کی ہتھکڑیاں لگی رہتی ہیں اور محل پر ایک داروغہ مقرر ہے تا کہ وہ دیکھتا رہے کہ کہیں وہ بادشاہ کے خلاف بغاوت پر آمادہ نہ ہوں۔ اس پیش بندی کی یہ وجہ تھی کہ چند سال پیشتر ایسا واقعہ و قوع میں آیا تھا جب ان بھائیوں نے سلطان کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور اپنے میں سے ایک کوسلطان چن لیا آئندہ کو ایسے امکان کے روکنے کی خاطر یہ حکم تھا کہ شاہی خاندان کے سب رکن پابز نجیر(پاؤں کازنجیر میں )ر ہیں تاکہ ان کو بغاوت کا موقعہ نہ ملے پھر بھی ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے محل میں رہتا ہے۔ہر ایک کی بڑی عزت ہوتی ہے۔ ہر ایک کے قبضے میں بعض دیہات اور قصبات ہیں اور ان کے مختار ان کا خراج جمع کیا کرتے ہیں۔ وہ کھاتے پیتے اور عیش کرتے ہیں‘‘۔

بادشاہ کا محل ایک عالیشان عمارت ہےاس میں سونے چاندی کے ستون بنے ہیں اور قیمتی جواہرات سے جڑے ہیں۔ خلیفہ سال میں صرف ایک دفعہ اپنے محل سے نکلتا ہے یعنی رمضان کی عید کی تقریب پر۔ اس موقع پر دور دور ملکوں سے لوگ جمع ہوتے ہیں تاکہ بادشاہ کادیدار حاصل کریں پھر وہ شاہی دُلدل (سیاہی مائل خچر)پر سوار ہوکر نکلتا ہے۔ شاہی لباس سے ملبس، وہ لباس زربفت کا ہے سر پردستار ہے جس میں بیش بہا قیمتی جواہرات لگے ہیں۔ اس دستار پر ایک سیاہ حجاب پڑا ہے جو عجزو انکساری کا نشان ہے جس کایہ مطلب ہے کہ ’’یہ دنیاوی شان وشوکت موت کے دن تاریکی سے مبدل ہو جائیں گی‘‘۔بے شمار محمدی اُمرا و شرفا اس کے ہمرکاب(سواری کے ساتھ) ہوتے ہیں، خلعت فاخرہ (بیش قیمت)سے ملبوس اور اپنے اپنے گھوڑے پر سوار عرب، میدیہ، فارس اور تبت کے شاہزادے (تبت عرب سے تین ماہ کی مسافت رکھتا ہے) اس کی سواری کے ساتھ چلتے ہیں۔ جو لوگ سواری کے ساتھ پا پیادہ (پیدل)چلتے ہیں۔ مردوزن سب ریشم اور ارغوانی لباس پہنے ہوتے ہیں۔ گلی کوچوں میں گانے اور خوشی کی آواز سنائی دیتی ہے اور خلیفہ کے آگے آگے طوائف ناچتی جاتی ہیں۔ عوام الناس اور انبوہ مردمان یہ نعرہ بلند کرتے ہیں ’’ہمارا خداوند بادشاہ مبارک ہو‘‘۔ اس پر خلیفہ اپنے لباس کو بوسہ دیتا اور اسے اپنے ہاتھ میں پکڑکر ان کے سلام کا جواب دیتا ہے پھر وہ سواری چلتے چلتے مسجد کےصحن میں داخل ہوتی ہے اور خلیفہ چوبی منبر پر چڑھتا ہے اور شرع کا بیان کرتا ہے۔ علماے محمدی اٹھ کر اس کے لئے دعا کرتے ہیں اور اس کی مہر بانی اور دینداری کی تعریف کرتے ہیں اس کے بعد ساری جماعت آمین کہتی ہے۔ پھر وہ ان کو برکت دیتا اور ایک اونٹ ذبح کرتا ہے جو اسی مقصد کے لئے وہاں حاضر رہتا ہے۔ یہ ان کی قربانی ہے جو اُمرا ووزرا میں تقسیم کی جاتی ہے ۔ یہ لوگ اس کے ٹکڑے اپنے دوستوں کے پاس تبرک کے طور پر بھیج دیتے ہیں کیونکہ وہ لوگ بھی اپنے مقدس بادشاہ کے ہاتھ سے ذبح کئے ہوئے جانور کا گوشت چکھنے کا بڑا شوق رکھتے ہیں اور اس کو حاصل کرکے بہت خوشی مناتے ہیں۔ پھر خلیفہ مسجد سے رخصت ہو کر دریائے دجلہ کے کنارے کنارے اکیلا اپنے محل کو جاتا ہے۔ محمدی امرا کشتیوں میں بیٹھ کر اس کے ساتھ جاتے ہیں جب تک کہ وہ محل میں داخل نہ ہو۔ جس راہ سے وہ نکلا تھا پھر اس راستے سے کبھی واپس نہیں جاتا اور سال بھر دریا کے کنارے کی راہ پر پہرا لگا رہتا ہے تاکہ کوئی وہاں پاؤں نہ رکھ سکے جہاں اس کے نقش قدم پڑے۔ پھر سال بھر تک خلیفہ اپنے محل سے نہیں نکلتا۔

’’یہ خدا ترس اور مہربان شخص ہے۔ اس نے دربار کی دوسری طرف دریائے فرات کے نالے کے کناروں پر (یہ نالہ شہر کی ایک طرف بہتا ہے) عمارات تعمیر کروائی ہیں۔ یہ عمارات عالیشان گھروں، بازاروں اور بیمار غریبوں کے لئے ہسپتالوں پر مشتمل ہیں۔ یہاں غریب بیمار علاج کی خاطر جایا کرتے ہیں۔ اس میں تقریباً ساٹھ دوائی خانے ہیں دوایاں با دشاہ کے مودی خانے سے آتی ہیں معہ دیگر مصالحوں اور ضروریات کے اور جس بیمار کو مدد کی ضرورت ہوتی ہے بادشاہ کی طرف سے اس کو خوراک ملتی ہے جب تک کہ اس کا علاج ختم نہ ہو۔ ایک اور وسیع عمارت بنام ’’دارالمستان (یعنی پاگل خانہ) ‘‘ہے۔ جو پاگل ادھر ادھر سے ملتے ان کو یہاں لاکر بند کر دیتے ہیں۔ خاص کر موسم سرما میں ایک کو پابزبخیر (پاؤں میں زنجیر پڑی ہوئی ہو) رکھتے ہیں جب تک کہ وہ ہوش و حواس میں نہ آئے پھر اس کو گھر جانے کی اجازت ملتی ہے‘‘۔

بغداد کے دسترخوان پر جو طرح طرح کے کھانے چنے جاتے تھے ان کا کچھ حال ہمدانی ہم عصر شاعر نے بیان کیا ہے جس کا ذکر یہاں کرنا خالی ازلطف نہ ہوگا۔

’’ہم ایک جماعت میں جاشامل ہوئے۔ ان کے آگے پھول پتیاں سجی ہوئی تھیں۔ پھولوں کے گلدستے لگے تھے۔ شراب کے پیالے دھرے تھے اور نے وبربط کی شیریں آواز آرہی تھی۔ ہم ان کی طرف گئے اور وہ ہمارے استقبال کو آئے۔ پھر ہم اس دسترخوان پر گئے جس کے سارے برتن اَلوان(گوشت،بہت سے رنگ) نعمت سے بھرے تھے۔ جن کے باغیچے پھولوں سے لدے تھے۔ جن کی طشتریاں اور رکابیان مختلف رنگوں سے آراستہ صف درصف چنی ہوئی تھیں۔ ایک طرف تو سیاہ رنگ کی قطار تھی‘‘

اور دوسرے مقام میں اس نے یہ لکھا ’’قحط کے سال میں مجھے دمشق جانے کا اتفاق ہوا اور ایک جماعت کے نزدیک گیا تا کہ ان کچھ پوچھوں۔ ان میں ایک نوجوان تھا جس کی زبان میں قدرے لکنت(قدرت، طاقت، توانائی) تھی اور سامنے کے دانتوں میں فاصلہ تھا۔اس نے پوچھا تیرا کیا کام ہے؟میں جواب دیا کہ ’’دو حالتوں میں آدمی بختآور(خوش نصیب) نہیں ہوتا۔ ایک تو درویش جسے بھوک نے ستا رکھا ہو اور ایک پردیسی جس کے لئے اپنے وطن کو جانا ممکن ہو‘‘۔ تب اس لڑکے نے کہا ’’تو ان دو مصیبتوں میں سے کو ن سی مصیبت سے پہلے بچنا چاہتا ہے؟‘‘ میں نے جواب دیا بھوک سے کیونکہ اس کی شدت نے مجھے تنگ کر رکھا ہے اس نے کہا ’’صاف دسترخوان پر سفیدنان کے بارے میں کیا کہتا ہے۔ عمدہ سبزی اور عمد سرکہ اس کے ساتھ ہے نفیس کھجور کی شراب ہے اور اس کے ساتھ رائی کی چاشنی ہے گوشت کاکباب ہے اور نمک ساتھ دھرا ہے یہ چیزیں وہ تیرے آگے رکھ دے گا جو نہ وعدوں کے ذریعہ التوا میں ڈالے گا اور نہ توقف کے ذریعہ تجھے دکھ دے گا اور جو ان کے بعد شراب انگور کے پیالے تیرے آگے لادھر ے گا۔ کیا یہ تجھے پسند ہے یا ایک بڑی جماعت، بھرے پیالے، بوقلموں خواں، غالیچے بچھے، صاف شفاف روشنی اور ماہر مطرب جس کی آنکھ اور گردن ہرن کی طرح ہو‘‘؟

اس سے ناظرین اندازہ لگا سکیں گے کہ جب الغزالی نظام الملک یا کسی دیگر امرا کے ہاں کھانا کھانے گیا ہوگا تو کیسی کیسی نعمتیں دسترخوان پر اسے ملی ہوں گی اور بغداد میں کوئی کال نہ تھا۔

نظامیہ کالج جہاں الغزالی نے تعلیم پائی اور اپنی زندگی کے دو موقعوں پر درس دیتا رہا۔ دریائے دجلہ کے مشرقی کنارہ پر کشتیوں کے پل کے متصل اور ساحل اور بڑی منڈی کے کے نزدیک واقع تھا۔ اس کالج کی بنیاد ۱۰۹۵ء میں خاص کرشافعی مذہب کی تعلیم کے لئے پڑی۔ اس کالج کے نزدیک ایک دوسرا کالج بنام ’’بہاٹیہ‘‘ اور ایک ہستپال بنام ’’مارستاں تتوشی‘‘ تھا۔

ابن جبیر سیاح نے جب وہ بغداد میں(۵۸۱ ہجری)میں پہنچا تو پہلے جمعہ کا نظامیہ کالج میں نماز پڑھی۔ اس نے بیان کیاکہ اس مشرقی شہر بغداد میں اکتیس(۳۱) عالشان کالج تھے۔ ابن جبیر نے یہ بھی بیان کیا کہ سرکار کی طرف سے جو عطیات ملے تھے اور کالج کے متعلق مکانات سے جو کرایہ حاصل ہوتا تھا وہ پروفیسروں کی تنخواہیں ادا کرنے اور عمارت کی مرمت وغیرہ کے لئے کافی وافی(بہت سے، پورا پورا) تھے۔ علاوہ ازیں غریب طلبا کے گزارہ کے لئے مزید فنڈ تھا۔ سوق یا نظامیہ کی منڈی اس محلہ میں بہت آمدو رفت کی جگہ تھی اور یہ مشرعہ کے متصل واقع تھی۔ اس سے ظاہر ہے کہ یہ کالج دریائے دجلہ کے کنارہ کے نزدیک تھا ۰۰۰۰ ابن بطوط سے تقریباً بارہ سال بعد حمؔد اللہ فارسی مورخ نے مختصرًا نظامیہ کالج کا ذکر کیا۔ اس کے بیان کے مطابق یہ کالج بغداد کے ’’مدرسوں کی ماں‘‘ تھا۔ اس سے ثابت ہے کہ چودہویں صدی مسیحی کے وسط تک کالج موجود تھا۔اگرچہ زمانہ حال میں اس کے سارے آثار معدوم(فنا،غائب) ہوچکے ہیں ۔بلکہ گزشتہ صدی کے وسط میں بھی یہی حال تھا ۔کیونکہ نائی بؔور (Nie Bohr) نے خلفا کے اس صدر مقام شہر کے کھنڈرات کا بیان کیا ہے جو اس کے وہاں جانے کے وقت موجود تھے لیکن ان میں نظامیہ کالج کے کھنڈرات کا کچھ ذکر نہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت اس کے کچھ آثار باقی نہ رہے تھے۔

نظامیہ سکول ہی میں پہلے پہل الغزالی نے با اختیار معلم کے طور پر تعلیم دینا شروع کیا۔ اس کے درسوں کے سننے کے لئے ایک انبوہ(بھیڑ، ہجوم) جمع ہوجاتا تھا۔ شرعی فتویٰ بھی اس نے جاری کئے شرعی امور کے بارے میں اس نے کئی رسالے لکھے۔ مسجد میں وعظ کئے اور لوگوں کی امامت کی لیکن عین اس عروج کی حالت میں ناگہاں اس میں ایک عجیب تبدیلی واقع ہوئی۔ ایک عجیب بیماری اسے لاحق ہوگئی۔ اس کی زبان رکنے لگی۔ اس کی بھوک جاتی رہی اور اس کے طبیبوں نے یہ کہا کہ اس بیماری کی وجہ دماغی تکان(تھکاوٹ) تھی۔ وہ اچانک ماہ ذوالعقد میں (۴۸۸ہجری) بغداد سے نکل گیا اور اپنے بھائی کو اپنی جگہ درس کے لئے مقرر کیا اور اپنی جائداد کو ترک کر دیا صرف اتنی رکھ لی جو اس کے اور اس کے بچوں کے گزارے کے لئے کا فی ہو۔

اس زمانے کے علم الہیات کے علما کی سمجھ میں نہ آیا کہ اس نے ایسے عہدے اور عزت کو کیوں یک لخت ترک کر دیا۔ انہوں نے اس کے تارک الدنیا ہونے کو اسلام کے لئے ایک آفت سمجھا۔ بعضوں نے سمجھا کہ سرکار کا خوف تھا کسی نے خیال کیا کہ ذمہ داری کے بوجھ سے ڈر گیا ۔لیکن اس نے اپنی کتاب بنام ’’اقرارات ‘‘ میں اس کی حقیقی دجہ بیان کی ہے۔ اس کتاب میں اس کے روحانی تجربات کا ذکر ہے جو ایام شباب سے پچاس سال کی عمر تک ہوئے تھے۔اس نے یوں بیان کیا

’’اے میرے بھائی (خدا راہ راست میں تیری ہدایت کرے) جان لے مذاہب اور عقائد کا اختلاف اور تعلیمات اور فرقوں کے تفرفات جنہوں نے انسانوں کو پھاڑ رکھا ہے وہ اس گہرے سمندر کی طرح ہیں جہاں جابجا تباہ شدہ جہازوں کے ٹکڑے سطح پر پھیلے ہوئے ہیں۔ ان کی وجہ سے معدودے چند ہی صحیح سلامت ساحل تک پہنچتے ہیں۔ یہ تو سچ ہے ہر فرقہ اپنی تعلیم ہی کو راست اور وسیلہ نجات مانتا ہے۔ بقول قرآن ’’ہر فریق اپنے عقیدہ میں خوش ہے‘‘ لیکن جیسے سردر انبیا نے جن کا قول ہمیشہ صادق ہے،ہمیں یہ فرمایا کہ میری امت ستر سے زیادہ فرقوں میں منقسم ہو جائےگی لیکن ان میں سے صرف ایک فرقہ ہی نجات پائیں گا۔ ضرور ہے کہ نبی کی یہ پیشینگوئی دوسری پیشینگوئیوں کی طرح پوری ہو‘‘۔

سن بلوغت سے اس عمر تک جو اس وقت پچاس سال سے زیادہ ہوگی میں نے اس بحر عمیق (بڑاگہراسمندر)میں غواصی(غوطہ خوری) کی اور ہر فرقے کے عقائد کو دریافت کیا اور ہر مسئلہ کے راز کی تحقیق کی تاکہ میں صدق (سچ)کو کذب (جھوٹ)سے جدا کروں اور صحیح تعلیم کو بدعت سے امتیاز کروں۔ مجھے کبھی کوئی ایسا سخص نہیں ملا جس نے اپنے عقیدے کی حقیقت دریافت کئے بغیر قرآن کے پوشیدہ معنی سمجھ لئے ہوں یا اپنے مسائل کے نتائج کی تفتیش کئے بغیر قرآن کے بیرونی معنی کی جمایت کی ہو۔ ایسا کوئی فلاسفر نہیں گزرا جس کے فلسفہ کی تہ تک میں نہ پہنچا ہوں نہ کوئی ایسا عالم الہیات ہے۔ جس کی تعلیم کے عُقدے (گِرہ،بھید)میں نے حل نہ کئے ہوں۔

تصوف کا کوئی ایسا راز نہیں جس کو میں نے دریافت نہ کیا ہو۔ خدا کے دیندار مداؔح نے اپنی ریاضتوں کا مقصد مجھ پر منکشف کیا۔ دہر یہ لوگوں نے اپنی بے اعتقادی کی اصلی دجہ مجھ سے نہ چھپائی۔اوائل عمر ہی سے علم کی پیاس میرے باطن میں تھی۔ خدا نے گویا یہ میری جبلت کردی تھی کہ خواہ میں چاہوں یا نہ چاہوں وہ مجھ میں موجود تھی۔ جب ایام طفولیت سے میں عبور کیا تو میں احادیث کی زنجیریں توڑ چکا تھا اور موروثی عقائد سے آزادہو گیا تھا۔

’’میں نے دیکھا کہ کیسے مسیحیوں کے بچے مسیحی ہوتے ہیں اور مسلمانوں کے بچے مسلمان اور مجھے یہ حدیث بھی یاد تھی جو رسول خدا سے منسوب ہے کہ ’’ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے پھر والدین اس کو یہودی، مسیح، یازرتشتی بنالیتے ہیں‘‘۔ مجھے یہ آرزو ہوئی کہ اس فطرت کو دریافت کروں جو ہر بچے میں پائی جاتی ہے اور جو عقائد والدین اور استادوں کے ذریعے سے اس کو حاصل ہوتے ہیں اور آخر کار ان کی تعلیمات کے ذریعہ نا معقول یقین اس میں پیدا ہوتا ہے۔

اس کے دل میں شک شکوک بھرے ہوں گے جب اس نے یہ بیان کیا ’’شاید بقول سردرانبیا موت ہی وہ حالت ہوگی (وہ ایسی حالت کے امکان کا ذکر کر رہا ہے جس کا ہماری موجود حالت سے وہی علاقہ ہوگا جو اس موجودہ حالت کا حالت خواب سے ہوتا ہے) آدمی حالت خواب میں ہیں۔ جب وہ مرتے ہیں تو وہ بیدار ہوتے ہیں۔ ہماری موجودہ زندگی بلحاظ مستقبل زندگی کے شاید خواب ہی کی مثل ہے اور آدمی مرنے کے بعد اشیا کو بالکل ان سے مختلف پائے گا جو اس وقت اس کو نظر آرہی ہیں۔

’’ایسے خیالات نے میری عقل کو پریشان کردیا اور میں نے ان سے بچنے کی کو شش کی لیکن کیسے؟ اس مشکل عُقدہ کو حل کرنے کی خاطر ایک ثبوت کی ضرورت تھی۔ اب ایسا ثبوت ابتدائی قیاسات پر مبنی ہوگا اور مجھے ان ابتدائی قیاسات پر ہی شک تھا۔ یہ کمبخت حالت دو ماہ تک رہی۔ یہ تو سچ ہے کہ اس عرصے میں ظاہری یا برملا طور پر تو نہیں لیکن اخلاقی اور اصلی معنی میں میں بالکل بے اعتقاد تھا‘‘۔

یہ جاے تعجب نہیں کہ امام غزالی کی یہ حالت ہو۔ بغداد اور بصرہ میں اسی سے پچاس سال پہلے آزاد خیالات کے مدرسے قائم ہوچکے تھے۔ ہر جمعہ کو وہ جمع ہوا کرتے۔ ان میں سے بعض تو معقول پسند تھے اوربعض بالکل مادیہ۔ نہ صرف فلاسفر بلکہ بعض شاعر بھی ان فریق کے ہادی تھے۔ ان میں سے ہم ابوالاعلیٰ۔ اَلمعرّی کا ذکر کریں گے جو ۹۷۳ء میں پیدا ہوا۔ اس نابینا شاعر نے محمد کی تقلید میں ایک قرآن تصنیف کیا اور جب کسی نے اس یہ شکایت کی کہ گوکتاب بہت عمدہ لکھی گئی لیکن اس کی تاثیر دل پر ویسی نہیں ہوتی جیسی کہ اصل قرآن کی ہوتی ہے تو اس نے یہ جواب دیا کہ اس کی تلاوت چار سو سال تک مسجدوں کے منبروں پر سے ہو لینے دو تب تم اس سے محظوظ(بہرہ مند، مسرور، خوش و خرم) ہوگے۔ اس کی رباعیاں عمر خیام کی رباعیوں کی طرح دنیا کے تاریک پہلو کو ظاہر کرتی ہیں اور اسلامی نقطہ خیال سے کفر کے درجہ تک پہنچتی ہیں۔ مثلاً اس نے یہ لکھا۔

’’بہت مذاہب اور بہت پھندے ہیں اور بہت رہنما ۔ان میں سے کونسا خداوند ہے؟ اور فی الحقیقت محمد کے ہاتھ میں تلوار ہے۔ شاید شاید صداقت بھی اس کے پاس ہو؟ ایک مذہب کا زور اس وقت تک رہتا ہے جب تک کہ دوسرا اس کو مغلوب نہ کرے کیونکہ انسان محض انسان کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی جرأت نہیں کرتا بلکہ ہمیشہ کسی فسانہ کو پسند کرتا ہے۔ میں کہتا ہوں دین ایک دلفریب لڑکی ہے لیکن اس غریب دہلیز کے اندر آنا پسند نہیں کرتی کیونکہ میں افسوس اسے بے نقاب نہیں کرسکتا اور نہ اس کا حق مہر ادا کرسکتا ہوں‘‘۔

نہ اس مصنف کے دل میں اسلام کی عزت ہوگی جب اس نے یہ رقم کیا۔

’’وہ بہادر شخص کہاں ہیں جو آنے والے جہاں کے بہادروں کے قصے گاتے ہیں؟’’جن کا وہ بیان کرتے ہیں اور گویا ہوا میں ان کو لٹکاتے اور دھاگے کا لنگر ڈالتے ہیں‘‘ دو سودا گروں نے جنگ کرنے پر اتفاق کیا۔ اس امر کو ثابت کرنے کے لئے کہ کس نے سب سے عمدہ اشیا فروخت کیں۔اور جب محمد نے نماز کے لئے بلا نے کے واسطے بلند آواز سے اذان دی تو حقیقی مسیحا نے اپنی چوبی صلیب کو کھٹکایا‘‘۔

جیسے مسیحی تاریخ میں انیسویں صدی تھی ویسی ہی اسلام کی تاریخ میں گیارہویں صدی تھی ۔سائنس اور دین کے مابین سخت جنگ چھڑی رہی۔ فرقہ معتزلہ کے معقول پسند مدرسوں نے بہت تاثیرکی اور منقول پسند اور اسلام کے نابینا مقلد دینداری کی نسبت فریسی پن کے لئے زیادہ مشہور تھے۔

الہمدانی کی کتاب ’’مقامات‘‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ برملادینی نمازوں کے بارہ میں ان بے اعتقادوں کی رائے کیا تھی۔ہمدانی نے بیان کیا کہ

’’میں اپنے رفیقوں سے چپکے سے علیٰحدہ ہوگیا جب کہ وہ جماعت کے ساتھ مل کرنماز پڑھنے لگے میں بھی شامل ہوا۔ اگرچہ مجھے اندیشہ تھا کہ جس قافلہ کو میں چھوڑ کر آیا ہوں وہ چلا نہ جائے۔ لیکن صحرا کی مشکل پر فتح پانے کے لئے میں نے نماز کے ذریعہ مدد مانگی اور میں نمازیوں کی پہلی صف میں جا کھڑا ہوا۔ امام محراب کے نیچے جاکھڑا ہوا اور قرآن کی پہلی سورۃ پڑھنی شروع کی اور مد و ہمزہ کے تلفظ کا جھگڑا شروع کیا اور مجھے قافلہ سے جدا ہونے سواری نی ملنے کا اندیشہ بڑھتا گیا۔ تب امام نے سورۃ فاتحہ کے بعد سورۃ الواقع شروع کردی اور میرے دل میں بیقراری بڑھتی گئی اور میں زبردستی سے اپنے تئیں روکنے لگا اور غیض و غضب کی آگ سے بھن کر کباب ہورہا تھا۔ لیکن اس جگہ کے لوگوں کے وحشیانہ جوش کا حال مجھے معلوم تھا۔ اگر نماز میں سے آخری سلام کا حصہ قطع کر دیا جاتا تو سوائے خاموشی اور تحمل یا بولنے اور موت کے سوا چارہ نہ تھا۔ اس لئے اس سورۃ کے خاتمہ تک مجبورًا کھڑا رہا۔ اب قافلہ کی طرف سے تو مجھے مایوسی ہوگئی اور خوراک و سوای کی امید نہ رہی۔پھر امام نے ایسی انکساری اور جذبے سے رکوع کے لئے پشت خم کی کہ جس کی مثل میں نے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا پھر اس نے اپنے ہاتھ اور سر اٹھا کر یہ کہا ’’خدا اس کی حمد قبول کرے جو اس کی حمدکرتا ہے‘‘ اور پھر وہ خاموش کھڑا رہا جس میں نے گمان کیا کہ وہ سو گیا۔ پھر اس نے داہنا ہاتھ زمین پر رکھا اور پیشانی خاک پر اور اپنا منہ رگڑا۔ میں نے سر اٹھا کر دیکھا کہ بھاگنے کا کوئی موقع ہے لیکن صفوں میں سے نکل بھاگنے کی کوئی راہ نظر نہ آئی اس لئے پھر میں نماز میں لگ گیا۔ حتیٰ کہ اس نے دوزانو بیٹھ کرتکبیر پڑھی پھر دوسرے رکوع کے لئے کھڑا ہوا اور سورۃ فاتحہ اور سورۃ قاریہ کو ایسے لجے سے اور آہستگی سے پڑھنے لگا کہ گویا قیامت تک ختم ہی نہ کرے گا اور جماعت کو تھکا دیا اور جب دو رکوع ختم کرچکا تو کلمہ شہادت پڑھنے کے لئے ہونٹ ہلانے لگا اور آخری سلام کے لئے داہنے اور بائیں اپنا منہ پھیرا تب میں نے کہا ’’اب خدا نے بھاگنے کی راہ آسان کر دی اورمخلص نزدیک ہے لیکن اتنے میں ایک آدمی نے اٹھ کر کہا ’’جو مسلمان امت کے رفیقوں کو پیار کرتا ہے وہ ایک لمحہ کے لئے اپنے کان میری طرف لگائے‘‘۔

مسلمان رسم پرستوں کی ایسی تاثیر دوسروں پر ہوئی تھی۔

ان پابند شرع عالموں کے شک شکوک دور نہ ہوئے اور نہ کسی مسلمان کے آج تک ہوئے ہیں پروفیسر مکڈانلڈ صاحب نے اس کی وجہ بتائی ہے۔

’’ان عالمان دین کے مقدمات کو قبول کر لو تو وہ بحث کر سکیں گے۔ ان مقدمات کو رد کر دو تو پھر کسی دلیل کی گنجائش نہ تھی ان کے علم کا بانی العشری تھا جس نے یہ علم معتزلہ فرقہ کو جواب دینے کے لئے اختراع کیا اور اس نے کامیابی سے یہ کیا لیکن اس نے یہاں ہی بس کی۔ بدعتیوں کے مقابلہ میں وہ اپنے عقیدے کی حمایت کرسکتے تھے ان کے نقص وسقم کو کھول کر بیان کر سکتے تھے لیکن بے اعتقادوں کے مقابلہ میں وہ لاچاروبیکس تھے۔ یہ تو سچ ہے کہ انہوں نے یہ کوشش تو کی کہ اہل فسلفہ کا مقابلہ انہیں کی دلائل سے کریں جوہر اور عاض اور عقل اولیٰ کی بحث کو لیں لیکن اس میں ان کی کوشش ناکام رہی۔ ان کو اس مضمون کا لازمی علم حاصل نہ تھا اور نہ اس کی علمی بنیاد تھی اور اس لئے آخر کار انہوں نے منقول ہی پر تکیہ کیا‘‘۔

نہ فلسفہ میں اس کو روشنی ملی۔ گو اس نے مختلف فلسفوں کا مطالعہ کیا اور ان کی تردید لکھی۔ دین کا تعلق محض عقل سے نہیں بلکہ دل سے ہے۔ فلسفہ کی بھی اس میں جگہ ہے۔ لیکن اس سے محض عقل کی تشفی ہوسکتی ہے لیکن روح انسانی کے تقاضات اس سے پورے نہیں ہوتے بعد ازاں اس نے تعلیماتیوں کی تعلیم کا امتحان کیا۔ یہ فرقہ اسماعیلیوں کا ہم عصر فرقہ تھا جس کا بانی حسن ابن الصباح تھا۔ ان کی تعلیم یہ تھی کہ امام لاغلطہ ہوتا ہے۔ بہت لوگ اس فرقے کے پیرو ہوگئے لیکن الغزالی نے بجائے ماننے کے چند رسالے اس کی تردید میں لکھے۔ اس پریشان و حیران طالب حق کے لئےسوائے تصوف کے اور کوئی راہ نہ تھی یہ وہی تعلیم تھی جو اس نے شروع میں طوس اور نیشاپور میں حاصل کی تھی اور اپنے وطن میں جس کا چرچا سنا تھا کیونکہ صدیوں سے وہاں اس تعلیم کا زور تھا۔ اپنی زندگی کے اس زمانہ کے بارے میں وہ یہ کہا کرتا تھا۔

’’جب نے عوام کی تقلید میں غوطہ لگانا اور ان کے پیالے سے پینا چاہا تو میں نے اپنی روح پر نظر ڈالی اور میں نے دیکھا کہ اس پر کس قدر حجاب پڑا ہوا تھا۔ اس لئے میں صحرا نشین ہوگیا اور چالیس روز تک چلّہ میں رہا اور اس وقت مجھے وہ علم حاصل ہوا جو میرے ماحصل علم سے زیادہ خالص اور عمدہ تھا۔ پھر میں نے اس پر نظر ڈالی تو کیا دیکھتا ہوں کی اس میں شرعی عنصر ملا ہوا ہے۔ میں پھر گوشہ نشین ہوا اور چالیس دن تک پھر چلّہ کھینچا اور پہلے کی نسبت بھی زیادہ اعلیٰ اور افضل علم مجھے حاصل ہوا اور میرے دل میں بڑی خوشی ہوئی جب پھر میں نے اس پر نگاہ کی تو میں نے دیکھا کہ اس میں بہت کچھ قیاسی عنصر ملا ہواتھا۔ اس لئے میں نے تیسری دفعہ خلوت نشین ہوکر چالیس دن کا چلّہ کیا۔ اس وقت مجھے ایک اور علم حاصل ہوا۔ جو محض خیال نہ تھا بلکہ عینی تھا اور میں باطنی علوم کے اصحاب تک نہ پہنچا۔ اس لئے میں جانتا ہوں کہ جس تختی پر سے کچھ مٹا کر لکھا جائے وہ تحریر ایسی صاف اور عمدہ نہیں ہوتی جیسی وہ تحریر جو کوری اور صاف تختی پر لکھی جائے اور معدودے چند اشیا کے۔ سوا کسی دوسری شے کی نسبت میں قیاس کے پنجہ سے نہ چھوٹ سکا‘‘۔

ان سطور کو پڑھ کر کس کو شک باقی رہے گا اس نے خدا اور حق کی تلاش میں خلوص قلبی سے کام نہیں لیا؟ اپنی کتاب ’’اقرارات‘‘ میں اس نے یہ باقی قصہ بھی بیان کیا

’’میں نے معلوم کر لیا کہ علم تصوف تعریفات پر مشتمل نہیں بلکہ تجربات پر اور جس بات کی کمی مجھ میں تھی وہ تعلیم کی نہ تھی بلکہ وجد(صوفیوں کی اصطلاح وہ حالت بیخودی جو بعض اشخاص کو سماع سے ہوتی ہے۔) اور بیعت(مریدبننا) کی تھیں‘‘۔

’’جس تحقیقات میں مجھے مصروف ہونا پڑا اور دینی اور قیاسی علوم کی تحصیل میں جوراہ مجھے طے کرنی پڑی ان کے ذریعہ تین امور کا مجھے پختہ یقین ہوگیا یعنی خدا، الہام اور یوم الحساب کا۔ دین کے ان تین بنیادی اصولوں کومیں نے پختہ طور سے مان لیا نہ محض خاص دلائل کے زور پر۔ لیکن اسباب، واقعات اور اثبات کے مسلسل سلسلہ سے جن کا بیان کرنا ناممکن ہے۔ میں نے یہ معلوم کرلیا کہ خدا پرستی، جذبات پر قابو پانے ہی کے ذریعہ آدمی نجات حا صل کر سکتا ہے۔ اِس عمل، میں یہ تو فر ض کر لیا گیا ہے کہ آدمی نے اِس جھو ٹی دنیا کو تر ک کر کے ا ُ س سے دل ہٹا لیا ہے تاکہ وہ ا بد یت اور خدا کا دھیا ن کر نے کی طر ف متو جہ ہو۔ آ خر کا رنے یہ دریا فت کیا کہ کا میا بی کی شرط واحد یہ تھی کہ دنیا وی عزت و دولت کو آدمی قر بان کر دے اور دنیا وی زندگی کے تعلقات اور رشتو ں سے قطع کر ے ‘‘۔

جب میں اپنی حا لت پر سنحید گی سے سو چنے لگا تو میں نے دیکھا کہ میں تو چا روں طر ف سے زنجیروں کےسا تھ جکڑ بند ہو ں میں نے اپنے افعا ل کا امتحا ن کیا اور مجھے افعال حسنہ دکھا ئی دیتے تھے۔ یعنی درس و تد ریس کا کام تو مجھے یہ دریافت کرکے حسر ت ہوئی کہ میں کیسی کم وقعت علو م کی تحصیل میں لگا رہا جو میر ی نجا ت کے لئے ہر گز مفیدنہ تھے۔ اور جب میں نے اپنے درس تدریس کی غر ض کوپر کھا تو مجھے یہ معلو م ہو کہ میں نے خلو ص دِ لی سے خد ا کو مد نظر نہیں رکھا بلکہ دنیا وی عزت و شہر ت کو۔ میں نے یہ معلوم کر لیا کہ میں ایک کر اڑے (دریا کابلند کنارہ) کے کنا رہ پر کھڑا ہوں اور اگر فوراً دل میں تبدیلی نہ ہو تو میں آتش ابد ی میں جھو نک دیا جا ؤ ں گا۔ بہت عر صے تک میں انہیں کے خیا لا ت غلطان رہا اور ابھی تک اِ س دُبد ھے ہی میں تھا کہ میں نے ایک دن یہ عزم کر لیا کہ بغد اد نکل بھا گو ں اور مال متا ع سب تر ک کردوں۔ لیکن دوسر ے دن ہی یہ عزم جا تا رہا میں ایک قدم آگے بڑھا تا تھا اورپھرفوراً پیچھے ہٹا لیتا تھا۔ صبح کو تو یہ پختہ ارادہ ہو تا کہ اب میں فقط عا قبت (آخرت)کی فکر میں ہی رہو گا۔ شا م کو جسمانی خیا لات حملہ آور ہوتے اور میر ے ارادوں کو منتشر کر دیتے۔ ایک طرف تو دنیا لالچ کی زنجیر وں کے سا تھ مجھے اپنے عہد ے سے باندھ دیتی اور دوسر ی طرف دین کی آواز چلا چلا کر مجھے یہ کہتی تھی ’’اُٹھ اُٹھ‘‘تیر ی زندگی کا انجام نزدیک ہے اورتجھے دور دراز کا سفر درپیش ہے جس علم کا تو فخر کر تا ہے وہ تو دور غ(جھوٹ) و وہم ہے۔ اگر تو اپنی نجات کی فکر نہ کر ےگا تو پھر کب کر ے گا؟ اگر تو اپنی زنجیر وں کو آج نہ تو ڑے گاتوکب توڑے گا؟ اس وقت میر ے ارادے میں استقلا ل آجاتا اورسب کچھ چھو ڑ کر بھا گ جا نا چا ہتا۔ لیکن ابلیس آکر پھر حملہ کر تا اور یہ کہتا تھا تو عارضی خیا لا ت سے دکھ اُ ٹھا رہا ہےاُن سے مغلوب نہ ہو کیونکہ یہ جلد جاتے رہیں گے۔ اگر تو ان کی بات مان کر اپنا ایسا عمد ہ عہدہ چھو ڑ دے گا اورایسی عزت کی جگہ جس میں نہ کو ئی تکلیف ہے نہ کو ئی حریف۔ یہ حکومت جو حملو ں سے محفو ظ ہے تو بعد ازاں بہت پچھتائے گا اور پھر یہ مو قعہ ہا تھ نہ آئے گا۔

الغر ض جذبا ت نفسانی اورتمنا ے دینی کی کشمکش سے میر ی جا ن شکجنے میں تھی اورحا ل یہ چھ ماہ تک رہا۔ ۱۰۹۶ء کے ما ہ رجب سے لےکر اِن چھ ماہ کے اختتام پر میں رضا بہ قضا ہو ا۔ خدا نےمیری زبان میں لکنت (ہلکا پن) ڈال دی اور درس دینےسے مجھے روک دیا۔ اپنے شاگردوں کی خا طر میں نے بہت چاہا کہ درس تد ریس کا کام جاری رکھوں ۔لیکن میری زبان گُنگ ہو گئی۔

جب میرے قوا ئے جسمانی میں ضعف (کمزوری)آگیاتب طبیبوں نے میر ے بچانے کی خا طر مایو س ہوکر یہ کہاکہ یہ مرض دل میں ہے جس کا اثر سارے بد ن پر ہو رہا ہے اوراس کا کچھ علا ج نہیں جب تک کہ اِ س شدت غم کا سبب دور نہ ہو۔

آخر کا ر اپنی نا تو انی اور روح کی پر یشانی کو دیکھ کر میں نے خدا میں پنا ہ لی جیسے وہ شحض پناہ لیتا ہےجسکا کوئی حیلہ وسیلہ نہیں رہتا۔ جو ’’کمبختوں کی سنتا ہے جب ہو اس سے فر یا د کرتے ہیں‘‘(قرآن ۲۸-۶۳)’’اس نے میر ی آواز بھی سنی اور اُ س نے مجھے تو فیق عنا یت کی کہ میں عز ت دولت اور عیال و اطفال کو تر ک کروں‘‘۔(اقر ارا ت صفحہ ۴۲سے ۴۵)لفظ تبدیلی دل سے روحا نی طور یہا ں وہی مرا د نہیں جو مسیحی دینمیں مر ادظاہر ہےلی جاتی ہے۔ چنا نچہ ما بعد بیا ن سےیہ ظا ہر ہے اُس نے بہا نہ کیا ’’میں نے برملایہ بیا ن کیا کہ میں مکہ کےحج کا ارادہ رکھتا ہوں۔حالا نکہ دل میں یہ اِرادہ تھا کہ شا م کو جاؤں لیکن میں یہ نہ چا ہتا کہ خلیفہ (زادحشمتہ) یا میرے دوست میرے اِس ارادے سےآگا ہ ہوں کہ اس ملک میں یہاں سے جا کر رہنا چاہتا ہوں۔ میں نے بغداد چھوڑنے کے ہر طرح کے حیلے بہانے کیے۔ حالانکہ میرا ارادہ تھا کہ میں وہاں پھر کبھی واپس نہ جاؤں۔ عراق کے اماموں نے ایک دل ہو کر مجھ پر نکتہ چینیاں کیں۔ ان میں ایک بھی یہ نہ مانتا تھا کہ اس قربانی کی کوئی دینی غرض تھی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ دینی جماعت میں مجھے سب سے اعلیٰ رتبہ حاصل تھا۔ ان کی عقل کی رسائی یہیں تک ہے۔ (قرآن ۵۳۔۳۱)۔

میری اس روش کے ہر طرح کے سبب بتائے جاتے تھے۔ جو لوگ عراق کی حدود سے باہر رہتے تھے انہوں نے تو یہ کہا کہ سرکار کے خوف سے میں نے یہ کام کیِا اور جو وہیں رہتے تھے اور جنہوں نے دیکھا تھا کہ حکام نے مجھے باز رکھنےکی کیسی کوشش کی اور میرے اس ارادے سے کیسے ناراض تھے اور اس امر سے کہ میں نے ان کی درخواست نا منظور کی۔ انہوں نے اپنے دل میں یہ کہا ’’یہ آفت ہے جسے آدمی قسمت ہی سے منسوب کر سکتا ہے۔ یہ ایمان داروں اور عالموں کی قسمت میں تھا ‘‘۔

آخر کار میں بغداد سے نکل آیا اور مال و متاع کو ترک کر دیا۔ چونکہ عراق کی زمین اور جائیداد خیراتی مقاصد کےلیے کافی آمدنی دے سکتی تھی اس لیے میں نے شرعی طور پر یہ اجازت حاصل کر لی کہ میں اس میں سے اس قدر آمدنی رکھ لوں جو میرے اور میرے بچوں کے گزارہ کے لیے کافی ہو۔ کیونکہ دنیامیں اس سے زیادہ اور کیا جائز ہو گا کہ عالم اپنے خاندان کے کافی گزارہ کے لیے سامان بہم پہنچائے۔ اس کے بعد میں شام کو چلا گیا اور وہاں دو سال تک رہا اور یہ عرصہ میں نے گوشہ نشینی، ذکر اور ریاضت میں گزارا۔ مجھے صرف یہ فکر تھی کہ جو طریقے دعا و نماز کے صوفیوں نے مجھے سکھائے تھے، ان کے ذریعہ اپنے آپ کو سدھاروں اور اپنے دل کی صفائی و پاکیزگی حاصل کروں۔ دمشق کی مسجد میں گوشہ نشین رہا اور مینارے پر اپنے حجرے کا دروازہ بند کرکے اپنے دن گزارتا تھا ‘‘۔(صفحہ۴۵ سے ۴۶)

جب الغزالی نے دنیا ترک کرنے کا عزم کیا اور حج پر روانہ ہوا تو اس نے اپنے زمانے کے دستور کے مطابق کیِا۔ نہ صرف دیندار لوگوں کو بلکہ سیاحوں کو بھی سفر ہی میں اطمینان اور آرام حاصل ہوتا تھا۔ دیندار تو بقول ان کے یسوع مسیح کی تقلید میں یہ کرتے تھے اور لفظ مسیح کے معنی ہی ’’سیاحت کرنے والا‘‘سمجھتے تھے۔ اور دنیاوی مزاج لوگ فقیرانہ لباس اس لیے اختیار کرتے تھے کہ دُور دُور ملکوں کی سیر کریں اور نئی نئی جگہوں کو دیکھیں۔

بذریعہ ڈاک اور قافلوں کی سڑکوں کے سفر بہت آسان ہو گیا تھا اس لیے اس زمانہ کا نام ہی شوق سیاحت پڑ گیا تھا۔ علما کو تشفی حاصل نہ ہوتی جب تک وہ اسلامی دنیا کو دیکھ نہ لیتا۔ طبریزی (۱۰۳۰ء سے ۱۱۰۰ء) امام غزالی کا ہمعصر تھا وہ بھی نظامیہ سکول میں افسر رہ چکا تھا۔ اس کی نسبت یہ ذکر آیا ہے کہ جب علمی مقاصد کے لیے وہ سفر کرنا چاہتا تھا ’’تو اس کے پاس روپیہ نہ تھا کہ وہ گھوڑا کرایہ پر لے سکے۔ اس لیے اس نے اپنی کتاب تھیلی میں ڈالی اور فارس سے شام تک کے دور دراز سفر پر روانہ ہوا۔ اس کی پیٹھ کے پسینے سے تھیلی بھیگ گئی اوراس کی کتاب پر دھبے پڑ گئے۔ یہ قلمی کتاب بغداد کے ایک کتب خانے میں محفوظ رہی اور وہاں جانے والوں کو دکھائی جاتی تھی ‘‘۔ فارسی شاعر سعدی اوائل عمر ہی میں یتیم ہو گیا۔ اور نظامیہ دارالعلوم میں تعلیم پانے کی خاطر بغداد کو گیا۔ اور کئی بار مکہ کا حج کیا اور یروشلیم کے بازار اور شام کے شہروں میں محض خیرات کی خاطر بہشتی کا کام کرتا رہا۔ فرنگیوں نے اسے قید میں ڈالا۔ اور یہودیو ں کے ساتھ ترفلی واقع شام میں خندق کھودنےکے کام پر لگا دیا۔ حلب کے ایک باشندے نے زرِ فدیہ دے کر اسے چھڑایا اور اپنی بیٹی اسے نکاح دی۔ کاشغر واقع ترکستان اور حبش اور ایشیا کوچک میں سفر کرنے کا اس نےخود ذکر کیا ہے۔ افغانستان کی راہ وہ ہندوستان میں بھی آیا۔

ہمدانی کے بیالیسویں مقامات میں ایک ایسے درویش کاذکر آیا ہے (جو بد دیانت تھا) ’’میں نے سیاحت شروع کی گویا کہ میں مسیح تھا۔ میں خراسان سے لے کر اس کے بے آباد اور آباد حصوں میں گزرتا ہوا کرمان۔سیی جستان۔ جیلان۔ طبرستان۔ عمان سے ہوتا ہوا سندھ اور ہندوستان پہنچا وہاں سے نوبیہ اور مصر۔ یمن۔ حجاز۔ مکّہ اور طائف کو دیکھا۔ میں بیابانوں اور جنگلوں میں گھومتا پھر ا۔ حرارت اور آتش کی تلاش میں رہا۔ اور گدھوں کے ساتھ پناہ لی۔ حتیٰ کہ میرے دونوں رخسار کالے پڑگئے۔ اور یوں مَیں نے قصے کہانیاں،لطیفے، روایات، ہزلیات، چھچھوروں کے مشغلوں اور عشق زدہ لوگوں کے فسانوں اور نیم فیلسوفیوں کے ہتھکنڈوں،شعبدہ بازوں کے شعبدوں،عیّاروں کی عیّاریوں کو،عیّار ہمجولیوں کے رازونیازکی باتوں،نجومیوں کے فریبوں،مکّاروں کی چالاکیوں،زنانوں کے دھوکوں،فریبیوں کے حیلوں،شیاطین کی شیطانیت کے قصّوں کو جمع کیِا۔ اس حد تک کہ شائبی کے شرعی فیصلے۔ الضبی کی یادگار اور الکلبی کا علم کے ان کے سامنے ہیچ تھا۔ میں نے تحفے طلب کیے اور انعام مانگے۔ میں امیروں اور فقیروں دونوں سے واقف ہوا۔ میں نے مدح اور ہجو دونوں سے کام لیا۔ یہاں تک کہ میں صاحب جائیداد ہو گیا۔ ہندی تلواریں اور یمنی خنجریں،سبور کے زرہ بکتر،ؔتبت کی چرمی ڈھالیں۔ الخط کے نیزے اور بربری کے بھالے۔ نہایت تیز رو گھوڑے،ارمنی خچریں اور مری گدھے روم کے ریشمی کپڑے اور سوس کی اونی اشیا میرے ہاتھ آئیں‘‘۔

لیکن الغزالی جیسے دیانت دار سیّاح کے لیے ایسی زندگی آسان نہ تھی۔ نہ صرف سفر کی سختی اور تنہائی کی مصیبت تھی بلکہ گدا اور مسافر کی تنگ دستی کا سامنا تھا۔ حریری لکھتا ہے کہ

’’ایسی حالت میں سے ہم کو گزرنا پڑا۔ کبھی تو بخت یاوری کرتا۔ کبھی محتاجی سے پالا پڑتا۔ پاؤں کے تلووں میں چھالے پڑ گئے۔ بھوک و پیاس کے مارے گلا سوکھ گیا۔شکم میں درد کا دورہ تھا اور انتڑیاں بھوک سے نکلی جاتی تھیں۔ بیداری کا سرمہ آنکھوں میں لگا تھااور غار ہمارا وطن تھا اور کانٹے ہمارا بستر۔ اپنی زینوں کو ہم نے فراموش کیِااور موت کو ہم نے شیرینی سمجھا اور یوم الحساب کی انتظاری میں ہماری آنکھیں تھک گئیں ‘‘۔

یہ قرین قیاس ہے کہ الغزالی جیسا مشاہد اپنا بیاض اپنےسفروں میں اپنے ساتھ رکھتا ہوگا۔ بلاشک وہ اس وقت کے جغرافیہ کی کتابوں سے واقف ہو گا۔ ان میں سے بعض کتابوں میں نقشے اور تصویریں بھی ہوں گی۔ ان میں سب سے مشہور اور اہم کتاب ابو عبداللہ المقدسی کی تصنیف تھی۔ جس نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ اسلامی سلطنت میں سیر و سیاحت میں صرف کیِا۔ شاید ہندوستان اور ہسپانیہ میں وہ نہیں گیا۔ اس کی کتاب کا نام ’’موسموں کے علم کی بہترین تقسیم تھا‘‘ یہ کتاب( ۹۸۵ء )میں لکھی گئی۔ الغزالی کے ایک ہمعصر بنام ابو عبید ال بکری ساکن کارڈووانے اسلامی دنیاکی ساری شاہراہوں اور علاقوں کا جغرافیہ عام لکھا۔

اگرچہ الغزالی کے سفروں کی تفصیل ہمارے پاس نہیں لیکن پھر بھی ہم یہ دریافت کرسکتے ہیں کہ وہ کن کن شہروں میں گیا اور اس وقت ان کی کیا حالت تھی، معلوم ہوتا ہے کہ وہ بغداد سےروانہ ہو کر دمشق کو گیا جو تقریباًپانچ سو میل کے فاصلے پر تھااور دمشق سے یروشلیم اور حبرون کو۔ وہاں سے محمد صاحب کے مولد مکہ کو اور پھر مدینہ کو جہاں نبی کی قبر تھی۔ پھر قافلہ کے ساتھ ہزاروں میل کا سفر کر کے واپس آیا۔

اس کی زندگی کے اس سارے عرصے میں دمشق میں جنگ وجدل ہو رہی تھی۔ اس کے زمانے سے تھوڑا عرصہ پیشتر کرماتیوں نے اس شہر کو فتحکیا اور اس کا بہت ساحصہ آگ سے جلا دیا۔ یہاں کے گورنروں کی بار بار تبدیلی ہوتی رہی اور غدر و ہنگامے برپا رہے۔( ۱۰۶۸ ء)میں جامع مسجد آگ سے جلا دی گئی۔(۱۰۷۶ ء)میں سلجوق جرنیلوں نے شہر کو تسخیر (فتح) کیا۔ قلعہ کی ازسر نو تعمیرکی اور دیگر عمارات بنائیں۔ ان میں سے ایک مشہور ہسپتال تھا۔ بغداد سے دمشق پہنچنےسے تقریباًپندرہ سال پیشتر یہ سارے ماجرے وقوع میں آئے۔

کہتے ہیں کہ دمشق کی عالی شان عمیہ مسجد ساری عمارتوں سے عظیم الشان تھی۔ اس میں ۲۰ ہزار نمازیوں کے لیے جگہ تھیاور شام کے علاقہ کے سنتالیس( ۴۷) سال کا سارا خراج اس کی تعمیرمیں صرف ہوا۔ قپرس سے جو ۱۸ جہاز سونے اور چاندی سے لدے ہوئے آئے تھے۔ وہ اس کے علاوہ تھے۔ ’’جب یہ عالی شان عمارت ختم ہوئی اور اس کے حساب کی کتابوں سے ۱۸ خچریں لدی ہوئی خلیفہ کے سامنے پیش ہوئیں تو اس نے ان پر نگاہ بھی نہ کی اور ان کے جلادینے کا حکم دیا اور ہجوم سے مخاطب ہو کریوں کہا ’’اے اہلیان دمشق تمہارےپاس دوسرے لوگوں کی نسبت چار عجائبات باعث فخر ہیں۔ تمہارا پانی،تمہاری ہوا،تمہارے پھل،تمہارے حمام،اب پانچواں عجوبہ باعث فخر یہ مسجد ہوگی‘‘۔

اسلامی عبادت کی دیگر مشہور جگہوں کی طرح یہ مسجد ایک مسیحی گرجا کی جگہ تعمیر ہوئی جو یوحنّا اصطباغی کے نام پر مخصوص تھا اوراب تک اس کی یادگار میں ایک خانقاہ پائی جاتی ہے۔ چند سالوں تک تو مسیحی اور محمدی دونوں اس عمارت کو استعمال کرتے رہے۔ لیکن( ۷۰۸ء)میں مسیحی یہاں سے نکال دئےگئے۔ آج تک اس کے تین میناروں میں سے ایک عیسیٰ کے نام مو سوم ہے اور ایک پھاٹک پر جو اب مدت سے بند پڑا ہےیونانی میں یہ کتبہ لکھا ہوا ہے ’’اے مسیح تیری سلطنت ابدی سلطنت ہے اور تیری بادشاہی پشت در پشت قائم ہے ‘‘۔

الغزالی نے بہت سالوں تک کئی گھنٹے اس عالی شان عمارت کے سایہ میں گزارےاور یسوع نامے مینارے میں وہ دیر تک دھیانِ الٰہی میں لگا رہا۔ بقول صلاح الدین

’’یہ مینارہ الغزالی کے وہاں جانے سے کچھ دیر پہلے(۱۱)گیارہویں صدی میں تعمیر ہوا تھا۔ کیا کبھی اس نے اس کتبہ کو دیکھا یا پڑھا اور اس نبی کے بارے میں سوچا جس کی سلطنت کا نہ کوئی آخر اور نہ کوئی حد ہے؟‘‘ 

قدۃ اصغرۃ بمدیذۃ اقدس الشریف

باب چہارم

سیاحت۔ مابعد ایام اور وفات

الغزالی کی زندگی کی تواریخ عین ان کے لیے بھی ایک معمّا (الجھا ہوامسئلہ)تھا جنہوں نے اس کی زندگی کا حال اس کی وفات سے ایک صدی بعد لکھا۔ نہ صرف اس کی مختلف سیاحتوں کے اوقات بلکہ ان کی ترتیب کے بارے میں بھی بہت شکوک ہیں۔ بلکہ جن جن مقامات کی اس نے سیر کی ان کے بارے میں بھی اب تک بحث ہوتی ہے۔ ہمیں یہ معلوم ہے کہ اس کی یہ دلی تبدیلی(۴۸۸ہجری)میں وقوع پذیر ہوئی۔ (۱۰۹۵ء) جب کہ اس کی عمر ۳۸ سال کی تھی اور اس سے تھوڑے ہی عرصے کے بعد وہ پردیس کو چلاگیا۔(۴۹۸ ہجری)(۱۱۰۴ء) میں اس نے پھر کام کرنا شروع کیِا اور دو سال تک شام میں گوشہ نشین رہا۔ دیگر تاریخیں بالکل غیر یقینی ہیں۔ سب سے معتبر تصانیف خاص کر اس کی کتاب بنام ’’اقرارات ‘‘کے مطابق ہم اس کی کہانی وہاں سے شروع کریں گے جہاں ہم نے پچھلے باب میں چھوڑی تھی۔

بقول الغز الی ‘’میں دمشق سے روانہ ہو کر یر وشلیم کوگیا اور ہر روز چٹا ن کے مقد س میں اعتکا ف میں بیٹھا کر تا تھا۔ اُس کے بعد میر ے دل میں حج کی تمنا پیدا ہوئی تا کہ مکہ پہنچ کر اورمدینہ جاکر مسجد نبی کی زیارت کر کے میں کثر ت سے بر کت حا صل کر وں۔ خلیل اللہ (ابراہیم) کے مقبر ے کی زیارت کرکے میں حجازکوگیا۔آخر کار میرے دل کی آرز واور میرے بچو ں کی دعا ئیں مجھےاپنے وطن کی طر ف کھینچ لا ئیں۔ اگر چہ شروع میں یہ میرا عزم بالجزم(مصمم ارادہ، پکا ارادہ) تھاکہ میں وہاں کبھی واپس نہ جاؤ ں گا۔ کم ازکم میرا یہ ارادہ تھا کہ اگر میں وہاں واپس گیابھی تو عالم تنہائی اور ذکر الہٰی میں مصروف رہو ں گا۔ لیکن واقعات خاندانی تفکر ات (تفکرکی جمع:سوچ وبچار) اور انقلابات زندگی نے میرا ارادوں کو بدل ڈالا اور ذکر الٰہی میں جو اطمینان خا طر حاصل تھا اُس میں خلل آیا۔ گو غیر مقر رہ اوقا ت پر ذکر الٰہی میں مصر و ف ہونے لگا۔ لیکن اس پر میرا اعتبار کسی طر ح کم نہ ہوا۔ جس قدر رکا وٹوں نے خلل ڈالا اسی اقدر زیادہ میں اُن کی طر ف رجوع ہو ا۔اس طرح سے دس سال گزرگے‘‘۔

اس بیا ن کے مطابق یروشلیم اور حبر ون اور مدینہ اور مکہ کی طر ف اُس کا حج کرنا ایک ہی سیاحت کے وقت ہو ااور بغداد سے اسلام کی ولادت گاہ تک یہی طبعی راستہ ہے۔بعض مصنفوں کا یہ بیا ن کہ وہ پہلے دس سال تک دمشق میں رہا غا لباً نا درست ہے۔ اگرہم اَل اسنوی کے بیان کااعتبار کر یں تووا قعات کا سلسلہ یہ ہوگا :۔ وہ( ۱۰۹۵ء )میں حجا ز کی طر ف روانہ ہوا۔حج سے واپس آنے پر اس نے دمشق کا سفر کیا اور وہا ں جامع مسجد میں چند سالوں تک رہا اور کئی کتابیں تصنیف کیں جن میں سے ’’کتاب احیا ‘‘ایک ہے۔ پھر یر وشلیم اور شاید قا ہرہ اور اسکندریہ کو دیکھنے کے بعد وہ اپنے وطن طو س کو گیا۔

ایک عربی مصنف کے مطا بق جب الغزالی دمشق سے اپنی سیا حت کے لئے روانہ ہوا تو اس و قت ایک شا گر د اُس کے ہمرا ہ گیا جس کا نا م ابو طاہر ابر اہیم تھا۔ جس نے نیشاپور میں بزرگ امام سے تعلیم کی تھی۔ لیکن پیچھے وہ اپنے وطن جُر جا ن کو چلا گیا اور( ۵۱۳ہجری)میں جام شہا دت نوش کیا۔ دمشق میں اس کے دوسرے شا گر دوں کا ذکر بھی آیا ہے لیکن مورخوں کا اُ س میں اتفاق نہیں۔

یروشلیم میں جو بہت زیا رت گا ہیں تھیں اُن میں سے الغنر الی نے عمر کی مسجد اور چٹان کے گنبد کی زیارت کی۔ (سورۃ ۱۷۔۱ )میں ذکر ہے کہ محمد صاحب مکہ سے یروشلیم کو گئے ‘’وہ پاک ہے جو اپنے بند ے کو را توں رات مسجد حرا م سے مسجد اقصٰی تک لے گیا۔ جس کے گر داگر دہم نے بر کتیں دے رکھی ہیں‘‘۔

السیو طی کا قو ل ہے کہ

’’اہل اسلام میں یروشلیم کی عزت خا ص کر ا س لئے ہے کہ یہا ں حضر ت داؤد اور حضر ت سلیما ن نے توبہ کی ۔وہ جگہ جہاں خدانے اپنا فرشتہ حضر ت سلیمان کے پا س بھیجااور ذکر یا ہ کو یو حنا کی خو شخبر ی دی اور داؤد کو ہیکل کا نقشہ دکھا یا اور زمین کے سارے چر ندا ور ہو ا کے سارے پرند اس کے ما تحت کر دئے۔ یر وشلیم ہی میں ابنیا قر بانی چڑھا یا کرتے تھے۔ وہا ں ہی یسو ع پیدا ہوااور گہوارے میں با تیں کر تا رہا اور یروشلیم ہی سے یسو ع نے آسمان پر صعو د کیا اور اسی جگہ وہ آسمان سے نز ول کر گیا۔ جو ج ماجوج دنیا کےہر مقام کو فتح کر لیں گئے لیکن وہ یروشلیم پرغالب نہ آ ئیں گے اور اُسی جگہ خدا قادر مطلق اُن کو نیست کر ے گا۔ یر وشلیم ہی کی مقدس سر زمین میں آدم ابر اہیم،اسحٰق اور مر یم مدفون ہیں اور آخر ی ایا م میں لو گ یروشلیم ہی کی طر ف بھاگیں گے اور اُس وقت تو عہد کا صندوق اورسکینہ ہیکل میں بحا ل ہو گا۔ اُسی جگہ روز قیامت کو عدالت کے لیے کل نو ع انسان جمع ہوں گے اور خدااپنے فر شتوں کے سا تھ ہیکل میں داخل ہوگا جب کہ وہ دنیا کا انصاف کرنے آئے گا‘‘۔

یہاں الغزالی نے اُس چٹان پر محمد صاحب کے نقش قدم دیکھنے کی آرزو کی ہوگی۔ جہا ں سے اُس نے آسمان کی طر ف معراج کیا۔جن مقامات میں ابر اہیم اور ایلیا ہ نے دعا ئیں مانگی تھیں وہ لو گو ں نےاُسے دکھا ئی ہوگی اور چٹان کا وہ گول سوراخ جس میں سےمحمد صاحب گزرکر آسمان پر گئے اور مقد س مقام غا ر کی چھت میں جو اونچا ہوگیا تھا تاکہ ہو سیدھے کھٹر ے ہو کر دو گانہ(نمازشکرانہ) کر یں۔ جس زبان سے اس مقا م نے کلام کیا اور جبرا ئیل فر شتے کی انگلی کے نشان جہا ں سے آگے جانے کی اُس کو اجا زت نہ ہوئی۔ مسلمان وہ جگہ بھی آج تک دکھا یا کرتے ہیں جہاں سلیمان جنا ت کو سزا دیا کرتے تھے اورمشر قی دیوار جس کے نزدیک وہ تخت تھا جہاں وہ مر نے کے بعد بیٹھا نظر آیا اُس کی لا ش عصا کے سہا رے پر رہی تا کہ جنات کو اُس کی موت کا پتہ نہ لگے۔ حتیٰ کہ کیڑوں نے اُس عصا کو کھا لیا اور لا ش اوندھے منہ گر پڑ ی۔ان سب باتو ں کا ذکر مسلمان کی حدیثو ں میں آیا ہے اس سے الغزالی کی زور اعتقادی یا بے اعتقادی میں مدد ملی ہوگی۔ اپنی ایک تصنیف میں اُس نے یہ ذکر کہ

’’آخر ی روز اسرافیل جو جبر ئیل اور میکا یئل کے ساتھ دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔ یر و شلیم کی ہیکل کی چٹان پر کھٹر ے ہو کر خدا کے حکم سے دنیا کے سارے حصوں سے ارو اح کو جمع کرے گا۔ ایمانداروں کی روحوں کو فردوس سے اور بے ایمانو ں کی روحو ں کو دوزخ سے اور اپنے صور میں اُنہیں ڈال گیا۔ وہا ں وہ چھوٹےچھوٹے سوراخوں میں ایسے جمع ہونگے جیسے چھتے میں شہد کی مکھیاں ہوتی ہیں اور جب وہ آخر ی صور پھو نکے گا، تو شہد کی مکھیوں کی طر ح نکل بھا گے گیں اور زمین وآسمان کے سارے مقا ما ت کو بھر دیں گا۔ پھر وہ اپنے اپنے جسمو ں میں داخل ہوگی۔ اس وقت زمین ایک وسیع میدان ہو گا اور کو ئی پہا ڑ ی یا گاؤں نہ ہو گا اور مر دے جی اٹھنے کے بعد اپنی اپنی قبر وں میں جا بیٹھیں گے اور جو کچھ اُن پر وار ہونے کو ہےاُس کی انتظاری بڑ ی فکر سے کریں گے‘‘۔

اس مسجد کے بارے میں جو دیگر محمدی روایا ت ہیں اُن کا بیان ایک زما نہ حا ل کےسیاح نے لکھا ہے۔

’’کر سی کے زینہ یر جو محر ا بیں بنی ہو ئی اُن کا نا م ’’میزان ‘‘اس لئے رکھا گیا ہے کیونکہ اُس روز عظیم کو عدالت کا ترا زو وہا ں لٹکایا جا ئے گا۔ زنجیر کے گنبد کے نا م وجہ تسمیہ یہ ہے کہ دا ؤو کی عدالت گاہ میں ایک سونے کی زنجیر لٹلی ہو ئی تھی اور گو اہ شہا دت دیتے وقت اُس کو پکڑ تے اگر اُن جھو ٹی ہو تی تو اُس زنجیر میں سے ایک کڑ ی گر پڑ تی تھی۔ بیرونی دیوار میں ایک مقام دکھا یا جاتا ہے جس کی نسبت یہ روایت ہے کہ یو م عدالت کو وہا ں ایک تا ر لٹکا دی جا ئے گی جس تار کا دوسرا سرا کو ہ زیتون سے بند ھا ہوگا۔ مسیح آن کر دیوار پر بیٹھے گا اور محمد صاحب اُس پہا ڑی پر اس تار پر سے سارے آدمی گزریں گے ۔لیکن صرف نیک ہی اُس پر سے عبور کر سکیں گے اور سارے بدکار نیچے وادی میں جا کر گریں گے۔ مسجد اقصٰی میں دوستون ایک دوسرے کے بہت متصل کھڑ ے ہیں اور وہ ایسے گھس گئے ہیں کہ اُن کا پتلا پن صاف ظا ہر ہوتا ہے۔ جو فا صلہ اُن کے ما بین ہے اُس میں تر ہی کی سی آ واز آتی ہےاور اب ایک نو کدار لو ہے کا ٹکڑا اُن کے درمیان لگا دیاگیا۔ آخر ی اجر کے دریا فت کرنے کا یہ مز ید معیار ہیں۔ جو آدمی سُکڑ کر اُن کے بیچ میں سے گزر سکے اُسی کو بہشت میں جانے کی تنگ راہ دستیاب ہوئی ہے‘‘۔

مسلمان مو رخوں نے بھی یر وشلیم کا بیا ن لکھا ہے۔ ایک نے دسویں صدی کے آخر میں اور دوسر ے نے گیا رھویں صدی کے وسط میں اسی موخر الذکرنے وہاں کی آبادی کا اندازہ بیس ہزار لگایا اور اُس کے خیال میں اسی قدر مسلمان حاجی حج کے مہینے وہا ں جاتے تھے۔ مسیحی اور یہودی بھی وہا ں زیارت کے لیے ویسے ہی جاتے تھے جیسے آج کل جاتے ہیں۔ اِن دونو ں مصنفوں نے وہا ں کی صفا ئی تعر یف کی ہے۔جس کی وجہ انہوں نے جگہ کے موقع اور قدرتی بدرروسے منسوب کی۔ توبھی اس ساری صدی میں یر وشلیم کی تا ریخ مسیحی اور مسلم مقدس جگہوں کی تباہیاور مر مت کی تا ریخ ہے۔ (۱۰۱۰ء)میں مقد س قبر ((Holy Sepulchreکے گرجا کو دیوانہ سلطان حکیم نے پاما ل کیا۔ علا وہ ازیں مسیحی حا جیوں کی اور بہت سی تکلیفیں اور ایذائیں دی گئیں۔ حتیٰ کہ پیٹر فقیر (Hermit) نے اس کے خلاف صدائے احتجا ج بلند کی اور صلیبی جنگوں کا آغاز ہوا۔

ہمیں کچھ معلوم نہیں کہ اس زیارت کے وقت الغزالی نے اپنا وقت یروشلیم میں کیسے کاٹا۔ صلیبی جنگ کی ابتدا سے ذرا پیستر شام بھر میں جنگ وہنگا مے برپا تھے اس کا صر ف قیاس کر سکتے ہیں اس کا صرف قیا س کر سکتے ہیں کہ الغزالی نے اس ساری حالت میں کیسی دلچسپی لی ہوگی اور مسلم عقیدہ کے ایسے جوشیلے حا می نے ان آئند ہ واقعا ت میں کیسی سر گرمی دکھا ئی ہوگی جو اُس کے یر وشلیم میں جانے کے وقت مقدس زمین واقع ہورہے تھے۔ہم یہ تو جانتےہیں کہ اُس نے صوفی زندگی بسر کی اور دعا اور روزے میں مصر وف رہا۔ہر صا حب ضمیر مسلمان کی زندگی میں نماز کا بڑا حصہ ہےنہ صر ف پا نچ مقررہ رسمی نمازیں ہیں ،بلکہ نماز تہجد جوبقول غزالی آدھی رات اور تڑکے سے پیشتر پڑھنی چا ہئے یہ اندازہ لگایا گیا ہےکہ جو مسلمان درست طور سے اپنی نمازیں ادا کرے تو وہ ایک ہی قسم کی دعاون میں کم از کم پیچھتر(۷۵)دفعہ پڑ ھتا ہے۔ نمازوں کے علاوہ وتر کی نماز ہے عشائے کے بعد پڑھی جاتی ہے۔ نماز ضحٰے جو دوپہر سے پیشتر اداہوتی اور رات کے عر فوں کی نماز جو شام کی آ خر ی نماز اور آدھی رات کی نماز کے مابین پڑھی جاتی ہے۔ مذکو رہ با لا ساری نمازوں کے علاوہ جو لوگ کمال کا اعلٰی درجہ حا صل کر نا چاہتے ہیں انہیں بقول الغز الی اپنے عمل کے مطابق چند دیگر نمازیں بھی ادا کر نی چا ہئے جن کو و تر کہتے ہیں۔ اس صوفی عبادت کی حقیقت کو ہم یا در کھیں جن میں دن اور رات اُس نے گزارے اس کے لئے ہم اُس کی کتاب’’احیا‘‘ میں سے نقل کرتے ہیں۔

’’قر آن کی بہت آیات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ خدا سے وصل (ملاقات) پانے کا واحد طر یقہ اُس کے ساتھ متواتر راہ وربط رکھنا ہے۔اس لیے جس عبادت کا نام ورؔد ہے اُ س کایہی مقصد کہ ایماندار لیل ونہا ر(رات اور دن) اسی میں مشغول و مصر وف رہے۔ دن کے لیے سات ورد مقر ر ہیں۔ پہلا ودر مسلمان علیٰ الصباح اُٹھ کر خدا کا نام لے۔ اُس کی حمد کر ے۔ خا ص منا جات پڑھے کپڑا پہنتے وقت مقر رہ دعا ئیں مانگیں۔ مسواک سے دانت صاف کرے۔ وضواداکرے اور طلوع آفتاب کے لیے دوسنت رکعت اداکرے۔ اس کے بعد ایک اور دعا پڑ ھے اور خاطر جمعی کےساتھ مسجد کو جا ئے۔ مسجد میں بڑی سنجیدگی اور ادب کے ساتھ اپنا قدم رکھے اورداخل ہوتے اور وہاں سے نکلے وقت مقر رہ دعا ئیں پڑھے۔ اگر جگہ ہوتو نمازیوں کی پہلی صف میں جا شامل ہو اور اشراق(روشن ضمیری) کے لئے دور کعت پڑھے بشر طیکہ گھر میں یہ نہ پڑ ھ چکا ہو۔ پھر مسجد کو سلام کرکے دورکعت ادا کرے اور دعا ئیں اور حمد یں پڑھے اور جماعت کے جمع ہونے کا انتظار کرےاور اشراق کی لازمی نماز ادا کرے طلوع آفتاب تک مسجد میں بیٹھا رہے اور ذکر کرتا اور خا ص دعائیں مانگتا رہے۔ ایک مقر رہ تعد اد پر حمد پڑھے اور تسبیح پر گنتا جائے اور قر آن کی سو رتیں پڑھتا رہے‘‘۔ ہمیں معلو م ہے کہ تسبیح کا استعما ل عام تھا کیونکہ الحر یر ی کی ’’مجا لس ‘‘ میں اور الغزالی کی’’کیمیا ے سعاوت ‘‘ میں اس کا ذکر پا یا جاتا ہے۔

دوسراورطلو ع آفتاب سے لیکر قبل از دوپہر تک ہے۔ایما ندار دو رکعت ادا کرتا ہے اور جب سور ج ایک نیزہ بھر بلند ہوتا ہے تو دواور رکعتیں پڑ ھی جاتی ہیں۔یہ وہ وقت ہے کہ جب ایماندار نیک اعمال مثلاًبیمار ی پر سی وغیرہ میں مصر وف ہواور جب کو ئی خاص امر قابل توجہ نہ ہوتو وہ مناجاتِ ذکر ،یا دِ الہی ٰ اور قر آن کی تلاوت میں مصر وف رہے۔تیسر ے ورد کاو قت صبح سے آفتا ب کے بلند ہونے تک ہے۔جب کہ مومن اپنے دنیاوی کاروبار سے فارغ ہوکر مذکورہ بالاریاضت الہٰی میں مشغول ہوتا ہے۔آفتاب کے بلندہونے اور نماز قبل از دوپہر کے درمیان آذان اور ایقام کے مابین چا ررکعت اور قرآن کی سورتیں پڑھی جاتی ہیں۔ یہ چوتھا ورد ہے۔نماز مغرب تک پانچوں ،چھٹا اور ساتواں ورد آتے ہیں۔ آخر کار رات کے ورد ہیں اور وہ شمار میں پانچ ہیں اور اُن کی تقسیم اس طرح سے ہے ۔اول رات کا ورد غروب آفتاب کے بعدجب کی نماز اداہوچکتی ہے اُس تک کہ اندھیرا ہوجائے مومن دو رکعتیں پڑھتا ہے جن میں قرآن کے چند مقا مات پڑ ھے جاتے ہیں۔ پھر چارطویل رکعتیں اداہوتی ہیں اور جس قدر وقت کی گنجا ئش ہو قر آن میں سے پڑھا جاتا ہے۔ یہ ورد گھر میں اداکر سکتے ہیں لیکن مسجد میں اداکرنے کو تر جیح دی گئی ہے۔ را ت کا دوسرا ورد اس کا وقت آخر ی عشا کی تاریکی سے لے کر اُس وقت تک ہے کہ لوگ سونے کو جا ئیں۔ اس ورد میں تین باتیں داخل میں (۱) اول تو لازمی عشا دس رکعتیں یعنی چار اس سےپہلے اور چھ اس بعد(۲) تیرہ رکعتوں کا اداکرنا جن میں سے آخری وتر کی نماز کہلاتی ہیں۔ اس میں قرآن کی تقریباً تین سو آیات پڑھی جاتی ہیں۔(۳) سونے سے پیشتروتر کی نماز بشرطیکہ رات کو اٹھنے کی اسے عادت نہ ہواور رات کو اٹھ کر پڑھنے میں زیادہ ثواب ہے۔ رات کا تیسرا ورد اس میں نیند شامل ہے اور نیند بھی اگر مناسب طور سے ہوتو عبادت میں داخل ہے رات کا چوتھا ورد یہ اس وقت شروع ہوتی ہے جب نصف رات گزر جاتی ہے اور اس وقت تک رہتی ہے جب رات کا چھٹا حصہ باقی رہ جائے اس وقت مومن کو نیند سے بیدار ہونا چاہئے اور تہجد کی نماز پڑھنا چاہئے اس نماز کو نماز ہجد بھی کہتے ہیں۔ محمد صاحب اکثر اس نماز میں تیرہ رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔ رات کا پانچواں ورد یہ رات کے باقی چھٹے حصے سے شروع ہوتا ہے اور اسے سحر کہتے ہیں یعنی پوپھٹنے سے پیشترشروع کرکے پوپھٹنے تک‘‘۔

ان ریاضتوں پر جن کا ذکر کتاب ’’احیا‘‘ میں ہوا چار مزید افعال کو ایزاد کرنا امر تواب گنا جاتا تھا یعنی روزہ، زکوٰۃ،تیمارداری، جنازہ کے ساتھ جانا اور ان سب کے علاوہ ذکر خدا کی بھی تاکید تھی۔ صوفیہ کرام عبادت کے ایک خاص طریقہ کو ذکر کہتے ہیں۔

الغزالی نے اس عمل کے طریقے اور نتیجوں کا ذکر ایک مقام میں کیا جس کا خلاصہ میکڈانلڈ صاحب نے یوں دیا ہے۔

’’مومن اپنے دل کو ایسی حالت میں منتقل کردے جس میں اس کے نزدیک عدم اور وجود ایک ہوجائیں پھر وہ تنہا ہو کر کسی گوشے میں بیٹھے اور مطلق ضروری دینی فرائض ہی میں مصروف ہو نہ قرآن کی تلاوت میں نہ اس کےمعنی سمجھنے میں نہ دینی حدثیوں وغیرہ کے پڑھنے میں اور وہ خبردار رہے کہ خدائے تعالیٰ کے سوا کوئی اور شے اس کے دل میں دخل نہ پائے جب وہ اس طرح سے عالم تجرد میں بیٹھا ہو تو اس کی زبان سے اللہ اللہ کا ذکر موقوف نہ ہو اور وہ اپنا سارا تصور اس پر جمائے رکھے۔ آخر کار اس کی یہ حالت ہوگی کہ اس زبان کی حرکت بند ہوجائیں گی اور ایسا معلوم ہوگا۔ کہ وہ لفظ خود بخود زبان سے صادر ہے۔ وہ ایسی حالت میں مستقل طور سے رہے حتیٰ کہ اس کی زبان کی حرکت بالکل جاتی رہے اور اس کا دل اس خیال میں مستقل ہو جائے۔ اب بھی وہ اسی حالت میں رہے حتیٰ کہ لفظ کی صورت، حروف اور ان کی صورت اس کے دل سے محک ہو جائے اور صرف تصور ہی اس کے دل میں باقی رہ جائے۔ یہاں تک تو سب کچھ اس کے ارادے اور اس کی مرضی پر موقوف ہے لیکن رحمت الہٰی کا وارد کرنا اس کے ارادے اور مرضی میں نہیں۔ اب مومن خالی ہو کر اس کی رحمت کے تنفس کے لئے پڑا ہے اور وہ منتظر ہے کہ خدا اس پر وہ باتیں منکشف کرئے جو خدا نے اس طریقے پر انبیا اور اولیا پر کشف کی تھیں۔ اگر وہ اس مذکورہ بالا طریقے پر عمل کرئے گا تو وہ یقین جانے کہ اس الحق کا نور اس کے دل پر طلوع ہوگا۔ پہلے تو وہ برق کی چمک کی طرح متزلزل(کانپنے والا، ڈگمگانے والا، جنبش کرنے والا) نظرآئے گا۔ ابھی دکھائی دیا، ابھی غائب ہوگیا اور کبھی دیر تک دکھائی نہ دیا اور جب پھر دکھائی دے تو کبھی دیر تک رہتا ہے اور کبھی عارضی جلوہ ہوتا ہے اور جب یہ ٹھہرتا ہے تو کبھی عرصہ دراز تک ٹھہرتا ہے اور کبھی تھوڑے عرصے تک‘‘۔

عبادت کی حقیقی زندگی کے بارے میں الغزالی کی یہ تعلیم ہے اور ہمیں یقین ہے کہ جن ایام میں وہ گھر سے جلاوطن ہو کر یروشلیم اور دمشق میں رہا۔ اسی کا عامل رہا ہوگا۔ خدا کے اسمائے حسنہ (خوبصورت ناموں) کے لاانتہا ذکر اور ’’دعائے بلاناغہ میں ‘‘ مصروف ہو گا اور یہ تعجب کا مقام ہے کہ ایسی اوقات بسری میں (وقت گزارنے میں) تالیف و تصنیف (مختلف کتابوں سے پیرائے چن کر ترتیب دینا اور کتابیں لکھنا) کے لیے کون سا وقت اسے ملاہوگا اور کس وقت وہ درس و تدریس (پڑھنا۔ پڑھانا) کا کام کرتاہو گا جس کا ذکر ہم پڑھ چکے ہیں۔

یروشلیم میں اس کی زندگی کا ایک دلچسپ قصہ ان الفاظ میں بیان ہوا ہے۔ ’’ایک روز امام ابوحمید الغزالی اور اسمعیل الککیمی۔ ابراہیم الشبقی، ابوالحسن البصری اور بہت سےغیر ممالک کے بزرگ عیسیٰ کے(سلمہ اللہ تعالیٰ) مولد یروشلیم میں جمع ہوئے اور معلوم ہوتا ہے۔ کہ الغزالی نے دو اشعار پڑھے جن کا ترجمہ یہ ہے :۔

’’کاش کہ میں تیرا فدیہ ہوتا۔ اگر محبت دخل نہ دیتی تو تو میرا فدیہ دیتا۔ لیکن تیری جادو نگاہ آنکھوں نے مجھے اسیر کیا اور جب میرے سینے میں محبت بھری تھی میں تیرےپاس آیا اور اگر تجھے میرے اشتیاق کا حال معلوم ہوتا تو تو میرے پاس آتا ‘‘۔

اس پر ابو الحسن ال بصری حالت وجد میں آگیا۔ اس کی آنکھوں نے آنسو جاری تھے اور کپڑے پھٹے تھے اور محمد ال کا زردنی حالت وجد میں اس مجلس کے بیچ رحلت کر گیا ‘‘۔

کہتے ہیں کہ یروشلیم میں اس نے رسالہ ’’القدسیہ ‘‘لکھا اور وہاں پہنچنے کی تاریخ( ۴۹۲ہجری)سے کچھ پہلے ہوگی کیونکہ اس سال مجاہدان صلیب نے یروشلیم کو فتح کر لیا۔

یہ امر طبعی ہے کہ الغزالی کے مزاج کا شخص ابرہام کی قبرکی زیارت کو جائے جسے اہل اسلام ’’خلیل اللہ ‘‘ کہہ کر خوش ہوتےہیں۔ قرآن میں برابراسلام دین ابراہیم کہلاتا ہے۔ روایت ہے کہ مکفیلہ کا غار زمانہ حال کے حبرون کے مشرقی حصے میں وادی کے کراڑے پر ہے اور جو مسجد وہاں ہے۔ کہتےہیں کہ وہ قبر اس کے اندر ہے۔ حبرون یروشلیم سے تقریباً سترہ میل جنوب مغرب کو ہے۔ بارہویں صدی سےپیشتر لوگ مکفیلہ کے غار کی زیارت اور حج کو جانے لگے۔

بنیامین توڈلا (Tudela) کا بیان ہے کہ

’’حبرون میں ایک عبادت گاہ بنام ’’مقدس ابراہیم ‘‘ ہے۔ جو پیشتر یہودی عبادت خانہ تھا۔ وہاں کے باشندوں نے اس جگہ چھ قبریں بنائیں اور غیر ممالک کے حاجیوں کو کہنے لگے کہ وہ پتری آرکوں اور ان کی بیویوں کی قبریں ہیں اور ان کی زیارت کے لیے ان سے نقدی طلب کرتے تھے۔ اگر کوئی یہودی معمول سے بڑھ کربخشیشدیتا۔ تو اس غار کا محافظ ایک آہنی دروازہ کھول دیتا جو ہمارے آباؤ اجداد کے زمانہ کا بنا ہوا ہے اور شمع روشن کرکے وہ مسافر نیچے اترتا۔ وہ دو غاروں سے گزر کر تیسری غار میں چھ قبریں دیکھتا۔ جن پر ان تین پتری آرکوں اور ان کی بیویوں کے نام عبرانی حروف میں لکھے ہیں وہ غار مٹکوں سے بھرا ہے جن میں مردوں کی ہڈیاں بھری ہیں۔ جن کو لوگ اس مقدس جگہ میں لا کر دھرتےہیں۔ مکفیلہ کے کھیت کے سرے پر ابراہیم کا گھر ہے جس کے سامنے ایک چشمہ ہے‘‘۔

حبرون میں ابراہیم کی قبر پر جو مسجد بنی ہے اس کی کرسی مستطیل ہے اس کا طول ستّر( ۷۰ )گز اور عرض پینتیس( ۳۵ )گز ہے جو قبر اس میں چھپی ہے اسے کسی مسیحی نے شاذو نادر(کبھی کبھار) ہی دیکھا ہوگا۔ مسلمانو ں کے سوا کسی دوسرے کو اجاز ت نہیں کہ مشرقی دیوار کے ساتویں زینے سے آگے قدم رکھے ۔

حبرون دنیا کے نہایت قدیم شہروں میں سے ہے اور ہزاروں قصے اس کے متعلق مشہور ہیں۔ الغزالی کے ایام میں بھی یہ روایت تھی کہ آدم کی پیدائش اور وفات یہیں ہوئی۔ ہابل یہیں قتل ہوا اور ابراہیم نے اسی کو اپنا وطن بنایا۔ الغزالی حبرون کو دیکھنے کے بعد مکہ کے حج کو گیا۔ ہمیں یہ تو معلوم نہیں کہ وہ تری(سمندر) کے راستے گیا یا خشکی کے راستے۔

بہر حال جس راستے گیا ہو وہ اس زمانہ میں بڑا خطرناک تھا۔ گمان غالب ہے کہ وہ قافلہ کی دو ر ودراز راہ سے گیا ہو جس راستے سے آج کل حاجی دمشق جاتے ہیں۔ یہ مناسب سمجھا جاتا تھا کہ پہلے مکہ کی زیارت کریں اور واپسی کے وقت مدینہ کی زیارت اور حج کی رسوم کی ہدایات میں الغزالی نے خود اس کا ذکر کیا ہے۔

جس روح سے اس نے ان رسوم کو ادا کیا ہوگا اس کا بیان اس کے ایک روحانی معلم کی تصنیف سے ملتا ہے۔ جو اس نے الغزالی کے بارے میں لکھی۔ ’’ایک شخص جو حال ہی میں حج سے واپس آیا تھا وہ جنیاد کے پاس آیا۔ جنیاد نے کہا جس گھنٹے سے کہ تو اپنے وطن سے حج کے لیے روانہ ہو ا کیا تو نے اپنے گناہوں سے بھی سفر کیا اور جہاں کہیں تو نے رات کے لیے مقام کیاکیا تو نے اس مقام سے گزر کیا جو خدا کی راہ میں ہے؟ اس نے جواب دیا۔ ’’نہیں ‘‘ جنیاد نے کہا ’’تب تو نے منزل نہ منزل مسافت نہیں کی۔ جب تو نے مناسب جگہ پر حج کا لباس پہنا۔ تو کیا تو نے جیسے میلے کپڑوں کو اتارتے ڈالتے ہیں انسانی فطرت کے کاموں کو اتارپھینکا؟ ’’نہیں ‘‘ تب تو نے حاجی کا لباس نہیں پہنا۔ جب توعرافات پر کھڑا ہوا کیا توایک لحظہ(لمحہ) کے لیے یاد الٰہی میں بھی مصروف ہوا؟ ’’نہیں‘‘ تب تو عرفات پر کھڑا نہیں ہوا۔ جب تو مزولفہ کو گیا اور اپنی تمنا حاصل کی تو کیا تو نےاپنی ساری شہوات نفسانی کو ترک کیا؟ ’’نہیں ‘‘ تب تو مزولفہ کو نہیں گیا۔ جب تو نے کعبہ کا طواف کیا۔ تو کیا تو نے اس بیت الحرام میں خدا کے غیر مساوی حسن (ایسا حسن جس کے برابر کوئی نہیں) کودیکھا؟ ’’نہیں ‘‘ تب تو نے کعبہ کا طواف نہیں کیا۔ جب تو صفا اور مروہ میں دوڑا تو کیا تو نے صفا اور مروت حاصل کیے؟ ’’نہیں ‘‘ تب تو نہیں دوڑا ۔ جب تومنا پر گیا۔ تو کیا تیری ساری تمنا (منا) موقوف(برخاست) ہو گئی؟ ’’نہیں ‘‘ تب تو منا میں نہیں گیا۔ جب تو مذبح پر گیا اور قربانیاں چڑھائیں تو کیا تو نے دنیاوی آرزو کی اشیا کو قربان کر دیا؟ ’’نہیں ‘‘ تب تو نے قربانی نہیں چڑھائی۔ جب تو کنکر پھینکے تو کیا تو نے اپنے سارے شہوانی خیالات کو پھینک دیا؟ ’’نہیں ‘‘ تب تو نے اب تک کنکر نہیں پھینکے اور تو نے اب تک حج ادا نہیں کیا ‘‘۔

صوفیوں کی تعلیم کے مطابق مکہ کے حج کی رسوم کے یہ روحانی معنی تھے۔ جب الغزالی نے حج کیا تو مکہ کا شریف ابوہاشم تھا (۱۰۶۳ء سے ۱۰۹۴ءتک)۔ اس سے نصف صدی پیشتر قرمطی لوگوں نے جو مسلمانوں کا بڑا متعصب فرقہ ہے۔ مکہ کا محاصرہ کر کے اس کو فتح کر لیا۔ ہزاریوں حاجیوں کو تہ تیغ کیا (تلوار سے قتل کیا) اور مشہور حجرا اسود کو اٹھا کر بحرین میں لے گئے جو خلیج فارس پر واقع ہے۔ اس خزانے کو چھین لے جانے سے ان کا یہ منشا تھا (مرضی تھی) حج موقوف ہو جائے (برخاست ہوجائے)۔ لیکن اس میں ان کو مایوسی ہوئی۔

(۹۵۰ء)میں ایک بڑی رقم معاوضہ میں لے کر واپس دے دیا چونکہ خلفائے بغداد اور خلفائے مصر کے درمیان حرؔمین کی حفاظت کے بارے میں متواتر (لگاتار۔ مسلسل) جھگڑا رہتا تھا۔ اس لیے اس کی حفاظت کا ذمہ شریف مکہ (مکہ کے معزز لوگ) کے ہاتھ میں دیا گیا۔

ابو ہاشم زمانہ ساز شخص تھا۔ دین کی نسبت رشوت کی اس کو زیادہ پرواہ تھی۔ (بقول عربی مؤرخین)۔(۱۰۷۰ء) میں مصر کے فاطمی خلفا کے نام کی جگہ جمعہ کے خطبہ میں اس نے عباسی خلفا کا نام درج کیا اور اس کے لیے اسےبہت انعام ملا۔( ۱۰۷۵ء )میں اس نے یہی حق خلفائے فاطمیہ کے ہاتھ فروخت کر دیا اور( ۱۰۷۹ء) میں پھر خلفائے عباسیہ کے ہاتھ۔ اس سےبغداد کا سلطان ایسا ناراض ہوا کہ اس نے( ۱۰۹۱ء )میں تیر کمانوں کا لشکر مکہ کے معززین کے خلاف روانہ کیا۔

اس مقدس شہر کے مؤرخوں نے اس عرصہ کے بارے میں یہ بیان کیا ہے کہ بدو رہزنوں (راہ میں لوٹنے والوں) اور خود مکہ کے ہنگاموں کی وجہ سے ان دنوں میں حج بہت خطرناک تھا۔ بعض اوقات یہ ہنگامے خود ابوہاشم کی سرکردگی میں ہوئے۔ چنانچہ( ۱۰۹۴ء )میں ایسا ہی ہوا۔

جس وقت کے الغزالی وہاں گیا مکہ کی بعض عمارات اور خود بیت اللہ کی عمارت کی مرمت ہوئی اور وہ آراستہ پیراستہ کی گئیں۔ حنفی مسلمانوں کے جو چار مقامات صلواۃ ہیں وہ( ۱۰۷۴ء) میں تعمیر ہوئے تھے اور شافعی فرقے کا مقام۔ جس فرقے سے الغزالی کا تعلق تھا وہ چاہ زمزم کے عین اوپر ہے جس کے لیے یہ بالا خانہ کاکام دیتا ہے۔ جو عمارت ۱۰۷۲ء میں تعمیر ہوئی وہ اب تک کھڑی ہے۔ سفید سنگ مر مر کا بڑا منبر سلطان مصر نے( ۹۶۹ء) میں مکہ کو بھیجا تھا۔ اب تک وہ استعما ل ہوتا ہے اور شاید الغزالی نے ان زینوں پر سے حاجیوں کو وعظ سنایا ہو۔( ۱۰۳۰ء) میں ایک سیلاب شدید مکہ میں آیا اور کعبہ کو تقریباً تباہ ہی کر دیا تھا۔( ۱۰۴۰ء) تک اس کی مرمت ختم نہ ہوئی۔

مکہ ومدینہ کے حج کرنے کے بعد ایسا معلوم ہوتا ہےکہ الغزالی کی گوشہ نشینی ختم ہوئی۔ سوائے اس کے کہ وہ اسکندریہ اور اس سے آگے تک گیا اور شاید اس کا ارادہ تھا کہ ہسپانیہ کو جائے اورمغرب کے سلطان یوسف بن تشفین سے ملاقات کرے جس کی ہدایت سے اس نے چند شرعی فتوے صادر کیے تھے۔ لیکن اس سلطان کی وفات کی خبر سن کر بقول بعض مؤرخین کے اس کی تجاویز درہم برہم ہو گئیں۔ بعض کہتے ہیں کہ اس کو حکم ہوا کہ نیشاپورمیں جا کر درس و تدریس کاکام شروع کرے۔

اس دس سال کی سیاحت کی تفاصیل اکثر ایک دوسری کے نقیض(مخالف) ہیں۔ عبد الغفیر نے جو غزالی کا شخصی دوست تھا یہ بیان کیا ہے کہ وہ دوبارہ مکہ کو گیا اور وہاں سے شام کو اورپھر دس سال تک جگہ جگہ کی زیارتوں میں مصروف رہا۔ اس کی سوانح عمری کے بارےمیں ’’اقرارات‘‘ کے بعد دوئم درجہ کی سند یہی عبدالغفیر ہے۔ اس نے غزالی کے بارے میں جو کچھ بیان کیا اپنی شخصی واقفیت سے کیا ہوگا یا خود الغزالی سے سنا ہوگا۔ ’’اس کے بیان کے مطابق الغزالی مکہ کےحج کو گیا اوروہاں سے شام کو اور وہاں سے جگہ جگہ کی سیاحت اور مقدس جگہوں کی زیارت دس سال تک کر تا رہا۔ اس عرصہ میں اس نے بہت سی کتابیں تصنیف کیں۔ مثلاً ’’احیا‘‘ اور جو کتابیں اختصار کے ساتھ (مختصر طور پر) اس سے اخذ کی گئیں۔ مثلاً’’اربعین اور رسائل‘‘۔علاوہ اس محنت کے جو اس نے اپنی روحانی ترقی اور صوفی ریاضت الٰہی میں کی۔ پھر وہ اپنے وطن کو واپس آیا اور کچھ عرصہ تک تجرد (تنہائی) کی زندگی بسر کی اور ذکر الٰہی میں مستغرق رہا(غرق رہا۔ ڈوبا رہا) لیکن تعلیم اور روحانی زندگی کی ہدایت کے لیے اس کی تلاش زیادہ زیادہ ہونے لگی۔ آخر کار فخر الملک علی بن نظام الملک جمال الشہدا جو پیشتر برقی یا روق کا وزیر رہ چکا تھا اب بخارا بن ملک شاہ کا وزیر نیشا پور میں ہو گیا اور اس نے الغزالی پر ایسا زور ڈالا کہ آخر کار مجبور ہو اس نے میمونہ نظامیہ مدرسہ میں تعلیم دینا منظورکر لیا‘‘۔

مغرب میں قاہرہ عمارات اور علم و ادب کا بڑا اسلامی مرکز تھا۔ جیسے بغداد مشرق میں تھا۔ لیکن الغزالی کے وہاں جانے کا کوئی مفصل بیان ہمیں نہیں ملا اور نہ اس کی تصنیف میں اس کا ذکر ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ اس زمانہ میں ازہر دارا لعلوم کے دینی پیشواؤں نے اسے بہت عزت و قدر سے قبول نہیں کیا۔ لیکن اس کی شہرت اس وقت عالمگیر تھی اور بغداد اور نیشا پور میں اس کے بہت سے شاگرد مصر اور شمالی افریقہ سے تھے۔ جب الغزالی قاہرہ کو گیا، اس وقت وہ شہر عربی تہذیب کا بڑا مرکز تھا اور فاطمئی خاندان کے خلفا نے اسے بڑی شان و شوکت کا بنا دیا تھا۔ خلیفہ کے عالی شان محل اس شہر کے وسط میں تھے۔

تین بڑے آہنی پھاٹک (لوہے کے پھاٹک) جن کی تعریف آج تک ہوتی ہے۔ یعنی باب الفتوح، باب النصر اور باب الزویلہ کے راستے شہر میں داخل ہوتے تھے۔( ۱۰۸۷ء) میں فصیلوں کی از سر نو تعمیر ہوئی اور یہ حصین پھاٹک معہ دوسروں کے جواب موجود نہیں اس وقت تعمیر ہوئے تھے۔ ان کی محرابوں کے گنبد دو کمرے ہوتے تھے۔ جہاں سے مصری بادشاہ مختلف نظاروں کا تماشا کرتے تھے۔ مثلاً مقدس قالین کی روانگی اور واپسی کا۔

شہر کی عقلی اور دینی زندگی کا صدر مقام الازہر کی جامع مسجد تھی جو( ۱۰۱۲ء) میں تکمیل کو پہنچی۔ اس وقت تک قاہرہ سارے مصر کا تجارتی مرکز نہ تھا۔ یہ وہ بعد میں ہوا۔ لیکن یہاں عالی شان دربار اور جنگی نظارہ تھا علاوہ علوم دینی کا مرکز ہونے کے۔ ابن تویر اور دوسرے مصنفوں نے یہاں کے پرتکلف جلوسوں اور تہواروں،بارود خانوں، مخزنوں (خزانے کی جگہوں)،اصطبلوں اور شاہی گھرانے کا مفصل دلچسپ بیان کیا ہے۔

اسکندریہ جہاں غزالی نے شام کو واپس جانے سے پیشتر کچھ عرصہ قیام کیا ان دنوں علمی شہرت نہ رکھا تھا۔ یہ تو صرف تجارتی بندرگاہ تھا جہاں سے گزر کر مسافر مصر کو (قاہرہ) جاتے یا یہاں سے سمندر کی راہ شام کو جایا کرتے تھے۔

ہمدانی نے ایک کے منہ میں وہ الفاظ ڈالے۔ جن کا ترجمہ یہ ہے :۔

’’میں اسکندریہ کا باشندہ ہوں وہاں کے نجیب(بھلا مانس) اور شریف خاندان سے جن کی عمر اور لوگ احمق ہیں۔ اس لیے میں حمق کو اپنا مرکب بناتاہوں ‘‘۔

لیکن اسلامی روایت میں اسکندریہ کی بڑی عزت ہے۔ مسلمان وہاں دانیال نبی کی قبر بتاتے ہیں اور اسکندر اعظم کی قبر جس کا ذکر قرآن میں آیا ہے۔ اسکندریہ دو ولیوں کے باعث بھی مشہور ہے جو وہاں گزرے۔ ان میں سے ایک کا نام محمد ال بصیری ہے اور دوسرے کا نام ابو عباس ال اندلوسی جس کی قبر پر اگر دعا مانگی جائے تو کبھی خالی نہیں جاتی اور یہ پیشین گوئی بھی ہے کہ جب مکہ کفارکے ہاتھ میں پڑے گا تو اسکندریہ کو وہ عزت حاصل ہو گی۔

اسکندریہ سے الغزالی دمشق کو گیا۔ وہاں سے نیشا پور کو۔ پھر بغداد کو، یا دمشق سے سیدھا بغداد کو، جہاں اس نے ’’احیا‘‘ کی تعلیم دی اور وعظ کیے۔ السبؔقی کا بیان ہے کہ

’’ لوگ کثرت سے اس کا وعظ سننے کو جمع ہوتے تھے اور سامعین میں سے ایک نے اس کے وعظوں کے ۱۸۳ نوٹ لیے اور ان کو شائع کرنے سے پیشتر اس نے وہ الغزالی کو پڑھ کر سنائے‘‘۔

اس زمانہ کی اس کی زندگی کا ایک یہ قصہ بیان ہوا ہے کہ ایک دفعہ جب وہ بغداد میں ’’احیا‘‘ کی تعلیم دے رہا تھا اس نے اقتباس کرنا شروع کیا۔’’اس نے آدمیوں کے وطن کو ایسا عزیز بنایا ہے۔ جیسے تمنا کا گھر جو دل کا مرغوب (پسند) ہے۔ جب کبھی ان کو وطن کی یاد آتی ہے تو ان کو لڑکپن کے عہدوپیمان یاد آتے ہیں اور ان کا شوق افروز ہوتا ہے ‘‘۔یہ پڑھ کر وہ روپڑا اور سب حاضرین رو پڑے۔ اس کے بعد کسی نے اسے پردیس میں دیکھا کہ درویشوں کے سے پھٹے پرانے کپڑے پہنے ہے اور پانی پینے کا پیالہ اور لوہے کی سم چڑھا عصا اس کے ہاتھ میں تھااور جس شان و شوکت میں اس نے اس کو پہلے دیکھا تھا اس سے یہ حالت کیسی متفرق تھی۔ جس وقت تین سو شاگرد جن میں ایک سو بغداد کے شرفا میں شامل تھے۔ اس کے ارد گرد بیٹھے ہوتے تھے۔ سواس نے کہا ’’یا امام کیا سائنس کی تعلیم زیادہ مناسب نہ تھی‘‘۔ لیکن الغزالی نے سرخ آنکھوں سے اسے دیکھا اور کہا ’’جب خوشحالی کا بدر (چودھویں رات کا چاند) چاند ارادہ کے افق میں طلوع ہوتا ہےتو غروب کا آفتاب وصل کے مشرق کو چلا جاتا ہے ‘‘۔تب اس نے یہ پڑھا۔ میں نے لیلےٰ کا عشق چھوڑا اور میری خوشی دور تھی اور میں نے اپنی پہلی منزل کی رفاقت پھر حاصل کی اورمیری آرزوؤں نے یہ آواز میرے کان میں ڈالی ’’خوش آمدید یہ اس کی منزل ہے جس سے تو عشق رکھتا ہے۔ اسباب (سامان) اتار اور اتر کر یہاں مقام کر (رہائش کر) ‘‘۔

اس کے تارک الدنیا (دنیا چھوڑنے) ہونےاور سیاحت کے دس سال کے عرصہ میں اس کو جو روحانی تجربات ہوئے اور مابعد سالوں میں جب وہ دوسروں تصوف کی تعلیم دیا کرتا تھا ان کا ذکر ہم بعد میں کریں گے۔

ہم جانتےہیں کہ وہ بغداد سے روانہ ہو کراپنے وطن طوس کو واپس گیا اور وہاں وہ مطالعہ اور غور و خوض میں مصروف رہا۔ یہ عجیب بات ہے کہ اس کی زندگی کے اس عرصہ میں احادیث کے مطالعے خاص کر بخاری اور مسلم کے مطالعے سے اس کو اعلیٰ درجہ کی خوشی حاصل ہوئی۔ اس کی سوانح عمری لکھنے والے سب کے سب اس پر متفق ہیں۔ اس وقت اس کے سپرد ایک مدرسہ اور صوفیوں کی ایک خانقاہ تھی۔ ہر لحظہ(ہر لمحہ) مطالعہ اور عبادت میں گزرا۔ آخر کار پچیس سال کی (قمری شمار کے مطابق) میں اس نے وفات پائی۔

اس سیاحت کے عرصے میں ریاضت اور افلاس نے اس کی قوت زائل کر دی۔ جس کو دینی امور میں ایسا اعلیٰ رتبہ حاصل ہوا ہو۔ جس نے اپنے مخالفوں کے ساتھ بحث کرنے میں ایسا بڑاحصہ لیا ہو اس سے لوگوں کو حسد اور کینہ اور بُغض بھی بہت ہوگا اور انہو ں نے اس سے انتقام لینے کی کوشش کی ہوگی۔ بقول مکڈونلڈ صاحب شاید یہی وجہ تھی کہ وہ نیشاپور کو چھوڑ کر طوس چلا گیا۔ جو لوگ اس کی تعلیم کے مخالف اور اس کے رسوخ پر رشک کھاتے تھے۔ ان سے جو سلوک غزالی نےکیااس کا ذکر اس کے دوست نے کیا ہے۔

’’خواہ اس کی مخالفت ہجو(بد گوئی) اور اس پر حملے کثرتسے ہوئے لیکن اس کا اس پر کچھ اثر نہ ہوا اور ا ن کے حملوں کا جوا ب دینےکی کچھ پرواہ نہ کی۔ میں اس کے ملنےکو کئی بار گیا اوریہ میرا محض قیاس ہی نہیں کہ باوجود اس کےجو میں نے اس کی زندگی میں پیشتر مشاہدہ کیا تھا کہ وہ لوگوں سے کیسا حسد رکھتا اور درشتی (سختی) سے کلام کرتا تھا اورجو کچھ خدا نے اسے کلام و خیال و بلاغت (حسب موقع گفتگو) کی برکت دی تھی اس کی وجہ سے وہ دوسروں کو نظر حقارت سے دیکھا کرتا تھا۔ اس رتبے اور عہدہ کی تلاش میں دوسروں کو خاطر میں نہ لاتا تھا۔ اب وہ بالکل اس کے برعکس تھا اور ان سارے داغوں سےپا ک ہو گیا تھا اور میں پہلے تویہ خیال کرنے لگا کہ یہ اس کا بہانہ تھا لیکن تحقیقات سے مجھ پر ثابت ہو گیا کہ یہ تو میرے قیاس کے بالکل خلاف واقعہ تھا اورسودا ہونےکے بعد اب وہ نو بر نو (نیا نیا) ہو گیا تھا‘‘۔

غزالی نے( ۱۴ جمادی الثانی ۵۰۵ہجری)(بمطابق ۱۸۔ دسمبر۱۱۱۱ء) پیر کے روز وفات پائی۔ اس کے بھائی احمد نے جس کا حوالہ مرتضیٰ نے ابن جوزی کی کتاب بنام ’’کتاب الثابت عند المامت ‘‘سے دیا ہے۔اس کی وفات کا یہ بیان دیا ہے۔

’’پیر کے روز علی الصباح میرے بھائی نے وضو کر کے نماز ادا کی۔ تب اس نے کہا۔ میرا کفن لاؤ اور اس نے اس کولے کر چوما اور اپنی آنکھوں پر رکھ کر کہا۔ میں سنتا ہوں اور حکم مان کر اپنے بادشاہ کے پاس جاتاہو ں۔ اس کے بعد اس نے مکہ کی طرف اپنے پاؤں پھیلائے اور رضائے الٰہی کو قبول کیا۔ طوس کے قلعہ طبران میں یا اس کے باہر دفن ہوا اور ابن اسمعنی نے اس کی قبر کی زیارت کی‘‘۔

مابعد (اس کے بعد) مؤرخوں کی اس کی وفات کے خالی بیانات سے تشفی نہ ہوئی۔ مرتضیٰ نے بہت دلچسپ قصہ بیان کیا ہے۔ ’’امام ابوحمید الغزالی کی وفات کا وقت قریب پہنچا۔ تو اس نے اپنےخادم کو جو بہت عمدہ اور دین دار شخص تھا۔ حکم دیا کہ اس کے گھر کے وسط میں اس کے لیے قبر کھودے اور قرب و جوار (دور و نزدیک) کے دیہات کے لوگوں کو اس کے جنازے کے لیے بُلائے کہ کوئی اس کی لاش کو نہ چھوئے۔ عراق کے علاقہ کے تین نامعلوم اشخاص بیابان سے آئیں گے۔ ان میں سےدو اس کی میت کو غسل دیں گے اور تیسرا بلا کسی کے حکم یا اشارے کے نماز جنازہ پڑھے گا۔ اس کی وفات کے بعد اس کے خادم نے اپنے آقا کے حکم کے مطابق عمل کیا اورلوگوں کو بلایا اور جب لوگ جنازے کے لیے جمع تھے تو انہوں نے تین اشخاص کو بیابان سےآتے دیکھا۔ ان میں سے دو میت کو غسل دینے لگے اور تیسرا غائب ہو گیا اور دکھائی نہ دیا لیکن جب وہ غسل دے چکے اور کفن پہنا چکے اور اس کی لاش کو اٹھا کر قبر تک لے گئے توتیسرا شخص جبہ (چوغہ) پہنےجس کا کنارہ دونوں طرف سے سیاہ تھااور اونی پگڑی پہنے تھا ظاہر ہوا اس نے نماز جنازہ پڑھی اور لوگوں نے اس کے پیچھے۔پھر اس نے برکت کاکلمہ کہا اور چلا گیا اور لوگوں کی نظروں سےغائب ہو گیا اور اہل عراق کے بعض شرفا (شریف لوگوں) نے جو جنازے کے وقت حاضر تھے اس کو خوب غورسے دیکھا۔ لیکن اس کو نہ پہنچانا حتیٰ کہ رات کے وقت ہاتف نے یہ آواز دی ’’جس شخص نے نماز جنازہ پڑھی وہ ابو عبداللہ محمد بن اسحٰق اسفر شریف ہے۔ وہ بعید مغرب عین القطر سے آیا اور جنہوں نے میت کو غسل دیا وہ اس کے رفیق ابو شعیب ایوب بن سعید اور ابو عیسیٰ وجیہ تھے اور جب انہوں نے یہ سنا کہ وہ عراق سے سفر کر کے مغرب بعید کے سنؔجا کو گئے اور جب وہ ان کے پاس گئے اور ان سے دعا کی درخواست کی تو وہ واپس آئےا ور صوفیوں سے اس کا بیان کیا اور اس کرامات کو مشہور کیا۔ پھر ان کے ایک گروہ نے جب یہ بات سنی تو وہ ان کو دیکھنے گئے اور انہوں نے معلوم کیا کہ یہ وہی شخص تھے جن کو انہوں نے خوب غور سے دیکھا تھا اور ان سے دعاؤں کی درخواست کی اور یہ عجیب قصہ ہے ‘‘۔

فارسی صوفیوں کی کتابوں میں ایسا ہی ایک عجیب قصہ الغزالی کے چھوٹے بھائی کی وفات کے بارے میں بیان ہوا ہے۔ جن شعروں میں اس کا بیان ہے وہ الغزالی پر اور زندگی اورموت کے بارے جو اس کی رائے تھی اس پر بھی صادق آسکتا ہے۔ ‘’قادری روایت کی سند پر مغیث نے بیان کیا ہے کہ کسی طرح احمد الغزالی طوس واقع فارس کے باشندے نے ایک دن اپنے شاگردوں سے کہا ’’جاؤ میرے لیے نیا سفید کپڑا لاؤ‘‘۔ وہ گئے اور اشیائے مطلوبہ لائے اورآن کر اپنے استادکو مرا ہوا پایا۔ اس کے پاس ایک کاغذ پڑا تھا جس پر یہ شعر لکھے تھے جن کا ترجمہ یہ ہے :۔

’’میرے دوستوں سے کہو جو مجھے مردہ دیکھ کر میرے مرنےپر کچھ دیر تک گریہ و ماتم (رونا دھونا) کریں گے جو لاش تمہارے سامنے پڑی ہے وہ میں نہیں ہوں وہ لاش تو میری ہے پر وہ میں نہیں۔ میری زندگی تو غیر فانی ہے اور یہ میرا بدن نہیں۔ بہت سالوں تک یہ میرا گھر تھا اور بدلنے کا میرا کپڑا۔ میں تو پرند (پرندہ) ہوں اور یہ میرا قفس (پنجرا) تھا میں تو پرواز کر کے کسی اور جگہ چلا گیا اور میری یہ نشانی باقی رہی۔ میں تو گوہر (قیمتی موتی) ہوں۔ یہ میرا صدف (سیپ) ہے۔ میں اسے توڑ کر نکل گیا اور یہ نکما چھلکا باقی ہے۔ میں تو خزانہ ہوں اور یہ طلسم ہے۔ یہ مجھ پر رکھا ہوا تھا۔ حتیٰ کہ خزانہ کو فی الحقیقت رہائی ہوئی۔ خدا کا شکر ہو جس نے مجھے مخلصی دی اور عالم بالا میں مجھے ابدی مکان بخشا اب میں وہاں ہوں جہاں خوشحالوں (اچھے حال والوں) سے میرا بول چال ہے۔ جہاں میں خداکا چہرہ بے نقاب دیکھاکرتا ہوں اور شیشے پر غورکرتا ہوں جس میں سب کچھ نظر آتا ہے ماضی اور حال اور استقبال۔ اکل (اکیلا۔ تنہا) و شرب(پینے کی چیز) بھی میرے ہیں پھر بھی وہ ایک ہیں۔ جو جاننے کے قابل ہےوہ اس راز سمجھتا ہے اور جو شراب میں پیتا ہوں وہ شریں ذائقہ شراب نہیں نہ یہ پانی ہے بلکہ ماں کا خالص دودھ ہے۔ میرے معنی ٹھیک طور سے سمجھو کیونکہ یہ راز نشان اوراستعارے کے الفاظ میں بیان ہواہے۔ میں تو سفر میں آگے نکل گیا اور تم کو پیچھے چھوڑ گیا۔ میں تمہارے مقام کی منزل کو اپنا مسکن کیسے بناؤں میرے گھر کو بربادکرو اور میرے پنجرے کو ٹکڑے ٹکڑے اور صدف معہ دیگر سرابوں کو نیست ہونے دو۔ میرے لباس کو پھاڑ و۔ اس نقاب کو جو ایک وقت مجھ پر پڑا تھا ان سب کو دفن کر دو اور ان کو چھوڑو کیونکہ میں جاتا ہوں موت کو مو ت نہ سمجھو بلکہ یہ فی الحقیقت زندگی کی زندگی اور ہماری ساری آرزؤں کا مقصد ہے اس خدا کا خیال محبت سے کرو جس کا نام محبت ہے جو جزا دینے میں خوش ہوتا ہے اورخوف سے محفوظ رکھتاہے۔ جہاں میں ہوں وہاں سے میں تم غیر فانی روحوں کو اپنی طرح دیکھتا ہوں اور میں جانتاہوں کہ تمہارا اور میرا دونوں کا انجام ایک ہی ہے ‘‘۔

طوس کے کھنڈرات اور الغزالی کی جو قبر بتائی جاتی ہے ان کے فوٹو کے لیے ہم پادری ڈوائٹ۔ ایم۔ ڈونلڈ سن ساکن مشہد واقع فارس کے مشکور ہیں۔ یہ مسجد بہت قدیم ہے۔ شاید غزالی کے زمانہ کی ہےاور تصویر میں جو قبر نظر آتی ہے وہ شاید امام غزالی صوفی کی نہ ہو بلکہ کسی دوسرے غزالی کی ہو۔ کیونکہ السبقی (جلدسوم۔ صفحہ ۳۶) کا بیان ہے کہ

’’ ایک شخص بنام احمد بن محمد ابو حمید الغزالی کلاں تھا اور اس سے پہلے تھا‘‘۔

وہ کہتا ہے کہ لوگوں نے اس کی عین ہستی پر ہی شک ڈالا ہے۔ لیکن بہت دریافت کے بعد اس آدمی کا ذکر کئی کتابوں میں پایا گیا مثلاً کتاب’’ الانسب تصنیف ابن السمعنی ‘‘میں۔ اس نے یہ بھی بیان کیا کہ

’’ یہ شخص بھی خراسان میں رہا کرتا تھا اور اپنے علم کے باعث مشہور تھا ۔علم الٰہی کے مسائل پر اس نے بعض رسالے لکھے طوس میں دفن ہوا جہاں اس کی قبر مشہو ر تھی اور اس کی وجہ سے اس کو غزالی کلاں کہا کرتے تھے اور اپنی دعاؤں کا جواب حاصل کرنے کے لیے اس قبر پر جایا کرتے تھے‘‘۔

اس کے خیال میں یہ غزالی امام غزالی کا چچا تھا یا اس کے دادا کا بھائی۔ جس کی سوانح عمری ہم نے لکھی۔ السبقی کے اس بیان سے یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ الغزالی کو یہ نام اس لیے نہیں دیا گیا تھا کہ اس کا باپ اون بننے والا تھا۔ غالباًیہ قدیم خاندانی نام تھا۔

مسٹر ڈونلڈ سن نے یہ دلچسپ حال لکھا

’’طوس کے قدیم شہر کی فصیلیں اب تک موجود ہیں ان کا احاطہ ایک فرسنگ یا ساڑھے تین میل ہے۔ برجوں کے بہت کھنڈرات اور نو مقامات میں پھاٹکوں کے نشان باقی ہیں۔ اس نہایت وسیع قبرستان میں احمد غزالی کی قبر کا پتھر ان تک نظر آتا ہے۔ یہ قبرستان شہر کے جنوب مغرب میں واقع ہے اور اس کا بڑا حصہ ان زیر کاشت آگیا ہے اور وہ آخری حصہ جو نالہ سے پرے اونچی زمین پر ہے وہ اب تک قبرستان ہے‘‘۔

الغزالی کی قبرکی تصویر میری حسب منشا نہیں۔ اس تصویر میں یہ دکھایا گیا ہے کہ قبر کے کونے سے ایک بڑا ٹکڑا کٹ گیا ہے۔ وہ پتھر تقریباً دو گز لمبا ہے اور ایک فٹ چوڑا اور ایک فٹ اونچا ہے۔ اس امر کے صاف نشان پائے جاتے ہیں کہ جس حصہ پر احمد غزالی کا نام لکھا تھا اس کو کوشش کر کے کسی نے کاٹا۔ تصویر میں یہی کٹا حصہ نظر آتا ہے۔ جس جگہ سے یہ کٹا ٹکڑا شروع ہوتا ہے وہاں سے ایک خط مستقیم ایک انچ گہراکھدا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ یہ خط پتھر کے اوپر کے حصے میں ہے۔

جو سڑک جنوب مغربی پھاٹک سے شہر میں ہو کر گزرتی ہے۔ اس پر اس قدیم مسجد کےکھنڈرات نظر آتے ہیں اور اس برباد شدہ حالت میں بھی اس کے شان و شوکت کی جھلک پڑتی ہے۔ یہ اٹھارہ گز بلندہے اور اس کی اندرونی پیمائش سے پتا لگتا ہے کہ ایک مربع کرسی پانچ گز بلند ہے اور پھر ایک مثمن (ہشت پہلو۔ آٹھ پہلو) عمارت آٹھ گز بلند ہے (تصویر کو دیکھو)۔

جنوب مغربی پھاٹک کےباہر کی طرف ایک قدیم پل ہے جو آج تک مستعمل ہے۔ (استعمال میں) کیونکہ مشہد سے قافلے طوس کے قدیم شہر میں سے ہو کر گزرتے ہیں اس پل کی آٹھ محرابیں ہیں اور ہر ایک محراب ساڑھے چار گز چوڑی ہے۔ اس ندی کا نام کشف رود ہے۔

’’قلعہ بھی دلچسپ ہے۔ یہ ایک خندق اور فصیل سے محیط ہے۔ اس فصیل کے اندر ایک وسیع صحن ہے اور اس سے اندرونی قلعہ کی راہ جاتی ہے۔ زمانہ حال میں ہم اس فصیل کے گرد چل کر عقب کی راہ سے قلعہ کے اندر جا سکتے ہیں۔ اس صحن میں آج کل تربوز بوئے جاتے ہیں اور ہم نے فارس بھر میں ایسے عمدہ تربوزنہیں کھائے۔ اس قلعہ کے چاروں کونوں کے عظیم کھنڈرات اب تک باقی ہیں۔ اس چار دیواری کے اندر اینٹوں کے ڈھیر میں مٹی کے برتنوں کے ٹکڑے ہم کو ملے‘‘ ۔

مشہد واقع فارس سے جو دوسرا خط( ۱۷۔ جنوری ۱۹۱۷ء) میں پادری ڈوائٹ۔ ایم۔ ڈونلڈ سن نے لکھا اس میں یہ ذکر کیا

’’اس ہفتے میں پھر طوس کو گیا اورغزالی کی قبر کے پتھر کو بڑی احتیاط سے امتحان کیا۔ جیسا میں نے پیشتر لکھا یہ پتھر بہت گھس کیا ہے اورعلاوہ اس کے اس کا کچھ حصہ شکست ہو چکا ہے۔ پہلے جو یہ شک تھا کہ آیا یہ فوٹو محمد الغزالی کی قبرکی ہے یا دو سرے احمد الغزالی کی۔ اب وہ شک نہیں رہا اور میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ قبر ابو حمید ابن محمد ابن محمد ابن محمد الغزالی کی ہے۔ کیونکہ اب ہم پتھر کی چوٹی کے کونے پر صفائی سے پڑھ سکتے ہیں۔ کسی نے ایام گزشتہ میں اس سرے کے کاٹنے کی کوشش کی۔ یعنی امام غزالی اور بوؔ حا کے کاٹنے کی اورپتھر کو غور سے دیکھنے سے تقریباًصفائی سے یہ نام پڑھا جاتا ہے سوائے شروع کے حرف الف کے اس میں کچھ شک نہیں کہ سارا پتھر گھسا ہوا ہے اور جس لفظ کو میرے مرزا نے پہلی دفعہ احمدپڑھا۔ وہ یقیناً احمد تو نہیں۔ لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کیا ہے۔ اس نقصان کی تلافی نہیں ہو سکتی۔ یہ بھی قابل غور ہے کہ پتھر کے اس کتبے پر الغزالی کے لہجے تشدیدکے ساتھ ہوئے لیکن جس کو ہم تشدید پڑھتے ہیں وہ اس کی معمولی صورت نہیں (لازما) ‘‘۔

اس تحقیقات سے دو باتوں کا تو فیصلہ ہو جاتا ہے کہ طوس میں اس بڑے بزرگ صوفی اور عالم الٰہیات الغزالی کی قبر پر زؔتشدیدکے ساتھ ہے۔ لیکن عام رواج کے اور خود مسلمان مصنفوں کے لحاظ سے ہم نے زؔتشدید کے ساتھ نہیں لکھا۔  

مقلۃ لاغزالی محفوظۃ بدا ر التحف العریبۃ بالقاھرۃ 

باب پنجم

اس کی تصنیفات

الغزالی کا اتنا حال اس کی سوانح عمری سے ظاہر نہیں ہوتا جتنا اس کی تصنیفات سے معلوم ہوتا ہے۔ اس کے مؤرخوں نے جو سادہ واقعات کا اور اس کے نام کے ہجوں کا بیان لکھا ہے اس پر تکرار ہوتا رہا ہے جیسا کہ ہم پیشتر ذکر کر چکے ہیں۔ مگر اس کی قلم سے اتنی کتابیں نکلیں کہ اب تک ان میں سے بعض کو شائع ہونے کا موقعہ بھی نہیں ملا اور صرف قلمی نسخے اور مسودےپڑے ہیں۔ مسلمان مؤرخوں نے اس کی تصنیفات کی تعداد ننانوے بتائی ہے اور براکل مین نے اپنی کتاب (History of Arabic Literature)میں ان کا شما ر انہتر (۶۹) دیا ہے جو اب تک موجود ہیں۔ یہ تصنیفات علم الٰہیات،احوال الآخرت،علم فلسفہ پر اور بعض رسالے تصوف۔ اخلاق اور شریعت پر ہیں۔

بعضوں نے الغزالی کو سب مسلمان مصنفوں پر فوق دیا (بڑھا کر پیش کیا) ہے۔ اسمعیل ابن محمد ال حضری کا بیان ہے۔

’’محمد ابن عبداللہ سرور انبیا تھا۔ محمد ابن ادریس الشافعی سرور امامان تھا۔ لیکن محمد ابن محمد ابن محمد الغزالی سرور مصنفین تھا ‘‘۔

ہم نے جو تصویر دی ہے اس سے ظاہر ہے کہ اپنے زمانہ ہی میں بحیثیت مصنف کے اس کا درجہ کیسا بڑا تھا۔ مصر کے عربی عجائب گھر میں ایک مقلمہ (قلم دان) ہے جو الغزالی کا تھا۔ ایم۔ کی ٹی کس (M.Kyticas) نے یہ تحفہ عجائب گھر کی نذر کیا۔ یہ پیتل کا بنا ہے اور اس پر چاندی کا پانی چڑھا ہواہے۔ اس پر یہ کتبہ لکھاہے

’’ہمارے استاد۔ نہایت عظیم الشان امام ہمارے معزز پیشوا، صداقت ترجما ن۔ علامہ عصر۔ سلطان العاقلین۔ سب زندوں کی پناہ راستی کا مخزن۔ اپنے ہمعصروں میں شہرہ آفاق۔ فروغ دین۔ حجت الا سلام۔ محمد الغزالی کے لیے بنایا گیا ‘‘۔

دمشق برنجی صنعت کا یہ سب سے قدیم بقیہ ہے اور اس زمانے کے نسخے کتابت کا واحد نمونہ ہے۔ جو اس عجائب گھر میں پایا جاتاہے۔ یہ تو ثابت ہے کہ غزالی کی وفات کے بعد یہ نہ بتایا گیا تھا کہ کتب خانہ کی نذر کیا جائے کیونکہ دستور یہ تھا کہ کتب خانہ کو کوئی کتاب یا آسمانی کرہ نذر دیا جاتا تھا نہ قلم دان۔ یا دوات اور لفظ المرحوم (بمعنی متوفی) اس پر نہیں لکھا جیساکہ دوسری اشیا پر جو متوفی شخص کی یاد گار میں نذ ر کی جاتی ہیں یہ لفظ ’’مرحوم‘‘ لکھا ہوتا ہے۔ پیتل کے اصلی ہونے پر یہ اعتراض ہوا ہے کہ اس پر چاندی کا پانی پھرا ہوا ہے جو صوفی عالم کے استعمال کی شے نہیں ہو سکتی جس نے افلاس اور فقیرانہ زندگی بسر کرنے کا عہد کیا ہو۔ لیکن اس اعتراض کا یہ جواب ہو سکتا ہے کہ خود الغزالی نے ایسا قلم دان نہ بنوایا تھا لیکن اس کے شاگردوں نے اس کی خوشنودی مزاج اور عنایت حاصل کرنے کے لیے۔

علاوہ ازیں (اس کے علاوہ) یہ تعجب کی بات نہیں کہ جو کتبہ اس پر کنندہ ہے وہ سنجیدگی سے معّرا(پاک) ہے۔ اس کے زمانےکے دوسرے کاموں سے مقابلہ کر کے یہ کہہ سکتےہیں کہ خود الغزالی نے یہ کتبہ لکھوایا ہو۔ الغزالی کی تصنیفات اور اس کی جن کتابوں کا ترجمہ دیگر زبانوں میں ہوا خاص کر عبرانی،لاطینی، فرانسیسی، جرمنی اور انگریزی میں ان کی پوری فہرست تتمہ(ضمیمہ۔ خاتمہ۔ کتاب کا وہ زائد حصہ جو اخیر میں لگا دیتےہیں) میں دی گئی ہے۔ اس کی زیادہ مشہورکتابوں کا ذکر کرنے سے پیشتر ان کا خلاصہ دینا ناظرین کے لیے خالی از لطف نہ ہوگا۔

’’جو اہر القرآن ‘‘قرآن کی ان چند آیات کی تشریح ہے جو خاص قدر رکھتی ہیں۔ کتاب’’ عقیدہ میں مسلمانی ‘‘ایمان کے مسائل کا بیان ہے اور پاکاک (Pococke) نے اپنی کتاب (Specimen)میں اس کو شائع کیا۔’’ الدرات اَل فاخرہ‘‘ روز عدالت اور دنیا کے آخر کے بیان میں ہے اور تصوف کے اخلاق اور الٰہیات کا بیان ’’احیا العلوم الدین‘‘ میں پایا جاتا ہے۔ ’’میزان الا عمال ‘‘کا ترجمہ عبرانی میں برسلونا کے ابراہیم بن حسدی نے کیا اور گولڈن تھل (Goldenthal) نے اسے شائع کیا۔ ’’کیمیائے سعادت ‘‘تصوف کے بارے میں ایک مشہور لیکچر ہے۔ یہ کتاب پہلے پہل فارسی میں لکھی گئی اور دو دفعہ( ۱۸۷۳ء)میں اس کا ترجمہ انگریزی میں ہوا اور پھر حال ہی میں کلاڈ فیلڈ (Claud field) نے پھر اس کا ترجمہ انگریزی میں کیا۔’’ احوال الولد‘‘ایک مشہور اخلاقی رسالہ جس کا جرمن میں ترجمہ ہو چکا ہے فقہ پر جو کتابیں اس نے لکھیں ان میں وہ رسالے مشہور ہیں جو’’ شافعی شریعت ‘‘پر ہیں۔ ’’بسیط۔وسیط‘‘ وجز ان کا خلاصہ ہیں۔ فلسفے میں’’ تحفتہ الفلسفہ ‘‘یونانی فلسفہ ماننےو الوں پر حملہ ہے۔ ’’مقصد الفلسفہ‘‘ مقدم الذکر کتاب کا دیباچہ ہے۔ اس کا لاطینی ترجمہ جو( ۱۵۰۶ء )میں شائع ہوا تھا اب تک موجود ہے۔’’المنقدح من الضلل‘‘ اس وقت لکھی گئی جب غزالی نے نیشاپور میں دوسری دفعہ درس وتدریس کا کام شروع کیا اس میں اس نے اپنے فلسفہ کا بیان کیا۔ حال ہی میں اس کا ترجمہ شائع ہوا بنام۔۔۔(The Confession of Alghazali)یہ اس کی سب سے مختصر اور مشہور کتاب ہے جو ’’مقدس آگستین کے اقرارات ‘‘یا جان بینین۔۔۔ (John Bannyons) کی کتاب (Grace Abounding to the Chief of Sinners)کی کتاب کے مشابہ ہے۔ غزالی کے بعض رسالے بہت ہی مختصر ہیں وہ بطور خط یا رسالے کے ہیں۔

اس کی مختصر کتابوں میں سے مفصلہ ذیل کا ذکر ہوگا :۔

’’الادب فی الدین‘‘۔ ادب آداب کے بارے میں جسے اس نے اپنے شاگردوں کے لیے لکھا۔ اس میں کامل شاگرد۔ کامل استاد کا اکل و شرب نکاح اور دینی زندگی کا بیان ہے ایک اور چھوٹی کتاب بنام ’’ایوہ الولد‘‘ (اے بچے) ہے جس کا ذکر اوپر ہو چکا ہے۔ اس میں اس نے ایمان اور اعمال کی تعریف کی ہے اور ان میں امتیاز کیا ہے ویباچہ میں ایک عجیب سی عبارت آئی ہے جس سے غزالی کی صداقت پر کچھ شک پڑتا ہے یا کم از کم یہ سوال پیداہوتا ہے کہ اس نے کس ’’انجیل ‘‘ کی طرف اشارہ کیا۔ چنانچہ اس کابیان ہے ’’اے میرے بچے جیسا تو چاہے ویسے زندگی بسر کر کیونکہ تو تو مردہ ہے جس کوچاہے پیار کر کیونکہ جدائی اٹل ہے اور جو چاہے کر کیونکہ اس کے لیے ضرور تجھے حساب دینا پڑے گا۔ فی الحقیقت میں نے عیسیٰ (الصلوٰۃ السلام علیہ) کی انجیل میں دیکھا کہ اس (عیسیٰ) نے کہا جس ساعت سے (لمحہ سے۔ وقت سے) کہ لاش چارپائی پر رکھی جاتی ہے اس وقت تک کہ وہ قبر کے کنارے رکھی جائے خدا اس سے چالیس سوال پوچھے گا جن میں سے پہلا سوال یہ ہو گا۔ اے میرے خادم تو نے آدمیوں کے سامنے جانے کے لیے بہت سالوں تک اپنے تئیں پاک صاف کیا۔ لیکن میرے دروازوں پر حاضر ہونے کے لیے ایک گھنٹے کے لیے اپنے تئیں صاف نہیں کیا اور ہر روز یہ آواز تیرے کانوں میں ڈالی جاتی تھی۔ جو کچھ تم دوسروں کے لیے کرتے ہو کیوں تم میرے لیے نہیں کرتے جو تمہیں رحمت سے احاطہ کیے ہوئے تھے لیکن تم بہرے بنے رہے اور سننےپر راضی نہ تھے۔

اس کی کتاب’’ کیمیائے سعادت ‘‘میں ایک مشہور باب دربارہ ’’اپنے تئیں جان‘‘ ہے ۔آدمی کی روح اور اس کے دشمنوں کے بارے میں جو اس کا محاصرہ کیے ہیں ایک تمثیل آئی ہے جو بینین کی کتاب ’’جنگ مقدس‘‘ سے مشابہ ہے۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے اس کی سب سے چھوٹی کتاب’’ القواعدالعشرہ‘‘ (دس مسائل) ہے۔ یہ کئی بار شائع ہو چکی ہے۔ اس میں ایمان اور عمل کے دس اصولوں کا ذکر ہے اور معمولی خط کی طوالت (خط کی لمبائی۔ خط کے بڑے ہونے) سے قدرے بڑی ہے۔ اسی قسم کی دوسری کتاب ’’رسالتہ الطیر‘‘ ہے (پرندوں کی تمثیل)۔ اس کا مشہور رسالہ اخلاق اور عمل کے بارے میں ’’میزان العمل‘‘ کے نام سے موسوم ہے۔ یہ واعظ کی کتاب یا امثال کی کتاب کے پہلے ابواب کی مانند ہے۔ دیباچہ میں الغزالی نے ان لوگوں کی حماقت کو فاش (حماقت کو ظاہر کیا) کیاجو اپنی غیر فانی روحوں کی خوشحالی سے اور ان لوگوں کی خطرناک حالت سے غافل رہتے ہیں جو عاقبت (آخرت) پر ایمان رکھنے کو نظر حقارت سے دیکھتے ہیں۔ خوشحالی کا صحیح طریقہ حق کے جاننے اور کرنے پر مشتمل ہے۔ روح ایک فرد ہے اور اس کے مختلف قویٰ باہم وابستہ اور پیوستہ ہیں۔ تصوف کا طریقہ صحیح ایمان کو صحیح عمل سے وابستہ کرتا ہے۔ اس نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ دینی عبادت کے ذریعہ سیرت کا بدلنا ممکن ہے اور ان نیکیوں کا اس نے ذکر کیا جن کو عمل میں لانا چاہیے اور ان بدیو ں کا جن کو خدا کی طرف اور خوشحالی کی طرف جانے میں ترک کرنا چاہیے۔

زندگی کے کوتاہ ہونے اور ابدیت کی اہمیت پر زور دینے کے لیے الغزالی نے یہ کہا ’’فرض کرو کہ کل جہان خاک سے بھرا ہے اور ایک چھوٹا پرندہ ہر ہزار سال میں ایک دفعہ اس خاک کا ایک ذرہ اٹھا لے جاتاہے۔ ہم جانتے ہیں کہ اس پرندے کا کام بھی ختم ہوجائے گا۔ لیکن ابدیت میں کچھ فرق پیدا نہ ہوگا۔ اس کا کوئی انجام نہیں‘‘۔اگرچہ اس کتاب کی تعلیم بہت عمدہ ہے۔ لیکن پھر بھی اس کا حصر (محاصرہ) اس اصول پر ہے کہ نجات بذریعہ اعمال ہے۔ دل کی نئی پیدائش کے ذریعہ سیرت کے مبدل (تبدیل) ہونے کے امکان کا کچھ ذکر نہیں۔ نہ وہ راستہ بتایا گیا جس کے ذریعہ ایسی قوت حاصل ہوکہ آزمائش پر فتح پا کر مظفرانہ (فتح مند) زندگی بسر کریں۔

اس کی ساری تصانیف میں سب سے مشہور کتاب ’’احیا العلوم الدین‘‘ ہے۔ اسلامی تعلیم و اخلاق کا مفصل بیان اس میں آیا ہے اور کل اسلامی خیال پر حاوی ہے اس کتاب کی اشاعت کئی بار ہو چکی ہے اور کئی تفسیریں اس کی لکھی گئی ہیں۔ ان میں سے مشہور تفسیر محمد الزبیدی امرتضیٰ کی تصنیف ہے یہ کتاب چار جلدوں میں ہے اور ہر ایک جلد میں دس دس کتابیں ہیں اور کل ایک ہزار گنجان صفحے ہوں گے۔اگر چہ عام طور پر اصل زبان میں یہ کتاب پڑھی جاتی ہے پھر بھی اس کے کئی خلاصے چھپ چکے ہیں۔ ان اختصاروں میں سے ایک کا نام ’’واعظ المومنین ‘‘ ہے جسے محمد جمال الدین دمشقی نے تالیف کیا اور امریکن مشن قاہرہ کے ڈونٹی سکول میں پڑھائی جاتی ہے۔

اصلی کتاب کے پہلے حصے کا نام ’’عبادت کے بارے میں‘‘ دوسرے حصے کا نام ’’عمل کے بارے میں‘‘ تیسرے حصے کا نام’’جو اشیا کو برباد کرتی ہیں‘‘ یعنی بدیاں۔ چوتھے حصے کا نام ’’جو اشیا روح کو مخلصی دیتی ہیں‘‘ یعنی نیکیاں۔ مضامین مفصلہ ذیل ہیں :۔

’’عبادت کے بارے میں ‘‘

اول۔کتاب العلم۔ جس کے سات حصے ہیں

۱۔علم کے فوائد

۲۔ کس قسم کاعلم ممنوع اور کس قسم کا جائزہے

۳۔ علم الٰہی و فہرست اسما

۴۔ بحث اور مبا حثہ کی شرائط

۵۔استاد اور شاگرد کا رشتہ

۶۔ علم کے خطرے

۷۔عقل اور اس کا استعمال

دوم۔ کتاب کے مسائل۔ جس کے چار حصے ہیں

۱۔ اسلامی عقیدہ

۲۔ایمان کے درجے

۳۔ خدا۔ اس کا وجود۔ صفات اور کام

۴۔ ایمان اور اسلام

سوم۔کتاب الا سرار الصفا۔ اس کے تین حصے ہیں

۱۔ ناپاک اشیا سے طہارت

۲۔ناپاک حالتوں سے طہارت

۳۔ناپاک چیزوں سے طہارت جو بدن کے متعلق ہیں (مثلاًناخن۔ کان۔ وغیرہ)

چہارم۔ کتاب الاسرار رالصلوٰۃ۔ اس کےسات حصے ہیں

۱۔صلوٰۃ کے فوائد

۲۔صلوٰۃ کا ظاہری عمل

۳۔ صلوٰۃ کے شرائط

۴۔ امام

۵۔ صلوٰۃ الجمعہ

۶۔ متفرقات

۷۔ خاص نمازیں

پنجم۔ کتاب الاسرار الزکوٰۃ۔ اس کے چار حصے ہیں

۱۔ زکوٰۃ کی اقسام

۲۔دینے کی شرائط

۳۔ کس کو دیا جائے

۴۔ان پر کیسے عمل کریں

ششم۔ کتاب الاسرار الصوم۔اس کے تین حصے ہیں

۱۔اس کی ضرورت

۲۔ اس کے اسرار

۳۔صوم کے ذریعہ اطاعت

ہفتم۔ کتاب الاسرار الحج۔ اس کے تین حصے ہیں

۱۔اس کے فوائد اور سیرت

۲۔ تربیت عمل

۳۔ اس کے اندرونی معنی

3

ہشتم۔ کتاب التلاوت القرآن

نہم۔ کتاب الذکر و الصلوٰۃ

دہم۔ کتاب الذکر اللیل

’’امور متعلقہ عمل ‘‘

۱۔اکل و شرب کے آداب

۲۔نکاح کے آداب

۳۔تجارے کے آداب

۴۔ اوامر و نواہی

۵۔ آداب دوستی و قیل و قال

۶۔ اعتکاف کی زندگی

۷۔آداب سفر

۸۔ آداب موسیقی و شاعری

۹۔ عنایات اور عتابات کے بارےمیں

۱۰۔ حقیقی معاشرت اور نبی کی خوبیاں

’’جو امور روح کو برباد کرتےہیں ‘‘

۱۔ دل کے عجائبات

۲۔روح کی ریاضت

۳۔ دو تمناؤں کے خطرے یعنی اشتہا (خوا ہش۔ بھوک) اور شہوت (جنسی خواہش) کے

۴۔ زبان کی بدیاں

۵۔ خفگی اور حسد کی برائیاں

۶۔دنیا کو حقیر جاننے کے بارے میں

۷۔افلاس اور لالچ کی تحقیر پر

۸۔عزت کی تمنا اور ریا کاری کا تحقیر پر

۹۔بطلانوں کی تحقیر کے لیے

’’جو امور روح کو مخلصی دیتےہیں‘‘

۱۔کتاب التوبہ

۲۔کتاب الصبر و الشکر

۳۔کتاب الخوف

۴۔ کتاب الافلاس و ریاضت

۵۔کتاب التوحید اللہ

۶۔ کتاب الحب

۷۔ کتاب دربارہ نیک ارادہ اور خلوص قلبی

۸۔کتاب الامتحان النفس

۹۔ کتاب الذکر

۱۰۔کتاب دریا و الموت

اس کتاب کے تیسرے اور چوتھے حصوں سے خاص کر ظاہر ہوتا ہے کہ غزالی صوفی اور راستبازی کا تلقین کرنے والا تھا۔ ’’امور جو روح کو مخلصی دیتےہیں ‘‘۔ کتاب کے دس حصوں میں سےیہ مصالح (مصالحت) جمع کرنا مشکل نہ ہوگا کہ ہر دن کے لیے روحانی خیالات نکالیں۔ غزالی کی تصنیفات سے جواہرات کی ایسی تسبیح نہ صرف مسلمانوں کے لیے مفید ہوگی بلکہ مسیحیوں کی عبادت کے لیے بھی۔

دوسری نہایت دلچسپ کتاب موسوم بہ المقصد الاثنا شرح اسمائے اللہ وآل حسنہ ہے۔ اعلیٰ مقصد۔ خدا کے اسمائے حسنہ کی تشریح۔ کتاب تین حصوں پر منقسم ہے جس کے پہلے حصے میں فلسفانہ طور پر لفظ ’’نام ‘‘ کی تشریح کی گئی ہے۔ یہ بتایا گیا ہے کہ کسی شے کے نام رکھنے اور جس شے کا نام رکھا جائے اس میں کیا امتیاز ہے اور کیسے یہ ممکن ہے کہ خدا کے نام بہت بھی ہوں اور پھر بھی ذات واحد ہو۔ کتاب کا دوسرا حصہ سب سے لمبا ہے اور اس میں خدا کے ننانوے ناموں کا ترتیب وار ذکر ہے اور یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ کیسے اس کی سات صفات اور ذات واحد میں ان کو سمجھ سکتے ہیں۔ تیسرا حصہ مختصر ہے اس میں یہ بیان ہے کہ فی الحقیقت نناوے سے زیادہ نام ہیں لیکن خاص معقول وجوہات سے یہ شمار ٹھہرایا گیا اور پھر ایک فصل اس بیان میں ہے کہ خدا کا بیان کیسے کرنا اور کیسے نہ کرنا چاہیے۔

دوسری نہایت دلچسپ کتاب موسوم بہ المقصد الاثنا شرح اسمائے اللہ وآل حسنہ ہے۔ اعلیٰ مقصد۔ خدا کے اسمائے حسنہ کی تشریح۔ کتاب تین حصوں پر منقسم ہے جس کے پہلے حصے میں فلسفانہ طور پر لفظ ’’نام ‘‘ کی تشریح کی گئی ہے۔ یہ بتایا گیا ہے کہ کسی شے کے نام رکھنے اور جس شے کا نام رکھا جائے اس میں کیا امتیاز ہے اور کیسے یہ ممکن ہے کہ خدا کے نام بہت بھی ہوں اور پھر بھی ذات واحد ہو۔ کتاب کا دوسرا حصہ سب سے لمبا ہے اور اس میں خدا کے ننانوے ناموں کا ترتیب وار ذکر ہے اور یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ کیسے اس کی سات صفات اور ذات واحد میں ان کو سمجھ سکتے ہیں۔ تیسرا حصہ مختصر ہے اس میں یہ بیان ہے کہ فی الحقیقت نناوے سے زیادہ نام ہیں لیکن خاص معقول وجوہات سے یہ شمار ٹھہرایا گیا اور پھر ایک فصل اس بیان میں ہے کہ خدا کا بیان کیسے کرنا اور کیسے نہ کرنا چاہیے۔

’’خداکو سوائے خود خدائے تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا۔ اس لیےاس نے اپنی اشرف المخلوقات پر صرف اپنے ناموں ہی کو منکشف کیا ہے۔ جن میں وہ اپنے تئیں چھپاتا ہے۔ اس نے بیان کیا خدا کے اور مومن کے بارے میں دو امور درست ہیں۔ ہر سچے مومن کویہ کہنا چاہیے ’’مجھے خداکے سوا کچھ معلوم نہیں ‘‘ اور ’’میں خدا کے بارے میں کچھ نہیں جانتا‘‘۔

الغزالی کی آخری کتاب ’’منہاج العابدین ‘‘ ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ کتاب ان لوگو ں کے لیے لکھی گئی ہے جو ’’احیا‘‘کو نہ سمجھ سکتے تھے اور اس میں ازروئے تصوف اسلام کے عقیدت اور رسوم کا بیان ہے۔ اس کے حاشیہ میں ’’ہدایت المبتدین ‘‘ مرقوم ہے جس کا ذکر ہو چکا ہے۔ الغزالی کی یہ دو کتابیں بہت مشہور ہیں اور ان کی اشاعت بہت وسیع ہوئی ہے۔

کتاب ’’منہاج ‘‘سے ظاہر ہوتاہے کہ غزالی نے اپنی زندگی کے آخری حصے میں عام تعلیم کے لیے بھی تصوف کی اصطلاحات کو استعمال کیا۔ یہ مختلف ابواب مناؔزل کہلاتے ہیں جو روح کو نجات اور اطمینان کی طرف جانے میں طے کرنی پڑتی ہیں۔ پہلی منزل تو عرفان کی ہے۔ پھر توبہ کی۔ خدا کے راستے پر چلنے میں جو رکاوٹیں حائل ہوتی ہیں ان کی فہرست ہے۔ روح کی ترقی میں جو امور ہارج (ہرج کا سبب) ہوتے ہیں مثلاً دنیا اور اس کی تحریصات (لالچ۔ بہکاوے)،جسم،شیطان،حواس اور دوسری رکاوٹیں یہ ہیں۔ روزی کمانے کی فکریں، زندگی کی گھبراہٹیں اور تکلیفیں اور صوفی کی راہ میں آخری منزلیں یہ ہیں مثلاً ہر حالت میں خدا کی حمد کرنا اور اس کی حضوری کی حقیقت تک پہنچنے میں دل و جان سے کوشش کرنا۔

جس راہ کا الغزالی نے ذکر کیا وہ ایسی مشکل ہے کہ اس نے یہ بیان کیا۔ ’’بعض طالبان ان منزلوں کو ستر سال میں طے کرتے ہیں بعض دس میں۔ مگر بعض ایسے طالب علم ہیں جن کی روحیں ایسی منور ہو چکی ہیں اور جو دنیا کے فکر و اندیشہ سے ایسے مبرا ہیں کہ وہ اس سفر کو ایک سا ل میں۔ ایک مہینہ میں بلکہ ایک گھنٹے میں طے کر کے منزل مقصود کو پہنچ جاتےہیں۔ وہ اصحاب کہف (صاحبان ِغار،مسلمانوں کے عقیدے میں پانچ یاسات یانو آدمی جو ہزاروں سال کہف یعنی غار میں سو رہے ہیں اور قیامت کے دن اٹھائے جائیں گے ان کے ساتھ ایک کتّا بھی ہے۔)کی طرح جاگتے ہیں اور جو تبدیلی ان کو اپنے میں اور دوسروں میں نظر آتی ہے وہ مثل خواب کے ہے‘‘۔

کتاب ’’احیا‘‘ میں جو تعلیم اس نے نماز کے بارے میں دی ہے وہ رسم پرستوں کی نماز سے جو ظاہری رسوم کی سخت پابندی کرتے ہیں کہیں اعلیٰ ہے ’’نماز کے تین درجےہیں۔ ان میں سے پہلا درجہ تو وہ ہے جس میں نماز محض ہونٹوں سے ادا ہوتی ہے۔ دوسری قسم کی نمازیں وہ ہیں جن کو روح بہت مشکل سے اور سعی بلیغ (کامل کوشش)سے ادا کرتی اور الٰہی باتوں پر بدخیالات سے منتشر ہوئے بغیر توجہ لگاتی ہے۔ تیسری قسم کی نماز وہ ہے کہ جب روح ایسی باتوں کا دھیان کرنے سے بمشکل رکتی ہےلیکن نماز کا یہ عین مغز ہے کہ سے دعا مانگی جاتی ہے وہ دعا کی روح پر تصرف کرلے اور دعا مانگنے والے روح خدا میں محو ہو جائے جس سے کہ وہ دعا مانگتا ہے۔ جس کا دعا مانگنابند ہو جاتا ہے اور اپنی ذات کا سارا علم جاتا رہتا ہے یہاں تک دعا کا عین خیال بھی اس کی روح اورخدا کے درمیان ایک حجاب دکھائی دیتا ہے۔ اس حالت کانام صوفیوں میں ’’مجذوب‘‘(جذب کیا گیا،خدا کی محبت میں غرق) ہے۔ اس وجہ سے کہ انسان خدا میں ایسا جذب ہو جاتا ہے کہ اسے بدن کا خیال بھی نہیں رہتا نہ کسی اور شے کا جو ظاہرا واقع ہو رہی ہو اور نہ اپنی روح کی حرکات کا بلکہ وہ پہلے خداوند کی طرف جانے میں مصروف ہوتی ہے اور آخر کار کلیتہً(پورے طور پر) خدا میں مجذوب ہوجا تی ہے۔ اگر یہ خیال بھی پیدا ہو کہ وہ اس مطلؔق میں مجذوب ہوگیا تو عیب میں داخل ہے ۔کیونکہ وہی مجذوبیت اس نام کی مستحق ہے۔ گونیم ملا اُن کو بے وقوف ٹھہرائیں گے لیکن یہ بے معنی نہیں ۔لیکن سوچو جس حالت کا میں ذکر کرتا ہو وہ اس شخص کی حالت سے مشابہ ہے جو کسی دوسری شے کو پیار کرتا ہو مثلاً دولت، غرت یا عشرت کو۔ ایسے لوگ ان کی محبت کے سیلاب میں اور دوسرے اُن کے غیض و غضب کے سیلاب میں ایسے بہ جاتے ہیں کہ جو ان سے کلام کرتے ہیں۔ ان کی آواز وہ نہیں سنتے اور جو ان کے پاس سے ان کی آنکھوں کے سامنے گزرتے ہیں ان کو وہ نہیں دیکھتے۔ وہ اپنے جذبہ میں ایسے محو ہوتے ہیں کہ وہ اپنی محویت کو بھی نہیں جانتے۔ تم بالضرور اپنے مقصود سےاس کو ہٹاتے ہو‘‘۔

کتاب ’’احیا‘‘ میں جو تعلیم اس نے نماز کے بارے میں دی ہے وہ رسم پرستوں کی نماز سے جو ظاہری رسوم کی سخت پابندی کرتے ہیں کہیں اعلیٰ ہے ’’نماز کے تین درجےہیں۔ ان میں سے پہلا درجہ تو وہ ہے جس میں نماز محض ہونٹوں سے ادا ہوتی ہے۔ دوسری قسم کی نمازیں وہ ہیں جن کو روح بہت مشکل سے اور سعی بلیغ (کامل کوشش)سے ادا کرتی اور الٰہی باتوں پر بدخیالات سے منتشر ہوئے بغیر توجہ لگاتی ہے۔ تیسری قسم کی نماز وہ ہے کہ جب روح ایسی باتوں کا دھیان کرنے سے بمشکل رکتی ہےلیکن نماز کا یہ عین مغز ہے کہ سے دعا مانگی جاتی ہے وہ دعا کی روح پر تصرف کرلے اور دعا مانگنے والے روح خدا میں محو ہو جائے جس سے کہ وہ دعا مانگتا ہے۔ جس کا دعا مانگنابند ہو جاتا ہے اور اپنی ذات کا سارا علم جاتا رہتا ہے یہاں تک دعا کا عین خیال بھی اس کی روح اورخدا کے درمیان ایک حجاب دکھائی دیتا ہے۔ اس حالت کانام صوفیوں میں ’’مجذوب‘‘(جذب کیا گیا،خدا کی محبت میں غرق) ہے۔ اس وجہ سے کہ انسان خدا میں ایسا جذب ہو جاتا ہے کہ اسے بدن کا خیال بھی نہیں رہتا نہ کسی اور شے کا جو ظاہرا واقع ہو رہی ہو اور نہ اپنی روح کی حرکات کا بلکہ وہ پہلے خداوند کی طرف جانے میں مصروف ہوتی ہے اور آخر کار کلیتہً(پورے طور پر) خدا میں مجذوب ہوجا تی ہے۔ اگر یہ خیال بھی پیدا ہو کہ وہ اس مطلؔق میں مجذوب ہوگیا تو عیب میں داخل ہے ۔کیونکہ وہی مجذوبیت اس نام کی مستحق ہے۔ گونیم ملا اُن کو بے وقوف ٹھہرائیں گے لیکن یہ بے معنی نہیں ۔لیکن سوچو جس حالت کا میں ذکر کرتا ہو وہ اس شخص کی حالت سے مشابہ ہے جو کسی دوسری شے کو پیار کرتا ہو مثلاً دولت، غرت یا عشرت کو۔ ایسے لوگ ان کی محبت کے سیلاب میں اور دوسرے اُن کے غیض و غضب کے سیلاب میں ایسے بہ جاتے ہیں کہ جو ان سے کلام کرتے ہیں۔ ان کی آواز وہ نہیں سنتے اور جو ان کے پاس سے ان کی آنکھوں کے سامنے گزرتے ہیں ان کو وہ نہیں دیکھتے۔ وہ اپنے جذبہ میں ایسے محو ہوتے ہیں کہ وہ اپنی محویت کو بھی نہیں جانتے۔ تم بالضرور اپنے مقصود سےاس کو ہٹاتے ہو‘‘۔

الغزالی کی تصنیفات اور ان اقتباسات میں جو یہاں دئے گئے ہیں ان کی خلوص قلبی اور اخلاقی سنجیدگی کا اظہار ہے جس سے ظاہر ہے کہ اس کا اثر ایسا گہرا اور مستقل کیوں ہوا اور جو فلاسفرمحض معقول ہی تھے مثلاً اوروز(Averroes) وغیرہ ان پر ایسی سبقت کیوں لے گیا۔گواس نے سکالسٹک(Scholastic)فلسفہ کی مخالفت کی لیکن اس نے اخلاقی فلسفہ کی حمایت کی۔ ناظرین کو یاد ہوگا کہ وہ اپنے سفروں میں اخلاق کی کتاب اپنے ساتھ رکھتا تھا۔ اس کی وفات کے بعد کئی مشہور اخلاقی رسالے تالیف ہوئے جن میں بہت کچھ اس کی تعلیم میں سے درج ہوا۔ کلاڈفیلڈ صاحب کا بیان ہے

’’ان میں سب سے زیادہ مشہور کتاب اخلاق جلالی ہے جو جلال الدین اسعد الدوانی کی تصنیف ہے جس کا ترجمہ ٹامسن صاحب نے نہایت عمدگی سے انگریزی میں کیا‘‘۔

اخلاق جلالی خود بہت کچھ عربی کا فارسی ترجمہ ہے۔ عربی میں یہ کتاب دسویں صدی میں کتابتہ الطہارت کے نام سے شائع ہوئی۔ اس سے دو صدی بعد ابو ناصر نے اس کا ترجمہ فارسی میں کیا اور اخلاق ناصری نام رکھا اور ابو سینا سے اس میں کچھ ڈالا اور پندرہویں صدی میں زیادہ تفصیل کے ساتھ اخلاق جلالی کے نام سے شائع ہوئی۔

الغزالی کی ساری تصنیفات سے ظاہر ہے کہ وہ فطرت کا بڑا مشاہدہ کرنے والا تھا۔ قرآن کے حصوں میں فطرت کابیان آیا ہے اور اجرام فلک سے سبزہ زار زمین سے، حیوانات سے اور سمندر اور اس کے خطرات سے ان کا خاص اثر اس کے دل پر ہوا۔ اس کی ایک کتاب کا نام ’’الحکمت فی مخلوقات اللہ‘‘ ہے۔ یہ اس کی چھوٹی کتابوں میں سے ہے ۔لیکن اجرام فلک زمین اور سمندر اور اربعہ عناصر کا ذکر اس میں نہایت خوبصورتی سے ہوا ہے۔ ایک باب تو خاص علم الارحام اور انسانی جسم کے طبعی عجائبات پر مشتمل ہے۔ ایک باب پرندوں کے بارے میں ہے اور ایک باب چوپایوں اور مچھلیوں کے بارے میں۔ سارے رسالے کا نتیجہ دلیل تجویز ہے کہ خالق کا احسان اور عظمت اس کی صنعتوں سے ہویدا(ظاہر،آشکار، واضح)ہے۔ اس ستارے بھرے گنبد پر نظر ڈالنے سے جو فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ اس کا مقابلہ ہم داؤد کے آٹھویں اور انیسویں مزامیر کے الفاظ سے کرسکتے ہیں۔ الغزالی کابیان ہے:۔’’آسمان کے گنبد پر نظر ڈالنے سے فکر بھاگ جاتا، شیطان کے وسو سے دور ہوتے، خوف جاتا رہتا، خدا کی یاد آتی، دل سے خدا کی بڑائی ہوتی، بد خیالات دور ہوتے، مایوسی جاتی رہتی، صاحب جذبات کو تسلی ہوتی، عاشق کو خوشی اور ان کےلئے یہ بہترینقبلہ(سامنے یا مقابل کی چیز، سمت کعبہ) ہے جو نماز میں خدا کو پکارتے ہیں‘‘۔

الغزالی علم مناظرہ اور بحث مباحثہ میں بھی ماہر تھا۔ ا س نے قرآن کی تفسیر چالیس جلدوں میں لکھی لیکن وہ کبھی مطبوع نہیں ہوئی اور تقریباً ایک درجن کتابیں مختلف بدعتیوں کی تردید میں لکھیں جن میں سے ایک کا نام ’’افضل جواب ان کو جنہوں نے انجیل میں تحریف کی‘‘الغزالی پر خود بدعت کا الزام آیا تھا۔ لیکن اسلام کے فضلا میں وہ وسیع ہمدردی کے لئے مشہور ہے اس نے یزید پر لعنت کرنے سے بھی ممانعت کی جو محمد کے نواسے حسین کا قاتل تھا اور اپنی رائے ان الفاظ میں ظاہر کی ’’مسلمان پر لعنت کرنا منع ہے۔ یزید مسلمان تھا یہ یقینی امر نہیں کہ اس نے حسین کو قتل کیا اور کسی مسلمان کی نسبت بدگمانی کرنا منع ہے ہم کو یہ بھی تحقیق معلوم نہیں کہ اس نے حسین کے قتل کا حکم دیا ۔ہم کو کسی بزرگ کی موت کے سبب کا یقینی علم نہیں اور خاص کر اتنے عرصہ دراز کے بعد اس خاص معاملہ میں طرفداری اور جھوٹے بیانات کا خیال رکھیں نیز اگر اس نے اسے قتل بھی کیا وہ اس فعل کی وجہ سے بے ایمان نہیں ٹھہرتا اس نے صرف خدا کی نافرمانی کی اور شاید اس نےمرنےسے پیشتر توبہ کرلی ہو۔ علاوہ ازیں لعنت کرنے سے باز رہنا کو ئی جرم نہیں کسی سے یہ پوچھا نہ جائے گا کہ اس نے کبھی شیطان پر لعنت کی۔ اگر اس نے لعنت کی تو اس سے یہ سوال ہو گا کہ کیوں؟ ہم صرف انہیں کو لعنتی جانتے ہیں جو حالت کفر میں مرتے ہیں‘‘۔

جو کتابیں اس نے فلاسفروں کے خلاف لکھیں ان میں سے ہم تین کا ذکر کریں گے جن کا ایک دوسری کے ساتھ تعلق ہے ان میں سے ایک تو ’’مقصد الفلسفہ ‘‘ہے۔ فلاسفروں کی صحیح تعلیم کا بیان اوردنیا کے بارے میں ان کی رایوں کا اظہار، دوسری کا نام’’ تحفہ الفلسفہ ‘‘ہے۔ جس میں ان کی رایوں کی تردید ہے اور یہ بیان کیا ہے کہ جو لوگ دل و جان سے اسلام کی پیروی کرتے ہیں وہ اس تعلیم کو مان نہیں سکتے۔ تیسری کتاب قواعد ہے جس میں ان صداقتوں کا ذکر ہے۔ جو فلاسفروں کی غلطیوں کی بجائے ماننی چاہیئں۔ پہلی مذکور شدہ کتاب میں بقول مکڈانلڈ صاحب

’’اس نے فلاسفروں کے چوتڑوں (کولوں)اور ران پر طمانچے مارے اور ان کے اوزاروں کو ان ہی کے خلاف استعمال کیا اور عقل پر پرلے درجے کی بدگمانی کی۔ ہیوم سے سات سوسال پہلے اس نے علت معلول کے سلسلے کی گرہ کاٹ ڈالی اور یہ ظاہر کیا کہ ہمیں سبب یا نتیجہ کا علم نہیں۔ ہم تو صرف اتنا جانتے ہیں کہ ایک شے دوسرے کے بعد آتی ہے‘‘۔

الغزالی کی مشہور کتاب ’’احیا العلوم الدین ‘‘نے اندلوسیا (Andalusia) میں سخت حیرت پھیلا دی۔ علما کی تنگ خیالی کے باعث ان کا تعصب حد سے تجاوز کر گیا۔ ان کا علم الٰہی صرف شریعت کی واقفیت پر محدود تھا۔ جس مذہب کی تعلیم الغزالی نے دی اس میں اس کی کچھ گنجائش نہ تھی ۔جو شخصی اور جوشیلا اور دل کا مذہب تھا۔ جب اس نے اپنے ہم عصر علمائے دین پر جو شرعی بحث اور دین کی ظاہری رسوم میں مصروف تھے حملہ کیا تو اس نے شریعت کے ان فریسیوں کے نازک مقام کو چھوا۔ جس سے وہ چلا اٹھے بقول ڈوزی (Dozy)

’’کارڈوواکے قاضی ابن ہمدین نے یہ اعلان کیا کہ جو شخص الغزالی کی کتاب پڑھے گا وہ دوزخ میں پڑے گا۔ وہ کافر ہے اور اس نے یہ فتویٰ دیا کہ اس کتاب کی ساری جلدیں آگ سے جلا دی جائیں ۔اس فتویٰ پر کا رڈوداکے فقیہوں نے دستخط کئے اور علیؔ نے اس کی تصدیق کی چنانچہ وہ کتا ب کارڈودامیں اور سلطنت کے دوسرے شہروں میں جلادی گئی اور یہ حکم صادر ہوا جس کے پاس سے وہ کتاب نکلے گی وہ جان سے مارا جائے گا اور اس کی جائداد ضبط ہو گی‘‘۔

لیکن دیگر ممالک کے مسلمانوں کی یہ رائے نہ تھی اس کی حین حیات میں اور خاص کر اس کی وفات کے بعد فلسفہ کے خلاف جو اس کی کتابیں تھیں اور جو اسلامی عقیدے کی تشریح پر تھیں۔ ان مطالعہ اور ان کی تفسیر بہت لو گ کرنے لگے۔

مسلمان مصنفوں اور یورپین عالموں نے معقول وجہ سے اس پر یہ الزام لگایا ہے کہ اس دوسری کتابوں کے اقتباس کرنے اور حوالہ دینے میں احتیاط اور صحت سے کام نہیں لیا۔ اس کے مخالفین نے اس پر ایک الزام یہ لگایا کہ اس نے احادیث کی تکذیب (جھٹلانا، جھوٹ بولنے کا الزام لگانا) کی۔ مکڈانلڈ صاحب نے اس کی کچھ رعایت کی اور یہ کہا

’’اس نے ان اقتباسات میں زیادہ تر اپنی یادداشت سے کام لیا اور اصل کتابوں سے مقابلہ نہیں کیا اس لئے اس کی زندگی کے آخر تک یہ حوالے اور اقتباسات لفظی صحت کے ساتھ نہیں‘‘۔

السبقی نے اپنی کتاب ’’طبقات الشفاعیہ الکبری‘‘ میں ایک خاص فصل اس میں مخصوص کر دی ہے کہ الغزالی نے اپنی کتاب احیا میں جن حدیثوں کا حوالہ بلا اسناد دیا ہے۔ یعنی ایسی حدیثیں جن کو اس نے مستند سمجھ کر اقتباس کیا جو اسلامی علم جرح کے اصول کے مطابق بالکل ضعیف و بےوقعت ہیں۔ کتاب کی اس فصل کے بہت سے صفحے ہیں اور اس میں چھ سو حدیثوں کو شمار دیا گیا جو ’’احیا ‘‘کے فلاں فلاں باب میں مذکور ہوئیں۔ اس لئے شک کی کوئی وجہ نہیں کہ السبقی( ۷۷۱ہجری) الغزالی کا مداح تھا اور اس کی تعلیم کی قدر کرتا تھا ۔جب اس نے اولیا ؤں کی زندگیوں کے اس مجموعے میں الغزالی کے اپنے شاگردوں نے اس پر ایسا بڑا الزام لگایا تو پھر ہم کیا کہیں؟

جب محمد کے ’’صحیح اقوال‘‘کا یہ مجموعہ (جس میں سے اکثر قول بلاسند یا بنیاد کے اس نے منسوب کئے گئے ہیں) ہم پڑھتے ہیں تو اسلام کے سب سے بزرگ حامی دین کی یہ زود اعتقادی(جلدی یقین) اور صحت کو دیکھ کر حیرت پیدا ہوتی ہے۔ اگر الغزالی نے احادیث کی نسبت احتیاط سے کام نہیں لیا اور محمد صاحب سے ایسی باتیں منسوب کیں جو ضعیف، پر فسانہ اوراخلاق سے گری ہو ئی ہیں تو ما بعد محدثوں پر ہم کو کیا اعتبار رہا۔ ہم الغزالی کو اس دینی جھوٹ سے کیسے بری کریں؟

اس کی تصنیفات کے بارے میں ایک اور بات خاص دلچسپی رکھتی ہے۔ وسطی زمانوں میں الغزالی نے یہودی خیال پر اثر کیا۔ ضمیمہ میں اس کی کتابوں کے بعض ترجموں کی فہرست دی گئی ہے جو عبرانی زبان میں کئے گئے، فلسفہ کے یہودی شائقین مثلاً میمونی دیس (Maimonides)وغیرہ نے بہت خیالات اس کی کتاب ’’مقاصد‘‘اور دیگر کتابوں سے اخذ کئے۔ الغزالی نے فلسفے پر جو حملے کئے انہیں کو یہودا ہالیوی نے اپنی کتاب ’’کو زری‘‘ (Cuzari)میں دہرایا۔ لیکن اس کے فلسفہ کی نسبت اس کی اخلاقی تعلیم نے یہودی عالموں کی توجہ کو کھینچا۔ بروآیڈ (Broyde) کا بیان ہے

’’وہ یہودی اخلاقی تصور کی غایت تک اس قدر پہنچا کہ بعضوں نے سمجھاکہ وہ یہودی ہو گیا تھا اور اس لئے یہودی مصنفوں نے اس کی تصنیفات کا بہت مطالعہ اور استعمال کیا‘‘۔

ابراہیم ابن عزراہ نے الغزالی کی کتاب ’’مزین الاعمال ‘‘سے یہ تمثیل لی جس میں انسانی بدن کے اعضا اور بادشاہ کے ملازموں میں مقابلہ کیا ہے اور یشینؔی لب (Yashene Leb) کی نصیحت کے لئے استعمال کیا ابراہیم ابن داؤد نے اسی کتاب سے وہ تمثیل اخذ کی جو علوم کے مختلف صیغوں میں امتیاز کرنے کے ثبوت میں ہے اور شمعون دوزاں نے اپنی کتاب’’ کشیت(Keshet) ‘‘میں ایک مقام کتاب موزینی ہاعیونیم سے نقل کیا جسے وہ موزینی ہا حکماہ کہتا ہے۔

اس کی تصنیفات کے عبرانی ترجمے تیرھویں صدی میں ہوئے۔ کم از کم گیارہ عبرانی تفسیریں کتاب مقاصد پر لکھی گئیں۔ یوحنان الیمنو (Johanan Alemanno) نے غزالی کے واعظانہ طریقوں کی تعریف کی اور غزالی کے قیاس میں نور کی ترتیب اور درجوں کو قبالہ کے قیاس سے تشبیہ دی۔

سائنس کے بارے میں الغزالی کے خیالات وہی تھے جو اس کے ہمعصروں کے تھے دنیا پطلیمی نظام کے مطابق بنی تھی اور صرف اربعہ عناصر کو مانتے اورہستی کی تین صورتیں سمجھتے تھے۔ عالم احساس، خدا کے ازلی حکم کا عالم، تصورات یا خدا کی قدرت کا عالم، خوابوں اور روایتوں میں ہم باقی دو عالموں سے ملتے ہیں۔ اس طریقہ سے الغزالی نے اسلامی دین کی نفسانی مادی تعلیم کی مشکل سے اجتناب کیا ۔ایسی اشیا کا امکان ہے جو اصلی اور حقیقی ہوں تو بھی وہ عالم احساس سے علاقہ نہ رکھتی ہوں۔

ڈاکٹر میکڈانلڈ صاحب نے بیان کیا کہ الغزالی کی تاثیر اسلام پر چوہری تھی۔

اول ۔تو اس نے لوگوں کی توجہ لفظی بحث مباحثہ سے اس طرف پھیری کہ قرآن اور احادیث سے زندہ تعلق رکھیں جو اسلام کا حقیقی چشمہ ہے۔ وہ آج کل کے معنی میں ’’بائبل کا عالم‘‘ کہلا سکتا ہے۔ بائبل سے یہاں مراد اسلامی بائبل یعنی قرآن ہوگا۔’’احیا ‘‘کے تقریباً ہر مقام کے شروع میں قرآن کی آیت دی گئی ہے اور ترجمہ کرنے میں اس نے ماقبل مفرین کی تقلید نہیں کی بلکہ روحانی معنی نکالے‘‘۔

دوم۔ اس نے اسلام میں خوف کا عنصر داخل کیا۔ اوائل ایام میں مثلاً خود قرآن میں روز ِ عدالت اور دوزخ کے عذاب کا ڈر دیا گیا تاکہ لوگ توبہ کریں۔ الغزالی نے اسلامی تعلیم کے اس حصے پر ازحد زور دیا ہے۔ دیکھو اس کی چھوٹی کتاب ’’الدرہ الفاخرۃ ‘‘جو دیندار مسلمانوں میں آج تک بہت مقبول کتاب ہے۔

سوم۔ تصوف نے جو اسلام میں موجود تھا لیکن اکثر بدعت سمجھا جاتا تھا۔ الغزالی کی زندگی اور تعلیم کے ذریعہ اس وقت سے لے کر آج تک اسلام میں ایک خاص جگہ حاصل کرلی۔

چہارم۔ اس نے فلسفہ کو ایسا آسان کر دیا کہ عوام الناس بھی سمجھ سکیں۔ فلسفہ کے بنیادی اصولوں کو ظاہر کیا اور فلسفہ کے خطروں سے لوگوں کو آگاہ کیا اور اپنی تصنیفات میں یہ تشریح کر دی کہ حقیقی فلسفہ اور حقیقی اسلام ضدین نہیں۔ اس امر میں وہ رے منڈلال (Ramund Lall)کے مشابہ ہے۔جس نے یہ ظاہر کیا کہ فلسفہ کو مسیحیت کی خادمہ کے طور پر استعمال کریں۔ میکڈانلڈ صاحب کا خیال ہے کہ اس کے کام اور تاثیر کے بارے میں پہلا اور چوتھا طریقہ نہایت اہم ہیں انہوں نے اسے اسلام کی تاریخ میں اول درجہ کا مصلح بنادیا۔ 

باب ششم

اُس کی اخلاقی تعلیم

مارٹین سین(Marten Sen) نے مسیحی اخلاق کی یہ تعریف کی ہے کہ ’’وہ اخلاق کا سائنس ہے مشروط از مسیحیت‘‘لیکن اسلام کی تعلیم مسیحی اخلاق کے تین بنیادی تصورات کےمخالف ہے۔ اعلیٰ احسان، نیکی اور اخلاقی شریعت کا محمدی تصور مسیحی تصور کے مطابق نہیں۔ خود محمد صاحب کی سیرت اور ان کے تحریر شدہ اقوال سے یہ بخوبی عیاں ہے۔ اعلیٰ نیکی محمد صاحب کی تقلید کے وسیلے صاحل ہوتی ہے اوراخلاقی شریعت کی نسبت ادنیٰ خیالات رکھنے کی وجہ بلحا ظ اس کی حقیقی سیرت، اس کی تعلیم اور اس کی غایت کے اس کو خام جیسی تعلیم ہے۔ سوشیل(معاشرتی) رشتوں کے طبقے میں دیانتداری اور یقین اور قول میں وفاداری اور کام کو خدا کے لحاظ سے سرانجام دینا اس دین کی اعلیٰ باتیں ہیں لیکن (تھاہ، تہہ، گہرائی) ہیں۔ یہ دل تک نہیں پہنچتی نہ ان کی بنیاد محبت پر ہے۔ اعلیٰ درجہ کی نیکی ہر فرد بشر کی بیرونی اور نفسانی خوشحالی ہے۔ جن لوگوں نے اسلام کا مطالعہ اس کے اصلی چشموں کے وسیلے کیا ہے ان کے لئے اس بیان کے ثبوت کی ضرورت نہیں۔ پروفیسر مارگلائتھ صاحب نے جن الفاظ میں مسلمان بزرگوں یعنی محمد صاحب کے رفیقوں اور پیروں کا ذکر کیا وہ شاید سخت سمجھی جائیں لیکن وہ نادرست نہیں

’’جو لوگ اسلام کی تاریخ کا بیان کرتے ہیں وہ اخلاق کے معمولی قوانیں کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں ورنہ وہ تصویر اپنی چمک دمک نہیں دکھا سکتی۔ وہ تو ان کا بیان ہرگز لکھ نہ سکتے اگر بے وفائی، خونخواری، ظلم و شہوت کی طرف سے دل کو اکڑانہ کر لیتے گو قرآن اور احادیث نے ان پہلی تین باتوں کی ممانعت کی ہے اور چوتھی پر کچھ حد لگائی ہے‘‘۔

ندی اپنے چشمے سے بلند نہیں بہ سکتی۔ برج اپنی بنیاد سے زیادہ چوڑا نہیں ہو سکتا محمد صاحب کے اخلاقی قد کا اندازہ اسلام کے سارے اخلاقی تصورات کا چشمہ اور بنیاد ہے ان کا چال چلن سیرت کا معیار ہے ۔اس لئے ہم تعجب نہ کریں کہ اخلاقی معیار ایسا ادنیٰ ہے۔ الغزالی میں بھی گو وہ کبھی کبھی قرآن اور نبی پر بھی سبقت لے جاتا ہے۔

جو کتابیں اس نے اخلاق پر لکھی ہیں ان میں سے تقریباًہر ایک میں عرؔبی نبی کی سیرت کا اعلیٰ نمونہ بیان کیا ہے اس کے رسالے بنام ’’گوہر بے بہا‘‘میں ایک مقام ہے جس میں ایک حدیث سے اقتباس ہے اس میں یسوع مسیح کو یہی درجہ دیا گیا ہے (صفحہ ۲۴طبع قاہرہ)

’’یسوع (سلمہ اللہ )کے پاس جاؤ کیونکہ جو رسول بھیجے گئے ان سب میں سے وہ صدیق تھے۔ اور جسے خدا کا عرفان سب سے زیادہ حاصل تھا اور جس کی زندگی ان سب سے زیادہ مرتاض(ریاضت کرنے والا، علم و ہنر یا تصوف میں مشقت اٹھانے والا)تھی اور حکمت میں جو سب سے زیادہ فصیح(خوش بیان، شریں کلام) تھا۔ شاید وہ تمہاری سفارش کرے‘‘

مگر یہ حوالہ روز قیامت کے بارے میں ہے جب مختلف قومیں خدا کی شفقت اور معانی کی تلاش کریں گی۔اگر ہم اس زمانہ کا لحاظ کریں جس میں وہ زندہ تھااور اس کی محمدی اخلاقی تعلیم کا تو بقول مکڈانلڈ صاحب ’’الغزالی کا درجہ صاف ہو جاتا ہے اس مضمون کے بارے میں ہمارے سارے قوانین اور قیاسات، عقل کی صفات کی تقسیم خواہ وہ نیک ہوں یا بد ان کے اسباب کے پوشیدہ نقصوں کا سراغ لگانا اور ان اسباب کے مقابلہ کرنے کے طریقے، یہ سب امور (الغزالی یہ سکھاتا ہے) ہم کو اولیاء اللہ کے طفیل حاصل ہو ئے جن پر خدا خود ان باتوں کو ظاہر کیا، یہ اولیا ہر زمانے اور ہر ملک میں گزرے ہیں خدا نے اپنے تئیں کبھی بے گواہ نہیں چھوڑا۔ ان کے اور ان کی محنتوں کے اوراس روشنی کے بغیر جو خدا نے ان کو عطا کی تھی ہم کبھی اپنے آپ کو جان نہ سکتے۔ دیگر مقامات کی طرح یہاں بھی الغزالی کا درجہ صاف ظاہر ہے کہ سارے علم کا غایت چشمہ مکاشفہ منجانب اللہ ہے۔ اسے مکاشفہ کلاں کہہ سکتے ہیں جو ان معتبر انبیا کے ذریعہ پہنچا جو استاد ہو کر خدا کی طرف سے آئے اور ان کی تصدیق کے لئے ان کو معجزات عطا ہو ئے اور ان کے پیغام کی صریح صداقت انسان کے دل پر اثر کرتی تھی۔ اور اسے ہم مکاشفہ خورد کہہ سکتے ہیں جو ادنیٰ اور تشریحی تھا جو مختلف درجہ کے اولیاؤں کو خدا کی طرف سے حاصل ہوا تھا۔ جہاں اولیا اللہ چھوڑتے ہیں وہاں سے انبیا شروع کرتے ہیں اور بغیر ایسی تعلیم کے طبعی علم میں بھی انسان تاریکی میں سرگرداں رہتا‘‘۔

اخلاق کے بارے میں الغزالی نے جو یہ صاف بیان کیا ہے مبادا اس میں غلط فہمی ہو۔ ہم یہ ایزاد کر سکتے ہیں کہ مقدم الذکر مکاشفہ تو قرآن ہے اور یہ اولیا اللہ پہلے خلفا اور ان کے تا بعین ہیں ۔مسلمانی فقہ کے عالم جن میں الغزالی بھی شامل ہے۔ گناہ کی یہ تعریف کرتے ہیں کہ وہ ’’شرع معلومہ کے خلاف ذمہ دار شخص کا دانستہ فعل‘‘ہے۔ اس کے مطابق جو گناہ نا دانستہ سرزرد ہوں یا بچپن میں سرزرد ہوں وہ حقیقی گناہ نہیں سمجھے جاتے وہ گناہ کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں یعنی کبیرہ و صغیرہ، بعضوں کا خیال ہے کہ گناہ کبیرہ کا شمار سات ہے۔ یعنی بت پرستی، قتل، زناکا جھوٹا الزام، یتیموں کا مال ضائع کرنا، روپیہ پر سود لینا، جہاد سے کنارہ کشی، والدین کی نافرمانی، بعضوں کی رائے میں ان کا شمار ستر ہے اور ان میں وہ شراب خوری، جادو، جھوٹی قسم کو بھی شامل کرتے ہیں۔ محمد صاحب کی احادیث میں جو اخلاق کی بنیاد ہیں رسمی اور اخلاقی شریعت میں کوئی امتیاز نہیں کیا گیا۔ مثلاً نبیﷺ نے فرمایا ’’ایک درہم سود کا اگر آدمی سود سمجھ کر لے وہ چھتیس حرامکاریوں سے بدتر ہے اور جو کوئی اس کا مرتکب ہو گا وہ نار جہنم(جہنم کی آگ) کا مستوجب ہو گا‘‘۔

عام مسلمانوں میں گناہ کی یہی تقسیم ہے کبیرہ اور صغیرہ، الغزالی نے ایک شخص سے یہ اقتباس کیا۔’’گناہوں میں کوئی کبیرہ اور صغیرہ نہیں بلکہ جو کچھ خدا کی مرضی کے خلاف ہے وہ گناہ کبیرہ ہے‘‘لیکن اس کی تردید میں قرآ ن کی آیات پیش کی ہیں اور یہ کہہ کر اس اخلاقی مشکل سے رہائی پائی کہ اگر آدمی گناہ صغیرہ میں مبتلا رہے تو وہ گناہ کبیرہ ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ پانی کے قطرات کے متواتر گرنے سے پتھر پر نشان پڑجاتا ہے اور جب خدا کا بندہ اپنے کسی گناہ کو کبیرہ سمجھتا ہے تو خدا اس کو صغیرہ سمجھتا ہے اور جب آدمی اپنے گناہ کو صغیرہ سمجھتا ہے تو خدا اسے کبیرہ ٹھہراتا ہے‘‘۔

جو گناہ دل کو مغلوب کر لیتے ہیں ان کو وہ چار قسموں میں تقسیم کرتا ہے۔ خودی، شیطانی، خیوانی، ظلم، پہلی قسم میں اس نے غرور، خودبینی، شیخی اور خود غرضی وغیرہ کو رکھا۔ حسد، عداوت، فریب، کینہ، رشوت، اور بے ایمانی کو دوسری قسم میں اور لالچ، شکم پروری، شہوت، زنا، لونڈے بازی، چوری، اور یتیموں کا مال لوٹنا حیوانی گناہ کہلاتے ہیں۔اور غصہ، گالی، لعنت، قتل، رہزنی وغیرہ ظلم میں داخل ہیں۔

اخلاق پر غزالی کی ساری کتابوں میں اور اس کے چھوٹے رسالوں میں جو اس مضمون پر لکھے گئے رسمی اور اخلاقی شریعت کے درمیان کوئی صاف امتیاز نہیں کیا گیا۔ عربی لفظ اخلاق کے بارے میں ادب آیا ہے جس میں حسن اخلاق، ادب آداب، خوش خلقی اور ظاہری روش میں شائستگی، بزرگوں کے حضور تعظیم وغیرہ کا خیال داخل ہے لیکن دس احکام پر عمل کرنے یا ان اصولوں پر چلنے کی طرف کچھ اشارہ نہیں جس سے شریفا نہ سیرت پیدا ہوتی ہے اس کے مختصر رسالے ’’الادب فی الدین‘‘ کے مضامین کے پڑھنے سے یہ بات اور بھی واضح ہو جاتی ہے۔

اس رسالے میں اخلاقی تعلیم کی بنیاد کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔ ’’الحمد اللہ جس نے ہم کو خلق کیا اور ہماری خلقت کو کامل کیا اور ہم کو اخلاق سکھائے اور ہمارے اخلاق کو حسنہ بنایا۔ اور اپنے نبی محمد ﷺکو بھیجنے کے ذریعے ہم عزت دی اور ہمیں سکھایا کہ ہم کیسے اس کی عزت کریں۔ فی الحقیقت سیرت میں سب سے اکمل عنصر اور نہایت ممتاز اور احسن عمل اور نہایت ذالجلال، مذہب کے لحاظ سے درست چلن ہے۔ کیونکہ مذہب یہ سکھایا ہے کہ حقیقی مومن کو چاہئے کہ رب العالمین کی صنعت اور انبیا ورسل کے خالق کو جانے اور خدا نے قرآن میں ہم کو اس کی تعلیم دی اور اس کے بارے میں روشنی ڈالی اور احادیث کے مطابق محمد النبی کو ہمارے چال چلن کا نمونہ ٹھہرایا، وہ ہمارا نمونہ ہیں اور ویسے ہی اس کے رفیق اور ان کے تابعین ہیں ان کے وسیلے ہم پر یہ ظاہر کر دیا گیا کہ ان کے نقش قدم پر چلنا ہمارا فرض ہے جس کا بیان ہم نے ان کے لئے کر دیا جو ہمارے بعد آئیں گے‘‘

اس رسالے کے بابوں یا فصلوں کے یہ نام ہیں:۔ مومن کے اخلاق، استاد کے بارے میں، شاگرد کے بارے میں، جو قرآن کی تلاوت کو سنتے ہیں۔ قاری کے بارے میں، مدرس کے بارے میں ان کے متعلق جو احادیث کو سمجھنے کو طالب ہیں۔ واعظ کے بارے میں مرتاض(ریاضت کرنے والا، علم و ہنر یا تصوف میں مشقت اٹھانے والا) کے، شریف کے نیند کے آداب، شب بیداری کے، قضائے حاجت، حمام کے، وضو کے، مسجد میں داخل ہونے کے، اذان کے، نماز کے، شفاعت کے، جمعہ کے خطبہ کے، عیدوں کے کسوف (سورج گرہن)خسوف (چاند گرہن) کے، عرصے کے، خشک سالی کے ایام کے، بیماری کے، جنازے کے، زکوٰۃ کے، امیر و غریب کے، روزہ کے، حج کے، تاجرکے، صراف کے، اُکل و شرب(کھانا پینا) کے، نکاح (اس کی مختلف فصلیں ہیں)۔ راہ کے کنارے بیٹھے، بچے معہ اس کے والدین کے، والدین معہ اس کے بچے کے، برادروں، ہمسایوں، آقا معہ غلام کے، سلطان معہ اس کے رعیت کے، قاضی کے، شاہد کے، قیدی کے بارے میں، اس دلچسپ کتاب کے آخری باب میں مختلف اقوال کا بیان ہے جو مختلف اوقات پر شائستہ چلن کے لئے مناسب ہیں۔

کھانے کے بارے میں جو فصل ہے اور جو طوالت(لمبائی، طول، درازی) میں دوسری فصلوں کے تقریباً برابر ہے۔ اس کا ترجمہ اس کے مضامین کا کچھ تصور ہم کو دے گا ’’آدمی کو چاہئے کہ کھانے سے پیشتر اور اس کے بعد ہاتھ دھوئے اور کھانے سے پیشتر خدا کا نام لے اور داہنے ہاتھ سے کھائے، اور رکابی میں سے چھوٹا نوالہ اور نوالے کو منہ میں خوب چبائے، اور جو دیگر مہمان اس کے ساتھ کھانے میں شریک ہوں ان کے چہروں کی طرف نہ تاکے، نہ زیادہ جھکے اور نہ اشتہا سے زیادہ کھائے، اور جب کافی کھا چکے تو معذور رکھے جانے کی درخواست کرے تاکہ میزان کو یا جس کو زیادہ کھانے کی ضرورت ہے فکر پیدا نہ ہو اور رکابی کے وسط میں سے کھانا شروع نہ کرے بلکہ ایک کنارے سےاور کھانے کے بعد اپنی انگلیاں پونچے اور خدا کا شکر کرے اور کھانے کے وقت موت کا ذکر نہ کرے تاکہ حاضرین میں سے کسی کو نحوست کا خوف پیدا نہ ہو‘‘۔

دسترخوان کے یہ آداب مسلمان بچوں کے لئے دلچسپ اور اہم بھی ہیں۔ اطاعت اور ظاہری روش میں فروتنی، مسجد میں تعظیم، جو عمر اور مرتبے میں بڑے ہیں ان کی عزت اور اسی طرح دیگر خانگی آداب کا حکم ہے۔ لیکن اس کتاب میں جن باتوں کا ذکر نہیں ہوا وہ بھی حیرت انگیز ہیں راستی، دل کی پاکیزگی، اخلاقی حوصلہ کمزوروں اور عورتوں کی حفاظت میں جان جوکھوں میں ڈالنے کی شریف صفت، ایسی صفات جن سے کہ انسان انسان بن سکتا ہے وہ معدوم ہیں۔

کتاب ’’احیا‘‘ (فصل ۳صفحہ۹۶) کی ایک فصل میں اس امر کا ذکر ہے کہ کون سے موقعوں پر جھوٹ بولنا جائز ہے اس سے صاف عیاں ہے کہ الغزالی کے نزدیک کم از کم صداقت کے احاطہ میں ’’مقصد سے وسائل راست ٹھہرتے ہیں‘‘ چنانچہ اس نے یہ تحریر کیا کہ جھوٹ بذات خود حرام نہیں بلکہ اس وجہ سے حرام ہے کہ سننے والے کو بدنتائج کی طرف لے جاتا ہے اور اسے ایسی بات کا یقین دلاتا ہے جو فی الحقیقت درست نہیں۔ بعض اوقات نادانی پیدا ہو تو وہ جائز ہے۔ بعض اوقات جھوٹ بولنا فرض میں داخل ہے۔ میمون ابن مہراں کا قول ہے

’’بعض اوقات جھوٹ سچ سے بہتر ہے۔ مثلاً اگر کوئی آدمی تمہیں ملے جو کسی شخص کو قتل کرنے کی تلاش میں ہے اور وہ تم سے اس شخص کا پتہ پوچھے تو تم کیا جواب دو گے؟ لاکلام تم یوں جواب دو گے۔ کیونکہ ایسا جھوٹ جائز ہے‘‘

اگر جھوٹ اور راستی دونوں سے نیک نتیجہ نکلے تو تم سچ بولو کیونکہ ایسی حالت میں جھوٹ بولنا منع ہے۔ اگر جھوٹ ہی ایک واحد طریقہ نیک نتیجہ تک پہنچنے کا تو وہ حلال ہے جھوٹ اس وقت جائز ہے جب فرض ادا کرنے کا وہ واحد طریقہ ہو۔ مثلاً اگر کوئی مسلمان کسی بے انصاف شخص کے سامنے سے بھاگ جائے اور تم سے اس کا پتہ پوچھا جائے تو اس کی جان بچانے کے لئے جھوٹ بولنا لازمی ہے۔ اگر جنگ کا فیصلہ، دو جدا شدہ دوستوں کے ملاپ یا کسی مظلوم کی حفاظت جھوٹ بولنے پر موقوف ہو تب جھوٹ جائز ہے۔ سارے معاملات میں ہم بڑی خبرداری کریں کہ جہاں ضروری نہ ہو ہم جھوٹ نہ بولیں مبادا وہ حرام ٹھہرے ۔اگر کوئی شریر شخص کسی سے اس کی دولت کے بارے میں سوال کرے تو وہ کہہ دے کہ اس کے پاس دولت نہیں ویسے ہی اگر سلطان کسی سے ایسے جرم کے بارے میں دریافت کرے جس کا وہ مرتکب ہو ا ہے تو وہ اس کے سامنے انکار کر کے یہ کہے۔ میں نے چوری نہیں کی حالانکہ اس نے اس کی ہے اور نہ کوئی بدی کی ہے۔ حالانکہ اس نے کی ہے۔ نبی نے یہ فرمایا جس سے کوئی شرمناک فعل سرزد ہو وہ اسے چھپالے کیونکہ ایک شرمناک فعل کو ظاہر کرنا بھی شرمناک ہے۔ آدمی دوسروں کے گناہ کا بھی انکار کرے بیویوں کے مابین صلح کرانا فرض ہے اگرچہ اسے ان میں سے ہر ایک کو یہ کہنا پڑے کہ وہ اس کو سب سے زیادہ پیار کرتا ہے اور اس کو خوش کرنے کے لئے وعدے کرنے پڑیں۔

جب سچ بولنے سے ناخوشگوار نتائج نکلتے ہوں تو جھوٹ بولنا فرض ہے اپنی خوشی کے لئے جھوٹ بولنا یا دولت کی ترقی یا شہرت کےلئے جھوٹ بو لنا منع ہے ایک جو رو (بیوی) اپنے خاوند کے لئے جھوٹ نہ بولے تاکہ دوسری جورو(بیوی) کو چڑائے۔ بچوں کو پھسلا کر سکول بھیجنے کے لئے جھوٹ بولنا جائز ہے نیز جھوٹے وعدے اور جھوٹی دھمکی دینا بھی ۔

تعلیم و تربیت کے بارے میں الغزالی نے جو کچھ بیان کیا اس سے اس کی تعلیم کا ایک اور پہلو نظر آتا ہے۔ کتاب ’’احیا‘‘ (جلد سوم صفحہ۵۳) میں ایک خاص فصل ہے جس میں بچوں کی تعلیم اور ان کی اخلاقی ترقی کا ذکر ہے۔ یہ جائے تعجب نہیں کہ لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میں اس نے کچھ نہیں لکھا کیونکہ بہت مسلمان علما اب تک لڑکیوں کی تعلیم کو مناسب نہیں سمجھتے کہ وہ لکھنا پڑھنا سیکھیں۔ اس فصل کا شروع اس طرح سے ہے :۔

’’یہ جاننا نہایت ضروری ہے کہ لڑکوں کی تربیت کیسے کریں کیونکہ لڑکا اپنے باپ کے ہاتھوں میں ایک امانت ہےاور اس کا صاف دل ایک قیمتی جوہر ہے مثل اس تختی کے جس پر لکھا نہیں گیا۔اس لئے وہ اس قابل ہے کہ جو کچھ اس پر لکھنا چاہو وہ لکھ دو اگر وہ نیکی کرنا سیکھتا ہے اور اسے یہ سکھایا جاتا ہے اور اس کا نشوونما اسی مطابق ہوتا ہے تو وہ اس دنیا میں اور اگلی دنیا میں خوشحال ہے اور اس کے والدین اور استادوں کو اس کی تعلیم کے لئے اجر ملے گا۔ لیکن اگر وہ بدی سیکھتا ہے اور بے زبان مویشی کی طرح اس کی طرف سے غفلت ہوتی ہے تووہ صداقت سے روگردان ہو کر تباہ ہو گا اور اس کا گناہ اس کے متولیاں کی گردن پر ہو گا‘‘۔

اللہ نے یہ فرمایا ’’اے ایماندارو اپنی اور اپنے خاندان کی حفاظت آگ سے کرو، جیسے باپ اس دنیا کی آگ سے اپنے بیٹے کی حفاظت کرتا ہے تو کتنا زیادہ آئندہ جہاں کی آگ سے اس کو بجانے کی سعی (کوشش) کرنا چاہئے؟ وہ یوں اس کی حفاظت کر سکتا ہے کہ اس کو تنبیہ کرے اسے تعلیم دے اور اعلیٰ نیکیاں اسے سکھائے۔ اس غرض کے حاصل کرنے کے لئے وہ اسے کسی نیک دیندار دایہ کے سپرد کرے گا جو مناسب غذا کھاتی ہے کیونکہ حرام غذا سے جو دودھ پیدا ہوتا ہے اس میں کوئی برکت نہیں ہوتی ‘‘۔

پھر اس نے یہ بیان کیا کہ لڑکے کی تربیت و تعلیم ان امور پر مشتمل ہے۔ دسترخوان کے آداب سکھانا، حرام کھانوں پُر خوری، اور بد اخلاقی سے پرہیز کرنا، اس نے والدین کو یہ نصیحت دی کہ وہ بچوں کو قیمتی لباس نہ پہنائیں بلکہ سادہ لباس چنانچہ اس نے یہ لکھا۔

’’ان باتوں کے سکھانے کے بعد اسے ایسے سکول میں بھیجنا مناسب ہو گا جہاں وہ قرآن سیکھے اور احادیث کی تعلیم حاصل کرے اور صادقوں کی کہانیاں او ر سوانح عمریاں سیکھے تاکہ دینداری کی محبت اس کے دل پر نقش ہو جائے، گندہ نظم پڑھنے سے روکا جائے اور ایسے تعلیم یافتہ لوگوں کی صحبت سے کنارے رہے جن کے زعم میں ایسی گمراہ کرنے والی نظم مفید اور ترقی بخش ہے ۔بلکہ برعکس اس کے ایسی کتابوں سے بچہ کے دل میں فساد کے بیج بوئے جاتے ہیں۔ جب کبھی لڑکے میں کوئی خوبی نظر آئے یا اس سے کوئی قابل تعریف فعل سرزرد ہو تو اس کی تعریف کی جائے اور اس کو انعام دیا جائے تاکہ اس کا دل خوش ہو جائے اور خاص کر دوسروں کے سامنے ایسا کرنا مناسب ہے۔ اگر برعکس اس کے ایک یا زیادہ بار اس کے برعکس فعل سرزرد ہو تو اس کو نظر انداز کریں اور نہ اس کا قصور اس کو جتائیں گو یا تم یہ خیال کرتے ہو کہ کوئی شخص ایسے فعل کی جرات نہ کرے گا خاص کر اس وقت جب کہ لڑکا خود اسے چھپاتا ہے اور چھپانے کا اس نے عزم کر لیا ہے کیونکہ اس کا پردو فاش کرنے سے آئندہ کو اس کے ارتکاب میں زیادہ دلیر ہو جائے گا۔ اگر اس سے بار بار وہ قصور سرزرد ہو تو اس کو پوشیدہ سزا دی جائے‘‘۔

یہ عجیب اخلاقی تعلیم ہے۔ اس میں نیک و بد نصیحت ملی ہوئی ہےاور یہ بھی ایسے شخص کی طرف سے جو اسلامی اخلاق میں اعلیٰ رکن اور بڑی سند مانا گیا۔ اسلامی علم و ادب میں اور نیز الغزالی کی تصنیفات میں بیاہ شادی کے آداب کا بہت ذکر ہے۔ ہر مسلمان کو بیاہ کرنے کی تاکید ہے اور تجرد(تنہائی، شادی نہ کرنا) کی تائید نہیں کی گئی۔ نبی محمد نے کہا ’’بیاہ میرا دستور ہے اور جو اسے ناپسند کرتا ہے وہ میری امت میں سے نہیں‘‘۔ دوسری حدیث میں یہ لکھا ہے ’’بیاہ نصف حقیقی دین ہے‘‘۔ مسلمان فقیروں کے فرقے کے لوگ بھی عموماً بیاہ کرتے ہیں۔ اس لئے صوفیوں میں تجرد کے عہد کا کوئی ذکر پایا نہیں جاتا۔ اسلامی فقہ کے مطابق بیاہ ایک عہد نامہ ہے جس کے ذریعہ ’’خاوند جورو کا مالک بن جاتا ہے اور اس سے خط اٹھانے کا مجاز ہے بشرطیکہ اس میں کوئی شرعی رکاوٹ نہ ہو‘‘ خود الغزالی نے یہ کہا

’’بیاہ ایک قسم کی غلامی ہے کیوں کہ جورو اپنے شوہر کی غلام بن جاتی ہے اور جورو کا فرض ہے کہ جو کچھ اس کا شوہر کہے مطلقاً(بالکل) اس کی اطاعت کرے بشرطیکہ وہ حکم اسلامی قوانین کے خلاف نہ ہو‘‘۔

جورو کے انتخاب کے لئے اس نے عورت میں مفصلہ ذیک صفات دیکھنے کی ہدایت اپنے شاگردوں کو کی۔ (۱) دینداری (۲) نیک چلنی (۳) حسن (۴)معمولی دہیز(جہیز) (۵) بچہ جننے کی قابلیت (۶) کنواراپن (۷) شریف خاندان، (۸) قریبی رشتہ دار نہ ہو۔’’ احیا ‘‘اور دوسری کتابوں میں الغزالی نے ان فرائض کا ذکر کیا ہے۔ جو شوہر کے جورو پر ہیں اور جورو کے شوہر پر ہیں۔ اس تعلیم کے مطابق شوہر کا فرض ہے کہ بارہ امور میں اپنی جورو کے ساتھ حداعتدال کو مدنظر رکھے یعنی ان امور میں نہ شفقت حد سے زیادہ ہو اور نہ سختی حد سے زیادہ ہو۔ (۱) بیاہ کی ضیافت (۲) سلوک (۳) لہو و لعب(کھیل کود، سیرو تماشا) (۴) اپنی عزت کا پاس (۵) غیرت (۶) نقد و ظیفہ(۷) تعلیم (۸) ہر جورو کو اس کے حقوق دینا(اسلامی معنی میں) (۹) تنبیہ (۱۰) قوانین مباشرت (۱۱) زچگی (۱۲) طلاق۔ ایک مقام میں اس نے یہ لکھا کہ اگر جورو نافرمان اور ضدی ہو تو شوہر کو اسے سزا دینے اور اطاعت کے لئے مجبور کرنے کا حق حاصل ہے لیکن وہ بتدریج اس سے کام لے۔ پہلے نصیحت کرے تاکید کرے دھمکاے۔ تین دن تک اس سے بات چیت نہ کرے۔ یہاں تک اس کو زد و کوب(مار پیٹ) کرے کہ اسے درد محسوس ہو لیکن اس کے چہرے پر زخم نہ آنے پائے نہ کثرت سے خون بہنے لگے نہ اس کی ہڈی ٹوٹے۔ طلاق اور غلامی کے بارے میں الغزالی کی تعلیم بالکل مسلمانی ہے اور بہت کچھ ترجمہ کے قابل بھی نہیں اتنا کہنا کافی ہے کہ وہ دیگر مسلم عالمان فقہ کے ساتھ متفق الرائے ہے کہ مشت زنی اور بعض اوقات کے دیگر گناہوں کو معذور رکھے بلکہ یہاں تک اس نے کہا کہ گناہ کبیرہ سے بچنے کے لئے ان گناہوں کا ارتکاب فرض ہو جاتا ہے۔

زن و مرد کے رشتے کے اس اسلامی تصور کے باوجود بھی ہم الغزالی کی عزت کرتے ہیں کیونکہ اس کے جو رو سے محبت کا سلوک رکھنے کی تاکید کی اور طلاق کی خرابیاں ظاہر کیں ۔یہ معلوم کرنے کو تو جی چاہتا ہے کہ آیا اس کے پاس ایک سے زیادہ بیویاں تھیں۔ آیا اس کی بیوی اس کی قابل رفیق یا وہ اس کا قابل رفیق تھا۔ جنہوں نے اس کی سوانح عمریاں لکھیں وہ اس امر میں خاموش ہیں۔

’’ آدمی اپنی جورو سے سلوک کے ساتھ رہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اسے کبھی رنج نہ پہنچائے لیکن اگر جورو سے کچھ تکلیف پہنچے خواہ اس کی نادانی سے خواہ ناشکرگزاری سے، صبر سے اس کی برداشت کرئے۔عورت کمزورمخلوق ہے اور پوشیدگی کی خواہاں ۔اس لیے صبر سے اس کی برداشت کرنی چاہیے اور اس کو پردہ میں رکھیں ۔نبی نے یہ کہا ’’جو کوئی اپنی بیوی کی بدمزاجی کی برداشت صبر سے کرتا ہے اس کو ایسا ثواب حاصل ہو گا جیسے ایوب کو اپنی مصیبتوں کی برداشت سے حاصل ہوا تھا‘‘۔ بستر مرگ پر بھی وہ یہ کہتا سنا گیا ’’نماز میں لگے رہو اپنی بیویوں سے اچھا سلوک کرو کیونکہ وہ تمہاری قیدی ہیں‘‘۔

داناؤں نے یہ کہا ہے ’’عورتوں سے مشورت کرو اور جو وہ صلاح دیں اس کے خلاف عمل کرو‘‘۔ الغرض عورتوں میں کچھ کجی (چھوٹا کوزہ) پائی جاتی ہے اور اگر ان کو ذرا بھی آزادی ملے تو وہ قبضے میں سے نکل جاتی ہیں اور ان کو قابو میں لانا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس لئے ان کے ساتھ برتاؤ کرنے میں سختی اور نرمی، خاص کر نرمی، دونوں چاہئے۔ نبی نے یہ فرمایا ’’عورت کج (ٹیڑھی،ترچھی)پسلی سے بنائی گئی۔ اگر تم اس کو خم کرنے کی کوشش کروگے تو وہ ٹوٹ جائے گی اگر تم اس کو آزاد چھوڑو گے تو وہ زیادہ کج ہو تی جائے گی اس لئے نرمی سے اس کے ساتھ برتاؤ کرو‘‘۔

طلاق دینے میں نہایت ہی بڑی احتیاط کرنی چاہئے۔ کیونکہ گو طلاق کی اجازت ہے تو بھی خدا اسے ناپسند کرتا ہے۔ کیونکہ عین یہ لفظ ’’طلاق ‘‘عورت کو رنج دیتا ہے اور کسی کو رنج دینا کیسے درست ہو سکتا ہے ؟ جب طلاق کی اشد ضرورت پڑے تو طلاق کا فتویٰ ایک ہی وقت تین دفعہ نہ دیا جائے بلکہ تین مختلف موقعوں پر۔ عورت کو شفقت کے ساتھ طلاق دے نہ غصے یا حقارت سے اور نہ بلا معقول وجہ کے۔طلاق کے بعد وہ اپنی بیوی کو کچھ تحفہ دے اور دوسروں سے یہ نہ کہے کہ فلاںفلاں قصور کے باعث اسے طلاق دیا گیا۔ کسی خاص شخص کا ذکر ہے جس نے طلاق کے لئے درخواست کی تھی جب لوگوں نے اس سے پوچھا کہ تو کیوں اسے طلاق دے رہے ؟ تو اس نے جواب دیا کہ ’’ میں اپنی بیوی کا راز فاش نہ کروں گا ‘‘ اور جب وہ طلاق دے چکا تو لوگوں نے پھر اس سے یہی سوال کیا اور اس نے یہ جواب دیا کہ ’’اب وہ میرے لئے بیگانہ ہے اور مجھے اس کے خانگی امور سے کچھ واسطہ نہیں‘‘۔

زندگی کے سارے رشتوں، اس کی عشرتوں اور فرائض کا ذکر ادب کی کتابوں میں آیا ہے، ہر بیرونی فعل کی تفصیل دی ہے اور ہر ایک کے لئے نبی کے عمل کو نمونہ ٹھہرایا ہے۔ مثلاً انار کو ٹھیک کیسے کھانا چاہئے، کیسے حمام کرنا، کیسے مسواک کرنا، یہودیوں اور عیسائیوں سے کیسے برتاؤ کرنا، یہ ساری باتیں اسلامی علم اخلاق میں آئی ہیں۔ ناظرین کے لئے ایک مؤثر مثال پیش کرتے ہیں۔

اس کی تصنیف’’ کیمیائے سعادت‘‘میں ایک باب رقص وسرود(ناچ رنگ، گانا بجانا)کے بارے میں ہے کہ وہ دینی زندگی میں ممد(مددگار، معاون)ہیں۔

موسیقی سازوں کے مسئلہ پر الغزالی کے دنوں میں ویسی ہی بحث ہوتی رہی جیسے آج کل ان مسیحیوں کے درمیان ہے جن کو اندیشہ ہے کہ سیٹیوں کی آوازوں سے خدا کے گھر کی تحقیر ہو تی ہے۔ علمائے دین میں اس پر بہت بحث رہی کہ دینی ریاضتوں میں رقص و سرود سے کیا مدد مل سکتی ہے۔ مفصلہ ذیل عبارت سے الغزالی کی عقل سلیم اور ظرافت طبع(خوش مزاجی) کو ثبوت ملتا ہے اور ساتھ ہی اس کے مشتبہ نتیجہ کا، کیونکہ وہ ایسی عشقیہ نظم کو بھی جائز ٹھہراتا ہے جو خدا کے جلال کے لئے گائی جائے۔

’’قادر مطلق خدا نے انسان کا دل چقماق کے پتھر کی طرح ساخت کیا ہے اس میں آگ پو شیدہ ہے جو سرود (گانا) اور الحان (اچھی آواز سے گانا پڑھنا) کے ذریعہ بھڑک اٹھی ہے اور انسان کو بے خودی کی حالت میں ڈال دیتا ہے۔ یہ الحان حسن کے اس جہا ں کی صدائیں ہیں جسے ہم عالم ارواح کہتے ہیں یہ آدمی کو یاد دلاتی ہیں کہ اس کا رشتہ اس عالم سے ہے اور اس میں ایسا گہرا جذبہ پیدا کرتی ہیں کہ وہ خود اس کی تشریح میں قاصر ہے۔ رقص وسرود کا اثر اسی نسبت سے گہرا ہوتا ہے جس قدر کہ سننے والے کا دل سادہ اور قابل اثر ہوتا ہے دل میں جو محبت چھپی ہوتی ہے وہ اس کے ذریعے مشتعل ہو جاتی ہے۔ خواہ یہ آگ خاکی اور نفسانی ہو خواہ الٰہی و روحانی ‘‘۔

پھر ایسے امور کا ذکر جہاں رقص و سرود کے ذریعے دل میں مخفی بدخواہشات مشتعل ہوگئیں اور پھر ان امور کا جو بالکل جائز تھیں، حاجیوں میں سے ایسے شخص ہیں جو مکہ میں بیت اللہ کی تعریف کے گیت گایا کرتے ہیں اور دوسروں کو حج پر جانے کی ترعیب دیتے ہیں اور ایسے مطربوں کا ذکر کیا جن کے گانے بجانے سےان کے سامعین کے سینہ میں جنگی جوش پیدا ہوتا ہے اور سامعین کو کافروں کے ساتھ جنگ کرنے پر اکساتے ہیں۔ ویسا ہی ماتمی موسیقی جس کے ذریعہ دینی زندگی میں گناہ اور قصور کے لئے غم پیدا ہو وہ جائز ہے۔ داؤد کا موسیقی اس قسم کا تھا لیکن جن مرثیوں کے ذریعہ مردوں کے لئے غم افزود(زیادہ) ہو وہ جائز نہیں۔ کیوں کہ قرآن میں یوں لکھا ہے ’’ جو کچھ تم سے کھو گیا اس پر مایوس نہ ہو‘‘۔ برعکس اس کے بیاہ شادی کی تقریب پر اور ختنہ اور سفر سے واپس آنے کے موقعوں پر خوشی کا گانا بجانا جائز ہے۔

جس حالت بیخودی اور وجد میں صوفی صاحبان پڑتے ہیں وہ ان کے جذبات کے مطابق مختلف درجہ کی ہوتی ہے مثلاً محبت خوف، آرزو، توبہ وغیرہ جیسا ہم اوپر ذکر کرچکے ہیں ایسی حالتیں نہ صرف قرآن کی آیات سننے کا نتیجہ ہیں بلکہ کافیاں سننے کا۔ بعضوں نے تو ایسے موقعوں پر نظم اور قرآن کو الحان کے ساتھ پڑھنے پربھی اعتراض کیا ہے ۔لیکن یہ یاد رکھیں کہ قرآن کی ساری آیات ایسے جذبات مشتعل(بھڑکنے والا، شعلے مارنے والا) کرنے کے قابل نہیں مثلاً قرآن کا یہ حکم کہ ’’آدمی اپنی والد کے لئے جائداد کا چھٹا حصہ چھوڑے اپنی ہم شیرہ(بہن) کے لئے آدھا یا یہ حکم کہ بیوہ دوسری شادی کرنے سے پیشتر اپنے خاوند کی وفات کے بعد چار ماہ تک انتظار کرے۔ جن لوگوں میں ایسی آیات کے سننے سے حالت وجد پیدا ہو وہ شاذ و ناور ہیں‘‘۔ بے شک۔

الغزالی کی تصنیفات کے پڑھنے سے اس کے نقیض اور ضدین بیانات پر تعجب آتا ہے۔ بعض اوقات تو وہ ہمیں ایسی بلند چوٹیوں پر لے جاتا ہے جن پر آسمان کے نور کی جھلک پڑ رہی ہے یعنی توحید کی اعلیٰ تعلیم اور ابدیت کے تصورات اور پھر وہ ہمیں نفسانیت اور دنیوی جھگڑوں کے دلدل میں جھونک دیتا ہے۔ یہ خیالات اس کی قلم کے شایاں نہ تھے۔

ہم پہاڑ کی بلند چوٹی پر جائیں جہاں ہوا زیادہ صحت بخش ہے۔ دوسرے امور میں الغزالی کا خواہ کچھ ہی قصور ہو لیکن اسلامی نقطہ خیال سے تحصیل اخلاق کے لئے اسے اعلیٰ تصور حاصل تھے۔’’کیمیاے سعادت‘‘میں اس نے یہ لکھا

’’جب پرہیز گاری کی صلیب پر روح شہوات نفسانی سے پاک ہوجاتی تو وہ بلند چوٹی پر جاپہنچتی ہے اور شہوت و غضب کا شکار ہونے کی بجائے وہ صفات ملکوتی(فرشتوں جیسی) سے مُلبس ہو جاتی ہے۔ اس حالت کو حاصل کرکے آدمی اس ازلی ابدی حسن کے دھیان میں آسمان میں پہنچ جاتا ہے اور جسمانی خوشیوں کے جہان سے نکل جاتا ہے۔ جو روحانی کیمیا آدمی میں یہ تبدیلی پیدا کرتی ہےدیسی ہے جیسے کسی بوٹی کے ذریعہ تانبا سونا بن جاتا ہے۔ وہ آسانی سے حاصل نہیں ہوتی اور نہ ہر ایک بڑھیا کے گھر میں دستیاب ہوتی ہے‘‘۔

اور اس اعلیٰ تصور کی تحصیل میں اسے تقین ہے کہ اسے جنگ کرنا پڑے گا۔ آسان منزلوں سے یہ مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ جذبات نفسانی کے ساتھ جنگ حقیقی ہے اور بہت قربانی مطلوب ہے۔ اس جنگ ِمقدس کی تصویر اس نے تقریباً ویسی ہی کھینچی ہے جیسی جان بنین صاحب نے۔ ’’اس روحانی جنگ کے جاری رکھنے کے لئے جس کے ذریعہ اپنا اور خدا کا عرفان حاصل ہوتا ہے بدن کو ایک سلطنت سے تشبیہ دے سکتے ہیں روح اس کا بادشاہ ہے اور مختلف حواس اور قواے اس کی فوج ہیں۔ عقل اس کی وزیر ہے۔ جذبہ اس کا محصل(محصول وصول کرنے والا، تحصیل کا سپاہی) اور غصہ اس کا کوتوال(پولیس کا وہ عہدے دار جس کے ماتحت کئی تھانے ہوں)۔خراج جمع کرنے کے بھیس میں جذبہ ہمیشہ اپنی طرف سے لوٹ مار پر تلا رہتا ہے اور خفگی ہمیشہ سختی اور تشدد پر مائل ہے۔ یہ دونوں یعنی محصل اور کوتوال بادشاہ کے قابو میں رہنے چاہئے۔ لیکن ان کو قتل یا خارج کرنا درست نہیں کیوں کہ ان کے بھی فرائض منصبی تکمیل کے لئے ہیں۔ لیکن اگر جذبہ اور غصہ عقل پر غلبہ حاصل کریں تو اس کا لازمی نتیجہ روح کی بربادی ہوگا۔ جو روح اپنے ادنیٰ قواے کو اعلیٰ قواے پر غالب ہونے دیتی ہے وہ اس شخص کی مانند ہے جو فرشتے کو کتُے کے اختیار میں رکھ دے یا مسلمان کو بے ایمان کے ظلم کے حوالے کرے‘‘۔

اس لئے یہ جنگ جسم اور روح کے درمیان ہے۔ مقدس پولس کی طرح الغزالی کا بھی یہ تجربہ ہوا ہوگا ’’جس نیکی کا ارادہ کرتا ہوں وہ تو نہیں کرتا مگر جس بدی کا ارادہ نہیں کرتا اسے کرلیتا ہوں‘‘ اعلیٰ اور ادنیٰ ذاتوں کے درمیان جو اندرونی جنگ ہے وہ اس سے واقف تھا۔ بار بار اس نے بدن اور روح کا مقابلہ کیا اور بتایا کہ ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کی جد و جہد میں رہے۔ دونوں خدا کی طرف سے ہیں اور اس کی طرف سے انعام ہیں۔ دونوں کے ذریعہ خدا کی حکمت اور قدرت ظاہر ہوتی ہے لیکن ان کی حقیقی قدر و قیمت میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔

’’بدن تو روح کی سواری کا صرف مرکب ہے۔ مرکب تو فنا ہو جاتا ہے روح باقی رہتی ہے۔ روح بدن کی خبرگیری کرے جیسے حاجی مکہ کی طرف سفر کرتے ہوئے اپنے اونٹ کی خبرگیری کرتا ہے لیکن اگر حاجی اپنا سارا وقت اس حیوان کے کھلانے پلانے میں صرف کرے تو وہ کارواں کے پیچھے رہ جائے جا اور بیابان میں فنا ہوگا‘‘۔

چار بڑی نیکیاں جو دیگر سب صفات کی ماں ہیں۔ بقول الغزالی یہ ہیں

’’حکمت، پرہیزگاری، شجاعت، اعتدال(یعنی حد اوسط)‘‘

یہ تقسیم اس نے افلاطون سے لی اور ایسا ہی بہت کچھ چال چلن کے بارے میں ان سب کی تشریح اس نے قرآن کے الفاظ میں کی ہے اور محمد کی زندگی اور اسلام کے پہلے بزرگوں اور مابعد صوفیہ کرام کیزندگیوں سے ان کو واضح کیا۔

بدیوں اور ان کی ضدنیکیوں کا ذکر کرنے میں اس نے کمال کیا۔ غرور اور فخر کا جو بیان اس نے لکھا اس کو پڑھنے سے معلوم ہوسکتا ہے کہ اس نے اپنے تجربہ کا بیان کیا ہے۔’’جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی غرور ہو وہ بہشت میں کبھی داخل نہ ہوگا‘‘ اور اس کا دوسرا قول یہ ہے’’خدا تعالیٰ نے فرمایا غرور میرا چوغہ ہے اور عظمت میرا لبادہ اور جو کوئی ان میں سے کسی کو مجھ سے چھین لیتا ہے میں اسے دوزخ میں ڈالوں گا اور میں کچھ پرواہ نہ کروں گا‘‘۔ ایک دوسرا قول جو محمد صاحب سے منسوب ہے اور غالباً انجیل سے لیا گیا یہ ہے ’’جو کوئی خدا کے سامنے اپنے آپ کو فروتن کرتا ہے۔ خدا اسے سرفراز کرےگا اور جو کوئی مغرور ہے اس کو وہ پست کرےگا‘‘۔ فروتنی کی جو تعریف اس نے کی وہ بھی احسن ہے ’’حقیقی فروتنی صداقت کے تابع ہوگی اور اگر ایک بازاری لڑکا بھی اس کی غلطی نکالے تو اسے قبول کرے‘‘۔ اس قرینہ میں اس نے یسوع کا ایک قول بھی نقل کیا۔ ’’ مسیح نے کہا (سلمہ اللہ تعالیٰ) وہ شخص مبارک ہے جسے خدا نے اپنی کتاب سکھائی وہ کبھی اپنے غرور میں نہ مرے گا‘‘۔

غرور کا مطلب طریقوں سے بیان کیا۔ الغزالی نے علم کا، عبادت کا،قوم کا، خاندان کا، حسن کا، لباس کا،دولت کا،جسمانی طاقت کا، پیشوائی کا غرور بتایا اس نے محمد صاحب کو فروتنی کا نمونہ ٹھہرایا اور نیز ابو سعید خودری کو جس نے کہا

’’اے میرے بیٹے خدا کے لئےکھا،خدا کے لئے پی، خدا کے لئےکپڑا پہن لیکن ان میں سے جو کچھ تو کرتا ہے اگر اس میں تکبر کا یا ریاکاری کا دخل ہو تو وہ نا فرمانی میں شمار ہو گا۔جو کچھ تو اپنے گھر میں کرے تو ایسا ہی کر جیسا رسول خدا نے کیا کیونکہ وہ بکریوں کو دوہتے اور اپنی جوتیوں کی مرمت کرتے اور اپنے چوغہ کو سیتے اور اپنے نوکروں کے ساتھ کھاتے۔ بازار میں سودا خریدتے تھے نہ ان کے فخر نے ان کو اپنا بوجھ اٹھا کر گھر لے جانے سے روکا۔وہ امیر اور غریب دونوں کو دوست رکھتے اور جب کوئی ان کو راہ میں ملتا تو وہ سب سے پہلے خود سلام کرتے وغیرہ‘‘۔

یہ قابل غور ہے کہ جہاں اس نے اپنی اعلیٰ اخلاقی تعلیم کا ذکر کیا اس نے اپنے بیان کا حصر مسیح کے اقوال (اپوکرفل اقوال) پر رکھا۔ جن کوہم نے آخری باب میں دیا ہے۔ الغزالی نے محمد میں اپنے دل کے اعلیٰ تصورات کی تکمیل پانے کی کوشش تو بہت کی لیکن ناکام رہا۔ اسلام کا یہ افسوس ناک انجام ہے۔

باب ہفتم

الغزالی بحیثیت صوفی

جارج ٹیرل (George Tyrrel)نے تصوف کی یہ تشریح کی ہے۔

’’تصوف ایک دین ہے اور مذاق کے لوگوں کے لئے پناہ ہے جنہیں یہ ممکن نہیں ہوتا کہ بیرونی سند پر انحصار رکھیں۔مکاشفہ سے رد گردان ہونے پر یا تو تصوف کو چُننا پڑے گا یا معقول پسندی (Rationalism)کو۔ یہ سچ ہے کہ ان امور میں یہ انتخاب کی بات تو نہیں جیسا کہ ان دونوں فریق میں سے متعصب اصحاب کا گمان ہے۔ ان دونوں میں جو فرق پایا جاتا ہے وہ بہت کچھ آدمی کے اپنے مزاج پر موقوف ہے یا شاید یہ کہیں کہ درجہ حرارت پر صوفی تو گرم ہوتاجاتا ہے اور معقول پسند (Rationalistic)ٹھنڈا پڑتا جاتا ہے۔ معقول پسند کو ذرا گرما دو تو وہ ضرور صوفی بن جائے گا۔ اور صوفی کو ذرا ٹھنڈا کردو تو وہ معقول پسند ہی باقی رہ جائے گا۔ خیال کی تاریخ نے بار بار اس کی تشریح کر دی کہ کیسی آسانی سے ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقل ہو سکتے ہیں۔ہر ایک کا مرکز وہ خود ہی ہے اور انسانی انانیت (غرور) ایسی بڑی نہیں جو اتنا بڑا فرق پیدا کردے جہاں تم اپنا مرکز اپنے اندر ہی پاتے ہوتو بھی چونکہ تصوف آدمی کو گرما دیتا ہے اس لئے اس کی بے مرکزی حالت دینی مذاق کے اشخاص کے لئے زیادہ دلکش ہے‘‘۔

Beujamin B. Warfield in the Princeton Theological Review

اسلام میں سب سے قدیم صوفیوں میں سے ایک خاتون ربیعہ نام تھی جو یروشلیم میں مدفون ہے۔ اس کا اصل وطن بصرہ تھا۔ اور اس نے اسلام کی دوسری صدی میں بمقام یروشلیم وفات پائی۔ ابن خلیفان کے بیان کے مطابق وسطی زمانوں میں اس کی قبر کی زیارت کے لئے لوگ جایا کرتے تھے اور غالباً الغزالی نے بھی اس کی زیارت کی۔ اس کے چند شعر کتاب ’’احیا ‘‘میں منقول ہیں جن کا ترجمہ یہ ہے۔

’’ میں دو طریقوں سے تجھے پیار کرتی ہوں ایک تو مجازی اس کا بھی تو مستحق ہے یہ مجازی محبت ہے کہ ہر خیال کے ساتھ میں سوائے تیرے اور کسی کا خیال نہیں کرتی خالص پاک محبت وہ ہے جب تو میری مداح نگاہ کے آگے حجاب کو اٹھا دیتا ہے‘‘۔’’ نہ اس میں اور نہ اس میں میری کوئی تعریف ہے میں یہ جانتی ہوں کہ دونوں میں تیری محبت ہے‘‘۔

یہ نام صوفی مسمانوں میں ابوخیر کے وسیلے آیا جو دوسری صدی ہجری کے آخر میں زندہ تھا۔ اس کے شاگرد صوف کا لباس پہنا کرتے تھےاور اسی لئے ان کا نام صوفی ہوا۔ اس سے مابعد صدی میں اَل جنید جس کو الغزالی نے بڑی سند مانا (۲۹۷ہجری) اس تحریک کا بڑا پیشوا تھا او ر تحریک اسلام میں بہت پھیل گئی۔ اسلامی مجرد توحید اور رسم پرستی سے تنگ آکر لوگوں نے اس تحریک میں حصہ لیا ۔کیونکہ جن مشرقی قوموں نے اسلام کو قبول کیا ان کے دلوں کو اسلام کی ایسی تعلیم سے تشفی نہ ہوئی ۔اس نئی تعلیم کے واعظ جا بجا گئےاور ہر قسم کے لوگو ں سے ملے اس طریقے سے انہوں نے بہت چشموں سے خیالات حاصل کئے ۔اگرچہ وہ ہمیشہ یہ اقرار کرتے تھے کہ ان کی تعلیم کا حصرقرآن اور حدیث پر تھا۔

نکلسن صاحب کا خیال ہے کہ مسلمان صوفیوں نے نہ صرف مسیحی دین اور نئی افلاطونی تعلیم سے بہت خیالات لئے بلکہ گناسٹک(Gnostic)اور بدھ مذہب سے بھی ۔انجیل کی بہت آیات اور یسوع کے اقوال (جو اکثر اپوکرفل کتابوں سے لئے گئے) قدیم صوفی کتابوں میں منقول ہیں۔ مسیحیوں سے انہوں نے صوف پوشی، عہد خاموشی، اور ذکر (لتانیہ) کو لیااور نیز دیگر ریاضت کے طریقے ان کی تعلیم میں بہت باتیں مسیحیوں کے خیالات کے مشابہ ہیں۔ نکلسن صاحب کا بیان ہے کہ

’’مقدس یوحنا اور مقدس پولس اور دیگر مسیحی صوفیوں نے مسیح کے بارے میں جو خیالات ظاہر کئے وہ مسلمان صوفیوں نے بانی اسلام سے منسوب کئے۔ چنانچہ محمد نور خدا کہلایا اور کہ وہ دنیا کی خلقت سے پہلے موجود تھا وہ ساری زندگی کا چشمہ قرار دیا (خواہ وہ زندگی بالفعل ہو یا بالقوہ) گیا وہ انسان کامل کہلایا جس میں ساری الٰہی صفات کا ظہور ہوا۔ اور ایک صوفی حدیث میں محمد صاحب کا قول آیا ہے کہ ’’جس نے مجھے دیکھا اس نے خدا کو دیکھا‘‘۔مگر اسلامی تعلیم میں کلام خدا (لوگوس) کا مسئلہ کچھ ادنیٰ درجہ کا ٹھہرا اور عیاں ہے کہ جب انسان کا فرض کلّی یہ سمجھ لیا گیا کہ خدا کی وحدت کا یقین حاصل ہو کلام خدا کا مسئلہ مقدم نہ سمجھا جائے گا‘‘۔

نو افلاطونی تعلیم سے مسئلہ صدور اور وجد کو لیا ستر ہزار حجابوں کی تعلیم کا مسئلہ جس کی تشریح اک درویش نے کینن گارڈ(Canan Goirdner) سے کی۔ گناسٹک تعلیم کا خاص سراغ دیتا ہے۔ " ستر ہزار حجاب اللہ کو جو واجب الوجود ہستی ہے عالم مادہ اور عالم حواس سے جدا کرتے ہیں۔ اور ہر روح اپنی پیدائش سے پیشتر ان ستر ہزار میں سے گزرتی ہے۔ ان میں سے باطنی نصف تو نور کے حجاب ہیں۔ دیگر ظاہری نصف تاریکی کے حجاب۔ پیدائش کی طرف آتے وقت نور کے جس جس حجاب سے روح گزرتی جاتی ہے اس کی ایک ایک الٰہی صفت دور ہوتی جاتی ہے اور تاریکی کے حجابوں میں سے گزرتے وقت روح سفلی (پستی ،نالائق)صفات کو پہنتی جاتی ہے۔اس لئے بچہ روتا ہوا پیدا ہوتا ہے کیونکہ روح اللہ واحد حقیقی سے جدا ہونے کو محسوس کرتی ہے اور جب بچہ خواب میں روتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ روح کو یاد آتا ہے کہ اس نے کیا کچھ کھودیا ۔ان حجابوں میں سے گزرتے وقت روح کو نسیان (بھول، چوک)کی صفت حاصل ہوجاتی ہے اور اسی وجہ سے اس کانام انسان ہوا اب وہ گویابدن میں مقید ہے اور ان موٹے پردوں کے ذریعہ اللہ سے جدا ہے۔ لیکن تصوف کی علت غائی (حاصل ،پھل)یا درویش کا طریقہ یہ ہے کہ روح اس قید میں سے رہائی پائے ان ستر ہزار حجابوں میں سےنکل جائے اور ان بدن میں رہتے ہوئے واحد حقیقی سے پھر وصل حاصل کرے۔

رہا بُدھ مذہب کی تاثیر کا پروفیسر گولڈزہر(Gold Ziher) نے اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ گیارھویں صدی میں بدھ مذہب کی تعلیم نے مشرقی فارس خاص کر بلخ میں جہاں بہت صوفی رہتے تھے بڑا اثر کیا ۔بدھ مذہب والوں سے تسبیح کا استعمال آیا اور شاید فنا کا یا خدا میں محو ہونے کا مسئلہ بھی۔بقول نکلسن

’’اگرچہ فنا کا ہمہ اوستی مسئلہ نروان(نجات) کے مسئلہ سے بالکل مختلف ہے تو بھی جو الفاظ ان کے لئے مستعمل ہوئے ہیں وہ ایسے مشابہ ہیں کہ ہم ان دونوں کو کلی طور پر ایک دوسرے سے خارج نہیں کر سکتے۔ مسئلہ فنا کا ایک اخلاقی پہلو ہے یہ سارے جذبات اور تمناؤں کے عدم پر مشتمل ہے۔ صفات قبیحہ (بری ،معیوب)اور بد اعمال جو ان سے پیدا ہوتے ہیں وہ صفات حسنہ اور اعمال حسنہ میں قائم رہنے سے دورہوجاتے ہیں‘‘۔

صوفی معنی میں خدا پر دھیان لگانے سے سیرت کی ترتیب حاصل کرنا ان کی منزل مقصود ہے ۔خدا کو جاننا اس کی مانند ہونا ہےاور کی مانند ہونے کا کمال محو ہے یا حالت وجد ہے ان کا ایک مشہور قول یہ تھا جو ان کے نبی نے خدا سے منسوب کیا’’میں چھپا خزانہ تھا اور میں نے چاہا کہ میں معلوم ہو جاؤں۔ اس لئے میں نے خلقت پیدا کی تاکہ میں معلوم ہو جاؤں ‘‘جیسے عالم کا آ ئینہ ہے ویسا ہی صوفیوں کے نزدیک انسان کا دل عالم کا آئینہ ہے اگر انسان خدا کو یا صداقت کو جاننا چاہے تو اپنے دل میں نظر ڈالے۔

خود الغزالی نے یہ دیکھا جس مقصد کو صوفی مدِ نظر رکھتا ہے ان کا یہ بیان ہے

’’ روح کو جذبات کے ظالمانہ جوئے سے چھڑانا اس کی ناروا رغبتوں اور بد خیالوں سے مخلصی دینا تاکہ پاک شدہ دل میں خدا کے لئے اور اس کے مقدس نام کے ذکر کے لئے ہی جگہ باقی رہے‘‘۔

چونکہ ان کی تعلیم پر عمل کرنے کی نسبت اس تعلیم کا سیکھنا آسان تھا اس لئے جن کتابوں میں ان کی تعلیم پائی جاتی تھی میں نے پہلے انہیں کا مطالعہ کیا۔ مثلاً ابو طالب مکی کی کتاب ’’ دلوں کی غذا‘‘۔حارث ال محسبی کی تصیفات، اور جنید، شبلی، ابو، یزید بسطانی، اور دیگر علما کی (خدا ان روحوں کو پاک کرے) کتابوں کو پڑھا ان کے معلومات کو میں نے کامل علم حاصل کیا اور مطالعہ اور زبانی تعلیم کے طریقوں کو جہاں تک ممکن تھا میں نے سیکھا اور یہ صاف ظاہر ہوگیا کہ محض تعلیم کے ذریعہ آخری منزل تک نہیں پہنچ سکتے بلکہ محویت اور وجد کے اور باطنی انسانیت کی کامل تبدیلی کے ذریعہ (صفحہ ۴۱۔اقرارات)

صوفیوں کی تعلیم میں یہ امر بھی داخل ہے کہ محمد البنی نور کی ذات میں بناے عالم سے پیشتر موجود تھا۔ احادیث کے مطابق جس وقت آدمی خاک وگل کے درمیان تھا اس وقت میں نبی تھا اور مجھ سے بعد کوئی نبی نہیں صوفیوں کی یہ تعلیم ہے کہ محمد خلقت سے پیشتر بھی نبی تھا اور وہ اب تک نبی ہے چونکہ محمد کو عنصر اولیٰ کہا اس لئے اس کو بعض نام اسی لحاظ سے دئیے گئے۔ مثلاً عقل ِکُل، روح العظیم، صدقِ الانسان، صاحب شعاعِ نور، نورِ محمدی، خداکے جلال ہی سے۔

صوفیوں کی ساری تعلیم و عمل کا مقصود یہ ہے کہ خدا میں محو ہو جائے یا اس کے ساتھ وصل حاصل کرے ۔نفس کی کلی نفی کے ذریعہ صداقت کی تحصیل کا راستہ صاف ہو جاتا ہے۔ خدا کی طرف اس سفر کی منزلیں ہیں جن کا شمار عموماً بتایا جاتا ہے ۔مثلاً عبادت، محبت، نفی، عرفان، وجد، صدق، وصل، فنا۔ بعض صوفیوں نے بیرونی مذہب کو بالکل بالاے طاق رکھ دیا اور رسمی اور اخلاقی شریعت کی طرف سے بالکل لاپرواہی کی لیکن الغزالی ایسے زمرہ میں سے تھا بلکہ اس نے یہ تعلیم دی کہ عام عالم شروع صوفی طریقہ میں داخل نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ اب تک مسائل کا غلام ہے اور تاریکی میں بھٹکتا پھرتا ہے۔ نماز، روزہ، حج معہ سارے لوازمات کے اور ان کے بجالانے کی رسوم کے دہرے معنی ہیں۔ ایک ظاہری اور رسمی جسے عوام الناس سمجھ سکتے ہیں اور ایک حقیقی روحانی معنی جسے وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو اپنے تئیں بالکل خدا کے سپرد کرتے ہیں۔

الغزالی کو تصوف کے خطرات کا کلی علم تھا ایک طرف تو وہ ہمہ اوست کی طرف لے جاتا ہے اور دوسری طرف بے شرعی کی طرف اس نے معلوم کرلیا کہ اخلاق و دین کو جدا کرنا ہولناک تھا۔اس لئے عمر خیام کے ان شعروں سے اسے صدمہ پہنچا ہو گا

’’اے خیام تم اپنی خراب زندگی پر کیوں روتے ہو

ایسی گریہ وزاری سے کیا فائدہ بلکہ خوش ہے جو

گناہ نہیں کرتا وہ رحمت کا مستحق نہیں کیونکہ رحم تو

گنہگاروں کے لئے بنا ہے‘‘۔

گناہ اور توبہ کے بارہ میں اس کی تعلیم زیادہ تر اصولی تھی جیسا کہ بعد میں ذکر ہوگا۔

قدیم زمانے سے ہمہ اوستی تصوف نے خراسان میں مسلمانوں کے درمیا ن اپنا مسکن بنایا۔ اوتار کا قدیم تصور پھر پیدا ہوا جب اہل شیعہ نے اپنے تئیں الگ گروہ بنایا اور علؓی کی ایسی عزت کرنے لگے خطائیہ فرقہ نے امام جعفرؓ صادق کی پرستش خدا سمجھ کر کی ۔بعضوں کی یہ تعلیم تھی کہ روح الٰہی، عبداللہ ابن عمرؓ پر نازل ہوئی۔ خراسان میں اس رائے نے بہت رواج پکڑا کہ ابومسلم، (جس بڑے سر لشکر نے عمیہ خاندان کو پامال کر کے عباسیہ خاندان کو قائم کیا) وہ روح خدا کا اوتار تھا۔ اسی علاقہ میں المنصور کے عہد سلطنت میں جو عباسیہ خاندان کا دوسرا خلیفہ تھا ایک دینی پیشوا استاسی (Ostasys)نامی دعویٰ کیا کہ میں الوہیت کا صدور ہوں۔ہزارہا اس کے پیرو ہوگئے اور بہت جنگ و جدل کے بعد یہ تحریک دبائی گئی۔ خلیفہ مہدی کے زمانہ میں ایک شخص عطا نامی نے اپنے تئیں اوتار مشہور کیا چونکہ وہ اپنے پر برابر سنہری برقع رکھا کرتا تھا اس لئے اس کا نام مقنع یا ’’حجاب پوش نبی ‘‘پڑ گیا۔ اس کے بھی بہت لوگ پیرو ہو گئے اور کئی سالوں تک خلیفہ کے لشکروں کا مقابلہ کرتا رہا۔ لیکن( ۷۷۹ہجری)میں وہ اپنے قلعہ میں گھر گیا اور اس پر اس نے اس کے خادموں نے اور اس کے حرموں نے خود کشی کر کے اپنا کام تمام کیا۔

الغزالی کی اپنی تصنیف سے پتہ لگتا ہے کہ صوفیوں کے ان خیالات اور تصوف کے اس قسم کے خطرہ کے بارے میں اس کی اپنی رائے کیا تھی۔ ’’صوفیوں کے قیاسات کو دو قسموں پر منقسم کر سکتے ہیں۔ پہلے حصے میں خدا کی محبت اور اس کے ساتھ وصل کے متعلق سارے امور داخل ہیں اور ان کے نزدیک ان سے سارے بیرونی کاموں کی تلافی ہوتی ہے۔ ان میں سے بعض کا تو یہ دعویٰ ہے کہ ان کو خدا کے ساتھ کامل اتحاد حاصل ہوگیا ہے اور ان کے لئے حجاب بالکل اُٹھ گیا ہے اور کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کو نہ صرف ان آنکھوں سے دیکھ لیا ہے بلکہ اس کے ساتھ کلام کیا ہےاور وہ یہ کہنے کو تیار تھے کہ ’’خدا تعالیٰ نے یہ کلام ہم سے کیا‘‘ وہ حلاج کی تقلید(پیروی، نقل) کرنا چاہتے تھے جو ایسے الفاظ استعمال کرنے کی وجہ سے دار(سولی،صلیب) پر کھینچا گیا تھا، اور اس کا یہ قول نقل کیا کرتے تھے ’’اناالحق‘‘ وہ ابویزید بسطانی کا بھی حوالہ دیتے تھے جس نے یہ کہا تھا۔ ’’میری حمد ہو‘‘ بجائے اس کے کہ ’’خدا کی حمد ہو‘‘ عوام الناس کے لئے ایسا قیاس نہایت ہی خطرناک ہے اور یہ مشہور ہے کہ بہت اصحاب حرفہ(صفت) نے اپنے پیشہ کو چھوڑا اور اس قسم کے الفاظ استعمال کئے۔ ایسے مقولات بہت مانوس تھے کیونکہ ان کے ذریعے وہ محنت کے کام کو چھوڑ کے خفی (پوشیدہ) وجد(بے خودی کی حالت)اور محویت(خیال میں گم،غرق ہونا) کے وسیلے اپنی روح کو صاف کرنے کی امید رکھتے تھے۔ عوام الناس اپنے لئے ایسے حقوق کا دعویٰ کرنے میں پیچھے نہیں رہتے اور دیوانہ وار الفاظ زبان سے نکالنے لگتے ہیں۔ صوفی قیاس کی دوسری قسم میں بے معنی جملوں کا استعمال ہوتا ہے جن کے ذریعہ عوام کی توجہ ان کی طرفمنعطف (متوجہ ہونے والا)ہونے لگتی ہے لیکن جب گہری نظر سے ان کو پرکھا جائے تو حقیقی معنی سے وہ معرا(ننگا، برہنہ، خالی) نکلتے ہیں‘‘۔

نہ صرف الغزالی نے ہمہ اوست کے خطرہ کو سمجھا بلکہ اُسے یہ بھی معلوم تھا کہ اس قسم کا دینی جوش سخت ریاکاری کی طرف لے جاتا ہے۔ کتاب ’’احیا‘‘ میں اس کے بیان کیا کہ

’’ نبی نے حکم دیا کہ قرآن کو پڑھا جاتا سن کو جس کے آنسو نہ نکل آئیں وہ رونے اورگہرے مؤثر ہونے کا دکھاوا تو دکھائے‘‘

کیونکہ الغزالی نے دانا ئی سے یہ کہا ’’ ان معا ملات میں آدمی مجبوری سے شروع کرتا ہے لیکن پیچھے وہ آدمی کی عادت ہوجاتے ہیں ‘‘ علاوہ ازیں چونکہ دینی جوش دلی سرگرمی اور نہایت دینداری کا نشان سمجھا جانے لگا اس لئے ایسے لوگوں کا شمار بڑھ گیا جو روحانی تنویر کے مدعی تھے۔ کافیوں کے سننے سے جو وجد کی حالت پیدا ہوتی ہےاس کی چار قسمیں بتائی گئی ہیں ۔اول جو سب سے ادنیٰ ہے وہ سادہ احساسی حظ ہے دوسری قسم وہ سرود کا حظ اور الفاظ کے اور ایک کا حظ ہے ۔تیسری قسم وہ ہے جس میں الفاظ کے معنوں کو انسان اور خدا کے درمیان رشتوں پر عائد کرتے ہیں اور جولوگ تصوف میں مبتدی ہوتے ہیں وہ اس قسم میں داخل ہیں۔ پھر اس نے یہ کہا ’’اس نے اپنے لئے منزل مقصود کو مدنظر رکھ لیا ہےاور یہ منزل مقصود عرفان الٰہی ہے‘‘۔ اس کو ملنا اور خفی ذکر کے ذریعہ اس سے اتحاد پیدا کرنا اور جو حجاب اسے چھپائے ہے اسے دور کرنا اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے صوفی ایک خاص طریقے پر عمل کرتے ہیں وہ چند ریاضتیں عمل میں لاتا ہے اور اس طریقے سے بعض روحانی رکاوٹیں دور ہوجاتی ہیں جب کافیوں کے گائے جانے کے وقت صوفی الزام یا تعریف، مقبولیت اور مردودیت، محبوب سے وصل و ہجر کسی کے انتقال پر ماتم یا نگاہ معشوق کی آرزو کا ذکر سنتا ہے اور عربی نظم میں اس کا بارہا ذکر آتا ہےاور ان امورمیں سے کسی ایک کو اپنی حالت کے مطابق پاتا ہے تو اس پر ایسا ہی اثر ہوتا ہے جیسے آتش کا ہیزم (سوکھی لکڑی ،ایندھن)پر اور اس کا دل شعلہ زن ہو جاتا ہے ۔آرزو اور محبت اس پر طاری ہوجاتے ہیں اور روحانی تجربات کے مختلف نظارے اس پر منکشف ہوجاتے ہیں۔

چوتھی اور اعلیٰ قسم وہ لوگ داخل ہیں جو کامل سالک(جو خداکا قرب بھی چاہے اور شغل بھی رکھتا ہو) ہیں اورمذکورہ بالا منزلوں سے گزرچکے ہیں اورخدا کے سوا جن کے دل میں کسی دیگر شے کو داخل نہیں ۔ایسا شخص انانیت (خودی ،گھمنڈ)سے بالکل خالی ہے یہا ں تک کہ اسے اپنے تجربات اور اعمال کی بھی خبر نہیں۔ گویا اس کے حواس پر مہریں لگ گئیں اوراس نے ذاکر الٰہی کے بحر میں غوطہ مارا ہے ایسی حالت کو صوفی اصطلاح میں فنا کہتے ہیں۔(’’اقرارات‘‘) ۔ایک دوسرے مقام میں انسانی روح کی اسی حالت میں محویت کو شفاف شیشے سے تشبیہ دی ہے شیشے ہے۔ اس کی مراد صیقل شدہ پیتل یا برنج ہے جس میں ہر مقابل شے کے رنگوں کو عکس پڑتا ہے۔ اپنی تصنیفات میں انہوں نے بار بار اس تشبیہ یا استعارہ کا ذکر کیا ہے۔ گناہ روح کے شیشے پر زنگ ہے۔ روشنی کا عکس تو اس میں پڑتا ہے لیکن شعاعیں صاف طور سے نمایاں نہیں جب تک کہ خطا اور جذبات کا زنگ توبہ کے ذریعہ دور نہ کیا جائے ۔

الغزالی نے اپنی تصوف کی تعلیم میں عقیدہ کے چھ مسائل اور پانچ ارکان دین پر ہمیشہ زور دیا اور کہا کہ انہیں کے ذریعہ روح کو خدا کی طرف جانے کی حقیقی تحریک حاصل ہوتی ہے۔تو بھی الغزالی نے عبادت کے روحانی پہلو پر ہمیشہ زور دیا عبادت کی ظاہری صورت بذات خود کچھ حقیقت نہیں رکھتی مثنوی کے مصنف نے الغزالی کی تصنیفات پر عبور کیا ہوا تھا اور اسی کی روح میں محو تھا جب اس نے یہ لکھا۔

’’احمق مسجد کی تعریف اور بڑائی کرتے ہیں جب پاک صاف دلوں کو ستانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن مقدم الذکر تو محض صورت ہے اور موخر الذکر روح اور صداقت ہے۔ حقیقی مسجد تو اولیا اللہ کا دل ہے اور اولیا ءاللہ کے دل میں جو مسجد تعمیر ہوتی ہے وہ سب کی عبادت گاہ ہے کیونکہ خدا وہاں بستا ہے ‘‘۔

خداکی تقلید پر مولانا روم نے جو کچھ تحریر کیا وہ تقریباً لفظ بہ لفظ الغزالی کی کتاب میں سے ہے جس میں خدا کی صفات کا ذکر ہے۔

’’خدا اس لئے اپنے تئیں ’’بصیر‘‘ کہتا ہے تاکہ اس کی آنکھ ہر لحظہ تم کو گناہ سے ڈرائے۔ خدا اس لئے ’’سمیع‘‘ کہتا ہے تاکہ کوئی بدکلام تمہارے لبوں سے نہ نکلے۔ خدا اس لئے اپنے تئیں ’’علیم‘‘ کہتا ہے تاکہ تم بدی کا منصوبہ نہ باندھو۔ یہ نام خدا کے عارضی نام نہیں جیسے زنگی کا نام کا فور رکھا جائے بلکہ وہ نام خدا کی عینی صفات سے صادر ہیں اس علت اولیٰ کے فضول نام نہیں‘‘۔

ابوسعید بن ابوالخیر ساکن خراسان( ۳۹۶ہجری سے ۴۴۰ ہجری) تصوف کے مدرسے میں الغزالی کا معلم تھا ۔جس وقت اس سے پوچھا گیا کہ صوفی کی تعریف کیا ہے تو اس نے کہا

’’ جو کچھ تیرے دماغ میں ہے اس کو فراموش کر دے، جو کچھ تیرے ہاتھ میں دے ڈال اور کچھ تجھ پر واقع ہو اس سے لاپراہ ہو جا ‘‘۔

صوفی تعلیم کے برپا ہونے کے بارے میں یعنی اس کے آغاز اور سیرت کے بارے میں یعنی اس کے آغازاورسیرت کے بارے میں ڈاکٹر۔ سی۔ سنوق حور گرانجی (Dr. Snock Hurgranji)نے یہ بیان کیا

’’اللہ نے جو چراغ محمد کے ہاتھ میں دیا جس کی روشنی سے کہ نوع انسان کی رہبری کرے۔ نبی کی وفات کے بعد وہ زیادہ زیادہ بلند ہوتا گیا تاکہ روز افزوں انسانوں کو روشنی دے سکے لیکن یہ ممکن نہ تھا جب تک کہ اس کے حوض کو ان مختلف قسم کے تیلوں سے پُر نہ کیا جائے جن کے ذریعہ قدیم زمانوں سے مختلف قوموں کو روشنی ملتی رہی۔تصوف کا تیل مسیحی حلقوں سے آیا اور لا کلام نوافلاطونی چشمے سے فارس اور ہندوستان نے بھی اس میں اپنا حصہ ڈالا بعض ایسے لوگ تھے جنہوں نے بذریعہ ریاضیت اور جسم کے کشتہ کرنے کے مختلف طریقوں کے ذریعے روح کو آزاد کیا تاکہ وہ پروازکر کے ساری ہستی کے اصل سے وصل حاصل کرے۔ حتیٰ کہ بعضوں نے اپنا عقیدہ ان الفاظ میں ظاہر کیا ’’انالحق‘‘ جو کُفر ہے ‘‘۔

لیکن اس نے بھی بیان کیا کہ گو بعض حد سے زیادہ تجاوز کر گئے اور ہمہ اوستی حیالات میں مستغرق ہو کر اخلاقی شریعت اور چال چلن کی پابندی کو نظر انداز کر دیا۔ لیکن الغزالی نے اس خطرے سے اسلام کو بہت درجہ تک بچا لیا۔ اس نے اس امر پر زور دیا کہ بذریعہ ریاضت روح کا اخلاقی کمال ہی وہ طریقہ ہے جس سے آدمی کو خدا کی قربت حاصل ہوسکتی ہے۔ اس کے تصوف نے ہمہ اوستی خطرے سے بچنا چاہا جس میں کہ بہت صوفی اپنے غوروخوض میں مبتلا ہو گئے تھے اور جس کے ذریعہ انہوں نے شرع الٰہی اور اخلاقی کو بھی بالائے طاق رکھ دیا تھا۔اس لئے اخلاقی تصوف کا آغاز اسلام میں الغزالی کے ایام ہی سے ہوا جس میں شریعت اور مسائل دین داخل تھے۔ دینی علوم کی یہ اب مقدس تثلیث ہے اور ہر اسلامی دارالعلوم اور مدرسوں میں ان کی تعلیم دی جاتی ہے ۔مسائل دین کے لئے دیگر مصنف زیاوہ مستند ہیں۔اسلامی شریعت کے متعلق چار بڑے اماموں کی تصانیف کا مطالعہ کرایا جاتا ہے لیکن اخلاق میں الغزالی اپنا ثانی نہیں رکھتا۔

ڈاکٹر حورگن جی نے یہ بھی بیان کیا ہے

’’الغزالی کا اخلاقی تصوف اب عموماً صحیح مانا گیا ہے اور باقاعدہ ریاضت اور ذکر کے ذریعہ اعلیٰ روحانی درجہ تک پہنچنے کو اب شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ وسیع حلقوں میں یہ مفصلہ ذیل رائے بہت مشہور ہے۔ شریعت سب مومنوں کے آگے زندگی کی روٹی پیش کرتی ہے۔ مسائل وہ سلاح خانہ ہیں جس میں سے اوزار لئے جاتے ہیں تاکہ بے ایمانی اور بدعت کے مقابلے میں دین کے خزانوں کے حفاظت کی جائے۔ لیکن تصوف خاکی حاجی کو آسمان کی راہ دکھاتا ہے‘‘۔

مگر ایک خاص امر میں یہ اخلاقی تعلیم بہت مایوسی پیدا کرتی ہے۔ الغزالی کا تصوف عوام الناس کے لئے نہیں یہ خفی تعلیم ایسے خاص لوگوں کے لئے ہے جو دینی فخر سے بھرے ہیں اور اس امر میں و ہ دوسرے لوگوں کی مانند نہیں ۔شریف سے شریف مسلمان بھی حقیقی دینی زندگی کو معدودےچند (گنتی کے بہت تھوڑی تعداد میں) بڑے لوگوں میں محدود سمجھتے ہیں جس کا کوئی علاج نہیں ہوسکتا۔ الغزالی کی تعلیم عوام کے لئے نہ تھی بلکہ مبتدیوں(ابتداکرنے والا،نوآموز) اور طالبوں کے لئے۔ یہ وہی قابل ذکر ہے کہ گو اس کے صوفیوں کے لئے طوس میں ایک خانقاہ بنائی اور اپنی زندگی کے آخری ایام میں خود وہاں تعلیم دیتا اور انتظام کرتا رہا لیکن اس نے صوفیوں کا کوئی خاص خاندان قائم نہیں کیا۔ پروفیسر میکڈ انلڈ کا خیال ہے کہ

’’اس کے زمانے میں ایسے متواتر خاندانوں اور برادریوں کا رواج نہ تھا ‘‘۔

لیکن یہ غلط ہے کیونکہ’’ کشف المحجوب ‘‘میں(۴۵۶ ہجری)درویشوں کے مختلف خاندانوں کی فہرست دی گئی ہے اور ان کی عبادت کے خاص طریقوں کا بیان آیا ہے ۔البتہ الغزالی کی تعلیم آج کل سارے درویش خاندانوں میں مروج ہے۔

کینن ڈبلیو۔ ایچ۔ ٹی گارڈنر نے الغزالی کی ایک کتاب کا جو تصوف پر ہے اور جس کا نام ’’مشکوۃ الانور ‘‘ہے خاص مطالعہ کیا جس میں اس نے اس کتاب کے معترضین کا جواب دیا اور قطعی طور پر یہ ثابت کر دیا کہ الغزالی کا خواہ کوئی طریقہ ہو اس نے خلوص قلبی سے کام لیا اس دلچسپ اور عالمانہ رسالہ سے ہم دو مقامات نقل کرتے ہیں جن سے الغزالی کے طریقے کی تشریح ہو جائے گی۔

’’ستر ہزار حجابوں کی حدیث کی تشریخ کرنے میں جن حجابوں کے ذریعے خدا نے اپنے تئیں انسان کی نظر سے محجوب (حجاب کیا ہوا)کیا ہے الغزالی کو موقعہ ملا کہ مختلف مذاہب اور فرقوں کے درجے ٹھہرائے بلحاظ اس کے کہ کس قدر کم و پیش موٹا پردہ نور کے چھپانے کے لئے ان پر پڑا تھا یعنی جس قدر کہ وہ الحق اللہ تک رسائی رکھتے ہیں۔ جو حجابات کہ الٰہی نور کو چھپانے کے لئے مختلف مذہبوں اور فرقوں پر پڑے ہوئے تھے وہ دو قسم کے بیان ہوئے ہیں۔ نور کے حجاب اور تاریکی کے حجاب اور ان مذہبوں اور فرقوں کے درجے اس اندازے سے کہ ان پر حجاب پڑا ہے (الف) تاریک حجابوں سے (ب) تاریکی اور نور آمیختہ (ج) یا صرف نور کے حجابوں سے۔ اورآخر میں وہ مختصر عبارت آئی ہے جس میں ذکر ہے کہ واصلین کو صوفی تعلیم کشف صاف و صریح طور سے حاصل ہو گئی ہے۔

جن لوگوں پر خالص تاریکی کا حجاب چھایا ہوا ہے وہ ملحد ہیں جو خدا کی ہستی اور یوم الاخری کا انکار کرتے ہیں۔ ان کے دو بڑے حصے ہیں جن لوگوں نے دنیا کی علت کی تلاش کی اور یہ معلوم کیا کہ فطرت ہی وہ علت ہے اور جن لوگوں نے ایسی تحقیقات نہیں کی مقدم الذکر لوگ تو دہریہ ہیں جن سے الغزالی کو سخت نفرت تھی ۔یہ جائے تعجب ہے کہ ان کی بد چال چلن کا کوئی مزید ذکر نہیں کیا اور وسطی زمانہ کا یہ خاص خیال تھا کہ سب سے سخت سزا مستحق بد چالی کی نسبت غلط رائے ہے۔ بدکار دوسری قسم میں داخل ہے جن کو پہلی قسم پر سبقت نہیں دی گئی )یہ ایسے لوگ ہیں جو ایسے طامع اورخود غرض ہیں کہ وہ علت کی تلاش ہی نہیں کرتے اور اپنی نفسانیت کے سوائے اورکسی شے کا ان کو خیال ہی نہیں ان کو ہم انانی(مغرور) کہیں گے ۔ان کے درجے یہ ہیں(۱)نفسانی خوشی کے طالب (۲)حکومت کے خواہاں (۳)زردوست (۴) شہرت کے گرویدے ۔پہلی قسم تو معمولی حیوانی صفات کے لوگوں کی ہے اور نیز نفسانی فلاسفر ان کے حجاب بہیمی (ایک دوسرے کے ساتھ) صفات کے حجاب ہیں اور دوسری قسم کے تند خو لوگ جو سبائع کہلاتے ہیں اس قسم کے لوگ عرب، بعض کُرد اور بیشمار احمق لوگ ہیں ۔تیسری اور چوتھی قسم پر کسی طرح کی شرح نہیں لکھی۔

’’اس گہری تاریکی کے طبقات سے اتر کر ہم (ب) پر پہنچتے ہیں جن پر نور و تاریکی کے آمیختہ حجاب پڑے ہیں۔ تاریکی کے حجابات کا جو تصور الغزالی کو تھا وہ ان دونوں فصلوں (ایک حصہ کو دوسرے سے الگ کرنے والا) کے مقابلہ کرنے سے معلوم ہوسکتا ہے ۔اس فصل میں تاریک حجاب الوہیت کے غلط تصوارت ہیں جو انسانی عقل اپنی فطری ساخت کی محدودیت کی وجہ سے اختراع کر لیتی ہے (علوی میزان کے مطابق) یعنی حواس ظاہری، یا قوت متخیلہ(سوچنے کی قوت) یا علم تقریر کے ذریعے، ماقبل فصل کے تاریک حجاب کلی انانیت اور مادیت ہے جو ان قوالے کو اپنی ذات اور دنیا کے لئے استعمال کرتے ہیں خدا کے خیال کے بغیر، چنانچہ نور کے وسیلہ راست لیکن جُزوی لدنیات (وہ علم جو سیکھنے کے بغیر وحی یاالہام وغیرہ کے ذریعے حاصل ہو)ہیں جن کے وسیلے انسان الوہیت کے تصور تک یا کم از کم اپنے سے اعلیٰ کے تصور تک پہنچ جاتے ہیں۔ یہ لدنیات جزوی ہیں کیونکہ وہ الوہیت کے کسی ایک پہلو یا صفت کو مدنظر رکھتے مثلاً اس کی عظمت، حسن وغیرہ پر اور اس ایک پہلو یا صفت کو سب کچھ مان کر وہ اس پہلو یا صفت یعنی اس عظیم یا حسین وغیرہ کو خدا ماننے لگتے ہیں یوں ان کے ذریعہ نصف اللہ تو منکشف ہوتا ہے اور نصف اللہ مخفی ہوتا ہے۔ یہ تو نور کے حجاب ہیں۔ اس بیان سے مقدس پولوس کے یہ الفا ظ یاد آتے ہیں ’’اب ہم کو آئینے میں دھندلا سادکھائی دیتا ہے مگر اس وقت روبرو دیکھیں گے‘‘۔ کیا الغزالی نے یہ خیا ل بھی انجیل سے مستعار لیا؟

پروفیسر مارگولی اوتھ اور بعض دیگر علمانے اس کا ذکر کیا ہے کہ

’’محمدی تصوف بہت کچھ مسیحی تعلیم پر مبنی ہے خاص کر ابوطالب پر یہ بات صادق آتی ہے جس کی الغزالی نے اس مضمون کلیتہً لے لیا مثلاً بیج بونے والے کی تمثیل کو صوفی مصنفوں نے کلیتہً نقل کیا۔ ابو طالب نے مسیح کی دوسری آمد کے اور دنیا کے آخر کے بارے میں گفتگو کو نقل کیا جو مسیح اور ان لوگوں کے مابین ہوئی جن کو خداوند نے یہ طعنہ دیا تھاکہ انہوں نے اسے بھوکا دیکھ کے اسے کھانا نہ کھلایا البتہ سائل کی جگہ اس نے لفظ اللہ کو ڈالا اور سب سے چھوٹے کی جگہ اپنا مسلمان بھائی ۔بعض اوقات مبارکبادیاں نقل کیں اور مسیح کا نام بھی ظاہر کیا جس کی زبان سے وہ مبارکباد یاں صادر ہوئی تھیں۔ مسیحی وعظ کی کتابوں میں جو عام بیانات پائے جاتے ہیں وہ صوفی وعظوں میں بھی قدرے تبدیل یا بلا تبدیلی کے ساتھ ملتے ہیں‘‘۔

’’توما رسول کے اعمال ‘‘کی کتاب میں ذکر ہے کہ’’جب بادشاہ نے اسے اپنے محل کی تعمیر پر مامور کیا تو اس نے وہ روپیہ خیرات میں غریبوں کو دے دیا عین اسی وقت کے قریب بادشاہ کا بھائی پر گیا ور اس نے دیکھا کہ جو روپیہ توما نے بادشاہ کے نام سے خیرات میں دیا تھا اس کے وسیلے فردوس میں بادشاہ کے لئے ایک عالیشان محل بنایا گیا۔ یہ قصہ ابوطالب کے رسالہ میں آیا ہے کہ ایک غریب آدمی نے کسی دولتمند سے خیرات لی اور اس کے ساتھ اس نے فردوس میں اس دولتمند کے لئےایک گھر بنایا‘‘۔

نہ صرف ابوطالب کی مشہور قط القلوبمیں بلکہ الغزالی کی ساری تصنیفات مین بہت سے اقتباسات اور حوالے اناجیل سے ہیں خواہ وہ اپوکرفل اناجیل ہوں خواہ صحیح اناجیل چنانچہ اس کا ذکر بعد میں آئے گا۔

الغزالی نے صبح و شام کی نماز کی ترتیب بیان کی ہے وہ اس ترتیب سے بہت متفرق نہیں جو مسیحی نماز کی کتابوں میں پائی جاتی ہے۔ نماز پر جو رسالہ اس نے لکھا اس میں اس رسم کے روحانی معنی بتانے کی اس نے کوشش کی اور اس میں اس نے قدیم صوفیوں کی تعلیم کی تقلید کی۔ ان کی غایت یہ تھی کہ نمازکے وقت وہ خدا میں محو ہوجائے ۔خیالات کی پریشانی سے بچنے کے لئے اس کے یہ نصیحت تھی کہ خالی دیوار کی طرف منہ کر کے نماز پڑھے تاکہ عمارت کی خوبصورتی یا نقش و نگار ان کی توجہ کو دعا سے منعطف نہ کر دے۔ بعض کا یہ فخر تھا کہ وہ ہر حالت میں محویت حاصل کر سکتے تھے۔’’ایسے اولیا بھی گزرے ہیں کہ صلوٰۃ شروع کرنے کے وقت وہ اپنے اہل حرم کو کہہ دیتے تھے کہ جس قدر چاہیں باتیں کریں اور اگرچاہیں تو ڈھول بھی بجائیں وہ اپنی نماز میں ایسے محو ہوں گے کہ وہ کچھ نہ سن سکیں گے خواہ کتنا ہی شور کیوں نہ ہو۔ ان میں سے ایک کسی روز بصرہ کی مسجد میں اپنی صلوٰۃ ادا کر رہا تھا اور اس اثنا میں ایک ستون گر پڑا جس کے گرنے سے چار منزلیں گر پڑیں پر وہ نماز پڑھتا رہا اور جب اس نے نماز ختم کی تو لوگوں نے اس کے بچ جانے پر اس کو مبارکباد دی۔ تب اس نے پوچھا کہ کس بات پر اسے مبارکباد دیتے ہو؟ بعض ایسے بزرگوں کے نام بھی بتائے گئے ہیں جو نماز کو اس زودی(جلدی) سے ختم کرتے تھے اور اس کو ایسا مختصر پڑھتے تھے تاکہ شیطان کو اس کے خیال پریشان کرنے کا موقعہ نہ ملے ‘‘۔

مگر الغزالی نماز میں ادب پر زور دیتا رہا اور اس نے یہ تاکید کی کہ عبادت کے لئے ظاہری و باطنی دونوں طرح کی تیاری چاہئے۔ چنانچہ اس نے کہا ’’نماز خدا کی قربت ہے اور ایک تحفہ ہے جو ہم بادشاہوں کے بادشاہ کی نذر کرتے ہیں جیسے کوئی دور کے گاؤں سے کوئی تحفہ حاکم کے لئے لاتا ہے اور تمہارے تحفے کو خدا قبول کرتا اور عدالت کے روزِ عظیم کو وہ تمہیں واپس ملے گا ۔اِس لئے یہ تمہارا ذمہ ہے کہ حتیٰ الامکان احسن تحفہ نذر کرو اس نے محمد کا ایک قول نقل کیا ’’ حقیقی نماز یہ ہے کہ آدمی اپنے تئیں حلیم اور فروتن بنائے اور اس پر اس نے یہ ایزاد(زیادہ کرنا، اضافہ) کیا کہ دل کی حضوری حقیقی نماز کی جان ہے اور دل کی عدم حضوری نماز کی ساری قدرو قیمت کو برباد کر دیتی ہے‘‘۔

چنانچہ اس نے یہ بیان کیا کہ’’ حقیقی نماز چھ امور پر مشتمل ہے۔ دل کی حضوری ، فہم ، خدا کی بڑائی کرنا ، خوف ، امید اور شرم کا احساس ‘‘۔ بعد ازاں سلسلہ وار اس نے ان میں سے ہر ایک امر کا بیان کیا اور بتایا کہ وہ کن امور سے مرکب ہے اور کیسے وہ وقوع میں آئے ہیں اوران کو کیسے حاصل کر سکتے ہیں ہم اپنے دلوں کر حضوری اس ازلی ابدی کے گہرے احساس کے ذریعہ حاصل کرسکتے ہیں۔ خدا کی عظمت کے بارے میں جو اس نے بیان کیا اس کا مقابلہ ایسی عبادت سے کر سکتے ہیں جیسی آٹھویں زبور میں آئی ہے ’’انسان کیا ہے کہ تو اس کی یاد کرے ‘‘۔ عبادت میں اپنی خطاؤں اور قصوروں کو یاد کرنے سے شرم کا احساس پیدا ہوتا ہے کہ بیرونی اور اندرونی مشغلوں سے خیالات کو نکال دیں ۔عام بازاروں میں ہم دعا نہ مانگیں ۔کیونکہ ہماری توجہ پریشان ہوگی ۔بلکہ ایسی سادہ دیوار کی طرف منہ کرکے نماز پڑھیں جس پر توجہ کو پریشان کرنے والی کوئی شے نہ ہو ۔اس نے مدد ملے گی لیکن دل کی باطنی کشیدگی زیادہ ضروری ہے۔

جو کچھ اس نے حقیقی قبلہ کے بارے میں کہا وہ بھی نقل کرنے کے قابل ہے۔’’ یہ خدا کے مقدس گھر کی سمت کے سوا چاروں طرف کے ظاہری نگاہ کو ہٹا لینا ہے کیا تمہارا یہ خیال نہیں کہ ساری باتوں کی طرف سے اپنے دل کو ہٹا لینا اور خدا تعا لیٰ کے دھیان پر اس کو لگانا تم سے طلب کیا جاتا ہے ؟ بیشک یہی طلب کیا جاتا ہے۔ نماز میں اس کے سوا تم سے اور کچھ طلب نہیں کیا جاتا۔ کوئی شخص بیت اللہ کی طرف رُخ کرنے کے قابل نہیں جب تک کہ وہ ساری سمتوں سے منہ نہ پھیرے۔ پس فی الحقیقت دل خدا کی طرف متوجہ نہیں ہوتا جب تک کہ اپنے سوا باقی ہر شے سے علیحدہ نہ ہو جائے ‘‘۔

اس نے لکھا کہ ’’جب تم دعا مانگنے کھڑے ہو تو اس دن کو یاد کرو جب تم کو خدا کے تخت کے سامنے کھڑے ہو کر حساب دینا ہوگا۔ نماز میں ریاکاری سے بچے رہو ۔ان لوگوں کی تقلید نہ کرو جو خدا کے چہرے کی عبادت کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی آدمیوں کی تعریف کے طالب ہوتے ہیں شیطان کے بھاگو کیونکہ وہ نگلنے والا شیر ہے۔ جس شخص کا تعاقب شیر یا کوئی دشمن کرے جو اس کو نگلنا یا مار ڈالنا چاہتاہےوہ کیسے یہ کہہ سکتا ہے کہ میں ان سے اِس قلعہ یا اُس قلعہ میں خداسے پناہ لیتا ہوں اور پھر بھی قلعہ میں داخل ہونے کے بغیر ادھر اُدھر گھومتا پھرے؟ یقیناً اس سے اس کو کچھ فائدہ نہ ہو گا محفوظ ہونے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنی جگہ بدل ڈالے۔ اسی طرح جو کوئی اپنی شہوات نفسانی(جنسی خواہش) کی پیروی کرتا ہے جو شیطان کی کمین گاہیں ہیں اور رحیم خدا کی نگاہ میںمکروہات ہیں محض اعوذ باللہ کہنا اس کے لئے کافی نہ ہوگا۔ جو کوئی اپنے جذبات کو خدا بنالیتا ہے وہ شیطان کے قبضے میں ہے اور اپنے خدا کی پناہ میں محفوظ نہیں ‘‘۔

سورۃ فاتحہ کی اس نے نہایت عمدہ تفسیر کی ’’ اپنی نماز کے آخر میں اپنی عاجزانہ مناجات اور الحمد ادا کرو اور جواب کے منتظر رہو اور اپنی دعا میں اپنے والدین اور دیگر حقیقی مومنین کو بھی شامل کرو اور جب تم آخری سلام کہو تو ان دو فرشتوں کو یاد کرو جو تمہارے دونوں کندھوں پر بیٹھے ہیں‘‘۔

اس نے بیان کیا کہ زکوٰۃ دینے میں سات باتیں مطلوب ہیں۔ شتابی، پوشیدگی ، نمونہ (اور اس کےلئے ایک حدیث بھی نقل کی ہے جو محمد صاحب سے منسوب ہے کہ جو داہنا ہاتھ دے بائیاں ہاتھ اس کو نہ جانے )عدم فخر ، اس تحفہ کو بڑا خیال نہ کریں سب سے افضل تحفہ ہم سے طلب کیا جاتا ہے کیونکہ خدا نہایت ہی نیک خدا ہے اور جو کچھ افضل ہے وہ ہم سے طلب کرتا ہے اور ہم اپنی خیرات مستحق لوگوں کو دیں ۔خیرات کے مستحق لوگوں کے اس نے چھ قسمیں بیان کی ہیں:۔دیندار، عالم ، راستباز ، مستحق غریب ، مستحق مریض ، یا مصیبت زدہ خاندان اور رشتہ دار۔ اس کے نزدیک خیرات خویشوں(قریب کارشتہ دار) پر ختم ہوتی ہے۔

مگر الغزالی کی تعلیم سے ظاہر ہے کہ جو لوگ زکوٰۃ کے مستحق ہیں وہ صرف مسلمان ہی ہیں اسلام میں کوئی عالمگیر برادری نہیں ، یہودی اور مسیحی ان کے احاطہ برادری سے باہر ہیں اور ’’ہمسائگی کے حق ‘‘ کے سزا وار نہیں۔

الغزالی نے قرآن کی تلاوت کا جو صوفی طریقہ بتایا ہے وہ مسیحی لوگ بائبل کی تلاوت کے لئے کام میں لاسکتے ہیں۔اس نے تلاوت کے لئےآٹھ امور کا ذکر کیا۔ ’’مکاشفہ کی عظمت ،متکلم کی عظمت ، تیار دل کی ضرورت ، دھیان ، اس مقام کے معنی سمجھنا ، اس کے معنی کو نہ توڑنا مڑورنا ۔اس مقام کو اپنے پر عائد کرنا اور آخر کار اس مقام کو ایسے طور پر پڑھنا کہ ا س کا اثر ہماری زندگی پر ہو ان کے قول کے مطابق لفظ قرآن سے مراد پڑھنا نہیں بلکہ اس تعلیم پر عمل کرنا ہے کیونکہ الفاظ کے تلفظ کرنے میں زبان کو ہلانا چنداں وقعت نہیں رکھتا۔ حقیقی تلاوت وہ ہےجس میں زبان۔ عقل اور دل کا اتفاق ہو۔ زبان کا کام یہ ہے کہ تلاوت میں الفاظ کو صاف طور سے تلفظ کرے۔ عقل کا کام یہ ہے کہ معنی کو سمجھے ، دل کا کام یہ ہے کہ اپنی زندگی میں اس کو منتقل کرے ،زبان تو پڑھتی ہے ، عقل ترجمہ کرتی ہے اور دل مترجم اور آگاہ کرنے والا ہے‘‘۔

توبہ کے بارے میں جو اس کا بیان ہے وہ سب سے افضل ہے ۔اس کو ۵۱ زبور یا رومیوں کے ساتویں بان سے مقابلہ کر سکتے ہیں ۔اس میں تو کسی کو شک نہیں کہ الغزالی کو گناہ کا گہرا احساس حاصل تھا وہ فریسی نہ تھا بلکہ ایک سرگرم طالب خدا تھا اس نے صاف طور سے یہ تعلیم دی کہ سارے انبیا معہ محمد کے گنہگار تھے۔ اگرچہ اس نے کسی جگہ یسوع مسیح کی گنہگاری کا ذکر نہیں کیا۔

سب سے اعلیٰ مقام وہ ہے جس میں اس نے معافی مانگنےکے فوائد کا بیان کیا اس کا ترجمہ یہ ہے ’’محمد النبی نے فرمایا( سلمہ اللہ) ’’ سچ مچ میں خدا سے معافی مانگتا اور ہر روز ستر دفعہ اس کے آگے توبہ کرتا ہوں ‘‘ بقول الغزالی اس نے یہ فرمایا اگرچہ خدا نے اس کی نسبت یہ گواہی دی تھی ’’ہم نے تیرے اگلے اور پچھلے گناہ بخش دئیے ‘‘ رسول خدا نے فرمایا ’’سچ مچ میرے دل میں غش سا آتا ہے جب تک ہر روز سو دفعہ میں اپنے گناہوں کی معافی نہیں مانگ لیتا ‘‘ اور نبی نے فرمایا (صلے اللہ وسلم )خواب کو جاتے وقت جو کوئی یہ کہتا ہے ’’میں خداتعالیٰ سے معافی مانگتا ہوں جس کے سوا کوئی دوسرا نہیں۔ جو الحی ہے اور میں اپنے گناہوں سے تین بار توبہ کرتا ہوں ‘‘۔ خدا اس شخص کے گناہوں کو بخش دے گا اگرچہ وہ سمندر کی جھاگ کی طرح اور ریت کے ڈھیر کی طرح ہوں یا درخت کے پتوں کی طرح ہوں‘‘ اور رسول خدا نے فرمایا (سلمہ اللہ )جو کوئی یہ لفظ کہے گا میں اس کے گناہ بخش دوں گا گو وہ لشکرمیں سے نکل بھاگے ‘‘ الغزالی نے ایک شخص حفیفہ نامی کا قصہ بیان کیا جس نے یہ کہا تھا ’’ میں اپنی بیوی سے سختی کے ساتھ بولا کرتا تھا اور میں نے کہا۔ اے رسول خدا مجھے اندیشہ ہے کہ میری یہ زبان کہیں نار جہنم میں نہ لے جائے اور تب رسول خدا نے (سلمہ اللہ ) فرمایا۔ ’’ گناہ کی معافی مانگنے میں میری نسبت تیرا کیا حال ہے میں تو ہر روز سو دفعہ خدا سے معافی مانگتا ہوں ‘‘ اور عائشہ نے (خدا اس پر عنایت کرے) نبی کے بارے میں کہا۔ ’’ اس نے مجھ سے کہا اگر تو گناہ کی مرتکب ہوئی تو خدا سے معافی مانگ اور اس کے آگے توبہ کر کیونکہ گناہ سے حقیقی توبہ یہ ہے کہ آدمی گناہ سے کنارہ ہو جائے اور معافی مانگے ‘‘ رسول خدا (سلمہ اللہ )یہ کہا کرتے تھے جب وہ معافی مانگتے ’’ اے خدا میرے گناہ میری نادانی اور کسی کام میں جو زیادتی مجھ سے ہوئی تو معاف کردے اور جو تو میری نسبت بہتر جانتا ہے۔ اے خدا میرے خفیف (کم ظرف ، ذلیل)اور عمد (ارادہ، نیت ) کے گناہوں ، میری غلطیوں اور غلط ارادوں اور جو کچھ مجھ سے ہوا مجھے معاف کردے۔ اے خدا مجھے معاف کردے جو مجھ سے ماضی میں سرزد ہوا یا مستقبل میں سرزد ہوگا۔ جو کچھ میں نے چھپایا اور جو کچھ میں نے ظاہر کیا اور جو کچھ تو میری نسبت بہتر جانتا ہے تو جو اول و آخر اور قادرمطلق ہے ‘‘۔ زمانہ حال میں اہل اسلام کے درمیان محمد کی بے گناہی کے بارے میں جو تعلیم مروج ہے اس سے یہ تعلیم کیسی مختلف ہے۔

چونکہ الغزالی نے محمد صاحب اور اس کی ضرورت معافی کے بارےمیں یہ بیان کیا اس نے توبہ کو ظاہری طور سے نہیں لیا بلکہ ایسے شخص کے طور پر جس نے پشیمانی کی تلخی کا ذائقہ چکھا تھا اور جس نے اخلاقی شریعت کے تقاضا کے سامنے اپنی ناقابلیت کو محسوس کیا تھا۔ توبہ پر جو اس نے رسالہ لکھااس کی یہ فصلیں ہیں (۱) توبہ کی حقیقت (۲) توبہ کی ضرورت (۳) خدا حقیقی توبہ کی توقع رکھتا ہے (۴) آدمی کس سے توبہ کرے یعنی گناہ کی حقیقت (۵)گناہ صغیرہ کیسے گناہ کبیرہ بن جاتے ہیں(۶) کامل توبہ ۔اس کے شرائط اور اس کی میعاد (۷) توبہ کے مختلف درجے (۸) کیسے فی الحقیقت تائب بنیں۔

اس کی تعلیم کا خلاصہ دے سکتے ہیں۔ اس کی تعلیم قرآن پر کہیں زیادہ فوق رکھتی ہے فی الواقع بعض اوقات اپنے بیان کے ثبوت میں جو آیات اس نے پیش کی ہیں وہ سیاق عبارت کے لحاظ سے نبی پر ایک خوفناک الزام عائد کرتی ہیں ۔

اس نے بیان کیا کہ توبہ کی ضرورت ہمیشہ اور سارے آدمیوں کے لئے ہے کیونکہ نوع انسان میں سے کوئی بھی گناہ سے مبرا نہیں ’’گو بعض صورتوں میں وہ بدنی اعضا کے بیرونی گناہ سے مبّرا ہو۔ لیکن وہ دل کے گناہ سے مبّرا نہیں۔ گو وہ جذبہ انسانی سے مبرا ہو وہ وسوسہ شیطانی اور خدا کو فراموش کرنے یا عرفان خدا اور اس کی صفات و صفات کے عرفان میں قاصر رہنے سے مبرا نہیں ‘‘ یہ سب کچھ تحصیل میں ناکامی ہے اور اس کی وجوہات ہیں۔ لیکن اگر کوئی شخص اس خدا فراموشی کے اسباب کو ترک کر کے اس کے مخالف صفات میں مصروف ہو تو یہ صحیح طریقے کی طرف عود کر آنا ہے اور توبہ کے معنی ہی یہ ہیں عود کرنا۔ تم تصور نہیں کر سکتے کہ ہم میں سے کوئی اس نقص سے خالی ہے۔ صرف خطا کے درجے میں فرق ہوگا لیکن وہ جڑ لا کلام ہم سب میں موجود ہے البتہ اس نے موروثی گناہ کو نظر انداز کیا۔ کیونکہ وہ مسلمان تھا لیکن اس نے اس نتیجہ کا بہت ذکر کیا جو اس گناہ سے پیدا ہوتا ہے جس سے توبہ نہیں کی جاتی۔ لیکن یہ دل میں زیادہ زیادہ گہرا اترتا جاتا ہے حتیٰ کہ انسانی روح کے شیشے پر سے خدا کی تصویر مٹ جاتی ہے۔

ایک اور تمثیل اس نے استعمال کی کہ ’’دل ایک عمدہ پوشاک ہے جو کیچڑ میں لتھڑ گئی اور اب یہ ضرورت ہے کہ صابن اور پانی سے وہ دھوئی جائے جب ہم اپنے دل کو اپنے جذبات نفسانی میں استعمال کرتے ہیں تو یہ میلی ہو جاتی ہے اس لئے ہمیں چاہئے کہ آنسوؤں کے پانی میں توبہ سے رگڑ کر اُسے دھوئیں یہ تمہارا فرض ہے کہ اس کو رگڑ کر صاف کرو تب خدا اسے قبول کرے گا‘‘۔ یہ داؤد ، یسعیاہ اور یونس کی تعلیم کے کیسے قریب پھر بھی اس نے کیسی بعید ہے کیا الغزالی نے کبھی کسی دینداری یہودی کی زبان سے یسعیاہ کا یہ جملہ سنا کہ’’ہماری ساری راستبازیاں گندی دھجیاں ہیں‘‘۔

اس مسلم عالم کے مطابق توبہ سے دہرایہ نتیجہ پیدا ہوتا ہے۔ اگرچہ و ہ اس گہرے مسئلے کو نہیں چھوتا کہ کیسے خدا منصف عادل بھی ہو اور گنہگار کو راستباز بھی ٹھہرائے۔ اس نے یہ تعلیم دی کہ ہمارے گناہوں کی معافی کا نتیجہ یہ ہے کہ ’’ہم خدا کے سامنے ایسے کھڑے ہوتے ہیں کہ گویا ہم نے کچھ خطانہیں کی اور ہم اعلیٰ درجہ کی راستبازی تک پہنچ جاتے ہیں‘‘۔ الغزالی کے عقیدہ میں مسیح کی صلیب کی کڑی گم ہے۔ وہ مسیحی تعلیم کے بہت قریب پہنچ جاتا ہے لیکن ہمیشہ اس تعلیم کے مرکز کو خطا کرتا ہے وہ ٹٹول کر نور کی طرف جاتا ہے لیکن دوست کے ہاتھ کو نہیں پکڑتا نہ نجات دہندہ کو پاتا ہے۔ یہ ساری راستبازی بذریعہ اعمال ہے اور عرفان الہٰی کی تحصیل بذریعہ ذکر الٰہی ہے کفارہ کے وسیلے راستباز ٹھہرنے کے بغیر۔

’’خدا کی حضوری کے عمل‘‘پر جو تعلیم اس نے دی وہ برادر لارنس کی تعلیم کی طرح ہے جو اس نے اپنے ایک رسالہ میں ظاہر کی۔’’دین اور اخلاق میں مبتدی کا رہنما‘‘رسالے (البدایت )اس نے یہ لکھا

’’جان لو کہ تمہارا رفیق جو کبھی تمہیں ترک نہیں کرتا نہ گھر میں نہ باہر ، نہ خواب میں نہ باہر ، نہ موت میں نہ زندگی میں۔ وہ تمہارا خداوند اور آقا ، تمہارا محافظ ہے اور جب کبھی تم اس کو یاد کرو گے وہ تمہارے پاس ہی بیٹھا ملے گا۔ کیونکہ خدا نے خود یہ فرمایا ہے ’’جو مجھے یاد کرتے ہیں میں ان کا نہایت رفیق ہوں‘‘ اور جب کبھی تمہارا دل خستہ وشکستہ ہو اس غم سے کہ تم نے دین میں غفلت کی ہے تو وہ تمہارا رفیق ہے جو تمہارے قریب رہتا ہے کیونکہ خدا نے یہ فرمایا ’’جو میری خاطر شکستہ دل ہیں میں ان کے ساتھ ہوں‘‘ اگر تم اس کے جانتے جیسا کہ جاننا چاہئے تو تم اسے اپنا رفیق پکڑتے اور اس کی خا طر باقی سب آدمیوں کو چھوڑ دیتے۔ لیکن چونکہ ہمیشہ تم ایسا نہیں کر سکتے میں تمہیں آگاہ کرتا ہوں کہ رات اور دن ایک خاص وقت اپنے خالق کے ساتھ رفاقت رکھنے کے لئے مقرر کرو تاکہ تم اس میں خوشی حاصل کرو اور وہ تم کو بدی سے چھڑائے‘‘۔

لیکن الغزالی نے خدا کی قربت کو مسیح کے تجسم کے وسیلے نہیں سیکھا جس خدا کے دیدار کی اس کو آرزو تھی وہ خوف اور روز عدالت کی دہشت سے معمور تھا۔ خدا کا خوف حکمت کا آغاز اور انجام تھا خدا کے خوف کے بارے میں جو کچھ اس نے سمجھا وہ اس عبارت سے ظاہر ہے جو اس کے کتاب’’ احیاالعلوم‘‘سے لی گئی ہے’’خدا کے خوف سے میری مراد عورتوں جیسے خوف سے نہیں جب اس کے آنکھیں نم ہوتی ہیں اور ان کے دل کسی فصیح دینی وعظ سننے پر مائل ہوتے ہیں جسے وہ جلد بھول جاتیں اور چھچھوری باتوں کی طرف پھر رجوع کرتی ہیں۔ یہ تو حقیقی خوف ہرگز نہیں ۔جو شخص کسی شے سے ڈرتا ہےاس سے بھاگ جاتا ہے اور جو کسی شے کی امید رکھتا ہے اس کے لئے وہ کوشش کرتا ہے اور جو خوف تجھے نجات دے گا وہ ایسا خوف ہے جو تمہیں خدا کے خلاف گناہ کرنے سے منع کرے اور اس کی اطالت تمہارے اندر پھونک دے۔ عورتوں اور احمقوں کے سطحی خوف سے خبردار رہو۔ یہ لوگ جب خداوند کے غضب کاحال سنتے ہیں تو ہلکے دل سے یہ کہتے ہیں۔ ’’اعوذ باللہ‘‘ اور عین اسی وقت انہیں گناہوں میں مبتلا رہتے ہیں جو اُن کو ہلاک کریں گے۔ شیطان ایسی دیندارانہ دعاؤں پر ہنستا ہے وہ ایسے شخص کی طرح ہیں جسے جنگل میں ایک شیر ملے اور قریب ہی ایک قلعہ بھی ہو اور جب وہ اس پھاڑنے والے حیوان کو دیکھے وہ کھڑا ہو کر زور سے چلانا شروع کرے ’’اعوذباللہ‘‘ خدا اپنی عدالت کے عذابوں سے تمہیں نہ بچائے گا جب تک تم فی الحقیقت اس میں پناہ نہ پکڑو‘‘۔

خدا کے اس خوف کے ساتھ موت کا خوف بھی شامل تھا جو وسطی زمانہ اور ابتدائے اسلام کا خاصہ تھا۔اس کی زندگی کےا ختتام کے قریب اس نے آخری زمانہ کے بارے میں ایک رسالہ لکھا جس کا نام اس نے ’’گوہر بے بہا ‘‘ رکھا ۔اس میں اس کے دیگر رسالوں کی نسبت موت اور عدالت کے عذابوں کو زیادہ مفصل ذکر ہے۔اس رسالہ میں اس نےیہ بیان کیا۔’’جب تم کسی مردہ شخص کو دیکھو اور معلوم کرو کہ اس کے منہ سے تھوک بہ رہا ہے اور اس کے ہونٹ جڑ گئے ہیں اس کا چہرہ کالا پڑ گیا ہے اور آنکھ کی سفیدی اُبھر آئی ہے تو جان لو کہ دوزح میں ڈالا جائے گا اور دوزح میں جانے کا فتویٰ اس پر ابھی منکشف ہوا۔ لیکن اگر تم کسی مردے کو دیکھو کہ اس کو منہ پر تبسم ہے اور چہرہ بشاش ہے اس کی آنکھیں نیم بند ہیں تو جان لو کہ اسے خوشی کا مژدہ ملا ہے کہ اگلے جہان میں اسے کیا حاصل ہوگا‘‘۔

روز عدالت کو جب سے آدمی خدا کے تحت کے سامنے حاضر کئے جائیں گے ان کے اعمال کا حساب لیا جائے گا اور نیک و بد اعمال تو لئے جائیں ۔ اس سارے عرصے میں ہر ایک آدمی یہ گمان کرے گا کہ خدا صرف اسی کا حساب لے رہا ہے۔ حالانکہ شاید اسی وقت خدا بے شمار لوگوں کا حساب کے رہا ہوگا جن کاشمار بھی اس معلوم ہے لوگ ایک دوسرے کو نہ دیکھیں گے نہ ایک دوسرے کی آواز سنیں گے‘‘۔

صوفی کی سیرت کا خلاصہ دیتے وقت کلاڈفیلڈ صاحب نے یہ بیان کیا

’’جیسے مقدس آگستین نے شک اور غلطی سے مخلصی اپنے باطنی تجربہ خدامیں حاصل کی اور ڈی کارٹے (Descarte)نے وقوف قلبی میں ۔ویسے ہی غزالی نے قیاسی ڈھکوسلوں سے غیرمطمئن ہوکر اور شک شکوک سے گبھرا کر اپنے آپ کو رضا ئے الٰہی کے سپرد کر دیا۔ اس نے یہ دوسروں کےلئے چھوڑ دیا کہ خدا کی ہستی کو بیرونی دنیا سے ثابت کریں لیکن اس نے خدا کو اپنے وقوف قلبی میں اور خود مختاری کے راز میں پایا‘‘۔

اسلام میں ایک لاثانی اور واحد شخص ہے اور اس کو لوگوں نے اب تک صرف جزوی طور سے سمجھا وسطی زمانوں میں اس کو شہرت کو آور روز (Overroes) نے ماند کردیا ۔جس کی تفسیر ارسطو کی طرف ڈینٹے (Donte) نے اشارہ کیا اور جس کا مطالعہ ٹامس اکوائینس (Thomas Aquinas) اور دیگر علما نے کیا ۔آور روز کی ترتیب مکمل تھی لیکن غزالی ان میں سے تھا جن کی رسائی ان کی گرفت سے پرے تھی۔ وہ ہمیشہ ایسی شے کی تلاش میں تھا جس کو اس نے حاصل نہ کیا تھا اور بہت باتوں میں آورروز کی نسبت زمانہ حال کے علما کےلگ بھگ ہے۔ رےنن(Renan) کو گواس کی مذہبی سرگرمی سے کچھ ہمدردی نہ تھی تو بھی اس نے اس کو ’’عربی فلاسفروں کے درمیان نہایت اصلیکہا‘‘۔

الغزالی کا شاگرد شاید سارے مسلمانوں میں سے انجیل کے قریب ہے اور ہم امید کر سکتے ہیں کہ جب اس کی تصنیفات کا غور سے مطالعہ کیا جائے گا اور مسیحی دین کی تعلیم سے اس کا مقابلہ کیا جائے گا تو وہ بہتوں کو مسیح تک پہنچانے میں استاد ثابت ہوگا۔

زمانہ حال کے تعلیم یافتہ مسلمان الغزالی کی اس آخری نصیحت سے فائدہ اُٹھائیں گے جو اس کی کتاب’’اقرارات‘‘کے آخر میں پائی جاتی ’’جس علم کا ہم ذکر کرتے ہیں وہ ایسے چشموں سے حاصل نہیں ہوا جن تک انسانی سعی کو رسائی ہو اور اسی وجہ سے محض دنیاوی علم میں ترقی کرنا گنہگار کے دل کو خدا کی مخالفت میں زیادہ سخت کر دیتا ہے۔ برعکس اس کے حقیقی علم اس انسان میں جو مبتدی ہو چکا ہے زیادہ خوف زیادہ تعظیم پیدا کرتا اور اس کے اور گناہ کے مابین ایک سد (دیوار،پردہ)حائل کر دیتا ہے۔ ممکن ہے کہ وہ لغزش کھائے اور گر پڑےاور جوبشری کمزوری سے ملبس ہے اس کو اس سے چارہ نہیں۔ لیکن ان لغزشوں اور ٹھوکروں سے اس کا ایمان کمزور نہیں ہوتا حقیقی مسلمان کبھی کبھی آزمائش میں مغلوب ہو جاتا ہے لیکن وہ توبہ کرتا ہے اور اس غلطی کی راہ میں ضد سے پڑا نہیں رہتا میں خدا قادر مطلق سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہم کو اپنے برگزیدوں میں شمار کرے اور ان لوگوں میں گنے جن کو وہ محفوظ راہ میں ہدایت کرتا ہے۔ جن میں وہ سرگرمی ڈالتا ہے تاکہ وہ اسے فراموش نہ کریں جن کو وہ ہر آلودگی سے پاک کرتا ہے تاکہ ان میں سوائے خدا کے کچھ باقی نہ رہے۔ ہاں ان میں جن کے اندر وہ کامل طور سے سکونت کرتا ہے تاکہ اس کے سوائے وہ کسی کی پرستش نہ کریں‘‘۔

مسلمان ہونے کی حثییت سے یا تو فخر کے باعث اس نے مسیحی دین کے تاریخی واقعا ت کی تلاش نہ کی یا شاید حُسن ظن کے طور پر یہ کہیں کہ اناجیل سے اقتباسات ، صحیح و غلط کے باوجود اسے کافی موقعہ اس تلاش کا نہ ملا ورنہ ضرور اسے وہ شے مل جاتی جس سے اس کے دل کی پیاس اور روح کی آرزو تشفّی پاتی یعنی خدا کا اظہار نہ کسی غیر محسوس اصول ہیں بلکہ زندہ شخص یسوع مسیح میں ’’و ہ اندیکھے خدا کی صورت تمام مخلوقات میں سے پہلے مولود ہے کیونکہ اسی میں ساری چیزیں پیدا کی گئیں آسمان کی ہوں یا زمین کی یا اندیکھی ، تحت ہوں یا ریاستیں یا حکومتیں یا اختیارات ساری چیزیں اسی کے وسیلے سے اور اسی کے واسطے پیدا ہوئی ہیں‘‘(کلسیوں۱: ۱۵۔۱۷)۔ جو لوگ مسیح میں بستے ہیں اور جن میں مسیح بستا ہے وہ اس کے روحانی بد ن کا جُزہیں۔ وہ زندہ تاک کی شاخیں ہیں۔ ان کی زندگی اور مقصد واحد ہے اگرچہ وہ اپنی ہستی کا ادر اک برابر رکھتے ہیں وہ خدا کے ساتھ گہری رفاقت کے لئے زیادہ قابل ہوتے جاتے ہیں ایسے تصور تک صوفی کبھی نہیں پہنچا۔ الغزالی نے یہ تسلیم کر لیا کہ خدا کو کسی انسان نے کبھی نہیں دیکھا لیکن وہ اس کی دریافت میں قاصر رہا کہ ’’خدا کا اکلوتا بیٹا جو باپ کی گود میں ہے اسی نے ظاہر کیا ‘‘ محمد کے مصنوعی جلال نے اس سے جیسا کہ صدیوں بعد تک یسوع مسیح کے چہرہ میں خدا کے جلال کے علم کی جھلک کو چھپا لیا لیکن کلیہ طور پر نہیں جیسا کہ مابعد باب سے ظاہر ہوگا۔ 

باب ہشتم

الغزالی کی تصنیفات میں یسوع مسیح

یسوع مسیح سیرت کا معیار ہے روحانی پیشواؤں کا آقا اور واحد اعلیٰ لاغلطہ (موٹا ریشمی کپڑا،میان)حاکم منصف جو کسی مذہب یا اس کی تعلیم پر صحیح فتویٰ دے سکتا ہے۔ مسلمان میں جو فاضل اجل (بہت بزرگ ، بڑاذی شان )گذرا ہے اس کی تعلیم میں یسوع مسیح کو کونسی جگہ دی گئی اور اس مکرم صوفی کے دل میں اس طالب خدا کے دل میں اس کو کیا رتبہ حاصل تھا؟ خواہ وہ کیسا ہی کیوں نہ ہو وہ اپنی تحقیقات میں بالکل نیک نیت تھا ۔الغزالی نے قرآن کے مطالعہ کرنے میں یہ ملاحظہ کیا ہوگا کہ اس کتاب میں مسیح کو اعلیٰ رتبہ دیا گیا ۔کم از کم تین سورتوں میں یعنی سورۃ العمران(۳)، سورۃ مریم(۱۹) ، سورۃ مائدہ (۵)کا نام یسوع مسیح اور اس کے کام کے لحاظ سے رکھا گیا۔ یہ نفس الامر(درحقیقت) کہ یسوع مسیح کو اسلامی علم ادب میں جگہ دی گئی اور سارے مسلمانوں نےانبیائے عظیم میں سے اس کو تسلیم کیا اس میں اور محمد میں مقابلہ کرنے پر ہم کو آمادہ کرتے ہیں۔ کیا الغزالی نے کبھی یہ خیال کیا اور محمد کا مسیح کے ساتھ مقابلہ کیا ؟ اس باب میں ہمارا یہی مقصد ہے کہ اس سوال کا جواب دیں گے اور اس نے جو حوالے کتاب ’’احیاالعلوم‘‘ اور اپنی دیگر تصنیفات میں دئیے ہیں ان کو جمع کریں اور پھر نتیجہ نکالیں کہ وہ کن چشموں سے آئے اور امام غزالی کی کیا رائے تھی۔ناظرین خود اپنے لئے یہ فیصلہ کریں گے کہ کہاں تک وہ مسلمانوں کو مسیح تک پہنچانے میں استاد کا کام دیتا ہے۔

اس کی ساری تصنیفات میں مسیح کی زندگی یا اس کی تعلیم کا خاکہ(وہ نقشہ جو صرف حدود کی لکیریں کھینچ کربنایا جائے) نہیں دیا گیا۔ بیشک الغزالی نے وہ کتاب پڑھی اور اس کا علم غالباً حاصل کیا ہوگا جس میں اسلامی چشموں کے مطابق یسوع مسیح کی زندگی کا مسلسل بیان قلمبند ہوا تھا۔ اس کا نام کتاب ’’قصص الانبیا ‘‘تھا جسے ابراہیم الثعلبی نے جو شافعی مذہب کا تھا لکھا ۔اس شخص نے( ۴۲۷ہجری)(۱۰۳۶ء)میں انتقال کیا۔ان حدیثوں کی افسانگی اس فصل کے ترجمے میں دکھائی گئی ہے جو یسوع مسیح کے بارے میں ہے۔ الغزالی نے بلکل وہی کہانیاں تو بیان نہیں کیں جو الثعلبی نے بیان کیں لیکن بہت دیگر واقعات اور اقوال کا ذکر کیا ہے جو ان کے مشابہ ہیں جو اناجیل میں پائے جاتے ہیں اور بعض بالکل اپوکرفل کتابوں سے منقول ہیں۔

اب یہ سوال لازم آتا ہے کہ الغزالی نے انجیل کا یہ علم کہاں سے حاصل کیا؟ کیا کوئی فارسی یا عربی ترجمہ اس کو ملایا جو کچھ ہم نے جمع کیا ہے وہ صرف اسی کی سنی سنائی باتیں تھیں جو اس نے مسیحی راہبوں یا یہودی ربیوں سے سُنی ہوں گی۔ یہ تو پورے طور سے واضح ہے کہ وہ نئے عہد نامہ کی حدیث کی نسبت عہد عتیق کی حدیث سے زیادہ واقف تھا۔ بیسیوں (بہت زیادہ)ایسے مقامات ہیں جن میں اس نے موسیٰ کی تعلیم ، داؤد کے زبور اور عہد عتیق کے انبیا کی زندگیوں کا حوالہ دیا ۔ہم پہلے باب میں ذکر کر چکے ہیں کہ الغزالی کے زمانے سے پیشتر بائبل کے ترجمے عربی میں ہو گئے تھے۔ یہ حدیث ہے کہ’’اہل کتاب تورات کو عبرانی میں پڑھا کرتے اور عربی میں مسلمانوں کےلئے ترجمہ کیا کرتے تھے‘‘ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ ’’کعب ربی ایک کتاب خلیفہ عمر کے پاس لایا اور کہا ’’یہ توریت ہے اسے پڑھ‘‘’’یہودی ان سائی کلوپیڈیا ‘‘میں لکھا ہے

’’الندیم کی فہرست میں ایک احمد ابن عبداللہ بن سلام کا ذکر ہے جس نے بائبل کا ترجمہ عربی میں کیا تھا ‘‘۔

ہارون رشید کے عہد سلطنت میں اور فخر الدین رازی نے ذکر کیا کہ ’’حبقوق کی کتاب ‘‘کا ترجمہ ابن ربان الطبری نے کیا۔ بہت عربی مورخ مثلاً الطبری ، مسعودی ، حمزہ اور بیرونی بعض مقامات کو نقل کرتے اور یہودیوں کی ابتدائی تاریخ کا ذکر اتفاقیہ طور سے کرتے ہیں۔ ابن قطیہ مورخ ( ۸۸۹ء میں وفات پائی) نے بیان کیا کہ اس نے بائبل کو پڑھا اور اس نے بائبل کے چند مقامات کو جمع کر کے ایک کتاب جمع کیا جسے ابن جوزی (بارھویں صدی) نے محفوظ رکھا سب سے پہلا مشہور ترجمہ سعدی گاؤں (Gaon)کا ہے (۸۹۲سے ۹۴۲ ) اس ترجمہ کا رسوخ اسی قدر تھا جس قدر کہ اس کی فلسفہ کی کتاب کا۔

زبور کا ترجمہ حافظ القوتی نے دسویں صدی میں کیا اور اندرونی شہادت سے ہمیں معلوم ہے کہ اس کا مصنف مسیحی شخص تھا۔ عہد عتیق کا ایک دوسرا ترجمہ عربی زبان میں قاہرہ کے یہودیوں نے گیارھویں صدی میں کیا۔ سعدی کا ترجمہ ، مصر ، فلسطین ، سوریہ میں دسویں صدی کے آخر میں مستند سمجھا گیا اور اس کی نظر ثانی( ۱۰۷۰ ء) میں ہوئی بائبل کے فارسی ترجموں کے بارے’’ یہودی ان سائیکلوپیڈیا‘‘سے معلوم ہوتا ہے کہ بقول میمونی دیس(Mamonides)

’’توریت کا ترجمہ فارسی زبان میں محمد سے کئی سو برس پیشتر ہوگیا تھا‘‘

لیکن اس سے زیادہ اس بیان کی تصدیق نہیں ہوسکتی۔ اناجیل کے عربی ترجموں کے بارے میں ہم ڈاکٹر کِل گور(Kilgour) صاحب کا بیان دے چکے ہیں۔

کیا یہ ظن غالب(یقین، غالب رائے، قوی گمان) نہیں کہ اناجیل کے ان ترجموں میں سے کسی ایک سے غزالی واقف ہوگا ؟ کیا اس نے خود اس کا بیان نہیں کیا؟ ’’میں نے انجیل میں پڑھا ہے‘‘ ؟ نہ صرف اس نے اناجیل سے قصوں اور مسیح کے اقوال کو نقل کیا بلکہ بعض صورتوں میں لفظ بہ لفظ نقل کیا۔ یہ بھی سچ ہے کہ بعض بیانات بالکل اپوکرفل ہیں جن کا ذکر صحیح اناجیل میں بالکل پایا نہیں جاتا۔ ہم اس سے ناواقف ہیں اور ہمیشہ ناواقف رہیں گے کہ الغزالی نے یہ مسودہ کہاں سے لیا یا اس نے اپنے د ل سے گھڑ لیاجیسے کہ اس کے ایام میں لوگ محمد کے بارے میں قصوں کو گھڑلیتے تھے؟

کتاب ’’احیا ‘‘میں مفصلہ ذیل واقعات کا ذکر ہے۔ حقیقی اور اپوکرفل مسیح کی زندگی کے بارے میں جو زمین پر بحیثیت نبی اور ولی اللہ گزرے ہم شروع میں یہ بیان کریں گے کہ مسیح کی بے گناہی کے بارے میں الغزالی نے کیا کہا۔ ’’یہ کہا گیا ہے کہ شیطان (لعنتہ اللہ علیہ)یسوع کے پاس آیا اور اسے کہا ’’کہہ لاالہ الاللہ‘‘۔ اس نے جواب دیا کہ یہ کلمہ توصحیح ہے لیکن میں تیرے پیچھے پیچھے یہ نہ کہوں گا‘‘(جلد سوم صفحہ ۲۳)۔ پھر’’یہ بیان کیا گیا ہے کہ جب یسوع پیدا ہوا تو شیاطین نے ابلیس کے پاس آکر کہا کہ ’’سارے بت منہ کے بل گر پڑے ہیں اس نے کہا یہ تمہاری وجہ سے وقوع میں آیا‘‘۔ پھر وہ اڑا اور زمین کے طبقے پر پہنچا تو اس نے معلوم کیا کہ یسوع پیدا ہوا ہے اور فرشتے اس کی حفاظت کر رہے ہیں پھر اس نے شیاطین کے پاس واپس جاکر ان سے کہا"۔ فی الحقیقت کل ایک نبی پیدا ہوا کسی عورت سے کوئی بچہ پیدا نہیں ہوا کہ میں وہاں موجود نہ ہوں سوائے اس بچہ کی پیدائش کے‘‘اور اسی وجہ سے لوگ بتوں کی پرستش سے مایوس ہو گئے (جلد سوم ۲۶)۔

’’یہ بیان کیا گیا ہے کہ ایک روز یسوع پتھر پر تکیہ لگائے تھا اور شیطان نے پاس سے گزر کر کہا ’’اے یسوع اب تو نے اپنی ُحب دنیا کے لئے ظاہر کی ہے‘‘ تب یسوع نے وہ پتھر اٹھایا اور اس کی طرف پھینک کر کہا ’’اسے اور دنیا کو لے ‘‘(جلد سوم صفحہ۲۲)۔ ناصرت میں اس کے لڑکپن کے بارے میں یہ بیان آیا ہے۔ ’’کسی نے یسوع سے کہا ’’تمہیں تعلیم کسی نے دی‘‘؟ اس نے جواب دیا ’’کسی نے نہیں‘‘ ’’میں نے احمقوں کی احمقی دیکھ کر اسے حقیر جانا اور اس سے روگردان ہوا‘‘۔ ’’یسوع نبی ان میں سے تھا جو خاص طور پر مقربین تھے۔ اس کے ثبوتوں میں سے ایک یہ ثبوت ہے کہ اس نے اپنے پر سلام کہا۔ کیونکہ اس کا یہ قول ہے‘‘۔ ’’سلامتی اس دن پر کہ میں پیدا ہوا اور جس دن میں مروں گا اور جس دن میں پھر زندہ کیا جاؤںگا‘‘۔ یہ اس وجہ سے تھا کہ اسے دلی اطمینان حاصل تھا اور سب آدمیوں سے محبت اور الفت رکھتا تھا۔ لیکن یحییٰ ابن زکریا (سلمہ اللہ )خدا سے خوف رکھتا تھا اور اس نے یہ الفاظ اس وقت تک نہ کہے جب تک کہ اس کے خالق نے اس سے نہ دہرائےجس نے یہ کہا ’’سلام اس دن پر کہ تو پیدا ہوا۔ جس دن کہ تومرگیا اور جس دن کہ تو زندہ کیا گیا‘‘۔ مذکورہ بالا مقالات پر یہ دلچسپ تفسیر ہے جو قرآن کی اسی سورۃمیں آئے ہیں اور کسی دوسری جگہ میں یسوع کی فوقیت یحییٰ پر ظاہر کرنے کے لئے مستعمل نہیں ہوئے (جلد چہارم صفحہ ۲۴۵)۔

الغزالی نے یسوع کو وہی لقب دئیے جو قرآن مین دئیےگئے ہیں یعنی ابن مریم ، روح اللہ ، نبی ، اور رسول لیکن یہ پچھلے لقب چنداں وقعت نہیں رکھتے کیونکہ اس نے اسلامی اس عجیب قیاس کو مانا کہ کم از کم ۱۲۴۰۰۰(ایک لاکھ چوبیس ہزار) انبیا دنیا کے شروع سے ہوئے ہیں اس کے رسالہ ’’اقتصاد ‘‘ میں اس نے یہودیوں پر ثابت کرنے کے لئے ایک طویل دلیل دی ہے کہ یسوع فی الحقیقت نبی تھا اور اس کا حصر اس کی تعلیم اور معجزوں پر رکھا۔ (صفحہ۸۳ سے۸۶ ) اس نے اپنے رسالے ’’جوہر القرآن ‘‘میں کنواری مریم کو بھی نبیوں میں شمار کیا اور ان کا شمار اس ترتیب سے دیا۔ آدم ، نوح، ابراہیم ، موسیٰ، ہارون، زکریاہ، یحییٰ ، یسوع ، مریم ، داؤد، سلیمان ، یشوع، لوط، ادریس، خضر، شعیب، الیاس، محمد۔

ہمارے خداوند کے روزے کے بارے میں الغزالی نے یہ بیان کیا ’’یہ لکھا ہے کہ یسوع نے (سلمہ اللہ)ساٹھ دن کا روزہ رکھا اور دعا میں مصروف رہا۔ تب اسے روٹی کا خیال آیا اور دیکھو کہ اس کے ہاتھو ں کے مابین ایک روٹی ظاہر ہوئی۔ تب وہ بیٹھ کر رونے لگاکہ میں دعا مانگنا بھول گیا اور دیکھو ایک بوڑھا اس کے پاس آیا اور اس نے کہا۔ ’’اے عبد اللہ خدا تجھے برکت دے خدا تعالیٰ کو یاد کر کہ میں بھی غم کی حالت میں تھا اور میں نے روٹی کا خیال کیا حتیٰ کہ میں دعا مانگنا بھول گیا۔ تب اس بوڑھے آدمی نے دعا کی ‘‘اے خدا اگر تجھے کوئی موقعہ یاد ہے جب میرے دعا مانگتے وقت میرے دماغ میں روٹی کا خیال پیدا ہوا تو مجھے معاف نہ کر! تب اس نے یسوع کو کہا جب کوئی شے میرے پاس کھانے کےلئے لاتا ہے تو میں اسے کھالیتا ہوں بلا اس کے سوچے کہ وہ کیا ہے‘‘(جلد سوم صفحہ۶۱) مفصلہ ذیل قصہ انجیل کے اس حکم پر مبنی معلوم ہوتا ہے کہ ’’اپنی آنکھ نکال ڈال‘‘اگر وہ ٹھوکر کھلائے۔’’یسوع (سلمہ اللہ )کے بارے میں یہ بیان ہوا ہے کہ ایک دفعہ وہ بارش کے لئے دعا مانگنے گئے اور جب لوگ جمع ہوئے تو یسوع نے ان سے کہا ’’تم میں سے جو کوئی گناہ کا مرتکب ہوا ہے وہ لوٹ جائے ‘‘اس پر سب چلے گئے اور نماز میں اس کے ساتھ ایک کے سوا کوئی نہ رہا اور یسوع نے اس سے کہا ’’کیا تو نے کوئی گناہ کیا ہے‘‘؟ اس نے جواب دیا ’’خدا کی قسم مجھے کچھ معلوم نہیں سوائے اس کے کہ ایک دن جب میں دعا مانگ رہا تھا تو ایک عورت میرے پاس سے گزری اور میں نےاس انکھ سے اس پر نگاہ کی اور میں نےاس کو نکال دیا اور جا کر اس عورت سے معافی مانگی‘‘ تب یسوع نےاس سے کہا ’’خدا سے دعا مانگ تاکہ میں تیری خلوص قلبی کا یقین کروں‘‘۔ تب اس آدمی نے دعا مانگی اور آسمان پر بادل چھا گئے اور مینہ چھما چھم برسنے لگا ‘‘(جلد دوم صفحہ۲۱۷)۔

مسیح کے معجزات کے بارے میں مفصلہ ذیل قصے آئے ہیں۔ شاگردوں نے یسوع کو کہا’’دنیا کے بارے میں تیرا خیال کیا ہے‘‘ انہوں نے کہا ہم تو اسے اچھا جانتے ہیں۔ یسوع نے جواب دیا کہ ’’میرے نزدیک تو یہ اور خاک برابر ہیں‘‘(جلد سوم صفحہ۱۶۱)۔

’’نبی کو کسی نے کہا کہ یسوع (سلمہ اللہ )تو پانی پر چلا کرتا تھا اس نے جواب دیا کہ اگروہ پاکیزگی میں زیادہ کوشش کرتا تو ہوا میں اڑ سکتا‘‘(جلد چہارمصفحہ۷۱)۔’’یہ بیان کیا ہے کہ کوئی ڈاکو بنی اسرائیل کے مسافروں کو چالیس برس تک لوٹتا رہا۔ یسوع ایک روز اس راہ سے گزرا اور اس کے پیچھے پیچھے بنی اسرائیل کے عابدوں میں سے ایک ولی جو یسوع کا شاگرد تھا جارہا تھا اس ڈاکو نے اپنے دل میں کہا ’’یہ جو گزر رہا ہے خدا کا نبی ہے اور اس کے ساتھ اس کا ایک شاگرد ہے اگر میں نیچے جاؤں تو میں تیسرا ہوں گا ‘‘پھر اس نے یہ بیان کیا کہ اس ڈاکو نے اپنی فروتنی اس طرح سے ظاہر کی کہ وہ یسوع کے پیچھے نہیں بلکہ اس کے شاگرد کے پیچھے چلتا تھا یسوع نے ان دونوں کو ان کے گناہ پر ملامت کی (جلد چہارم۔ صفحہ۱۱۰)۔ ’’یہ بیان ہوا ہے کہ یسوع (سلمہ اللہ )ایک اندھے کے پاس سے گزرا جو کوڑھی بھی تھا اور دونوں پاؤں سے لنگڑا کیونکہ مفلوج تھا اور کوڑھ سے اس کا گوشت سڑ گیا تھا اور وہ یہ کہہ رہا تھا خدا کی حمدہو جس نے مجھے صحت بخشی اور مصیبتوں سے بچایا جس میں دیگر مخلوق مبتلا ہیں‘‘۔ تب یسوع نے اس کو کہا اے دوست تو اپنے تئیں کس مصیبت سے آزاد سمجھتا ہے اور اس نے جواب دیا اے روح اللہ میں ان سے بہتر ہوں جن کے دل میں خدا نے اپنا عرفان اور فضل نہیں ڈالا اور یسوع نے کہا ’’تو نے سچ کہا اپنا ہاتھ پھیلا‘‘ اور اس نے اپنا ہاتھ پھیلایا اور اس کےبدن اور شکل کو کامل شفا حاصل ہوئی۔ کیونکہ خدا نے اس کی ساری مرض دور کر دی۔ سو وہ یسوع کے ساتھ ہو لیا اور اس کو سجدہ کیا‘‘(جلد چہارم۔ صفحہ۲۵۰)۔

الغزالی نے یسوع کی بیماروں کو شفا دینے کی طاقت کا اکثر نقشہ کھینچا ہے۔ کیونکہ مسیح کے رحم کی صفت ہمیشہ اور ہر جگہ مسلمانوں کو پسند آئی۔ چنانچہ مثنوی معنوں میں اس کی ایک عمدہ مثال ملتی ہے اور جس کو الغزالی نے فصل بہ فصل نثر میں نقل کیا ہے۔

’’خانہ عیسیٰ صاحبدلوں کی ضیافت گاہ تھا۔ مصیبت زدہ اس کا دروازہ چھوڑ کر نہ جاتے چاروں طرف سے لوگ ہمیشہ جمع رہتے۔ بہت اندھے ، لنگڑے ، لولے اور مصیبت کے مارے علی الصباح عیسیٰ کے گھر کے دروازے پر تاکہ وہ اپنے دم سے ان کی بیماریوں کو دور کرے۔ جو نہیں وہ اپنی دعا مانگ چکتا۔وہ قدوس تیسرے گھنٹے کے قریب باہر نکلتا۔ وہ صف صف ان ناتوانوں کی ملاحظہ کرتا۔ جو امید و توقع سے اسی کے دروازے پر بیٹھے تھے وہ ان سے یہ کہہ کر کلام کرتا اے مریضو تمہاری تمناؤں کو خدا نے پورا کر دیا۔ اٹھو چلو بلا درد دکھ کے خدا کی رحمت و شفقت کو مانو۔ پھر سب جیسے اونٹ جس کے پاؤں بندھے ہوں جب تم سڑک پر ان کے پاؤں کھول دو تو فی الفور خوشی و خر می سے اپنے منزل مقصود کو جاتے ہیں۔اس طرح وہ اس کے حکم سے اپنے پاؤں پر نکل بھاگتے ہیں"۔

مگر بہت سے معجزے اس قصے میں بہت چھچھورے سے ہیں ’’کوئی آدمی یسوع (سلمہ اللہ )ابن مریم کے ساتھ ہو لیا اور کہا۔ ’’میں تیرا رفیق ہو کر ہمراہ جانا چاہتا ہوں‘‘ پس وہ روانہ ہوئے اور ایک دریا کے کنارے پہنچے اور وہاں بیٹھ کر کھانا کھایا۔ ان کے پاس تین روٹیاں تھیں انہوں نے دو تو کھالیں اور تیسری باقی رہی تب یسوع اٹھ کر دریا سے پانی پینے گیا اور واپس آکر تیسری روٹی نہ پائی اس نے آدمی کو کہا کہ کس نے روٹی لی۔اس نے جواب دیا کہ میں نہیں جانتا پس وہ اپنے ہمراہی کے ساتھ روانہ ہوا اور اس نے ایک غزال کو دیکھا جس کے دو بچے تھے اور یسوع نے ان میں سے ایک کو بلایا اور وہ اس کے پاس آیا اور اسے ذبح کر کے پکایا اور اسے مل کر کھالیا۔ تب اس نے بچہ کو کہا ’’خدا کی مرضی سے اٹھ‘‘ اور وہ اٹھا اور چلا گیا اور پھر مڑ کر اس آدمی سے کہا کہ میں اس کے نام سے جس نے یہ معجزہ تیری آنکھوں کے سامنے دکھایا تجھ سے پوچھتا ہوں کہ وہ روٹی کس نے لی اس نے جواب دیا کہ میں نہیں جانتا پھر وہ ایک غار میں گئے اور یسوع (سلمہ اللہ )نے ریت پر کنکر جمع کرنے شروع کئے اور ان کو کہا ’’خدا کے حکم سے روٹی بن جاؤ ‘‘ اگر وہ روٹی بن گئی پھر اس نے ان کو تین حصوں میں تقسیم کر کے کہا۔ ’’تیسرا حصہ میرے لئے تیسرا حصہ تیرے لئے اور تیسرا حصہ اس شخص کے لئے جس نے روٹی لی تب اس آدمی نے کہا کہ ’’میں نے وہ روٹی لی تھی‘‘ یسوع نے جواب دیا کہ یہ سب لے اور مجھ سے جدا ہو جا‘‘(جلد سوم۔ صفحہ۱۸۸)۔الغزالی نے یہ قصہ لالچ اور طمع کے باب میں کہا تاکہ ظاہر کرے کہ جو شخص اس دنیا کو پیار کرتا ہے وہ اولیا اللہ رفیق نہیں ہو سکتا ؟

کہ یسوع کلام اور چلن میں حلیم تھا وہ مفصلہ ذیل دو قصوں سے ظاہر ہے۔ یسوع کے بارے میں یہ بیان ہوا ہے کہ ایک دفعہ ایک سور اس کے پاس سے گذر ا اور یسوع نے اس سے کہا’’سلامتی میں جا‘‘۔ انہوں نے اس کو کہا ’’اے روح اللہ تو سور کو یہ کیوں کہتا ہے‘‘۔ اس نے جواب دیا ’’میں اپنی زبان کو برے الفاظ سے آلودہ نہیں کرنا چاہتا‘‘(جلد سوم صفحہ۸۷)۔ ’’یہ بیان کیا جاتا ہے کہ یسوع معہ اپنے شاگردوں کے ایک دفعہ ایک کتے کی لاش کے پاس سے گزرا شاگردوں نے کہا ’’اس کتے سے کیسی بدبو آتی ہے‘‘ یسوع (سلمہ اللہ ) نے کہا ’’اس کے سفید دانت کیسے چمک رہے ہیں‘‘۔ اس سے وہ شاگردوں کو ملامت کرنا چاہتا تھا کہ کتے کو کیوں ملامت کی اور ان کو یہ سبق سکھا یا کہ خدا کی کسی مخلوق کا ذکر بُرائی سے نہ کرو بلکہ اس کی خوبی کا بیان کرو اس کا ذکر جلال الدین نے نظم میں کیا جس کا ترجمہ یہ ہے :۔

’’ایک شام کو یسوع چوک میں پھر رہا تھا صداقت اور فضل سے معمور تمثیلیں لوگوں کو سکھا رہا تھا ۔اتنے میں چبوترہ کے نزدیک انبوہ مر دم اُٹھتا نظر آیا نفرت انگیز حرکات کرتا اور مکروہ چیخیں مارتا ٹھہر گیا استاد اور اس کے حلیم شاگرد دیکھنے گئے کہ اس ہنگامے اور نفرت کی وجہ کیا تھی اور دیکھا کہ مراکتّا پاس پڑا ہے نفرت کا نظارہ جس پر ہر چہرے سے نفرت ٹپکتی تھی کسی نے اپنا ناک بند کیا کسی نے اپنی آنکھ کسی نے منہ پھیر لیا اور سب آپس میں بآواز بلند کہنے لگے مکروہ حیوان جس سے زمین و ہوا آلودہ ہو گئی اس کی انکھیں سوجی ہوئی اور کان گندے ہیں اور اس کی پسلیاں ننگی ہیں۔

اس کے زخمی چمڑے پر ایک تسمے کی جگہ باقی نہیں رہی لا ریب مکروہ کتّا چوری کے واسطے پھانسی ملا اس کے دانتوں کی سفیدی کے آگے موتی بھی ماند ہیں‘‘!

مفصلہ ذیل عبارت الغزالی کےرسالے ’’گوہر بے بہا ‘‘ سے نقل کی جاتی ہے جس میں یسوع کے افلاس فروتنی اور بے خان و مانگی کا ذکر ہے:۔ ’’یسوع مسیح پر غور کرو کیونکہ اس کی نسبت یہ بیان ہوا ہے کہ سوائے اون کے ایک چوغے کے اس کے پاس کچھ نہ تھا اسی کو وہ بیس سال تک پہنے رہا اور اپنے سارے سفروں میں کچھ اپنے ساتھ نہ لیا سوائے پانی کی صراحی تسبیح اور کنگھی کے۔ ایک دن اس نے ایک آدمی کو ندی سے ہاتھوں کے ساتھ پانی پیتے دیکھا اس پر اس نے اپنی صراحی پھینک دی اور پھر کبھی اسے استعمال نہ کیا اس نے ایک دوسرے شخص کو انگلیوں سے اپنے بالوں کو درست کرتے دیکھا اس پر اس نے اپنی کنگھی پھینک دی اور کبھی اسے استعمال نہ کیا اور یسوع یہ کہا کرتا تھا "میرا گھوڑا میری ٹانگیں ہیں۔ میرا گھر زمین کی غاریں ، میری خوراک زمین کی نباتات میں دریاؤں سے پانی پیتا ہوں اور میرا مسکن ابنائے آدم میں ہے‘‘۔ ایک دوسرے موقع پر اس نےیہ لکھا !یسوع نے کسی نے کہا ’’اگر تو گھر لے کر وہاں رہے تو تیرے لئے بہتر ہوگا ‘‘ اس نے جواب دیا ’’جو ہم سے پہلے گزر گئے ان کے گھر کہاں ہیں‘‘(احیا جلد سوم صفحہ۱۴۰)۔

ایک قصہ (جلد چہارم۔ صفحہ۳۲۶)اس امر کو ظاہر کرنے کے لئے بیان ہوا ہے کہ یسوع لوگوں کے دلوں کا حال جانتا تھا اور خدا سے دعا مانگ کر ان کے ارادے کو بدل سکتا تھا۔ اس قصہ میں ایک بوڑھے شخص کا بیان ہے جس سے زمین کو جھاڑو دینے کا کام اس نے چھوڑا دیا اور سُلا دیا تاکہ اٹھ کر پھر کام کرے۔

ایک دوسرا قصہ یوں آیا ہے۔ ’’یہ بیان ہوا ہے کہ یسوع (سلمہ اللہ )اپنی سیاحتوں میں ایک سوئے ہوئے آدمی کے پاس سے گزرا جو اپنے کپڑے میں لپٹا پڑا تھا اس نے اسے جگا کر کہا ’’اے سونے والے اٹھ اور خدا کا ذکر کر ’’اس نے جواب دیا ’’تو مجھ سے کیا چاہتا ہے ؟ میں نے تو دنیا کو اس کے اہالیاں (کام والے لوگ)کے لئے ترک کر دیا ’’یسوع نے جواب دیا تب سویارہ اے میرے عزیز ‘‘(جلد چہارم۔ صفحہ ۴۰ ۱) ۔’’یسوع کی نسبت یہ بیان ہوا ہے کہ وہ کس آدمی کی دیوار کے سایہ تلے بیٹھا تھا اس آدمی نے اسے وہاں بیٹھے دیکھ کر کہا کہ یہاں سے اٹھ کھڑا ہوا اور وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ اس پر یسوع نے جواب دیا کہ تو نے مجھے اٹھا کر کھڑا نہیں کیا بلکہ خدا نے اٹھا کر کھڑا کیا کیونکہ خدا نہیں چاہتا کہ دن کے وقت سایہ میں خوشی مناؤں ‘‘(جلد چہارم۔ صفحہ ۱۶۳) اس زندگی کی حقیقت سی خوشی بھی خدا کے اولیاؤں کے لئے نہیں۔

یحییٰ نے یسوع کو کہا (سلمہ اللہ )’’خفا نہ ہو‘‘۔ یسوع نے جواب دیا ’’۔میں خفا ہونے سے بالکل وہ نہیں سکتا کیونکہ میں انسان ہوں‘‘۔تب یحییٰ نے کہا ’’جائداد کی تمنا نہ رکھ یسوع نے جواب دیا کہ یہ ممکن ہے ‘‘(جلد دسوم۔ صفحہ ۱۱۴)۔

اس نے یسوع کی مفصلہ ذیل دعا بھی کی (جلد اول صفحہ ۲۲۲)۔’’یسوع خدا سے یہ کہا کرتے تھے’’اے خدا میں نیند سے اٹھا ہوں اور جس سے میں نفرت رکھتا ہوں اس کو اپنے سے ہٹا نہیں سکتا اور نہ اس سے فائدہ اٹھانے کی قابلیت رکھتا ہوں جسے میں چاہتا ہوں یہ سارا معاملہ میرے سوا کسی دوسرے کے ہاتھ میں ہے میں نے اپنے کام کوپورا کرنے کا عہد کیاہے اور میرے جیسا کوئی دوسرا غریب نہیں اے خدا مجھ پر میرے دشمنوں کو خوشی منانے نہ دے اور نہ میرے دوست مجھ سے برائی کریں اور نہ میرے دین کے بارے میں کوئی مصیبت مجھ پر آئے اورمیں دنیا کی فکر میں مستغرق نہ ہو جاؤں اور نہ بے رحم آدمی مجھ پر غالب آئے اے ازلی ابدی خدا " ۔

’’یسوع (سلمہ اللہ )کے بارے میں یہ بیان ہوا ہے کہ خدا نے اس سے یہ کہہ کر کلام کیا ‘‘گو تم آسمان و زمین کے لوگوں کے برابر میری عبادت کرو اور خدا کی محبت تمہارے دل میں نہ ہو بلکہ اس کی طرف سے نفرت ہو تو اس سے کچھ فائدہ نہ ہو گا ‘‘(جلد دوم۔ صفحہ ۲۱۰)’’خدا تعالیٰ نے یسوع (سلمہ اللہ )کو کہا ’’فی الحقیقت جب میں اپنے بندے کے پوشیدہ خیالوں پر نگاہ ڈالتا ہوں اور ان میں اس دنیا کی نہ اس دنیا کی محبت پاتا ہوں تو میں اس کے دل کو اپنی محبت سے بھر دیتا ہوں اور میں اس کو اپنی حفاظت میں رکھتا ہوں ‘‘(جلد چہارم۔ صفحہ ۲۵۸) ’’کیمیاےسعادت‘‘ میں جو اشارہ اس مضمون کی طرف آیا ہے اس کا ذکر ہو چکا ہے۔

یسوع (سلمہ اللہ )نے دنیا کو ایک بد صورت کبڑی بڑھیا کی صورت میں دیکھا اس نے بڑھیا سے پوچھا کہ تو کتنے خاوند کر چکی ہے؟اس نے جواب دیا کہ وہ بے شمار ہیں پھر اس نے پوچھا کہ ان میں کوئی مر گیا یا کسی کو طلاق دیا گیا ؟بڑھیا نے جواب دیا کہ خواہ وہ مر گئے یا ان کو طلاق دیا لیکن میں نے ان سبھوں کو قتل کیا اس نے کہا مجھے تعجب ہے کہ یہ احمق یہ دیکھ کر بھی کہ تو نے دوسرے خاوند وں کے ساتھ کیا سلوک کیا پھر بھی تیری تمنا رکھتے ہیں ‘‘۔ یسوع (سلمہ اللہ )نےکہا اس دنیا کو پیار کرنے والا اس آدمی کی مانند ہے جو سمندر کا پانی پی رہا ہو۔ جتنا وہ پیتا ہے اتنا ہی زیادہ پیاسا ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ وہ بغیر پیاس بجھے ہلاک ہوتا ہے‘‘۔

مگر الغزالی نے مسیح کی زندگی سے کبھی وہ نتیجہ نہیں نکالا جو انجیل کو غور سے پڑھنے والا نکال سکتا تھا یعنی یہ کہ دنیا کا حقیقی تارک دوسروں کی خدمت کرنے ہی سے بن سکتا ہے نہ آدمیوں سے علیحدگی اخیتار کرنے سے محمدی تصوف سے ہمیشہ دو بد نتائج پیدا ہوئے جیسا کہ میجر ڈوری آس برن صاحب(Duri Osburn)نے بیان کیا اس نے ان دوقسم کے لوگوں میں ایک گہری خلیج پیدا کر دی ہے جو خدا کو جان سکتے ہیں اور جو تاریکی میں آوارہ پھرتے ہیں اور ریت رسوم کے چھلکوں پر گزرا ن کرتے ہیں۔ بڑی تاکید سے یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ دنیا کو کامل طور سے ترک کرنے کے ذریعہ آدمی کی ہستی کا حقیقی مقصد حاصل ہونا ممکن ہے اس لئے سب شریف اور راست ذاتوں نے ایسے لوگ جو اسلام کی زوال پذیر جماعت میں نئی جان ڈال سکتے تھے۔ اپنے معمولی کام کو چھوڑ دیا اور بیابانوں اور ویرانوں میں گھومنے لگے یا اپنی زندگیاں کہالت اور غیر مفیدبیکاری میں صرف کرنے لگے جس حالت کا نام انہوں نے روحانی اعتکاف یا ذکر رکھا لیکن یہ اس بدی کا ایک جز ہے ۔ہمہ اوست کا منطقی نتیجہ اخلاقی شریعت کا عدم ہے۔ اگر خدا سب میں سب کچھ ہو اور انسان کی ظاہر افردیت قوت متخیلہ کا دھوکا ہو تو کوئی ارادہ نہیں رہتا جو عمل کرے نہ نور قلب رہتا ہے کہ الزام دے اور تعریف کرے ہزاروں ناعاقبت (آخر،انجام،خاتمہ)اندیش اور مسرف (فضول خرچ)ارواح درویشوں کے خاندان میں شریک ہوئے تاکہ جو آزادی ان کے ذریعہ حاصل ہوئی ہے اس کا حظ اٹھائیں ان کی دینداری کی آڑ شہوانی خواہشات کو پورا کرنے کی ٹٹی (شکار کھیلنے کی اوٹ یاآڑ جسے شکاری لوگ ساتھ رکھتے ہیں)ہے اسلام کی رسمیات سے ان کی آزادگی اخلاقی اوامر ونواہی (ناجائز کام)سے آزادگی ہے ۔پس ایسی تحریک جس کا آغاز اس اعلیٰ اور افضل مقصد سے ہوا وہ بگڑتےبگڑتے بدی کا چشمہ بن گئی وہ ندی جو سر سبز دریا بن سکتی تھی وہ ایک وسیع دلدل بن گئی جس سے امراض و موت بھرے بخارات نکلتے ہیں‘‘۔

یسوع کی تعلیم کے بارے میں کتاب ’’احیا ‘‘میں یہ عبارت پائی جاتی ہے جہاں ممکن ہوا میں نے نئے عہد نامے کا حوالہ بھی دے دیا ہے۔ یہ مقامات کچھ تو متی کی انجیل سے لئے گئے ہیں خاص کر پہاڑی وعظ ہے ان کو پہلے نقل کیا ہے اور بعد ازاں اپوکرفل اقوال کو کیونکہ کسی منطقی ترتیب کو قائم رکھنا مشکل ہے۔

یسوع نے کہا ’’اگر کوئی شخص تیرے پاس آئے جب کہ اس نے روزہ رکھا ہے تو وہ اپنے سر تیل ملے اور اپنے ہونٹوں کو پونچے تاکہ آدمی یہ نہ کہیں کہ وہ روزہ دار ہے اگر وہ اپنے داہنے ہاتھ سے خیرات دے تا اس کا بائیاں ہاتھ نہ جانے اور اگر وہ دعا مانگے تو اپنے در وازے پر پردہ ڈالے کیونکہ سچ خدا اس کی تکلیف سے ایسا ہی واقف ہے جیسا کہ وہ ہماری روزانہ خوراک کا علم رکھتا ہے‘‘(جلد سوم۔ صفحہ ۲۰۳)۔

یسوع (سلمہ اللہ )نےکہا ’’پاک چیز کتّوں کو نہ دو اور اپنے موتیوں کو سؤروں کے آگے نہ ڈالوایسا نہ ہو کہ وہ ان کو پاؤں تلے روندیں اور پلٹ کر تم کو پھاڑیں‘‘(جلد اول صفحہ ۴۳۔متی ۶:۷)۔

یسوع (سلمہ اللہ )نے کہا’’جو کوئی عمل کرے اور سکھائے وہ آسمان کی بادشاہت میں بڑا کہلائے گا‘‘(جلد اول صفحہ ۶۔ متی ۱۹:۵)۔

یسوع نے کہا تم کب تک صراط مستقیم ان لوگوں کو بتاؤ گے جو گمراہ جاتے ہیں اور خود ان میں رہو گے جو پریشان خاطر ہیں‘‘(جلداول۔ صفحہ ۱۳:۲۳)۔

یسوع نے کہا ’’بدی کے معلم اس بڑے پتھر کی مانند ہیں جو چاہ کے منہ پر پڑا ہے اور اس کے پانی کو کاشت شدہ کھیتوں میں جانے نہیں دیتا ‘‘(جلد اول۔ صفحہ ۴۵۔ متی ۱۳:۲۳)۔

یسوع نے کہا ’’وہ آدمی اہل حکمت سے کیسے تعلق رکھ سکتا ہے جو اپنی زندگی کے شروع سے آخر تک اس دنیا کی چیزوں کی فکر میں رہتا ہے‘‘(جلد اول۔ صفحہ ۴۶۔ متی۳۳:۶)۔

پھر اس نے ذکر کیا کہ خدا نے یسوع سے یوں خطاب کیا ’’اے ابن مریم اپنے تئیں وعظ کر کیونکہ اگر تو اپنے تئیں وعظ کرے گا تو تُو آدمیوں کو وعظ کر سکے گا اور اگر اس سے نہ ڈرے ‘‘(جلد اول۔ صفحہ ۴۷)۔

یسوع نے کہا (سلمہ اللہ )مبارک ہیں وہ لوگ جو اپنے تئیں اس دنیا میں فروتن بناتے ہیں کیونکہ وہ عدالت کے روز تختوں کے مالک ہوں گے۔ مبارک ہیں وہ جو اس دنیا میں آدمیوں کے درمیان صلح کراتے ہیں کیونکہ وہ قیامت کے دن فردوس کے وارث ہوں گے۔ مبارک ہیں وہ جو اس دنیا میں غریب ہیں کیونکہ وہ قیامت کے روز خداتعالیٰ کو دیکھیں گے‘‘(جلد سوم ۲۳۷۔متی ۵: ۳تا ۹)۔

کسی نے یسوع سے کہا ’’اپنے سفروں میں مجھے اپنے ساتھ لے چل اس نے جواب دیا جو کچھ تیرے پاس ہے اسے دے ڈال اور میرے پیچھے ہولے ‘‘ (جلد چہارل صفحہ ۱۷۰ ؛لوقا ۵۷:۹ ؛متی ۲۱:۱۹)

یسوع (سلمہ اللہ )نے کہا ’’اگلوں سے کہا گیا تھا دانت کے بدلے دانت اور ناک کے بدلے ناک لیکن میں تمہیں کہتا ہوں بدی کے عوض بدی نہ کرو بلکہ جو کوئی تمہارے داہنے گال پر طمانچہ مارے تو بائیں گال کو بھی اس کی طرف پھیر دو اور جو کوئی تجھے اپنے ساتھ ایک میل لے جانا چاہے اس کے ساتھ دو میل چلا جا اور جو کوئی تیرا چوغہ لینا چاہے اسے اپنے اندر کا کپڑا بھی لینے دے ‘‘(جلد چہارم صفحہ ۵۲؛متی ۵: ۳۰تا ۴۱)۔یہ آیات بہت کچھ صحیح اقتباسات ہیں، اور پہاڑی وعظ کے کسی ترجمے سے لئے گئے ہوں گے ، اور کہیں کچھ غلط ملط بھی کیا ہے۔

شاگردوں نے یسوع کو کہا(سلمہ اللہ )دیکھ یہ مسجد کیسی خوبصورت ہے’’اس نے جواب دیا ‘‘ اے میری قوم میں تمہیں سچ کہتا ہوں خدا اس کے پتھر پر پتھر نہ چھوڑے گا بلکہ وہ اسے اس کے لوگوں کے گناہوں کے باعث برباد کر دے گا۔ فی الحقیقت خدا کو سونے روپے کی پرواہ نہیں اور نہ ان پتھروں کی جن پر تم تعجب کرتے ہو لیکن خدا سب سے زیادہ پاکیزہ دلوں کو پیار کرتا ہے ان کے ساتھ خدا زمین کو بنا سکتا اور اگر وہ نیک نہ ہوں تو وہ ضائع ہوں گے‘‘(احیا جلد سوم صفحہ ۲۸۸ متی ۲:۲۴)۔

یسوع نے کہا ’’دنیا کو اپنا آقا نہ بناؤ ورنہ وہ تم کو اپنا غلام بنا لے گی۔ اپنا خزانہ اس کے پاس جمع کرو جو ان کو نہ کھوئے کیونکہ جو کوئی زمین میں خزانہ جمع کرتا ہے وہ ڈرتا ہے کہ کوئی اسے برباد نہ کر دے لیکن جس نے خدا کے پاس خزانہ جمع کیا اس کو کوئی اندیشہ نہیں کہ اس کے خزانے کو کوئی نقصان پہنچا سکے گا‘‘(متی ۶: ۹ تا ۲۱)۔ اوریسوع نے یہ بھی کہا ’’اے رسولوں کے گروہ دیکھو میں نے دنیا کو زمین پر انڈیل دیا ہے اس لئے میرے پیچھے اس کو پھر نہ اٹھا لینا کیونکہ اس دنیا کی خرابی یہ ہے کہ آدمی اس میں خداکی نافرمانی کرتے ہیں اور دنیا کی ایک خرابی یہ بھی ہے کہ موجودہ دنیا کو چھوڑ ے بغیر عاقبت حاصل نہیں ہو سکتی اس لئے اس دنیا میں سے گزر جاؤ لیکن اس میں تعمیر نہ کرو۔ جان لو کہ سارے گناہ کی جڑ اس دنیا کی محبت ہے اور شاید ایک گھنٹہ کی تمنا جو اس کی پیروی کرتے ہیں عاقبت کو ہمیشہ کے لئے کھو دیں گے اس نے یہ بھی کہا میں نے دنیا کو تمہارے سامنے پھینک دیا ہے اور تم اس کی پشت پر بیٹھے ہے اس لئے موقعہ نہ دو کہ بادشاہ یا عورتیں اس کے بارے میں تم سے جھگڑا کریں بادشاہوں کے بارے میں میری صلاح یہ ہے کہ ان سے اس کے قبضے کے بارے میں کبھی جھگڑا نہ کرو کیونکہ وہ کبھی تم کو اسے واپس نہ دیں گے رہا عورتوں کا دعا اور روزہ کے ذریعہ ان سے اپنی حفاظت کرو ‘‘(جلد سوم صفحہ ۱۳۹) یسوع نے کہا اس دنیا کی محبت اور عاقبت کی محبت ایک ہی دل میں جمع نہیں ہو سکتی جیسے پانی اور آگ ایک ہی دل میں جمع نہیں ہو سکتے ‘‘(جلد سوم صفحہ ۱۴۰)۔

یسوع (سلمہ اللہ )نے کہا ’’اے بدی کے معلمو تم روزہ رکھتے دعا مانگتے اورخیرات دیتے ہو اس پر خود عمل نہیں کرتے اور تم وہ باتیں سکھاتے ہو جن کو تم نہیں سمجھتے جو کچھ تم کرتے ہو وہ کیسا برا ہے تم منہ سے تو توبہ کرتے ہو لیکن تمہارے اعمال ناکارہ ہیں تم اپنے چمڑوں کو بے فائدہ صاف کرتے ہو جب کہ تمہارے دل بدی سے بھرے ہیں میں تم سے کہتا ہوں کہ تم چھلنی کی مانند نہ بنو جس میں سے اچھا آٹا تو نکل جاتا ہے اور چھان رہ جاتا ہے اسی طرح تم اپنے منہ سے راستی کو نکال دیتے ہو لیکن دغا تمہارے دلوں میں رہ جاتا ہے ۔اے دنیا کے غلامو وہ آدمی عاقبت کو کیسے سمجھ سکتا ہے جس کی تمنا اس دنیا پر لگی ہوئی ہے ۔میں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ تمہارے اعمال کے باعث تمہارے دل گریہ و زاری کریں گے تم نے دنیا کو تو اپنے منہ پر رکھا ہے اور نیک اعمال کو پاؤں تلے روند ڈالا میں تمہیں سچ کہتا ہوں تم نے اپنی مستقبل زندگی کو خراب کر دیا کیونکہ آنے والے جہاں کی نعمتوں کی نسبت تم نے اس دنیا کی نعمتوں سے محبت رکھی۔ بچوں میں سے کون تم سے زیادہ نقصان اٹھاتا ہے کاش کہ تم اسے جانتے تم پر افسوس کب تک تم صراط مستقیم کی تلقین ان لوگوں سے کرو گے جو تاریکی میں ہیں اور تم خود شک میں مبتلا ہو گویا تم ابناے دنیا سے یہ طلب کرتے ہو کہ وہ اس کی عیش و عشرت کو ترک کریں تاکہ تم کو ان سے حظ اٹھانے کا کچھ موقعہ ملے تم پر افسوس اس تاریک گھر کو کیا فائدہ اگر چراغ جلا کر اس کی چھت پر رکھا جائے اور گھر کے کمرے اندھیرے رہیں اسی طرح تم کو کچھ فائدہ نہ ملے گا اگر علم کو نور تمہارے ہونٹوں پر ہو اور تمہارے دلوں میں تاریکی ہو اے دنیا کے غلامو تمہاری راستبازی یا تمہاری آزادگی کہاں ہے ؟ غالباً دنیا تم کو جڑ سے اکھاڑ ڈالے گی اور منہ کے بل گرا دے گی اور خاک میں گھسیٹے گی وہ تمہارے گناہوں کو تمہاری پیشانیوں پر اشکارا کرے گی پھر وہ تمہیں اپنے آگے دھکیلتی جائے گی حتیٰ کہ تم میں سے ہر ایک حالت عریانی میں عدالت کے فرشتے کے حوالے کیا جائے تب تم کو تمہارے بد اعمال کی سزا ملے گی ‘‘(جلد سوم صفحہ ۱۸۳ متی ۲۳: ۱ تا ۲۷)۔

’’کل کی خوراک کے بارے میں فکر نہ کرو شاید کل تمہاری موت کا دن ہوگا‘‘(جلد چہارم صفحہ ۳۳۰ متی ۶: ۳۴)۔

’’پرندے کو دیکھووہ نہ بوتا نہ کاٹتا نہ ذخیرہ جمع کرتا ہے اور خدا تعالیٰ اسے روزی پہنچاتا ہے‘‘(جلد چہارم صفحہ ۱۹۰ متی ۶: ۲۶)۔

یسوع (سلمہ اللہ )نے کہا ’’وہ دانا نہیں جو آزمائشوں میں بدن کی امراض میں اور جائداد کے ضائع ہونے میں مبتلا ہو کر خوش نہیں ہوتا کیونکہ ان کے ذریعہ اس کے گناہوں کا کفارہ ہو جاتا ہے‘‘(جلد چہارم صفحہ ۲۰۵ متی ۵: ۱۰)۔

یسوع کے بارے میں لکھا ہے کہ اس نے یہ کہا ’’اگر تم کسی نوجوان کو خدا سےدعا مانگنے کا بہت گرویدہ دیکھو تو جان لوکہ وہ ساری آزمائشوں سے بچ نکلا ہے ‘‘(جلد چہارم صفحہ ۲۲۱ متی ۲۶ : ۴۱) شاید گتسمنی میں مسیح کے الفاظ کی طرف اشارہ ہے۔

یسوع (سلمہ اللہ ) نے کہا ’’خطاکاروں سے نفرت رکھنے کے ذریعہ خدا کی خوشنودی کے طالب ہو۔ انہوں نے اس کو کہا اے روح اللہ ہم کس کے ساتھ صحبت رکھیں اس نے انہیں جواب دیا ان کے ساتھ صحبت رکھو جو تمہیں خدا کی یاد دلائیں اور جو لوگ تمہارے چال چلن پر ملامت کریں اور جن لوگوں کا نمونہ آئندہ جہاں کے لئے تمہیں سرگرم بنائے ‘‘(جلد دوم صفحہ ۱۱۰)۔

یسوع (سلمہ اللہ )کے بارے میں یہ بیان ہوا ہے کہ’’ اس نے بنی اسرائیل کو کہا جو تم بوتے ہو وہ کہاں اگتا ہے ؟انہوں نے جواب دیا اچھی زمین میں اور اس نے کہا میں سچ مچ کہتا ہوں حکمت صرف اس دل کے سوا اور کہیں نہیں اگتی جو اچھی زمین ہے ‘‘(جلد چہارم صفحہ ۲۵۶ ؛مقابلہ کرو متی ۱۳: ۱ تا ۹)۔

یسوع نے (سلمہ اللہ )کہا ’’فی الحقیقت فصل پہاڑوں پر نہیں اگتی بلکہ میدانوں میں اسی طرح حکمت ان لوگوں کے دل میں اثر کرتی ہے کو فروتن ہیں اور نہ مغرورں کے دل میں ‘‘(جلد سوم صفحہ ۲۴۰ متی ۱۳: ۲۳ )۔

یسوع (سلمہ اللہ )نے کہا’’ نفیس کپڑوں سے مغرور نگاہیں پیدا ہوتی ہیں ‘‘(جلد سوم صفحہ ۲۴۷)۔

یسوع (سلمہ اللہ )نے کہا ’’تمہیں کیا تکلیف ہے کہ تم راہبوں کے کپڑوں میں آتے ہو اور تمہارے دل پھاڑنے والے بھیڑیوں کے دل ہیں اگر تم چاہو راہبوں کے کپڑے پہنو لیکن خوف خدا سے تمہارے دل فروتن بنیں ‘‘(جلد سوم صفحہ ۲۴۷ متی ۷: ۵)۔

یسوع (سلمہ اللہ)نے کہا’’ اے شاگردوں کی گروہ خدا تعالیٰ کو پکارو تاکہ یہ دہشت یعنی موت کی دہشت گھٹ جائے کیونکہ میں موت سے ایسے طریقے سے ڈرتا ہوں کہ میں اس سے خوف زدہ رہتا ہوں‘‘(جلد چہارم صفحہ ۳۲۴ متی ۲۶ : ۳۸)۔

اب ہم یسوع کے دیگر اقوال جن کا ذکر الغزالی نے کیا ہے نقل کریں گے لیکن ان کی ترتیب کچھ غلط ملط ہے وہ نہ تو اقتباسات ہیں اور نہ غلط اقتباسات لیکن فہرست کی تکمیل کی وجہ سے وہ دلچسپی رکھتے ہیں اور اس لئے بھی کہ ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ الغزالی اور دیگر مسلمانوں کا یسوع نبی کی تعلیم کے بارے میں کیاخیال تھا۔

یسوع نے (سلمہ اللہ )کہا ’’کتنے صحیح الحبثہ شکیل چہرے اور فصیح زبانیں کل ناز جہنم میں چلائیں گی ‘‘(جلد چہارم صفحہ ۳۸۳)۔

یسوع نے کہا ’’تم میں سے کون سمندر کی لہروں پر ٹھہرسکتا ہے ؟ دنیا ایسی ہی ہے اس لئے اس کو اپنا مسکن نہ بناؤ‘‘(جلد سوم صفحہ ۱۴۱)۔

انہوں یسوع سے کہا ’’خدا کی محبت کا راز ہمیں سکھا ‘‘ اس نے جواب دیا ’’دنیا سے عداوت رکھو تو خدا تمہیں پیار کرے گا ‘‘(جلد سوم صفحہ ۱۴۱۔یقعوب ۴:۴)۔

یسوع نے کہا ’’اے میرے شاگردو دنیا کی کم سے کم چیزوں پر قناعت کرو جب تک کہ تمہارا مذہب با اطمینان ہے جیسے اہل دنیا دین کی کم از کم باتوں پر قناعت کرتے ہیں اور ان کی جائداد بااطمینان (محفوظ )ہے ‘‘(جلد سوم صفحہ ۱۴۲)۔

یسوع نے کہا ’’اے شخص تو جو محض خالص سونے کے لئے دنیا کی تلاش کرتا ہے دنیا کا ترک کرنا اس سے قیمتی خزانہ ہے ‘‘(جلد سوم صفحہ ۱۴۲)۔

انہوں نے یسوع (سلمہ اللہ )سے پوچھا نیک اعمال میں کون سا عمل سب سے اعلیٰ ہے اس نے جواب دیا ’’خدا جو کچھ خوشی سے عطا کرے اسے قبول کر لینا اور اسے پیار کرنا‘‘(جلد چہارم صفحہ ۲۵۸)۔

یسوع (سلمہ اللہ )ابن مریم نے کہا اس دنیا کے چاہنے والوں پر افسوس وہ کتنی جلدی مر جائیں گے اور اس دنیا اور ما فیا کو چھوڑ دیں گے۔ دنیا اس کو فریب دیتی ہے اور وہ اس پر بھروسہ رکھتا ہے اور تکیہ کرتا ہے وغیرہ ‘‘(جلد سوم صفحہ ۱۴۱ لوقا۱۲تا۲۱)۔ یسوع (سلمہ)نے کہا’’تم اپنے بدنوں کو کشتہ کرو تاکہ تمہاری روحیں خداکا دیدار حاصل کریں‘‘(جلدسوم ۔صفحہ ۵۶ رومیوں ۸۔ ۱۳)۔

یسوع (سلمہ اللہ) نے کہا ’’جو شخص نیک اعمال کی تعلیم دیتا اور اس پر عمل نہیں کرتا وہ اس عورت کی مانند ہے جو پوشیدگی میں زنا کی مرتکب ہوئی ہو اور اس کے گناہ کا نتیجہ اس کی حالت سے دیکھنے والوں پر ظاہر ہو جاتا ہے ‘‘(جلد اول صفحہ ۴۸)۔

یسوع(سلمہ اللہ) نے کہا "جو شخص کسی بھیک مانگنے والے کو گھر سے نکال دیتا ہے فرشتے اس کے گھر میں سات دن تک نہ جائیں گے‘‘(جلد دوم صفحہ ۱۶۲)۔

آج تک بہت مسلمان اس قول کو اکثر نقل کیا کرتے ہیں۔وہ سب مانتے ہیں کہ یسوع غریب و مختاج کا دوست تھا۔

یسوع (سلمہ اللہ)نے کہا’’وہ شخص مبارک ہے جس کو خدا نے اپنی کتاب سکھائی وہ مغرور ظالم ہو کر نہ مرے گا ‘‘(جلد سوم صفحہ۲۳۵)۔

یسوع (سلمہ اللہ)نے کہا ’’وہ آنکھ مبارک ہے جو سوتی ہے اور خطا نہیں دیکھتی اور جو خطا نہیں اس کے لئے جاگتی ہے ‘‘(جلد چہارم صفحہ۲۶۰)۔

شاگردوں نے یسوع (سلمہ اللہ )کو کہا ’’اعمال حسنہ میں کونسا سب سے اعلیٰ ہے؟‘‘اس نے جواب دیا’’جو کام خدا کے لئے کیا جائے اور خدا کے سوا کسی دوسرے کی تعریف نہ کی جائے ‘‘(جلد چہارم صفحہ۲۷۳)۔

یسوع ابن مریم کے شاگردوں نےکہا ’’اے روح اللہ تیری مثل دنیا پر کوئی اور ہے ‘‘؟ اس نے جواب دیا۔ ’’ہا ں جس کسی کی کمر خدا کی یاد سے کسی ہے اور و ہ اس کی وجہ سے خاموش ہے اور صرف خدا کی عنایت ہی کا خواہاں ہے وہ میری مانند ہے ‘‘(جلد چہارم صفحہ۳۰۵)۔

یسوع نے کہا’’ بد نظری سے خبردار ہو کیونکہ جب یہ دل میں ہوئی تو اس سے شہوت اور بد خواہش پیدا ہوتی ہے‘‘۔ (جلد چہارم صفحہ۷۴ متی۲۸:۵)۔

یسوع (سلمہ اللہ)نےکہا ’’جوکوئی کثرت سے جھوٹ بولتا ہے اس کا حسن اس سے جاتا رہتا ہے اور جو بہت فکر کرتا ہے وہ بیمار ہوتا ہے اور جو بد خصلت ہے وہ اپنے تئیں سزا دیتا ہے (جلدسوم صفحہ ۹۸)۔

یسوع (سلمہ اللہ )نے کہا’’خدا کے نزدیک سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ اس کا خادم ایسی شے کی نسبت جسے وہ ناراست جانتا ہے یہ کہے خدا جانتا ہے یا ایسی شے کے بارے میں جو اس نے خواب میں دیکھی ہے جھوٹ کہے ‘‘(جلد سوم صفحہ۹۸)۔

اپنے شاگردوں سے یسوع (سلمہ اللہ )نے کہا اگر تم اپنے کسی بھائی کو سویا ہوا دیکھو اور ہوا کے جھونکے سے اس کا کپڑا اتر جائے تو ایسی حالت میں تم کیا کرو گے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم اسے ڈھانپ دیں گے۔ یسوع نے کہا ’’نہیں بلکہ تم اس کا راز فاش کرو گے ‘‘۔ انہوں نے کہا ’’خدا نہ کرے‘‘۔کون ایسی بات کرے گا اس نے جواب دیا ’’جب تم سے کوئی اپنے بھائی کے خلاف کچھ سنتا ہے تو وہ اس میں مبالغہ کرتا ہے اور اس خبر کو دوسری میں مشہور کرتا ہے‘‘(جلد دوم صفحہ۱۴۲)۔

یہ روایت ہے کہ یسوع (سلمہ اللہ )نے کہا’’ اے شاگردوں کی گروہ تم خطا سے مبّرا (پاک)ہولیکن ہم رسولوں کی گروہ کفر سے مبرا ہیں ‘‘(جلد چہارم ۱۲۴)۔

یسوع (سلمہ اللہ)نے کہا’’ مشکل سے دولتمند فردوس میں داخل ہوگا ‘‘(جلد چہارم صفحہ۱۴۰ متی۱۹: ۲۳)۔

یسوع (سلمہ اللہ)نے کہا ’’سچ مچ میں ایک مقرر گھر کو پسند نہیں کرتا اور اس دنیا کی خوشیوں سے میں ناخوش ہوں ‘‘(جلد چہارم صفحہ۱۴۰)۔

یسوع (سلمہ اللہ)نے کہا ’’اس دنیا کے لوگوں کی جائداد پر نگاہ نہ کر کیونکہ تمہارے ایمان کی روشنی میں وہ ہیچ (کچھ )ہے‘‘(جلد چہارم صفحہ۱۴۴)۔

یسوع سے کہا گیا ’’اگر تو ہمیں اجازت دے تو ہم گھر بنائیں گے اور اس میں خدا کی عبادت کریں گے ‘‘اس نے جواب دیا ’’ایسی بنیاد پر ہم کیسے تعمیر کر سکتے ہیں‘‘؟ اُس نے کہا "دنیا کی محبت کے ساتھ تمہاری عبادت کیسے قائم رہ سکتی ہے ‘‘(جلدچہارمصفحہ۱۵۸)۔

یسوع کے بارے میں یہ روایت ہے کہ اس نے کہا ’’ چار چیزیں ہم کو بجزدشواری حاصل نہیں ہوتیں۔ خاموشی جو عبادت کا اول اصول ہے فروتنی ،خدا کی کثرت سے یاد اور ساری باتوں میں افلاس ‘‘(جلد چہارم صفحہ۱۵۹)۔

یسوع(سلمہ اللہ)نے کہا۔ ’’میں سچ تمہیں کہتا ہوں جو کوئی آسمان کی تلاش کرے وہ جَو کی روٹی کھائے اور کتوں کے ساتھ روڑی کے ڈھیر پر سوئے میرے لئے یہ کافی ہے ‘‘(جلد چہارم صفحہ۱۶۴)۔

یسوع یہ کہا کرتا تھا ’’اے بنی اسرائیل ندی کا پانی تمہارے لئے کافی ہو اور کھیت کی سبزی اور جو کی روٹی اور سفید روٹی سے خبردار کیونکہ وہ تمہیں عبادت سے باز رکھے گی ‘‘(جلد چہارم صفحہ۱۶۴)۔

یسوع (سلمہ اللہ )نے کہا’’میری خوراک بھوک ہےمیرے سارے خیالات خدا کا خوف ہیں۔ میرا لباس صوف(اون) ہے۔

موسم سرما میں میرے گرم ہونے کی جگہ سورج کی کرنیں ہیں میری شمع چاند ، میرا مرکب (سواری)میری ٹانگیں، میری خوراک زمین کا پھل ہے میں خالی بستر جاتا ہوں اور خالی بستر سے اٹھتا ہوں پھر بھی مجھ سے کوئی زیادہ دولتمند نہیں ‘‘(جلد چہارم صفحہ۱۴۶)۔

’’یسوع (سلمہ اللہ)نے کہا جو کوئی دنیا کا متلاشی ہے وہ اس آدمی کی مانند ہے جو سمندر کا کھارا پانی پیتا ہے جتنا زیادہ وہ پیتا ہے اتنا ہی زیادہ پیاسا ہوتا ہے یہ قول دوسری دفعہ آیا ہے لیکن الغزالی کو اپنی اس کتاب میں اپنے اقوال کا تکرار بھی پسند تھا۔ اناجیل میں بیان ہوا ہے کہ جو کوئی اس سے معافی مانگتا ،جو اس کی تعریف کرتا ہے اس نے شیطان کو نکال دیا ہے ‘‘(جلد سوم صفحہ۱۲۷)۔

مفصلہ (تفصیل کیا گیا)ذیل اقتباسات یا حوالاجات اناجیل سے اس کے چھوٹے رسالوں میں آئے ہیں۔’’کیمیا ئےسعادت ‘‘میں انجیل کا یہ حوالہ ہے ’’جو کوئی بوتا ہے کاٹتا ہے ۔جو کوئی روانہ ہوتا ہے پہنچتا ہے جو کوئی ڈھونڈتا ہے پاتا ہے ‘‘ (متی۷:۷)۔ہم اس خط سے الفاظ نقل کر چکےہیں ’’اے بچے ‘‘۔’’ سچ مچ میں نے اناجیل میں دیکھا ہے ‘‘ اسی خط میں اس نے دولتمند اور لعزر کی تمثیل کا حوالہ دیا ہے۔ ’’جب اہل دوزح اہل جنت سے کہیں گے ‘‘ اس میں سے تھوڑا پانی ہمیں دے جو خدا نے تمہیں ہماری زبانوں کو ٹھنڈا کرنے کے لئے عطا کیا ہے ‘‘۔اس نے یسوع سے یہ قول بھی منسوب کیا ’’میں تو مردوں کو زندہ کرنے کے ناقابل نہ تھا لیکن میں احمقوں کی احمقی کا علاج کرنے کے ناقابل تھا ‘‘۔اس نے سنہری قانون کو کئی بار نقل کیا اور یہ نہیں بتایا کہ کس چشمے سے اسے لیا یعنی یسوع کی انجیل کو چشمہ تسلیم نہیں کیا۔

یہ سب اور جو کچھ اس نے ’’کیمیائے سعادت ‘‘میں خدا کی محبت کے بارے میں کہا اس سے میرے دل میں کچھ شک باقی نہیں رہتا کہ اس نے نئے عہد نامے کو پڑھا ۔یوحنا کے خطوط اور یوحنا کی انجیل کا یہ گویا مسلمانی ترجمہ ہے ۔اس بڑے صوفی نے خدا کی محبت کے سات نشان بتائے ہیں۔اول نشان یہ ہے کہ موت کا خوف نہ ہو ۔دوسرا یہ ہے کہ خدا کی محبت کو باقی ساری دنیا وی چیزوں کی محبت پر ترجیح دے ۔تیسرا نشان یہ ہے کہ خدا پر دھیان کرنا کبھی موقوف نہیں کرتا۔ہر شخص اسی قدر کسی شے کو خیال کرتا اور اسے یاد کرتا ہے جس قدر کہ وہ اسے پیار کرتا ہے۔ چوتھا نشان یہ ہے قرآن کی عزت اور محبت۔ پانچواں نشان پوشیدہ دعا ہے۔ چھٹا خدا کی عبادت میں خوشی محسوس کرنا اور ساتواں نشان خدا کی محبت کا یہ ہے کہ آدمی خدا کے خالص دوستوں اور فرمانبردار خادموں کو پیار کرے اور ان سب کو اپنا دوست سمجھے اور خدا کے سارے دشمنوں کو اپنا دشمن سمجھے اور ان سے نفرت کرے اور خدا اپنے ابدی کلام میں یہ فرماتا ہے۔ اس کے رفیق کافروں کے لئے خوفناک ہیں اور ایک دوسرے کے لئے حلیم۔ ایک شیخ سے کسی نے پوچھا خدا تعالیٰ اور قدوس کے دوست کون ہیں اس نے جواب دیا خدا کے دوست وہ ہیں جو خدا کے دوستوں پر اس سے زیادہ رحیم ہیں کہ باپ یا ماں اپنے بچوں پر ہوں ‘‘(زبور ۱۰۳) ۔

الغزالی بحیثیت عالم شرع کے سارے مسائل میں ہمیشہ قرآن کی مطابقت پر مجبور ہے لیکن بحیثیت صوفی کے جب وہ قیاس کے گھوڑے دوڑا کر پردے کو چیر کر نکل جاتا ہے وہ بالکل متفرق ہے ۔ان صاحب نے خدا کی ہستی پر جو کتاب لکھی اس کے یہ الفاظ بار بار آتے ہیں ’’اے خداوند میں تیرے گہراؤں کی تہ تک پہنچنے کی جرأت نہیں کرتا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ میری عقل کی رسائی وہاں تک نہیں لیکن ایک حد تک میں تیری صداقت کو سمجھنا چاہتا ہوں جس کو میرا دل مانتا اور پیار کرتا ہے۔ میں ایمان لانے کی خاطر سمجھنا نہیں چاہتا لیکن میں ایمان لاتا ہوں تاکہ میں سمجھوں ‘‘۔

جب کبھی الغزالی ہم سے خدا کے قریب ہونے کا ذکر کرتا ہے اور روح کی تمنا کا کہ انسانی شراکت اپنے خالق سے رکھے تو وہ مسیحی تصورتجسم کے بہت قریب آجاتا ہے لیکن وہاں تک پہنچتا نہیں مثلاً’’کیمیا ئے سعادت ‘‘میں اس نے خدا کی محبت کا چوتھا سبب یہ بیان کیا کہ انسان اور اس کے خالق کے مابین ایک مشابہت اور نسبت پائی جاتی ہے اور اس کے لئے محمد کے قول کو نقل کیا ’’فی الحقیقت خدا نے انسان کو اپنی مثل پیدا کیا‘‘۔

لیکن فوراً اس کے بعد اس نے یہ کہا

’’اس مضمون کا زیادہ ذکر کرنا خطرناک ہے کیونکہ عوام الناس کی سمجھ کی رسائی سے پرے ہے بلکہ اس کے بیان کرنے میں اصحاب عقل نے بھی بہت لغزشیں کھائیں اور تجسم اور خدا کے ساتھ اتحاد کو ماننے لگے‘‘۔

تو بھی جو مماثلت انسان اور خدا کے مابین پائی جاتی ہے ان علما کے اعتراض کو رد کرتی ہے جن کا اوپر ذکر ہوا جن کی رائے یہ ہے کہ خدا ایسے وجود کو پیار نہیں کر سکتا جو اس کی اپنی نوع سے نہیں خواہ ان کے درمیان کتنا ہی بُعد(فاصلہ)ہو آدمی خدا کو پیار کر سکتا ہے اس مماثلت کی وجہ سے جو اس قول میں مذکور ہے ’’خدا نے انسان کو اپنی مثل پیدا کیا‘‘۔

انجیل کے اس بیان کو بے شک الغزالی نے قبول کر لیا ’’خدا کو کسی نے کبھی نہیں دیکھا ‘‘لیکن اس بیان کو حذف (الگ)کیا’’اکلوتا بیٹا جو باپ کی گود میں ہے اسی نے ظاہر کر دیا ‘‘خدا کے دیدار کا ذکر کرتے وقت اس نے یہ کہا ’’سارے مسلمان اس بات کے ماننے کا دعویٰ کرتے ہیں کہ خدا کا دیدار انسانی خوشی کا معراج ہے کیونکہ شریعت میں ایسا بیان ہوا ہے لیکن اکثروں کے نزدیک یہ صرف زبانی دعویٰ ہے جس سے دل میں ذرا جوش پیدا ہوتا اور یہ امر طبعی ہے کیونکہ آدمی ایسی شے کی آرزو کیسے کر سکتا ہے جس کا اسے علم ہی نہیں ؟ ہم مختصراً یہ ظاہر کرنے کی کوشش کریں گے کہ خدا کا دیدار سب سے اعلیٰ خوشی جس کو آدمی حاصل کر سکتا ہے کیوں ہے؟

اول تو آدمی کے ہر وقت کا ایک خاص عمل ہوتا ہے جس کو پورا کرنے سے اسے خوشی ہوتی ہے اوریہ سب قوائے (قوت کی جمع) پر صادق آتاہے۔ ادنیٰ جسمانی خواہش سے لے کر اعلیٰ ادراک تک ۔لیکن ادنیٰ عقلی کوشش سے بھی جسمانی خواہشات کی نسبت زیادہ خوشی حاصل ہوتی ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص شطرنج کی بازی میں مشغول ہو تو وہ بار بار کے بلانے پر بھی کھانا کھانے نہ آئے گا۔ اور اسی طرح ہمارے علم کا موضوع جیسا اعلیٰ ہو گا ویسے ہی ہماری خوشی اعلیٰ ہو گی۔ مثلاً وزیر کے رازوں کے جاننے کی نسبت بادشاہ کے رازوں کے جاننے میں زیادہ خوشی ہو گی۔ چونکہ خدا ہمارے علم کا اعلیٰ ممکن موضوع ہے اس لئے اس کے علم سے دوسروں کی نسبت زیادہ خوشی حاصل ہو گی ۔جو خدا کو علم رکھتا ہے خواہ وہ اسی دنیا میں ہو وہ گویا فردوس میں سکونت رکھتا ہے جس کی وسعت آسمان اور زمین کی وسعت کے برابر ہے وہ ایک فردوس ہے جس کا اثمار توڑنے سے کسی کا کینہ تمہیں باز نہیں رکھ سکتا اور نہ اس کی وسعت ان کی کثرت سے تنگ ہو سکتی ہے جو اس کو حاصل کرتے ہیں(۱۔یوحنا ۴: ۷ ۔۲۱)۔

لیکن علم کی خوشی دیدار کی خوشی سے کمتر ہے۔ جیسے ہماری خوشی سے اپنے عزیزوں کا خیال کرنے میں بہ نسبت ان کے دیکھنے کی خوشی سے کمتر ہے۔ مٹی اورپانی کے بدنوں میں ہمارا مقید ہونا اور عالم محسوسات کی اشیا میں مبتلا ہونا ایسا حجاب ہے جو ہم سے خدا کے دیدار کو چھپا لیتا ہے اگرچہ اس کا کچھ علم حاصل کرنے میں وہ سدراہ نہیں۔ اسی وجہ سے خدا نے کوہ سینا پر موسیٰ سے کہا تو مجھے نہ دیکھے گا ‘‘۔

اس کتاب میں وہ بیان دہرایا گیا کہ ’’صرف پاک دل ‘‘ہی خدا کو دیکھ سکتے ہیں اور ممکن معلوم نہیں ہوتا کہ جو تعلیم الغزالی نے یہاں دی وہ انجیل کے علم پر مبنی نہ ہو اس نے بیان کیا ’’جس کے دل میں خدا کی محبت دوسری شے پر غالب آگئی وہ اس دیدار سے زیادہ خوشی حاصل کرے گا بہ نسبت اس کے جس کے دل میں اس نے ایسا غلبہ حاصل نہیں کیا جیسے دو آدمی ہوں جن کی قوت نظر یکساں ہو اور وہ ایک حسین چہرے کو دیکھ رہے ہوں۔ جو شخص اس حسین کو پیار کرتا ہے وہ اس کے دیکھنے سے زیادہ خوشی حاصل کرے گا بہ نسبت اس کے جو اسے پیار نہیں کرتا‘‘۔ کامل خوشی کے لئے محض علم کافی نہیں جب تک کہ اس کے ساتھ محبت آدمی کے دل پر تصرف (دخل)حاصل نہیں کر سکتی جب تک کہ وہ دنیا کی محبت سے پاک نہ ہو اور یہ پاکیزگی پرہیزگاری اور ریاضت سے حاصل ہوسکتی ہے ۔یہ تعلیم مسیح کے الفاظ سے کیسے مشابہ ہے ’’مبارک ہیں وہ جو پاک دل ہیں کیونکہ وہ خدا کو دیکھیں گے‘‘الغزالی نے اپنے سارے دینی تجربات میں خدا کے دیدار ہی کی تلاش کی اور اسے اس دنیا اور اگلی دنیا میں سب سے اعلیٰ نعمت قرار دیا ۔اگرچہ اس نے اپنی ساری کوشش سے روح اور خدا کی حقیقت کو بیان کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے سامنے خالی دیوار ہی رہی۔ وہ خدا کے دیدار کا آرزو مند تو بہت ہے۔ لیکن وہ اسلامی تصور سے اپنے تئیں آزاد نہ کر سکا کہ خدا معلوم نہیں ہو سکتا اور خلقت میں کوئی شے خالق سے مشابہ نہیں۔ آج تک صحت کے ساتھ یہ بتانا مشکل ہے کہ خدا کی ذات کے بارے میں الغزالی کی کیا رائے تھی اس کی تصنیفات میں جرمنے کے عالم بارجر (Borger)اور سارجر (Sorjer) کی طرح صوفی ہمہ اوست (عقیدہ ہر وجود رکھنے والی چیز خدا کی ذات میں شامل ہے)تعلیم اور تشخیص کا عشری مسئلہ ایک دوسرے کے مطابق تھے ۔اسی مطابقت کی وجہ سے یہ بتانا مشکل ہے کہ آیا وہ ہمہ اوست کا قائل تھا یا لوٹز(Lotze) کی طرح مشخص (تشخیص کیا گیا) ہمہ اوست کا۔ الغزالی کی تعلیم یہ تھی کہ روح کو ادراک حاصل ہے لیکن ادراک بہ حیثیت صفت مادہ یا ذات ہی میں موجود ہو سکتی ہے جو جسم کی ساری صفات سے مطلقاً خالی ہو۔ اس کے رسالے ’’ال ظنوں ‘‘میں اس نے یہ تشریح کی کہ’’ نبی نے روح کی ذات منکشف کرنے سے کیوں انکار کیا ۔وہ بیان کرتا ہے کہ آدمی دو قسم کے ہوتے ہیں۔ معمولی انسان اور اصحاب فکر۔ پہلی قسم لوگ مادیت کو ہستی شرط گردانتے ہیں اور غیر مادی ہستی کا تصور کر ہی نہیں سکتے ۔دوسری قسم کے لوگ اپنے منطق کے زور پر روح کا ایسا تصور کرنے لگتے ہیں جو خدا اور فرد روح میں سارے امتیاز کو دور کر دیتا ہے اس لئےالغزالی نے اپنی تحقیقات کے ہمہ اوستی سیلاب کو معلوم کر لیا اور اس لئے روح کی ذات کی غایت کے بارے میں خاموشی حاصل کی۔

ہم یہ دیکھ چکے ہیں کہ الغزالی نے یسوع کی زندگی اور سیرت کے بارے میں کیا بیان کیا اور خدا کا جو رشتہ ہمارے ساتھ ہے ان کی محبت کے ذریعہ جو اپنے سارے دلوں سے خدا کی تلاش کرتے ہیں کیا صرف یہی مسلمان ہیں یا اس سے وسیع بھی خدا کی محبت ہے؟ کیا ساری روحیں اس کی حفاظت میں ہیں ؟

جو لوگ احاطہ اسلام سے باہر تھے ان کے بارے میں الغزالی کی کیا رائے تھی اس کے متعلق دو عجیب عبارتیں آئی ہیں اور جو ایک دوسرے کی نقیض (برعکس)ہیں۔ غالباً وہ اس کی زندگی کے دو مختلف موقعوں پر لکھی گئیں پہلی عبارت جو اس کے زمانہ اور اس کے اسلامی درجہ کے لحاظ سے قابل بیان ہے اس کی کتاب ’’فیصل التفریقہ الاسلام و الزندیق‘‘ میں آئی ہے اس کا ترجمہ یہ ہے ’’ میں یہاں بیان کرتا ہوں کہ ہمارے زمانے کے یونانی مسیحی اور ترک خدا کی رحمت میں شامل ہوں گے ۔یعنی جو لوگ سلطنت کی سرحدوں پر رہتے ہیں جن کو دعوت اسلام نہیں ملی۔ کیونکہ وہ تین قسم کے ہیں ۔ایک قسم کے لوگوں نے تو محمد ﷺ کا نام کبھی نہیں سنا اور وہ معذور ہیں دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جنہوں نے اس کا نام اور لقب اور جو معجزے اس نے کئے ان کا حال سنا یہ بطور جواریان کے مسلمانوں کے درمیان رہتے ہیں یہ حقیقی کافر اور منکر ہیں اور تیسری قسم کے لوگ ان دو کے مابین ہیں انہوں کے محمدﷺ کا نام سنا لیکن اس کے لقب اور سیرت کا ذکر نہیں سنا ۔بلکہ انہوں نے بچپن سے یہ سنا کہ وہ جھوٹا اور فریبی ہے جو محمد کہلاتا ہے اور جس نے نبوت کا دعویٰ کیا ۔جیسے ہمارے بچوں نے خراسان کے جھوٹے نبی اَل مکافہ کا نام سنا جس نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا اور میری رائے میں یہ تیسری قسم کے لوگ آئندہ کی امید کے لحاظ سے پہلی قسم سے علاقہ رکھتے ہیں ‘‘۔ یہ بیان اس لئے بھی قابل لحاظ ہے کیونکہ اسی باب میں اس نے کہا کہ خدا نے آدم کو فرمایا (بمطابق حدیث )کہ ’’اس کی اولاد میں سے ہر ہزار میں سے ۹۹۹ دوذخ کو جاتے ہیں اور صرف ایک بہشت کو ‘‘۔

مگر کتاب ’’احیاء العلوم ‘‘کے آخری صفحہ پر الغزالی نے یہ رائے ظاہر کی کہ

روز عدالت کو ہر ایک مسلمان خواہ اس کی سیرت کیسی ہی ہو آگ میں داخل ہو گا۔

پھر اس نے ایک حدیث نقل کی جس میں بیان ہے کہ ہر مسلمان کے لئے جو دوذخ کا مستوجب ہو گا خدا یہودی یا مسیحی کو فدیہ میں دے گا اور اس نے اس کفارہ کے مسئلہ کو خدا کی رحمت کی تشفی کے لئے ان کی رعایت میں منظور کیا جو محمد کو مانتے ہیں اور خدا کے اس حکم کو کہ وہ جہنم کو بے ایمانوں کے بھر دے گا (سورۃ ۵۰تا ۲۹ )۔ اس کتاب کے آخری صفحہ میں (افسوس کی بات ہے ) تعصب کی مسلمانی روح کا اظہار ہے جو آج تک پایا جاتا ہے ۔اس کے دوسرے رسالہ میں اس سے زیادہ وسیع اور فراخ رائے پائی نہیں جاتی۔ الغزالی کا جو سلوک مسیحیوں سے تھا اور انجیل سے جو اقتباسات اس نے کئے اس نے اس کے فارسی خیال پر اثر کیا اور یسوع ناصری کو مابعد تصوف میں ایک ممتاز جگہ دی خاص کر صوفی شاعر جلال الدین رومی کی مثنوی میں اس نےمسیح کی زندگی سے بڑا سبق نکالا جس کی طرف الغزالی نےاپنے اقتباسات میں صرف اشارہ کیا تھا کہ یسوع زندگی کا بخشنے والا ہے !

’’اپنے تئیں مردہ شمار کرو تاکہ تو آزاد آزادہو کر دنیا کی قید سے آسمان کو اڑ جائے ! بہار آئے لیکن سنگ خارا پر کوئی سبزی نہ اُگے گی یہ خزاں میں بھی خالی ہے اور بہار میں بھی اور سنگ خارا آدمی کا دل ہے جب تک خدا کا فضل دخل نہ دے اور اس کو کچل کر مدت سے بنجر پڑے پر سبزی نہ اُگائے۔

جب یسوع کا تازہ دم دل کو چھوئے گا تو یہ زندہ ہوگا اس میں سانس آئے گا اور پھر کلیاں نکلیں گی ‘‘۔

مشہد کا شہر طوس کے کھنڈرات کے متصل تھا جہاں الغزالی پیدا ہوا اور جہاں اس نے وفات پائی وہ فارسیوں کا مکہ کہلاتا ہے ہزارہا حاجیوں کا ہجوم اس کی گلیوں میں ہر سال نظر آتا ہے۔ امریکن پریسٹیرین کلیسیا نے یہاں کام شروع کیا ہوا ہے اور بائبل سوسائٹیوں کی رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ بائبل کی ہزاروں کاپیاں فروخت ہوتی ہیں۔ ’’ہم نے خدا کے کلام سے شہر مشہد میں سیلاب پیدا کر دیا ہے‘‘ (بقول مسٹر Esselsyn) بارہا مجھے لوگوں نے آگاہ کیا کہ بازار میں کوئی تجھے قتل کر دے گا اگر تم بائبل بیچنا اور وعظ کرنا بند نہ کروگے۔ لیکن یہ جملہ ’’دیکھو میں ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں ‘‘میرے کانوں میں گونجتا رہتا ہے اور ہم اپنا کام جاری رکھتے ہیں ۔جو مقدس کتابیں مشہد اور اس کے قرب و جوار میں فروخت ہوتی ہیں وہ بیج بویا جاتا ہے اور اگر ہم سست نہ ہو جائیں تو اپنے وقت پر فصل کاٹیں گے ‘‘۔

آج کل کالی آبرو والا افغان ،ازبک تا تاری ، درویش سفر کی گرد سے آلود اور پاؤں میں آبلے پڑے ، بلکہ خراسان کا غریب سے غریب لڑکا بھی یسوع کی تعلیم و اعمال کا حال خرید سکتا ہے ۔اب کوئی مسلمان الغزالی کے چند انجیلی اقتباسات پر حصر نہیں رکھتا فارس اور مشرق قریب کے لئے ایک نیاز نامہ شروع ہوا ہے ۔الغزالی کے ننانوے رسالوں کی نسبت نئے عہد نامے سے لوگ بہتر واقف ہیں اور ہم بلا مبالغہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ نئے عہد نامے کے پڑھنے والوں کا حلقہ بھی بہت وسیع ہے۔ مسلمان صوفی خدا کی سلطنت کے قریب ہیں اور ان کےلئے الغزالی آدمیوں کو مسیح تک پہنچانے میں استاد کاکام دے سکتا ہے ۔کیا گلشن راز کے منصف نے یہ نہیں لکھا ’’کیا تو جانتا ہے کہ مسیحیت کیا ہے ؟ میں تجھے بتاؤ ں گا۔ یہ تیری اپنی خودی کو دفن کر دیتا ہے اور تجھے خدا تک لے جاتا ہے۔ تو یروشلیم ہے جہاں خدائے ازلی ابدی تخت نشین ہے روح القدس یہ معجزہ کرتا ہے کیونکہ یہ جان لو کہ خدا کا وجود روح القدس میں بستا ہے ۔جیسا کہ اپنے ہی روح میں ‘‘خدا کے ایسے طالب آج کل ایسے لوگوں کو پائیں گے جو ان کو مسیح تک پہنچا دیں گے۔ کیونکہ جیسے ڈاکٹر جے۔ رینڈن ہیرس صاحب نے بیان کیا

’’ ہم میں سے جتنے مسیح کو پیار کرتے ہیں وہ یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ ایک ہم اس کوچے میں رہتے ہیں ۔اور اسی ٹیلیفون پر ہیں اور ہم ایک دوسرے کے دروازے کے پاس رہتے ہیں اور حد فاصل (دو چیزوں کو الگ کرنے والی حد)کو کھٹکا سکتے ہیں ہم گو معدودے چند(گنتی کے بہت تھوڑی تعدادمیں) ہیں ایک ہی چھت تلے ہیں اور ہم سب ایک ہاتھ کے فاصلے پر ہیں اور دل کی رسائی ہو سکتی ہے‘‘۔